شیعہ علماء کا قضا اور قدر کے بارے میں عقیدہ کیا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ علماء کا قضا اور قدر کے بارے میں عقیدہ کیا ہے؟
جواب: شیعہ شیخ مفید لکھتا ہے، آلِ محمدﷺ کا صحیح موقف یہ ہے کہ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ہیں۔ ابو الحسن سے مروی ہے کہ ان سے بندوں کے افعال کے بارے میں پوچھا گیا کیا بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا، اگر اللہ تعالیٰ ہی ان افعال کا خالق ہوتا تو ان سے براءت کا اعلان نہ کرتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اَنَّ اللّٰهَ بَرِىۡۤءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ۔
(سورة التوبہ: آیت، 3)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ مشرکوں سے بری ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے براءت کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کے شرک اور افعالِ بد سے براءت کا اعلان کیا ہے۔
(تصحيح اعتقادات الامامية: صفحہ، 42 تا 44 خلق افعال العباد)
شیعہ شیوخ کی طرف سے ایمان بالقضا و القدر میں معتزلہ سے ہم آہنگی کی عدمِ صراحت چلتی رہی، حتیٰ کہ ان کے شیخ الحر العاملی نے صراحت کے ساتھ یہ ہم آہنگی آشکار کر دی۔ وہ لکھتا ہے: (باب نمبر، 47) بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے سوائے بندوں کے افعال کے۔ مزید لکھتا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ شیعہ امامیہ اور معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ بندوں کے افعال بندوں سے صادر ہوتے ہیں اور وہی ان کے خالق ہیں۔
(الفصول المہمة فی اصول الائمۃ: جلد، 1 صفحہ، 257 باب نمبر، 47، ان الله سبحانه خالق كل شيئ الا افعال العباد)
تعلیق: کلینی سیدنا ابو جعفرؒ اور سیدنا عبداللہؒ سے روایت کرتا ہے انہوں نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی مخلوق کو گناہوں پر مجبور کرے پھر ان گناہوں پر عذاب بھی دے۔ اور اللہ تعالیٰ بہت غالب ہے، یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرے اور وہ نہ ہو۔ کلینی کہتا ہے ان دونوں سے سوال کیا گیا کیا جبر اور قدر کے درمیان کوئی تیسرا درجہ بھی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے سے بھی بڑھ کر ہے۔
(اصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 112 كتاب التوحيد: حديث نمبر، 1 باب الجبر و القدر و الامر بين الامرين)
شیعہ کو منہ توڑ جواب:
سیدنا عبداللہؒ فرماتے ہیں، قدریہ فرقے کی ہلاکت ہو، وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہیں:
فَاَنۡجَيۡنٰهُ وَ اَهۡلَهٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَهٗ قَدَّرۡنٰهَا مِنَ الۡغٰبِرِيۡنَ
(سورة النمل: آیت، 57)
ترجمہ: پھر ہم نے اسے اور اس کے اہلِ خانہ کو نجات دی، سوائے اس کی بیوی کے، ہم نے فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہوگی۔
ان منکرینِ تقدیر کی ہلاکت ہو، اللہ تعالیٰ کے سوا اور کس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہوگی۔
(تفسير العياشی: جلد، 2، صفحہ، 26 حوالہ، 57 سورة الاعراف، تفسير الصافی: جلد، 3 صفحہ، 116 سورة الحجر بحار الانوار: جلد، 5 صفحہ، 56 ح، 102۔ باب نفی الظلم و الجور عنه تعالىٰ وابطال الجبر و التفویض)
تعلیق: یہ روایت شیعہ ائمہ سے تقدیر کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور یہ روایت قدیم شیعہ علماء کے عقیدہ کی وضاحت کرتی ہے۔ جب کہ متاخرین شیعہ نے بغیر کسی دلیل کے اس روایت سے رو گردانی کی ہے۔ اس کی وجہ معتزلہ کی اندھی تقلید ہے۔ بلکہ انہوں نے معتزلہ کے مذہب کے مخالف بہت ساری روایات سے چشم پوشی کی ہے۔ بلکہ شیعہ علماء نے معتزلہ کی تقلید میں چار قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا: شیعہ مذہب کے اصولوں میں سے ایک عدل ہے جو کہ معتزلہ کے عقیدے کے برابر ہے۔ عدل کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا انکار۔ شیعہ کے شیخ ہاشم معروف کہتے ہیں: شیعہ امامیہ کے نزدیک عدل ارکانِ دین میں سے ہے بلکہ اصول اسلام میں سے ایک اہم اصول ہے۔
(الشيعة بين الاشاعرة والمعتزلة صفحہ، 240 عقيدة المؤمن: صفحہ، 43)
دندان شکن جواب:
بعض شیعہ علماء سے تقدیر کے مسئلہ میں اہلِ سنت کے موافق قول بھی منقول ہیں۔
(عقائد الامامية الاثنی عشريہ: جلد، 3 صفحہ، 175،176۔ عقائد الامامية فی ثوبه الجديد: صفحہ، 55،56 الفصل الاول الالہيات عقدتنا فی القضاء و القدر)