حرمت شراب کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی دعا
علی محمد الصلابیحرمت شراب کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی دعا
جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ
(سورة البقرۃ: آیت، 219)
ترجمہ: ’’لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔"
تو سیدنا عمرؓ نے یہ دعا فرمائی:
اَللّٰہُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِی الْخَمْرِ بَیَانًا شَافِیًا۔
ترجمہ: ’’اے اللہ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے اطمینان بخش حکم بیان فرما۔‘‘
تو سورة النساء کی یہ آیت نازل ہوئی تھی
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡـتُمۡ سُكَارٰى
(سورۃ النساء: آیت، 43)
ترجمہ: '’اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔"
چنانچہ جب نبیﷺ نماز کھڑی کرتے تو منادی اعلان کردیتا کہ کوئی بدمست نماز کے قریب نہ آئے، پھر سیدنا عمرؓ بلائے گئے اور آپ کے سامنے یہ آیت
فَهَلۡ اَنۡـتُمۡ مُّنۡتَهُوۡنَ ۞
(سورۃ المائدة: آیت، 91)
ترجمہ: (کیا تم اب بھی باز نہیں آؤ گے) تلاوت کی گئی، تو آپ نے کہا: ہم باز آ گئے، ہم باز آ گئے۔(الریاض النضرۃ: صفحہ، 332 اس کی سند ضعیف ہے، واقدی نے اس روایت کو بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔)
اس طرح بتدریج شراب کی حرمت ہو گئی۔اللہ تعالیٰ کے ارشاد:
فَهَلۡ اَنۡـتُمۡ مُّنۡتَهُوۡنَ۞ (سورة المائدہ: آیت، 91) میں استفہام انکاری سے سیدنا عمرؓ نے سمجھا تھا کہ اس سے حرمت مراد ہے، اس لیے کہ عمومی ممانعت کے مقابلہ میں استفہام انکاری کے ذریعہ سے کسی چیز کی ممانعت حرمت کے لیے زیادہ ٹھوس اور قوی ہے۔ پس پیشِ نظر آیت کے الفاظ، ان کی ترکیب اور اندازِ بیان میں دہشت آمیز دھمکی ہے جو حرمت کے باب میں سورج کی طرح واضح ہے۔
اسبابِ نزول پر آپ کی خصوصی توجہ
سیّدنا عمرؓ نے اپنے قبولِ اسلام اور وفاتِ نبویﷺ سے قبل پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا،اسلام لانے سے پہلی آیات کو چھوڑ کر بعد کے تمام اسباب نزول آپ کو حفظ تھے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ قرآن کے اسباب نزول کے بہت بڑے عالم تھے خاص طور سے اپنی اسلامی زندگی میں تو یہ مبالغہ کی بات نہ ہوگی۔ دراصل براہِ راست رسول اللہﷺ سے (قرآن) سیکھنے کے لیے بکثرت آپ کے ساتھ رہنا، اور فوت شدہ شرعی احکامات کو حفظ کرنا بھی اس کی اہم وجوہات میں سے ہیں، کیونکہ آپ آغاز نزول ہی میں اسباب نزول اور حفظ قرآن کا اہتمام کرتے تھے۔ مزید برآں حوادث واقع ہوتے رہتے جس سے یہ چیز اور بھی آسان ہوجاتی۔
(الفتاویٰ: جلد، 10 صفحہ، 28)
خود سیدنا عمرؓ کی وجہ سے کئی آیات نازل ہوئیں، ان میں سے بعض کے مکی اور بعض کے مدنی ہونے پر اتفاق ہے۔ بلکہ بعض آیات کی زبان و مکان نزول کی صحیح معرفت سیدنا عمرؓ ہی پر منحصر تھی۔ آپ نے آیت کریمہ:
اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَ تۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا۞
(سورة المائدۃ: آیت، 3)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا کے بارے میں فرمایا: اللہ کی قسم! بے شک میں اس دن کے بارے میں زیادہ جانتا ہوں جس میں آپﷺ پر اس کا نزول ہوا اور اس وقت کے بارے میں جانتا ہوں جس وقت اس کا نزول ہوا، وہ جمعہ کا دن اور عرفہ کی شام کا وقت تھا۔
(مسند احمد کی احادیث کی تخریج میں اس حدیث نمبر 378 کی احمد شاکر نے تصحیح کی ہے۔)
سیّدنا عمرؓ تنہا یا کسی دوسرے کے ساتھ بھی براہِ راست بعض آیات کے نزول کا سبب بنے، انہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے
اَجَعَلۡتُمۡ سِقَايَةَ الۡحَـآجِّ وَعِمَارَةَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ كَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَجَاهَدَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَا يَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ ۞اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ هَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ اَعۡظَمُ دَرَجَةً عِنۡدَ اللّٰهِ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ۞يُبَشِّرُهُمۡ رَبُّهُمۡ بِرَحۡمَةٍ مِّنۡهُ وَرِضۡوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّهُمۡ فِيۡهَا نَعِيۡمٌ مُّقِيۡمٌ ۞خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا اِنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ۞
(سورة التوبہ: آیت، 19 تا 22)
ترجمہ: ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا، اللہ کے ہاں درجے میں زیادہ بڑے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کا رب انھیں اپنی طرف سے بڑی رحمت اور عظیم رضامندی اور ایسے باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ بے شک اللہ ہی ہے جس کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔"
صحیح حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اسلام لانے کے بعد میں اگر صرف مسجد حرام کی تعمیر کروں اور کوئی عمل نہ کروں تو مجھے مزید کسی (عمل) کی ضرورت نہیں ہے، تو علی بن ابی طالبؓ نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ان تمام سے افضل ہے۔ (یہ سن کر) سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا: منبرِ رسول اللہﷺ کے پاس تم اپنی آوازیں بلند نہ کرو، جب نماز ختم ہو جائے گی تو میں آپﷺ سے اس کے بارے میں پوچھ لوں گا، چنانچہ انہوں نے آپﷺ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (مذکورہ) آیت نازل فرمائی۔ اور ان کے سامنے واضح کر دیا کہ مسجد حرام کی دیکھ بھال، حج، عمرہ، طواف اور حاجیوں کو پانی پلانے کے مقابلہ میں ایمان اور جہاد افضل ہیں۔ اسی لیے ابوہریرہؓ نے فرمایا: میں اللہ کے راستہ (جہاد) میں ایک رات رباط یعنی پہرہ دوں یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ شب قدر میں حجرِ اسود کے پاس قیام کروں۔
(عمر بن الخطاب: د/ علی الخطیب: صفحہ، 90، 91، 92)