Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلے میں علمائے دیوبند کا معتدل موقف

  نقیہ کاظمی

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں علمائے دیوبند کا معتدل موقف

حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد روئے زمین کی سب سے برگزیدہ جماعت ہیں، قرآن کریم میں ان کی ایمانی صداقت، ان کے فضائل و کمالات وضاحت کے ساتھ موجود ہیں، ان سے رضائے الہٰی کی شہادت کی بھی بار بار صراحت ہے؛ ان سب کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح معصوم نہیں ہاں محفوظ ضرور ہیں؛ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے کسی غلطی پر اصرار نہیں کیا، غلطی ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی مانگ لی، توبہ و استغفار کر لیے؛ اس لیے پوری امت کا عقیدہ ہے کہ گناہ کے صادر ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آیا، رضائے الہٰی اور رحمتِ خداوندی کے مینارۀ نور پر وہ بہ دستور فائز ہیں، ان سے ان کی عدالت ہرگز مجروح نہیں ہوئی، پوری اُمت نے بڑے ہی احترام کے ساتھ ان کو ”الصحابةُ کلُّھم عَدُول“ کا سہرا پہنایا ہے۔
قیامت تک وہی فرقہ اہلِ حق کہلائے گا جو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے مطابق دین کی تشریح کرے گا، جو فرقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روِش سے جتنا دور ہو گا، وہ حق سے اتنا ہی دور ہو گا، اور جو جتنا قریب ہو گا وہ حق سے اتنا ہی قریب ہو گا، اہلِ سنت والجماعت کا کوئی فرد ایسا نہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کو جائز سمجھتا ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر امتِ مسلمہ میں سلف و خلف کا اجماع ہے، محدثین نے روایتِ حدیث کی تحقیق میں جرح و تعدیل کے اصول مرتب کیے؛ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی چوکھٹ پر آ کر سب کے سب رُک گئے، کسی نے ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔ ہر ایک نے سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عادل و صادق قرار دیا، کسی کو نقد و جرح کا نشانہ نہیں بنایا۔
اہلِ سنت والجماعت کے علاوہ فرقوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نشانہ بنایا، مثلاً ماضی بعید میں معتزلہ اور خوارج نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تنقید کا نشانہ بنایا، شیعوں نے مخالفت میں نہایت مکروہ روش اختیار کی، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر و مرتد کہتے ہوئے بھی نہیں چوکتے، عصرِ حاضر کے بعض فرقے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں انہی باطل فرقوں کی روش پر ہیں؛ مثلاً ”جماعتِ اسلامی کے سربراہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے جگہ جگہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کی ہے، ان کی کتاب ”خلافت و ملوکیت“ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، ایک جگہ نہایت ہی بے باکی سے لکھتے ہیں:
”محض صحابیت کے شرف سے کوئی غلطی ”شریف کام“ نہیں بن سکتا بلکہ صحابی کا بلند مقام اس غلطی کو حد درجہ نمایاں کر دیتا ہے۔“ 
(خلافت و ملوکیت: صفحہ، 143)
مولانا مودودی نے جماعتِ اسلامی کے دستور میں یہ وضاحت کی ہے کہ اللہ اور رسول اکرمﷺ کے علاوہ کوئی بھی تنقید سے بالاتر نہیں۔
(دستور جماعت اسلامی: صفحہ، 5)
گویا انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرنے کو اپنے اصول میں داخل کیا ہے۔ ان کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کی کوئی اہمیت نہیں، یہ بھی شیعہ اور خوارج کی طرح اہلِ سنت والجماعت کی راہِ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں۔
عصرِ حاضر کے فرقوں میں غیر مقلدین بھی اہلِ سنت والجماعت کے طرزِ فکر و عمل سے منحرف ہیں، انہوں نے آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درِ خور اعتناء نہیں سمجھا، اجماعِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا انکار کیا، اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے ”بیس رکعات تراویح“ کو بدعتِ عمری قرار دیا، ”جمعہ کی پہلی آذان“ کو بدعتِ عثمانی قرار دیا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے رسول اللہﷺ سے ترکِ رفع یدین کو نقل کیا تو ان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجتہادات ان کے فتاویٰ اور تفاسیر کو ناقابلِ اعتبار ٹھہرایا، بعض غیر مقلدین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بغض و نفرت کا شدید اظہار کیا ہے؛ چنانچہ:
 مشہور غیر مقلد عالم مولانا وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں:
”بعض صحابہؓ فاسق تھے“ 
(نزل الأبرابر: جلد، 2 صفحہ، 94) 
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ: 
”سیدنا امیرِ معاویہؓ پر دنیا کی طمع غالب ہو گئی تھی، ان کو تمام خاندانِ رسالت سے دشمنی تھی“۔ 
(لغات الحدیث: جلد، 2 صفحہ، 14) 
ایک جگہ انہوں نے حضرت امیرِ معاویہ و حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما دونوں کو باغی سرکش اور شریر لکھا ہے۔ 
(لغات الحدیث: جلد، 2 صفحہ، 36)
ایک دوسرے غیرمقلد عالم مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: 
”سیدہ عائشہؓ حضرت علہؓ سے لڑتے ہوئے مرتد ہوئی، اگر بے توبہ مری تو کافر مری“۔ 
ایک جگہ لکھتے ہیں:
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں، ہم کو سب حدیثیں یاد ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہمارا علم بڑا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو علم کم تھا“۔ 
(کشف الحجاب:صفحہ، 21)
ایک دوسرے غیرمقلد جناب حکیم فیض عالم لکھتے ہیں: 
”سیدنا علیؓ کے خود ساختہ حکمرانہ عبوری دور کو خلافتِ راشدہ میں شمار کرنا صریحاً دینی بددیانتی ہے“۔ 
اس طرح کی گستاخی اس کتاب میں متعدد جگہوں پر موجود ہے۔ 
(خلافتِ راشدہ: صفحہ، 55، 56)
ایک جگہ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کی توہین کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
”حضراتِ حسنین کریمین کو زُمرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار کرنا صریحاً سبائیت کی ترجمانی ہے، یا اندھا دھند تقلید کی خرابی۔“ 
(سیدنا حسن بن علی: صفحہ، 23)
ایک جگہ لکھتے ہیں: ”سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی موت کے متعلق اپنی تالیفات ”عترتِ رسول اللہﷺ“ اور ”حسن بن علی“ میں دلائل کے ساتھ ثابت کر چکا ہوں کہ کثرتِ جماع، ذیابیطس اور تپِ محرقہ سے ہوئی، آپؓ کہاں شہید ہوئے تھے اورآپؓ کو کس نے شہید کیا تھا؟“۔ 
(خلافتِ راشدہ: صفحہ، 115)
ایک جگہ لکھتے ہیں: ”سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کثرت سے حرام کی زندگی (کثرتِ جماع) کے دل دادہ تھے، جس کی وجہ سے آپؓ کو بعض روایات کے مطابق آخری ایام میں سِل کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔“ 
(سیدنا حسن بن علی: صفحہ، 80)
غیر مقلدین شیعوں کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تئیں سب سے زیادہ گستاخ ہیں، مذکورہ بالا مثالیں محض نمونہ کے لیے دی گئی ہیں، ورنہ ان کی کتابیں اس طرح کے مکروہ مواد سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ لوگ ”عظمتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم“ کے عنوان سے جہاں کہیں پروگرام کرتے ہیں وہ محض اہلِ سنت والجماعت کو دھوکہ دینے کے لیے کرتے ہیں کہ آؤ! غیر مقلدیت قبول کر لو، ہم بھی تمہاری طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مانتے ہیں، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ شیعوں کی طرح تقیہ کرتے ہیں۔
علمائے دیوبند نے سلفِ صالحین کی طرح بلا استثناء سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عادل و معتبر سمجھا ہے، ان کے نزدیک احکامِ شرعیہ کے لیے ایک طرف آیات و احادیث مآخذ ہیں، دوسری طرف آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی مآخذِ شریعت ہیں، ان سے بھی شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں؛ اس لیے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو براہِ راست دیکھا، اسلام کا کون سا حکم ناسخ اور کون سا حکم منسوخ ہے؟ یہ وہی بتا سکتے ہیں، کون سا عمل آپﷺ کے لیے خاص تھا اور کون سا امت کے لیے تھا؟ سب کو اچھی طرح جانتے تھے۔
قرآن و حدیث کی تشریحات کے ناقابلِ اعتماد ہونے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درمیان سے نکال دیا جائے، مسلمانوں کے جس فرقے نے آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درمیان سے نکال دیا، ان کی تحریروں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے دین میں اپنی طرف سے بہت سی باتیں بڑھا دی ہیں؛ بلکہ انہوں نے دین اور احکامِ شرعیہ کو کھلونا بنا رکھا ہے شیعہ، جماعتِ اسلامی اور غیر مقلدین سب نے ایک ہی حجام سے سر مونڈوایا ہے۔
علمائے دیوبند نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں بار بار درج ذیل موقف کی صراحت کی ہے کہ:
1: حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور منتخب بندے ہیں، انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ جن و اِنس کا کوئی بھی فرد ان کے مقام و مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
2: عہدِ نبوی کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور سب سے بہتر ہے۔
3: صحابہ کرام کی محبت رسول اللہﷺ سے محبت کی علامت ہے اور اُن سے بغض و عناد رسول اللہﷺ سے بغض و عناد کی نشانی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اذیت دینا خود رسول اللہﷺ کو اذیت دینے کے مترادف ہے۔
4: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عیب جوئی کرنا اور ان کو تنقید و تنقیص کا نشانہ بنانا حرام، ناجائز اور اکبر الکبائر گناہ ہے۔
5: امت کا سارا مجد و شرف، بزرگی اور وقار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ وابستگی پر موقوف ہے، اور ان کا قول و عمل امت کے لیے حجت ہے۔
جو لوگ رطب و یابس تاریخی روایات پر اعتماد کر لیتے ہیں، اور محض ان بے سروپا روایات کی وجہ سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سخت و سست تنقید کرنے لگتے ہیں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فقہائے امت نے اس کی تاکید فرمائی ہے کہ عقائد و احکام اور حلال و حرام کے باب میں ان روایات کی ہرگز کوئی اہمیت نہیں وہ ناقابلِ اعتبار ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عقیدت و احترام کا راست تعلق عقائد سے ہے، عقیدے کے بغیر دین و ایمان سلامت نہیں رہ سکتا۔ 
(مقامِ صحابہ: صفحہ، 23)
اخیر میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی نَوَّرَ اللہ مَرْقَدَہ کا ایک مکتوب نقل کرنا مناسب ہے، فرماتے ہیں:
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں جو آیات وارد ہیں وہ قطعی ہیں، جو احادیثِ صحیحہ ان کے متعلق وارد ہیں وہ اگرچہ ظنی ہیں؛ مگر ان کی اسانید اس قدر قوی ہیں کہ تواریخ کی روایات ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس لیے اگر کسی تاریخی روایت میں اور آیات و احادیثِ صحیحہ میں تعارض واقع ہو گا تو تواریخ کو غلط کہنا ضروری ہو گا“۔ 
(مکتوباتِ شیخ الاسلام: جلد، 1 صفحہ، 242 مکتوب نمبر: 88)