مرتکب کبیرہ کے متعلق بحث
امام ابنِ تیمیہؒ[مرتکب کبیرہ کے متعلق بحث:]اس باب میں اہل علم کے ہاں متواتر و مستفیض اور کثیر احادیث ہیں ۔ یہ حضرات یہ نہیں کہتے کہ ہم احکامِ مطلقہ میں توقف کے قائل ہیں ، بلکہ ہم جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ بعض مرتکبین کبیرہ کو جہنم میں داخل فرمائیں گے۔ جبکہ بعض دوسرے متعدد اسباب کی بنا پر جہنم میں داخل نہیں ہوں گے۔ البتہ ان میں اختلاف ہے تو اس امر میں ہے کہ :٭ آیا جو لوگ جہنم میں داخل ہوں گے وہ دخولِ جہنم کو مقتضی کسی سبب کی بنا پر داخل ہوں گے جیسے گناہوں کی عظمت و کثرت اور داخل نہ وہنے والے کسی ایسے سبب کی وجہ سے داخل نہ ہوں گے جو دخولِ نار میں مانع ہو، جیسے نیکیاں جو دخولِ نار کے معارض ہوں ؟ ٭ یا یہ امر محض رب تعالیٰ کی حکمت و مشیت کے سپرد ہے کہ وہ اپنی حکمت و اسباب کے تحت جو چاہتا ہے کرتا ہے؟٭ یا یہ بات ہے کہ رب تعالیٰ دو ایک جیسوں میں محض اپنی مشیت سے فرق کرتا ہے، چنانچہ ایک تو معاف فرما دیتا ہے اور دوسرے کو نذر آتش کر دیتا ہے۔ حالانکہ وہ ہر اعتبار سے پہلے کے مشابہ و متماثل ہوتا ہے۔غرض اس بارے ان حضرات کے دو اقوال ہیں جبکہ نصوص اور اسلاف کے اقوال پہلے قول کے موافق ہیں ۔ ہم شخص معین کے بہشتی یا دوزخی ہونے میں توقف ضرور کرتے ہیں لہٰذا ہم کسی قطعی اور جزمی علم کے ساتھ اس کے جنتی یا جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دیتے۔ کیونکہ ہم اس کے باطن کی حقیقت کا اور جس ایمان و عقیدہ پر وہ مرا ہے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ البتہ ہم نیکوکار کے جنتی ہونے کی امید کرتے ہیں اور برائیوں کے مرتکب پر ڈرتے ہیں ۔ پھر ان کے شہادت بالجنۃ کی بابت تین اقوال ہیں :۱۔ کوئی پیغمبروں کے سوا کسی کے حق میں بھی جنت کی شہادت کا قائل نہیں ۔ یہ محمد بن حنفیہ اور اوزاعی کا قول ہے۔۲۔ کوئی ہر اس مومن کے حق میں جنت کی شہادت دیتا ہے جس کے بارے میں نص آ گئی ہے۔ یہ اکثر اہل حدیث کا قول ہے۔۳۔ جبکہ تیسرے لوگ وہ ہیں جو ان مذکورہ بالا دونوں طبقوں کے لیے بھی جنت کی شہادت دیتے ہیں ور ان کے حق میں بھی جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں جن کی ایمان والے شہادت دیتے ہیں ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔‘‘ارشاد نبوی ہے: ’’عنقریب تم جنتیوں کو جہنمیوں سے پہچان لو گے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کس بات کے ذریعے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اچھی اور بری تعریف کے ذریعے۔‘‘[1][1] اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی کہ کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کو اس ذریعہ سے جانا جا سکتا ہے۔ ابوثور کہا کرتے تھے: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ امام احمد جنت میں ہیں ‘‘ اور دلیل میں یہ حدیث پیش کیا کرتے تھے۔ غرض یہ موقع اس مسئلہ کی تفصیل کا نہیں ہے۔ان کے نزدیک ایمان میں تفاضل پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایک کا ایمان دوسرے کے ایمان سے زیادہ کامل ہو سکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’سب سے کامل مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ۔‘‘[2] [2] یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ (دیکھیں : سنن ابی داود: ۴؍۳۰۴، جامع الترمذی: ۲؍۳۱۵، ۴؍۱۲۲) امام ترمذی حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں : اس باب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث بھی ہے اور حدیث ابی ہریرہ حسن اور صحیح ہے۔ یہ حدیث سنن الدارمی (۲؍۳۲۳)، مسند احمد (۱۳؍۱۳۳) طبعۃ المعارف میں بھی ہے۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo﴾ (المائدۃ: ۲۷)’’اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔‘‘کہ اس آیت میں متقی سے مراد وہ ہے جو اپنے اس عمل میں بھی ڈرتا رہتا ہو اور مراد گناہوں سے خالی ہونا نہیں ہے اور نہ صرف شرک سے خالی ہونا ہی مراد ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ جو اپنے عمل میں ڈرتا رہے، اس کا عمل مقبول ہوتا ہے۔ چاہے اس کے دوسرے گناہ بھی ہوں ۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ﴾ (ہود: ۱۱۴)’’اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں ۔‘‘گناہ گار سے اس کی نیکی قبول نہ کی جاتی ہوتی تو اس کی نیکی گناہ کو مٹاتی بھی نہ ہوتی۔ جبکہ کتاب اور سنت متواترہ میں یہ بات ثابت ہے کہ نیکیوں اور برائیوں کو باہم تولا جائے گا۔ پس اگر کبیرہ گناہ سرے سے نیکیوں کو مٹا ہی دیتے ہوتے تو نیکیاں ان کے ساتھ تلتی کیونکر؟ جبکہ صحیحین میں ثابت ہے کہ ’’ایک رنڈی نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تو رب تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۴؍۱۷۳۔ حدیث کی عبارت یہ ہے: ’’ایک دفعہ ایک کتاب ایک کنویں کے گرد چکر لگا رہا تھا، پیاس اس کی جان نکالنے کو تھی کہ اچانک اسے بنی اسرائیل کی ایک رنڈی نے دیکھ لیا۔ پس اس نے اپنا جوتا اتار کر اس کے ذریعے اس کتے کو پانی پلایا تو رب تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔‘‘ (صحیح مسلم: ۴؍۱۷۶۱) اور یہ اس کتے کو پانی پلانے کی نیکی کی بدولت تھا۔ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا دو میں سے ایک بیٹا مشرک نہ تھا لیکن عمدہ مال پیش کر کے اس نے رب تعالیٰ کے تقرب کا ارادہ نہ کیا تھا جیسا کہ ایک اثر میں وارد ہے، اس لیے رب تعالیٰ نے اس سے اس کی قربانی قبول نہ فرمائی۔منافقوں کے حق میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَ مَامَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوْلِہٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ہُمْ کُسَالٰی وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ ہُمْ کٰرِہُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۵۴)’’اور انھیں کوئی چیز اس سے مانع نہیں ہوئی کہ ان کی خرچ کی ہوئی چیزیں قبول کی جائیں مگر یہ بات کہ بے شک انھوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نماز کو نہیں آتے مگر اس طرح کہ سست ہوتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ نا خوش ہوتے ہیں ۔‘‘رب تعالیٰ نے ان باتوں کو قبولِ نفقہ میں موانع قرار دیا ہے ناکہ مطلق ذنوب کو۔اہل سنت و حدیث کا قول ہے: جس نے اس سے ایمان کی نفی کی ہے تو وہ بعض واجبات کے ترک کی بنا پر کی ہے اور عبادت سے اس کے بعض واجبات کی نفی سے اس کے نام کی نفی کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اب عبادت کامل بن کر باقی نہیں رہی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب سرے سے عبادت ہی باقی نہیں رہی۔ بلکہ نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بعض ایمان باقی ہے اور اسی باقی ایمان کی بدولت وہ جہنم سے نکلے گا۔پھر بعض عبادات میں واجب ہوتے ہیں جیسے، حج میں ایک واجب ایسا بھی ہے کہ جس کے ترک سے حج ناقص رہ جاتا ہے اور تارکِ واجب گناہ گار بھی ہوتا ہے۔ اس سے حج کا اعادہ تو لازم نہیں آتا البتہ دم دے دینے سے اس واجب کی تلافی ہو جاتی ہے۔ جیسے جمرات کی رمی کہ اگر اس کی تلافی نہ کی جائے تو یہ واجب ذمہ میں باقی رہ جاتا ہے۔یہی حال ایمان کا ہے کہ گناہوں سے ناقص ہو جاتا ہے البتہ توبہ سے پھر مکمل ہو جاتا ہے۔ ہاں توبہ نہ کرنے سے ناقص ہی رہتا ہے اور بندہ گناہ گار بھی ہوتا ہے۔پھر حج میں بعض افعال حرام بھی ہیں کہ جن کے ارتکاب سے حج ناقص ہو جاتا ہے البتہ باطل نہیں ہوتا۔ جیسے خوشبو لگانا، سلا لباس پہننا، کہ اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ البتہ صرف جماع ایک ایسا حرام فعل ہے جو حج کو فاسد کر دیتا ہے۔ اسی طرح صرف کفر محض ہی ہے جو پورے ایمان کو ختم کر دیتا ہے کہ اس کے ہوتے ہئے کچھ بھی ایمان باقی نہیں رہتا۔ ایسا کفر سب اعمال برباد اور اکارت کر دیتا ہے اور جو کفر اس سے کم درجے کا ہو، وہ بعض اعمال کو اکارت کرتا ہے جیسا کہ ’’آیت من و اذی‘‘ میں مذکور ہے کہ من و اذی اس صدقہ کو باطل کر دیتے ہیں ، ناکہ سب کے سب اعمال کو اور جو ’’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ کو ناپسند کرتے ہیں ، وہ کافر ہیں اور دل کے اعمال جیسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اللہ کا خوف وغیرہ کہ یہ سب ایمان میں سے ہے۔ اور ’’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ سے کراہت کفر ہے اور ایمان کا سب سے مضبوط کڑا اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے بغض رکھنا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ﴾(المجادلۃ: ۲۲)’’تو ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، نہیں پائے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔‘‘اور سابق، مقتصد اور ظالم لنفسہ کے بارے میں ارشاد ہے:﴿جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا﴾ (الرعد: ۲۳)’’ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے۔‘‘یہ ارشاد اس بات سے مانع نہیں کہ ظالم لنفسہ کو پہلے عذاب ہو اور بعد میں اسے جنت میں داخل کر لیا جائے ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لَا یَصْلَاہَا اِِلَّا الْاَشْقٰیo﴾ (اللیل: ۱۵) ’’جس میں اس بڑے بدبخت کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔‘‘اس بات سے خالی نہیں کہ صَلِيّ (یعنی دخول) سے مراد ایک طرح کا عذاب ہو۔ جیسا کہ ایک قول میں آتا ہے کہ جو جہنم میں داخل ہو گا آگ اسے چاروں طرف سے گھیر لے گی، البتہ جہنم کی آگ اہل قبلہ کے مواضع سجود کو نہ جلائے گی۔ یا یہ کہ وہ کوئی خاص قسم کی آگ ہو۔اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ﴾ (الزمر: ۱۶)’’یہ ہے وہ جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘یہ اس ارشاد نبوی کی طرح ہے جو چان اور سورج کے بارے میں ہے کہ ’’بے شک یہ دونوں رب تعالیٰ کی نشانیاں ہیں رب تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۲؍۳۶۔ صحیح مسلم: ۲؍۶۲۸۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًاo﴾ (الإسراء: ۵۹)’’اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔‘‘اور وہ نشانیاں جن کے ذریعے رب تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں یہ اس شر کا سبب ہوتی ہیں جو لوگوں میں نازل ہوتا ہے۔ پس جو مامورات کو بجا لا کر تقویٰ اختیار کرتا ہے، وہ اس شر سے بچ جاتا ہے اور اگر یہ ایسا شر ہو جس کی سرے سے کوئی حقیقت ہی نہ ہو تو کوئی بھی یہ جاننے پر اس سے نہ ڈرے کہ اس کے باطن میں تو کوئی شر نہیں اور ایسے خیالی شر سے صرف کوئی نادان، کم فہم جاہل ہی ڈرے جیسے کہ بچے جو صرف خیالی باتوں سے بھی ڈر جاتے ہیں ۔ اب رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ یَاعِبَادِ فَاتَّقُوْنِo﴾ (الزمر: ۱۶)’’ جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اے میرے بندو! پس تم مجھ سے ڈرو۔‘‘رب تعالیٰ نے بندوں کو مطلق ڈرایا ہے اور انھیں اپنے سے ڈرنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ وہ ڈرانے والی چیز کو نازل نہ فرمائے اور رسولوں کو ڈر سنانے اور خوش خبری دینے کے لیے بھیجا اور انذار یہ اس چیز کی خبر دینا ہے جس سے ڈرایا جا رہا ہے۔ ایسی ڈرانے والی باتیں دنیا میں پائی گئی ہیں اور رب تعالیٰ نے گناہوں پر بے شمار امتوں کو سزا دی ہے۔ جن کے قصے کتاب اللہ میں مذکور ہیں اور جیسا کہ آیات سے اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور رب تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مواقع پر جہنمیوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ یہ سب باتیں اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ موجود ہیں ۔یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے اختلاف کرنے والوں کے سب اقوال باطل ہیں ۔ جیسے، جب معتزلہ میں سے قدریہ اور جہمیہ میں سے جبریہ وغیرہ تقدیر میں نزاع کرتے ہیں تو سب کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کا ارادہ یہ اس کی محبت ہے جو اس کی رضا ہے۔ پھر معتزلہ کا قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ ایمان اور عمل صالح سے محبت کرتے ہیں اور کفر اور فسق و عصیان کو ناپسند کرتے ہیں لہٰذا رب تعالیٰ نے اس کاارادہ نہیں کیا۔اس کی دلیل میں وہ رب تعالیٰ کے یہ ارشادات پیش کرتے ہیں :﴿وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ﴾ (الزمر: ۷)’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ﴾ (النساء: ۱۰۸)’’جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَo﴾ (البقرۃ: ۲۰۵)’’اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘حضرات فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نیک اعمال کی دو قسمیں ہیں : (۱) واجب (۲) اور مستحبمستحب وہ عمل ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہو۔ اور منہی عنہ جملہ اعمال مکروہ ہیں ۔ اللہ اور اس کا رسول انھیں ناپسند کرتے ہیں ۔ پھر کراہت کی بھی دو قسمیں ہیں : (۱) کراہت تحریمی (۲) کراہیت تنزیہی۔محرمات کا ذکر کرتے ہوئے رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :﴿کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْہًاo﴾ (الإسراء: ۳۸)’’یہ سب کام، ان کا برا تیرے رب کے ہاں ہمیشہ سے ناپسندیدہ ہے۔‘‘صحیحین میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’رب تعالیٰ تمھارے لیے قیل و قال، کثرتِ سوال اور اضاعتِ مال کو ناپسند فرماتے ہیں ۔‘‘اور صحیح بخاری میں ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے:’’رب تعالیٰ چھینک کو محبوب رکھتے ہیں اور جمائی کو ناپسند فرماتے ہیں ۔‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۸؍۴۹، جامع الترمذی: ۴؍۱۸۰۔۱۸۱، مسند احمد: ۱۴؍۳۱۔۳۳ طبعۃ المعارف، دیکھیں : محقق کی تعلیق: مسند احمد: ۱۸؍۱۵۱۔ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عالم میں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں لہٰذا وہ رب تعالیٰ کی مراد نہ ہوں گی اور عالم میں جو باتیں رب تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی بابت امر و نہی میں سے کچھ بھی وارد نہیں ۔ان حضرات کا کہنا ہے کہ امر کا امر ہونا تب ہی عقل میں آتا ہے جب رب تعالیٰ نے اس کا ارادہ کیا ہو اور جس نے اس بات کو فرض کیا کہ آمر نے مامور بہ کو طلب تو کیا لیکن ارادہ نہ تھا اور نہ وہ طلب ارادہ کو مستلزم ہی تھی، تو اس نے ایک ایسی بات کا دعویٰ کیا جس کا فاسد ہونا بالضرور معلوم ہے اور ممتحن کے امر کی مثال دے کر جو استدلال کیا جاتا ہے تو ممتحن دراصل نہ تو مامور بہ کا طالب ہوتا ہے اور نہ باطن میں اس کا ارادہ کرنے والا ہی ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ’’مریدِ طالب‘‘ ہے۔ان لوگوں کا یہ کہنا بھی ہے کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ: ۱۸۵)’’اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اورتمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۶)’’اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًاo یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًاo﴾ (النساء: ۲۶۔۲۸)’’اللہ چاہتا ہے کہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرے اور تمھیں ان لوگوں کے طریقوں کی ہدایت دے جو تم سے پہلے تھے اور تم پر مہربانی فرمائے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی فرمائے اور جو لوگ خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم ( سیدھے راستے سے) ہٹ جاؤ، بہت بڑا ہٹ جانا۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (بوجھ) ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ (الاحزاب: ۳۳)’’اللہ توچاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے ، خوب پاک کرنا۔‘‘کہ یہ سب وہ مرادات ہیں جن کا رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کو امر کیا ہے۔ اب کوئی ان کو بجا لاتا ہے اور کوئی ان سے سرتابی کرتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کبھی بندوں سے اس بات کا ارادہ بھی کرتے ہیں جو وہ بجا نہیں لاتے، جیسا کہ وہ انھیں اس بات کا بھی حکم دیتا ہے جس کو بجا نہیں لاتے۔اب جہمیہ میں سے قدریہ جبریہ اور ان کے پیروکاروں کا قول ہے: بلکہ رب تعالیٰ کا ارادہ موجود کو تو شامل ہے البتہ غیر موجود کو شامل نہیں ۔ کیونکہ مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ’’رب تعالیٰ نے جو چاہا وہ ہوا اور نہ چاہا وہ نہ ہوا۔‘‘ دوسرے ایسی بات کا ارادہ جس کے نہ ہونے کا علم ہو تمنا کہلاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُo﴾ (ابراہیم: ۲۷)’’اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘پس رب تعالیٰ جو چاہتے ہیں سو اس کو کیا۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ لَوْشِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰہَا﴾ (السجدۃ: ۱۳)’’اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔‘‘معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے اس بات کو نہیں چاہا اور اس نے ہر ایک کی ہدایت کا ارادہ نہیں کیا۔ اگرچہ اس نے اس بات کا امر بھی کیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘معلوم وہا کہ رب تعالیٰ جیسے اسلام کے لیے شرح صدر کا ارادہ کرتا ہے اسی طرح گمراہ کرنے کا بھی ارادہ کرتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا:﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ﴾ (ہود: ۳۴)’’اور میری نصیحت تمھیں نفع نہ دے گی اگر میں چاہوں کہ تمھیں نصیحت کروں ، اگر اللہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمھیں گمراہ کرے۔‘‘یہ دلیل ہے کہ رب تعالیٰ نے گمراہ ہونے والے کے گمراہ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الرعد: ۱۶)’’کہہ دے اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔‘‘پس بندوں کے موجودہ افعال وغیرہ میں سے جو بھی ہے اس کا خالق اللہ ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ نے جس چیز کا ارادہ کیا ہے، وہ اسے محبوب ہے اور وہ اس سے راضی ہے اور ارشادِ باری تعالیٰ:﴿لَا یُحِبُّ الْفَسَادَo﴾ (البقرۃ: ۲۰۵) ’’اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو فسادی محبوب نہیں ناکہ غیر مفسد۔ یا یہ مراد ہے کہ رب تعالیٰ کو وہ دین کے اعتبار سے محبوب نہیں ۔