Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کہو: ابوبکر (رضی اللہ عنہ)! اللہ تمہیں بخش دے

  علی محمد الصلابی

کہو: ابوبکرؓ! اللہ تمہیں بخش دے

سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا اور حدیث بیان کی، پھر کہا اس کے بعد رسول اللہﷺ نے مجھے ایک زمین عطا کی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک زمین عطا فرمائی۔ دنیا سامنے آ گئی اور ہمارے درمیان ایک پھل دار کھجور کے درخت کے بارے میں اختلاف ہو گیا، میرا کہنا تھا کہ یہ درخت میری حد میں ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ یہ میری حد میں ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے درمیان کچھ باتیں ہو گئیں۔

حضرت ابوبکرؓ نے ایک ناپسندیدہ بات کہہ دی پھر نادم ہوئے اور مجھ سے کہا ربیعہ تم بھی مجھے یہی بات کہہ دو تا کہ بدلہ پورا ہو جائے۔

میں نے کہا میں ایسا نہیں کر سکتا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا تو تم یہ بات کہو ورنہ میں رسول اللہﷺ سے مدد طلب کروں گا۔

میں نے کہا میں نہیں کہوں گا۔

سیدنا ابوبکرؓ وہاں سے رسول اللہﷺ کے پاس چلے۔ میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔

بنو اسلم کے کچھ لوگ آئے اور کہا سیدنا ابوبکرؓ پر اللہ رحم کرے، کس سلسلہ میں رسول اللہﷺ سے مدد طلب کرنے جا رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے ہی جو کہنا تھا، کہا۔

میں نے کہا کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے یہ کون ہیں؟ یہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں، یہ یارِ غار ہیں، یہ ذو شیبۃ المسلمین (مسلمانوں کے بزرگ) ہیں۔ خبردار! اگر انہوں نے مڑ کر تمہیں دیکھ لیا کہ تم میری مدد کو آ رہے ہو تو غصہ ہو جائیں گے اور رسول اللہﷺ سے کہہ دیں گے، تو آپﷺ بھی ان کی وجہ سے غصہ ہو جائیں گے اور پھر ان دونوں کے غصہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غصہ ہو جائے گا۔ پھر تو ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔

لوگوں نے کہا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟

فرمایا لوٹ جاؤ۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی تنہا ان کے پیچھے چلا، رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے اور واقعہ جوں کا توں بیان کیا۔

رسول اللہﷺ نے میری طرف سر مبارک اٹھایا اور فرمایا ربیعہ! تمہارا اور صدیقِ اکبرؓ کا کیا معاملہ ہے؟

میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا ایسا ہوا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک ناپسندیدہ بات کہی اور پھر مجھ سے کہا تم بھی مجھے وہی بات کہہ دو تا کہ بدلہ پورا ہو جائے۔ میں نے کہنے سے انکار کیا۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا اچھا کیا، ان کو جواب مت دو بلکہ تم یہ کہو

غفر اللہ لک یا ابابکر

حضرت ابوبکرؓ اللہ تمہیں بخش دے۔

میں نے کہا

غفر اللہ لک یا ابابکر

سیدنا ابوبکرؓ تمہیں اللہ بخش دے۔

امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے واپس ہوئے۔

(مسند احمد: جلد، 4 صفحہ، 58/59)

سبحان اللہ یہ کیسا شعور و وجدان تھا اور کون سا نفس تھا۔ کسی مسلمان سے متعلق ایک بات ہو گئی تو اس وقت تک دم نہ لیتے جب تک بدلہ نہ چکا دیں یا وہ معاف نہ کر دے تا کہ فضیلت ہاتھ سے نہ چھوٹے، ادب و احترام نہ جانے پائے۔ یہ شعور ان کے دل و دماغ میں پیوست ہو چکا تھا جس کی وجہ سے زبان کی معمولی سی لغزش سے تلملا اٹھتے تھے اور اس وقت تک دم نہیں لیتے تھے جب تک اس کا بدلہ نہ چکا دیں یا وہ شخص معاف نہ کر دے۔

(اشہر مشاہیر الاسلام: جلد، 1 صفحہ، 88)

بات معمولی تھی لیکن دل پر اس کا اثر گہرا پڑا اور اس کی وجہ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کانپ اٹھے اور بدلہ دینے کے لیے بے تاب ہو گئے، اس سے کم پر راضی نہ تھے باوجود یہ کہ اس وقت رسول اللہﷺ کے بعد امت اسلامیہ میں پہلے نمبر پر تھے۔ اور یہ بات جو آپؓ کی زبان سے نکلی تھی فحش کلامی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ آپؓ کے اخلاق عالیہ سے اس کی توقع ممکن نہیں، یہاں تک کہ دورِ جاہلیت میں بھی آپؓ سے فحش کلامی صادر نہیں ہوئی۔

(خلفاء الرسول: خالد محمد خالد صفحہ، 103) 

سیدنا ابوبکرؓ اس بات کے انجام سے ڈر گئے اور رسول اللہﷺ سے جا کر شکایت کی اور یہ عجیب و غریب بات ہے، آپؓ اپنی زمین بھول گئے اور جس مسئلہ میں اختلاف رونما ہوا تھا یاد نہ رہا اور اپنی پوری توجہ اس کلمہ پر مرکوز کر دی کیونکہ حقوق العباد کا مسئلہ نازک ہے، صاحبِ حق سے عفو و درگذر کرانا ضروری ہے۔

(التاریخ الاسلامی: جلد، 16 صفحہ، 19)

اس کے اندر علماء و مشائخ، مبلغین اور حکام کے لیے درس و عبرت ہے کہ انہیں اپنی غلطیوں کا علاج کس طرح کرنا چاہیے اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کس حد تک کرنا چاہیے۔ اسے قدموں تلے نہیں روندنا چاہیے۔

سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ کے خاندان کے لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ بات سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی نے کہی اور پھر شکایت کرنے رسول اللہﷺ سے خود وہی جا رہے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو اس کا پتہ نہیں تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کو اس بات کا پورا علم ہے کہ اختلافات کو دنیا میں ہی نمٹانا اور دل کی کدورتوں کو نامہ اعمال میں لکھے جانے سے قبل ختم کر لینا چاہیے تاکہ قیامت کے دن اس پر محاسبہ نہ ہو۔ باوجود یہ کہ حضرت ربیعہؓ نے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی اور رسول اللہﷺ نے بدلہ لینے سے روک دیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کے خوف سے رو پڑے۔ یہ آپؓ کی قوتِ ایمانی اور پختہ یقین کی دلیل ہے۔ یہاں آخر میں سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ کے مؤقف کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کا غایت درجہ ادب و احترام کیا اور بدلہ لینے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ یہ اہلِ فضل و علم کے حقوق کی قدردانی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دین کے سلسلہ میں قوت اور عقل کی پختگی کے مالک تھے۔

(التاریخ الاسلامی: جلد، 16 صفحہ، 19)