Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مرتکب کبیرہ کے متعلق بحث

  امام ابنِ تیمیہؒ

[مرتکب کبیرہ کے متعلق بحث:]اس باب میں اہل علم کے ہاں متواتر و مستفیض اور کثیر احادیث ہیں ۔ یہ حضرات یہ نہیں کہتے کہ ہم احکامِ مطلقہ میں توقف کے قائل ہیں ، بلکہ ہم جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ بعض مرتکبین کبیرہ کو جہنم میں داخل فرمائیں گے۔ جبکہ بعض دوسرے متعدد اسباب کی بنا پر جہنم میں داخل نہیں ہوں گے۔ البتہ ان میں اختلاف ہے تو اس امر میں ہے کہ :٭ آیا جو لوگ جہنم میں داخل ہوں گے وہ دخولِ جہنم کو مقتضی کسی سبب کی بنا پر داخل ہوں گے جیسے گناہوں کی عظمت و کثرت اور داخل نہ وہنے والے کسی ایسے سبب کی وجہ سے داخل نہ ہوں گے جو دخولِ نار میں مانع ہو، جیسے نیکیاں جو دخولِ نار کے معارض ہوں ؟ ٭ یا یہ امر محض رب تعالیٰ کی حکمت و مشیت کے سپرد ہے کہ وہ اپنی حکمت و اسباب کے تحت جو چاہتا ہے کرتا ہے؟٭ یا یہ بات ہے کہ رب تعالیٰ دو ایک جیسوں میں محض اپنی مشیت سے فرق کرتا ہے، چنانچہ ایک تو معاف فرما دیتا ہے اور دوسرے کو نذر آتش کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ ہر اعتبار سے پہلے کے مشابہ و متماثل ہوتا ہے۔غرض اس بارے ان حضرات کے دو اقوال ہیں جبکہ نصوص اور اسلاف کے اقوال پہلے قول کے موافق ہیں ۔ ہم شخص معین کے بہشتی یا دوزخی ہونے میں توقف ضرور کرتے ہیں لہٰذا ہم کسی قطعی اور جزمی علم کے ساتھ اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دیتے۔ کیونکہ ہم اس کے باطن کی حقیقت کا اور جس ایمان و عقیدہ پر وہ مرا ہے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ البتہ ہم نیکوکار کے جنتی ہونے کی امید کرتے ہیں اور برائیوں کے مرتکب پر ڈرتے ہیں ۔ پھر ان کے شہادت بالجنۃ کی بابت تین اقوال ہیں :۱۔ کوئی پیغمبروں کے سوا کسی کے حق میں بھی جنت کی شہادت کا قائل نہیں ۔ یہ محمد بن حنفیہ اور اوزاعی کا قول ہے۔۲۔ کوئی ہر اس مومن کے حق میں جنت کی شہادت دیتا ہے جس کے بارے میں نص آ گئی ہے۔ یہ اکثر اہل حدیث کا قول ہے۔۳۔ جبکہ تیسرے لوگ وہ ہیں جو ان مذکورہ بالا دونوں طبقوں کے لیے بھی جنت کی شہادت دیتے ہیں ور ان کے حق میں بھی جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں جن کی ایمان والے شہادت دیتے ہیں ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔‘‘ارشاد نبوی ہے: ’’عنقریب تم جنتیوں کو جہنمیوں سے پہچان لو گے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کس بات کے ذریعے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اچھی اور بری تعریف کے ذریعے۔‘‘[1][1] اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی کہ کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کو اس ذریعہ سے جانا جا سکتا ہے۔ ابوثور کہا کرتے تھے: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ امام احمد جنت میں ہیں ‘‘ اور دلیل میں یہ حدیث پیش کیا کرتے تھے۔ غرض یہ موقع اس مسئلہ کی تفصیل کا نہیں ہے۔ان کے نزدیک ایمان میں تفاضل پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایک کا ایمان دوسرے کے ایمان سے زیادہ کامل ہو سکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’سب سے کامل مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ۔‘‘[2] [2] یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ (دیکھیں : سنن ابی داود: ۴؍۳۰۴، جامع الترمذی: ۲؍۳۱۵، ۴؍۱۲۲) امام ترمذی حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں : اس باب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث بھی ہے اور حدیث ابی ہریرہ حسن اور صحیح ہے۔ یہ حدیث سنن الدارمی (۲؍۳۲۳)، مسند احمد (۱۳؍۱۳۳) طبعۃ المعارف میں بھی ہے۔

ان حضرات کا کہنا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo﴾ (المائدۃ: ۲۷)’’اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔‘‘کہ اس آیت میں متقی سے مراد وہ ہے جو اپنے اس عمل میں بھی ڈرتا رہتا ہو اور مراد گناہوں سے خالی ہونا نہیں ہے اور نہ صرف شرک سے خالی ہونا ہی مراد ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ جو اپنے عمل میں ڈرتا رہے، اس کا عمل مقبول ہوتا ہے۔ چاہے اس کے دوسرے گناہ بھی ہوں ۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ﴾ (ہود: ۱۱۴)’’اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں ۔‘‘گناہ گار سے اس کی نیکی قبول نہ کی جاتی ہوتی تو اس کی نیکی گناہ کو مٹاتی بھی نہ ہوتی۔ جبکہ کتاب اور سنت متواترہ میں یہ بات ثابت ہے کہ نیکیوں اور برائیوں کو باہم تولا جائے گا۔ پس اگر کبیرہ گناہ سرے سے نیکیوں کو مٹا ہی دیتے ہوتے تو نیکیاں ان کے ساتھ تلتی کیونکر؟ جبکہ صحیحین میں ثابت ہے کہ ’’ایک رنڈی نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تو رب تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۴؍۱۷۳۔ حدیث کی عبارت یہ ہے: ’’ایک دفعہ ایک کتاب ایک کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا، پیاس اس کی جان نکالنے کو تھی کہ اچانک اسے بنی اسرائیل کی ایک رنڈی نے دیکھ لیا۔ پس اس نے اپنا جوتا اتار کر اس کے ذریعے اس کتے کو پانی پلایا تو رب تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔‘‘ (صحیح مسلم: ۴؍۱۷۶۱) اور یہ اس کتے کو پانی پلانے کی نیکی کی بدولت تھا۔ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا دو میں سے ایک بیٹا مشرک نہ تھا لیکن عمدہ مال پیش کر کے اس نے رب تعالیٰ کے تقرب کا ارادہ نہ کیا تھا جیسا کہ ایک اثر میں وارد ہے، اس لیے رب تعالیٰ نے اس سے اس کی قربانی قبول نہ فرمائی۔منافقوں کے حق میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَ مَامَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوْلِہٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ہُمْ کُسَالٰی وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ ہُمْ کٰرِہُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۵۴)’’اور انھیں کوئی چیز اس سے مانع نہیں ہوئی کہ ان کی خرچ کی ہوئی چیزیں قبول کی جائیں مگر یہ بات کہ بے شک انھوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نماز کو نہیں آتے مگر اس طرح کہ سست ہوتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ نا خوش ہوتے ہیں ۔‘‘رب تعالیٰ نے ان باتوں کو قبولِ نفقہ میں موانع قرار دیا ہے ناکہ مطلق ذنوب کو۔اہل سنت و حدیث کا قول ہے: جس نے اس سے ایمان کی نفی کی ہے تو وہ بعض واجبات کے ترک کی بنا پر کی ہے اور عبادت سے اس کے بعض واجبات کی نفی سے اس کے نام کی نفی کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اب عبادت کامل بن کر باقی نہیں رہی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب سرے سے عبادت ہی باقی نہیں رہی۔ بلکہ نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بعض ایمان باقی ہے اور اسی باقی ایمان کی بدولت وہ جہنم سے نکلے گا۔پھر بعض عبادات میں واجب ہوتے ہیں جیسے، حج میں ایک واجب ایسا بھی ہے کہ جس کے ترک سے حج ناقص رہ جاتا ہے اور تارکِ واجب گناہ گار بھی ہوتا ہے۔ اس سے حج کا اعادہ تو لازم نہیں آتا البتہ دم دے دینے سے اس واجب کی تلافی ہو جاتی ہے۔ جیسے جمرات کی رمی کہ اگر اس کی تلافی نہ کی جائے تو یہ واجب ذمہ میں باقی رہ جاتا ہے۔یہی حال ایمان کا ہے کہ گناہوں سے ناقص ہو جاتا ہے البتہ توبہ سے پھر مکمل ہو جاتا ہے۔ ہاں توبہ نہ کرنے سے ناقص ہی رہتا ہے اور بندہ گناہ گار بھی ہوتا ہے۔پھر حج میں بعض افعال حرام بھی ہیں کہ جن کے ارتکاب سے حج ناقص ہو جاتا ہے البتہ باطل نہیں ہوتا۔ جیسے خوشبو لگانا، سلا لباس پہننا، کہ اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ البتہ صرف جماع ایک ایسا حرام فعل ہے جو حج کو فاسد کر دیتا ہے۔ اسی طرح صرف کفر محض ہی ہے جو پورے ایمان کو ختم کر دیتا ہے کہ اس کے ہوتے ہئے کچھ بھی ایمان باقی نہیں رہتا۔ ایسا کفر سب اعمال برباد اور اکارت کر دیتا ہے اور جو کفر اس سے کم درجے کا ہو، وہ بعض اعمال کو اکارت کرتا ہے جیسا کہ ’’آیت من و اذی‘‘ میں مذکور ہے کہ من و اذی اس صدقہ کو باطل کر دیتے ہیں ، ناکہ سب کے سب اعمال کو اور جو ’’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ کو ناپسند کرتے ہیں ، وہ کافر ہیں اور دل کے اعمال جیسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اللہ کا خوف وغیرہ کہ یہ سب ایمان میں سے ہے۔ اور ’’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ سے کراہت کفر ہے اور ایمان کا سب سے مضبوط کڑا اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے بغض رکھنا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ﴾(المجادلۃ: ۲۲)’’تو ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہیں پائے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔‘‘اور سابق، مقتصد اور ظالم لنفسہ کے بارے میں ارشاد ہے:﴿جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا﴾ (الرعد: ۲۳)’’ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے۔‘‘یہ ارشاد اس بات سے مانع نہیں کہ ظالم لنفسہ کو پہلے عذاب ہو اور بعد میں اسے جنت میں داخل کر لیا جائے ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا یَصْلَاہَا اِِلَّا الْاَشْقٰیo﴾ (اللیل: ۱۵) ’’جس میں اس بڑے بدبخت کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔‘‘اس بات سے خالی نہیں کہ صَلِيّ (یعنی دخول) سے مراد ایک طرح کا عذاب ہو۔ جیسا کہ ایک قول میں آتا ہے کہ جو جہنم میں داخل ہو گا آگ اسے چاروں طرف سے گھیر لے گی، البتہ جہنم کی آگ اہل قبلہ کے مواضع سجود کو نہ جلائے گی۔ یا یہ کہ وہ کوئی خاص قسم کی آگ ہو۔اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ﴾ (الزمر: ۱۶)’’یہ ہے وہ جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘یہ اس ارشاد نبوی کی طرح ہے جو چان اور سورج کے بارے میں ہے کہ ’’بے شک یہ دونوں رب تعالیٰ کی نشانیاں ہیں رب تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۲؍۳۶۔ صحیح مسلم: ۲؍۶۲۸۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًاo﴾ (الإسراء: ۵۹)’’اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔‘‘اور وہ نشانیاں جن کے ذریعے رب تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں یہ اس شر کا سبب ہوتی ہیں جو لوگوں میں نازل ہوتا ہے۔ پس جو مامورات کو بجا لا کر تقویٰ اختیار کرتا ہے، وہ اس شر سے بچ جاتا ہے اور اگر یہ ایسا شر ہو جس کی سرے سے کوئی حقیقت ہی نہ ہو تو کوئی بھی یہ جاننے پر اس سے نہ ڈرے کہ اس کے باطن میں تو کوئی شر نہیں اور ایسے خیالی شر سے صرف کوئی نادان، کم فہم جاہل ہی ڈرے جیسے کہ بچے جو صرف خیالی باتوں سے بھی ڈر جاتے ہیں ۔ اب رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ یَاعِبَادِ فَاتَّقُوْنِo﴾ (الزمر: ۱۶)’’ جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اے میرے بندو! پس تم مجھ سے ڈرو۔‘‘رب تعالیٰ نے بندوں کو مطلق ڈرایا ہے اور انھیں اپنے سے ڈرنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ وہ ڈرانے والی چیز کو نازل نہ فرمائے اور رسولوں کو ڈر سنانے اور خوش خبری دینے کے لیے بھیجا اور انذار یہ اس چیز کی خبر دینا ہے جس سے ڈرایا جا رہا ہے۔ ایسی ڈرانے والی باتیں دنیا میں پائی گئی ہیں اور رب تعالیٰ نے گناہوں پر بے شمار امتوں کو سزا دی ہے۔ جن کے قصے کتاب اللہ میں مذکور ہیں اور جیسا کہ آیات سے اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور رب تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مواقع پر جہنمیوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ یہ سب باتیں اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ موجود ہیں ۔یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے اختلاف کرنے والوں کے سب اقوال باطل ہیں ۔ جیسے، جب معتزلہ میں سے قدریہ اور جہمیہ میں سے جبریہ وغیرہ تقدیر میں نزاع کرتے ہیں تو سب کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کا ارادہ یہ اس کی محبت ہے جو اس کی رضا ہے۔ پھر معتزلہ کا قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ ایمان اور عمل صالح سے محبت کرتے ہیں اور کفر اور فسق و عصیان کو ناپسند کرتے ہیں لہٰذا رب تعالیٰ نے اس کاارادہ نہیں کیا۔اس کی دلیل میں وہ رب تعالیٰ کے یہ ارشادات پیش کرتے ہیں :﴿وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ﴾ (الزمر: ۷)’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ﴾ (النساء: ۱۰۸)’’جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَo﴾ (البقرۃ: ۲۰۵)’’اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘حضرات فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نیک اعمال کی دو قسمیں ہیں : (۱) واجب (۲) اور مستحبمستحب وہ عمل ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہو۔ اور منہی عنہ جملہ اعمال مکروہ ہیں ۔ اللہ اور اس کا رسول انھیں ناپسند کرتے ہیں ۔ پھر کراہت کی بھی دو قسمیں ہیں : (۱) کراہت تحریمی (۲) کراہیت تنزیہی۔محرمات کا ذکر کرتے ہوئے رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :﴿کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْہًاo﴾ (الإسراء: ۳۸)’’یہ سب کام، ان کا برا تیرے رب کے ہاں ہمیشہ سے ناپسندیدہ ہے۔‘‘صحیحین میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’رب تعالیٰ تمھارے لیے قیل و قال، کثرتِ سوال اور اضاعتِ مال کو ناپسند فرماتے ہیں ۔‘‘اور صحیح بخاری میں ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے:’’رب تعالیٰ چھینک کو محبوب رکھتے ہیں اور جمائی کو ناپسند فرماتے ہیں ۔‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۸؍۴۹، جامع الترمذی: ۴؍۱۸۰۔۱۸۱، مسند احمد: ۱۴؍۳۱۔۳۳ طبعۃ المعارف، دیکھیں : محقق کی تعلیق: مسند احمد: ۱۸؍۱۵۱۔ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عالم میں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں لہٰذا وہ رب تعالیٰ کی مراد نہ ہوں گی اور عالم میں جو باتیں رب تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی بابت امر و نہی میں سے کچھ بھی وارد نہیں ۔ان حضرات کا کہنا ہے کہ امر کا امر ہونا تب ہی عقل میں آتا ہے جب رب تعالیٰ نے اس کا ارادہ کیا ہو اور جس نے اس بات کو فرض کیا کہ آمر نے مامور بہ کو طلب تو کیا لیکن ارادہ نہ تھا اور نہ وہ طلب ارادہ کو مستلزم ہی تھی، تو اس نے ایک ایسی بات کا دعویٰ کیا جس کا فاسد ہونا بالضرور معلوم ہے اور ممتحن کے امر کی مثال دے کر جو استدلال کیا جاتا ہے تو ممتحن دراصل نہ تو مامور بہ کا طالب ہوتا ہے اور نہ باطن میں اس کا ارادہ کرنے والا ہی ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ’’مریدِ طالب‘‘ ہے۔ان لوگوں کا یہ کہنا بھی ہے کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ: ۱۸۵)’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اورتمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۶)’’اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًاo یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًاo﴾ (النساء: ۲۶۔۲۸)’’اللہ چاہتا ہے کہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرے اور تمھیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت دے جو تم سے پہلے تھے اور تم پر مہربانی فرمائے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی فرمائے اور جو لوگ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم ( سیدھے راستے سے) ہٹ جاؤ، بہت بڑا ہٹ جانا۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ) ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ (الاحزاب: ۳۳)’’اللہ توچاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔‘‘کہ یہ سب وہ مرادات ہیں جن کا رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو امر کیا ہے۔ اب کوئی ان کو بجا لاتا ہے اور کوئی ان سے سرتابی کرتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کبھی بندوں سے اس بات کا ارادہ بھی کرتے ہیں جو وہ بجا نہیں لاتے، جیسا کہ وہ انھیں اس بات کا بھی حکم دیتا ہے جس کو بجا نہیں لاتے۔اب جہمیہ میں سے قدریہ جبریہ اور ان کے پیروکاروں کا قول ہے: بلکہ رب تعالیٰ کا ارادہ موجود کو تو شامل ہے البتہ غیر موجود کو شامل نہیں ۔ کیونکہ مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ’’رب تعالیٰ نے جو چاہا وہ ہوا اور نہ چاہا وہ نہ ہوا۔‘‘ دوسرے ایسی بات کا ارادہ جس کے نہ ہونے کا علم ہو تمنا کہلاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُo﴾ (ابراہیم: ۲۷)’’اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘پس رب تعالیٰ جو چاہتے ہیں سو اس کو کیا۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْشِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰہَا﴾ (السجدۃ: ۱۳)’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔‘‘معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے اس بات کو نہیں چاہا اور اس نے ہر ایک کی ہدایت کا ارادہ نہیں کیا۔ اگرچہ اس نے اس بات کا امر بھی کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘معلوم وہا کہ رب تعالیٰ جیسے اسلام کے لیے شرح صدر کا ارادہ کرتا ہے اسی طرح گمراہ کرنے کا بھی ارادہ کرتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا:﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ﴾ (ہود: ۳۴)’’اور میری نصیحت تمھیں نفع نہ دے گی اگر میں چاہوں کہ تمھیں نصیحت کروں ، اگر اللہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمھیں گمراہ کرے۔‘‘یہ دلیل ہے کہ رب تعالیٰ نے گمراہ ہونے والے کے گمراہ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الرعد: ۱۶)’’کہہ دے اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔‘‘پس بندوں کے موجودہ افعال وغیرہ میں سے جو بھی ہے اس کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ نے جس چیز کا ارادہ کیا ہے، وہ اسے محبوب ہے اور وہ اس سے راضی ہے اور ارشادِ باری تعالیٰ:﴿لَا یُحِبُّ الْفَسَادَo﴾ (البقرۃ: ۲۰۵) ’’اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو فسادی محبوب نہیں ناکہ غیر مفسد۔ یا یہ مراد ہے کہ رب تعالیٰ کو وہ دین کے اعتبار سے محبوب نہیں ۔

اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ:﴿وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ﴾ (الزمر: ۷) ’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘ سے مراد یہ ہے کہ غیر کافر پر نہیں بلکہ کافر پر غیر راضی ہے۔ یا یہ کہ اس کا غیر اسلام دین محبوب نہیں ۔ دوسری ان سے نزاع کرنے والے معتزلہ وغیرہ کا قول ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ:﴿اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ﴾ (النساء: ۱۰۸)’’جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘منافقوں کے بارے میں ہے اور یہ قول ان منافقوں پر حرام تھا۔ جو ان سے صادر ہوا۔ جس کی رب تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس قول سے راضی نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ صادر ہونے والے معاصی پر راضی نہیں ۔ اس طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِِنْ تَکْفُرُوْا فَاِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ﴾ (الزمر: ۷)’’اگر تم نا شکری کر و تو یقیناً اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘رب تعالیٰ نے اس ارشاد میں اس بات کی خبر دی ہے کہ رب تعالیٰ کفر کے وقوع کی تقدیر پر راضی نہیں اور یہ نہ کہا جائے کہ وہ ہر موجود پر ہی راضی ہوتا ہے۔اور تمھارا یہ قول کہ ’’وہ ان کے دین پر راضی نہیں ۔‘‘ تو کتاب اللہ میں رضا نفس فعل کے ساتھ معلق ہے۔ ناکہ کسی محذوف شے کے ساتھ اور تمھارے نزدیک اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ’’وہ اس دین والے کو اس دین پر اجر دینے کا ارادہ نہیں رکھتا اور یہ بات معلوم ہے کہ ابلیس اور شیاطین اس اعتبار سے رب کے دین پر راضی نہیں ۔ حالانکہ ابلیس کفر پر راضی اور اسے اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسی باتیں پسند کرتا ہے جو رب تعالیٰ کو مبغوض ہیں اور ایسی باتوں کو ناپسند کرتا ہے جو رب تعالیٰ کو محبوب ہیں ۔ابلیس کے بارے میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿اَفَتَتَّخِذوْنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِیْ وَ ہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًاo﴾(الکہف: ۵۰) ’’تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں ، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَمْ اَعْہَدْ اِِلَیْکُمْ یَابَنِیْ آدَمَ اَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ اِِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo وَاَنْ اعْبُدُوْنِی ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌo﴾ (یٰسٓ: ۶۰۔۶۱)’’کیا میں نے تمھیں تاکیدنہ کی تھی اے اولاد آدم! کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اور یہ کہ میری عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رب تعالیٰ کو ایمان اور عمل صالح محبوب ہے اور وہ متقین، محسنین، توابین، متطہرین اور مقسطین سے محبت کرتا ہے اور معاصی سے نہ محبت کرتا ہے اور نہ ان سے راضی ہی ہے۔ پس ہمارا امت کے اجماع سے استدلال کرنا یہ تمھارے اس قول سے استدلال کرنے سے زیادہ قوی ہے کہ ’’جو اللہ نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔‘‘ کیونکہ پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز، صدقہ اور اعمالِ صالحہ پر راضی ہے اور یہ انھیں محبوب ہیں ۔ جبکہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم فواحش اور ظلم سے نہ تو راضی ہیں اور نہ یہ انھیں پسند ہیں ۔پس تم لوگوں نے اپنے اس قول میں ’’کفر و عصیان اور فسق و فجور میں سے جو بھی واقع ہوا، وہ اللہ اور اس کے رسول کو محبوب اور پسند ہے۔‘‘ کتاب و سنت اور اجماع امت کی مخالفت کی ہے۔ تمھارا قول ہے کہ رب تعالیٰ نے ایمان والوں کو ایمان کی نعمت کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اس کی یہ نعمت کفار اور مومنین سب کے حق میں یکساں ہے۔ بلاشبہ یہ عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَo﴾ (الحجرات: ۷)’’اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یَمُنُّونَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِِسْلَامَکُمْ بَلْ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدَاکُمْ لِلْاِِیْمَانِ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَo﴾ (الحجرات: ۱۷)’’وہ تجھ پر احسان رکھتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے، کہہ دے مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمھیں ایمان کے لیے ہدایت دی، اگر تم سچے ہو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا﴾ (النور: ۲۱)’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآئِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا﴾(الانعام ۵۳)
’’اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کی بعض کے ساتھ آزمائش کی ہے، تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے احسان فرمایا ہے؟‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ﴾ (الانفال: ۲۴)’’اور جان لو کہ بے شک اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے۔‘‘سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں :﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ﴾ (البقرۃ: ۱۲۸)’’اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ﴾ (ابراہیم: ۳۵۔۳۶)’’اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں ۔ اے میرے رب! بے شک انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo﴾ ہے چلاتا ہے اور اگر یہ لوگ شریک بناتے تو یقیناً ان سے ضائع ہو جاتا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی، پھر اگر یہ لوگ ان باتوں کا انکار کریں تو ہم نے ان کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں جو کسی صورت ان کا انکار کرنے والے نہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔‘‘ان آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ اس ہدایت کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے خاص کرتا ہے اور بتلایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں رب تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ اس ہدایت سے ہدایت پانے والے کو ہی خاص کرتا ہے ناکہ اسے جسے یہ ہدایت نہیں ملی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ اس بات کے ساتھ خاص ہیں کہ رب تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی ہے ناکہ وہ لوگ خاص ہیں جو ہدایت پر چلنے والے نہیں اور ہدایت جب بیان اور دعوت کے معنی میں ہو تو اس میں مومن اور کافردونوں برابر ہوتے ہیں ، جیسے رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَی عَلَی الْہُدَی﴾ (فصلت: ۱۷)اور ثمودکو ہم نے سیدھا راستہ دکھایا مگر انھوں نے ہدایت کے مقابلہ میں اندھا رہنے کو پسند کیا۔‘‘اور جب یہ اس معنی میں ہو کہ اسے ہدایت یافتہ بنا دیا تو یہ صرف مومن کے ساتھ خاص ہوتی ہے اور یہی معنی اس ارشاد باری میں مطلوب ہے:﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo﴾ (الفاتحۃ: ۶) ’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۲) ’’بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی تو ہدایت کہ جب وہ ذلالت و ارشاد کے معنی میں ہو تو بالقوۃ ہوتی ہے تب یہ مومن و کافر میں مشترک ہوتی ہے اور کبھی یہ بالفعل ہوتی ہے، تب یہ صرف مومن کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ جیسا کہ تم کہتے ہو: ’’میں نے اسے سکھایا تو وہ سیکھ گیا اور میں نے اسے سکھایا تو وہ نہ سیکھا۔‘‘ی یہ بالفعل ہوتی ہے، تب یہ صرف مومن کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ جیسا کہ تم کہتے ہو: ’’میں نے اسے سکھایا تو وہ سیکھ گیا اور میں نے اسے سکھایا تو وہ نہ سیکھا۔‘‘ اسی طرح تمھارا یہ کہنا ہے: ’’میں نے اسے ہدایت دی تو اس نے ہدایت لے لی اور میں نے اسے ہدایت دی تو اس نے ہدایت نہیں لی۔‘‘ پس پہلی قسم کی ہدایت مومنوں کے ساتھ خاص ہے اور دوسری قسم کی ہدایت مشترک ہے۔ ’’اس کے لیے جو تم میں سے چاہے کہ سیدھا چلے ۔ اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے ، جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘{التکویر: ۲۸۔۲۹}اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًاo﴾ (المزمل: ۱۹)’’تو جو چاہے اپنے رب کی طرف راستہ بنا لے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ اِِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo﴾ (الدہر: ۳۰)’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقیناً اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘رب تعالیٰ نے ہمیں نماز میں یہ دعا مانگنے کا حکم دیا ہے:
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۶۔۷)’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘ان انعام یافتہ لوگوں کا ذکر اس آیت میں ہے:﴿فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًاo﴾ (النساء: ۶۹)’’تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں ۔‘‘مطلق انعام میں تو صرف مومنین داخل ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مومنوں کی طاعت گزاری ہی وہ شے ہے جس کا رب تعالیٰ نے ان پر انعام کیا ہے۔ ایمان والوں اور کفر والوں پر انعام برابر ہوتا تو دونوں کے دونوں صراطِ مستقیم پر ہوتے۔اور غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ یہ صفت ہے ناکہ استثنا، کیونکہ یہاں ’’غیر‘‘ مجرور ہے۔ جیسا کہ عربوں کا قول ہے: اِنِّیْ لَاَمُرُّ بِالصَّادِقِ غَیْرَ الْکَاذِبِ‘‘(میں ایک سچے کے پاس سے گزرتا ہوں جو جھوٹا نہیں ہے)۔پس مَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ اور ضالین یہ منعم علیہم (انعام یافتہ لوگوں ) میں شامل و داخل نہیں ہیں کہ استثنا میں مغایرت ہوتی ہے۔اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿مَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَ لِیًّا مُّرْشِدًاo﴾ (الکہف: ۱۷)’’جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے گمراہ کر دے، پھر تو اس کے لیے ہرگز کوئی رہنمائی کرنے والا دوست نہ پائے گا۔‘‘یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ہدایت یافتہ وہی ہے جسے اللہ ہدایت دے اور اگر رب تعالیٰ کافر کو بھی ایک مومن کی طرح ہدایت سے نواز دیتا تو وہ کافر بھی ہدایت یافتہ ہوتا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں :﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِo رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo﴾ (ابراہیم: ۴۰۔۴۱)’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔ اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہو گا۔‘‘پس معلوم ہو گیا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نماز قائم کرنے والا بنانے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا﴾ (السجدۃ: ۲۴)’’اور ہم نے ان میں سے پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ (القصص: ۴۱)’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘سو یہ اللہ ہی ہے جس نے انھیں ائمہ ہدایت تو انھیں ائمہ ضلالت بنایا۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ﴾ (آل عمران: ۱۵۹)’’پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے۔‘‘معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی یہ رب تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے تھی۔اہل جنت کہیں گے:﴿الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰینَا لِہٰذَا وَ مَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْ لَآ اَنْ ہَدٰینَا اللّٰہُ لَقَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ﴾ (الاعراف: ۴۳)’’سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی، بلاشبہ یقیناً ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے۔‘‘حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ مِنْ اٰبَآئِہِمْ وَ ذُرِّیّٰتِہِمْ وَ اِخْوَانِہِمْ وَ اجْتَبَبْنٰہُمْ وَ ہَدَیْنٰہُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبَوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِہَا ہٰٓؤُلَآئِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِہَا بِکٰفِرِیْنَo اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰیہُمُ اقْتَدِہْ﴾ (الانعام: ۸۷۔۹۰)’’اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد وں اور ان کے بھائیوں میں سے بعض کو بھی اور ہم نے انھیں چنا اور انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے چلاتا ہے اور اگر یہ لوگ شریک بناتے تو یقیناً ان سے ضائع ہو جاتا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی، پھر اگر یہ لوگ ان باتوں کا انکار کریں تو ہم نے ان کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں جو کسی صورت ان کا انکار کرنے والے نہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔‘‘ان آیات میں رب تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ اس ہدایت کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے خاص کرتا ہے اور بتلایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں رب تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ اس ہدایت سے ہدایت پانے والے کو ہی خاص کرتا ہے ناکہ اسے جسے یہ ہدایت نہیں ملی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ اس بات کے ساتھ خاص ہیں کہ رب تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی ہے ناکہ وہ لوگ خاص ہیں جو ہدایت پر چلنے والے نہیں اور ہدایت جب بیان اور دعوت کے معنی میں ہو تو اس میں مومن اور کافردونوں برابر ہوتے ہیں ، جیسے رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَی عَلَی الْہُدَی﴾ (فصلت: ۱۷)اور ثمودکو ہم نے سیدھا راستہ دکھایا مگر انھوں نے ہدایت کے مقابلہ میں اندھا رہنے کو پسند کیا۔‘‘اور جب یہ اس معنی میں ہو کہ اسے ہدایت یافتہ بنا دیا تو یہ صرف مومن کے ساتھ خاص ہوتی ہے اور یہی معنی اس ارشاد باری میں مطلوب ہے:﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo﴾ (الفاتحۃ: ۶) ’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۲) ’’بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی تو ہدایت کہ جب وہ ذلالت و ارشاد کے معنی میں ہو تو بالقوۃ ہوتی ہے تب یہ مومن و کافر میں مشترک ہوتی ہے اور کبھی یہ بالفعل ہوتی ہے، تب یہ صرف مومن کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔ جیسا کہ تم کہتے ہو: ’’میں نے اسے سکھایا تو وہ سیکھ گیا اور میں نے اسے سکھایا تو وہ نہ سیکھا۔‘‘ اسی طرح تمھارا یہ کہنا ہے: ’’میں نے اسے ہدایت دی تو اس نے ہدایت لے لی اور میں نے اسے ہدایت دی تو اس نے ہدایت نہیں لی۔‘‘ پس پہلی قسم کی ہدایت مومنوں کے ساتھ خاص ہے اور دوسری قسم کی ہدایت مشترک ہے۔