Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فدک کے بارے شیعہ علماء کے ایک سوال کا جواب

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

فدک کے بارے شیعہ علماء کے ایک سوال کا جواب

السوال

شیعہ علماء اپنے ٹی وی چینلز پر اکثر یہ بات کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جب قرآن میں یہ حکم موجود ہے کہ تمہاری وراثت میں سے اولاد کو اس کا حصہ ملنا چاہیے تو پھر حضرت ابوبکرؓ نے اس قرآنی حکم کی خلاف ورزی کیوں کی؟

الجواب

یہ صحیح ہے کہ قرآنی حکم کے مطابق فوت ہونے والے کے اموال متروکہ میں سے اس کے وارثوں کو حق ملتا ہے تاہم حضور اکرمﷺ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ خود آپﷺ نے اپنے آپ کو اس حکم سے الگ کر دیا تھا اور بتادیا تھا کہ انبیاء علیہم السلام کی میراث اس کی اولاد وغیرہ میں نہیں چلتی جب خود پیغمبرﷺ نے اس آیت میں اپنے آپ کو داخل نہیں کیا اور اس پر کھلا بیان دے دیا تو اب بتائیے اس آیت کی خلاف ورزی کہاں سے ہوگئی؟

کیا شیعہ علماء یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے یہ بات فرما کر خود قرآنی حکم کی مخالفت کی ہے کہ اللّٰہ تعالی حکم دے رہے ہیں کہ تمہاری اولاد کو میراث ملے اور آپﷺ نے فرمایا کہ میں قرآن کا یہ حکم تسلیم نہیں کرتا۔ میری وراثت کسی کو نہیں دی جائے گی، میرے بچوں کو نہ میری گھر والیوں کو اور نہ میرے کسی دوسرے عزیزوں کو۔ اللہ کے نبی کو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا بتانا کیا کسی مسلمان کا کام ہو سکتا ہے؟ کچھ تو سوچیں۔

شیخ الا سلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) لکھتے ہیں:

آیت میراث کے عموم سے آپ کی وراثت پر استدلال کرنا اس لئے صحیح نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت اس سے مستثنٰی ہے۔ جس طرح یہ مسائل استثنائی حیثیت رکھتے ہیں کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا اور قتل عمد کا مرتکب ورثہ سے محروم رہتا ہے نیز یہ کہ غلام وارث نہیں ہوتا

( المنتقی مترجم صفحہ 283)

قرآن کریم میں بہت سے احکام ایسے ملتے ہیں جن میں اللہ نے اپنے نبی کو ان سے مستثنی کر دیا ہے۔ دیکھئے اللہ تعالٰی نے قرآن میں بتایا کہ تمہارے لئے بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے چار سے زیادہ جائز نہیں اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حضورﷺ کی ازواج بیک وقت چار سے زیادہ تھیں سوال یہ ہے کہ کیا حضورﷺ نے قرآنی حکم کی خلاف ورزی کی تھی؟

شیعہ بیشک اس بد عقیدگی کا شکار ہوں کہ رسول اللہﷺ نے حکم قرآن کی مخالفت کی مگر ہم مسلمان کبھی اس بدعقیدگی کی حمایت نہیں کر سکتے، سو عام امت کے لئے تو یہ ہی قانون ہے مگر اللہ کے نبی کو اس قانون سے مستثنی رکھا گیا اور بیک وقت چار سے زائد ازواج آپ کے نکاح میں رہیں۔ اسی طرح عام قانون تو یہی ہے کہ مال متروکہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہو مگر حضورﷺ نے خود ہی بتا دیا کہ مجھے اس قانون کا پابند نہیں کیا گیا جس طرح انبیاء سابقین کے مال میں وراثت نہیں چلی اسی طرح میرے ترکہ میں بھی وراثت نہیں چلے گی، میں جو کچھ بھی چھوڑ کر جاؤں گا وہ سب کا سب امت کا ہو گا اور میری تمام امت اس کا فیض پائے گی۔ اگر ہم یہ بات نہ مانیں تو سوال پیدا ہو گا کہ کیا حضورﷺ نے اپنے شرعی وارثوں کو (جن میں آپﷺ کے چچاؓ اور آپﷺ کی ازواجؓ بھی ہیں ) محروم رکھ کر اسلام کے احکام وراثت کی خلاف ورزی کی تھی؟ نیز شیعہ علماء ساتھ ہی ساتھ اس سوال کا جواب بھی دیتے چلیں کہ کیا ان کے نزدیک مسلمان باپ کی کافر اولاد یا باپ کی قاتل اولاد اپنے باپ کے مال سے میراث پاسکتی ہے؟ اگر نہیں تو یہ کیا یوصیکم اللہ کے بیان کے منافی نہیں ہے؟ شیعہ علماء اگر واقعی سمجھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کی وراثت چھین لی تھی تو وہ اپنی عوام کو کم از کم اتنا تو بتا دیں کہ شیعہ مذہب میں جائیداد منقولہ میں عورتوں کو حصہ بھی ملتا ہے یا نہیں؟

حضرت باقر اور حضرت جعفر صادق رحمھما اللّٰہ کا یہ حکم غور سے پڑھیے سمجھ آجائے تو ان دو بزرگوں سے ہی معلوم کر لیجئے اور کم از کم حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مخالفت سے تو باز آجائیے فروع کافی میں حضرت محمد باقر رحمہ اللّٰہ کا بیان یہ ہے:

ان النساء لا يرثن من العقار شيئا (کافی کتاب المواریث جلد 7 صفحہ 137)

ابن بابویہ قمی نے جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کا قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے:

النساء لا يرثن من الارض ولا من العقار شيئا وروى ابن بابويه القمى عن الصادق انه سئل عن النساء ما لهن من الميراث فقال اما الارض والعقارات فلا ميراث لهن فيه

(من لا یحضره الفقیه جلد 4 صفحہ 347)

یعنی زمین اور غیر منقولہ جائیداد میں عورتوں کی میراث نہیں ان کو وراثت میں سے کچھ نہیں ملے گا۔