[شیعہ مذہب میں رائے؛ اجتہاد کی طرف عدم التفات کا دعوی][اعتراض]:.... شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’ شیعہ ائمہ نے رائے اور اجتہاد کی جانب دھیان نہیں دیا اور قیاس اور استحسان کو حرام قرار دیا۔‘‘[جواب]:....اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتاہے: پہلی وجہ :.... جہاں تک قیاس و رائے کا تعلق ہے اس میں اہل سنت اور شیعہ برابر ہیں ۔ اہل سنت میں اہل رائے بھی ہیں ؛ اور وہ بھی جو حجیت قیاس کے قائل نہیں ۔شیعہ میں اس بارے میں نزاع ہے ۔ زیدیہ شیعہ حجیت قیاس و اجتہاد کے قائل ہیں ؛ اوروہ اس باب میں اپنے ائمہ سے مرویات نقل کرتے ہیں ۔[1] [1] زیدیہ کے اس بارے میں دو گروہ ہیں ۔ ایک گروہ قیاس کو مانتا ہے اور اجتہاد اوررائے کا انکار کرتا ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ ان کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : اشعری کی کتاب ’’مقالات الاسلامیین ۱؍۱۴۱۔دوم : بہت سارے خواص و عوام اہل سنت قیاس کو نہیں مانتے۔ایسا نہیں ہے کہ جو کوئی بھی خلفاء ثلاثہ کی خلافت کا قائل ہوگا وہ قیاس کا بھی قائل ہوگا۔بلکہ بغداد کے معتزلہ قیاس کو حجت قرار نہیں دیتے۔[2] [2] ۔قال الآمِدِی فِی الإِحکامِ فِی أصولِ الأحکام ۴؍۶۔:وقالتِ الشِیعۃ والنظام وجماعۃ مِن معتزِلۃِ بغداد کیحیی الِإسکافِیِ وجعفرِ بنِ مبشِر وجعفرِ بنِ حرب بإِِحالۃِ ورودِ التعبدِ بِہ(القِیاسِ) عقلاً،وإنِ اختلفوا فِی مأخذِ الإِحالۃِ العقلِیۃِ۔‘‘ [اصول الدین لابن طاہر ۹۔] اہل ظاہر کے فقہاء جیسے داؤد بن علی[3] [3] علامہ ابن حزم ظاہری نے اس سلسلہ میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے :’’ملخص ابطال القیاس والرأئی والإستحسان والتقلید و التعلیل۔‘ ‘اور یہ کتاب استاد سعید افغانی کی تحقیق کے ساتھ ۱۹۶۰ء میں دمشق سے چھپ چکی ہے۔ اس کی مزید تفصیل آمدی کی کتاب’’احکام الاحکام میں مل سکتی ہے۔ اور ان کے متبعین ؛ اہل بیت کا ایک گروہ اور صوفیاء کا ایک گروہ قیاس کو نہیں مانتے۔
[اسی طرح محدثین کی ایک جماعت بھی قیاس کی مذمت کرتے ہیں ]۔پس جو بھی صورت ہو؛ اگر قیاس باطل ہے ؛ اور اسے ترک کیا جاسکتا ہے تو یہ بھی اہل سنت کے اقول میں سے ایک قول ہے۔ اور اگر یہ حق ہے ؛ اور قیاس کرنا ممکن ہے ؛ تو اہل سنت کا ایک گروہ اس کا بھی قائل ہے۔ [الغرض کسی بھی صورت میں حق اہل سنت سے باہر نہیں جاتا]۔وجہ سوم : قیاس اور رائے کو حجت قرار دینا ایک مشہور جھوٹے اور غیر معصوم کے اقوال غیر مصدقہ کو مستند تصور کرنے سے بہتر ہے۔ یہ حقیقت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ صحیح ثابت شدہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان ائمہ کبار کے اجتہاد اور رائے کی طرف رجوع کرنا جوکہ مسائل و احکام کی تنقیح و تخریج اور مناط حکم کے بیان کیلئے اجتہاد کرتے ہیں ؛ شیعہ کے امام حسن عسکری اور ان کے فرضی بیٹے کی روایات کے ساتھ تمسک و احتجاج کرنے سے بہتر ہے۔یہ ائمہ دین مثلاً مالک،ابن ابی ذویب؛ابن الماجشون؛ لیث، اوزاعی، ثوری،ابن ابی لیلیٰ؛شریک؛ ابو حنیفہ،ابو یوسف ؛محمد بن حسن؛ زفر؛حسن بن زیاد اللولوئی؛ شافعی ؛ بویطی؛ مزنی؛اور احمد بن حنبل؛ اسحق بن راہویہ ؛ابو داؤد سجستانی؛اثرم؛ ابراہیم الحربی؛ بخاری؛ عثمان بن سعید الدارمی؛ ابو بکر بن خزیمہ؛ محمد بن جریر الطبری؛ محمد بن نصر المروزی؛ رحمہم اللہ اور ان جیسے دیگر علماء کرام حسن عسکری رحمہ اللہ اور ان کے متعلقین سے زیادہ علم دین رکھتے تھے۔اور اگر ان میں سے کوئی ایک کوئی فتوی دے؛ تو اس کے اجتہاد کی طرف رجوع کرنا ان عسکریین کے اجتہاد کی طرف رجوع کرنے سے زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے۔بلکہ ایسا کرنا ان پر واجب ہو جاتا ہے۔ تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب ان سے نقل کرنے والے روافض جیسے لوگ ہوں ۔پس عسکریین اور ان کے امثال پر یہ فریضہ عائد ہوتا تھا کہ ان حضرات سے علمی استفادہ کرتے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ علی بن حسین، ابو جعفر اور جعفر بن محمد عالم و فاضل تھے، ان کے بعد ان کی اولاد [بقیہ اماموں ]میں کوئی عالم دین پیدا نہیں ہوا؛ اور نہ ہی ان کے علم کے بارے میں کوئی ایسی بات معلوم ہوئی ہے جیسے ان حضرات کے بارے میں معروف تھا۔ بایں ہمہ وہ اپنے معاصر علماء سے علمی استفادہ کرنے اور ان کی طرف رجوع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔حتی کہ قاضی ابو عمران بن اشیب بغدادی نے کہاہے: ’’ہمیں ہمارے اصحاب نے خبر دی ہے ؛ کہ ربیعہ بن ابو عبد الرحمن اور جعفربن محمد کا تذکرہ ہوا؛ اور بیشک انہو ں نے [ربیعہ سے]علم حاصل کیا۔ ربیعہ نے کہا ہے: بیشک آپ نے مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ خریدا؛ اور پھر انہیں حضرت ربیعہ کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ خریداری کی شرائط تحریر کردیں ۔یہ واقعہ محمد بن حاتم بن زنجویہ البخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’إثبات امامۃ الصدیق ‘‘ میں نقل کی ہے۔سے کسی حکم کلی پر بمعنی عام تعلیق منصوص ہو؛ تو پھر اس کے ثبوت کی ایک صورت پر غور کیا جائے؛ یا اس کی عام انواع کو دیکھا جائے؛ جیساکہ عدالت کا معتبرہونا؛ اور قبلہ کی طرف رخ کرنا؛ اور شراب اور جواکا حرام ہونا منصوص ہے؛ اور ایسے ہی قسم کا حکم؛اور مردار ہور خون کا او رخنزیر کے گوشت کا حرام ہونا؛ اور اس طرح کے دیگر مسائل۔ تو پھر پینے کی جس چیز میں اختلاف واقع ہو تو ہم دیکھیں گے؛ کیا وہ خمر[شراب ] کی قسم ہے یا نہیں ؟ جیسے نشہ آور نبیذ۔ اور کھیلوں میں سے متنازع کھیل میں دیکھیں گے؛ جیسے چونسہ بازی اور شطرنج ؛ کیا وہ جوئے کی طرح ہے یا نہیں ؟ اور متنازعہ قسم کے بارے میں دیکھیں گے جیسے حج اور مال صدقہ کرنے ؛ اور غلام آزاد کرنے ؛ اور طلاق ؛ اور حرام قرار دینے ؛ اور ظہار کی قسم ؛ کیا یہ سبھی قسم میں داخل ہیں کہ ان کا کفارہ دیا جائے۔ یا ان کا شمار حلف کردہ عقود میں ہوتا ہے ؛ اوروہ کچھ پورا کرنا لازم آتا ہے جس کا حلف اٹھایا ہو۔ یا پھر اس کا شمار ان میں سے کسی ایک میں بھی نہیں ہوتا؛ او رکسی طرح بھی اس انسان پر کچھ بھی لازم نہیں آتا۔جیسا کہ اس چیز میں غور کیا جائے گا جس میں خون یا مردار یا خنزیر کا گوشت گر جائے؛ خواہ وہ پانی ہو یا دوسری کوئی مائع چیز ہو؛ اور اس کا رنگ اور ذائقہ نہ بدلا ہو۔ بلکہ نجاسات اس میں مل کر ختم ؍ تحلیل ہو چکی ہوں ۔ یا پھر ان کو اٹھالیا گیا ہے؛ اور اس کے جو اجزاء اس میں ملے ہوئے باقی رہ گئے تھے؛ وہ تحلیل ہوگئے ہوں ۔ پس اس میں دیکھا جائے گا: کیا یہ اس پانی کے مسمیٰ میں داخل ہے جو کتاب و سنت میں مذکو ر ہے ؟ یا پھر اس مردار؛ خون اور خنزیر کے گوشت کے مسمیٰ میں داخل ہے ؟جہاں تک تنقیح مناط اور اس کی تخریج کا مسئلہ ہے ؛ تو ان دونوں امور میں اختلاف ہے۔ اس امامی شیعہ نے اصل میں کوئی ایسی دلیل ذکر ہی نہیں کی جو اجتہاد رائے اور قیاس کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہو؛ اور اس پر رد کیا جائے۔ بلکہ ان نے صرف اتنا کہا ہے:’’ایک گروہ یہ بات کہتا ہے۔‘‘ تو یہ استنباط اور استخراج سے ان کی جہالت اور شریعت میں موجود حکمتوں اور معانی سے عدم معرفت؛ اور متماثلین کے مابین جمع اور مختلفین کے مابین تفریق سے لا علمی کی دلیل ہے۔پس یہ لوگ قرآن کے معانی اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی زیادہ لاعلم اور جاہل ہیں ۔ پس یہ لوگ اصول شریعت: کتاب اللہ تعالیٰ ؛ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے بالکل جاہل ہیں ؛ جو کہ ان نصوص اور استنباط کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں ۔ان کی اہم بنیاد اور اساسی چیز وہ منقولات ہیں جو اپنے سے نقل کرتے ہیں ۔ یہی حال ان جاہل مقلدین کا ہوتا ہے جو کسی ایک عالم کے استدلال کی پیروی کرتے ہیں ۔ پھر ان کے علاوہ وہ دوسرے حضرات جو علماء کی تقلید کرتے ہیں جیسے امام مالک؛ امام شافعی اور امام احمد اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اور دیگر حضرات؛ تو انہیں ان حضرات کے اقوال کی معرفت ہوتی ہے۔ اوران طرق سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جن سے ان کے اقوال میں سے صحیح اور ضعیف کو جان سکیں ۔اور ان کے دلائل اوران کے مآخذ کا علم ہوتاہے۔جبکہ روافض اپنے سے منقول صحیح اور غیر صحیح میں کوئی فرق نہیں کرسکتے۔ اورنہ ہی انہیں ان کے دلائل اوران کے مآخذ کا علم ہوتاہے۔بلکہ وہ بھی جن مسائل میں تقلید کرتے ہیں تو مطلق اہل تقلید میں سے ہیں ۔ اورپھر یہ جمہور پر اختلاف کا عیب لگاتے ہیں ؛ حالانکہ جو کچھ یہ لوگ اپنے ائمہ سے نقل کرتے ہیں ؛ اس میں بھی تو اختلاف ہے۔ اور جو کچھ ان کے ائمہ سے منقول نہیں ہے؛ [یعنی وہ بعد کی روایات ہیں ؛] اس میں تواتنا اختلاف ہے جس کا شمارممکن نہیں ۔چہارم :.... ان سے یہ کہا جائے گاکہ: اس میں کوئی شک نہیں جو کچھ فقہاء سے نقل کیا جاتا ہے؛ جیسے امام ابو حنیفہ ؛ امام مالک ؛ امام شافعی؛ امام احمد بن حنبل اور دیگر حضرات رحمہم اللہ ؛ وہ اس کی نسبت بہت زیادہ صحیح ہے جو کچھ روافض عسکریین اور محمد بن علی الجواد اور ان کے امثال و ہمنواؤں سے نقل کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حضرات ان کے ائمہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے بہت بڑے عالم تھے۔پس جو کوئی سچے اور عالم کی روایات کو چھوڑ کر جھوٹے اور مرجوح کی روایات کی طرف عدول کرے؛ تو یقیناً وہ اپنے دین یا عقل یا ان دونوں چیزوں میں مصیبت کا شکار ہے۔تو اس سے واضح ہوگیا کہ امامیہ جو کچھ اپنی فضیلت میں حکایات بیان کرتے ہیں ؛ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ان کے خصائص میں سے نہیں ہے؛ اس کے کہ ان لوگوں نے جو ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ گھڑ لیا ہے۔ اس میں بھی ان کے ساتھ ایسے لوگ شریک ہیں جو ان سے بھی زیادہ برے ہیں ۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے ؛ خواہ وہ حق ہو یاباطل؛تو ان کے علاوہ دوسرے لوگ جو اہل سنت میں سے ہیں ؛ اور خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے قائل ہیں ؛ان میں سے بھی بعض کا وہی قول ہے۔اور ائمہ کی عصمت کا عقیدہ جو امامیہ کے ساتھ خاص ہے؛ وہ دین و عقل سے دوری اور فساد کی انتہاء پرہے۔اوریہ عقیدہ ان بہت سارے عبّاد [زہاد] کے عقیدہ سے بھی برا ہے جو اپنے مشائخ کے محفوظ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور ان بہت سارے قدیم اہل شام بنو امیہ کے متبعین کے عقیدہ سے بھی برا ہے جو کہتے تھے کہ بیشک امام کی اطاعت ہر چیز میں واجب ہے۔ اور یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو حاکم بناتا ہے تو اس کی نیکیوں کو قبول کرتاہے؛ اور اس کی برائیوں سے درگزر کردیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشائخ کی شان میں غلو کرنے والے؛ اگرچہ اپنے شیخ کی شان میں غلو کرتے ہیں ؛ مگر پھر بھی وہ ہدایت کو اس شیخ تک محصور نہیں سمجھتے؛ او رکسی دوسرے کی اتباع سے منع نہیں کرتے۔ اور نہ ہی کسی ایسے انسان کو کافر کہتے ہیں جو ان کے شیخ کا معتقد نہ ہو۔ اور نہ ہی اپنے شیخ کو معصوم کہتے ہیں ؛ جیسے یہ روافض کہتے ہیں ۔ ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی انسان دین سے بالکل ہی نکل گیا ہو؛ تو وہ شیوخ کے شان میں انتہائی غلو کرنے والوں میں سے ہے جیسے اسماعیلیہ ؛ نصیریہ اور روافض ہیں ۔بہر حال ان میں شر اور برائی دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اور دوسروں کی نسبت یہ لوگ بڑے غالی ہیں ۔جبکہ دوسرے لوگوں کی برائی ان کی برائی کا ایک جزء ہوتی ہے۔جہاں شام کے غالی بنو امیہ کے اتباع کاروں کا تعلق ہے؛ جو کہتے ہیں : کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو حاکم بناتا ہے تو اس کی نیکیوں کو قبول کرتاہے؛ اور اس کی برائیوں سے درگزر کردیتا ہے۔اور کبھی یہ بھی کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ نہیں کریں گے۔‘‘اسی لیے ولید بن عبد الملک نے بعض علماء سے[یہ مسئلہ] پوچھا تھا؛ تو انہوں نے جواب دیا:اے امیر المؤمنین ! کیا آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ عزت والے ہیں یا حضرت داؤد علیہ السلام ؟ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :﴿یٰا دَاوٗدُ اِِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ﴾(ص 26)’’ اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، سو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور خواہش کی پیروی نہ کر، ورنہ وہ تجھے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ، ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ وہ حسا ب کے دن کو بھول گئے۔‘‘ایسے ہی سلیمان بن عبد الملک کا بھی اس سلسلہ میں ابو حازم المدنی سے سوال مشہور ہے؛ جو ان کے مشہور وعظ میں کیا تھا: تو انہوں نے بھی اس کے جواب میں یہی آیت پڑھی تھی۔ان لوگوں کی غلطیوں اور گمراہیوں کے باوجود یہ کہتے تھے : امام منصوب کی اطاعت اللہ تعالیٰ نے موارد اجتہاد میں واجب کی ہے۔ جیسا کہ جنگی کمانڈر او رفیصلہ کرنے والے جج کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔وہ ان کے اقوال کو شریعت نہیں قراردیتے کہ ہر ایک پر ان کی اطاعت واجب ہو۔ اور نہ ہی انہیں خطا سے معصوم سمجھتے ہیں ۔ اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ امام کو سارے دین کا پتہ ہوتا ہے۔لیکن ان لوگوں میں سے جنہوں نے غلطی کی؛ انہوں نے دو وجہ سے غلطی کی ہے۔اول یہ کہ وہ لوگ حاکم کی اطاعت کو مطلق طور پر فرض سمجھتے تھے۔ اور کہتے تھے : اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ دوم یہ کہ: ان میں سے جو لوگ کہتے تھے کہ : جب اللہ تعالیٰ کسی کو حاکم بناتا ہے تو اس کی نیکیوں کو قبول کرتاہے؛ اور اس کی برائیوں سے درگزر کردیتا ہے۔تو ان لوگوں کی غلطی اور رافضہ کی گمراہی کے درمیان کیا نسبت ہوسکتی ہے جو اپنے ائمہ کو معصوم کہتے ہیں ۔پھر اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہ مسائل جن سے وہ جمہور اہل سنت سے جداگانہ نظریات رکھتے ہیں ؛ وہ سبھی غلطی پر ہیں ۔ اور جو کچھ ان کے پاس حق موجود ہے؛ در حقیقت وہ جمہور اہل سنت یا بعض اہل سنت کا قول ہوتا ہے۔ اور ہم یہ نہیں کہتے کہ: ’’تمام اہل سنت و الجماعت کے گروہ حق و صواب پر ہیں ؛ بلکہ ان میں سے بعض سے غلطی بھی ہوتی ہے؛ اور حق و صواب کو بھی پالیتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے ہر ایک گروہ کے پاس موجود حق و صواب شیعہ کے ہاں موجود حق و صواب سے بہت زیادہ ہے اور شیعہ کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں ۔رہے وہ مسائل جن میں شیعہ تمام اہل سنت گروہوں سے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ؛ وہ تمام کے تمام غلط ہیں ۔ان کے ساتھ ذرہ بھر بھی حق نہیں ہے؛ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض اہل سنت نے بھی ایسا کچھ کہا ہو۔پس اس قدر بحث سے یہ دعوی باطل ہو جاتا ہے کہ امامیہ کا عقیدہ راجح ہے۔ بلا شک و شبہ اس قدر بحث سے یہ واضح ہوگیا کہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہی صحیح معنوں میں راجح ہے۔ اور ہر مقام کے لیے اس کے مناسب گفتگو ہوتی ہے۔اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب ایمان اور کفر کے مابین مفاصلہ ہو تو ایمان ان لوگوں کے نزدیک راجح ہوتا ہے جو اسے راجح سمجھتے ہیں ؛ او رایسے ہی جب خیر و شر کے مابین مفاضلہ ہوتو خیر راجح ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ اتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرٰھِیْمَ خَلِیْلًا﴾[النساء ۱۲۵]’’ اور دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کے لیے تابع کر دیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی) طرف ہو جانے والا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (الجمعۃ 9) ’’جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو ۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکَی لَہُم﴾ (النور30) ’’ مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰی اَہْلِہَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ ﴾ (النور 27) ’’اے ایمان وا لو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ انس معلوم کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔‘‘بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اس پراپنی فضیلت بیان کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجا جاتا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ ئٰ آللّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَ ﴾(النمل 59) ’’کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے، یا وہ جنھیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں ؟۔‘‘اورجیسا کہ اہل ایمان جادوگروں کا قول نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ اللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ﴾[طہ ۷۳]’’اور اللہ تعالیٰ بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘ایسے ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ بیشک اگر ان کے درمیان تقابل کیا جائے تو کفار کے جرائم بہت بڑے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ﴾(البقرہ ۲۱۷)’’وہ آپ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں ، فرما دیجیے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے ....۔‘‘پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ﴾(البقرہ ۲۱۷)’’ اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا ؛ اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور یہاں کے باشندوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے ....۔‘‘یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مشرکین نے مسلمانوں کے ایک سریہ کو عار دلائی ؛ انہوں نے ایک آدمی کو حرمت والے مہینے میں قتل کردیا تھا۔اس کا نام ابن حضرمی تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ﴾[البقرۃ ۲۱۷]’’وہ آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑنے کا پوچھتے ہیں ، فرما دیجیے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے۔‘‘پھر یہ بیان کردیا کہ مشرکین کے گناہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑے ہیں ۔جہاں تک اس کے تفصیلی پہلو کا تعلق ہے ؛ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ لَیْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَ لَآ اَمَانِیِّ اَھْلِ الْکِتٰبِ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا یُّجْزَ بِہٖ وَ لَا یَجِدْلَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لِیًّاوَّ لَا نَصِیْرًاO وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًاOوَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ اتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرٰھِیْمَ خَلِیْلًا﴾’’ نہ تمھاری آرزوؤں پر (موقوف ہے) اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی اور وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی دوست پائے گا اور نہ کوئی مدد گار۔اور جو شخص نیک کاموں میں سے (کوئی کام) کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور کھجور کی گٹھلی کے نقطے کے برابر ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔اور دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کے لیے تابع کر دیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی) طرف ہو جانے والا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔‘‘[النساء ۱۲۳۔۱۲۵]اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ ھَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَ اَنَّ اَکْثَرَکُمْ فٰسِقُوْنَO قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃً عِنْدَ اللّٰہِ مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ عَلَیْہِ وَ جَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ اُولٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًاوَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ﴾[المائدۃ ۶۰]’’ کہہ دے اے اہل کتاب! تم ہم سے اس کے سوا کس چیز کا انتقام لیتے ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو اس سے پہلے نازل کیا گیا اور یہ کہ بے شک تمھارے اکثر نافرمان ہیں ۔کہہ دے کیا میں تمھیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بتاؤں ، وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور جن پر غصے ہوا اور جن میں سے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔ یہ لوگ درجے میں زیادہ برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔‘‘٭٭٭