صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف سے روکنے سے متعلق آیات کا فہم
علی محمد الصلابیصحابہ کرامؓ کا اختلاف سے روکنے سے متعلق آیات کا فہم
ارشاد الٰہی ہے:
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (153)
(الانعام: 153)
’’اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔‘‘
صراط مستقیم سے مراد قرآن و اسلام اور وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے، اور سُبُل(دوسری راہوں) سے مقصود بدعات و محدثات اور باطل فرقے ہیں، مجاہدؒ کہتے ہیں:
وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ یعنی بدعات و شبہات اور ضلالتوں کی پیروی نہ کرو[تفسیر مجاہد صفحہ (227)]
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اختلاف و افتراق سے منع فرمایا، جس کا شکار گزشتہ امتیں کتابوں کے نزول و ہدایات کے آجانے کے بعد ہوئیں۔ ارشاد الٰہی ہے:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (10:5: آل عمران)
’’تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا، انہی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کی روش اختیار کرنے سے منع فرمایا جو اپنے دین میں افتراق کا شکار ہوئے، اور ٹولیوں اور فرقوں میں بٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (30) مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31)
مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (32)
(الروم: 30۔32)
’’پس یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں، اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (لوگو) اللہ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گئے، ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے خبردار کر دیا ہے کہ رسول اللہﷺ ان لوگوں سے بری ہیں جنھوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے، اور فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔
[دراسات فی الاہواء والفرق والبدع؍ ناصر العقل صفحہ (49)]
ارشاد الٰہی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (159:الانعام)
’’بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے۔‘‘
صحابہ کرامؓ کے یہاں ان آیات کے فہم و بصیرت کی گہرائی عہد عثمانی میں جمع قرآن کے واقعہ سے عیاں ہے۔ چنانچہ یہ ان آیات کے فہم کی گہرائی ہی تھی کہ جب حذیفہؓ نے قرأت قرآن کے اندر اختلاف سنا تو ان پر لرزہ طاری ہو گیا، اور فوراً مدینہ روانہ ہو گئے، اور خلیفہ راشد عثمان بن عفانؓ کو جو کچھ سنا اور دیکھا تھا اس کی اطلاع دی۔ عثمانؓ نے فوراً لوگوں کو خطاب فرمایا، اور اس اختلاف کی سنگینی سے آگاہ کیا، اور اس کے حل کے لیے مشورے طلب کیے، اور مختصر سی مدت میں اس فتنہ کے دروازے کو جو کھلنے والا تھا بند کر دیا، اس سے مسلمانوں کو خوشی و مسرت حاصل ہوئی اور منافقین کو بڑا غصہ آیا جو شدت سے اس انتظار میں تھے کہ یہ اختلاف طول پکڑے اور ان کی دیرینہ امیدیں بر آئیں، اور جب اختلاف کا سدباب ہو گیا تو ان کی تمناؤں پر پانی پھر گیا،
فتنہ برپا کرنے کا کوئی راستہ ان کو نہ مل سکا بعد ازاں عثمانؓ سے ان کا بغض و عناد بڑھ گیا، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگے اور ان کے حسنات کی تصویر کشی سیئات کی شکل میں کیا، اور اس کے اثبات کے لیے مکڑی کے جالوں کا سہارا لیا تاکہ آپ پر طعن و تشنیع کر سکیں، اور اس طرح خلیفہ راشد کے خلاف بغاوت کا جواز فراہم کیا۔ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ عثمانؓ نے ایسا کام کر ڈالا ہے جو ان کے خلاف بغاوت کو واجب ٹھہراتا ہے۔
[فتنہ مقتل عثمان بن عفان (1؍82)]
صحابہ کرامؓ نے ہر قاری کو اس کی صحیح قراء ت پر نہیں چھوڑا بلکہ ان کو ایک قراء ت پر جمع کیا، جس کی وجہ سے ان میں وحدت قائم ہوئی اور اتفاق و اتحاد برپا ہوا، یہ ایک عظیم درس ہے جو ہمیں خلفائے راشدینؓ کی تاریخ کے مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے، جو دروس و عبر اور اسوہ و نمونہ سے پر ہے۔
[یہاں قراء ت کہنا صحیح نہیں بلکہ حروف صحیح ہے، چوں کہ قرآن کا نزول آسانی کے لیے سات احرف پر ہوا تھا، جو عرب کے مشہور لغات و لہجات تھے، اور ہر ایک کو اپنے اپنے لہجے و لغت کے اعتبار سے پڑھنے کی آزادی دی گئی تھی، لیکن جمع قرآن کے وقت لغت قریش کو باقی رکھا گیا جس کے مطابق رسول اللہﷺ نے جبریل علیہ السلام کے ساتھ آخری دور فرمایا تھا (مترجم) ]
[فتنۃ مقتل عثمان بن عفان (1؍83) ]
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
(( ان اللّٰہ یرضی لکم ثلاثا: ان تعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا، وان تعتصموا بحبل اللّٰه جمیعا ولا تفرقوا، و ان تناصحوا من ولاہ اللّٰه امرکم۔ ))
’’اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں تین چیزیں پسند کرتا ہے: تم اسی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لو، اختلاف نہ کرو اور جس کو اللہ تعالیٰ تمہارا حاکم و والی بنائے اس کے ساتھ خیر خواہی کرو۔‘‘
[مسند احمد (صحفہ؍26)]
اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا التزام کریں۔ یہ اصول اس دین عظیم کا اہم ترین اصول ہے، علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’یہی اصل عظیم اسلام ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی بڑی وصیت فرمائی ہے اور اس کے ترک پر اہل کتاب وغیرہ کی بڑی مذمت کی ہے اور رسول اللہﷺ نے خاص و عام مختلف مقامات پر اس کی بڑی وصیت فرمائی ہے۔‘[‘مجموع الفتاوی (22؍359)]
اسی لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ نے ہر اس امر کا حکم فرمایا ہے جو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور الفت و محبت کو باقی رکھے اور ہر اس امر سے منع فرمایا جو اس امر عظیم میں خلل انداز ہو۔
مسلمانوں کے درمیان جو افتراق و اختلاف، قطع تعلق اور آپس میں جنگ و جدال رونما ہوا وہ اس اصل عظیم اور اس کے ضوابط کو اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہوا جس کے نتیجہ میں ان کی صفوں میں دراڑ پیدا ہوئی اور اتحاد پارہ پارہ ہوا اور وہ مختلف فرقوں، احزاب اور ٹولیوں میں منقسم ہو کر رہ گئے اور ہر پارٹی اپنے میں مگن ہے۔
[تبصیر المومنین بفقہ النصر و التمکین؍ الصلابی صحفہ (307) ]
مسلمانوں کی وحدت اور ان کا اتحاد شرعاً مطلوب اور مقاصد شریعت میں سے اہم ترین مقصد ہے بلکہ دین اسلام کے غلبہ کے اہم ترین اسباب میں سے ہے اور ہمیں تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا حکم دیا گیا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ علمائے امت و داعیان، اسلامی تحریکات کے قائدین اور طلبہ کے مابین حقیقی معنی میں اصلاح ذات البین کی کوشش کی جائے کیوں کہ ناقص اہل اصلاح سے فساد کے کام زیادہ ہوتے ہیں، شیخ عبدالرحمن سعدیؒ فرماتے ہیں: جہاد کی دو قسمیں ہیں: ایک جہاد وہ ہے جس سے مقصود مسلمانوں کی اصلاح و بھلائی اور عقائد و اخلاق، آداب اور دینی و دنیوی امور اور علمی تربیت میں ان کی اصلاح ہے۔ یہ قسم اصل جہاد اور اس کی اساس ہے۔ اسی پر دوسری قسم استوار ہوتی ہے، اور دوسری قسم وہ جہاد ہے جس سے مقصود اسلام اور مسلمانوں کے لیے خلاف کفار و منافقین، ملحدین اور تمام اعدائے دین کا دفاع اور مقابلہ ہے، اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک حجت و برہان اور زبان و قلم سے جہاد، اور دوسرا ہر دور و زمان کے مناسب اسلحہ کے ذریعہ سے جہاد۔[وجوب التعاون بین المسلمین صفحہ (5) ]
اس کے بعد شیخ نے مستقل فصل اس عنوان سے قائم کیا ہے:
’’مسلمانوں سے متعلق الفت و محبت اور اتفاق کلمہ کے ذریعہ سے جہاد۔‘‘
[وجوب التعاون بین المسلمین صحفہ (5) ]
مسلمانوں کی وحدت و تعاون پر دلالت کرنے والی آیات و احادیث کو ذکر کرنے کے بعد آپ فرماتے ہیں: مسلمانوں کی تالیف قلب، دین اور دینی و دنیوی مصالح پر اتفاق و اجماع کی خاطر جدوجہد اور کوشش کرنا عظیم ترین جہاد ہے۔[وجوب التعاون بین المسلمین صحفہ (5)]
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے مابین تالیف قلوب اور ان کی صفوں میں وحدت پیدا کرنے کی خاطر اسباب کو اختیار کرنا عظیم ترین جہاد ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کے غلبہ و اعزاز، اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے یہ اہم ترین قدم ہے۔ یہ خلفائے راشدین کی فقہ کا ایک روشن باب ہے اور عثمانؓ رلکا امت کو ایک مصحف پر جمع کرنے میں خوب روشن ہے۔
اسم الكتاب:
سیدنا عثمان بن عفانؓ شخصیت و کارنامے