Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور خاندان نبوت

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

سیدنا عثمانؓ اور خاندانِ نبوت

سیدنا عثمانؓ آنحضرتﷺ اور سیدنا علیؓ کے قریبی رشتہ دار تھے آپؓ ددھیال ننھیال ازواج و اولاد میں ہر طرف سے خاندانِ نبوت کے قرابت دار تھے آپؓ کے بارے میں ایک طرف آنحضرتﷺ کی بے شمار احادیث ہیں تو دوسری طرف آپؓ سیدنا علیؓ سیدنا حسینؓ سیدنا حسنؓ کے والہانہ پیار و محبت کےبندھن میں بندھے ہوئے تھے سیدنا عثمانِ غنیؓ کی آنحضرتﷺ سے لے کر خاندانِ نبوت کے تمام افراد کے ساتھ علیحدہ علیحدہ رشتہ داری اور باہمی یگانگت و صلہ رحمی مسلمہ حقیقت کے طور پر تاریخ کے قرطاس پر زیب عنوان ہے جس طرح اس دور میں رشتوں کا لین دین باہمی محبت کی علامت ہے اس طرح عہد اولیٰ میں بھی ان رشتوں و حقیقی قربت کا درجہ حاصل تھا۔

آنحضرتﷺ اور سیدنا علیؓ کے ساتھ سیدنا عثمانؓ کی رشتہ داری

شیعہ مورخ شارح نہج البلاغہ ابنِ ابی الحدید نے بنی امیہ اور بنی عباس یعنی عبد شمس اور بنی ہاشم کے چھ عدد رشتے نقل کیے ہیں ـ

1ـ سیدنا عثمانِ غنیؓ کی والدہ ارویٰ بنتِ کریز ہیں جو آنحضرتﷺ کی حقیقی پھوپھی سیدہ ام حکیمؓ بنتِ عبدالمطلب کی صاحب زادی ہیں سیدنا عثمانؓ آنحضرتﷺ اور سیدنا علیؓ کی پھوپھی زاد بہن کے صاحبزادے ہیں۔

(طبقات بن سعد جلد 8 صفحہ 122 وانساب الاشراف جلد 5 صفحہ 1)

سیدنا عثمانؓ کی نانی سیدہ ام حکیمؓ آنحضرتﷺ اور سیدنا علیؓ کی پھوپھی ہیں یہ آنحضرتﷺ کے والد سیدنا عبداللہ یعنی سیدنا علیؓ کے چچا کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھیں۔

اس رشتے کو شیعہ عالم شیخ عباس قمی نے بھی "منتہی المال"جلداول میں نقل کیا ہے۔

2۔ سیدنا علیؓ کے والد سیدنا حسینؓ و سیدنا حسنؓ کے دادا ابو طالب سیدنا عثمانؓ کی والدہ کی ماں کے ماموں ہیں اور سیدنا عثمانؓ کی والدہ ان کی بھانجی ہیں ـ

3۔ سیدنا علیؓ سیدنا عثمانِ غنیؓ کی والدہ کے ماموں زاد بھائی ہیں اسی طرح سیدنا عقیلؓ سیدنا جعفر طیارؓ بھی سیدنا عثمانؓ کی والدہ کے ماموں زاد بھائی ہیں۔

4۔ سیدنا عثمانؓ سیدنا حمزہؓ اور سیدنا عباسؓ کی بھانجی کے بیٹے ہیں۔

5ـ حضورﷺ کی دو صاحب زادیاں سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمّ کلثومؓ یکے بعد دیگر سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں آئیں جس کی وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔

6۔ سیدہ رقیہؓ سے سیدہ عثمانؓ کا لڑکا سیدنا عبداللہ پیدا ہوا چھ سال کی عمر میں فوت ہوا اصح قول یہ ہے اسی سے سیدنا عثمانؓ کی کنیت ابو عبداللہ مشہور ہوئی۔ (بحوالہ رحماءُ بینہم جلد 3)

سیدہ رقیہؓ سیدہ اُمّ کلثومؓ کے ساتھ سیدنا عثمانؓ کے فضائل

جب سیدنا عثمانؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو سیدہ رقیہؓ نے بھی ساتھ ہجرت کی جنگِ بدر کے موقع پر سیدہ رقیہؓ بیمار تھیں اس لیے آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو ان کے پاس رہنے اور بیماری میں خبرگیری کی ہدایت فرمائی

آنحضرتﷺ بدر ہی میں تھے کہ سیدہ رقیہؓ فوت ہو گئیں آپﷺ جب مدینہ پہنچے تو لوگ سیدہ رقیہؓ کی قبر پرمٹی ڈال رہے تھےـ

(طبقات بن سعد صفحہ 26 جلد8)۔

سیدہ رقیہؓ کی وجہ سے سیدنا عثمانؓ جنگِ بدر میں شامل نہ ہو سکے تاہم آنحضرتﷺ نے بدر کے شرکاء میں آپؓ کو بھی شامل کیا آپﷺ نے غنائم میں بھی آپؓ کو حصہ عطا فرمایا سیدنا عثمانؓ نے عرض کیا: اجر و ثواب کا کیا ہوا؟ آپﷺ نے فرمایا: اجر و ثواب بھی شامل ہے۔

(رحماءُ بينہم جلد 4 صفحہ 40)

سیدنا عثمانؓ کا بدر میں پیچھے رہ جانا چونکہ آنحضرتﷺ کے فرمان کی وجہ سے تھا اس لیے اس سے اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں پائی گئی یہاں شیعہ کا اعتراض بے بنیاد ہے ورنہ جنگِ تبوک میں سیدنا علیؓ حضورﷺ کے حکم سے شریک نہ ہوئے تو اسے بھی اسلام کے خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

(کنز الاعمال جلد 6 تاریخِ کبیر جلد 2)

آنحضرتﷺ نے فرمایا میں نے آسمانی وحی کی بنا پر ہی اپنی بیٹی سیدہ ام کلثومؓ عثمان بن عفانؓ کے نکاح میں دی۔

سیدہ ام کلثومؓ جب 9ھ میں فوت ہوئیں تو آپؓ کا جنازہ خود آنحضرتﷺ نے پڑھایا اور سیدنا علیؓ (اپنی سالی کے) دفن کے لیے قبر میں اترے سیدنا فضل بن عباسؓ اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ بھی آپؓ کے ہمرا تھے انہوں نے پورے احترام کے ساتھ آخر میں آرام گاہ تک پہنچایا۔

سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح سیدنا ابان بن عثمانؓ سے ہوا

سیدہ ام کلثومؓ بنتِ عبداللہ بن جعفر پہلے اپنے چچا زاد بھائی سیدنا قاسمؓ بن محمد بن جعفر کے نکاح میں تھی ان کا دوسرا نکاح سیدنا عثمانؓ کے صاحبزادے سے ہوا تھا۔

سیدنا عثمانؓ اور سیدنا حسینؓ کی رشتہ داری

سیدنا حسینؓ بن علی المرتضیؓ کی صاحبزادی سیدہ سکینہؓ بنت حسینؓ سیدنا عثمانؓ کے پوتے زید بن عمرو بن عثمانؓ کے نکاح میں تھیں۔

(طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ 349)۔

کتاب نسب قریش کے مطابق سیدہ سکینہؓ کی پہلی شادی سیدنا مصعب بن زبیرؓ بن عوام سے ہوئی سیدنا مصعبؓ سے انکے ہاں ایک بچی فاطمہ پیدا ہوئی سیدنا مصعبؓ کے انتقال کے بعد سیدہ سکینہؓ کا نکاح عبداللہؓ بن عثمانؓ بن عبداللہ بن حکیم بن حزام سے ہوا سیدنا عبداللہؓ کی وفات کے بعد یہ زید بن عمرو بن عثمانؓ کے نکاح میں آئیں۔

(بحوالہ رحماءُ بینہم صفحہ 55 جلد 3)۔

سیدنا عثمانؓ کے ساتھ سیدنا حسینؓ کی ایک اور رشتہ داری حسب ذیل ہے:

سیدہ فاطمہؓ بنتِ حسینؓ بن علیؓ کے ساتھ ان کے چچا زاد بھائی سیدنا حسنؓ بن حسنؓ مثنیٰ نے نکاح کیا اس سے عبداللہ ابراہیم اور زینب پیدا ہوئے پھر سیدنا حسنؓ بن حسنؒ فوت ہو گئے اسکے بعد انکا نکاح سیدنا عثمانؓ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ سے ہوا۔

سیدہ فاطمہؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کے ذریعے نکاح کی اجازت دی عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ سے ایک لڑکی رقیہ اور دو لڑکے قاسم اور محمد دیباج پیدا ہوئے (بڑے خوبصورت تھے) ملاحظہ ہو کے سیدہ فاطمہ بنت حسینؓ کی والدہ کا نام ام اسحاق بنتِ طلحہ بن عبداللہ تھا اس رشتہ کو بھی شیعہ مؤرخ ابو الخراج اصفہانی نے تسلیم کیا ہے۔

(طبقات ابنِِ سعد صفحہ347 جلد 6 معارف بن ابی قتیبہ صفحہ39 بحوالہ رحماء بینہم صفحہ 86 جلد 3)

سیدنا عثمانؓ اور سیدنا حسنؓ کے مابین قرابتداری

کتاب نسب قریش صفحہ 53 پر ہے:

سیدنا حسنؓ کی پوتی ام القاسم بنتِ الحسن کا نکاح سیدنا عثمانؓ کے پوتے مروان بن ابان بن عثمانؓ کے ساتھ ہوا ان سے ایک لڑکا محمد پیدا ہوا۔

مروان کے بعد ام القاسم کا نکاح حسینؓ بن عبداللہ عبید اللہ بن العباس بن عبدالمطلب سے ہوا ان سے کوئی اولاد نہ ہوئی ام القاسم حسین بن عبداللہ کے یہاں فوت ہوئیں۔

(بحوالہ رحماء بینہم صفحہ 58 جلد 3)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ سیدنا عثمانؓ کی آنحضرتﷺ سیدنا علیؓ سیدنا حسینؓ سیدنا حسنؓ میں ہر ایک کے ساتھ کس قدر گہری رشتہ داری ہے اس کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ خلیفہ سوم خاندانی شرافت کے طور پر کس قدر اعلیٰ مقام پر فائز تھے خود سیدنا عثمانؓ خاندانِ بنو اُمیّہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن آپ کی سب سے زیادہ رشتے داری بنی ہاشم کے ساتھ تھی خود اور بچوں بچیوں کے ساتھ اس قدر رشتوں کے لین دین کے بعد ناظرین واقف ہو گئے ہوں گے کہ اگر شیعہ نقطہ نظر کے مطابق سیدنا عثمانؓ کو کافر منافق بقول خمینی بدقماش (العياذ باللّٰہ) تسلیم کر لیا جائے تو خود خاندانِ نبوت سے محبت کے دعوؤں میں وہ کس کھاتے میں شمار ہونگے کیا کافر یا العیاذ باللہ منافق انسان کو اللہ کا رسولﷺ اپنی یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں دے سکتا ہے جبکہ قرآن میں واضح طور پر کافروں کو لڑکیاں دینے کی ممانعت آ چکی تھی۔

ولا تنكحوا المشركين حتىٰ يؤمنوا۔

کافروں کے ساتھ نہ نکاح کرو جب تک وہ مومن نہ بن جائیں۔

سیدنا عثمانؓ کا خاندانِ نبوت میں نکاح ہی ان کے ایمان کی قوی دلیل ہے حالانکہ قرآن و حدیث کے بیشتر مقامات بھی اس پر شاہد عدل ہے۔

سیدنا عثمانؓ کے بارے میں سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات

1۔ سیدنا علیؓ کی خلافت کا زمانہ تھا ان کی جماعت کے ایک شخص نے ان سے دریافت کیا کہ اگر لوگ مجھ سے سوال کریں کہ امیر المومنین سیدنا عثمانؓ کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں تو میں کیا جواب دوں؟

 سیدنا عثمانؓ کے بارے میں میرا خیال بہت اچھا ہے۔

اخبرهم ان قولى في عثمانؓ احسن القول ان عثمان كان من الدين امنوا وعملوا الصالحات ثم اتقوا وامنوا ثم اتقوا واحسنوا ولله يحب المحسنين۔

ان کو بتا دو کہ سیدنا عثمانؓ کے بارے میں میرا خیال بہت عمدہ ہے یقیناً سیدنا عثمانؓ ان لوگوں میں ہے جن کے حق میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

وہ لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے پھر پرہیزگاری کی اور یقین کیا پھر تقویٰ اختیار کیا اور نیکو کاری کی اللہ نیکو کاری کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

(الاستیعاب جلد 3 صفحہ 76 کنز الاعمال جلد 6 صفحہ 389)۔

2۔ مشہور مفسر اور مؤرخ حافظ عماد الدین ابنِ کثیرؒ البدایہ میں رقم طراز ہیں:

سیدنا عثمانؓ ہم میں بہترین شخص تھے

سیدنا علیؓ نے فرمایا سیدنا عثمان بن عفانؓ ہم میں سے بہترین شخص تھے اور صلہ رحمی کرنے والے تھے اور زیادہ حیا دار اور پاکیزہ تھے اللہ سے بہت زیادہ خوف کرنے والے تھے۔

(البدایہ جلد 2 صفحہ 194)۔

3۔ الاستیعاب اور الاصابہ اور تاریخ الخلفاء میں علامہ سیوطیؒ کا قول ملاحظہ ہو: 

تزل بن سرہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ سیدنا عثمان بن عفانؓ کے مقام کے بارے میں بیان فرمائیں تو آپؓ نے فرمایا عثمانؓ وہ شخص ہیں جن کو ملاء اعلیٰ یعنی آسمانوں پر فرشتوں کی جماعت میں ذوالنورین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپؓ آنحضرتﷺ کے داماد ہیں آپﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں۔

(کنز الاعمال جلد 2 صفحہ 379 پر ہے)۔

4۔ سیدنا عثمانؓ کے بارے میں سیدنا علی المرتضیٰؓ سے بعض آدمیوں نے سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا وہ بہترین شخص تھے چوتھے آسمان پر آپ کا نام ذوالنورینؓ تحریر کیا گیا۔

ایک مرتبہ پھر رسولﷺ نے فرمایا جو شخص ایک مکان خرید کر مسجد میں اضافہ کر دے گاتو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیں گے سیدنا عثمانؓ نے وہ مکان خرید کر وقف کر دیا۔

پھر حضورﷺ نے فرمایا جیش العروہ غزوہ تبوک میں لشکر کی تیاری کا سامان جو شخص پیش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیں گے تو سیدنا عثمانؓ نے پالان کی رسی تک لشکر کا سامان تیار کیا۔

سیدنا علیؓ کا تاریخی اعلان

جو سیدنا عثمانؓ سے بری ہوگا وہ دین اسلام سے بری ہو گا:

 ابنِ عبد اللہؓ نے الاستیعاب میں نقل کیا ہے: 

قال علىؓ من تبرا من دين عثمانؓ فقد تبرا من الايمان

یعنی سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ جس شخص نے سیدنا عثمانؓ کے دین سے تبرا اور بیزاری اختیار کی وہ یقیناً ایمان و دین سے بری ہوگا۔ 

(ایضاً صفحہ 76 جلد 3)

خدا کی قسم میں سیدنا عثمانؓ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں

 انساب الاشراف میں علامہ بلاذری نے سیدنا علیؓ کا یہ قول نقل کیا ہے:

اللہ کی قسم میں اس نقشِ قدم پر چل رہا ہوں جس پر سیدنا عثمانؓ آ رہے تھے اللہ کے دین کے معاملے میں خیرات و حسنات میں سبقتیں حاصل ہیں جن کے بعد اللہ ان کو کبھی عذاب نہیں دے گا۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں سیدنا عثمانؓ کی فضیلت

عہدِ صدیقیؓ میں مدینہ منورہ میں قحط رونما ہوا بارش نہ ہوئی لوگ مجتمع ہو کر سیدنا ابوبکرؓ کی خدمت میں آئے اور بارش کی دعا چاہی آپ نے فرمایا شام تک خدا کوئی صورت پیدا کر دے گا تھوڑی دیر کے بعد ملک شام میں سے غلہ سے لدا ہوا 100 اونٹوں پر مشتمل قافلہ مدینہ منورہ پہنچا تحقیق پر معلوم ہوا یہ سارا قافلہ سیدنا عثمانؓ کا ہے آپؓ نے اگلے ہی روز سارا غلہ فقراء مسلمانوں پر صدقہ کر دیا۔ 

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں میں اسی رات خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا آپﷺ ایک عمدہ ترکی گھوڑے پر سوار ہیں نورانی لباس زیب تن ہے جلدی تشریف لے جانے کی سعی فرما رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مجھے آپ کے دیدار کا بہت شوق تھا گفتگو کرنے کی تمنا بھی کہاں عجلت فرما رہے ہیں آپ نے فرمایا اے سیدنا ابنِ عباسؓ! سیدنا عثمان بن عفانؓ نے خدا کے راستے میں اتنی بڑی خیرات کی ہے کہ اللہ نے اس کو قبولیت بخشی ہے اس سلسلے میں میں جنت اجتماع خوشنودی ہو رہا ہے مجھے شمولیت کے لیے بلایا گیا ہے۔

سیدنا عثمانؓ کے بارے میں سیدنا حسنؓ کا بیان

طوالت کی وجہ سے پورا واقعہ چھوڑ کر آخری پیرا گراف نقل کیا جاتا ہے سیدنا حسنؓ فرماتے ہیں: 

سیدنا عثمانؓ کی شہادت پر آسمان سے زمین کی طرف خون کے دو پرنالے بہا دیئے گئے ہیں کہا گیا یہ خونِ سیدنا عثمانؓ ہے اس خون کا مطالبہ ہو گا۔ 

(البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 197)

سیدنا زین العابدینؒ کا بیان

 سیدنا زین العابدینؒ کے سامنے عراق کے کچھ آدمیوں نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ پر طعن کیا تو آپ نے فرمایا: 

تم جن کے بارے میں طعن کرتے ہو وہ تو مہاجرین میں سے ہیں اور اس کا تم بھی اقرار کر رہے ہو کہ تم ان میں سے نہیں ہو تم ہمارے یہاں سے نکل جاؤ اللہ تمہارے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کے تم اہل ہو۔ 

(حلیہ الاولیاء ابو نعیم اصفهہانی جلد 3 صفحہ 137)

سیدنا جعفر صادقؒ کی طرف سے سیدنا عثمانؓ کو خراجِ تحسین

سیدنا عثمانؓ کی ہستی مسائلِ دینیہ میں ایک معیار اور کسوٹی ہے آپ کا کردار مقبول اور لائق اور قابلِ اتباع ہے۔

(تلخیص مضمون رحماء بینہم جلد 3 صفحہ 107)

سیدنا عثمانؓ اور ان کی جماعت کامیاب رہی:

 قال الصادق ينادى مادى السماء أول النهار الا ان علياؓ صلوت الله عليه وشيعته هم الفائزون قال دنيادى مناد آخر النهار الا ان عثمانؓ وشيعته هم الفائزون۔

(فروعِ کافی جلد 3 صفحہ 146)۔

سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں (امام مہدی کے دور میں) اول دن میں آسمان سے آواز سنائی دے گی کہ اچھی طرح سن لو سیدنا علیؓ اور ان کی جماعت کامیاب ہے اور آخر دن میں یہ ندا آئے گی کہ گوش و ہوش سے سنو سیدنا عثمانؓ اور ان کی جماعت کامیاب ہے۔