رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اور مرض الموت کے متعلق سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موقف
علی محمد الصلابیرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اور مرض الموت کے متعلق سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موقف
عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوئے تو بلال آپﷺ کے پاس آئے اور نماز کے لیے بلانے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا:
مُرُوْا مَنْ یُّصَلِّیْ بِالنَّاس
ترجمہ: ’’کہہ دو کوئی لوگوں کو نماز پڑھا دے۔‘‘
عبداللہ بن زمعہؓ کہتے ہیں کہ میں نکلا، لوگوں میں عمرؓ نظر آئے اور ابوبکرؓ غائب تھے۔ میں نے کہا: اے عمر! اٹھیے اور لوگوں کو نماز پڑھایے ۔ چنانچہ وہ کھڑے ہوئے اور جب اللہ اکبر کہا تو رسول اللہﷺ نے آپ کی آواز سن لی، سیدنا عمرؓ کی آواز بلند تھی، آپﷺ نے فرمایا:
فَأَیْنَ أَبُوْبَکْرٍ؟ یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُوْنَ، یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُوْنَ۔
ترجمہ: ’’ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں، اللہ اور مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو بلایا، آپؓ اس وقت آئے جب کہ سیدنا عمرؓ لوگوں کو وہ نماز پڑھا چکے تھے، پھر آپؓ نے نماز پڑھائی۔
عبداللہ بن زمعہؓ کا بیان ہے کہ پھر سیدنا عمرؓ نے مجھ سے کہا: تیرا بُرا ہو! اے ابن زمعہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟ اللہ کی قسم جب تم نے مجھے امامت کا حکم دیا تھا تو میں نے یہی گمان کیا کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اس کام کا حکم دیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لوگوں کو نماز نہ پڑھاتا۔ عبداللہ بن زمعہؓ کا کہنا ہے، میں نے کہا: اللہ کی قسم، رسول اللہﷺ نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا تھا، لیکن جب میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا تو حاضرین میں آپؓ ہی کو امامت کا زیادہ حق دار سمجھا۔
(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 245)
اور ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مرض الموت میں جب رسول اللہﷺ کی تکلیف بڑھی تو آپ نے فرمایا:
اِئْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ۔
ترجمہ: ’’مجھے سامان کتابت دو، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو۔‘‘
سیدنا عمرؓ نے کہا: اللہ کے رسول سخت تکلیف سے دوچار ہیں، ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے جو ہمیں کافی ہے! پھر وہ سب اختلاف کر بیٹھے اور بہت شور شرابہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قُوْمُوْا عَنِّیْ وَلَا یَنْبَغِیْ عِنْدِیْ التَّنَازُعُ۔
ترجمہ: ’’میرے پاس سے چلے جاؤ، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
پھر ابنِ عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل گئے: سب سے بڑی مصیبت یہ ہوئی جو آپﷺ کے ارادے اور لکھنے کے درمیان حائل ہوئی۔
(صحیح البخاری: کتاب فضائل اصحاب النبیؐ: حدیث، 3693)
علماء نے اس حدیث پر خوب سیر حاصل بحث کی ہے، امام نووی رحمۃ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث پر طویل بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں: تم جان لو کہ اللہ کے رسولﷺ جھوٹ سے اور اس بات سے معصوم ہیں کہ اپنی بیماری یا تندرستی کے ایام میں شرعی احکام میں کچھ ردو وبدل کیا ہو اور اس بات سے بھی معصوم ہیں کہ جن چیزوں کے بیان کا آپﷺ کو حکم دیا گیا تھا یا جن احکام کی تبلیغ آپﷺ پر واجب تھی ان میں سے کسی کو آپﷺ نے چھوڑ دیا ہو۔
البتہ آپﷺ جسمانی امراض و عوارض سے معصوم نہ تھے اور اس سے آپﷺ کے مقام نبوت میں کوئی فرق اور آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت میں کوئی بگاڑ لازم نہیں آتا، یہاں تک کہ آپﷺ کو جادو کر دیا گیا، آپﷺ خیال کرتے کہ آپ نے یہ کر لیا ہے حالانکہ اسے نہیں کیے ہوتے، تاہم ایسی حالت میں آپﷺ سے ایسی کوئی بات صادر نہ ہوئی جو ثابت شدہ شرعی احکام کے خلاف ہو۔ جب آپﷺ نے یہ بات جان لی تو آپﷺ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپﷺ نے جو تحریر نامہ لکھنے کا ارادہ کیا تھا اس سے کیا مراد ہے، اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپﷺ نے یہ ارادہ کیا تھا کہ خلافت کے لیے کسی کو نامزد کر دیں تاکہ اس کے بارے میں کوئی فتنہ اور جھگڑا نہ ہو۔
اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آپﷺ نے شروع میں یہ مصلحت سمجھی یا شاید وحی کا نزول ہوا ہو کہ اسلام کے اہم احکامات کو اختصار کے ساتھ ایک کتاب میں تحریر کر دیں تاکہ بعد میں ان میں نزاع نہ ہو۔ پھر آپﷺ نے مصلحت اس میں سمجھی کہ اسے چھوڑ دیا جائے یا دوسری صورت میں اگر وحی کی گئی تو پہلا حکم منسوخ کر دیا گیا اور درمیان میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بولنے کے سلسلہ میں شارحین علماء حدیث متفق ہیں کہ برموقع آپؓ کی گویائی آپؓ کی دینی بصیرت، عظیم فضیلت اور بالغ نظری کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ آپؓ نے خوف محسوس کیا کہ مبادا آپؓ ایسی باتیں لکھ دیں جنہیں وہ نہ کر سکیں اور پھر اس پر سزا کے مستحق ہوں، کیونکہ وہ منصوص چیز ہو گی، اس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔ بہت بہتر ہوا کہ آپؓ نے کہا: حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ
ترجمہ: ’’ہمارے لیے کتابِ الہٰی کافی ہے۔‘‘
اور یہ بات اس فرمانِ الہٰی کے پیش نظر کہی:
مَا فَرَّطۡنَا فِى الۡـكِتٰبِ مِنۡ شَىۡءٍ ۞(سورة الانعام: آیت، 38)
ترجمہ: ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘
اور یہ ارشادِ الہٰی:
ؕ اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ ۞(سورة المائدۃ: آیت، 3)
ترجمہ:’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔‘‘
آپؓ کو معلوم تھا کہ اللہ نے اپنا دین مکمل کر دیا ہے اور اس طرح امت کی گمراہی کا خطرہ آپؓ کو نہ رہا، دراصل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرض الموت میں آرام دینا چاہتے تھے۔
اس طرح عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور آپﷺ کی تائید کرنے والوں سے زیادہ فقاہت اور دینی بصیرت کے مالک نکلے۔ علامہ خطابیؒ فرماتے ہیں: سیدنا عمرؓ کی بات کو اس بات پر محمول کرنا کہ آپؓ نے رسول اللہﷺ کے سلسلہ میں غلط گمان کیا ہو گا یا کوئی ایسی نامناسب بات سوچی ہو گی جو آپﷺ کی ذات کے مناسب نہیں، بہرحال یہ جائز نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قربِ وفات کے وقت جب آپﷺ کی تکلیف میں شدت ہو گئی اور آپﷺ کو سخت بے چینی لاحق ہوئی تو آپؓ ڈرے کہ کہیں آپﷺ ایسی بات نہ کہہ دیں جیسے مریض جان کنی کے عالم میں غیر ارادی طور پر کہہ دیتا ہے اور پھر منافقوں کو دین میں اعتراض کرنے کا موقع مل جائے۔ آپﷺ جس چیز پر پختگی سے حکم نہیں لگاتے تھے آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سلسلہ میں آپﷺ سے استفسار کرتے تھے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اختلاف اور آپﷺ اور قریش کے درمیان صلح نامہ سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپﷺ سے استفسار کیا، لیکن جب آپﷺ حتمی طور پر کسی چیز کا حکم دیتے تھے تو اس سلسلہ میں کوئی آپﷺ سے استفسار نہ کرتا تھا۔
(صحیح البخاری: العلم: حدیث، 114)
قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم وغیرہ میں أَہَجَرَ۔ یعنی ہمزۂ استفہام کے ساتھ ا أَہَجَرَ۔وارد ہے۔ اور ’’ ہَجَرَ، یَہْجُرُ‘‘ والی روایت کے مقابلے میں وہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ ’’ ہَجَرُ‘‘ کا معنی ’’ہذی‘‘ یعنی ہذیان بکنا (لغو اور بے مقصد بات بولنا) اور اس معنی میں ’’ہجر‘‘ کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف صحیح نہیں ہے۔ گویا یہ استفہام انکاری تھا اُن لوگوں کے ردّ میں جنہوں نے کہا تھا: ’’مت لکھو‘‘ لہٰذا اس کا مطلب ہوا کہ آپﷺ کے قول کو نہ چھوڑو اور اسے اس آدمی کی بات کی طرح نہ بنا دو جو اپنی بات میں ہذیان بکتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی بات چھوڑنے کے لائق نہیں کیونکہ آپﷺ ہذیان سے پاک ہیں۔ اور سیدنا عمرؓ کے قول ’’حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ‘‘ میں دراصل ان لوگوں کی تردید ہے جنہوں نے آپؓ سے بحث کی تھی نہ کہ نبی کریمﷺ کے فرمان کی تردید۔
(صحیح السیرۃ النبویۃ: صفحہ، 750 بحوالہ شرح النووی علی صحیح مسلم: جلد، 11 صفحہ، 90)
علی طنطاویؒ نمذکورہ واقعہ پر حاشیہ لکھا ہے کہ میرے خیال میں سیدنا عمرؓ رسول اللہﷺ کی لمبی صحبت کی وجہ سے چونکہ اس بات کے عادی ہو گئے تھے کہ آپؓ کے سامنے اپنی رائے ظاہر کر دیتے اور جانتے تھے کہ آپﷺ کی طرف سے انہیں اس بات کی اجازت ہے اور آپؓ مزید خوش ہوتے ہیں اور پچھلے مباحث میں یہ بات گزر بھی چکی ہے کہ آپؓ صحبت نبویﷺ میں رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورے اور تجاویز پیش کرتے اور بعض امور کا مطالبہ کرتے اور بعض معاملات کا پوچھتے، پھر اگر وہ تجویز یا مطالبہ درست ہوتا تو آپؓ کو اس کی اجازت دے دیتے اور غلطیوں سے منع کر دیتے۔ چنانچہ جب آپﷺ نے فرمایا: اِئْتُوْنِیْ أَکْتُبَ لَکُمْ کِتَابًا۔
ترجمہ: ’’میرے پاس آؤ میں تمہارے لیے کچھ لکھ دوں‘‘
تو آپؓ نے اپنی عادت کے مطابق تجویز پیش کی کہ بہتر ہو گا صرف کتابِ الہٰی پر اکتفا کریں اور آپﷺ اس پر خاموش رہے، اگر آپﷺ وہ کتاب لکھوانا ہی چاہتے تو سیدنا عمرؓ کو خاموش کر دیتے اور جو چاہتے کر گزرتے۔