رسول اللہﷺ سوال کرنے والے کے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں
علی محمد الصلابیرسول اللہﷺ سوال کرنے والے کے بارے میں سیدنا عمرؓ سے پوچھتے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے سیدنا عمر بن خطابؓ نے خبر دی کہ ایک مرتبہ وہ سب نبیﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص سفید کپڑے میں ملبوس نہایت خوبصورت چہرے اور بالوں والا پیدل چل کر آپﷺ کے پاس آیا، حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ ہم اسے پہچانتے نہیں اور یہ مسافر بھی نہیں ہے۔
پھر اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں آ سکتا ہوں؟
آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ وہ آیا اور اپنے گھٹنوں کو نبیﷺ کے گھٹنوں کے پاس اور اپنے دونوں ہاتھوں کو نبیﷺ کی دونوں رانوں پر رکھا اور کہا: اسلام کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
شَہَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ۔
ترجمہ: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔‘‘
اس نے کہا: ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
أَںْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْقَدْرِ کُلِّہٖ۔
ترجمہ: ’’یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، جنت اور جہنم پر اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پر اور پوری تقدیر پر ایمان لاؤ۔‘‘
اس نے کہا: احسان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:
أَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ، فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَاِنَّہُ یَرَاکَ۔
ترجمہ: ’’تم اللہ کے لیے عمل (صالح) اس تصور سے کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پس اگر (یہ نہ ہو کہ) تم اسے دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھتا ہے۔‘‘
اس نے کہا: قیامت کب ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا:
مَا الْمَسْؤلَ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ۔
ترجمہ: ’’جس سے پوچھا گیا ہے وہ اس سلسلہ میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔‘‘
اس نے کہا: اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
إِذَا الْعَرَاۃُ الْحُفَاۃُ الْعَالَۃُ رِعَائُ الشَّائِ تَطَاوَلُوْا فِی الْبُنْیَانِ وَوَلَدَتِ الْاِمَائُ أَرْبَابِہِنَّ۔
(عمر بن الخطاب: د/ علی الخطیب: صفحہ، 112)
جب ننگے جسم، ننگے پاؤں والے، فقیر و نادار اور بکریوں کے چرواہے بلند عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں اور لونڈیاں اپنے مالک کو جننے لگیں۔‘‘
راوی کہتے ہیں کہ پھر آپﷺ نے فرمایا: اس آدمی کو میرے پاس لاؤ۔ صحابہؓ نے اسے تلاش کیا لیکن وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ پھر آپ دو یا تین دن ٹھہرے رہے، پھر فرمایا:
یَاابْنَ الْخَطَّابِ! أَتَدْرِیْ مِنَ السَّائِلُ عَنْ کَذَا وَکَذَا؟
ترجمہ: ’’اے ابن خطابؓ! ایسا ایسا پوچھنے والا کون تھا؟‘‘
آپؓ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا:
ذَاکَ جِبْرِیْلَ جَائَ کُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔
ترجمہ: ’’وہ جبرئیل تھے تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے اسلام، ایمان اور احسان کے معانی و مطالب کو سوال و جواب کے انداز میں سب سے افضل فرشتے اور افضل ترین رسول سے سیکھا۔