منکرات و بدعات محرم الحرام
شیخ عبدالصمدمنکرات و بدعات محرم الحرام
علامہ عبدالصمد حیدری
الحدیث:
قال رسول اللہ ﷺ مَنْ تَشَبہ بِقَوم فَھُوَ مِنْھُمْ۔
ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوگا۔ (قیامت میں اس کے ساتھ حشر ہو گا)
ماہِ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد تو آنحضرتﷺ کے واقعہ ہجرت پر ہے۔ بیشک یہ مہینہ حرمت والا ہے جس کی حرمت کا بیان واقعہ کربلا سے پہلے قرآن و حدیث میں آ چکا ہے اس لئے اس کی حرمت کا تعلق واقعہ کربلا سے ہرگز نہیں۔ اس مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحہِ شہادت اور واقعہِ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کا واقعہ اگر بعد میں ہونے والی ان شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہلِ اسلام اس کا اعتبار کرتے۔ سیدنا عثمانؓ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم و گریہ زاری کی اجازت ہوتی تو یقیناً تاریخِ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھیں کہ اہلِ اسلام ان پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم و گریہ زاری کرتے، کم ہوتا۔ لیکن اسلام میں ماتم و گریہ زاری کی اجازت نہیں۔
عشرہ محرم (محرم کے ابتدائی دس دن) میں شیعہ حضرات جس طرح مجالس عزا اور محافل ماتم برپا کرتے ہیں، ظاہر بات ہے کہ یہ سب اختراعی چیزیں ہیں اور شریعتِ اسلامیہ کے مزاج سے قطعاً مخالف ہے۔اسلام نے تو نوحہ و ماتم کے اس انداز کو"جاہلیت" سے تعبیر کیا ہے اور اس کام کو باعثِ لعنت بلکہ کفر تک پہنچا دینے والا بتلایا ہے۔
نواسہ رسولﷺ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جس کی مذمت بہر آئینہ ضروری ہے۔ لیکن اس بنیاد پر ماتم، سینہ کوبی اور سب و شتم کا بازار گرم کرنے کی بھی کسی طور تائید نہیں کی جا سکتی۔
بد قسمتی سے اہلِ سنت میں سے ایک بدعت نواز حلقہ اگرچہ نوحہ و ماتم کا شیعی انداز تو اختیار نہیں کرتا لیکن ان دس دنوں میں بہت سی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جن سے رفض و تشیع کی ہمنوائی اور ان کے مذہب باطل کا فروغ ہوتا ہے۔ مثلاً:
شیعوں کی طرح سانحہِ کربلا کو مبالغے اور رنگ آمیزی سے بیان کرنا۔
سیدنا حسینؓ اور یزید کی بحث کے ضمن میں جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (سیدنا معاویہؓ اور سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ وغیرہ) کو ہدفِ طعن و ملامت بنانے میں بھی تامل نہ کرنا۔
دس محرم کو تعزیے نکالنا، انہیں قابلِ تعظیم پرستش سمجھنا، ان سے منتیں مانگنا، حلیم پکانا، پانی کی سبیلیں لگانا اپنے بچوں کو کالے رنگ کےکپڑے پہنا کر غم کا ظاہری اظہار کرنا وغیرہ وغیرہ۔
دس محرم کو تعزیوں اور ماتم کے جلوسوں میں ذوق و شوق سے شرکت کرنا ان محفلوں کی رونق میں اضافہ کرنا۔
ماہِ محرم کو سوگ کا مہینہ سمجھ کر اس مہینے میں شادیاں نہ کرنا۔
ذوالجناح (گھوڑے) کے جلوس میں ثواب کا کام سمجھ کر شرکت کرنا۔اور اسی انداز کی کئی چیزیں ہیں حالانکہ یہ سب چیزیں بدعت ہیں جن سے نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق اجتناب ضروری ہے۔
سنت ہدایت اور بدعت گمراہی کا راستہ:
آپﷺ نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے:
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِفَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
ترجمہ: مسلمانو! تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ کے طریقے ہی کو اختیار کرنا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچا کر رکھنا، اس لیے کہ دین میں نیا کام (چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(مسند احمد: جلد: 4 صفحہ، 126۔ 127 وسنن ابی داؤد، السنۃ، ح، 4607 وابنِ ماجہ، اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین ح، 42 وجامع الترمذی: العلم، ح: 2676)
یہ بات ہر ایک پر واضح ہے کہ یہ سب چیزیں صدیوں بعد کی پیداوار ہیں، اور ان کے بدعات ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور نبیﷺ نے ہر بدعت کو گمراہی سے تعبیر فرمایا ہے جس سے مذکورہ خود ساختہ رسومات کی شناعت و قباحت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
محرم میں مسنون عمل:
محرم میں مسنون عمل صرف روزے ہیں حدیث میں رمضان کے علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے عاشورے کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپﷺ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں ، اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: (لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ) اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔
(صحیح مسلم،الصیام، باب ای یوم یصام فی عاشوراء: ح: 1134)
اس اعتبار سے 10 محرم کے روزے کی مسنونیت تو مسلم ہے، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آپﷺ نے اس کے ساتھ 9 محرم کا روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔
مذکورہ بدعات اور رسومات کی ہلاکت خیزیاں:
دین میں اپنی طرف سے اضافے ہی کو بدعت کہا جاتا ہے۔ پھر یہ چیزیں صرف بدعت ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ شرک و بت پرستی کے ضمن میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ:
اولاً: تعزیے میں روحِ حسین کو موجود اور انہیں عالم الغیب سمجھا جاتا ہے، تب ہی تو تعزیوں کو قابلِ تعظیم سمجھتے اور ان سے مدد مانگتے ہیں حالانکہ کسی بزرگ کی روح کو حاضر ناظر جاننا اور عالم الغیب سمجھنا شرک و کفر ہے، چنانچہ حنفی مذہب کی معتبر کتاب فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے (من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر) جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں ہر جگہ حاضر وناظر ہیں اور وہ علم رکھتی ہیں وہ کافر ہے۔
ثانیاً: تعزیہ پرست نوحہ خوانی و سینہ کوبی کرتے ہیں اور ماتم و نوحہ میں کلمات شرکیہ ادا کرتے ہیں، اول تو نوحہ خوانی بجائےخود غیر اسلامی فعل ہے جس سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ)
ترجمہ: وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کیے اور زمانہِ جاہلیت کے سے بین کیے۔
(صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود: ح، 1297)
یہ صورتیں جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہیں، نوحہ و ماتم کے ضمن میں آتی ہیں، جو نا جائز ہیں۔ اس لیے فطری اظہار غم کی جو بھی مصنوعی اور غیر فطری صورتیں ہوں گی، وہ سب نا جائز نوحے میں شامل ہوں گی۔
ثالثاً: تعزیہ پرست سیدنا حسینؓ کی مصنوعی قبر بناتے ہیں اور اس کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ حدیث میں آتا ہے: (من زار قبرا بلا مقبور کانما عبدالصنم)
ترجمہ: یعنی جس نے ایسی خالی قبر کی زیارت کی جس میں کوئی میت نہیں تو گویا اس نے بت کی پوجا کی۔
(رسالہ تنبیہ الضالین، از مولانا اولاد حسن، والد نواب صدیق حسن خان)
مولانا احمد رضا خاں بریلوی صاحب کی صراحت:
تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیئے۔
(عرفان شریعت: حصہ اول، صفحہ، 15)
عشرہِ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کردیا۔
(تعزیہ داری: صفحہ، 4)
تعزیہ بنانا اور اس پر نذر ونیاز کرنا، عرائض بہ امید حاجت برآری لٹکانا بدعت سیئہ و ممنوع و ناجائز ہیں (تعزیہ داری: صفحہ، 15)
محرم شریف میں مرثیہ خوانی میں شرکت ناجائز ہے، وہ مناہی و منکرات سے پر (بھرے) ہوتے ہیں۔
(عرفان شریعت کے حصہ اول: صفحہ، 16)
(شیعوں) کی مجلسوں میں جانا اور مرثیہ سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے۔ ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلیتن کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت ہے۔
(احکام شریعت حصہ اول: صفحہ، 140 ناشر مشتاق بک کارنر مصنف احمد رضا بریلوی)
محرم میں کالے کپڑے پہننا حرام ہے۔
(احکام شریعت حصہ اول: صفحہ، 140)
شیعوں سے کھانا پینا ملنا جلنا سب حرام ہے۔
(احکام شریعت حصہ دوم: صفحہ، 185)
شیعوں کے ساتھ بیٹھنا کھانا کھانا ان کا جنازہ پڑھنا شادی بیاہ میں شریک ہونا منع ہے۔
(احکام شریعت حصہ دوم: صفحہ، 186)
مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسائل ذیل میں؟
1: بعض اہلِ سنت و الجماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے اور نہ جھاڑو دیتے ہیں، کہتے ہیں بعد دفن روٹی پکائی جائے گی۔
2: ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔
3: ماہِ محرم میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔
الجواب: تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ (احکام شریعت حصہ اول: صفحہ، 141)
حدیث کی ان تصریحات اور مولانا احمد رضا خان بریلوی صاحب کی توضیح کے بعد امید ہے کہ بریلوی علماء اپنے عوام کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے اور عوام اپنی جہالت اور علماء کی خاموشی کی بنا پر جو مذکورہ بدعات وخرافات کا ارتکاب کرتے ہیں یا کم از کم ایسا کرنے والوں کے جلوسوں میں شرکت کر کے ان کے فروغ کا سبب بنتے ہیں، ان کو ان سے روکنے کی پوری کوشش کریں گے۔
عشرہ محرم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا احترام مطلوب:
عشرہ محرم میں عام دستور رواج ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات کربلا کو مخصوص رنگ اور افسانوی و دیو مالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے اہلِ سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطیبان سحر بیان بھی گرمی محفل اور عوام سے داد و تحسین وصول کرنے لیے اسی تال سر میں ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اور ان کی انفرادیت کا غماز ہے اس سانحہ شہادت کا ایک پہلو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر شیعوں کی محفل ماتم سیدنا حسینؓ مکمل نہیں ہوتی۔ کسی صحابی کے حقوق میں زبان طعن و تشنیع کھولنا اور ریسرچ کے عنوان پر نکتہ چینی کرنا ہلاکت و تباہی کو دعوت دینا ہے۔
سیدنا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِی فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ۔
(صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبیﷺ: ح، 3673 وصحیح مسلم، فضائل الصحابۃ: ح، 2540۔ 2541)
میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سب وشتم نہ کرو (یعنی انہیں جرح و تنقید اور برائی کا ہدف نہ بناؤ) انہیں اللہ نے اتنا بلند رتبہ عطا فرمایا ہے) کہ تم میں سے کوئی شخص اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مُد (تقریباً ایک سیر) بلکہ آدھے مُد کے بھی برابر نہیں ہوسکتا۔
رسوماتِ محرم علمائے اسلام کی نظر میں:
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا:
اے بنی آدم! تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں اپنا رکھی ہیں (مثلاً) تم دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماع کرتے ہو۔ کئی لوگوں نے اس دن کو نوحہ و ماتم کا دن بنا لیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حادثے رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اگر سیدنا حسینؓ اس دن (مظلوم شہید کے طور پر) قتل کیے گئے تو وہ کون سا دن ہے جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ فوت نہیں ہوا (لیکن تعجب کی بات ہے کہ) انہوں نے اس سانحہ شہادت مظلومانہ کو کھیل کود کی چیز بنا لیا تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنا لیا، گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیال نہیں (جو فرض ہے) ان کو تم نے ضائع کر دیا، یہ لوگ اپنے ہی من گھڑت کاموں میں مشغول رہتے ہیں، نمازوں کی توفیق ان کو ملتی ہی نہیں۔
(التفہیمات الإلہٰیۃ: جلد، 1 تفہیم: جلد، 69 صفحہ، 288 طبع حیدر آباد سندھ 1970ء)
حافظ ابنِ کثیرؒ نے فرمایا:
حافظ ابنِ کثیرؒ 354ھ کے واقعات میں ماتمی جلوسوں کے سلسلے میں لکھتے ہیں: یہ (ماتمی مجالس وغیرہ) کی رسمیں، اسلام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں اگر یہ واقعتاً اچھی چیز ہوتی تو خیر القرون اور اس امت کے ابتدائی اور بہتر لوگ اس کو ضرور کرتے، وہ اس کے سب سے زیادہ اہل تھے (بات یہ ہے کہ) اہلِ سنت (سنتِ نبویﷺ کی) اقتداء کرتے ہیں، اپنی طرف سے بدعتیں نہیں گھڑتے۔
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 11 صفحہ، 271)
نوحہ و ماتم کے بارے میں اہلِ بیتؓ کے اقوال شیعوں کی کتابوں سے:
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ کسی کے لئے درست نہیں کہ وہ (کسی کی موت پر) تین دن سے زیادہ سوگ منائے اور زینت ترک کرے سوائے اس عورت کے جس کا شوہر مر گیا ہو۔
(من لایحضرہ الفقیہ اردو: جلد، 1 صفحہ، 132)
سیدنا حسینؓ نے کربلا کے میدان میں اپنی بہن سیدہ زینبؓ کو وصیت کی: اے بہن! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں اگر میں شہید کر دیا جاؤں تم سینہ کوبی نہ کرنا، ماتم نہ کرنا، چہرہ نہ پیٹنا، ناخن سے اپنے چہرے کو نہ چھیلنا۔
(منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 248، الارشاد: جلد، 2 صفحہ، 94)
حضور نبی کریمﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو وصیت کی: یا فاطمۃؓ اذا انامت فلا تخمشی الوجہ۔
ترجمہ: اے فاطمہؓ! جب میں فوت ہو جاؤں تو تم چہرہ نہ چھیلنا۔
(فروع کافی: جلد، 5 صفحہ، 527 جلاءالعیون اردو: جلد، 1 صفحہ، 136)
شاہ اسماعیل شہیدؒ نے فرمایا:
خلاصہ عبارت یہ ہے کہ پاک و ہند میں رافضیوں کے زیرِ اثر تعزیہ سازی کی جو بدعت رائج ہے یہ شرک تک پہنچا دیتی ہے کیونکہ تعزیے میں سیدنا حسینؓ کی قبر کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور پھر اس کو سجدہ کیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ کرتے ہیں اور اس معنیٰ میں یہ پورے طور پر بت پرستی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
(صراطِ مستقیم، صفحہ، 59)