ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کا کردار
علی محمد الصلابیابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کا کردار:
عام طور پر اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خادموں کی پرو ا نہیں کرتے، ان کے امور کا اہتمام نہیں ہوتا ہے لیکن اللہ والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ جس سے بھی ملتے ہیں اس کی ہدایت کی فکر ان کو دامن گیر ہوتی ہے اور اس کی خاطر پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو علم وادب سکھایا اور ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ اسلام اور خدمت دین کی خاطر قربان ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سلسلہ میں ان کے لیے اہم کردار و ذمہ داری متعین فرمائی، وہ مکہ کے چرواہوں کے ساتھ بکریاں چراتے، کسی چیز کی طرف التفات نہ کرتے، جب شام ہوتی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بکریاں لے کر غار کے پاس پہنچتے اور دودھ پیش کرتے، پھر عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما صبح کے وقت غار سے واپس ہوتے، اپنی بکریاں لے کر ان کے پیچھے نکلتے تاکہ ان کے قدموں کے آثار مٹ جائیں۔ سفر ہجرت کو کامیاب بنانے میں انتہائی ذہانت اور فطانت کو کام لانے کا اس سے پتہ چلتا ہے۔
(تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: 115)
یہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے امت کو اہم سبق ملتا ہے تاکہ وہ اپنے ان خادموں کا اہتمام کریں جنہیں مشرق ومغرب سے لاتے ہیں اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا معاملہ کریں، پھر انہیں اسلام کی تعلیم دیں، امید کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے دین کے حاملین تیار کرے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے اپنے خاندان کو تیار کیا، اس سے یہ بات روز روشن کی طرح آشکارا ہو جاتی ہے کہ آپ نے تمام امور کی تدابیر انتہائی دقیق اور نرالے انداز میں کی تھیں، انتہائی حکیمانہ اسلوب میں احوال و ظروف کے مطابق احتیاط کو ملحوظ رکھا تھا، ہر شخص کو اس کے موزوں و مناسب مقام پر رکھا تھا۔ خطرات کے تمام دروازوں کو بند کر دیا تھا اور اتنے ہی اشخاص پر اکتفا کیا جن کی ضرورت تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی استطاعت وطاقت بھر معقول اسباب کو اختیار کیا… اور پھر اللہ کی کرم نوازیاں شامل حال ہوئیں۔
(اضواء علی الہجرۃ: توفیق محمد: صفحہ، 393 تا 397)
اسباب کو اختیار کرنا امر ضروری اور واجب ہے لیکن اس سے ہمیشہ نتائج کا حصول لازم نہیں کیونکہ نتائج کا تعلق اللہ رب العالمین کے امر اور مشیت سے ہے، اس لیے توکل انتہائی ضروری ہے اور یہ اسباب کی تکمیل میں داخل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اسباب ووسائل کو اختیار کیا لیکن پھر بھی اسی وقت اللہ سے دعا جاری رکھی کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے، پھر دعا قبول ہوئی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
(معین السیرۃ: 148)