قرآن کریم کو جمع کرنا
علی محمد الصلابیقرآنِ کریم کو جمع کرنا
جنگِ یمامہ میں مسلمان شہداء میں ان شہیدوں کی تعداد زیادہ تھی جو قرآن کے حافظ تھے، اس کے نتیجے میں سیّدنا ابوبکر صدیق نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے قرآن جمع کرنے کا حکم دیا اور اسے چمڑے کے ٹکڑوں، ہڈیوں، کھجور کی شاخوں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر یکجا کیا گیا۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے یہ عظیم کام بزرگ صحابی زید بن ثابت انصاریؓ کو سونپا، حضرت زید بن ثابتؓ کا بیان ہے کہ جنگِ یمامہ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ نے مجھے بلایا، آپؓ کے ساتھ سیدنا عمر بن خطابؓ تھے، سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: سیدنا عمرؓ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگِ یمامہ کے موقع پر بہت سارے قراء و حفاظ شہید کر دیے گئے اور مجھے خوف ہے کہ دوسری جگہوں میں بھی کہیں حفاظ قرآن شہید ہوئے تو قرآن کریم کا بیشتر حصہ کہیں ضائع نہ ہو جائے ، لہٰذا میرے خیال میں آپؓ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں۔ تو میں نے سیدنا عمرؓ سے کہا: میں وہ کام کیسے کروں جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا؟ سیدنا عمرؓ نے یقین دلایا کہ اللہ کی قسم! یہ عمل بہت بہتر ہو گا اور برابر مجھ سے اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے سینے کو بھی اس کام کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمرؓ کا سینہ کھولا تھا اور میری رائے بھی وہی ہو گئی جو سیدنا عمرؓ کی تھی۔ حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا: تم ایک نوجوان اور عقلمند آدمی ہو، ہمیں تم پر کوئی شک نہیں، تم رسول اللہﷺ کے کاتبِ وحی تھے، لہٰذا قرآن کو ڈھونڈو اور اسے یکجا کرو۔
حضرت زید بن ثابتؓ کا بیان ہے کہ اگر سیدنا ابوبکرؓ مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ مجھ پر اتنا گراں نہ ہوتا جتنا قرآن کا جمع کرنا مجھ پر بھاری پڑا۔
(محض الصواب فی فضائل أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب: جلد، 1 صفحہ، 262)
جمع قرآن کے اس واقعہ سے چند نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں
1۔ مرتدین کے خلاف جنگ میں بہت سے حفاظ قرآن کی شہادت کو دیکھتے ہوئے قرآن ضائع ہو جانے کے خطرے اور اندیشے کے نتیجہ میں قرآن کریم کو یکجا کیا گیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت حفاظ و علماء، اسلام اور مسلمانوں کی قوت اپنے افکار و کردار اور تلوار کے ذریعہ سے بلند کرنے کے لیے عملی اور مجاہدانہ قدم اٹھانے میں جلدی کرتے تھے۔ اس طرح وہ امتِ مسلمہ کے چیدہ افراد میں سے تھے جو لوگوں کی اصلاح کے لیے پیدا کیے گئے تھے، بعد میں آنے والے ہر فرد کے لیے ان کی پیروی لائقِ تحسین ہے۔
2۔ مصلحت مرسلہ (استخلاف أبی بکر الصدیق: جمال عبدالہادی: صفحہ، 166، 167) کے پیشِ نظر قرآن کو یکجا کیا گیا، اس موقع پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفت و شنید کو میں دلیل نہیں بناتا جب کہ ابوبکرؓ نے عمرؓ سے پوچھا: ہم کیسے وہ کام کریں جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا؟ تو سیدنا عمرؓ نے جواب دیا: اللہ کی قسم، یہ عمل بہتر ہے اور بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تھا: اللہ کی قسم یہ عمل بہت بہتر ہے اور اس میں مسلمانوں کی مصلحت ہے اور بالکل یہی جواب سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بھی اس وقت دیا جب انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ جیسا سوال ان سے کیا تھا۔ بہرحال جس روایت میں ’’مصلحت‘‘ کا لفظ آیا ہے وہ صحیح ہو یا نہ ہو تاہم سیّدنا عمرؓ کی تعبیر میں ’’خیر‘‘ کا لفظ استعمال کرنا مصلحت ہی کا معنی دیتا ہے۔ اور جمع قرآن میں مسلمانوں کے لیے مصلحت ہے۔ چنانچہ شروع شروع میں مصلحت مرسلہ کے تحت قرآن جمع کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ہو گیا، جبکہ تمام لوگوں نے صراحتاً یا ضمناً اس کی تائید کی۔ یہاں یہ واقعہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جو لوگ مصلحت مرسلہ کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ اُصول اجماع کے لیے دلیل بن سکتا ہے۔ جیسے کہ اصولِ فقہ میں یہ چیز ثابت ہے۔
3۔ اس واقعہ سے ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس قدر پر سکون ماحول میں وہ اجتہاد کرتے تھے جس میں محبت و احترام کا پہلو غالب ہوتا تھا، اس نکتہ تک پہنچنا ان کا مقصد ہوتا تھا کہ جو تمام مسلمانوں کے فائدہ مند ہو۔ وہ صحیح مشورہ کو فوراً تسلیم کر لیتے اور دوسروں کو مطمئن کرنے کے بعد ان کو شرح صدر ہو جاتا تھا اور جب کسی رائے پر متفق ہو جاتے تو اس پر ہونے والے اعتراض کا ردّ کرتے، جیسے کہ ان کی شروع ہی سے یہی رائے تھی اور اسی اخلاص و روحانیت کی بنا پر بہت سے اجتہادی مسائل میں ان کا اجماع منعقد ہوا۔
(صحیح البخاری، حدیث، 4986)