خلافت صدیقی پر اجماع
علی محمد الصلابیخلافتِ صدیقی پر اجماع
اہلِ السنۃ والجماعۃ کے سلف و خلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد خلافت کے سب سے زیادہ حق دار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، یہ استحقاق آپؓ کی فضیلت و بزرگی اور نماز میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر آپؓ کو نبی کریمﷺ کے مقدم کرنے کی وجہ سے ملا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نماز میں آپؓ کو آگے بڑھانے سے رسول اللہﷺ کے مقصود و مراد کو سمجھا اور منصبِ خلافت و بیعت میں آپﷺ کو مقدم رکھنے پر اجماع فرمایا اور ان میں سے کوئی اس مؤقف سے پیچھے نہ ہٹا۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ضلالت پر جمع کرنے والا نہیں، لہٰذا لوگوں نے مطیع و فرمانبردار ہو کر آپؓ سے بیعت کی اور آپؓ کے اوامر کو قبول کر کے نافذ کیا، کسی نے اس کی مخالفت نہ کی۔
(عقیدۃ اہلِ السنۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 550)
چنانچہ جس وقت سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کب عمل میں آئی؟ فرمایا جس دن رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دن کا بعض حصہ بھی بغیر بیعت و جماعت کے رہنا پسند نہ کیا۔
(اباطیل یجب ان تمحی من التاریخ، ابراہیم شعوط: صفحہ، 101)
قابلِ اعتماد علماء کی ایک جماعت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بعد میں آنے والے اہلِ السنۃ و الجماعۃ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دوسروں کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ مستحق ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔
(عقیدۃ اہلِ السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 550)
اہلِ علم کے بعض اقوال یہ ہیں:
خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں مہاجرین و انصار نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع کیا اور وہ آپؓ کو رسول اللہﷺ کا خلیفہ کہہ کر پکارتے تھے، کہتے یا خلیفۃ رسول اللہﷺ آپﷺ کے بعد کسی کو یہ نام نہ دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے وقت تیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے، سب نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ رسول قرار دیا اور رسول اللہﷺ کے بعد آپؓ کو خلیفہ مان کر خوش رہے۔
(تاریخ بغداد: جلد، 10 صفحہ، 130/131)
امام ابو الحسن اشعریؒ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار اور اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں کی بڑی تعریف کی ہے اور قرآن نے بہت سے مقامات پر مہاجرین و انصار کی مدح کی ہے اور بیعتِ رضوان میں شرکت کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ
(سورۃ الفتح: آیت نمبر، 18)
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہو گیا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپﷺ سے بیعت کر رہے تھے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جن کی مدح سرائی کی ہے ان سب کا سیدنا ابوبکرؓ کی امارت پر اجماع ہے اور انہوں نے آپؓ کو رسول اللہﷺ کا خلیفہ قرار دیا اور آپﷺ سے بیعت کی۔ آپﷺ کے مطیع ہونے، آپﷺ کی فضیلت و بزرگی کا اعتراف کیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ علم، زہد، قوت رائے، سیاست وغیرہ دیگر خصائل و صفات میں جو استحقاق خلافت کے لیے ضروری ہیں، دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل و برتر تھے۔
(الإبانۃ عن اصول الدیانۃ: صفحہ، 66)
امام عبدالملک الجوینیؒ فرماتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع سے ثابت ہے۔ ان سب نے آپﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری پر اتفاق کیا اور روافض آپ کی بیعت سے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں جس شدید مخالفت اور بدخلقی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں یہ سب صریح جھوٹ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع میں موجود نہ تھے، کیونکہ آپؓ نے رسول اللہﷺ کے حزن و غم میں نڈھال ہو کر تنہائی اختیار کر لی تھی لیکن پھر سقیفہ بنی ساعدہ میں لوگوں نے جو قرار داد پاس کی اس کو اختیار کیا اور لوگوں کے مجمع عام میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔
(کتاب الارشاد: صفحہ، 362)
امام ابوبکر باقلانیؒ خلافتِ صدیقی پر اجماع کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت لازم تھی کیونکہ آپؓ کی اطاعت و امامت اور فرماں برداری پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا، حتیٰ کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا
اقیلونی فلست بخیرکم
ترجمہ: مجھے معزول کر دو میں تم میں بہتر نہیں ہوں‘ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نہ آپ کو معزول کر سکتے ہیں اور نہ آپ سے معزول ہونے کا مطالبہ کر سکتے ہیں، کیونکہ رسول اللہﷺ نے آپؓ کو ہمارے دین کے لیے آگے بڑھایا ہے تو ہم آپؓ کو اپنی دنیا کے لیے پسند کیوں نہ کریں۔ یہاں دین کے لیے آگے بڑھانے سے مقصود اپنی موجودگی میں نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھانا اور حج کی امارت میں اپنا نائب مقرر کرنا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ امت میں سب سے افضل، ایمان میں سب سے قوی، فہم میں سب سے کامل، علم میں سب سے زیادہ تھے۔
(الانصاف فیما یجب اعتقادہ ولایجوز الجہل بہ: صفحہ، 25 یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خلافتِ صدیقی سے متعلق جو آیات و احادیث اور اجماع کا ذکر میں نے کیا ہے وہ میں نے ڈاکٹر ناصر بن عائض حسن الشیخ کی معرکہ آراء کتاب عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابہ سے اختصار کیا ہے)