Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حکومت وقت سے اختلاف نہ تھا تو ان تینوں حکومتوں کے دور میں کسی جنگ میں شریک کیوں نہ ہوئے جب کفار سے جنگ کرنا بہت بڑی عبادت و سعادت ہے اور اگر کثرت افواج کی وجہ سے ضرورت محسوس نہ ہوئی تو جنگ جمل و جنگ صفین میں بنفس نفیس کیوں ذوالفقار کو نیام سے نکال کر میدان میں اترے کیا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے زیادہ شجاع تھے؟ یا حکومت وقت کے ساتھ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تعلقات اچھے نہ تھے کہ سیف اللہ کا خطاب حضرت خالد بن ولیدؓ کو مل گیا نیز تعلقات اچھے ثابت کرتے ہوئے تاریخ طبری سے جو دو مکالمے مولانا شبلیؒ نے کتاب الفاروق صفحہ 285 پر نقل کیے ہیں پیش نظر رہیں انصاف سے یہ دونوں مکالمے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے مابین ہیں پڑھ کر فیصلہ صادر فرمائیں۔

  مولانا مہرمحمد میانوالی

الجواب: یہ سوال بناتے وقت شیعہ معترض اپنی عقل کو بھی کھو بیٹھا ہے کہ متواتر حقائق کا انکار کر رہا ہے خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ سیدنا علیؓ کے بہتر تعلقات تاریخی حقیقت ہیں شیعہ اگر منکر ہیں تو تاریخی طور پر ان کو وہ واقعات بتانے چاہیں جن میں صراحتاً سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خلفاء پر تنقید کی ہو یا ان سے الگ تھلگ رہے ہوں جب ایسا ثبوت نا ممکن ہو تو پھر شیعہ کا حسنِ تعلقات کا مطالبہ ہم سےایسا ہی ہے جیسے کوئی اندھا دوپہر میں سورج کے وجود پر دلیل مانگے ظاہر ہے کہ جب اندھا دیکھ ہی نہیں سکتا ہم اسے سورج کا وجود کیسے باور کرائیں گے بعینہٖ خلافتِ راشدہ کی پوری تاریخ کے مطالعہ میں جب شیعہ کو اچھے تعلقات نظر نہیں آتے تو کیا ہمارے دو چار واقعات لکھ دینے سے وہ مان لیں گے۔

سیدنا علی المرتضىٰؓ نصِ قرآنی:

وَاَمۡرُهُمۡ شُوۡرٰى بَيۡنَهُمۡ الخ۔  (سورۃ الشوریٰ: آیت، 38)

ترجمہ: ان مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے سے ہوتے ہیں کے تحت ان کی شوریٰ کے مشیر اور ممبر تھے عدلیہ کے معتبر قاضی تھے ان کی غیر موجودگی میں نیابت و وزارت کے فرائض سر انجام دیتے تھے خلفاء کی کسی پالیسی اور امر و نہی سے اختلاف نہ کرتے بہت سے مسائل میں مفید مشورے دیتے جو عموماً قبول کر لیے جاتے خلفاء سے عطایا اور تنخواہیں وصول کرتے بلکہ ذریعہ معاش ہی تھا سیدنا حسینؓ کے لیے ایرانی باندی شہربانو قبول کر کے سب سادات کی ماں بنا دیا سیدنا علیؓ نے اپنی لختِ جگر ان کو بیاہ کر دے دی اگر نبیﷺ دختر بعثمانؓ داد ولیؓ دختر بعمرؓ۔ 

(فرستادر مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 204) 

ان امور کی تفصیل اسی کتاب الفاروق سے واضح ہو جس سے طاعن نے یہ سوال اختراع کیا ہے۔

 1: حضرت علیؓ مجلسِ شوریٰ کے ممبر تھے علامہ شبلیؒ لکھتے ہیں مجلسِ شوریٰ کے تمام ارکان کے نام اگرچہ ہم نہیں بتا سکتے تاہم اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ حضرت معاذ بن جبلؓ حضرت ابی بن کعبؓ حضرت زید بن ثابتؓ اس میں شامل تھے۔ 

(کنز العمال: جلد، 3 صفحہ، 134 بحوالہ طبقات ابنِ سعد الفاروق: صفحہ، 283)

2: آپ قاضی و مفتی بھی تھے مدینہ منورہ میں عہدِ خلافتِ راشدہ میں کتنے فیصلے دیئے سیدنا عمرؓ نے نامور مفتیوں میں آپ کا شمار کر کے فتویٰ پر مامور کیا شبلیؒ نے مفتیوں کی فہرست یہ دی ہے سیدنا علیؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا معاذ بن جبلؓ، سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ، سیدنا ابی بن کعبؓ، سیدنا زید بن ثابتؓ، سیدنا ابوہریرہؓ، سیدنا ابو الدرداءؓ۔

(الفاروق: صفحہ، 343 ازالة الخفاء: صفحہ، 130)

3: غیر موجودگی میں نائب خلیفہ بھی تھے حضرت عمرؓ نے سیدنا علیؓ کی رائے پر فتحِ بیت المقدس کا سفر خود کیا سیدنا علیؓ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کر گئے۔ (فتوح البلدان: صفحہ، 140)

 علامہ شبلیؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اپنے بعد خلاف کی نامزد کمیٹی کے جملہ بزرگوں میں وہ سیدنا علیؓ کو سب سے بہتر جانتے تھے لیکن بعض اسباب سے ان کی نسبت بھی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ (الفاروق: صفحہ، 265)

4: شیخین رضی اللہ عنہما کا اتباع:

خلفاء کے کسی امر و نہی سے اختلاف نہ رکھتے تھے حتیٰ کہ اپنے خلافت میں بھی تمام قضاة کو حکم دیا کہ جیسے پہلے دستور کے مطابق تم فیصلے کرتے تھے اسی طرح اب بھی کرو کیونکہ میں اختلاف ناپسند کرتا ہوں کیونکہ سب لوگ ایک جماعت ہو جائیں یا میں وفات پا جاؤں جیسے مجھ سے پہلے میرے ساتھی خلفاء وفات پاگئے۔ (بخاری: جلد، 1 صفحہ، 526) 

یہی کچھ شیعہ کے شہیدِ ثالث شوستری نے مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 54 پر حضرتِ امیرِ معاویہؓ سے نقل کیا ہے۔

5: سیدنا علیؓ کی شیخین سے موافقت اور ان کے ہر کام کے اسلامی ہونے پر تصدیق ایک تاریخی حقیقت ہے جنگ نہروان کے موقعہ پر ربیعہ بن شداد نے سیدنا علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے کتاب اللہ و سنتِ رسولﷺ کے بعد سنتِ سیدنا ابی بکرؓ و سیدنا عمرؓ کا نام لیا تو آپؓ نے فرمایا بے وقوف اگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺ کے برخلاف عمل کیا ہوتا تو کسی بات میں حق پر نہ ہوتے۔(طبری: جلد، 5 صفحہ، 76) 

یعنی ان کی سنتِ طیبہ بعینہٖ سنتِ نبوی کے مطابق اور اس میں مدغم ہے علیحدہ تصریح کی حاجت نہیں اس سے معلوم ہوا کہ انتخابِ سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے موقعہ پر طبری کی روایت سے شیعہ جو دھوکہ دیتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے شیخینؓ کی سیرت کو قرآن و سنت کے ساتھ الگ ذکر کرنا پسند نہیں کیا تو اس کی یہی وجہ ہے کہ سیرتِ شیخینؓ قرآن و سنت سے الگ نہیں اسی کی عملی تفسیر ہے لہٰذا علیحدہ ذکر سے اس کی علیحدگی کا گمان ہوتا جو حقیقت کے خلاف ہوگا ورنہ وہ مغایرت کے ہرگز قائل نہ تھے یہی وجہ ہے کہ شیرِ خدا کے پروردہ و مزاج شناس سیدنا حسن المجتبیٰؓ بھی شیخینؓ کی سیرت کو برحق اور مخالفت کو ناجائز کہتے تھے جب آپؓ نے خلافت حضرت امیرِ معاویہؓ کے سپرد کی تو یہ شرط لگائی۔ 

متعرض اونہ گرد بشرط آنکہ او عمل کند درمیان مردم بکتاب خدا و سنتِ رسول خدا و سیرتِ خلفاءِ شائستہ۔ (جلاء العیون: صفحہ، 254)

کہ حضرت حسنؓ حضرت امیرِ معاویہؓ کی مخالفت نہ کریں گے بشرطیکہ وہ کتاب اللہ و سنتِ رسولﷺ اور سنتِ خلفاء نیکوکار راشدینؓ کے طریقے پر لوگوں میں عدل و حکومت کریں۔ 

 زہد و تقویٰ اور نظریہ میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کی تصویر حضرت ابوذر غفاریؓ بھی سیرتِ شیخینؓ کو واجب العمل جانتے تھے ایک مرتبہ حضرت عثمانؓ سے فرمایا: 

ابوذرؓ گفت تو برسیرت و سنت حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ روتا فارغ باشی و کسے برتو انکار نکندو ورآنچہ گوئی وکنی انگشت نکند۔

(مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 220)

ترجمہ: حضرت ابوذرؓ نے فرمایا اے حضرت عثمانؓ آپ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کی سیرت پر چلتے رہیں تاکہ مطمئن ہوں کوئی آپؓ پر اعتراض نہ کرے اور آپؓ جو کچھ کہیں اور کریں اس پر انگلی نہ رکھے۔ 

معلوم ہوا کہ سیرتِ شیخینؓ ہر قسم کے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی مقبول و مسلم تھی حضرت عثمانؓ سے کسی صحابی کو اگر پالیسی میں اختلاف ہوا تو اپنی دانست میں سیرتِ شیخینؓ کے خلاف جانا کیا شیخینؓ کی صداقت اور ان سے حضرت علیؓ حضرت حسنؓ حضرت ابوذر غفاریؓ کے حسنِ تعلقات میں اب بھی شبہ ہے۔ 

6: خلفاء سے عطیات و وظائف پانا:

جب اصحابِ بدر کے وظائف مقرر ہوئے تو حضرت علیؓ کا بھی ان کے برابر 5000 درہم مقرر ہوا حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ گو بدری نہ تھے مگر قرابتِ نبویﷺ کی وجہ سے ان کا بھی پانچ پانچ ہزار عطیہ مقرر کیا۔

(الفاروق: صفحہ، 600 بحوالہ كتاب الخراج: صفحہ، 24، 25)  

یہیں سے سیدنا عمرؓ کی اہلِ بیتِ نبویﷺ سے مودت و محبت کا اندازہ عقلِ سلیم لگا سکتی ہے۔

7: حضرت حسینؓ کے لیے یزدجرد شاہِ ایران کی بیٹی شہربانوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اجازت پر قیدیوں میں سے قبول کیا۔ (ملاحظہ ہو جلاء العیون: صفحہ، 495)

اب اگر حضرت عمرؓ خلیفہ برحق نہ تھے اور ان کی جنگیں شرعی جہاد نہ تھیں اس لیے حضرت علیؓ نے کسی جنگ میں شرکت نہ کی جیسے روافض کا خام خیال اس سوال میں بھی مذکور ہے تو پھر ان فتوحات کے غنائم اور قیدی سب ناجائز ہاتھ آئے حضرت علیؓ اور ان کی اولاد کو یہ وظائف اور باندی ہرگز جائز نہ تھی کیا یہ حضرت عمرؓ بھر (معاذ اللہ) حرام کھاتے رہے اور سادات کا نسب بھی مخدوش ہو گیا؟ 

8: حضرت علیؓ کے سیدنا عمرؓ کے ساتھ حسنِ تعلقات کی حد یہ ہے کہ اپنی لختِ جگر حضرت امِ کلثومؓ بنتِ حضرت فاطمہؓ بھی نکاح کر کے دے دی مجالس المؤمنین کا ایک حوالہ گزر چکا ہے صفحہ، 184 اور صفحہ، 188 میں بھی باقاعدہ ذکر کیا ہے۔

مزید تصریح فروعِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 141 باب تزویج سیدہ امِ کلثومؓ، تہذیب الاحکام: صفحہ، 380 اور فروعِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 310 پر ملاحظہ کریں۔ 

اس برضا و رغبت نکاح کو شیعہ معاذ اللہ اغواء غصب فرج، جبر اور اکراہ سے تعبیر کر کے حضرت علیؓ کی غیرت کا جنازہ نکال دیں تو یہ انہی کا ایمان یا جگر گردہ ہے ایک مسلمان اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ 

صرف عملی تعلقات ہی بہتر نہ تھے بلکہ اعتقادی اور لسانی طور پر آپ ان خلفاء کی تعریف میں رطب اللسان رہتے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور مدح حضرات شیخین رضی اللہ عنہما:

 نہج البلاغہ میں آپ کا یہ مشہور خطبہ ہے:

لله بلاد فلان فقد قوم الأود ودادی العمد وأقام السنة وخلف الفتنة ذهب نقى الثوب قليل العيب اصاب خيرها وسبق شرها ادى الى الله طاعته واتقاہ بحقه رحل وتركهم فی طرق متشعبہ لا يهتدى فيها الضال ولا يستيقن المهتدى۔

(نہج البلاغہ مع شرح فيض الاسلام: جلد، 2 صفحہ، 731)

ترجمہ: بخدا فلاں آدمی حضرت عمرؓ یا حضرت ابوبکرؓ کتنی خوبیوں کا مالک تھا کجی کر سیدھا کیا خرابی کی اصلاح کی سنت کو لوگوں میں قائم کیا اور فتنہ کو بھگا دیا دنیا سے پاکدامن رخصت ہوا کم عیب والا تھا خلافت کی بھلائی پائی اور اس کی برائی سے بچ نکلا اللہ کی اطاعت پوری کی اور کما حقہ اس سے ڈرتا رہا دنیا سے جب رخصت ہوا تو ان کو تاریکی کے مختلف راستوں میں چھوڑ گیا جن میں نہ گمراہ ہدایت پاتا ہے نہ ہدایت یافتہ کو راستے کا یقین ہوتا ہے گویا آفتاب تھا غروب ہوتے ہی دنیا تاریکی میں ڈوب گئی۔ 

شارح نقی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمرؓ کی مدح ہے۔

امر خلافت منظم بوده اختلالی درال راه نیافت طاعت خدارا بجا آورده از نافرمانی او پرہیز کرده نقش را ادا نمود۔

ترجمہ: اس کی خلافت بالکل صحیح درست تھی کوئی خرابی اس میں داخل نہ ہو سکی خدا کی اطاعت بجا لایا اور نافرمانی سے پرہیز کیا اور خدا کا حق (پورا) ادا کیا۔

قدیم شارحین یہ خطبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے متعلق فرماتے ہیں اور متاخرین حضرت عمرؓ کے متعلق کوئی بھی مراد ہو خلافتِ راشدہ کی تصدیق ہو گئی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کو دین کا قائم کرنے والا، راست رو اور دین کو مضبوط کرنے والا بتایا۔ (نہج البلاغہ: صفحہ، 263) 

نیز شیخینؓ کے متعلق یہاں تک فرمایا:

ولعمری ان مكانهما فی الاسلام لعظيم وان المصاب بهما الجرح فی الاسلام شديد يرحمهما الله وجزا هما باحسن ما عملا۔

(شرح نہج البلاغہ: صفحہ، 31 مع شرح ابنِ میثم) 

مجھے اپنی جان کی قسم ان دونوں کا مرتبہ اسلام میں بہت بڑا ہے اور ان کی وفات کا صدمہ اسلام میں بہت سخت زخم ہے اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان کو بہترین کاموں پر جزائے خیر دے 

قسم اٹھا کر اپنے عقائد اور حقائق بیان کیے جاتے ہیں الزامی باتیں یا مسلمات خصم یوں بیان نہیں کی جاتیں نیز ایک اور طویل خطبہ میں حضرت عمرؓ کو آپؓ نے مسلمانوں کا مرجع جائے پناہ اور مشابہ المسلمین فرمایا۔(نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 24)

نیز آپ کی خلافت کو موعودہ خداوندی آپ کے لشکر کو خدائی لشکر آپ کی فتوحات کو اللہ کے دین کا غلبہ آپ کو قیم الامر خلیفہ اور ہار کے دانوں کے لیے بمنزلہ دھاگہ اور قطبِ زمان وغیره فرمایا۔ (نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 39)

ان تمام خطبات و الفاظ میں حضراتِ شیخینؓ کی خلافت اور صداقت کی پوری پوری بلاشبہ تصدیق ہے اب شیعہ کے لیے دو ہی راستے ہیں یا تو ان تمام تعلقات اور ارشادات کو مبنی بر صدق جان کر حضراتِ شیخینؓ کو برحق تسلیم کرلیں یا پھر ان کو (العیاذ باللہ) محض ضد کی وجہ سے ظالم وغیرہ ماننے کی صورت میں یہ اعلان کریں کہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کا یہ رویہ منافقانہ تھا اور آپ اس آیت کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ 

وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ۞(سورة ہود: آیت، 113)

ترجمہ: اور ظالموں کی طرف مائل نہ ہو ورنہ تم کو آگ پکڑے گی۔

جنگ میں شرکت نہ کرنے کا شبہ:

رہا یہ شبہ کہ عہدِ راشدہ کے جنگ و جہاد میں شریک کیوں نہ ہوئے تو یہ مثبت اختلاف نہیں جب آپ وزارتِ افتاء مشاورت جیسے اہم عہدوں کی ذمہ داری لے کر خلافتِ راشدہ کی خدمت کر رہے تھے تو عام سپاہی کی حیثیت سے تلوار لے کر لڑنا کون سی فضیلت کی بات ہے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہم مصروفیات کی وجہ سے خود کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے تو حقانیتِ خلافتِ راشدہ پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خلافتِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ میں فتح افریقہ میں شریک ہو کر باقاعدہ جہاد کیا اور حصہ غنیمت پایا اسی طرح حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح قسطنطنیہ میں یہ دو حضرات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہم کے ہمراہ شریک ہوئے۔

(طبری البدایہ: جلد، 8 صفحہ، 32 وغیرہ) 

شیعہ کے معتمد بزرگ سیدنا حسن بصریؒ عہدِ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں شریک جہاد ہوتے تھے۔ 

(ملاحظہ ہو جلاء العیون: صفحہ، 270) 

اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ جیسے زاہد و متقی اور مؤمن عندالشیعہ شخصیت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں مدائن کی گورنر رہے۔ ملا باقر علی مجلسی حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 651 پر لکھتے ہیں:

زیرا که عمرؓ اور اوالی مدائن گردانید تا ابتداۓ خلافت امیر المؤمنین والی بود

 کیونکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کو مدائن کا حاکم بنا دیا تھا آپ حضرت امیر المؤمنین کی خلافت تک والی رہے۔ 

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے رفیقِ خاص سیدنا عمار بن یاسرؓ کو ان کی درخواست پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کوفہ کا حاکم بنایا تھا مگر کوفہ کے لوگ آپ کے قابو میں نہ آئے تو معزول ہوکر واپس آگئے۔ (کتب تاریخ) 

جمل و صفین کی جنگیں جہاد نہ تھیں بلکہ بلوایانِ سیدنا عثمانِ غنیؓ کی سازش سے آپ کو لڑنا پڑا جس کی تفصیل اپنے موقع پر آئے گی ہم یہاں مولانا محمد صدیق صاحب کا کشف الاسرار سے اسی بات کے جواب کا اقتباس نقل کرتے ہیں۔

 لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ذوالفقار کے نیام سے نکلنے کے باوجود ان میں سے کوئی چیز وقوع پذیر نہ ہوئی داخلی محاذ پر اگرچہ باہمی جنگیں ہوتی ہیں لیکن حضرت علیؓ کے حامیوں کی تعداد کم اور حضرت امیرِ معاویہؓ کے حامیوں کی تعداد بڑھتی رہی سیدنا علیؓ کے زیرِ اقتدار رقبہ کم ہوتا رہا اور حضرت امیرِ معاویہؓ کے مقبوضات میں اضافہ ہوتا رہا اس پورے چھ سالہ دور میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں ایک انچ رقبہ بھی کفار کے ہاتھوں سے نکل کر اسلامی مملکت میں شامل نہیں ہوا اور وہ مسلمان جو قیصر و کسریٰ کے تخت روند رہے تھے ایک بار پھر قیصر کی دھمکیوں کا نشانہ بن گئے مذہبی طور پر مسلمانوں میں جس قدر انتشار اس دور میں ہوا اس سے قبل موجود نہ تھا پہلے مسلمانوں کی جمعیت اور کلمہ واحد تھا ایک ہی فرقہ تھا جسے مسلمان کہتے ہیں لیکن اب شیعہ کا وجود منظرِ عام پر آیا خوارج معرضِ وجود میں آئے سیدنا علیؓ کی الوہیت کے قائلین دکھائی دیئے حضرت علیؓ کو نعوذ باللہ کافر قرار دینے والے ببانگ دہل اپنے عقائد و افکار کا پرچار کرنے لگے۔ آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ ذوالفقار کا نیام کے اندر رکھنا امتِ مسلمہ کے لیے بہتر تھا جیسا کہ خلفاء ثلاثہؓ کے دور میں ہوا یا اس کا نیام سے باہر نکلنا جب کہ ہم حضرت علیؓ کی وفات کے بعد دیکھتے ہیں کہ حضرت حسنؓ نے ذوالفقار نیام میں ڈالی تو سیدنا امیرِ معاویہؓ کی قیادت میں مسلمان ایک بار پھر متحد ہو کر کفار کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے جہاد کا آغاز کیا نئے علاقے فتح ہونے لگے مسلمان علمی تہذیبی اور ثقافتی طور پر پھر عروج کی طرف گامزن ہو گئے اور اس پورے دور 20 سال میں کہیں کوئی شورش یا فتنہ نظر نہیں آتا بلکہ 41ھ کو مسلمانوں نے عام الجماعہ کا نام دیا۔

مزید غور کیجیئے کہ سیدنا حسینؓ نے جب ذوالفقار کو ایک بار پھر نیام سے نکالا تو عالمِ اسلام کو دوبارہ خونی حوادث سے دو چار ہونا پڑا کربلا کا سانحہ پیش آیا مدینہ میں قتل و غارت ہوئی اور جب سیدنا زین العابدینؒ نے ذوالفقار کو نیام میں ڈال دیا تو عبد الملک بن مروان، ولید بن عبدالملک وغیرہ خلفاء کی زیرِ قیادت مسلمان پھر متحد ہو کہ کفار پر عذاب لے آئے ان حقائق کی روشنی میں شیعہ حضرات سے ہی ہم فیصلہ چاہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا ذوالفقار کو میان سے باہر نکالنا بہتر تھا یا اسے میان کے اندر رکھنا بہتر تھا۔ (کشف الاسرار: صفحہ، 86، 85)

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سیف اللہ کا لقب خلفاء نے نہیں خود حضورﷺ نے عطا فرمایا تھا۔ (بخاری: جلد، 1 صفحہ، 531، جلد، 2 صفحہ، 611) جب کہ آپ نے غزوہِ مؤتہ میں کمان سنبھال کر 8 تلواریں توڑیں اور تین ہزار کے معمولی لشکر کو ایک لاکھ مسلح رومیوں سے مقابلہ کرا کر اور حکمتِ عملی سے بخیر و عافیت واپس لے کر آئے۔

حضرت خالدؓ گو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے شجاع نہ ہوں مگر کفار ان کے ہاتھ سے زیادہ قتل ہوئے عہدِ صدیقی میں مرتدین مسیلمہ کے پیروکار اور فتوحاتِ شام کے معرکوں میں حضرت خالدؓ کا بہت بڑا نمایاں حصہ ہے۔ (ملاحظہ ہو ابنِ سعد: جلد، 2 صفحہ، 130) 

شیعہ دوستو! یہی تو ہماری دلیل ہے کہ مدارِ فضیلت اخلاص کے ساتھ جہاد میں شرکت اور ثابت قدمی ہے بالفعل تکثیر قتل تو اتفاقی بخت ہے افضلیت کی دلیل نہیں ورنہ خود اشجع الناس آنحضرتﷺ کے اور حضرت سلمانؓ حضرت ابوذرؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ عند الشیعہ مسلمان کے مقتولین کی تعداد بتائی جائے جیسے حضرت خالدؓ کثرت قتل کے باوجود ان بزرگوں سے افضل نہیں اسی طرح سیدنا علیؓ یہ جنگ میں شیرِ خدا ہونے کے باوجود حضراتِ خلفاء ثلاثہؓ سے افضل نہیں فافہم۔

طبری کے مکالموں کی حقیقت:

رہے بحوالہ الفاروق طبری کے دو مکالمے تو وہ اس لائق نہیں کہ ان پر بنیاد رکھ کر حضراتِ اہلِ بیتؓ اور خلفائے اسلام پر اقتدارِ طلبی اور حسد کا الزام مکروہ لگایا جائے۔

 اولاً: اس لیے کہ ان کی سند مجاہیل سے ہے پہلے مکالمہ کی سندیں عمر، علی، ابوالولید مکی، ولد طلحہٰ کا ایک آدمی از ابنِ عباس ہے۔ (طبری: جلد، 4 صفحہ، 222)

ان چاروں رواۃ کے تراجم کتب رجال تقریب، تہذیب، میزان الاعتدال میں نہیں ملے جیسے عمر اور علی کا ولدیت و نسبت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی پتہ نہیں لگتا اسی طرح اولادِ طلحہٰ کا ایک آدمی "ایں ہمہ خانہ مجاہیل است" کا مصداق ہے۔

دوسرے مکالمہ کی سند میں ابنِ حمید، سلمہ، محمد بن اسحاق، ایک آدمی از عکرمہ از ابنِ عباس ہیں۔(طبری: جلد، 4 صفحہ، 223) 

ایک آدمی از عکرمہ بالکل مجہول ہے محمد بن اسحاق صاحب المغازی پر کڑی جرح موجود ہے لیکن اس کا راوی سلمہ بن الفضل الابرش تو شیعہ مذہب رکھتا تھا، امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی احادیث میں کچھ مناکیر ہیں نسائی رحمہ اللہ ضعیف کہتے ہیں ابو حاتم رحمہ اللہ اسے نا قابلِ احتجاج کہتے ہیں ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے شہر کے باشندے اس کی بدعقیدگی اور ظلم کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے ہیں صرف ابنِ معین کہتے ہیں ہم نے اس کی باتیں لکھی ہیں مغازی میں اس کی کتاب خوب جامع ہے۔

(میزان الاعتدال: جلد، 2 صفحہ، 192) ابنِ محمد کا ترجمہ ملا ہی نہیں بھلا ایسی لچر سند والی روایتوں سے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن کرنا شیعہ ہی کو زیب دیتا ہے۔ 

ثانیاً: شیعہ کو یہ مکالمے چنداں مفید بھی نہیں کیونکہ جب ان مکالموں کی رو سے سیدنا علیؓ کی طرفدار ان کی قوم بنو ہاشم بھی نہیں ہوئی اور ان کو نبوت و خلافت کا ایک خاندان میں جمع ہونا گوارا نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات حربِ تقیہ رکھنے کے باوجود ایک ہاشمی کی بھی اپنی کتب سے نشاندہی نہیں کر سکتے جس نے بقولِ شیعہ سیدنا علیؓ کے حقِ خلافت کی تائید کی ہو حوالہ جات سوال 2 کے جواب میں گزر چکے ہیں پھر آپ کیسے دعویٰ خلافت کر کے لوگوں کی نظروں میں مطعون ہوتے اور خلفاء سے کشیدہ و بیزار رہتے کیا۔

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ تُؤۡتِى الۡمُلۡكَ مَنۡ تَشَآءُ الخ۔(سورۃ آلِ عمران: آیت، 26)

ترجمہ: کہیے اے اللہ تو ہی بادشاہی کا مالک ہے جسے چاہتا ہے بادشاہی دیتا ہے کی شان اور وعدے خداوندی

لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ الخ۔ (سورۃ النور: آیت، 55)

ترجمہ: الله ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یقیناً زمین میں خلیفہ بنائے گا وغیرہ جیسی آیات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و سیدنا ابنِ عباسؓ کے پیشِ نظر نہ تھیں جب اللہ نے حسبِ وعدہ ایک حق حق دار کو پہنچا دیا اور آیتِ استخلاف کو سیدنا عمر فاروقؓ کی خلافت پر سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ہی منطبق کیا۔

(شرح نہج البلاغہ فیض الاسلام نقی: جلد، 1 صفحہ، 432) 

تو اس حقیقت کے باوجود تمنائے خلافت یا خلفاء پر حسد کیسا؟ افسوس کہ شیعہ حضرات اپنا باطل نظریہ ثابت کرنے کے لیے ان بزرگوں پر حسد اور طلبِ جاہ کا الزام لگا دیتے ہیں۔

مکالمہ میں حضرت ابنِ عباسؓ کی زبانی بنی ہاشم کا مثل آدم محسود ہونا بتایا گیا ہے حالانکہ یہ حقیقت کے بر خلاف ہے حسد ہمیشہ کم خوبیوں والا اعلیٰ خوبیوں والے پر کرتا ہے بنو ہاشم میں سے نبوت تو صرف سرورِ کائناتﷺ کا خاصہ تھی قرابتِ نبویﷺ گو ظاہری فضیلت اور ضرور قابلِ احترام ہے لیکن قرآنی تعلیم کے مطابق افضلیت کا معیار قرابتِ پیغمبر کے بجائے، ایمان تقویٰ اور اعمالِ صالحہ میں سبقت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سوائے حضرت علیؓ کے صغر سنی میں اور حضرت ابو عبیدہ بن الحارثؓ، حضرت جعفر طیارؓ پھر حضرت حمزہؓ کے کسی ہاشمی نے سبقت الی الاسلام والہجرت نہیں کی غیر بنو باشم سابقون میں ہیں تو نبوت سے فیض یافتہ ہونے میں غیر ہاشمی یا بنو ہاشم کے ساتھ شریک ہیں یا ان سے افضل ہیں پھر شیعہ کے اعتقاد کے مطابق عام مسلمانوں کے دلوں میں بنو ہاشم کا وقار و اکرام ہی نہ تھا کہ سب ہی حضرت علیؓ کو چھوڑ کر خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر متفق ہوگئے پھر کس بات میں ان حضرات پر کوئی حسد کرتا بالفرض اگر کوئی محسود تھا اور آج تک ہے تو وہ خلفائے راشدینؓ ہی ہیں کہ سب امت کے دلوں میں بس کر نیابتِ پیغمبر کا حق ادا کیا خدا نے فتوحات کے دروازے ان پر کھول دیئے قیصر و کسریٰ کے تاج ان کے قدموں تلے روندے گئے نصف سطح ارضی پر توحیدِ خداوندی اور رسالتِ محمدیﷺ کے پرچم لہرائے اور آج بھی 90 کروڑ مسلمان خطبات و دعاؤں میں ان کو ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں روافض کی طرح اپنے ان بزرگوں کے نام پر گدا گری کر کے کشکولِ خیرات نہیں بھرتے۔ 

(رضی اللہ عن جميع الصحابہؓ)