Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تحقیق حلال و حرام در جواب متعہ اور اسلام پس منظر

  مولانا اللہ یار خانؒ

الحمد لله رب العٰلمين والصلوٰة والسلام علىٰ رسوله محمد والهٖ واصحابه اجمعين اما بعد۔

علی نقی شیعہ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام متعہ اور اسلام رکھا ہے اور اس کتاب میں شیعہ علی نقی نے متعہ کی اباحت اور جواز کو ثابت کرنے کی پوری کوشش کر کے امتِ محمدیہﷺ پر احسان کرنا چاہا کیوں نہ ہو جس متعہ کا قرآن ذکر تک نہیں کرتا اور رسولِ اکرمﷺ ان الله قد حرم الى يوم القيامة (تحقیق خدا تعالیٰ نے متعہ کو قیامت تک حرام کر دیا ہے) فرما کر حرام قرار دیں اپنی امت تک کے لئے اور پھر اسی فرمانِ نبویﷺ پر امت کا اجماع بھی ہو جائے کہ متعہ حرام ہے اور حضور انورﷺ کے بعد آپ کے پیچھے جانشینوں یعنی خلفائے راشدینؓ نے بھی متعہ کو حرام فرمایا کسی خلیفۂ رسول نے متعہ کی اباحت زبان سے نہیں نکالی اور اسی حرمت پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا اتفاق تھا۔

جس کو اس حرمت کی اطلاع نہیں ہوتی اس نے کچھ دن اختلاف کیا مگر جب اطلاع ہوتی گئی فوری اس اختلاف کو ترک کر کے متفق ہو گیا۔ اور پھر آج چودھویں صدی میں ایک آدمی اُٹھ کر ایک ایسے مسئلے کی اباحت کو ثابت کرتا ہے جس کی حرمت پر پوری امت کا اتفاق تھا تو کیا وہ قابلِ تحسین نہیں ہے؟

شیعہ علی نقی کو داد ملنی چاہیے کہ آئندہ بھی ایسے مسائل جن کی حرمت پر پوری امت کا اتفاق ہو ان کو جائز اور مباح ثابت کر کے اُمت کے سامنے پیش کر کے ثوابِ دارین حاصل کریں اور شارع علیہ السلام کی روح پر فتوح کو بھی فرحت حاصل ہو۔

علی نقی شیعہ! اس دور میں واقعی علی نقی جیسے محقق مجتہد کی ضرورت تھی جو متعہ جیسے قبیح فعل کو حسین ثابت کرتا۔ یہ کمی علی نقی کے قلم سے پوری ہو گئی ہے۔

یہ عجیب کتاب میرے دوست حضرت مولانا پیر احمد شاہ بخاریؒ کے ہاتھ آئی اُن کی نظر اس پر پڑی تو میری طرف لکھا کہ متعہ اور اسلام کا مطالعہ آپ کے لیے ازحد ضروری ہے پھر جناب نے بندہ کے پتہ پر چکڑالہ ایک نسخہ بھیج دیا۔ ناچیز نے اس کے چند صفحات دیکھے تو سوائے موضوع اور ضعیف اور ان روایات کے جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے قبل از رجوع مروی ہیں کچھ ہی نہ پایا تو اس کے جواب کا خیال ترک کر دیا تھا۔ گو علی نقی اپنے مذہب کے محقق و مجتہد ہیں مگر ہم ایسے شخص کو ابو زید سروجی کا ہم پلہ سمجھ کر لائقِ گفتگو ہرگز نہیں سمجھتے اگر بخاری صاحب موصوف کا اصرار نہ ہوتا تو ہم اس راہ میں قدم نہ رکھتے۔