Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مذہب شیعہ میں ممتوعہ عورت کے لیے میراث نہیں ہے

  مولانا اللہ یار خانؒ

مذہب شیعہ میں ممتوعہ عورت کے لیے میراث نہیں ہے

 ولا توارث بينهما الا مع شرطه فی العقد فيثبت حيثما يشرطانه اما انتمانه بدون الشرط فلا اصل ولان اصل حكم شرعى يتوقف بثوتهٖ علىٰ ترظيف الشارع عليه السلام ولم يثبت هنابل الثابت خلافه لقوله الصادق عليه وسلم من حدودها ان لا ترتك۔

(شرح للمعہ: صفحہ 84)۔

 ممتوعہ اور متمتع کے درمیان کوئی میراث جاری ہوگا مگر اس وقت کہ شرط کر لیں وقتِ متعہ کے پس وقت شرط میراث کے میراث ہوگی اگر شرط نہ کی گئی تو میراث ثابت نہ ہوگی، بدوں شرط کے چونکہ قانون یہی ہے اور قانون شرعی کا ثبوت شارع علیہ السلام پر موقوف ہوتا ہے جس کے لیے حضرت شارع علیہ السلام نے وظیفہ مقرر فرمایا ہے اس کے لیے ثابت ہوگا ورنہ نہیں اور شارع علیہ السلام سے اس کے خلاف ثابت ہے چونکہ سیدنا جعفرؓ نے فرمایا کہ متعہ کی تعریف میں داخل ہے کہ ممتوعہ تمہاری وارث نہ ہوگی۔

عن زراره بن اعيين عن ابى جعفر عليه السلام قال ليس بينهما ميراث اشترطا اولم بیشترطاء۔ 

زراره سیدنا باقرؒ سے بیان کرتا ہے کہ امام نے فرمایا ہے کہ متعہ میں میراث نہیں ہے خواہ شرط کریں یا نہ کریں میراث نہ ہوگی۔

عن ابی عبد الله عليه السلام يحل الفرج بثلات نكاح ميراث ونكاح بلا ميراث وبملك يمين اتزوجك متعة على كتاب الله وسنة نبيهﷺ نکاحا غير سفاح وعلى ان لا ترثنى ولا ارثك كذا و كذا۔ 

(فروع کافی: جلد 2 صفحہ 191)۔

سیدنا جعفرؒ کا بیان ہے کہ عورت تین وجہ سے حلال ہوتی ہے نکاح جس میں میراث ہے اور دوم نکاح جس میں میراث نہیں ہے جیسا متعہ اور ساتھ لونڈی کے اور متعہ کرنے والا یوں کہے کہ میں تجھ سے متعہ کرتا ہوں کتاب اللہ و سنت رسول اللہ پر نکاح نہ سفاح اور اس شرط پر کہ تو میری وارث نہ ہوگی اور میں تمہارا وارث نہ ہوں گا۔

وعلى ان لا ترثنى ولا ارثك۔

ابو بصیر سے روایت ہے کہ متعہ میں یہ شرط ہے کہ تو میری وارث نہ ہوگی میں تمہارا وارث نہ ہوں گا۔

فائدہ: میراث نہیں تو زوجہ بھی نہیں۔

علی نقی شیعہ نے اپنی کتاب کے صفحہ 144 سے 145 تک ممانعت متعہ و حرمت نکاح مؤقت کی احادیث پر تمسخر اڑایا۔ ان میں اختلاف ہے ایک کچھ کہتا ہے دوسرا کچھ کہتا ہے۔

الجواب: علی نقی شیعہ متعہ اور نکاحِ مؤقت کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں تمام حرمت پر متفق ہیں خود سمجھ نہ آئے تو کسی عالم سنّی سے پوچھ لیا ہوتا تو رسوائی کی نوبت نہ آتی، متعہ اور نکاح مؤقت کے تعینِ وقت میں اختلاف پیدا ہوا ہے نہ حرمتِ میں نفسِ حرمتِ متعہ میں اختلاف اور چیز ہے اور تعینِ وقت میں اختلاف اور چیز ہے۔

اب ذرا جواب تمسخر بھی سن لینا! سوائے فرقہ شیعہ کے تمام عالمِ اسلام کا اتفاق ہے کہ متعہ بزبانِ رسول اللہﷺ حرام ہو چکا ہے اور شیعہ علماء میں بھی کچھ نہ پوچھیے کیا چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں سبحان اللہ! جتنے منہ اتنی باتیں، ایک محقق فرماتے ہیں کہ ممتوعہ عورت زوجہ منکوحہ میں داخل ہے، دوسرا محمد بن مسلم، واہ جی محقق سیدنا جعفرؒ تو فرماتے ہیں: "لیست من الاربع ولا ثرث وانما مستاجرۃ" ممتوعہ زوجہ نہیں نہ ہی وارث ہوگی یہ تو اُجرت پر لی گئی ہے کہ اس سے وطی کی جائے گی زوجہ کہاں ہے؟ تیسرا عمر بن ادنیہ شیعہ، آپ نے واہ کہی سیدنا جعفرؒ تو ممتوعہ کو باندی کے حکم میں فرماتے ہیں مستاجرہ کہاں "فقال بمنزلة الاماء" یہ بمنزلہ لونڈیوں کے ہیں۔ چوتھے شیعہ نے تو یہ بات نئی کہی ہم ہرگز ماننے کے لیے تیار نہیں کہ سیدنا جعفرؒ نے متعہ کو نکاح بلا میراث فرمایا تھا یہ بمقابلہ باندی کے اور متعہ و ملک یمین میں، تو امام نے تضاد و تقابل قائم کیا ہے۔ پھر باندی کیسی؟ پانچواں شیعہ، آپ لوگوں کی باتوں پر کون اعتبار کرے سیدنا جعفرؒ نے متعہ کو کب نکاح فرمایا ہے نکاح میں تو ایجاب و قبول ہوتا ہے جو نکاح کے رکن ہیں جبکہ متعہ کے رکن سیدنا جعفرؒ دو فرماتے ہیں "لا يكون المتعة الا بامرين اجل مسمى واجر مسمى" متعہ کے لیے دو امر ضروری ہیں وقتِ مقررہ اجرتِ مقرہ لہٰذا یہ مستاجرہ عورت بازاری ہوئی نہ کہ منکوحہ چھٹا شیعہ، او بھائیو! بے اتفاقی بری چیز ہوتی ہے میں فیصلہ کرتا ہوں ائمہ کرام کا کلام ایک راز ہوتا ہے جو ملک مقرب و نبی مرسل و مومن جس کے دل کا خدا امتحان کر چکا ہو ان کے علاوہ کسی کی سمجھ ہی نہیں آتا نہ کوئی سمجھ سکتا ہے ویسے تم خود بھی جانتے ہو ایک ہی سیدنا جعفرؒ کسی وقت تو ممتوعہ کو بازاری عورت پیشہ و مستاجرہ فرماتے ہیں اور پھر اس کو باندی بھی فرماتے ہیں کبھی ایجاب قبول شرط فرماتے ہیں متعہ میں کسی وقت صرف اجرت مقرر ہو اور کبھی وقت یہ کیا دین ہے یا تمسخر؟۔

علی نقی شیعہ! آپ نے اپنے گھر کا اتفاق سن لیا ہے؟