آپ رضی اللہ عنہ کا علم
علی محمد الصلابیآپؓ کا علم
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے اور اس کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والے تھے۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی: صفحہ، 59)
اور اہلِ سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپؓ امت کے سب سے بڑے عالم ہیں اور بہت سے لوگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: جلد، 13 صفحہ، 127)
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر علم و فضل میں آپؓ کی برتری کا سبب نبی کریمﷺ کی دائمی رفاقت ہے۔ شب و روز، سفر و حضر ہمیشہ آپﷺ کے ساتھ ہوتے۔ آپؓ عشاء کے بعد بھی نبی کریمﷺ کے ساتھ رہتے اور مسلمانوں کے امور سے متعلق گفتگو فرماتے جب کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس وقت آپﷺ کے ساتھ نہ ہوتے۔ آپﷺ جب کسی مسئلہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ فرماتے تو سب سے پہلے شوریٰ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی گفتگو فرماتے، پھر دیگر لوگ بات کرتے اور بسا اوقات دوسرے لوگ بات نہ کرتے صرف آپؓ کی رائے پر عمل کیا جاتا اور اگر دوسرے لوگوں کی رائے آپؓ کی رائے سے مختلف ہوتی تو دوسروں کی رائے کو چھوڑ کر آپؓ کی رائے اختیار فرماتے۔
(سیدنا ابوبکر الصدیقؓ: محمد مال اللہ صفحہ، 335/336)
مدینہ طیبہ سے جو پہلا حج ادا کیا گیا رسول اللہﷺ نے اس کا امیر آپؓ ہی کو مقرر فرمایا اور مناسک حج کا علم عبادات میں سب سے زیادہ مشکل و دقیق ہے۔ اگر آپؓ کے پاس وسعت علم نہ ہوتی تو کبھی آپؓ کو امیر مقرر نہ فرماتے۔ اور اسی طرح آپؓ کو نماز کی امامت میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ اگر علم نہ ہوتا تو آپؓ کو نیابت نہ عطا فرماتے۔ رسول اللہﷺ نے نہ تو حج میں اور نہ نماز ہی میں آپؓ کے سوا کسی دوسرے کو نیابت بخشی۔ رسول اللہﷺ کی بیان کردہ کتاب الصدقہ کو سيدنا انس رضی اللہ عنہ نے سيدنا ابوبکرؓ سے روایت کیا ہے اور یہ مسائل زکوٰۃ سے متعلق سب سے صحیح ترین روایت ہے۔
(البخاری: صفحہ، 1448)
فقہائے امت نے اسی پر اعتماد کرتے ہوئے ناسخ ومنسوخ کی تعیین فرمائی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپؓ سنن ناسخہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپؓ سے کوئی ایسا قول منقول نہیں ہے جو کسی نص شرعی کے خلاف ہو۔ یہ آپؓ کے انتہائی درجہ کے علم و معرفت اور مہارت تامہ کی دلیل ہے۔ شریعت میں کوئی ایسا مسئلہ آپؓ سے منقول نہیں جس میں آپؓ سے غلطی ہوئی ہو، اور دیگر لوگوں سے ایسے بہت سے مسائل منقول ہیں۔
(ابوبکر الصدیقؓ افضل الصحابۃ واحقہم بالخلافۃ: صفحہ، 60)
آپؓ نبی کریمﷺ کی موجودگی میں فیصلے کرتے اور فتویٰ دیتے اور رسول اللہﷺ نے آپؓ کو ٹوکا نہیں۔ اور یہ مقام آپؓ کے سوا کسی دوسرے کو حاصل نہ تھا، جیسا کہ میں نے حنین کے موقع پر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مال غنیمت کے سلسلہ میں بیان کیا ہے۔
(ابوبکر الصدیقؓ افضل الصحابۃ واحقہم بالخلافۃ: صفحہ، 57)
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد آپؓ کا علمی مقام اور دوسروں پر علمی تفوق نمایاں ہوا۔ آپؓ کے عہد خلافت میں جس مسئلہ میں بھی اختلاف پیدا ہوا اس کو آپؓ نے اپنے علم اور کتاب و سنت کے دلائل سے واضح فرمایا، یہ آپؓ کے کمال علم و عدل اور دلائل شرعیہ کی معرفت کا نتیجہ تھا، جس سے تمام اختلافات ختم ہو جاتے۔ آپؓ جب لوگوں کو کسی بات کا حکم دیتے، لوگ آپؓ کی اطاعت کرتے، جیسا کہ لوگوں کے لیے نبی کریمﷺ کی موت کی صراحت فرمائی اور انہیں ایمان پر ثابت رکھا، آپؓ کے مقام دفن کی تعیین فرمائی، آپؓ کی میراث کی حقیقت واضح فرمائی، مانعین زکوٰۃ سے قتال کے مسئلہ کو واضح فرمایا جبکہ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس میں تردد پیدا ہوا اور واضح کیا کہ قریش ہی خلافت کے حق دار ہیں، لشکر اسامہ کو تیار کر کے اس کی مہم پر روانہ کرنے کی وضاحت فرمائی اور واضح فرمایا کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کے درمیان اختیار دیا ہے وہ رسول اللہﷺ ہی ہیں۔
(ابوبکر الصدیقؓ افضل الصحابۃ واحقہم بالخلافۃ: صفحہ، 59)
ان تمام مسائل کی تفصیل ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی۔
رسول اللہﷺ نے آپؓ سے متعلق خواب دیکھا جو آپؓ کے علم پر دلالت کرتا ہے، سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
رأیت کأنی اعطیت عُسًّا مملوئًا لبنا فشربت منہ حتی تملأتُ فرأیتہا تجری فی عروقی بین الجلد واللَّحم، ففضلت منہا فضلۃ، فاعطیتہا ابا بکرٍ۔
ترجمہ: میں نے خواب دیکھا کہ مجھے دودھ سے بھرا ہوا بڑا پیالہ دیا گیا، میں نے اس سے سیر ہو کر پیا، میں نے دیکھا وہ گوشت پوست کے درمیان میری رگوں میں دوڑ رہا ہے پھر اس میں سے کچھ بچ گیا،
میں نے اسے سیدنا ابوبکرؓ کو دے دیا۔
لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! یہ علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو عطا فرمایا ہے، جب آپﷺ آسودہ ہو گئے اور وہ باقی رہا تو آپﷺ نے اسے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔
آپﷺ نے فرمایا
قد اصبتم
تم نے سچ کہا۔
(الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان: ۱۵/۲۶۹ جلد، 15 صفحہ، 269)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خواب کو حق سمجھتے تھے اور تعبیر خواب میں آپؓ کو مہارت حاصل تھی۔ جب صبح ہوتی تو فرماتے جس نے اچھا خواب دیکھا ہے بیان کرے، اور فرمایا کرتے تھے ایک مسلمان باوضو ہو کر اچھا خواب دیکھے، یہ میرے نزدیک اتنے اتنے مال سے بہتر ہے۔
خطب ابی بکر الصدیق: محمد عاشور وجمال الکومی، صفحہ، 155)
آپؓ نے جن خوابوں کی تعبیر بیان فرمائی ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے رات خواب میں دیکھا ایک بدلی سایہ فگن ہے اس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے، لوگ اپنی ہتھیلیوں میں اس کو لے رہے ہیں کوئی زیادہ کوئی کم۔ اور ایک رسّی ہے جو زمین سے آسمان تک ملی ہوئی ہے۔ میں نے آپﷺ کو دیکھا، آپﷺ نے وہ رسّی تھامی اور اوپر چڑھ گئے، پھر دوسرے شخص نے اس کو تھاما اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر ایک اور شخص نے اس کو تھاما اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر ایک شخص نے اس کو تھاما رسّی ٹوٹ گئی پھر جڑ گئی۔
سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! میرا باپ آپﷺ پر قربان جائے، واللہ آپﷺ مجھے ضرور اجازت دیں کہ میں اس کی تعبیر بیان کروں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تعبیر بیان کرو۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا بدلی سے مقصود اسلام ہے اور اس سے جو گھی اور شہد ٹپک رہا ہے وہ قرآن ہے۔ اس کی حلاوت ٹپک رہی ہے، کوئی کم اور کوئی زیادہ قرآن سے لے رہا ہے۔ اور وہ رسّی جو زمین سے آسمان تک ملی ہوئی ہے وہ حق ہے جس پر آپﷺ قائم ہیں۔ آپﷺ اس کو تھامے رہیں گے پھر اللہ آپﷺ کو بلندی پر فائز کرے گا۔ پھر آپﷺ کے بعد ایک شخص اس کو تھامے گا وہ بھی اس کے ذریعہ سے بلندی پر پہنچے گا، پھر ایک اور شخص اس کو تھامے گا وہ بھی اس کے ذریعہ سے بلندی پر پہنچے گا۔ پھر ایک اور شخص اس کو تھامے گا، وہ رسّی اس سے ٹوٹ جائے گی، پھر اس کے لیے جوڑ دی جائے گی اور وہ بلندی پر پہنچے گا۔ اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ پر میرا باپ قربان جائے آپﷺ مجھے بتائیں، میں نے صحیح تعبیر بیان کی ہے یا غلطی کی ہے؟
نبی کریمﷺ نے فرمایا کچھ صحیح بیان کیا ہے اور کچھ غلطی ہوئی ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے کہا اللہ کی قسم آپﷺ ضرور بیان فرمائیں کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟
آپﷺ نے فرمایا قسم مت کھاؤ۔
(البخاری: التعبیر صفحہ، 7046)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے خواب دیکھا گویا ان کے حجرے میں تین چاند اتر آئے ہیں۔
انہوں نے یہ خواب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔ وہ خواب کی تعبیر کے بڑے ماہر تھے۔ تو آپؓ نے فرمایا اگر تمہارا خواب سچا ہے تو تمہارے حجرے میں روئے زمین کے تین افضل اشخاص دفن ہوں گے۔
جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو فرمایا اے سيده عائشہؓ! یہ تمہارے چاندوں میں سے افضل ترین چاند ہے۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی: صفحہ، 129)
چنانچہ سیدنا ابوبکرؓ نبی کریمﷺ کے بعد اس امت میں تعبیر خواب کے سب سے بڑے عالم تھے۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی: صفحہ، 130)
باوجود یہ کہ آپؓ اعلم الصحابہ تھے لیکن پھر بھی تکلف سے سب سے زیادہ دور تھے۔ ابراہیم نخعیؒ کا بیان ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وَفَاکِہَۃً وَّاَبًّا (سورۃ عبس: آیت نمبر، 31) کی تلاوت کی۔
لوگوں نے کہا اب کیا چیز ہے؟
لوگوں نے اپنی اپنی رائے دی، تو سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا یہ تکلف ہے۔
ای ارض تقلُّنی وای سمائٍ تُظلُّنی اذا قلت فی کتاب اللہ ما لا اعلم۔
ترجمہ: کون سی زمین مجھے جگہ دے گی اور کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا اگر میں کتاب اللہ سے متعلق ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں۔
(فتح الباری: جلد، 13 صفحہ، 258 اس کی سند میں ابراہیم نخعی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)