Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت مدینہ

  علی محمد الصلابی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت مدینہ

جب قریش کی ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی اور مسلمانوں کو ستانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی، مسلمانوں کے لیے دین پر عمل پیرا رہنا ممکن نہ رہا، تو اس کے نتیجہ میں دو بار ہجرت حبشہ پیش آئی اور مسلمان دین و ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ہجرت حبشہ کے بعد پھر ہجرت مدینہ کا وقت آیا۔ دیگر صحابہ کی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تعجل لعل اللّٰہ یجعل لک صاحبا۔ (تاریخ الدعوۃ الی الاسلام: 107)

’’جلدی نہ کیجیے شاید اللہ تعالیٰ آپ کو میری صحبت میں ہجرت نصیب کرے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد آپ کی یہی تمنا رہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں ہجرت کا موقع ملے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ ہجرت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ صبح یا شام ہمارے گھر تشریف لاتے، لیکن جب ہجرت کا الٰہی حکم آیا تو آپ دوپہر میں ہمارے یہاں تشریف لائے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس وقت آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس وقت آپ کے آنے کا مطلب ہے کہ ضرور کوئی اہم بات واقع ہوئی ہے۔ آپ گھر میں تشریف لائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ چارپائی سے ہٹ گئے اور آپ چارپائی پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس وقت وہاں صرف میں اور میری ہمشیر اسماء تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یہاں جو ہیں ان کو ذرا یہاں سے ہٹنے کو کہو۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، بات کیا ہے؟ یہاں تو صرف میری یہ دونوں بیٹیاں ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہجرت کا حکم آ گیا۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے آپ کی رفاقت چاہیے؟

آپ نے فرمایا: تم بھی ہمارے ہی ساتھ چلو گے۔

یہ مژدہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے،(سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:) آج سے پہلے مجھے یہ خبر نہ تھی کہ کوئی خوشی میں بھی روتا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً دو اونٹنیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! آج ہی کے لیے یہ دو اونٹنیاں میں نے پال رکھی تھیں۔ پھر بنو دیل بن بکر کے ایک فرد عبداللہ بن اریقط کو راستہ کی رہنمائی کے لیے اجرت پر رکھا جو مشرک تھا، اور یہ دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دیں تاکہ وقت مقررہ تک ان کی دیکھ بھال کرے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: جلد، 2 صفحہ، 233 اور 234)

صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت ہجرت سے متعلق وارد ہے اس میں اہم تفاصیل آئی ہیں۔ اس روایت میں یوں آیا ہے:

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: ہم دوپہر کی گرمی میں گھر کے اندر بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا: او دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک ڈھانکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ وقت آپ کی آمد کا نہ تھا۔

آپ نے پہنچ کر ابوبکر سے کہا: جو لوگ یہاں ہیں ان کو ذرا یہاں سے دور کریں۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یہ آپ ہی کے گھر والے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے بھی آپ کی رفاقت چاہیے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرور۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دو اونٹنیاں حاضر کیں۔

عرض کیا: ان میں سے ایک آپ کے لیے ہے، آپ لے لیجئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بشرط قیمت۔

ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہم نے آپ دونوں کے لیے اچھے طریقے سے سامان سفر تیار کیا اور توشہ تیار کر کے ایک تھیلے میں رکھا، اسماء نے اپنی کمر بند پھاڑ کر تھیلے کو باندھ دیا، اسی وجہ سے ان کا نام ’’ذات النطاقین‘‘ پڑ گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے اور تین راتیں وہاں چھپے رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر جو انتہائی ذہین اور فہم و فراست کے مالک نوجوان تھے، غار میں جا کر آپ لوگوں کے ساتھ رات گذارتے اور آخری شب میں وہاں سے مکہ آجاتے گویا کہ آپ نے مکہ ہی میں لوگوں کے ساتھ رات گذاری ہے۔ دن بھر مکہ میں آپ دونوں سے متعلق جو سازشیں ہوتیں ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے اور جب رات کی تاریکی چھا جاتی تو غار میں پہنچ کر تمام خبریں پہنچا دیتے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ کچھ رات گئے بکریاں لے کر وہاں سے گذرتے اور تازہ تازہ دودھ نکال کر آپ دونوں کو پیش کرتے اور صبح سے قبل آخری شب کی تاریکی میں وہاں سے کوچ کر جاتے، تینوں رات یہی کیفیت رہی۔ بنو عبد بن عدی کی شاخ بنو دیل کے ایک شخص کو جو راستے کا ماہر تھا، اجرت پر راستہ دکھانے کے لیے طے کیا، یہ شخص آل عاص بن وائل سہمی کا پکا حلیف تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا، جب اس کے سلسلہ میں اچھی طرح اطمینان ہو گیا تو اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اور تین راتوں کے بعد غارِ ثور کے پاس صبح سویرے آنے کو کہا۔ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہو لیے، اس طرح یہ چار نفری قافلہ ہجرت پر روانہ ہوا اور وہ راستہ بتانے والا آپ لوگوں کو ساحلی راستہ سے لے کر روانہ ہوا۔(البخاری: مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلي الله عليه وسلم ، رقم: 395)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے روانہ ہوئے تو علی، ابوبکر اور آل ابوبکر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی کو اس کی اطلاع نہ تھی اور جب نکلنے کا وقت موعود آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کے پچھلے دروازے سے نکلے۔ (الہجرۃ فی القرآن الکریم: 334) تاکہ مکمل رازداری میں اس سفر کا آغاز ہو، کسی کو اطلاع نہ ہونے پائے کیونکہ قریش سے خطرہ تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کر کے اس سفر مبارک سے آپ کو روک دیں گے۔ (خاتم النبیین لابی زہرہ: جلد، 1 صفحہ 659)السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: جلد، 2 صفحہ، 234) اور مکہ سے نکلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر: جلد، 2 صفحہ، 230 تا 234) مکہ کے بازار ’’حزورۃ‘‘ میں کھڑے ہو کر فرمایا: 

واللّٰہ انک لخیر ارض اللّٰہ ، واحب ارض اللّٰہ ، الی اللّٰہ ولو لا انی اخرجت منک ما خرجت۔

(الترمذی: المناقب، باب فضل مکۃ جلد، 2 صفحہ، 722 علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: صحیح الترمذی: 325 و صحیح ابنِ ماجہ: 3109)

’’اللہ کی قسم! اے مکہ اللہ کی سر زمین میں تو سب سے بہتر اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے۔

مشرکین مکہ نے آپ کا پیچھا کیا اور نقوش قدم کے سہارے جبل ثور تک پہنچ گئے، وہاں پہنچ کر نقوش گڈمڈ ہو گئے، کچھ نہ سمجھ سکے، پہاڑ کے اوپر چڑھے، غار کے پاس سے گذرے، دیکھا غار کے منہ پر مکڑی کا جالا ہے، کہا: اگر اس کے اندر کوئی گیا ہوتا تو مکڑی کا جالا نہ رہتا۔

(مسند احمد: ۱/۳۴۸، لیکن یہ روایت ضعیف ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی: جلد، 3 صفحہ، 360 تا 364 (1129) مترجم)

ارشاد ربانی ہے:

وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ وَمَا هِيَ (سورۃ المدثر: آیت، 31)

ترجمہ: ’’تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘

تمام اسباب کو اختیار کرنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اسباب پر بھروسہ کر کے نہیں بیٹھے بلکہ اللہ رب العالمین پر مکمل بھروسہ رکھا اور نصرت وتائید کی پوری امید اللہ ہی سے وابستہ رکھی اور اللہ کی سکھائی ہوئی یہ دعا برابر پڑھتے رہے: (الہجرۃ النبویۃ المبارکۃ: 72)

وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا (سورۃ الاسراء: آیت، 80)

ترجمہ: ’’اور یہ دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار! مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال، اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے۔‘‘

اس آیت کریمہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا سکھائی ہے تاکہ آپ خود یہ دعا کریں اور آپ کی امت یہ سیکھے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور کس طرح اس کی طرف متوجہ ہو۔

آغاز و انجام کی سچائی سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پورا سفر آغاز و اختتام، اوّل و آخر اور درمیان سب سچائی کے ساتھ انجام پذیر ہو، اس موقع پر سچائی کی اس حیثیت سے بڑی قیمت و اہمیت ہے کہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام سے پھیر کر اللہ پر افتراء پردازی پر ابھارنا چاہتے تھے، اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اور اسی طرح سچائی کے آثار و نتائج بے بہا ہیں، مثلاً ثبات، اطمینان، نظافت، اخلاص۔ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ’’اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ و امداد مقرر فرما دے‘‘ تاکہ میں اس کے ذریعہ سے حکومت وسلطنت اور مشرکین کی قوت پر غالب آجاؤں۔ اور {مِنْ لَّدُنْکَ} (اپنے پاس سے) کا کلمہ اللہ سے قرب و اتصال اور اس سے استمداد و التجا کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے۔

صاحب دعوت وعزیمت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور سے غلبہ وقوت طلب کرے، یا اس کے سوا کسی اور کے غلبہ وقوت سے خوفزدہ ہو۔ اور اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کسی ایسے حاکم یا صاحب جاہ و مرتبت کا سہارا لے کر نصرت ومدد حاصل کرے جو اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔ اسلامی دعوت کی تو یہ شان ہے کہ وہ امراء و سلاطین کے دلوں کو فتح کرتی ہے اور وہ لوگ اس کے خادم و لشکر بن کر کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دعوت امراء و سلاطین کی تابع بن جائے تو اس سے اس کو کوئی کامیابی نہیں مل سکتی۔ اسلامی دعوت تو اللہ تعالیٰ کا امر ہے، وہ امراء و سلاطین اور جاہ و حشمت والوں سے کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے۔ (فی ضلال القرآن: جلد، 4 صفحہ، 2247)

جس وقت مشرکین نے غار کو گھیر لیا اور پورا غار ان کی نگاہوں کے سامنے آ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطمینان دلایا اور اللہ کی معیت کا مژدہ سنایا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈالی تو ہمیں دیکھ لے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما ظنک یا ابابکر باثنین اللّٰہ ثالثہما ’’اے ابوبکرؓ ان دونوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہو۔‘‘

(البخاری: فضائل الصحابۃ، باب مناقب المہاجرین 3653، مسلم: 5381)

اللہ رب العالمین نے اس واقعہ کی تصویر کشی اس آیت کریمہ میں کی ہے:

إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗوَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورۃ التوبۃ: آیت، 40)

’’اگر تم اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی، اس وقت جب کہ انہیں کافروں نے (دیس) سے نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا، جب کہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے۔‘‘

جب آپ کی تلاش میں مشرکین کی نقل وحرکت میں کمی آگئی اور وہ آپ کو گرفتار کرنے کے سلسلہ میں مایوس و ناامید ہو گئے تو غار میں تین راتیں گذارنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ غار سے باہر نکلے۔ اس سے قبل ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ سفر ہجرت کے لیے بنو دیل کے عبداللہ بن اریقط نامی شخص کو راستہ کی رہنمائی کے لیے پہلے طے کر لیا گیا تھا اگرچہ وہ مشرک تھا لیکن اس پر مکمل اطمینان ہو جانے کے بعد سواریاں اس کے حوالہ کر دی گئی تھیں اور اس سے یہ بات طے پائی تھی کہ وہ تین راتوں کے بعد ان سواریوں کو لے کر وہاں حاضر ہوگا۔ وعدہ کے مطابق وہ وقت مقررہ پر وہاں پہنچا اور آپ دونوں کو لے کر عام راستہ سے ہٹ کر غیر معروف و معہود راستہ سے چلا، تاکہ پیچھا کرنے والے کفار ومشرکین کو سراغ نہ مل سکے۔

(المستفاد من قصص القرآن: زیدان، جلد، 2 صفحہ، 101)

سفر ہجرت میں آپ کا گذر وادی قدید (وادی قدید موجودہ سڑک سے تقریباً 8 کلو میٹر پر واقع ہے، اسی وادی میں بنو خزاعہ آباد تھے۔) میں ام معبد عاتکہ بنت خالد الخزاعیہ کے خیمہ کے پاس سے ہوا، ان کے بھائی حبیش بن خالد الخزاعی نے ان کا واقعہ بیان کیا ہے، سیرت نگاروں نے اپنی تصانیف میں اس کو جگہ دی ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس قصہ سے متعلق فرماتے ہیں: ’’یہ قصہ مشہور ہے اور مختلف طرق سے مروی ہے جس سے اس کو تقویت مل جاتی ہے۔‘‘

(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 188)

قریش نے مکہ میں یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔ یہ خبر مکہ کے قرب وجوار میں آباد قبائل عرب میں بھی پھیل چکی تھی۔ سراقہ بن مالک بن جعشم کو یہ انعام حاصل کرنے کا شوق دامن گیر ہوا، اس نے یہ انعام حاصل کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اللہ رب العزت کی قدرت پر کون غالب آسکتا ہے، اللہ کا کچھ ایسا کرنا ہوا کہ نکلے تو تھے گرفتار کرنے کے لیے لیکن آپ کی طرف سے دفاع کرنے والا بن کر لوٹے۔

(السیرۃ النبویۃ للصابی: جلد، 1 صفحہ، 543)

جب مسلمانان مدینہ کو مکہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچ کرنے کی خبر ملی توبے حد خوش ہوئے اور آپ کے انتظار میں روزانہ صبح مدینہ سے باہر نکلتے اور دوپہر تک انتظار کرتے، جب گرمی کی شدت بڑھ جاتی تو واپس ہو جاتے، ایک دن جب انتظار کر کے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے تو ایک یہودی اپنے مکان پر کسی کام سے چڑھا۔ اس کی نگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء پر پڑی جو نہایت سفید اور صاف وشفاف لباس میں ملبوس تھے۔

یہودی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اور بلند آواز سے پکارا: عرب کے لوگو! یہ تمہارا نصیب آ پہنچا ہے جس کا تمہیں انتظار تھا۔ یہ آواز سن کر مسلمان اسلحہ لے کر استقبال میں نکل پڑے اور حرہ کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ دائیں جانب مڑے اور قبا میں بنو عوف کے پاس نزول فرمایا۔ یہ دوشنبہ (حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: دو شنبہ کا دن ہونا ہی صحیح ہے، جمعہ کہنا شاذ ہے۔ الفتح: جلد، 4 صفحہ، 544) کا دن اور ربیع الاوّل کا مہینہ تھا۔ (الہجرۃ فی القرآن الکریم: 351، البخاری: مناقب الانصار، باب الہجرۃ 3906) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کیا، تب آنے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا، ورنہ بہت سے لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی رسول اللہ سمجھ رہے تھے۔

(الہجرۃ فی القرآن الکریم: 352، البخاری: مناقب الانصار، باب الہجرۃ 3906)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہنچنے کا دن خوشی ومسرت کا دن تھا، ایسا دن مدینہ پر نہیں آیا تھا۔ لوگوں نے عید کی طرح اچھے اور خوبصورت کپڑے زیب تن کیے، اور حقیقت میں یہ عید ہی کا دن تھا کیونکہ آج کے دن اسلام مکہ کے تنگ دائرہ سے نکل کر با برکت سر زمین مدینہ کے وسیع میدان میں داخل ہوا اور پھر وہاں سے پوری روئے زمین میں پھیلا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ کو جس شرف ومنزلت سے نوازا اور جو فضیلت ان کو بخشی اس کا انہیں بخوبی احساس تھا۔ ان کا شہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے پناہ گاہ قرار پایا، اور پھر نصرت اسلام کا مرکز بنا۔ اسی طرح تمام خصائص و عناصر کے ساتھ اسلامی نظام کا مرکز قرار پایا، اسی لیے مدینہ والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی ومسرت کے ساتھ ((اللہ اکبر جاء رسول اللہ، اللہ اکبر جاء محمد)) کا نعرہ لگاتے ہوئے آپ کے استقبال میں نکل پڑے۔

(الہجرۃ فی القرآن الکریم: 352، البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 197)

اس عظیم استقبال کے بعد، جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں دیکھی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر قیام پذیر ہوئے،(الہجرۃ فی القرآن الکریم: 354) اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خارجہ بن زید الخزرجی الانصاری رضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔

مختلف چیلنجوں اور مشکلات کا سفر شروع ہوا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام پر غالب آئے اور امت اسلامیہ اور اسلامی حکومت کو روشن مستقبل میں پہنچایا، جس نے روم و فارس کی عظیم سپر طاقتوں پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ایمان و تقویٰ اور عدل واحسان کی بنیاد پر تابناک انسانی تہذیب وتمدن کو وجود بخشا۔ (الہجرۃ فی القرآن الکریم: 355) ابوبکر رضی اللہ عنہ آغاز دعوت سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کا دایاں بازو رہے۔ آپ پوری خاموشی اور گہرائی سے سرچشمہ نبوت سے ایمان و حکمت، یقین وعزیمت اور تقویٰ و اخلاص کے گہر چن رہے تھے۔ اس صحبت و رفاقت کے نتیجہ میں صلاح و صدیقیت، ذکر و بیداری، محبت و صفا، عزیمت و منصوبہ بندی، اخلاص وفہم کے ثمرات سے آپ کا دامن بھر گیا اور سقیفہ بنو ساعدہ، لشکر اسامہ کی روانگی اور فتنہ ارتداد کا قلع قمع کرنے کے سلسلہ میں قابل داد موقف نمایاں ہوا اور آپ نے فساد کے بعد اصلاح، تخریب کے بعد تعمیر، تفریق کے بعد جمع اور انحراف کے بعد تقویم کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔

(فی التاریخ الاسلامی: شوقی ابوخلیل، 226)

دروس وعبر:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت کے واقعہ میں مختلف دروس وعبر اور فوائد ہیں:

اوّلاً: ارشاد ربانی ہے:

إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورۃ التوبۃ: آیت، 40)

ترجمہ: ’’اگر تم ان نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جب کہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ’’ساتھی‘‘ سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔ اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز اللہ کا کلمہ ہی ہے۔ اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت سات (7) طریقوں سے ثابت ہوتی ہے:

٭ کفار نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نکلنے پر مجبور کیا:

کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا، جس کا لازمی تقاضا ہے کہ انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا اور یہی حقیقت ہے۔

جس وقت کفار مکہ نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکالا اور اللہ کی مدد شامل حال ہوئی اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، آپ دو میں سے دوسرے تھے اور اللہ تعالیٰ تیسرا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ثَانِيَ اثْنَيْنجن مقامات پر دیگر صحابہ آپ کے ساتھ نہ ہوتے وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ ضرور آپ کے ساتھ ہوتے، جیسے سفر ہجرت میں، بدر کے دن سائبان میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی آپ کے ساتھ تھے۔ اسی طرح قبائل عرب کی طرف دعوت کے لیے آپ نکلتے تو اکابر صحابہ میں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ ہوتے۔ صحبت ورفاقت کی یہ خصوصیت باتفاق علمائے سیرت آپ ہی کو حاصل تھی۔

آپؓ ہی یار غار ہیں:

یار غار ہونے کی فضیلت نص قرآنی سے ثابت ہے۔ بخاری ومسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم غار میں تھے، ہم نے مشرکین کے قدموں کو اپنے سروں کے اوپر دیکھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کو دیکھا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یا ابابکر ما ظنک باثنین اللہ ثالثہما (البخاری: فضائل الصحابۃ، 3653، مسلم: 1854)

’’اے ابوبکر! ان دونوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہو؟‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اس کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اس کے مفہوم پر قرآن کی دلالت موجود ہے۔

(منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ، 240 اور 241)

٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب مطلق (ہمہ وقتی ساتھی) ہیں:

ارشاد ربانی ہے:

{اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہِ}

’’جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے۔‘‘

آپ کی صحبت و رفاقت صرف غار کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آپ کو رفاقت مطلقہ حاصل تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں کارہائے نمایاں انجام دیے، جس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں لہٰذا کامل صحبت و رفاقت آپ ہی کے لیے خاص ہے۔ سیرت کے ماہرین کا اس میں کوئی اختلاف نہیں، اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں وہ خصائص ہیں جن میں دوسرا کوئی آپ کا شریک نہیں۔(منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ، 242 تا 245)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے مہربان اور مشفق تھے:

رسول اللہ کا یہ فرمان (لَا تَحْزَنْ)’’غم نہ کرو‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے مہربان اور آپ کو چاہنے والے، آپ کی نصرت و تائید میں فکر مند رہنے والے تھے، اسی لیے ان کو غم لاحق ہوا۔ انسان جب اپنے محبوب پر خوف کھاتا ہے تو غمگین ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں خوفزدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کہیں کفار آپ کو قتل نہ کر دیں اور پھر اسلام کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے۔ اسی لیے سفر ہجرت میں کبھی آپ کے آگے کبھی پیچھے چلتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کی وجہ ان سے دریافت کی تو بتلایا: جب آپ کی گھات میں بیٹھنے کا خیال آتا ہے کہ کہیں دشمن سامنے سے حملہ آور نہ ہو جائے تو سامنے آ جاتا ہوں اور جب آپ کی تلاش میں نکلنے کا خیال آتا ہے کہ کہیں دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو جائے تو پیچھے ہو جاتا ہوں۔

(ابوبکر الصدیق: افضل الصحابۃ واحقہم بالخلافۃ: 43)

فضائل صحابہ میں امام احمد رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور کبھی آگے چلتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: یا رسول اللہ! جب آپ کے سامنے سے دشمن کے آنے کا خوف محسوس کرتا ہوں تو آپ کے آگے آ جاتا ہوں۔ جب غار میں پہنچے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ٹھہریں پہلے میں غار صاف کر دوں…… جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا غار میں ایک سوراخ ہے تو اس پر اپنا قدم رکھ کر بند کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہو سکتا ہے اس میں سانپ و بچھو ہوں، وہ مجھی کو ڈنک ماریں آپ اس سے محفوظ رہیں۔ (منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ، 262 اور 263) آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف گوارا نہ تھی بلکہ آپ یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا جائے، آپ جان و مال اور اہل و عیال سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اور یہ تو ہر مومن کا فریضہ ہے، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس میں سب سے آگے تھے۔

(منہاج السنۃ: جلد،4 صفحہ، 263)

اللہ تعالیٰ کی معیت خاصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے:

(إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا)’’یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ کا ارشاد اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس معیت کا شرف حاصل تھا جس میں مخلوق میں سے کوئی آپ کا شریک نہیں، یہ آپ ہی کا نصیب تھا…… یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کی نصرت و تائید اور دشمن سے مقابلہ میں تعاون ومدد ان کے شامل حال رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خبر دی کہ ابوبکر! اللہ ہماری بھی مدد کرے گا اور تمہاری بھی، ہم پر دشمن غالب نہیں آئیں گے۔ ارشاد ربانی ہے:

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (سورۃ غافر: آیت، 51)

’’یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔‘‘

یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے انتہائی درجہ کی مدح و تعریف ہے کیونکہ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اس ایمان کی شہادت دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے لیے الٰہی نصرت و تائید کا متقاضی ہے حالانکہ ان حالات میں اگر نصرت الٰہی شامل حال نہ ہو تو عام طور سے لوگ ناکام ہو جاتے ہیں۔

(منہاج السنۃ: جلد، 4 صفحہ، 242 اور 243)

ڈاکٹر عبدالکریم زیدان اس آیت کریمہ میں معیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد (إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا)سے جو زبانی معیت مستفاد ہوتی ہے وہ اس معیت سے اعلیٰ وارفع ہے جو اہل تقویٰ واحسان کو حاصل ہوتی ہے، جو اس قول الٰہی میں مذکورہے: إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ (سورۃ النحل: آیت، 128) ’’یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ کیونکہ (إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا) میں جس معیت کا ذکر ہے وہ کسی صفت و فعل کے ساتھ مقید نہیں جیسا کہ یہاں تقویٰ واحسان کی صفت سے مقید ہے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذات کے ساتھ مطلق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے اور اس معیت کی تائید آیات و معجزات اور خوارق عادات سے کی گئی ہے۔‘‘

(المستفاد من قصص القرآن: جلد، 2 صفحہ، 100)

سکینت و نصرت کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق رہے:

ارشاد الہٰی ہے:

فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا (سورۃ التوبۃ: آیت، 40)

ترجمہ: ’’پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔‘‘

جب خوف کی حالت میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں رہے تو بدرجہ اولیٰ نصرت وتائید کے نزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں رہے، اس لیے دلالت کلام اور دلالت حال کی وجہ سے اس حالت میں رفاقت کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ رہی اور جب یہ بات واضح ہے کہ آپ اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو جو نصرت و تائید اور سکینت کا نزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا اس میں دوسروں کی بہ نسبت سب سے بڑا حصہ آپ کو نصیب ہوا۔ یہ قرآن کی بلاغت اور حسن بیان میں سے ہے۔