Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسلک اہل بیت

  غلام مرتضٰی ساقی مجددی

مسلک اہلِ بیت:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حقانیتِ اہلِ سنت:
یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ تمام فرقے ہلاکت کے دھانے پر ہیں جب کہ نجات پانے والے لوگ صرف اورصرف اہلِ سنت و الجماعت ہیں چنانچہ ملاحظہ ہو!
شیعی پیشوا ابنِ بابویہ قمی حدیث نبوی نقل کرتے ہیں:
وإن أمتی ستفترق على اثنتين وسبعين فرقة يهلك إحدى وسبعون ويتخلص فرقة، قالوا: يا رسول اللهﷺ‎ من تلك الفرقة؟ قال الجماعة الجماعة الجماعة۔
(کتاب الخصال: جلد، 2 صفحہ، 149، مطبوعہ ایران)
ترجمہ: حضورﷺ نے فرمایا کہ میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اکہتر فرقے ہلاک جہنمی ہوں گے اور ایک جماعت نجات پائے جنتی ہوگی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ وہ فرقہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایاﷺ وہ جماعت ہے، جماعت ہے، جماعت ہے۔
امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اسی بات کو اپنی خطبہ میں فرمایا:
وسيهلك فی صنفان محب مفرط يذهب به الحب إلى غير الحق، ومبغض مفرط يذهب به البغض إلى غير الحق، وخير الناس فی حالا النمط الأوسط، فالزموه والزموا السواد الأعظم فإن يد الله على الجماعة وإياكم والفرقة فإن الشاذ من الناس للشيطان كما أن الشاذ من الغنم للذئب ألا من دعا إلى هذا الشعار فاقتلوه ولو كان تحت عمامتج هذه۔
(نہج البلاغہ: صفحہ، 365 خطبہ نمبر، 125)
ترجمہ: عنقریب میرے متعلق دو گروہ ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت میں حد سے تجاوز کرنے والا اسے غلو محبت حق کے خلاف لے جائے گا۔ دوسرا گروہ وہ میرے بارے میں بغض و عناد میں حد سے بڑھنے والا کہ اس کا بغض اسے حق کے خلاف لے جائے گا۔ اور میرے باب میں سب سے بہتر وہ لوگ ہوں گے جو اعتدال پر ہوں گے تو تم بھی درمیانی راہ کو لازم پکڑو اور السواد الاعظم کے ساتھ رہو۔ بیشک اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے خبردار جماعت سے جدا نہ ہونا، پس جو جماعت سے الگ ہو جاتا ہے وہ شیطان کا شکار بن جاتا ہے جیسے گلے سے جدا ہونے والی بکری بھیڑیئے کا لقمہ بنتی ہے۔ خبردار ہو جاؤ! جو ان باتوں کی طرف بلائے تو اسے قتل کردو، خواہ وہ میرے عمامہ کے نیچے ہو۔
ارشادِ نبویﷺ ہے جو حبِ اہلِ بیتؓ پر فوت ہوا وہ اہلِ سنت و الجماعت پر فوت ہوا!
(جامع الاخبار: صفحہ، 189، کشف الغمہ: جلد، 1 صفحہ، 107)
سیدنا علیؓ سے منقول ہے کہ آپؓ نے فرمایا:
بانا واللہ اھل السنة و الجماعة۔
(رسالہ تبراء: صفحہ، 15، مطبوعہ یوسفی دہلی)
ترجمہ: اللہ کی قسم بلاشبہ ہم سب اہلِ سنت و الجماعت ہیں۔
شیعہ مذہب کی مستند کتاب "جامع الاخبار" میں ایک طویل حدیث قدسی نقل کی گئی ہے، اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریمﷺ کو اہلِ سنت و الجماعت کے لئے خوشخبری سنائی گئی کہ:
وليس على من مات على السنة والجماعة عذاب القبر، ولا شدة يوم القيامة، يا محمد: من أحب الجماعة أحب الله و الملائكة أجمعون۔
(جامع الخبار: صفحہ، 106 فصل سی وششم فارسی)
ترجمہ: جو شخص مذہب اہلِ سنت و الجماعت پر مرے گا اسے نہ قبر میں عذاب ہوگا اور نہ روز قیامت کی سختی، اے محمدﷺ جو اس جماعت سے محبت کرے گا اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے اس سے محبت کریں گے۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ بصرہ میں ایک خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کے ایک آدمی نے اُٹھ کر آپ سے پوچھا اے امیر المؤمنینؓ! اہلِ جماعت، اہلِ تفریق، اہلِ بدعت اور اہلِ سنت کون کون ہیں؟ آپؓ نے فرمایا تیرا برا ہو، اچھا اگر تو دریافت کر ہی بیٹھا ہے تو سن! لیکن میرے بعد کسی دوسرے سے نہ پوچھنا، آپ نے فرمایا اہلِ سنت و الجماعت میں اور میرے متبعین ہیں، اگرچہ وہ تھوڑے ہی ہوں اور یہ حق اللہ اور اس کے رسولﷺ کے امر سے ہے، اہلِ تفریق میرے اور میرے متبعین کے مخالف ہیں اگرچہ ان کی کثرت ہی ہو اور اہلِ سنت تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ان طریقوں کو مضبوطی سے تھامنے والے ہیں جو ان کے لیے مقرر کئے گئے ہیں۔
(احتجاج طبرسی: جلد، 1 صفحہ، 395، 394، صفحہ، 90 مطبوعہ نجف اشرف)
اصلی کلمہ:
شیعہ حضرات عام طور پر جو کلمہ پڑھتے ہیں وہ اہلِ بیتؓ سے قطعاً ثابت نہیں، جب کہ سیدنا جعفر صادقؒ سے پوچھا گیا کہ مجھے حدودِ ایمان بتائیں تو آپؒ نے فرمایا: 
شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله والاقرار بما جاء به من عند الله وصلاة الخمس وأداء الزكاة وصوم شهر رمضان وحج البيت۔
ترجمہ: یعنی یہ گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور بے شک محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، آپ جو کچھ اللہ کی طرف سے لائے اس کا قرار کرنا، پانچ نمازیں پڑھنا زکوٰۃ ادا کرنا، ماہِ رمضان کے روزے رکھنا اور بیتُ اللہ کا حج ادا کرنا۔
(اصولِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 18 الشافی ترجمہ اصولِ کافی: جلد، 2 صفحہ، 30 ومثلہ: صفحہ، 46 وفی: جلد، 2 صفحہ، 45)
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا: جو شخص نمازوں کی حفاظت کرتا ہے اس کے انتقال کے وقت ملک الموت اس سے شیطان کو دفع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے یہ کلمہ تلقین کرتا ہے لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ۔
(من لا یحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 82 فی غسل المیت)
آپ نے مزید فرمایا کہ موت کے وقت شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ دین کے متعلق شکوک پیدا کرے، لہٰذا تم فوت ہونے والے کو یہ کلمہ تلقین کرو اشھد ان الا الہ اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہُ۔ 
(من لا یحضر والفقیہ جلد، 3 صفحہ، 79)
سیدنا ابو جعفر محمد باقرؒ نے فرمایا:
جس نے اشھد انا لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھدان محمدا عبدہ ورسولہ۔
کہا اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھتا ہے۔
(الشافی ترجمہ اصول کافی: جلد، 2 صفحہ، 511)
سیدنا علی المرتضیٰؓ تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تو لوگوں نے پوچھا آپؓ کون ہیں؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہﷺ ایلچی ہوں، آپؓ کے لیے وہ ہی باتیں ہیں یا تو کہہ دو لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و ان محمدا عبدہ و رسولہ یا میں تمہیں تلوار سے سیدھا کروں گا۔
(ارشاد مفید: صفحہ، 60)
سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں:
اے اللہ کریم! اگر تو نے مجھے دوزخ میں جانے کا حکم دیا تو میں اہلِ دوزخ کو یہ ضرور بتاؤں گا کہ میں کلمہ شریف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا تھا۔
(حلیتہ الابرار: جلد، 2 صفحہ، 141، باب سوم)
سیدنا ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں:
میں نے سیدنا حمزہؓ، سیدنا جعفر طیارؓ اور سیدنا علیؓ سے پوچھا کہ نبی کریمﷺ مجھے اسلام میں داخل کرنے کے لیے کیا پڑھائیں گے، تو تینوں نے فرمایا کہ تجھے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھائیں گے، جب میں آپ کی بارگاہ میں گیا تو آپ نے یہی کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھایا۔
(فروع کافی: جلد، 8 صفحہ، 298، کتاب الروضہ، حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 1132، باب ششم)
حضورﷺ نے عرش پر لکھا دیکھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
(احتجاج طبرسی: جلد، 1 صفحہ، 365)
ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے سیدنا عمرؓ کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا اگر صلح صفائی کے طور پر آیا ہے تو میں ہاتھ روک لیتا ہوں اور اگر جنگ کے ارادے سے آیا ہے تو میں ابھی تیرا کام تمام کیئے دیتا ہوں سیدنا عمرؓ کہنے لگے میں مسلمان ہوگیا ہوں، آپﷺ‎ نے فرمایا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھو جب سیدنا عمرؓ نے کلمہ پڑھا تو حضورﷺ نے تکبیر کہی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انتہائی خوشی اور مسرت میں آ کر اتنے زور سے تکبیر کہی کہ قریش کی مجلسوں تک اس کی آواز سنائی دی۔
(تاریخ روضۃ الصفاء: جلد، 2 صفحہ، 284)
فائدہ: اصلی کلمہ کے مذید دلائل:
(مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 20، جلد، 2 صفحہ، 208، توضیح المسائل: صفحہ، 22 کشف الغمہ: جلد، 1 صفحہ، 295 حیات القلوب: جلد، 3 صفحہ، 104 جلد، 2 صفحہ، 247، 131، 129، 182، من لا یحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 111، تذکرہ الائمہ: صفحہ، 9، 11، الشافی: جلد، 2 صفحہ، 33، 34، 35، 37، 43، 50)
وضو کا طریقہ اور وضو میں پاؤں دھونا:
اہلِ تشیع وضو میں پاؤں کا مسح کرتے ہیں جب کہ یہ اہلِ بیتؓ کہ خلاف ہے۔ ملاحظہ ہو!
سیدنا زید بن علیؓ اپنے آباؤ اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ جب سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا میں ایک دفعہ بیٹھا وضو کر رہا تھا کہ اتنے میں حضورﷺ تشریف لائے ابھی میں نے وضو شروع ہی کیا تھا تو آپﷺ‎ نے فرمایا کلی کرو اور ناک میں پانی ڈال کر صاف کرو، پھر میں نے تین مرتبہ منہ دھویا اس پر آپﷺ‎ نے فرمایا: دو دفعہ ہی کافی تھا پھر میں نے اپنے دونوں بازو دھوئے اور اپنے سر کا دو مرتبہ مسح کیا، آپﷺ‎ نے فرمایا ایک دفعہ ہی کافی تھا۔ پھر میں نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے، آپﷺ‎ نے فرمایا اے علیؓ انگلیوں کے درمیان خلال کرو، اللہ تمہیں آگ کے خلال سے بچائے۔
(الاستبصار: جلد، 1 صفحہ، 65، تہذیب الاحکام: جلد، 1 صفحہ، 93)
سیدہ فاطمہؓ نے حضورﷺ کو وضو کرایا تو "غسلت رجلیہ" انہوں نے حضورﷺ کے پاؤں دھوئے۔
(امالی لابی جعفر الطوسی: جلد، 1 صفحہ، 38)
ابو بصیر سے روایت ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا اگر بھول کر منہ دھونے سے قبل اپنے بازو دھولے تو منہ کو دھوؤ پھر اس کے بعد بازوؤں کو دھوؤ پھر اگر بھول کر دونوں بازوؤں میں سے بایاں بازو پہلے دھو بیٹھو تو پھر بھی دایاں بازو دھوؤ، اور اس کے بعد بایاں پھر سے دھوؤ، اور اگر بھولے سے سر کا مسح کرنے سے پہلے تو نے پاؤں دھو لیے تو پہلے مسح کرے پھر پاؤں کو دوبارہ دھوؤ۔ 
(تہذیب الاحکام: جلد، 1 صفحہ، 99 الاستبصار: جلد، 1 صفحہ، 74)
سیدنا جعفر صادقؒ سے عمار بن موسیٰ نے ایسے شخص کے متعلق روایت کی کہ جس نے وضو مکمل کیا لیکن پاؤں نہ دھوئے، پھر پانی میں دونوں پاؤں کو اس نے اچھی طرح ڈبویا تو کیا اس کا وضو مکمل ہوگیا یا پاؤں دھونے کی ضرورت ہے؟ فرمایا اس کا پاؤں کو پانی میں ڈبونا دھونے کا بدلہ بن گیا۔ 
(تہذیب الاحکام: جلد، 1 صفحہ، 66)
اذان:
شیعہ حضرات کی موجودہ اذان اہلِ بیتؓ کی اذان کے خلاف ہے ملاحظہ ہو!
سیدنا موسیٰ بن جعفرؒ اپنے آباؤ اجداد کے ذریعے سیدنا علی المرتضیٰؓ سے اذان کی تفسیر میں حدیث بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں:
اللہ اکبر (چارمرتبہ) اشھدان الا الہ الا اللہ (دومرتبہ) اشھدان محمد رسول اللہ (دومرتبہ) حی علی الصلوٰۃ (دومرتبہ) حی علی الفلاح (دومرتبہ) اللہ اکبر (دو مرتبہ) لا الہ الا اللہ (ایک مرتبہ) ملاحظہ ہو!
(وسائل شیعہ: جلد، 2 صفحہ، 247، من لا یحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 188)
شیعہ مصنف نے لکھا ہے: صحیح اور کامل اذان وہی ہے جو سیدنا جعفر صادقؒ سے اسی کتاب میں روایت کی گئی ہے نہ اس میں زیادتی ہو سکتی ہے اورنہ ان الفاظ سے کم، جو اس میں مذکور ہوئے "مفؤضہ" نامی گروپ پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے بہت سی مَن گھڑت باتیں بنائی اور ان مَن گھڑت باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اذان میں "محمد والہ خیر البریہ" کے الفاظ بڑھا دیئے۔ انہی کی کچھ دوسری مَن گھڑت روایت میں یہ بھی ہے کہ "اشھدان محمد رسول اللہ" کے الفاظ کو دو مرتبہ مؤذن یہ بھی کہے اشھدان علیا ولی اللہ ان میں سے ہی بعض نے مذکور الفاظ کی جگہ یہ الفاظ کہنے کو لکھا "اشھدان علیا امیر المؤمنین حقا" یہ باتیں حقائق پر مبنی ہیں کہ سیدنا علیؓ "ولی اللہ" ہیں، آپؓ امیر المؤمنین بالحق ہیں اور حضرت محمدﷺ اور آپﷺ‎ کے آل "خیر البریہ" ہیں لیکن اس حقیقت کے ہوتے ہوئے یہ الفاظ ہرگز ہرگز اذان میں داخل نہیں ہیں۔ 
(من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 93، جلد، 1 صفحہ، 188)
اوقاتِ نماز:
شیعہ حضرات کے اوقاتِ نماز اہلِ بیت کے اوقاتِ نماز کے خلاف ہیں۔ دیکھئے!
سیدنا جعفر صادقؒ سے معاویہ بن وہب روایت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا جبرئیل علیہ السلام ایک دن حضورﷺ کے پاس نماز کے اوقات لے کر حاضر ہوئے۔ جب زوالِ شمس ہوا تو آ کر کہا حضورﷺ‎ نمازِ ظہر ادا کیجیئے آپﷺ‎ نے ظہر ادا فرمائی پھر جب ہر چیز کا سایا ایک مثل بڑھ گیا تو جبرائیل علیہ السلام دوبارہ آئے اور آپﷺ‎ سے نمازِ عصر پڑھنے کو کہا آپﷺ‎ نے عصر ادا فرمائی، پھر غروبِ آفتاب کے بعد حاضر ہو کر آپﷺ‎ سے نمازِ مغرب ادا کرنے کو کہا، آپﷺ‎ نے مغرب ادا فرمائی، پھر شفق ختم ہونے پر حاضر ہو کر نمازِ عشاء پڑھنے کو کہا، آپﷺ‎ نے نمازِ عشاء ادا فرمائی، پھر صبح صادق ہونے پر حاضر ہوئے اور نمازِ فجر پڑھنے کو کہا، آپﷺ‎ نے وہ بھی ادا فرمائی پھر جبرائیل علیہ السلام دوسرے دن آئے اور اس وقت ہر چیز کا سایا ایک مثل ہو چکا تھا، جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺ‎ کو نمازِ ظہر ادا کرنے کو کہا آپﷺ‎ نے نماز ادا فرمائی، پھر دو مثل سایہ پڑنے پر حاضر ہو کر آپﷺ‎ کو نمازِ عصر پڑھنے کو کہا آپﷺ‎ نے اس وقت عصر ادا فرمائی۔
(وسائل الشیعہ: جلد، 3صفحہ، 115)
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا جب تیرا سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر پڑھ اور جب تیرا سایہ تیری دو مثل ہو جائے پھر نمازِ عصر ادا کر۔
(فقہ امام جعفر صادقؒ: جلد، 1 صفحہ، 135)
ابرہیم کرخی کہتا ہے کہ میں نے ابو الحسن موسیٰ کاظمؒ سے پوچھا حضورﷺ‎ ظہر کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟ فرمانے لگے جب زوالِ شمس ہو جائے، میں نے پھر پوچھا کہ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ فرمانے لگے جب سورج کو ڈھلے ہوئے اتنا وقت ہو جائے کہ چار قدم سایہ لمبا ہو جائے، ظہر کا وقت دوسری نمازوں کی طرح لمبا چوڑا نہیں ہوتا۔ میں نے پوچھا وقتِ عصر کب شروع ہوتا ہے؟ آپﷺ‎ نے فرمایا ظہر کا آخری وقت عصر کا ابتدائی وقت ہے۔
(تہذیب لاحکام: جلد، 2 صفحہ، 26)
سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں جس نے مغرب کی نماز افضلیت حاصل کرنے کی غرض سے مؤخر کر کے لیٹ پڑھیں وہ ملعون ہے وہ ملعون ہے۔
(وسائل الشیعہ: جلد، 3 صفحہ، 137)
نماز میں التحیات پڑھنا:
اہلِ تشیع نماز میں بحالتِ قعدہ التحیات اللہ والصلوات والطیبات کو درست نہیں مانتے جبکہ اہلِ بیتؓ اس کے قائل و عامل رہے ہیں۔
 سیدنا جعفر صادقؒ سے التحیات اللہ و الصلوات و الطیبات کے متعلق پوچھا گیا کہ یہ کلمات کیسے ہیں؟ فرمایا یہ دعاؤں میں سے دعا ہے اور ان کی ادائیگی کے ذریعے بندہ اپنے پروردگار کی بے پایاں عنایت اور خوشنودیوں کا طالب ہوتا ہے۔
(الاستبصار جلد، 1 صفحہ، 242)
سیدنا محمد باقرؒ نے زرارہ کو فرمایا کہ تشہد کے دوران یہ کلمات پڑھو بسم اللہ وبا اللہ و الحمد اللہ و الاسماء الحسنیٰ کلھا اللہ واشھدان لا الہ اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھدان محمدا عبدہ و رسولہ ارسلہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون التحیات اللہ والصلوات والطیبات الطاھرات الخ۔
 (من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 209)
سیدنا جعفر صادقؒ سے تشہد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے کلمہ شہادت کے بعد التحیات اللہ والصلوات الخ۔ کی تلقین فرمائی اور بار بار پوچھنے کے باوجود یہی الفاظ دہراتے تھے۔ 
(رجال کشی: جلد، 1 صفحہ، 379)
نمازِ جنازہ کی تکبیریں:
اہلِ تشیع کے نزدیک پانچ تکبیریں نمازِ جنازہ میں ضروری ہیں جبکہ اہلِ بیتؓ اس کے خلاف ہیں ملاحظہ ہو!
سیدنا محمد باقرؒ سے پوچھا گیا کہ کیا نمازِ جنازہ کی تکبیروں کی تعداد مقرر ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا نہیں، رسول اللہﷺ نے گیارہ ،نو، سات، پانچ، چھ اور چار تکبیریں کہیں۔ 
(تہذیب الاحکام: جلد، 3 صفحہ، 316)
سیدنا باقرؒ فرماتے ہیں کہ میرے دادا سیدنا علیؓ جنازہ پڑھتے وقت پانچ اور چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔
(قرب الاسناد: جلد، 2 صفحہ، 209)
سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ پہلے نبی کریمﷺ جنازہ پر پانچ تکبیریں کہتے تھے پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو منافقین پر نمازِ جنازہ ادا کرنے سے منع فرما دیا تو آپﷺ‎ جنازہ پر چار تکبیریں کہتے تھے ۔
(فروع کافی: جلد، 1 صفحہ، 95، تہذیب الاحکام: صفحہ، 177، لعلل والشرائع: صفحہ، 303)
معلوم ہوا کہ باقی تکبیریں منسوخ ہیں، لہٰذا جنازہ میں صرف چار تکبیریں کہنی چاہئیں
سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نمازِ جنازہ میں صرف تکبیرِ اولیٰ(پہلی تکبیر) کے اوقات ہاتھوں کو اُٹھایا کرتے تھے پھر اس کے بعد نہیں اُٹھاتے تھے۔ 
(وسائل الشیعہ: جلد، 2 صفحہ، 786)
حضورﷺ نے نجاشی کی نمازِ جنازہ پڑھی تو اس میں صرف چار تکبیریں کہی تھیں۔
(ناسخ التواریخ: جلد، 3 صفحہ، 254)
نمازِ تراویح:
اہلِ تشیع نمازِ تراویح کے خلاف ہیں اور اسے فاروقی بدعت قرار دیتے ہیں جبکہ اہلِ بیتؓ نمازِ تراویح کے قائل اور اس پرعامل رہے ہیں۔
ملاحظہ ہو لکھا ہے: بہت سے راویوں نے روایت کی ہے کہ سیدنا علیؓ رمضان المبارک کی ایک رات سیدنا عثمان بن عفانؓ کے دورِ خلافت میں گھر سے باہر تشریف فرما ہوئے، آپؓ نے دیکھا کہ مسجد میں چراغ جل رہے ہیں اور مسلمان باجماعت نماز (تراویح) میں مشغول ہیں، یہ دیکھ کر آپ نے دعا فرمائی اے اللہ سیدنا عمر بن الخطابؓ کی قبر کو منور فرما جس طرح اس نے ہماری مسجدوں کو منور کر دیا۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 98، لابنِ ابی حدید)
سیدنا جعفر صادقؒ رمضان شریف میں ہر رات نوافل کی کثرت فرماتے تھے اور روزانہ معمول کے سوا بیس رکعت نوافل کا اضافہ کرتے اور دوسروں کو بھی حکم دیتے تھے۔ 
(تہذیب الاحکام: صفحہ، 130 الاستبصار: جلد، 1 صفحہ، 462 طبع ایران: جلد، 1صفحہ، 231، طبع نولکشور، من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 2 صفحہ، 88 فروع کافی: جلد، 4 صفحہ، 154)
سیدنا جعفر صادقؒ بیان کرتے ہیں کہ: حضور اکرمﷺ ماہِ رمضان میں اپنی نماز کو بڑھا دیتے تھے، عشاء کی نماز کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگ پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے، اسی طرح کچھ وقفہ کیا جاتا پھر اسی طرح حضورﷺ‎ لوگوں کو نماز (تراویح) پڑھاتے۔ 
(فروع کافی: جلد، 1 صفحہ، 394، طبع نولکشور: جلد، 4 صفحہ، 154 طبع ایران)
عظمتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین:
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: حضور اقدسﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو میں نے دیکھا ہے تم میں سے کسی کو بھی ان کے مشابہ نہیں پاتا، وہ تمام شب مسجدوں اور نماز میں گزرتے صبح کو اس حالت میں ہوتے کہ ان کے بال پریشان اور غبار آلودہ ہوتے، ان کا آرام و سکون پیشانیوں اور رخساروں پر طویل سجدوں سے ہوتا تھا۔ وہ اپنی آخرت کی یاد سے دہکتے کوئلے کی مانند بھڑک اٹھتے تھے، کثرت سجود اور طول سجدہ کی وجہ سے ان کے ماتھے دنبوں کے گھٹنوں کی طرح ہوگئے تھے۔ اللہ کا نام جب ان کے سامنے لیا جاتا تو وہ اشک بار ہو جاتے آنسو بہہ پڑتے، ان کے گریبان بھیگ جاتے ، اور عذابِ الہٰی کے خوف اور ثواب کی امید میں اس طرح کانپتے جس طرح سخت آندھی میں درخت کانپتا ہے۔ 
(نہج البلاغہ :صفحہ، 355 (مترجم) خطبہ نمبر: 92، نیرنگ فصاحت: صفحہ، 105)
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ایک خطبہ میں السابقون الاولون صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان یوں بیان کی:
فاز اھل السبق بسبقتھم وذھب المھاجرون الاولون بفضلھم۔
(نہج البلاغہ: خطبہ نمبر، 17 نیرنگ فصاحت)
ترجمہ: اسلام اور اعمالِ صالحہ میں سبقت کرنے والے اپنی سبقت کے ساتھ فائز المرام ہوئے اور مہاجرین اولین اپنے فضل و کمال کے ساتھ گزر چکے۔
سیدنا اسد اللہ الغالب، امام المشارق والمغارب علیؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس ہستیوں کو اپنے ایک اور خطبہ میں یوں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں:
اے اللہ کے بندو! جان لو کہ متقی پرہیز گار وہی لوگ تھے جو دنیا اور آخرت کی نعمتیں سمیٹ کر گزر چکے ہیں۔ وہ لوگ اہلِ دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک ہوئے، لیکن اہلِ دنیا ان کی آخرت میں ان کے ساتھ شریک نہ ہو سکے، وہ مقدس ہستیاں دنیا میں یوں سکونت پذیر ہیں جیسے رہنے کا حق تھا۔ اور دنیا کی نعمتوں سے انہوں نے کھایا جیسا حق تھا، اور دنیا کی ہر اس نعمت سے ان ہستیوں نے حصہ پایا، جس سے دنیا کے بڑے بڑے جابریں متکبریں نے لیا، اسی قدر انہوں نے بھی لیا، پھر یہ ہستیاں صرف زادِ آخرت لے کر، اور آخرت میں نفع بخش تجارت کو ہمراہ رکھ کر دنیا سے بے رغبت ہوگئیں۔ یہ لوگ دنیا کی بے رغبتی کی لذت کو اپنی دنیا میں حاصل کر چکے تھے کہ کل اللہ سے آخرت میں ملنے والے ہیں، یہ وہ حضرات تھے جن کی دعا نامنظور نہیں ہوتی تھی، اور ان کی آخرت کا حصہ دنیوی لذتوں کی وجہ سے کم نہیں ہوگا۔ 
(نہج البلاغہ: خطبہ نمبر، 27)
آپؓ نے مزید فرمایا: میں تمہیں اصحابِ رسولﷺ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ کسی کو برا نہ کہو، کیوں کہ انہوں نے آپ کے بعد کوئی کام خلافِ اسلام نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کرنے والوں کو دوست بنایا اور نہ پناہ دی، رسول اللہﷺ نے بھی ان کے متعلق یہی وصیت فرمائی ہے۔ 
(الامالی: جلد، 2 صفحہ، 34 لابی جعفر الطوسی)
یہ بات بحار الانوار: جلد، 22 صفحہ، 206 پر بھی موجود ہے۔
سیدنا حسن عسکریؒ فرماتے ہیں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : اصحابِ محمد کو دیگر انبیاء علیہم السلام کے اصحاب پر ویسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی محمدﷺ کو تمام رسولوں پر۔ 
(آثارحیدری ترجمہ تفسیر حسن عسکری: صفحہ، 27)
حضورﷺ نے فرمایا جس نے مجھے گالی دی اسے قتل کرو اور جس نے میرے کسی صحابی کو گالی دی وہ کافر ہوگیا۔"
(جامع الاخبار: صفحہ، 183، فصل، 125)
سیدنا علیؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا اگر کسی امر میں میری حدیث موجود نہ ہو تو پھر جو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فیصلہ دیں وہی مانو۔ کیونکہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کرلو گے ہدایت پالو گے اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اختلاف تمہارے لیے رحمت ہے۔"
(بحار الانوار: جلد، 22 صفحہ، 307، معانی الاخبار: صفحہ، 156 انوارنعمانیہ: جلد، 1 صفحہ، 100، عیون الاخبار: جلد، 2 صفحہ، 85 احتجاج طبرسی جلد، 2 صفحہ، 105)
حضورﷺ نے فرمایا میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میری ڈھال ہیں، ان کے عیب چھپاؤ اور خوبی بیان کرو۔ 
(بحار الانوار: جلد، 22 صفحہ، 312 امالی: صفحہ، 160 لابی جعفر طوسی)
جس نے مجھے گالی دی وہ بھی کافر ہے اور جس نے میرے کسی صحابی کو گالی دی وہ بھی کافر ہے اور جو انہیں گالی دے اسے کوڑے لگاؤ۔
(جامع الاخبار صفحہ، 182 فصل، 125)
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا:
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ الخ۔
(سورۃ التوبة: آیت، 100)
ترجمہ: مہاجرین وانصار میں سے سبقت کرنے والے اور ان لوگوں سے جنہوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی، خدا راضی ہوا اور وہ خدا سے راضی ہوئے۔ سیدنا صادقؒ نے فرمایا کہ خدا نے درجہ ایمان کے مطابق ان لوگوں کا پہلے ذکر کیا جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی۔ پھر دوسرے درجہ میں انصار کا ذکر کیا، جنہوں نے مہاجرین کے بعد آنحضرتﷺ کی مدد کی تھی، پھر تیسرے درجہ میں ان تابعین کا نیکی کے ساتھ ذکر فرمایا ، غرض ہر گروہ کو اس درجہ اور منزلت میں قرار دیا جوان کے لیے اس کے نزدیک ہے۔
(حیات القلوب اردو: جلد، 2 صفحہ، 915، مطبوعہ لاہور)
نبی کریمﷺ نے مہاجرین و انصار کے لیے یہ دعا فرمائی: لاعیش الاعیش الاخرۃاللھم ارحم الانصار و المہاجرۃ۔
(مناقب آل ابی طالب: جلد، 1 صفحہ، 185 مطبوعہ ایران)
ترجمہ: نہیں بہتر زندگی مگر آخرت کی زندگی، اے اللہ! انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔
اب سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ایک اور خطبہ درج کیا جاتا ہے۔ جس میں انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم جمعین کی تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے اور اس خطبہ کا ترجمہ شیعی مترجم ذاکر حسین کے الفاظ میں پیش خدمت ہے۔
أين إخوانی الذين ركبوا الطريق ومضوا على الحق؟ أين عمارؓ؟ وأين ابن التيهان؟ وأين ذو الشهادتين؟ وأين نظراؤهم من إخوانهم الذين تعاقدوا على المنية، وأبرد برؤوسهم إلى الفجرة قال ثم ضرب بيده على لحيته الشريفة الكريمة فأطال البكاء، ثم قال عليه السلام: أوه على إخوانی الذين تلوا القرآن فأحكموه، وتدبروا الفرض فأقاموه، أحيوا السنة وأماتوا البدعة دعوا للجهاد فأجابوا، و وثقوا بالقائد فاتبعوه۔
(نہج البلاغہ: خطبہ نمبر: 181)
ترجمہ: کہاں ہیں وہ میرے بھائی جو راہِ خدا میں سوار ہوئے تھے۔ اور اسی اعتقاد حقہ پر گزر گئے، کہاں ہے سیدنا عمارؓ کدھر ہے ابنِ النھیان، کس طرف ہے ذوالشہادتین، کہاں ہیں ان کی مثالیں اور کس طرف ہیں ان کے دینی بھائی جو خدا کی راہ میں مرنے کی قسم کھائے ہوئے تھے، اور جن کے سر فاسق و فاجر شامیوں کی طرف بھیجے گئے، راوی کھتا ہے، کہ یہ فرما کر سیدنا (علیؓ) نے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا، بہت دیر تک روتے رہے، پھر فرمایا آہ! وہ میرے دینی بھائی جو قرآن کی تلاوت کرتے تھے، وہ امورِ واجبات میں تفکر سے کام لیتے ہوئے انہیں قائم کرتے تھے۔ وہ سنتِ پیغمبر کو جِلاتے تھے، وہ بدعتوں کو دور کرتے تھے، جب انہیں جھاد کی طرف بلایا جاتا تھا، تو نہایت خوشی سے قبول کرتے تھے، اپنے پیشوا پر بھروسہ رکھتے تھے اس کے اوامر و نہی کی اطاعت کرتے تھے۔
اسی طرح کا مضمون نیرنگ فصاحت: صفحہ، 135 پر بھی موجود ہے۔
امامتِ سیدنا صدیقِ اکبرؓ برحق ہے:
سیدنا صدیق اکبرؓ کی امامت کے انکار میں آج کل بہت شور و غل کیا جاتا ہے جب کہ خود سیدنا علی المرتضیٰؓ نے "امامتِ صدیقؓ" کے برحق ہونے کا عملی ثبوت پیش کردیا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ باجماعت نماز میں مقتدی امام کی اقتداء میں نماز کے افعال سر انجام دیتا ہے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے تو بالکل وہی افعال سر انجام دیتے جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ ادا کرتے تھے تو گویا وہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی امامت کو برحق سمجھتے تھے۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ باجماعت نماز سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی اقتداء میں ادا فرماتے تھے۔
(احتجاج طبرسی: جلد، 1 صفحہ، 242، مراُۃ العقول شرح اصول کافی: صفحہ، 388، تلخیص الشافی: جلد، 2 صفحہ، 158، حملہ حیدری: جلد، 1 صفحہ، 275، تفسیرقمی: جلد، 2 صفحہ، 158،جلاء العیوان: صفحہ، 150)
سیدنا ابوبکرؓ "صدیق" ہیں:* ل
خلیفہ اول سیدنا ابوبکرؓ کا صدیق ہونا ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے مثلاً: حضورﷺ نے عرش پر لکھا دیکھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ ابوبکر صدیق ملاحظہ ہو! 
(احتجاجِ طبرسی: صفحہ، 83)
حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
میرے بعد اللہ تمہیں بہتر شخص سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر جمع فرما دے گا۔
(تلخیص الشافی: جلد، 2 صفحہ، 372)
سیدنا محمد باقرؒ فرماتے ہیں:
لما كان رسول اللهﷺ فی الغار قال لأبی بكرؓ: كأنی انظر إلى سفينة جعفرؓ وأصحابه تقوم فی البحر، وأنظر إلى الأنصار محتبين فی أفنيتهم فقال أبوبكرؓ: وتريهم يا رسول اللهﷺ؟ قال: نعم قال: فأرنيهم، فمسح على عينه فرآهم، فقال فی نفسه: الان صدقت، فقال له رسول اللهﷺ أنت الصديق۔
(تفسیر قمی: جلد، 2 صفحہ، 290، مطبوعہ ایران، بحار الانوار: جلد، 19 صفحہ، 81)
ترجمہ: جب رسول اللہﷺ ہجرت کی رات غار میں تھے تو آپﷺ نے فلاں کو یعنی سیدنا ابوبکرؓ کو فرمایا کہ میں سیدنا جعفر طیارؓ اور ان کے ساتھیوں کو اس کشتی میں بیٹھے دیکھ رہا ہوں جو کہ دریا میں کھڑی ہے۔ نیز فرمایا میں انصار کو بھی اپنے گھروں کے صحنوں میں بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکرؓ نے تعجب سے عرض کیا کہ آپﷺ واقعی دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا ہاں! تو عرض کی مجھے بھی دکھلا دیجیئے۔ تو آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا تو انہوں نے بھی دیکھ لیا۔ تو رسول اللہﷺ نے ان کو فرمایا تو صدیق ہے۔
سیدنا بریدہ اسلمیؓ نے کہا ہے:
سمعت رسول اللہﷺ یقول ان الجنۃ تشتاق الی ثلاثۃ قال فجآء ابوبکرؓ فقیل لہ یا ابابکرؓ انت الصدیق وانت ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ۔
(رجال کشی: صفحہ، 32 مطبوعہ کربلا)
ترجمہ: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا بے شک جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے فرماتے ہیں کہ اتنے میں سیدنا ابوبکرؓ آئے تو انہیں فرمایا گیا اے ابوبکرؓ تم صدیق ہو، اور غار میں دو کے دوسرے ہو۔
سیدنا عبداللہؒ نے کہا ہے میں نے سیدنا باقرؒ سے سوال کیا کہ کیا تلواروں کو زیور لگانا جائز ہے؟ تو آپ نے فرمایا اس میں کوئی مذائقہ نہیں جب کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی تلوار پر زیور لگایا ہے میں نے عرض کیا کہ آپ بھی ان کو صدیق کہتے ہیں، اس پر سیدنا باقرؒ غصہ میں آگئے اور قبلہ شریف کی طرف رخِ انور کرکے فرمایا" ہان" وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں، جو ان کو صدیق نہیں کہتا اللہ اس کے قول کو نہ دنیا میں سچا کرے، نہ آخرت میں۔ 
(کشف الغمہ: صفحہ، 78)
معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکرؓ کو "صدیق" نہ ماننے والے دنیا و آخرت میں جھوٹے ہیں اور اہلِ بیت کو ناراض کرنے والے بھی۔ العیاذباللہ
سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں میں دو طرح سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی اولاد میں شامل ہوں۔ 
(الحقاق الحق: صفحہ، 7)
معلوم ہوا کہ تمام اہلِ بیتؓ آپؓ کو "صدیقِ اکبر" مانتے ہیں۔
خلفائے راشدینؓ کی خلافت برحق ہے:
صرف سیدنا علی المرتضیٰؓ ہی نہیں بلکہ چاروں خلفاء برحق ہیں چناچہ سیدنا علیؓ فرماتے ہیں تمام لوگوں میں اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی سب سے زیادہ قوت و صلاحیت رکھتا ہو اور اس کے بارے میں اللہ کے احکام سب سے ذیادہ جانتا ہو۔
(نہج البلاغہ: حصہ اول، خطبہ نمبر، 172)
ایک اور مقام پر فرمایا:
جن لوگوں نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی تھی، انہوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی، جس اصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے اور اس کی بناء پر جو حاضر ہے، اسے نظرِ ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے روکنے کا اختیار نہیں اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے وہ اگر کسی پر اتفاق کریں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی سمجھی جائے گی۔ اب جو کوئی اس شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہو جائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدہر سے وہ منحرف ہوا ہے اور اگر اس سے انکار کرے تو اس سے لڑیں کیونکہ وہ مومنوں سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہو لیا ہے اور جدہر وہ پھر گیا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا۔ 
(نہج البلاغہ: حصہ دوم، مکتوب نمبر، 6)
حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی، کیونکہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے دوسال تین ماہ اور آٹھ دن اور سیدنا عمر فاروقؓ نے دس سال چھ ماہ اور چار راتیں، سیدنا عثمانؓ نے گیارہ سال گیارہ ماہ اور تین دن، سیدنا علی المرتضیٰؓ نے چار سال ایک دن کم سات ماہ اور سیدنا حسنؓ نے آٹھ ماہ اور دس دن خلافت کی، یہ مدت تیس سال ہوئی۔ 
(مروج الذہب: جلد، 2 صفحہ، 429، احقاقِ حق، 265)
مقصد یہ ہے کہ ان حضرات کا دورِ خلافت برحق ہے۔
خلیفہ اول بلافصل سیدنا ابوبکر صدیقؓ:
سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے اپنے کمالات و فضائل میں سب سے ممتاز و منفرد اور یکتا ہونے کی بناء پر بلافصل خلیفہِ رسول ہونے کا اعزاز حاصل کیا، مثلاً نبیﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع میں اکثر فرمایا کرتے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نماز اور روزہ کی بنا پر سبقت نہیں لے گئے بلکہ سبقت کی وجہ وہ محبت ہے جوان کے سینے میں جمی ہوئی تھی۔
(مجالس المؤمنین: جلد، 1 صفحہ، 206)
حضورﷺ نے عرش پر لکھا دیکھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ابوبکر صدیقؓ۔
(احتجاج طبرسی: جلد، 1 صفحہ، 365)
غارِ ثور میں حضور اکرمﷺ‎ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو انہیں بھی سیدنا جعفر طیارؓ کی کشتی اور انصار نظر آگئے۔ اس کے بعد آپﷺ‎ نے فرمایا تو صدیق ہے۔ 
(تفسیر قمی: جلد، 1 صفحہ، 317 بحار الانوار: جلد، 19 صفحہ، 81)
بے شک ہم سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلافت کا سب سے زیادہ حق دار جانتے ہیں کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کے یارِ غار ہیں اور نماز میں حضورﷺ‎ کے ساتھ دوسرے تھے اور بے شک ہم آپ کی بزرگی مانتے ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کورسول اللہﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں امامتِ نماز کا حکم دیا تھا۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 1 صفحہ، 293 جزء، 6 لابنِ ابی حدید)
سیدنا محمد باقرؒ سے مروی ہے:
قال امیرالمؤمنین علیہ السلام بعد وفاۃ رسول اللہﷺ فی المسجد و الناس مجتمعون بصوت عال اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعۡمَالَهُمۡ فقال لہ ابن عباسؓ یا ابا الحسن لم قلت ما قلت قال قرات شیئا من القرآن قال لقد قلتہ لامر قال نعم ان اللہ یقول فی کتابہ وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا فتشھدوا علی رسول اللہﷺ‎ انہ استخلف ابابکرؓ۔
(تفسیر صافی: جلد، 2 صفحہ، 561، 562 مطبوعہ ایران، تفسیر قمی: جلد، 2 صفحہ، 301 مطبوعہ ایران)
امیرالمؤمنین سیدنا علیؓ نے رسول پاکﷺ‎ کے انتقال کے بعد مسجد میں لوگوں کے بھرے اجتماع میں بلند آواز سے اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعۡمَالَهُمۡ پڑھا تو سیدنا ابنِ عباسؓ نے عرض کیا اے ابو الحسن علی المرتضیٰؓ جو کچھ آپ نے پڑھا اس پڑھنے کا کیا مقصد ہے، تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا میں نے قرآنِ مجید سے آیت پڑھی ہے۔ تو سیدنا ابنِ عباسؓ نے پھر عرض کیا آپ کے پڑھنے کی کوئی نہ کوئی غرض اور غایت ہے۔ تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے، اور جو تم کو رسول اللہﷺ دین دیں لے لیا کرو، اور جس سے منع فرمائیں رک جایا کرو۔ تو تم رسول اللہﷺ‎ کے گواہ ہو جاؤ کہ انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ کو اپنا خلیفہ بنایا۔
ایک اور روایت میں واضح موجود ہے کہ:
ثم قام وتھیاء للصلوٰۃ وحضر المسجد و صلیٰ خلف ابی بکر۔ 
(تفسیر قمی: جلد، 2 صفحہ، 503 احتجاج طبرسی: جلد،1 صفحہ، 126)
ترجمہ: سیدنا علیؓ اُٹھے اور نماز کی تیاری کر کے مسجد میں آئے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔
جلاءالعیون کا اردو ترجمہ جو شیعہ حضرات کا مترجم ہے کی عبارت ملاحظہ ہو! لکھا ہے سیدنا علیؓ نے وضو کیا، اور مسجد میں تشریف لائے سیدنا خالد بن ولیدؓ بھی پہلو میں آ کھڑا ہوا، اس وقت سیدنا ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ 
(جلاء العیون اردو: جلد، 1 صفحہ، 213 مطبوعہ لاہور)
سیدنا علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں:
ہر ذلیل میرے نزدیک باعزت ہے جب تک اس کا دوسرے سے حق نہ لے لوں اور قوی میرے لیے کمزور ہے یہاں تک کہ میں مستحق کا حق اس سے دلا نہ دوں ہم اللہ کی قضاء پر راضی ہوئے اور اس کے امر کو اسی کے سپرد کیا، اے پوچھنے والے! تو سمجھتا ہے کہ نبی پاکﷺ پر بہتان باندھوں گا، خدا کی قسم میں نے ہی سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ہی سب سے پہلے جھٹلانے والا بنوں، میں نے اپنے معاملہ میں غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا سیدنا ابوبکرؓ کی اطاعت کرنا اور ان کی بیعت میں داخل ہونا اپنے لیے بیعت لینے سے بہتر ہے اور میری گردن میں غیر کی بیعت کرنے کا عہد بندھا ہوا ہے۔
(نہج البلاغہ: حصہ اول، صفحہ، 89، 88 خطبہ نمبر، 37)
اسی خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے ابنِ میشم لکھتا ہے کہ:
فقولہ فنظرت فاذا اطاعتی قدسبقت بیعتی ای طاعتی لرسول اللہﷺ فیما امرنی بہ من ترک القتال قدسبقت بیعتی للقوم فلا سبیل الی الامتناع منھا وقولہ و اذا المیثاق فی عنقی لغیری ای میثاق رسول اللہﷺ و عھدہ الی بعدم المشاقۃ وقیل المیثاق مالزمہ من بعتہ ابی بکرؓ بعد ایقاعھا ای فاذا میثاق القوم قد لزمنی فلم یمکنی المخلافۃ بعدہ۔
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 97 لابنِ میشم مطبوعہ ایران)
ترجمہ: سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ پس میں نے غور و فکر کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا بیعت لینے سے اطاعت کرنا سبقت لے گیا ہے، یعنی رسول اللہﷺ نے ترک قتال کا مجھے حکم فرمایا تھا، وہ اس بات پر سبقت لے گیا ہے کہ میں قوم سے بیعت لے لوں۔ و اذا المیثاق فی عنقی لغیری سے مراد رسول اللہﷺ کا مجھ سے وعدہ لینا ہے، مجھے اس کا پابند رہنا لازم ہے۔ جب لوگ سیدنا ابوبکرؓ کی بعیت کر لیں، تو میں بھی بیعت کر لوں پس جب قوم کا عہد مجھ پر لازم ہوا یعنی سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت مجھ پر لازم ہوتی تو اس کے بعد میرے لیے نا ممکن تھا کہ میں اس کی مخالفت کرتا۔
مزید فرمایا: تم رسول اللہﷺ کے گواہ بن جاؤ کہ انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ کوخلیفہ بنایا ہے۔"
(تفسیر صافی: جلد، 2 صفحہ، 561، تفسیر قمی: صفحہ، 624)
سیدنا علیؓ کی خدمت میں آخری وقت عرض کیا گیا کہ آپ اپنے قائم مقام کے لیے وصیحت کیوں نہیں فرماتے تو آپؓ نے فرمایا:
ما وصی رسول اللہﷺ فاوصیٰ ولکن قال ان اراد اللہ خیرا فیجمعھم علی خیرھم بعد نبیھم۔ 
(تلخیص الشافی: جلد، 2صفحہ، 372)
رسول اللہﷺ نے وصیحت نہیں کی تھی تو میں کیسے کروں؟ البتہ حضورﷺ نے یہ فرمایا تھا اگر اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ فرمایا تو میرے بعد تم میں سے بہتر شخص پر لوگوں کا اتفاق ہو جائے گا۔
دوسری روایت ہے کہ جب ابنِ ملجم ملعون نے سیدنا علیؓ کو زخمی کیا، تو ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کیا کہ حضور اپنا خلیفہ مقرر فرمائیں تو آپؓ نے فرمایا: قال لا، فانا دخلنا علی رسول اللہ حین ثقل فقلنا یارسول اللہﷺ استخلف علینا فقال لا۔
(تلخیص الشافی: جلد، 2 صفحہ، 372، مطبوعہ نجف اشرف)
تو آپؓ نے فرمایا نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ کے مرضِ وفات میں ہم آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! ہمارے لیے کوئی اپنا خلیفہ مقرر فرمایئں، تو جواب دیا نہیں۔ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر میں خلیفہ مقرر کر دوں تو تم اختلاف کرو گے جیسا کہ نبی اسرائیل نے ہارون علیہ السلام کے متعلق اختلاف کیا تھا۔ لیکن یقین رکھو کہ اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں خیر دیکھا تو وہ تمہارے لیے خودہی بہتر خلیفہ مقرر کردے گا۔
اسی سلسلہ روایت میں یہ بھی موجود ہے کہ سیدنا علیؓ سے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تو فرمایا:
ولکن اذا اراد اللہ بلناس خیر ااستجمعھم علی خیرِ کما جمعھم بعد نبیھم علی خیرھم۔
(الشافی: صفحہ، 171، مطبوعہ نجف اشرف)
لیکن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے گا تو ان کے بہتر شخص پر انہیں متفق کر دے گا جس طرح نبیﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بہتر شخص سیدنا ابوبکرؓ پر جمع فرما دیا تھا۔
سیدنا علیؓ نے جب سنا کہ تمام مسلمانوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت پر اتفاق کرلیا ہے تو اس قدر جلدی در دولت سے تشریف لائے کہ چادر اور تہبند بھی نہ اوڑھا صرف پیرہن میں ملبوس تھے اسی صورت میں سیدنا ابوبکرؓ کے ہاں پھنچے اور بیعت کی، بیعت کے بعد چند آدمی کپڑے لینے کے لئے بھیجے تاکہ مجلس میں کپڑے لے آئیں۔
(تاریخ روضۃ الصفاء: جلد، 1 صفحہ، 432)
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا سیدنا ابوبکرؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ فرمایا اللہ رحم کرے سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر خدا کی قسم! وہ قرآن پڑھنے والے، منکرات سے روکنے والے، اپنے گناہوں سے واقف رہنے والے، اللہ سے ڈرنے والے، دن کو روزہ رکھنے والے، تقویٰ میں اپنے ساتھیوں سے فوقیت رکھنے والے، زہد اور عفت کے سردار تھے، جس نے سیدنا ابوبکرؓ پر اعتراض کیا اللہ اس پر غضب نازل فرمائے۔ 
(مروج الذہب: جلد، 3 صفحہ، 55)
سیدنا باقرؒ فرماتے ہیں: میں سیدنا ابوبکرؓ کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ سے افضل ہیں۔
(احتجاج طبرسی: جلد، 2 صفحہ، 479)
بلاشبہ سیدنا ابوبکرؓ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 100 الابنِ ابی حدید)
سیدنا علی بن حسنینؓ بیان کرتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہؓ کا انتقال ہوگیا تو اس وقت مغرب اور عشاء کا درمیانی حصہ تھا اس انتقال کی خبر سن کر سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ، سیدنا زبیرؓ اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ حاضر ہوئے پھر جب نمازِ جنازہ کے لیے ان کی میت رکھی گئی تو سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کہا اے ابوبکرؓ! آگے ہو کر ان کی نمازِ جنازہ پڑھایئے پوچھا کہ اے ابوالحسنؓ! آپ اس وقت موجود تھے، فرمایا، ہاں، سیدنا علی المرتضیٰؓ نے کہا تھا سیدنا ابوبکرؓ چلو نماز پڑھاؤ، خدا کی قسم! سیدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ تمہارے بغیر کوئی نہیں پڑھائے گا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی پھر انہیں رات کے وقت سپردِ خاک کر دیا گیا۔
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 302 لابنِ ابی حدید)
سیدنا علیؓ کے ایک خطبہ کے متعلق شیعی روایت ملاحظہ ہو:
ان علیاؓ قال فی خطبتہِ خیر ھذہ الامۃ بعد بیھا ابوبکرؓ و عمرؓ وفی بعض الاخبار انہ علیہ السلام خطب بذلک بعد ما انھی الیہ ان رجلا تناول ابابکرؓ و عمرؓ بالشتیمۃ فدعی بہ وتقدم بعقوبتہ بعد ان شھدوا علیہ بذلک۔
(الشافی: جلد، 2 صفحہ، 428)
ترجمہ: سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: نبی کریمﷺ کے بعد تمام امت سے افضل سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں۔ بعض روایتوں میں واقعہ یوں ذکر ہوا ہے کہ سیدنا علیؓ کی خدمت میں اطلاع پہنچی کہ ایک شخص نے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی شان میں بد زبانی کی ہے، جس کے بعد امیرالمؤمنین سیدنا علیؓ نے اس گالی بکنے والے کو بلایا، شہادت طلب کی اور شہادت کے بعد جب گالی دینا ثابت ہوگیا تو اسے سزا دی۔
اسی کتاب الشافی میں سیدنا زین العابدینؒ کی روایت ہے کہ جب سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو سیدنا ابوسفیانؓ سیدنا علیؓ کے پاس آئے اور کہا کہ آپؓ ہاتھ بڑھائیں میں آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں، اور بخدا میں آپؓ کی حمایت میں اس علاقہ کو سواروں اور پیدل سپاہیوں سے بھردوں گا، اگر آپ خوف کے باعث اعلان خلافت نہیں کر رہے ہیں۔ یہ سن کر سیدنا علیؓ نے چہرہ پھیر لیا اور فرمایا:
ویحک یا اباسفیانؓ ھذہ من دواھیک قد اجتمع الناس علی ابی بکرؓ مازلت تبتغی الاسلام عوجا فی الجاھلیتہ والسلام واللہ ماضر الاسلام ذلک شیئا مازلت صاحب الفتنۃ۔ 
(الشافی: جلد، 2صفحہ، 428)
ابوسفیانؓ! تیرے لیے سخت افسوس ہے، یہ سب تیری چالوں اور مصیبتوں سے ہیں۔ حالانکہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجتماعی متفقہ فیصلہ ہوچکا، تو کفر اور اسلام میں ہمیشہ فتنہ اور کج روی کا متلاشی رہا ہے۔ بخدا اس سے اسلام کو کوئی گزند نہیں پہونچے گا۔ اور ہمیشہ فتنہ گرہی رہے گا۔
رسولﷺ ہجرت کے وقت جب غار کی طرف تشریف فرما ہوئے تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امت کو یہ وصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے میرے پاس جبرائیل علیہ السلام کو بھیج کر فرمایا کہ اللہ آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ ابوجہل اور کفار قریش نے آپ کے خلاف منصوبہ بنایا ہے اور آپ کے قتل کا ارادہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اپنے بستر مبارک پر شب باشی کا حکم دیں، اور فرمایا کہ ان کا مرتبہ آپﷺ کے نزدیک ایسا ہے جیسا اسحٰق ذبیح کا مرتبہ، سیدنا علیؓ اپنی زندگی اور روح کو آپ پر فدا کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا ہے کہ آپ ہجرت میں سیدنا ابوبکرؓ کو اپنا ساتھی مقرر فرمائیں، کیونکہ اگر وہ حضور کی اعانت و رفاقت اختیار کرلیں اور حضور کے عہد و پیمان پر پختہ کار ہو کر ساتھ دیں تو آپ کے رفقاءِ جنت میں ہوں گے، اور جنت کی نعمتوں میں آپ کے مخلصین سے ہوں گے۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا کہ اے علیؓ! کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ دشمن مجھے تلاش کرے تو نہ پائے، اور تمہیں ڈھونڈے تو تم اسے مل جاؤ، اور شاید جلدی میں تیری طرف پہنچ کر بےخبر لوگ تجھے شبہ میں قتل کر دیں، سیدنا علیؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ میں اس بات پر راضی ہوں کہ میری روح حضور کی مقدس روح کے لیے سِپر ثابت ہو۔ اور میری زندگی حضور پر اور حضور کے ساتھی پر اور حضور کے بعض حیوانات پر فدا ہو، حضور امتحان فرمالیں، میں زندگی کو پسند ہی اس لیے کرتا ہوں کہ حضور کے دین کی تبلیغ کروں، اور حضور کے دوستوں کی حمایت کروں، اور حضورﷺ کے دشمنوں کے خلاف جنگ کروں، اگر یہ نیت نہ ہوتی تو میں دنیا میں ایک ساعت بھی زندگی پسند نہ کرتا، یہ سن کر حضورﷺ نے سیدنا علیؓ کے سر کو بوسہ دیا، اور فرمایا اے ابوالحسنؓ تیری یہی تقریر مجھے فرشتوں نے لوح سے پڑھ کر سنائی ہے، اور اس تقریر کا جو اجر اللہ نے تیرے لیے آخرت میں تیار فرمایا ہے وہ بھی پڑھ کر سنایا ہے، وہ ثواب جسے نہ سننے والوں نے سنا، نہ دیکھنے والوں نے دیکھا اور نہ انسانی عقل وفہم میں آ سکتا ہے، پھر حضورﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ سے فرمایا:
ارضیت ان تکون معی یا ابابکرؓ تطلب کما اطلب وتعرف بانک انت الذی تحملنی علی ما ادعیہ فتحمل عنی انواع العذاب قال ابوبکرؓ یارسول اللہﷺ‎ اما انا لوعشت عمر الدنیا اعذب فی جمیعھا اشد عذاب لاینزل علی موت صریح ولافرح مسیح وکان ذلک فی محبتک لکان ذلک احب الی من ان اتنعم فیھا وانا مالک لجمیع ممالیک ملوکھا فی مخالفتک وھل انا ومالی و ولدی الافداؤک فقال رسول اللہﷺ لاجرم ان اطلع اللہ علی قلبک و وجد موافقا لم جریٰ علی لسانک جعلک منی بمنزلۃ السمع والبصر والراس من الجسد الیٰ آخرہ۔
(تفسیرحسن عسکری: صفحہ 164، 165)
ترجمہ: اے ابوبکرؓ تو میرے ہمراہ چلنے کے لیے تیار ہے؟ کہ تجھے بھی لوگ اسی طرح تلاش کریں جیسے مجھے، اور تیرے متعلق دشمنوں کو یقین ہو جائے کہ تو نے مجھے ہجرت پر اور اعداء کے مکر و فریب سے بچ نکلنے پر امادہ کیا، کیا تجھے میری وجہ سے مصائب و آلام گوارہ ہیں؟ سیدنا ابوبکرؓ نے جواب دیا یا رسول اللہﷺ‎ اگر میں قیامت تک زندہ رہوں اور اس زندگی میں سخت عذاب اور مصائب میں مبتلا رہوں جس مصیبت والم سے بچانے کے لیے نہ مجھے موت آئے اور نہ کوئی مجھے آرام دے سکے اور یہ تمام حضورﷺ‎ کی محبت میں ہو تو مجھے بطیبِ خاطر منظور ہے اور یہ مجھے منظور نہیں کہ لمبی زندگی ہو اور دنیا کے بادشاہوں کا بادشاہ بن کر رہوں اور تمام نعمتیں اور آسائشیں حاصل ہوں، لیکن حضورﷺ‎ کی معیت سے محرومی ہو، اور میں اور میرا مال اور اولاد حضورﷺ‎ پر فدا اور قربان ہیں پس حضورﷺ نے فرمایا یقیناً اللہ تعالیٰ تیرے دل پر مطلع ہے، اور جو کچھ تو نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس کو تیری دلی کیفیت کے مطابق پایا ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھے میرے کان اور میری آنکھ کی طرح کیا ہے، اور جو نسبت سر کو جسم سے ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے اس طرح بنایا ہے۔
خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ:
اہلِ تشیع سیدنا فاروقِ اعظمؓ پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں لیکن ملاحظہ فرمایئں کہ کتبِ شیعہ میں ان کی شان و عظمت کس طرح چمک دمک رہی ہے۔
جب سیدنا عمر بن خطابؓ برہنہ تلوار لئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا: یہ عمرؓ ہے اے اللہ! عمرؓ کے ذریعے السلام کو عزت عطا کر دے، سیدنا عمرؓ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپﷺ یقینا اللہ کے رسول ہیں وہاں موجود تمام لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا جس کو مسجد میں موجود مشرکین نے سنا۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 143 لابنِ ابی حدید)
ایک روایت میں ہےکہ حضورﷺ نے سیدنا عمرؓ کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا اگر صلح صفائی کے طور پر تو آیا ہے تو میں ہاتھ روک لیتا ہوں ور اگر جنگ کے ارادے سے آیا ہے تو میں ابھی تیرا کام تمام کئے دیتا ہوں سیدنا عمرؓ کہنے لگے میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپﷺ نے فرمایا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھو جب سیدنا عمرؓ نے کلمہ پڑھا تو حضورﷺ نے تکبیر کہی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انتہائی خوشی اور مسرت میں آ کر اتنے زور سے تکبیر کہی کہ قریش کی مجلسوں تک اس کی آواز سنائی دی۔ 
(تاریخ روضۃ الصفاء: جلد، 2 صفحہ، 284)
سیدنا خبابؓ سیدنا عمرؓ کے پاس آئے اور کہا "اے عمرؓ! خوشخبری ہو مجھے امید ہے کہ رسول اللہﷺ نے آج تیرے لیے دعا کی اور تو آپﷺ کی دعا کی قبولیت کا مظہر ہوگا، آپ لگاتار دعا کرتے رہے، اے اللہ! سیدنا عمر بن خطابؓ کے ذریعے اسلام کو عزت و غلبہ عطا فرما۔(شرح نہج البلاغہ: جلد، 1 صفحہ، 59 لابنِ ابی حدید)
سیدنا ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ ایک مرتبہ اپنی زوجہ سیدہ حفصہؓ کے پاس بیٹھے تھے تو دونوں میں کچھ اختلاف ہوگیا تو حضورﷺ نے فرمایا: کیا میں اپنے اور تیرے درمیاں بطورِ ثالث کسی شخص کا تقرر کروں سیدہ حفصہؓ کہنے لگیں جی کیجیئے تو آپﷺ نے سیدنا عمرؓ کی طرف پیغام بھیجا وہ آگئے، آپﷺ نے سیدہ حفصہؓ سے فرمایا اب بات کرو سیدہ حفصہؓ نے عرض کی آپﷺ ارشاد فرمائیں لیکن بات سچی ہو (یہ سن کر) سیدنا عمرؓ نے سیدہ حفصہؓ کے منہ پر طمانچہ رسید کیا پھر دوسرا طمانچہ مارا تو حضورﷺ نے فرمایا، عمرؓ رک جاؤ، سیدنا عمرؓ کہنے لگے اے اللہ کی دشمن! پیغمبر جو کہتا ہے حق کہتا ہے اس اللہ کی قسم! جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا اگر حضورﷺ کا گھر نہ ہوتا تو میں تیری جان لئے بغیر نہ رکتا۔ 
(تفسیر مجمع البیان: جلد، 4 صفحہ، 35، جز نمبر، 8، ناسخ التواریخ: جلد، 3 صفحہ، 172)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
سیدنا عمرؓ اہلِ جنت کا چراغ ہے اور سکینہ عمرؓ کی زبان پر بولتا ہے۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ، 247)
مزید فرمایا: عمرؓ کی زبان پرحق بولتا ہے اور فرشتہ عمرؓ کی زبان پر بولتا ہے۔
(تلخیص الشافی جلد، 2 صفحہ، 247)
حضورﷺ نے فرمایا اگر آسمان سے اللہ کا آج غضب و عذاب نازل ہوتا تو سیدنا عمر بن خطابؓ اور سیدنا سعد بن معاذؓ کے بغیر کوئی نہ بچ سکتا۔
(تفسیر مجمع البیان: جلد، 2 صفحہ، 559، جز نمبر، 4)
سیدنا علیؓ کوفہ میں تشریف لائے تو آپؓ سے عرض کی گئی کہ قصر امارت میں قیام فرمایئں گے تو فرمایا نہیں کیونکہ ایسی جگہ سیدنا عمرؓ ٹھہرنا ناپسند فرماتے تھے، اس لیے عام مکان میں قیام کروں گا پھر آپؓ نے جامع مسجد کوفہ میں تشریف لا کر دوگانہ پڑھا پھر ایک مکان میں قیام فرمایا۔ 
(اخبار الطوال:صفحہ، 152)
سیدنا علیؓ نے فرمایا ہم سیدنا عمرؓ کے بغیر کسی کے خلیفہ بننے کو پسند نہیں کریں گے، اس پر سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے سیدناؓ کے لیے دعائے خیر فرمائی پھر سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ ہم سیدنا عمرؓ کے سوا کسی کی اطاعت نہیں کریں گے، خدا کی قسم! اس گراں بوجھ (خلافت) کو سیدنا عمرؓ کے بغیر کوئی بھی اٹھانے والا ہمیں نظر نہیں آیا پھر سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ کے کچھ اصاف بیان فرمائے۔ بعد ازاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا "اے رسول اللہ کے خلیفہ! آپؓ کی پسند ہماری پسند ہے اور ہماری خوشی آپؓ کی خوشی سے وابستہ ہے ہم سب جانتے ہیں کہ تمام زندگی آپؓ نے بروجہ احسن بسر فرمائی اور ہمیشہ اُمت کی بھلائی اور خیر خواہی فرمائی اللہ تمہیں جزائے خیر دے اور اپنی عنایت و بخشش سے مخصوص فرمائے۔
(تاریخ روضۃ الصفاء: جلد، 2 صفحہ، 442)
سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے روم پر حملہ کرنے سے متعلق سیدنا علیؓ شیرِ خدا سے مشورہ لیا تھا۔ اس مشورہ کا تفصیلاً ذکر شیعہ حضرات کی نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر: 134 میں یوں درج ہے:
من کلام لہ علیہ السلام وقد شاور عمربن الخطابؓ فی الخروج الی غزرۃ الروم انک متیٰ تسیر الی ھٰذا العدو بنفسک فتلقھم فتنکب لاتکن للمسلمین کاتفتہ دون اقصیٰ بلادھم لیس بعدک مرجع یرجعون الیہ فابعث الیھم رجالا محربا واحضر معہ اھل البلاء والنصیحۃ فان اظھر اللہ فذاک ما تحب وان تکن الاخریٰ کنت رد اللناس ومثابۃ للمسلمین۔
اس کا ترجمہ شیعہ مسلک کے ذاکرحسین صاحب نے کیا ہے وہ درج کیا ذیل ہے:
ترجمہ: جب خلیفہ ثانی نے روم پر چڑھائی کا ارادہ کیا اور آپؓ سے بھی مشورہ لیا تو آپؓ نے فرمایا اب اگر تو خود دشمن کی طرف کوچ کرے اور منکوب و مخزول ہو جائے تو یہ سمجھ لے کہ مسلمانوں کو ان کے اقصیٰ بلاد تک پناہ نہ ملے گی اور تیرے بعد ایسا کوئی مرجع نہ ہوگا جس کی طرح وہ رجوع کریں، لہٰذا تو دشمنوں کی طرف اس شخص کو بھیج جو آزمودہ کا رہو اور اس کے ماتحت ان لوگوں کو روانہ کرو جو جنگ کی سختیوں کے متحمل ہوں، اپنے سردار کی نصیحت کو قبول کریں، اب اگر خدا نے غلبہ نصیب کیا، تب تو یہ وہی چیز ہے جسے تو درست رکھتا ہے۔ اور اگر اس کے خلاف ظہور میں آیا تو ان لوگوں کا مددگار اور مسلمانوں کا مرجع تو ہی بن جائے گا۔ 
(نیزنگ فصاحت ترجمہ نہج البلاغہ: صفحہ، 150 مطبع یوسفی دہلی)
ایک دوسری روایت کے الفاظ ملاحظہ ہوں!
ومن کلام لہ علیہ السلام وقداستشار عمر بن خطابؓ فی الشخومن لقتال الفرس بنفسہ ان ھذا الامر لم یکن نصرہ ولاخذ لانہ بکثرۃ ولابقلۃ وھو دین اللہ الذی اظھرہ وجندہ الذی اعدہ وامدہ حتیٰ بلغ مابلغ وطلع حیث طلع ونحن علی موعود من اللہ واللہ منجز وعدہ وناصر جندہ ومکان القیم بالامر مکان النظام من الخرز و ذھب ثم لم یجتمع بحذا فیرہ ابدا والعرب الیوم وان کانوا قلیلا فھم کثیرون بالاسلام عزیزون بالاجتماع فکن قطبا واستدار الرحاء بالعرب واصلھم دونک نار الحرب فانک ان شخصت من ھذہ الارض انتقضت علیک العرب من اطرافھا واقطارھا حتیٰ یکون ما تدع و رایک من العورات اھم الیک مما مابین یدی ان الاعاجم ان ینظروا الیک غدا یقولوا ھذا اصل العرب فاذا اقتطعموہ استرحتم فیکون ذلک اشد لکلبھم علیک وطعمھم فیک الخ۔
(نہج البلاغۃ: خطبہ نمبر، 146)
اس کا شیعی ترجمہ ملاحظہ ہو!
ترجمہ: خلیفہ ثانی سیدنا عمرؓ نے عجمی سپاہ کے مقابلے میں بنفسِ خود جانا چاہا اوراس امر میں سیدنا علیؓ سے مشورہ لیا تو آپؓ نے فرمایا: دینِ اسلام کا غالب آجانا اور مغلوب ہو جانا کچھ سپاہ کی کثرت و قلت پر منحصر نہیں یہ اسلام اس خدا کا دین ہے جس نے اس کی ہر جگہ مدد اور اعانت کی، اسے ایک بلند مرتبہ پر پھنچا دیا، ان کا آفتاب وہاں طالع ہوگیا جہاں ہونا لازم تھا، ہم لوگ اس وعدہِ خداوندی پر کامل یقین کے ساتھ ثابت ہیں، اس نے غلبہِ اسلام کے بارے میں فرمایا۔ بے شک وہ اپنے وعدوں کا وفا کرنے والا ہے، وہ اپنی سپاہ کا مددگار ہے دینِ اسلام کے بزرگ اور صاحب اختیار کا مرتبہ رشتہ مروارید کی مانند ہے جو موتی کے دانوں کو ایک جگہ جمع کر کے باہم پیوست کر دیتا ہے، اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو تمام دانے متفرق ہوکر کہیں کہیں بکھر جائیں گے پھر اجتماعِ کامل نصیب نہ ہوگا، آج کے روز اہلِ عرب اگرچہ قلیل ہیں لیکن اسلام کی شوکت انہیں کثیر ظاہر کرطرہی ہے۔ یہ اپنے اجتماع کی وجہ سے یقیناً دشمن پر غالب ہوں گے، اب تو ان کے لیے قطب آسیا بن جا اور آسیائے جنگ کو گروہِ عرب کے ساتھ گردش دے اور اپنے سوا کسی دوسرے شخص کے ماتحت بنا کر انہیں لڑائی کی آنچ سے گرم کر، کیونکہ اگر تو مدینہ سے باہر چلا گیا تو عرب کے قبیلے اطراف و اکناف سے ٹوٹ پڑیں گے، اس وقت پیچھے رہ جانے والی عورات سپاہ کی حفاظت تجھ پر اس شے سے مقدم ہوجائے گی۔ جو تیرے سامنے جنگِ فارس کہ موجود ہے اور دوم یہ امر ہے کہ جب ایرانی کل تجھ کو دیکھیں گے تو آپس میں یہی کہیں گے کہ پس یہی ان عربوں کا سردار ہے اگر تم نے اسے کانٹ چھانٹ دیا تو پھر راحت ہے۔ بیشک یہ اقوال تیری لڑائی پر انہیں حریص کر دیں گے وہ تیری گرفتاری کی حد سے بڑھی ہوئی طمع کریں گے الخ۔
(نیزنگ فصاحت ترجمہ نہج البلاغہ: صفحہ، 158 مطبع یوسفی دہلی)
سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ کے متعلق فرمایا:
سیدنا عمرؓ مسلمانوں کے حامی بنے، پس آپؓ نے دین کو قائم کیا اور خود سیدھے چلے یہاں تک کہ دین اپنی بنیاد پر مضبوطی سے قائم ہوگیا۔
(نہج البلاغہ: صفحہ، 952 فرمودہ نمبر: 467، فیض الاسلام، شرح نہج البلاغہ: صفحہ، 1300)
مزید فرمایا: اللہ تعالیٰ سیدنا عمرؓ کے شہروں میں برکت دے ، بیشک انہوں نے کجی کو سیدھا کیا، گمراہوں کو راہِ راست پر لائے اور بیماری کی دوا کی اور فتنوں سے پہلے چلے گئے اور سنت کو قائم کیا، فتنہ و تباہ کاری اور فساد کے امور کو پسِ پشت ڈال دیا، بالکل صاف اور بے عیب دنیا سے چلے گئے، خلافت کی خوبیاں حاصل کر گئے اور اس کے فتنہ اور فساد سے پہلے ہی چلے گئے، اور خلافت کو منظم طور پر سر انجام دیا اور اس میں کوئی خرابی اور خلل نہ آنے دیا اللہ کی فرمانبرداری کا حق ادا کیا اور اللہ سے پوری طرح ڈرتے رہے۔
(نہج البلاغہ: حصہ اول، خطبہ نمبر: 219، فیض الاسلام جلد، 4 صفحہ، 711، 712)
سیدنا محمد باقرؒ سیدنا جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو اس وقت سیدنا علیؓ آئے اور انہوں نے فرمایا: ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو میرے نزدیک کوئی شخص اس سے زیادہ پسندیدہ نہیں کہ جب میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں تو اس کفن پوش (سیدنا عمرؓ) جیسے اعمال نامے کے ساتھ ملاقات کروں۔
(معانی الاخبار: صفحہ، 412 تلخیص الشافی: صفحہ، 219)
سیدنا ابنِ عباسؓ سیدنا عمرؓ کے پاس ان پر قاتلانہ حملہ ہونے کے بعد حاضر ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم تمہارا اسلام عزت والا، تمہاری ہجرت فتح کی پیشِ خیمہ اور تمہاری ولایت سراسر عدل تھی، آقا کے وصال تک تمہیں آپﷺ کی صحبت نصیب رہی اور آپﷺ دنیا سے رخصت ہوتے وقت تم سے راضی ہوگئے پھر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی صحبت میں رہے تو وہ بھی خوشی راضی تم سے الوداع ہوئے، تم جب خلیفہ بنے تو پوری خلافت میں دو آدمی بھی آپؓ سے ناراض نہ ہوئے، یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے کہا کیا آپؓ اس کی گواہی دیتے ہیں؟ سیدنا ابنِ عباسؓ خاموش ہوئے تو سیدنا علیؓ نے فرمایا ہاں! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 146 لابنِ ابی حدید)
سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں ان کے انتظامات اور کارکردگی کی تعریف فرماتے ہیں اور ان کے لیے دعائے خیر و برکت بھی فرماتے ہیں۔
بطورِ مثال یہ جملہ ملاحظہ ہو!
وقال علیہ السلام فی کلام لہ وولیھم وال فاقام واستقام حتیٰ ضرب الدین بجیرانہِ۔ 
یہ نہج البلاغہ کی عبارت ہے۔ اس کی شرح کرتے ہوئے فیض الاسلام علی نقی نے لکھا ہے:
امام علیہ السلام درسخنی(دربارہ عمر بن خطابؓ) فرمودہ است و(بعد از ابوبکرؓ) فرمان رواشد بر مردم فرماندھی (عمرؓ بمقام خلافت نشست) پس (امرِ خلافت را) برپا داشت واپشادگی نمود (برہم تسلط یافت) تا آنکہ دین قرار گرفت (ہم چنانکہ شتر ہنگام استراحت پیش گردن خودرا بر زمین نہما اشارئہ باینکہ اسلام پس ازفتنہ و (فساد) بسیار ازا و تمکین نمودہ زیر بارش رفتند)
ترجمہ: سیدنا علیؓ نے سیدنا عمر بن خطابؓ کے متعلق ارشاد فرمایا: سیدنا ابوبکرؓ کے بعد لوگوں پر ایک ایسا فرما نروا خلافت پر مسند نشین ہوا جس نے امرِ خلافت کو قائم کیا اور اس پر ثابت قدمی دکھائی۔ یعنی تمام پر تسلط حاصل کیا۔ یہاں تک کہ دین مضبوط و مستحکم ہوگیا۔ جیسا کہ اونٹ آرام کرنے کے لیے اپنی گردن زمین پر رکھ دیتا ہے اور خود زمین پر بیٹھ جاتا ہے اس طرح دینِ اسلام زمین پر مستحکم طریقہ سے متمکن ہوگیا۔ پس مسلمان بہت سے فتنوں اور سازشوں کے بعد سکون پذیر ہوئے اور سیدنا عمرؓ کے احسان مند ہوئے۔
(فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ: صفحہ، 1290 مطبوعہ ایران)
اسی طرح نہج البلاغۃ کا خطبہ نمبر، 228 ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا:
اللہ بلاد فلان فلقد قوم الاودو داوی العمدو اقام السنۃ وخلف الفتنۃ ذھب نقی الثوب قلیل الغیب اصاب خیرھا وسبق شرھا ادی الی اللہ طاعتہ واتقاہ بحقہ۔
شیعی مجتہد فیض الاسلام علی نقی اس خطبہ کی شرح فارسی میں کرتے ہوئے لکھا ہے:
خدا شہرہائے فلاں (عمر بن خطابؓ) رابرکت دیدنگاہ دارد کہ کجی را راست (گمراہاں رابراہ آورو) نمود و بیماری رامعالجہ کرو (مردم شہرہائے رابدین اسلام گرداند) وسنت رابر پاداشت (احکام پیغمبررا اجرا نمود) وتباہ کاری راپشت سراند اخت (در زمان او فتنہ رونداد) پاک جامہ وکم عیب ازدنیا رفت نیکوئی خلافت رادریافت وازشرآں پیشی گرفت (تابوداد خلافت منظم بودہ واختلافی درآں راہ نیافت) طاعت خدا راجا آوردہ از نافرمانی او پرہیز کردہ حتشی را ادا نمودہ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فلاں شخص یعنی سیدنا عمر بن خطابؓ کے شہروں میں برکت دے اور ان کا تحفظ رکھے، جس نے کجی کو درست فرمایا گمراہوں کو راہِ راست پر لائے، بیماری کا علاج کیا شہر کے رہنے والوں کو مسلمان کیا، سنت طریقہ کو جاری فرمایا، یعنی احکامِ پیغمبر کو جاری فرمایا، فتنہ وتباہ کاری اور فساد کے امور کو پسِ پشت ڈال دیا، اس دریا سے پاک دامن اور کم عیب ہو کر رخصت ہوئے، اس نے خلافت کی خوبیوں کا پایا، اس کے شر سے پہلے ہی رخصت ہوگئے اور خلافت کو منظم طور پر سر انجام دیا، اور اس میں کوئی خرابی اور اختلال نہ آنے دیا۔ خدا تعالیٰ کی اطاعت بجالائے، اس کی نافرمانی سے دور رہے اور اس کے حق کو ادا فرمایا۔
(فیض السلام شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 711، 712، مطبوعہ ایران)
سیدنا امیرِ معاویہ نے کہا اے ابنِ عباس! سیدنا عمر بن خطاب کے بارے میں تو کیا کہتا ہے فرمایا سیدنا ابو حفص عمر پر خدا کی رحمت ہو، اللہ کی قسم وہ اسلام کے سچے خیرخواہ، یتیموں کے ماویٰ، احسان کے منتہیٰ، ایمان کے محل، ضعیفوں کی جائے پناہ اور سچے لوگوں کی پناہ گاہ تھے، اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر، صبر اور استقامت سے قائم رہے۔ یہاں تک کہ دین واضح ہوا، شہر فتح کئے، بندوں کو چین نصیب ہوا جو سیدنا فاروق اعظم میں نقص و خرابی نکالے اس پر اللہ تعالیٰ کی قیامت تک لعنت ہو۔ 
(مروج الذہب للمسعودی جلد، 3صفحہ، 51)
سیدنا فاروقِ اعظمؓ، سیدنا علی المرتضیٰؓ کے داماد بھی ہیں کیونکہ آپؓ کی شہزادی سیدہ امِ کلثومؓ سیدنا عمرؓ کے نکاح میں تھیں۔
(فروع کافی جلد، 2صفحہ، 141، 311)
حضراتِ شیخین رضوان اللہ علیہم اجمعین:
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین برحق ہیں لیکن سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کا مقام باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بلند ہے جیسا کہ ذیل کی عبارات شیعہ سے بھی واضع ترہورہا ہے چنانچہ ملاحظہ ہو!
حضور اکرمﷺ سے پوچھا گیا کہ مردوں میں سب سے زیادہ محبوب کسے رکھتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا سیدنا ابوبکرؓ پھر عرض کیا ان کے بعد کس کا مقام ہےتو فرمایا سیدنا عمر بن خطابؓ کا۔
(تاریخ روضۃ الصفاء جلد، 2صفحہ، 380)
حضور اکرمﷺ نے سیدہ حفصہؓ سے فرمایا کے میرے بعد سیدنا ابوبکرؓ کو خلافت ملے گی ان کے بعد تمہارے والد سیدنا عمرؓ کو خلافت ملے گی انہوں نے عرض کیا حضور آپ کو کس نے بتایا؟ فرمایا اللہ علیم و خبیر نے۔ 
(تفسیر قمی: جلد، 2صفحہ، 392، تفسیر مجمع البیان: جلد، 10 صفحہ، 314، تفسیر صافی: جلد، 4صفحہ، 716، تفسیر منہج الصادقین: جلد، 9 صفحہ، 330)
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے انہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی مجلس میں آتے وقت ارشاد فرمایا کہ انہیں سیدنا ابوبکر صدیق کو جنت اور میرے بعد خلافت کی خوشخبری سنا دو اور سیدنا عمر فاروقؓ کو جنت اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد خلافت کی بشارت دو۔
(تلخیص الشافی جلد، 3 صفحہ، 39)
سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور سیدنا عمرفاروقؓ زمین میں ایسے ہیں جیسے جبرائیل علیہ السلام و میکائیل علیہ السلام آسمان میں ہیں۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ، 247)
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا سیدنا صدیق اکبرؓ اسلام میں سب سے افضل ہیں اور رسول اللہﷺ کے خلیفہ ہیں اور ان کے بعد خلیفہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ ہیں میری عمر اس بات کی گواہ ہے کہ دونوں اسلام میں عظیم مقام رکھتے ہیں، ان کے وصال سے اسلام کو سخت نقصان ہوا ہے اللہ ان دونوں پر رحمت فرمائے انہوں نے جو کام کیا ہے، اس کی اچھی جزاء دے۔
(شرح نہج البلاغہ جلد، 4 صفحہ، 362، مکتوب نمبر9 لابن میشم، وقعۃ الصفین: صفحہ، 63)
حضورﷺ کے بعد لوگوں نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ بنایا اور سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ کو خلیفہ بنایا، یہ دونوں سیرت و کردار میں بلند پایہ انسان تھے۔ انہوں نےامت میں خوب انصاف کیا۔
(واقعۃ الصفین: صفحہ، 149)
وہ دونوں سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ عادل اور پرہیزگار امام تھے دونوں حق پر رہے، حق پر ہی دونوں کا وصال ہوا، قیامت کے دن دونوں پر اللہ کی رحمت ہو۔
(احقاق الحق: صفحہ، 16، انوار نعمانیہ: جلد، 1 صفحہ، 99)
سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ نے تقویٰ و پرہیز گاری سے کام لیا، روئی کا لباس پہنا اور تکلیف دہ چیزوں کو پسند کرنے لگے، لوگوں پر مال غنیمت تقسیم کیا مگر خود دنیوی دولت سے دور ہوگئے اس لئے لوگوں کا شبہ تھا تو وہ بڑھ گیا چنانچہ وہ کہنے لگے اگر انہوں نے نفسانی خواہشوں سے نص کی مخالفت کی ہوتی تو دنیوی دولت سے بہرمند کیوں نہ ہوتے؟ کوئی بھی دانش مند آدمی جب نص کی مخالفت کرتا اور دین ضائع کرتا ہے تو دنیوی زندگی کو پر رونق بناتا ہے جب سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ نے دنیا سے ہی ہاتھ اٹھا لیا تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے نص کی مخالفت کی۔
(ناسخ التواریخ: جلد، 3 صفحہ، 72)
حضورﷺ نے فرمایا جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے کہتے ہیں کہ اتنے میں سیدنا ابوبکرؓ تو انہیں کہا گیا اے ابوبکرؓ تم صدیق ہو اور غار میں دو میں سے دوسرے ہو، تو حضور سے دریافت کرو وہ تین کون ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے خطرہ ہے اگر میں نے پوچھا اور میں خود ان میں سے نہ ہوا تو بنی تمیم مجھے ملامت کریں گے پھر عمر بن خطاب آئے، ان سے بھی کہا گیا کہ تم فاروقؓ ہو اور تم وہ جن کی زبان پر فرشتہ بولتا ہے۔ مگر تم پوچھ کر بتاؤ وہ تین کون ہیں؟ تو فاروقؓ نے کہا مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں پوچھ بیٹھا اور میں خود ان میں سے نہ ہوا تو بنی عدی مجھے ملامت کریں گے۔
(رجال الکشی: صفحہ، 32)
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا میری قبر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کو باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے، جب حضورﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو آپﷺ کے پاؤں مبارک تیسری سیڑھی پر ہوتے تھے، سیدنا ابوبکرؓ تیسری سیڑھی پر بیٹھے اور پاؤں مبارک دوسری سیڑھی پر رکھتے اور سیدنا عمر فاروقؓ دوسری سیڑھی پر بیٹھے اور ان کے پاؤں زمین پر ہوتے۔
(ناسخ التواریخ: جلد، 2 صفحہ، 154، جلاء العیون: صفحہ، 158، فروع کافی: جلد، 2 صفحہ، 316)
جب معاملہ خلافت سیدنا علیؓ کے ہاتھ میں آیا تو آپؓ سے فدک کے لٹائے جانے کے بارے میں گفتگو ہوئی توآپ نے فرمایا اللہ کی قسم! مجھے اس چیز کے لوٹانے سے شرم آتی ہے جس کو سیدنا ابوبکرؓ نہیں لوٹایا سیدنا عمرؓ بھی ان کی پیروی کی۔
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 94 لابنِ ابی حدید)
سیدنا علیؓ کا ایک خطبہ ملاحظہ ہو!
ان علیا علیہ السلام قال فی خطبتہِ خیرھذہ الامۃ بعد نبیھا ابوبکرؓ و عمرؓ وفی بعض الاخبار انہ علیہ السلام خطب بذلک بعد ماانھی الیہ ان رجلا تناول ابابکرؓ و عمرؓ بالشتیمہ فدعی بہ وتقدم بعقوبتہِ بعد ان شھدوا علیہ بذلک 
(الشافی: جلد، 2 صفحہ، 428)
سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا نبی اکرمﷺ کے بعد تمام امت سے افضل سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں۔ بعض روایتوں میں واقعہ یوں ذکر ہوا ہے کہ سیدنا علیؓ کی خدمت میں اطلاع پہنچی کہ ایک شخص نے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی شان میں بدزبانی کی ہے۔ جس کے بعد امیر المؤمنین سیدنا علیؓ نے اس گالی بکنے والے کو بلایا۔ شہادت طلب کی اور شہادت کے بعد جب گالی دینا ثابت ہوگیا تو اسے سزا دی۔
سیدنا زین العابدینؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے کچھ کوفیوں نے آپ سے سیدنا ابوبکرؓ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
دربارءہ ایشان جزبخیر سخن نکنم وازاہل خود نیز درحق ایشاں جزسخن خیزنہ شنیدہ ام۔
(ناسخ التواریخ: جلد، 2صفحہ، 590)
ان حضراتِ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے بارے میں سوائے کلمہ خیر کے کچھ نہیں کہتا اور اپنے گھر اور خاندان کے لوگوں سے بھی میں نے ان کے حق میں کلمہ حق کے سوا کچھ نہیں سنا۔
ایک قریشی نے سیدنا علیؓ سے عرض کیا کہ آپؓ اکثر خطبہ میں یہ کہتے ہیں اے اللہ! جس طرح تو نے خلفائے راشدین کی اصلاح فرمائی، ہماری بھی ویسی ہی اصلاح فرما۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آپؓ کیا مراد لیتے ہیں، یہ سنتے ہی آپؓ کی انکھیں بھرآئیں اور فرمایا: سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ وہ دونوں میرے حبیب اور تمہارے چچا ہیں، ہدایت کے امام، شیخ الاسلام، قریش کے نہایت معزز فرد اور رسول اللہﷺ کے بعد قابل اقتداء ہیں، ان کی اقتداء و اتباع کرنے والا مصئون اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے گا۔ 
(تلخیص الشافی: جلد، 3 صفحہ، 318)
سیدنا محمد باقرؒ فرماتے ہیں:
لست بمنکرفضل عمرؓ لکن ابابکرؓ افضل من عمر۔
(احتجاج طبرسی: جلد، 2 صفحہ، 479 مطبوعہ ایران)
میں سیدنا عمرؓ فضیلت کا منکر نہیں ہوں، لیکن سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓسے افضل ہیں۔
سیدنا جعفر صادقؒ سے مروی ہے:
انہ کان یتولا ھما و یاتی القبر فیسلم علیھما مع تسلیمہ علی رسول اللہﷺ‎۔
(الشافی: صفحہ، 238)
سیدنا جعفر صادقؒ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ کے ساتھ دوستی اور محبت رکھتے تھے، آپ جب رسول اللہﷺ‎ کی قبر شریف پر حاضری دیتے تو رسول اللہﷺ‎ کے سلام کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ دونوں کو بھی سلام کہتے تھے۔
شیعہ حضرات کی معتبر کتاب میں موجود ہے: سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے۔
(رجال الکشی: صفحہ، 338)
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا: اگر میرے پاس کوئی آدمی آئے اور مجھے سے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو افضل سمجھتے تو میں اسے ضرور مفتری بہتان تراشی کی سزا 80 کوڑے ماروں گا۔ 
(رجال الکشی: جلد، 2 صفحہ، 695)
خلیفہ ثالث سیدنا عثمانِ غنیؓ
شیعہ سیدنا عثمان غنیؓ پر بے تنقیدات کا بازار گرم کر دیتے ہیں جب کہ آپؓ کا فضل و کمال نا قابلِ تروید ہے، کتبِ شیعہ سے چند حوالہ جات درج ذیل ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
اے اللہ! عثمان بن عفانؓ سے راضی ہو جا، بے شک میں اس سے راضی ہوں۔
(تاریخ روضتہ الصفاء: جلد، 3 صفحہ، 403)
سیدہ امِ کلثومؓ کا نام شریف آمنہ تھا، سیدہ رقیہؓ کے بعد ان کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے ہوا، لہٰذا سیدنا عثمانؓ کو ذوالنورین یعنی دو نوروں والا کہتے ہیں۔ 
(منتخب التواریخ: صفحہ، 29، شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 460 لابنِ ابی حدید)
سیدنا علیؓ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا عثمانِ غنیؓ کے اوصاف و فضائل میں یہ بھی فرمایا کہ آپؓ رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے جس طرح ہم رہے اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ بھی عمل حق میں آپؓ سے ادنیٰ نہ تھے، آپؓ کوان دونوں سے بڑھ کر نبی اکرمﷺ کا داماد ہونے کی عزت حاصل ہے جو ان حضرات کونہ تھی۔
(نہج البلاغہ: صفحہ، 220 خطبہ، 164)
سیدنا جعفر صادقؒ سے پوچھا گیا کہ کیا حضورﷺ نے اپنی صاحبزادی کو سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دیا تھا؟ آپؒ نے فرمایا: ہاں۔
(حیات القلوب: جلد، 2صفحہ، 563)
سیدہ رقیہؓ کی بیماری کی وجہ سے سیدنا عثمانؓ غزوہِ بدر میں شریک نہ ہوئے لیکن حضورﷺ نے انہیں بدر کے اجر و ثواب میں شریک فرمالیا تھا۔
( التنبہ والا شراف: جلد، 205 اعلام الوریٰ: صفحہ، 148)
سیدنا عثمانؓ قرابت کے اعتبار سے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی نسبت حضورﷺ کے زیادہ قریب ہیں پھر انہوں نے دامادِ رسول ہونے کے حوالے سے وہ مرتبہ حاصل کیا جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو نہ مل سکا۔ سیدہ رقیہؓ سیدہ امِ کلثومؓ سے شادی کی جو مشہور روایت کے مطابق حضورﷺ کی صاحبزادیاں ہیں پہلے سیدہ رقیہؓ سے شادی فرمائی، ان کے انتقال کے بعد سیدہ امِ کلثومؓ سے ان کا نکاح ہوا۔ 
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 716، فیض الاسلام، شرح نہج الابلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 519)
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو بھی میں یکے بعد دیگر سے ان کی شادی سیدنا عثمانؓ سے کر دیتا یہاں تک کہ ایک بھی باقی نہ رہتی۔
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 460 لابنِ ابی حدید)
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا: حضورﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا اے ابوالحسن! ابھی ابھی جاؤ اور اپنی زرہ بیچ کر جوقیمت ملےمیرے پاس لے آؤ تا کہ میں اس سے تمہارے لئے اور اپنی بیٹی کے لئے شادی کا ضروری سامان تیار کروں میں گیا اور چار سو درہم کے بدلے وہ زرہ سیدنا عثمانؓ کے ہاتھ فروخت کر دی جب میں نے قیمت وصول کرلی اور سیدنا عثمانؓ نے زرہ پر قبضہ کرلیا تو سیدنا عثمانؓ نے کہا اے ابوالحسنؓ! میں اس زرہ کا تم سے زیادہ مستحق نہیں اور تم ان درہموں کے مجھ سے زیادہ مستحق ہو، تو میں نے کہا ہاں ٹھیک کہتے ہو، سیدنا عثمانؓ نے کہا کہ میں یہ زرہ تم کو بطورِ ہدیہ دیتا ہوں، میں درہم اور زرہ دونوں لے کر حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، درہم اور زرہ آپﷺ کے سامنے رکھ کر سیدنا عثمانؓ کا سارا واقعہ بیان کر دیا تو آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے لیے دعائے خیر فرمائی۔
(کشف الغمہ: جلد، 1 صفحہ، 359)
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
امرنی ان ازوج فاطمۃؓ نم علی فانطلق فادع لی ابابکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ وعلیاؓ و طلحۃؓ و الزبیرؓ بعد دھم من الانصار قال فانطلقت فدعوتھم لہ۔
ترجمہ: مجھے حکم ہوا ہے کہ میں فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کر دوں پس تم جاؤ اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ و سیدنا علیؓ سیدنا طلحہٰؓ، سیدنا زبیرؓ اور اتنے ہی انصار میں سے بلاؤ۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں میں ان کو بلانے کے لیے گیا، پھر آپﷺ نے محفل میں خطبہ نکاح پڑھا اس کے بعد فرمایا:
انی اشھد کم انی قد زوجت فاطمۃؓ من علیؓ علی اربع مائمۃ مثقال فضۃ۔
ترجمہ: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے چار سو مثقال چاندی حق مہر کے عوض سے کر دیا ہے۔
(کشف الغمہ: صفحہ، 348)
جب مشرکین نے سیدنا عثمانؓ کو گرفتار کر لیا تو حضورﷺ کو خبر ملی کہ انہوں نے سیدنا عثمانؓ کو شہید کر دیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہم مشرکین سے لڑائی کئے بغیر یہاں سے نہیں اُٹھیں گے۔ 
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 716)
ایک روایت میں ہے: حضورﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک دوسرے ہاتھ مبارک پر مارا اور سیدنا عثمانؓ کے لئے بیعت لی اور مسلمانوں نے کہا کی سیدنا عثمانؓ بڑے خوش نصیب ہیں۔
(فروع کافی کتاب الروضہ: جلد، 3 صفحہ، 151)
سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ سے کہا بے شک میرے پیچھے ہیں جو مجھے آپؓ کے اور اپنے درمیان سفیر بنا کر لائے ہیں، اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں آپؓ کو کیا کہوں؟ میں ایسی کوئی بات نہیں جانتا جسے آپؓ نہ جانتے ہوں اور آپؓ کو کوئی ایسا امر نہیں پہنچا سکتا جسے آپؓ نہ پہچانتے ہوں ہم نے کسی چیز میں آپؓ سے سبقت نہیں لی، جس سے آپؓ کو خبردار کریں جو کچھ ہم نے دیکھا وہی کچھ آپؓ نے دیکھا، جو کچھ ہم نے سنا وہی کچھ آپؓ نے سنا، جیسی ہم نے رسول اللہﷺ کی صحبت اختیار کی ویسی آپؓ نے اختیار کی، سیدنا ابنِ خطابؓ اور سیدنا ابنِ ابوقحافہؓ عمل حق میں آپؓ سے افضل نہیں ہیں، آپؓ رسول اللہﷺ سے قرابت کی وجہ سے زیادہ ہیں اور آپؓ پیغمبر کی دامادی کے شرف سے مشرف ہیں، یہ وہ مرتبہ ہے جس پر وہ دونوں نہ پہنچ سکے۔ 
(نہج البلاغہ: حصہ اول: خطبہ، 163)
سیدنا علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں:
لما قتل جعلنی سادس ستۃ فدخلت حیث ادخلنی وکرھت ان افرق جماعۃ المسلمین واشق عصاھم فبایعتم عثمان فبایعتہ۔ 
(امالی لابی جعفر الطوسی جلد، 2صفحہ، 121 جزء ثامن عشر)
ترجمہ: جب سیدنا عمر فاروقؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے مجلسِ شوریٰ کے چھ آدمیوں میں چھٹا مجھے مقرر کیا، تو میں ان کے شامل کرنے پر ان میں شریک ہوگیا اور میں نے مسلمانوں کی جماعت میں تفریق کو مکروہ جانا اور اتفاق کی لاٹھی کو توڑنا برا سمجھا، پس تم نے سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی تو میں نے بھی ان کی بیعت کر لی۔
پھر سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عثمانِ غنیؓ کی طرف چلے گئے اور ان کی بیعت کی۔
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 617 لابنِ ابی حدید)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت، 18)
اس کا ترجمہ شیعہ حضرات کے بشارت حسین مرزا کامل پوری نے یوں کیا ہے:
ترجمہ: بے شک خدا ان مؤمنین سے راضی و خوش ہوا جنہوں نے اے رسول! درخت کے نیچے تم سے بیعت کی۔
اس آیت شریف کی تفسیر کرتے ہوئے شیعہ حضرات کے مستند مفسرین نے لکھا ہے کہ سرکار نبی پاکﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے لیے جب بیعت لی تو سب سے پہلے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے بیعت کی۔ ملاحظہ ہو! کتب علی علیہ السلام الی معاویۃؓ انا اول من بایع رسول اللہﷺ تحت الشجرۃ۔
(تفسیر الصافی: جلد، 2 صفحہ، 582 مطبوعہ ایران)
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو خط لکھا کہ درخت کے نیچے رسول اللہﷺ کے ہاتھ مبارک پر بیعت کرنے والوں میں سے میں پہلا شخص ہوں۔
یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو:
حبس عثمانؓ فی عسکر المشرکین وبایع رسول اللہﷺ وضرب باحدیٰ یدیہ علی الاخریٰ بعثمانؓ وقال المسلمون طوبی لعثمانؓ قد طاف بالبیت وسعی من الصفا والمروۃ واحل قال رسول اللہﷺ اطفت بالبیت فقال ماکنت لاطوف بالبیت ورسول اللہﷺ لم یطف بہ۔
(کتاب الروضہ جلد، 8 صفحہ، 325، 326 مطبوعہ ایران)
سیدنا عثمانؓ کو مشرکین کے لشکر نے قیدی بنا لیا، تو رسول اللہﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک دوسرے ہاتھ مبارک پر مارا، اور سیدنا عثمانؓ کے لیے بیعت لی، اور مسلمانوں نے عرض کیا، سیدنا عثمانؓ بڑے خوش قسمت ہیں جنہوں نے بیت اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی کی سعادت حاصل کی اور احلال کیا، تو رسول اللہﷺ نے ان کو فرمایا کہ سیدنا عثمانؓ نے ایسا نہیں کیا ہوگا۔ جب سیدنا عثمانؓ حاضر ہوئے تو رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا کیا آپؓ نے بیعت اللہ کا طواف کیا تو انہوں نے عرض کیا جب رسول اللہﷺ نے طواف نہیں کیا تو میں کیسے کرسکتا ہوں۔
یہی مضمون شیعوں کی کتاب حملہ حیدری: صفحہ، 119 پر بھی موجود ہے۔
شہادت سیدنا عثمانؓ کے بعد سیدنا علیؓ ان کے گھر غمزوہ داخل ہوئے اور اپنے دونوں بیٹوں کو فرمایا کہ تم دونوں دروازے پر تھے، ایسے میں امیرالمؤمنینؓ کیسے شہید ہوگئے اس کے بعد سیدنا حسنؓ کے منہ پر طمانچہ مارا اور سیدنا حسینؓ کے سینہ پر مکہ رسید کیا۔ 
(مروج الذہب: صفحہ، 345)
سیدنا ابنِ عباسؓ نے کہا کہ سیدنا عثمانؓ پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرمائے آپؓ اپنے خادموں اور غلاموں پر مہربان تھے نیکی کرنے والوں میں افضل، شب خیر و شب زندہ دار تھے، دوزخ کے ذکر پر نہایت گریہ کرنے والے عزت و وقار کے امور میں اُٹھ کھڑے ہونے والے اور نبی کریمﷺ کے داماد تھے،جو شخص سیدنا عثمانِ غنیؓ کے بارے میں زبان لعن وطعن دراز کرے اللہ تعالیٰ اس پر قیامت تک لعنت کرے ، سب لعنت کرنے والوں کی لعنت کے برابر۔
(تاریخ مسعودی: جلد، 3 صفحہ، 51، ناسخ التواریخ: جلد، 5 صفحہ، 144)
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا بنی عباس کا اختلاف بھی یقینی ہے اور ندا بھی ہقینی ہے، محمد بن علی حلبی نے پوچھا کہ ندا کیسی ہے؟ فرمایا ایک آواز دینے والا دن کے آغاز پر آسمان سے ندا کرتا ہےکہ جان لو بے شک سیدنا علیؓ اور ان کے پیروکار ہی کامیاب ہیں اور دن کے اختتام پر بھی ایک ندا دینے والا ندا کرتا ہے، کہ خبردار سیدنا عثمانؓ اور ان کے پیروکار کامیاب ہیں۔(کتاب الروضہ: جلد، 8 صفحہ، 310)
حضرات خلفائے ثلاثہؓ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ: 
یہ حقیقت ناقابلِ تروید ہے کہ اس امت میں سب سے افضل سیدنا صدیقِ اکبرؓ، پھر سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا عثمانِ غنیؓ اور پھر سیدنا علیؓ ہیں اس حقیقت کو کتب شیعہ سے بھی نمایاں ہوتا دیکھیں:
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا بے شک سیدنا ابوبکرؓ میرے کان، سیدنا عمرؓ میری آنکھ اور سیدنا عثمانؓ میرے دل کی جگہ ہے۔
(معانی الاخبار: صفحہ، 387، جامع الاخبار: صفحہ، 110)
اُمت میں جس نے مجھے لڑکی دی یا جس کو میں نے دی وہ دوزخ میں ہرگز نہ جائے گا، کیونکہ میں نے اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا تو اللہ نے مجھ سے اس کا وعدہ فرمالیا ہے۔
(لوامع التنزیل: جلد، 2 صفحہ، 476)
حضورﷺ نے سیدہ حفصہؓ کو فرمایا میرے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور اس کے بعد تیرا باپ سیدنا عمرؓ اس امت کے مالک اور بادشاہ ہوں گے اور ان کی اتباع میں سیدنا عثمانِ غنیؓ خلیفہ ہوں گے۔
( تفسیرمنہج الصدقین: جلد، 9 صفحہ، 330)
اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے لئے مسلمانوں میں سے ایک معاون اور مددگار جماعت منتخب فرمائی تھی اور ان معاونین کے آپ کے نزدیک ایسے ہی درجات تھے جیسے اسلام میں ان کی فضیلت تھی، ان سب میں اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ خیرخواہ خلیفہ اول سیدنا ابوبکرؓ تھے پھر ان کے خلیفہ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ مجھے اپنی سیدنا عمرؓ کی قسم! ان دونوں حضرات کا اسلام میں بہت اونچا مقام ہے، اللہ انہیں غریقِ رحمت فرمائے اور انہیں اچھی جزا سے نوازے اور تم نے سیدنا عثمانؓ کا ذکر کیا کہ وہ فضیلت میں تیسرے درجے پر تھے۔ سیدنا عثمانؓ نیک و کار تھے تو اللہ تعالیٰ ان کی نیکی کی بہت جلد جزا عطا فرمائے گا۔ 
(واقعہ صفین: صفحہ، 63)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے افضل اللہ اور مسلمانوں کے نزدیک سب سے رفیع المنزلت خلیفہ اول سیدنا ابوبکرؓ تھے جنہوں نے سب کو ایک آواز پر جمع کیا اور انتشار کومٹایا اور اہلِ ردہ دین سے پھرجانے والوں سے جنگ و قتال کیا، ان کے بعد خلیفہ ثانی سیدنا عمرؓ کا درجہ ہے، جنہوں نے فتوحات حاصل کیں، شہروں کو آباد کیا اور مشرکین کی گردنوں کو ذلیل کیا پھر خلیفہ ثالث سیدنا عثمانؓ کا درجہ ہے، جو مظلوم و ستم رسیدہ تھے اور ملت کو فروغ دیا اور کلمہ حق پھیلایا۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 448 لابنِ ابی حدید: حاشیہ نہج البلاغہ: صفحہ، 697)
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے، جن لوگوں نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی تھی اور مقصد بیعت بھی وہی تھا جو ان کا تھا لہٰذا موجودہ حضرات میں کسی کو علیحدگی کا اختیار نہیں اور نہ غائب لوگوں کو اس کی تردید کی اجازت ہے، مشورہ مہاجرین اور انصار کو ہی شایانِ شان ہے تو اگر یہ سب کسی شخص کے خلیفہ بنانے پر متفق ہو جائیں تو یہ سب اللہ کی رضا ہوگی اور اگر ان کے حکم سے کسی نے بوجہ طعن یا بدعت کی خروج کیا تو اسے واپس لوٹا دواگر واپسی سے انکار کرے تو اس سے قتال کرو، کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کی اجتماعی فیصلوں کو ٹھکرانے والا ہے اور اللہ نے اسے متوجہ کردیا جدھروہ خود جانا چاہتا ہے۔ 
(نہج البلاغہ: حصہ دوم ، مکتوب 6، الاخبار الطوال: صفحہ، 140)
بیشک سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ نے حدود کے فیصلے سیدنا علیؓ کے سپرد کر رکھے تھے۔(جعفریات: صفحہ، 133)
سیدنا زین العابدینؒ کے پاس ایک وفد آیا تو انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے بارے میں کچھ نازیبا الفاظ کہے تو سیدنا زین العابدینؒ نے فرمایا: میرے سامنے سے دور ہو جاؤ اور اللہ تمہاری بد کلامی کی تمہیں سزا دے۔
(کشف الغمہ: جلد، 2 صفحہ، 78، جلاء العیون: جلد، 1 صفحہ، 393)
سیدنا علیؓ نے فرمایا جو مجھے چوتھا خلیفہ نہ کہے اس پر اللہ کی لعنت۔ 
(مجمع الفضائل ترجمہ مناقب ابنِ شہر آشوب: جلد، 2 صفحہ، 376، مناقب آل ابی طالب: جلد، 3 صفحہ، 63)
اس جملے میں بھی سیدنا علیؓ نے حضراتِ خلفائے راشدینِ ثلاثہؓ کی خلافت، صداقت اور حقانیت کو واضح فرما دیا ہے والحمدللہ علی ذلک
اللہ تعالیٰ سیدنا علی المرتضیٰؓ کی محبت کے دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ آپؓ کے اقوال و افعال اور فیصلہ جات کو بھی ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
علی دا پہلا نمبر کہنے والے کا حکم:
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرؓ سے افضل ہیں اور ان کا خلافت میں پہلا نمبر ہے ان کے متعلق سیدنا علیؓ فرماتے ہیں:
اگر میرے پاس کوئی آدمی آئے اور مجھے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے افضل سمجھے تو میں اسے ضرور متفری (بہتان تراش) کی سزا (80 کوڑے) ماروں گا۔
(رجال الکشی: جلد، 2 صفحہ، 695)
آپؓ نے مذید فرمایا:
عنقریب میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، ایک محبت میں حد سے تجاوز کرنے والا کہ اسے غلو (حد سے بڑھنا) حق کے خلاف لے جائےگا۔ دوسرا گروہ میرے بارے میں بغض و عناد میں حد سے بڑھنے والا کہ اس کا بغض اسے حق کے خلاف لے جائے گا اور میرے بارے میں سب سے بہتر وہ لوگ ہوں گے جو اعتدال پر ہوں تو تم بھی میانہ راہ کو لازم پکڑو اور سواد اعظم سے جدا نہ ہونا، پس جو جماعت سے الگ ہو جاتا ہے وہ شیطان کا شکار بن جاتا ہے جیسے گلے (ریوڑ) سے جدا ہونے والی بکری بھیڑیے کا لقمہ بنتی ہے۔
(نہج البلاغہ: جلد، 1 صفحہ، 365، خطبہ نمبر، 125)
سیدنا علیؓ نے فرمایا: جو مجھے چوتھا خلیفہ نہ کہے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ 
(مجمع الفضائل ترجمہ مناقب شہر آشوب: جلد، 2 صفحہ، 376، عربی: جلد، 3 صفحہ، 63، مناقب آل ابی طالب: جلد، 3 صفحہ، 63)
سیدنا باقرؒ سے عرض کیا گیا لیس لک من الامر شئی کی کیا تاویل ہے؟ فرمایا: حضورﷺ سیدنا علیؓ کے لیے خلیفہ بلافصل کے خواہش مند تھے لیکن اللہ نے اس خواہش کا انکار فرما دیا۔ 
(تفسیر فرات الکوفی: صفحہ، 192)
ایک روایت میں لکھا ہے:
ان علیا علیہ السلام قال فی خطبتہِ خیرھذہ الامۃ بعد نبیھا ابوبکرؓ و عمرؓ وفی بعض الاخبار انہ علیہ السلام خطب بذلک بعدما انھی الیہ ان رجلا تناول ابابکرؓ و عمرؓ بالشتیمہ فدعیٰ بہ و تقدم بعقوتبہ بعد ان شھدوا علیہ بذلک۔
(الشافی: جلد، 2 صفحہ، 428)
سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: نبی اکرمﷺ کے بعد تمام امت سے افضل سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ہیں۔ بعض روایتوں میں واقعہ یوں ذکر ہوا ہے کہ سیدنا علیؓ کی خدمت میں اطلاع پہنچی کہ ایک شخص نے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی شان میں بد زبانی کی ہے جس کے بعد امیرالمؤمنین سیدنا علیؓ نے اس گالی بکنے والے کو بلایا شہادت طلب کی اور شہادت کے بعد جب گالی دینا ثابت ہوگیا تو اسے سزا دی۔
اسی کتاب الشافی کے اسی صفحہ پر سیدنا زین العابدینؒ کی روایت ہے کہ جب سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو سیدنا ابوسفیانؓ سیدنا علیؓ کے پاس آئے اور کہا کہ ہاتھ بڑھائیں میں آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں اور بخدا میں آپؓ کی حمایت میں اس علاقہ کو سواروں اور پیدل سپاہیوں سے بھر دوں گا اگر آپؓ خوف کے باعث اعلان خلافت نہیں کر رہے ہیں یہ سن کر سیدنا علیؓ نے چہرہ پھیر لیا، اور فرمایا:
ویحک یا اباسفیانؓ ھٰذہِ من دواھیک قد اجتمع الناس علی ابی بکرؓ مازلت تبتغی الاسلام عوجافی الجاھلیۃ والاسلام واللہ ماضر الاسلام ذلک شیئا مازلت صاحب الفتنۃ۔
(الشافی: جلد، 2 صفحہ، 428)
ترجمہ: سیدنا ابوسفیانؓ تیرے لیے سخت افسوس ہے، یہ سب تیری چالوں اور مصیبتوں سے ہیں، حالانکہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجتماعی متفقہ فیصلہ ہو چکا، تو کفر اور اسلام میں ہمیشہ فتنہ اور کج روی کا متلاشی رہا ہے۔ بخدا اس سے اسلام کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا اور ہمیشہ فتہ گرہی رہے گا۔
امُ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ:
امُ المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے بلاوجہ دشمنی رکھنے والوں کو اپنی کتابوں کی ان روایتوں پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ:
سیدنا عمرو بن عاصؓ نے حضورﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہﷺ‎ تمام مخلوقات میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا عائشہؓ پھر پوچھا حضور میرا سوال مردوں کے متعلق ہے۔ آپﷺ‎ نے فرمایا سیدنا ابوبکر صدیقؓ، ان کے بعد سیدنا عمرؓ۔
(تاریخ روضۃ الصفاء: جلد، 2 صفحہ، 380)
سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے عائشہؓ! اللہ نے تیرے شیطان کو ذلیل کر دیا تو وہ عرض کرنے لگیں حضورﷺ‎ آپ کے شیطان کو بھی اللہ نے ذلیل کردیا فرمایا اے عائشہؓ ایسے نہ کہو، میں نے اللہ سے اس کے خلاف مدد چاہی اللہ نے میری مدد کی اور وہ مسلمان ہوگیا۔ ابیصر اس کا نام ہے اور وہ جنتی ہوگا۔
(قرب الاسناد: جلد، 2 صفحہ، 176)
سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں:
مرد نماز پڑھنے والے کے بالمقابل اگر عورت نماز پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ بعض اوقات اس طرح نماز ادا فرماتے تھے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ آپﷺ‎ کے سامنے لیٹی ہوتی تھیں اور وہ حالت حیض میں ہوتیں۔
(من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 159)
حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو فرمایا:
فاطمہؓ کھانا لے آؤ سیدہ فاطمہؓ پتھر کی ایک ہنڈیا اور کھانا لئے حاضر ہوگئیں، کھانے کو ڈھانپ دیا گیا اور آپﷺ‎ نے دعا مانگی اے اللہ! کھانے میں ہمیں برکت عطا فرما، پھر فرمایا بیٹی! عائشہؓ کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا توڑو میں نے توڑا پھر تمام ازواج کے لیے اور اپنے خاوند اور اپنے لئے ٹکڑے توڑے۔
(قرب الاسناد: صفحہ، 185)
حضور اکرمﷺ کی اولاد امجادؓ:
کہا جاتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی، جب کہ اہلِ بیتِ کرامؓ کا مؤقف یہ ہے کہ آپﷺ‎ کی حقیقی بیٹیاں چار ہیں سطورذیل میں چند شیعی روایات ملاحظہ ہوں!
سیدنا جعفر صادقؒ سے مروی ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے رسول اللہﷺ کی یہ اولاد پیدا ہوئی! سیدنا قاسمؓ سیدنا طاہرؓ انہی کا نام عبداللہ ہے۔ سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ رقیہؓ، سیدہ زینبؓ اور سیدہ فاطمہؓ، سیدنا علیؓ بن ابوطالب نے سیدہ فاطمہؓ سے شادی کی۔ سیدنا ابوالعاص بن ربیعؓ جو کہ بنوامیہ کے ایک آدمی ہیں نے سیدہ زینبؓ سے نکاح کیا سیدہ امِ کلثومؓ سے سیدنا عثمان بن عفانؓ نے تعلق زوجیت قائم کیا، لیکن وہ خانہ آبادی سے پہلے ہی وفات پاگئیں جب مسلمان جنگ بدرکی طرف روانہ ہوئے تو رسول اللہﷺ نے سیدہ رقیہؓ کی شادی سیدنا عثمانؓ سے کر دی اور رسول اللہﷺ کے صاحبزادے سیدنا ابراہیمؓ، سیدہ ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے۔ 
(مراۃ العقول فی تشریح اخبارآل رسول: جلد، 5 صفحہ، 180، کتاب الحجہ، ابواب التاریخ باب مولد النبی لملا باقر مجلسی طبع دارالکتب الاسلامیہ تہران)
ملا باقر مجلسی نے یہی روایت حیاۃ القلوب: جلد، 2 صفحہ، 588، کتاب دوم، باب(51) پنجاہ ویکم دربیان اولاد امجاد آنحضرت است ، طبع قدیم کتاب فروشی اسلام، تہران پر بھی نقل کی ہیں۔
مزید لکھتے ہیں: اسی سیدنا جعفرصادقؒ کی روایت کی طرح حمیدی نے قرب الاسناد میں ہارون بن مسلم سے بروایت سعدہ بن صدقہ، سیدنا جعفر صادقؒ سے اورانہوں نے اپنے والد گرامی سیدنا باقرؒ سے روایت کیا ہے۔
(مراۃ العقول: جلد، 5 صفحہ، 180)
عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال کان رسول اللہﷺ ابا بنات۔
 (فروع کافی: جلد، 2 صفحہ، 256، کتاب الفقیہ، نولکشور)
ابوعبداللہؒ نے فرمایا رسول اللہﷺ ایک سے زائد بیٹوں کے باپ تھے۔
معلوم ہوا سیدنا باقرؒ اور سیدنا جعفر صادقؒ دونوں کا یہی مؤقف ہے کہ حضور اکرمﷺ کی چار بیٹیاں ہیں۔ لہٰذاحُب اہلِ بیتؓ کے نعرے کے ساتھ ساتھ اہلِ بیتؓ کے مؤقف اور فتوے کو بھی تسلیم کرنا چاہیئے۔
سیدہ رقیہؓ بنتِ رسول اللہﷺ کی بیماری کی وجہ سے سیدنا عثمانؓ غزوہِ بدر میں شریک نہ ہوئے لیکن حضورﷺ نے انہیں بدر کے اجر وثواب میں شریک فرما لیا تھا۔
(التنبہ والا شراف: صفحہ، 205، اعلام الوریٰ: صفحہ، 148)
سیدنا عثمانِ غنیؓ قرابت کے اعتبار سے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی نسبتﷺ کے زیادہ قریب ہیں پھر انہوں نے دامادِ رسول ہونے کے حوالے سے وہ مرتبہ حاصل کیا جو سیدنا ابوبکرؓ . سیدنا عمرؓ کو نہ مل سکا۔ سیدہ رقیہؓ و سیدہ امِ کلثومؓ سے شادی کی جو مشہور روایت کے مطابق حضورﷺ کی صاحبزادیاں ہیں پہلے سیدہ رقیہؓ سے شادی فرمائی ، ان کے انتقال کے بعد سیدہ امِ کلثومؓ سے ان کا نکاح ہوا۔ 
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 716، فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 519)
سیدہ امِ کلثومؓ کا نام شریف آمنہ تھا، سیدہ رقیہؓ کے بعد ان کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے ہوا، لہٰذا سیدنا عثمانؓ کو ذالنورین یعنی دو نوروں والا کہتے ہیں۔ 
(منتخب التواریخ: جلد، 29، شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 460 لابنِ ابی حدید)
 سیدنا باقرؒ و سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں:
نبی پاک کی اولاد سیدنا طاہرؓ و سیدنا قاسمؓ اور سیدہ فاطمہؓ، اور سیدہ امِ کلثومؓ سیدہ رقیہؓ، سیدہ زینبؓ سبہی سیدہ خدیجہؓ سے پیدا ہوئی۔
(منتہی الآمال: جلد، 1 صفحہ، 125 فصل ہشتم، باب اول، مروج الذہب: جلد، 2 صفحہ، 291 ،قرب الاسناد: صفحہ، 8 ،خصاص لابن بابویہ جلد، 2 صفحہ، 37)
حضورﷺنے فرمایا: بے شک سیدہ خدیجہؓ نے میری پشت سے دو بیٹے جنے، سیدنا طاہرؓ جس کا نام عبداللہ ہے اور مطہرہے اور میری پشت سے سیدنا قاسمؓ جنا اور سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ رقیہؓ اور سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ زینبؓ کو۔(خصال: جلد، 2 صفحہ، 27 لابنِ بابویہ)
قاعدہ: حضورﷺ کی اولاد امجاد کے بارے میں مزید حوالہ جات درج زیل ہیں:
(اصول کافی: جلد، 2 صفحہ، 435، فروع کافی: جلد، 2 صفحہ، 156 جلد، 2صفحہ، 6، تہذیب الاحکام: جلد، 8 صفحہ، 161، الاستبصار: جلد، 1 صفحہ، 245، تلخیص الشافی: جلد، 4 صفحہ، 54 بحار الانوار: جلد، 22 صفحہ، 166، حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 107 باب 51 پنجاہ ویکم، مراُۃ العقول: جلد، 5 صفحہ، 180، ناسخ التواریخ: جلد، 1 صفحہ، 164 انوارِ نعمانیہ: جلد، 1 صفحہ، 366، تحفۃ العوام: جلد، 17 صفحہ، 113، منتخب التواریخ: جلد، 1 صفحہ، 24، مروج الذہب: جلد، 2 صفحہ، 291، نہج البلاغہ: صفحہ، 220، خطبہ نمبر، 164، شرح نہج البلاغہ: جلد، 3 صفحہ، 460 لابنِ ابی حدید)
سیدنا امیرِ معاویہؓ:
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے خلاف نہایت ہی نامناسب انداز اختیار کیا جاتا ہے جب کہ درج ذیل شیعی روایات پر غور و فکرکرنے سے آپؓ کی شان و فضیلت روز روشن کی طرح واضح دکھائی دیتی ہے مثلاؐ: سیدنا حسنؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ حق میں ان لوگوں سے بہتر ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم تیرے شیعہ ہیں مگر انہوں نے مجھے مارڈالنے کا ارادہ کیا، میرا اثاثہ لوٹ لیا اور میرا مال چھین لیا خدا کی قسم! اگر میں سیدنا امیرِ معاویہؓ سے عہد کر لوں جس سے میرا خون بچ جائے اور میرے گھر والے لوگ امن حاصل کرلیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ شیعہ مجھے مار ڈالیں اور میرا گھرانہ برباد ہو جائے، خدا کی قسم! اگر میں سیدنا امیرِ معاویہؓ سے جنگ کروں تو یہی شیعہ میری گردن دبوچ کر مجھے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے سپرد کر دیں۔ 
(ناسخ التواریخ: جلد، 1 صفحہ، 213 احتجاج طبرسی: جلد، 2 صفحہ، 10)
سیدنا حسنؓ نے فرمایا: تحقیق ہم بیعت کر چکے اور باہمی عہد کر چکے۔ لہٰذا ہمارے اس بیعت توڑنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
(الاخبارالطوال: صفحہ، 220)
سیدنا حسینؓ نے فرمایا:
میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں وہ عہد توڑوں جو میرے بھائی سیدنا حسنؓ نے آپؓ (سیدنا امیرِ معاویہؓ) سے کیا تھا۔
 (مقتل ابی مخنف: صفحہ، 6)
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: حالانکہ یہ بات ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک ہے، رسول ایک ہے، دعوت اسلام ایک ہے ہم خدا پر ایمان لانے، اس کے رسول کی تصدیق کرنے میں ان پر کسی فضیلت کے خواہاں نہیں، نہ وہ ہم پر فضل و زیادتی کے طلبگار ہیں، ہماری حالتیں بالکل یکساں ہیں۔ 
(نیرنگ فصاحت ترجمہ نہج البلاغہ: صفحہ، 363)
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں:
نہ تو ہم ان (سیدنا امیرِ معاویہؓ) سے اس لئے لڑے کہ وہ ہمیں کافر کہتے تھے اور نہ ہم ان سے اس لئے لڑے کہ ہم ان کو کافر سمجھتے ہیں بلکہ (ایک بات تھی جس میں) ہم سمجھتے تھے کہ ہم حق پر ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں۔
(قرب الاسناد: صفحہ، 45)
آپ نے اپنے تمام حکام کو ایک "وضاحت نامہ" لکھ کر بھیجا کہ یہ بات ظاہر ہے کہ ہمارا رب ایک ہے۔ نبی ایک ہے، دعوت اسلام ایک ہے، نہ ہم اللہ پر ایمان لانے اور رسول کی تصدیق کرنے میں ان سے کسی بڑائی کے دعویدار ہیں اور نہ ہی اس معاملہ میں وہ ہم پر کچھ بڑائی جتاتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بالکل ایک جیسا ہے اور اصل اختلاف تو صرف"خونِ سیدنا عثمانؓ" کے متعلق پیدا ہوا ہے (اور ہمارا مؤقف ہے کہ) ہم اس سے بری ہیں۔ 
(نہج البلاغہ: صفحہ، 228، مترجم)
سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی نہ صرف یہ کہ خود بیعت کی بلکہ اپنے چھوٹے بھائی سیدنا حسینؓ کو بھی حکم فرمایا کہ اے حسینؓ! اٹھو اور ان کی بیعت کرو، بے شک وہ میرا امام اور میرا امیر ہے تو سیدنا حسینؓ اور سیدنا قیسؓ نے بھی بیعت کر لی۔(رجال کشی: جلد، 2 صفحہ، 325 جلاء العیون: صفحہ، 260)
سیدنا ابوبکرہؓ سے روایت ہے کہ اس دوران کہ نبیﷺ‎ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک سیدنا حسنؓ آپﷺ‎ کے پاس منبر پر چڑھ گئے تو آپﷺ‎ نے انہیں سینے سے لگایا اور فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اوراللہ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کر دے گا۔
(کشف الغمہ: صفحہ، 546 مطبوعہ تبریز)
یہاں یہ بھی جان لیں کہ یہ دونوں گروہ کون سے تھے؟ جن کے درمیان سیدنا حسنؓ نے صلح کرائی اور جنہیں مسلمان کہا گیا ہے؟ ایک گروہ سیدنا علیؓ کا اور دوسرا سیدنا امیرِ معاویہؓ کا تھا سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت کر کے دونوں میں صلح کرا دی۔
مزید کئی روایت میں ذکر ہے کہ سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت کی تھی ملاحظہ ہو! 
(مروج الذہب: جلد، 3 صفحہ، 7 بیروت، احتجاج طبرسی: جلد، 2 صفحہ، 9 نجف اشرف جدید، مقتل ابی مخف: جلد، 3 صفحہ، 26 مکتبہ حیدریہ، نجف اشرف، کشف الغمہ: جلد، 1 صفحہ، 571، تبریز، الاخبار الطوال: صفحہ، 220 تذکرہ زیادبیروت)
سیدنا باقرؒ فرماتے ہیں:
سیدنا علیؓ جنگِ جمل میں شریک کسی کو بھی مشرک اور منافق نہ سمجھتے تھے۔
 (قرب الاسناد: جلد، 1 صفحہ، 45)
لیکن آج کے شیعانِ علی کہلانے والے سیدنا علیؓ کے موقف کے برخلاف جنگِ جمل میں شریک ہونے والوں پر فتویٰ لگا کر بغضِ علی کا ثبوت کیوں دیتے ہیں؟
باغِ فدک:
شیعہ حضرات کی طرف سے اس مسئلہ کو خوب اچھالا جاتا ہے اور جان بوجھ کرغلط رنگ دیتے ہوئے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو مطعون کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سیدہ فاطمہؓ کو ان کا حق نہ دیا، جس کی وجہ سے وہ ناراض ہوگئیں اور انہیں صدمہ ہوا لیکن حقیقت کیا ہے؟ وہ سطور ذیل ہیں ملاحظہ ہو!
سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ:
حضورﷺ نے فرمایا: علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء درہم و دینار کی وارثت نہیں چھوڑتے بلکہ وہ اپنی احادیث اور علم و حکمت کی باتیں چھوڑتے ہیں، پس جس نے ان احادیث سے کچھ لے لیا اس نے کافی نصیب پالیا، پس تم اس پر نظر رکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو یہ علم ہم اہل بیتؓ کا ہے کیونکہ جو علم پیغمبر نے امت کے لیے چھوڑا ہے اس کے وارث اہل بیتِ رسول ہیں جو عادل ہیں اور جو غالین کی تحریف اور اہلِ باطل کے تغیرات اور جاہلوں کی تاویلوں کو رد کرتے ہیں۔ 
(کتاب الشافی ترجمہ اصول کافی: جلد، 1صفحہ، 35 اصول کافی مع شرح صافی: جلد، 1 صفحہ، 83)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
عالم کی فضیلت بے علم عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کی چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر، کیونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور بے شک انبیاء اپنی وراثت درہم و دینار نہیں بلکہ علم چھوڑتے ہیں۔ سو جو شخص اس علم میں سے حصہ لیتا ہے وہ بہت بڑی چیز لیتا ہے۔
( اصول کافی مع شرح صافی: جلد، 1 صفحہ، 87)
سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا کہ رسول اللہﷺ فدک سے اپنی خوراک لے لیا کرتے تھے اور باقی ماندہ تقسیم فرما دیا کرتے تھے اور فی سبیل اللہ سواریاں بھی لے کر دیا کرتے تھے میں اللہ کی قسم کھا کر آپؓ سے اقرار کرتا ہوں کہ میں فدک کی آمدنی اسی طرح صرف کروں گا جس طرح حضورﷺ کیا کرتے تھے تو سیدہ فاطمہؓ اس پر راضی ہوگئیں۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 80 لابنِ ابی حدید، شرح نہج البلاغہ: جلد، 5 صفحہ، 107 لابنِ میشم)
ثابت ہوا کہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر راضی تھیں۔ لیکن ان کی محبت کا دم بھرنے والے نجانے آج بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کیوں ناراض ہیں؟ معلوم ہوتا ہے ان کا سیدہ فاطمہؓ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ اور یہ معاملہ "مدعی سست گواہ چست" والا ہے۔
ابوعقیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا باقرؒ سے دریافت کیا کہ میری جان آپؒ پر قربان، کیا سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ نے تمہارے حقوق کے بارے میں کچھ ظلم کیا یا تمہارے حق دبائے؟ فرمایا نہیں، اس اللہ کی قسم! جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تا کہ تمام جہانوں کے لیے وہ نذیر بن جائے، ہمارے حقوق میں سے ایک رائی کے دانہ برابر بھی انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، میں نے عرض کیا آپؒ پر قربان جاؤں، کیا میں ان سے محبت رکھوں؟ فرمایا، ہاں! تو برباد ہو جائے انہیں دونوں جہانوں میں دوست رکھ اور اگر اس وجہ سے تجھے کوئی نقصان ہو تو میرے ذمے ہے۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 82 لابنِ ابی حدید)
محمد بن اسحاق نے سیدنا ابو جعفر محمد بن علیؓ سے پوچھا کہ جب سیدنا علیؓ عراق کے والی ہوئے تو اس وقت لوگوں کے تمام امور ان کے زیر تصرف تھے اس وقت انہوں نے ذوی القربی کے حصہ کا کیا بنایا؟ فرمایا" ان کے بارے میں سیدنا علیؓ نے وہی طریقہ اپنایا جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کا تھا۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 86 لابنِ ابی حدید)
جب معاملہ خلافت سیدنا علیؓ کے ہاتھ میں آیا تو آپؓ سے فدک کے لٹائے جانے کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! مجھے اس چیز کے لوٹانے سے شرم آتی ہے کس کو سیدنا ابوبکرؓ نے انہیں لوٹایا اور سیدنا عمرؓ نے بھی ان کی پیروی کی۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 94 لابنِ ابی حدید)
سوچیئے! اگر سیدنا صدیقِ اکبر کا طریقہ کار غلط تھا تو سیدنا علیؓ نے اسے کیوں اپنایا اور اگر انہوں نے سیدہ فاطمہؓ کا حق نہیں دیا تھا تو سیدنا علیؓ نے وہ حق اپنے بیٹوں کو کیوں نہ دیا؟۔
سیدنا ابوبکرؓ پر تنقید کرنے والے یہاں کیوں خاموش تماشی بنے ہوئے ہیں؟ یا وہ مان لیں کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کا طریقہ کار برحق تھا۔
سیدنا زید بن علیؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر باغِ فدک کا یہی معاملہ میرے سپرد کر دیا جائے اور مجھے فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو میں وہی فیصلہ کروں گا جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کیا تھا۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 82 لابن ابی حدید)
ملاحظہ فرمائیں! جب اہلِ بیتؓ کا نام لے کر مخالفین نے مسئلہ باغِ فدک کے متعلق سیدنا صدیق اکبرؓ کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے جبکہ اہل بیتؓ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سیدنا ابوبکر کے طریقہ کار کو سلام محبت پیش کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کوہدایت عطا فرمائے۔ آمین
متعہ:
شیعہ حضرات متعہ کو جائز قرار دیتے ہیں بلکہ اس کی بڑی فضیلتیں بیان کرتے ہیں جبکہ اہلِ بیتؓ اسے حرام اور ناپسند کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو!
سیدنا جعفر صادقؒ نے متعہ کے متعلق فرمایا:
اس (متعہ) کوچھوڑ دو، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ایک شخص عورت کی شرمگاہ کو دیکھے پھر اس کا تذکرہ اپنے بھائیوں اور احباب سے کرے۔
(فروع کافی: جلد، 5 صفحہ، 453)
سیدنا زید بن علیؒ اپنے جدِ امجد سیدنا علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا رسول اللہﷺ نے گھریلو پالتو گدھوں کا گوشت کھانا اور نکاح متعہ حرام کردیا ہے۔
(الاستبصار: جلد، 3 صفحہ، 146، تہذیب الاحکام: جلد، 7 صفحہ، 651)
لوہے کے کڑے وغیرہ پہننا:
شیعہ حضرات لوہے کے کڑے بڑے شوق سے پہنتے ہیں اور اسے اہلِ بیتؓ کی محبت قرار دیتے ہیں۔ جبکہ سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں:
لوہے کی کوئی چیز پہن کر نماز جائز نہیں ہوتی کیونکہ وہ نجس اور بری چیز سے مسخ کی ہوتی ہے۔
(فروع کافی: جلد، 3 صفحہ، 400، تہذیب الاحکام: جلد، 2 صفحہ، 227، کتاب العلل الشرئع: صفحہ، 348)
حضورﷺ نے فرمایا:
لوہے کی انگوٹھی پہن کر کوئی نماز نہ پڑھے، جس نے لوہے کی انگوٹھی پہنی اللہ اس کے ہاتھ کو پاک نہیں کرےگا۔ 
(فروع کافی: جلد، 3 صفحہ، 404، تہذیب الاحکام: جلد، 2 صفحہ، 227، من لایحضرہ الفقیہ: صفحہ، 164)
تعزیہ نکالنا:
آج کل اہلِ بیتؓ کی محبت اور نشانی تعزیہ نکالنے کا بھی بنالیا گیا ہے، حالانکہ سیدنا علیؓ نے فرمایا:
جو شخص قبر پھر سے بنائے یا اس کی تشبیہ و شکل (تعزیہ) بنائے وہ اسلام سے خارج ہے۔
(من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 120)
ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
عورت کی اطاعت کرنے والے اسے تعزیہ میں بھیجنے والے کو سر کے بل جہنم میں ڈالتے ہیں۔ 
(حلیتہ المتقین: صفحہ، 46)
سیاہ لباس:
شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہوئے سیاہ لباس بھی پہنا جاتا ہے جب کہ شیعہ حضرات کی کتابوں میں اس کے متعلق بڑی وعید آئی ہے۔ ملاحظہ ہو!
سیدنا علیؓ سے روایت ہے حضورﷺ نے فرمایا:
میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنو، حضور کے دشمن کا لباس سیاہ ہے۔ 
(عیون الاخبار: جلد، 2 صفحہ، 22)
سیدنا علیؓ اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہوئے فرماتے کہ سیاہ لباس نہ پہنا کرو، کیونکہ سیاہ لباس فرعون کا لباس ہے۔ 
(من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 163)
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا:
سیاہ لباس جہنمیوں کا لباس ہے۔ 
(فروع کافی: جلد، 2 صفحہ، 449، من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 163)
پھر فرمایا: بےشک سیاہ کپڑا دوزخیوں کا لباس ہے۔
 (من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 162 تہذیب الاحکام: جلد، 2 صفحہ، 213، حلیتہ المتقین: صفحہ، 8)
حضورﷺ سیاہ لباس ناپسند فرماتے۔ 
(من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 163 تہذیب الاحکام: جلد، 2 صفحہ، 213، حلیتہ المتقین: صفحہ، 9)
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا:
سیاہ لباس دوذخ والوں کا لباس ہے۔ 
(من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 163، کتاب العلل الشرائع: صفحہ، 347)
سیاہ جھنڈا:
اہلِ تشیع سیاہ جھنڈے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے مکانوں، دکانوں اور دیگر مقامات پر نصب کرتے ہیں اور اس پر بڑا فخر کیا جاتا ہے۔ جب کہ ان کے نزدیک اس کی حقیقت کیا ہے ملاحظہ ہو!
حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
دوسرا جھنڈا میرے پاس آئے گا، پہلے جھنڈے سے زیادہ سیاہ ہوگا اور بہت کالا ہوگا اور پہلوں کی طرح مجھے جواب دیں گے پھر میں کہوں گا کہ میں تم میں دوبزرگ چیزیں چھوڑ آیا تم نے ان سے کیا برتاؤ کیا، وہ کہیں گے کہ خدا کی کتاب کی ہم نے مخالفت کی اور تیری عترت کی ہم نے امداد نہ کی اور ان کو ہم نے شہید کیا اور برباد کیا، میں کہوں گا مجھ سے دور ہوجاؤ تو وہ سیاہ رو حوض کوثر سے پیاسے چلے جائیں گے۔ 
(جلاء العیون: صفحہ، 321)
تبرا کی حرمت:
"حبِ علی" کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی زبانوں کو تبرا سے ناپاک کیا جاتا ہے اور خلفائے ثلاثہؓ کی حرمت کو پامال، لیکن کیا حب علی کے ان دعویداروں کو خبرنہیں کہ اسد اللہ الغالب سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جان کے دشمن کو بھی کبھی گالی نہیں دی اور اپنی ذاتی رنجش کی بنیاد پر کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا، بلکہ اپنے ماننے والوں کو اس بات سے منع فرمایا: انہی کا ارشاد ہے میں تمہارے لیے اس بات کو براخیال کرتا ہوں کہ تم گالی دینے والے بنو۔ 
(نہج البلاغہ: صفحہ، 446)
سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے:
میں تمہیں اصحاب رسولﷺ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ کسی کو برا نہ کہو، کیونکہ انہوں نے آپ کے بعد کوئی کام خلاف اسلام نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کرنے والوں کے دوست بنایا اور پناہ دی، رسول اللہﷺ نے ان کے متعلق یہی وصیحت فرمائی ہے۔
(الامالی لابی جعفرالطوسی: جلد، 2 صفحہ، 136، بحار الانوار: جلد، 22 صفحہ، 206)
ماتم:
اہلِ تشیع بڑی دھوم دھام سے ماتم کرتے اور اس کا حکم دیتے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو برا سمجھتے ہیں جبکہ اہلِ بیتؓ اس ماتم کے مخالف ہیں اور اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو!
شیعوں کی تفسیر قمی میں ہے کہ سیدہ امِ حکیم بنتِ حارث بن عبداللہؓ نے حضورﷺ سے پوچھا یارسول اللہﷺ‎ معروف کے بارے میں ہمیں کیا حکم فرمایا ہے کہ ہم آپ کی نافرمانی نہ کریں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب ارشاد فرمایا:
ربِ تعالیٰ کے فرمان "معروف" کے یہ معنیٰ ہیں کہ تم اپنے منہ نہ نوچو، رخساروں پر طمانچے نہ مارو، بال نہ بکھیرو، کرتے چاک نہ کرو، کپڑوں کو سیاہ نہ بناؤ، ہائے ہائے اور بربادی بربادی نہ چیخو، قبر کے پاس نہ کھڑی ہو۔ تو ان شرطوں کے ساتھ حضورﷺ نے عورتوں کی بیعت لی۔ 
(تفسیر قمی: جلد، 2 صفحہ، 364، اصول کافی: جلد، 5 صفحہ، 527، تفسیر صافی: صفحہ، 531، حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 460 مراۃالعقول: جلد، 1 صفحہ، 514)
تفسیر مجمع البیان میں ہے"ولا یعصینک فی معروف" سے مراد یہ ہے کہ نوحہ سے باز رہیں، کپڑے پھاڑنے، بال اور منہ نوچنے اور مرنے والوں پر واویلا کرنے سے پرہیز کریں۔ 
(تفسیرمجمع البیان: جلد، 9 صفحہ، 276)
فروعِ کافی میں بھی سیدہ امِ حکیم بنتِ حارث کی روایت کچھ زیادتی کے ساتھ تحریر ہے۔ ملاحظہ ہو! (فروع الکافی للکینی: جلد، 2 صفحہ، 228 اسے صاحب مراۃ العقول نے موثق اور حسن لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو! مراۃ العقول: جلد، 1 صفحہ، 514)
رسول اکرمﷺ کے مواجہہ شریفہ میں حاضری کا ادب شیعی کتاب میں اس طرح لکھا ہے رسول اکرمﷺ نے فرمایا تم لوگ فوج در فوج اس گھر میں آنا، مجھ پر صلاۃ بھیجنا اور سلام کرنا (لیکن) رو کر فریاد کرنا اور واویلا کرکے مجھے اذیت نہ دینا۔ 
(جلاء العیون: صفحہ، 69)
ایک روایت میں ہے: رسول اللہﷺ نے منع فرمایا مصیبت کے وقت با آواز رونے، نوحہ کرنے، اور جنازہ کے پیچھے عورتوں کے جانے سے۔ 
(حلیۃ المتقین: صفحہ، 188)
حلیتہ المتقین میں دوسری جگہ لکھا ہے حضورﷺ نے فرمایا عورت کی اطاعت کرنے والا اسے تعزیہ میں بھیجنے والے کو سر کے بل جہنم میں ڈالتے ہیں۔
(حلیتہ المتقین: صفحہ، 46)
طائفہ امامیہ کے شیخ صدوق نے نقل کیا کہ رسول اللہﷺ نے مصائب پر با آواز بلند رونے، نوحہ کرنے اور سننے سے منع فرمایا۔ 
(کتاب اللامالی: صفحہ، 254 حلیۃ المتقین: صفحہ، 189 من لایحضرہ الفقیہ: جلد، 2 صفحہ، 356)
مجمع المعارف میں ہے: نوحہ کرنے والا روزِ قیامت، کتوں کی طرح نوحہ کناں ہوگا۔ 
(مجمع المعرف: صفحہ، 162)
حیات القلوب میں ہے: سب سے پہلا نوحہ گانے والا شیطان تھا (جب اسے جنت سے نکالا گیا)
(حیات القلوب: جلد، 1 صفحہ، 73)
اولادِ آدم میں قابیل پہلا شخص ہے جس نے واویلا کیا، اور ملعون ہوا۔ 
(نفس الرحمٰن: صفحہ، 124 محمد تقی النوری، الطبرسی)
نہج البلاغہ میں ہے:
صبر مصیبت کے اندازے سے اترتا ہے، جس نے مصیبت کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مارا، اس کے اعمال برباد ہوئے۔ 
(نہج البلاغہ: صفحہ، 158 مترجمہ: صفحہ، 897)
ایک روایت میں ہے: رسول اکرمﷺ نے سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا: 
اذا انامت فلا تخشیٰ علیٰ وجھا ولا ترخی علیٰ شعرا ولا تنادی بلویل ولا تقیمی علی نائحتہ۔
(فروع کافی: جلد، 2 صفحہ، 228، جلاءالعیون: صفحہ، 65)
ترجمہ: جب میں فوت ہو جاؤں تو منہ نہ چھیلنا، بال نہ نوچنا، واویلا نہ مچانا اور نوحہ گر عورتوں کو نہ بلانا۔
ملا باقر مجلسی نے لکھا ہے کہ:
حضور ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا علیؓ نے حضور اکرمﷺ کے روئے مبارک سے کپڑا ہٹایا اور عرض گزار ہوئے، میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں، آپﷺ زندگی بھر اور بعدِ وفات بھی طیب ہیں، آپﷺ کی وفات سے وہ شئی بند ہو گئی جو کسی پیغمبر کے انتقال سے بند نہ ہوتی تھی۔ یعنی نبوت اور وحی، آپﷺ کی مصیبت اتنی عظیم ہے جس نے ہمیں دوسروں کی مصیبت سے مطمئن کر دیا۔ آپﷺ کی وفات کی مصیبت ایک عام مصیبت ہے کہ سب لوگ یکساں دلگیر ہیں۔
و اگرنہ آں بودکہ امر کر دی بصبر کر دن ونہی نمودی ازجزع نمودن بر آئینہ آبہائے سر خود رادر مصیبت تو فرومی ریختم وبر آئینہ درد مصیبت ترا برگز دوانمی کردم۔
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 363)
اور اگر آپ صبر کا حکم اور جزع سے منع نہ فرماتے تو اس مصیبت پر ہم تمام سر کا پانی بہا دیتے اور آپﷺ کی اس مصیبت کے درد کی کوئی دوانہ کرتے۔
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا:
لیس لاحدکم ان یحدا کثرمن ثلٰثۃ ایام الا المراۃ علیٰ زوجھا حتیٰ تقضی عدتھا۔ 
(من لا یحضرہ الفقیہ: صفحہ، 36)
ترجمہ: کس کو جائز نہیں تین روز سے زائد سوگ کرے، مگر بیوی کو اپنے خاوند کی موت پر (چار ماہ اور دس دن کی) عدت تک اجازت ہے۔
نوٹ: اس مفہوم کی روایت تہذیب اور ومسائل الشیعہ میں بھی پاتی جاتی ہیں ملاحظہ ہو! 
(التہذیب: صفحہ، 238، وسائل الشیعہ: جلد، 3 صفحہ، 173)
حیات القلوب میں ہے:
حضرت رسول فرمود اے فاطمہؓ توکل کن برخدا صبر کن چنانچہ صبر کر دند پدرانِ توکہ پیغمبراں بودند و مادران توکہ زنہائے پیغمبراں بودند۔ 
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 252)
ترجمہ: حضرت رسول اللہﷺ نے فرمایا اے فاطمہؓ! خدا پر توکل کر اور صبر کر، تیرے آباء جو کہ پیغمبر تھے صبر کرتے رہے اور تیری مائیں، جو پیغمبرں کی بیویاں تھیں صبر کرتی رہیں۔
اسی کتاب میں تھوڑا آگے منقول ہے:
بداں اے فاطمہؓ! کہ برائے پیغمبر گریباں نمی باید درید و رانمی باید خراشید دواو ایلا نمی باید گفت۔ 
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 253، کتاب العلل والشرائع: جلد، 2 صفحہ، 110)
ترجمہ: اے فاطمہؓ! جان لے کہ پیغمبر کے لیے گریبان نہیں چاک کرنا چاہیے، اور چہرہ پرخراش نہیں لگانا چاہیے اور واویلا نہیں کرنا چاہیے۔
نیز اسی کتاب میں ہے:
ابنِ بابویہ اپنی معتبر سند سے سیدنا باقرؒ سے روایت کرتے ہیں، حضرت رسولِ خداﷺ نے وقتِ وفات سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا: اے فاطمہؓ جب میں وفات کر جاؤں تو میرے لیے چہرہ پر خراش نہ ڈالنا، بال نہ بکھیرنا، واویلا نہ کرنا، اور مجھ پر نوحہ نہ کرنا، اور نوحہ گروں کو نہ بلانا۔ 
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 254)
سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا، اس کے اجر و ثواب کو ضائع کردیتا ہے۔ 
(فروع کافی جلد، 3 صفحہ، 224)
سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب کی شہادت کے وقت سیدنا علیؓ نے اپنی زوجہ مطہرہ سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا:
کسی کی موت پر اور کسی کے دورانِ جنگ شہید ہو جانے پر غم کھاتے ہوئے واویلا کے ساتھ ماتم نہ کرنا۔ (من لا یحضرہ الفقیہ: جلد، 1 صفحہ، 112)
حضورﷺ نے فرمایا: ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا۔
(مجمع المعارف برحشیہ حلیتہ المتقین: صفحہ، 162)
حضورﷺ نے فرمایا: میں نے ایک عورت کتے کی شکل کی دیکھی، فرشتے اس کی وبر میں آگ جھونک رہے تھے تو سیدہ فاطمہؓ نے پوچھا اے میرے پدر بزرگوار اس کا دنیا میں کیا عمل و عادت تھی آپﷺ نے فرمایا وہ نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی۔ 
(حیات القلوب: جلد، 2 صفحہ، 543، عیون اخبار الرضا: جلد، 2 صفحہ، 11 انور نعمانیہ: جلد، 1 صفحہ، 216)
سیدنا جابرؓ نے کہا ہے کہ میں نے سیدنا محمد باقرؒ سے پوچھا کہ جزع کیا ہے؟ آپنے فرمایا واویلا کے ساتھ زور سے چلانا، بلند آواز سے چینخنا، چہرے اور سینے پر طمانچے مارنا اور پیشانی سے بال نوچنا سخت ترین جزع ہے۔ 
(فروع کافی: جلد، 3 صفحہ، 222)
رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو سیدنا علیؓ نے فرمایا:
اگر آپﷺ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپﷺ کا ماتم کر کے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے۔ 
(شرح نہج البلاغہ: جلد، 4 صفحہ، 409 لابنِ میشم)
سیدنا حسینؓ نے میدانِ کربلا میں اپنی ہمیشرہ سیدہ زینبؓ کو وصیحت فرمائی اے بہن، میں تجھے قسم دیتا ہوں تو میری قسم پوری کرنا کہ جب میری وفات ہو جائے تو مجھ پر گریبان چاک نہ کرنا، نہ مجھ پر چہرہ نوچنا اور نہ مجھ پر واویلا اور ہائے ہلاکت ہائے ہلاکت کے الفاظ پکارنا۔ 
(الارشاد لمفید: صفحہ، 232 اعلام الوریٰ: صفحہ، 236، جلاء العیون: صفحہ، 387 ناسخ التواریخ: جلد، 6 صفحہ، 253، تاریخ یعقوبی: جلد، 2 صفحہ، 244، اخبارِ ماتم: صفحہ، 400)
سیدہ فاطمہؓ فرماتی ہیں خدا کی قسم! اگر یہ (ماتم) گناہ نہ ہوتا تو میں اپنے سرکے بال کھول کر چلاتی اور آپ کی بارگاہ میں فریاد کرتی۔ 
(فروع کافی، کتاب الروضہ: صفحہ، 238)
سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا ہرگز تم میں سے کوئی شخص میری وفات پر رخسار پر طمانچے نہ مارے اور ہرگز مجھ پر گریبان چاک نہ کرے۔ 
(دعائم السلام: صفحہ، 130)
اہلِ کوفہ کاروان اہلِ بیتؓ کی بے سروسامانی دیکھ کر زور زور سے رونے اور ماتم کرنے لگے تو سیدہ زینبؓ نے فرمایا حمد و صلوٰۃ کے بعد اے بے وفا اور دغا باز کوفیو! اب تم روتے اور ماتم کرتے ہو، خدا تمہیں ہمیشہ رلائے اور تمہارا رونا اور ماتم کرنا کبھی موقوف نہ ہو، تم بہت زیادہ روؤ اور بہت تھوڑا ہنسو، تمہاری مثال اس عورت کی سی ہے جو کاتے ہوئے دھاگے کو مضبوط ہو جانے کے بعد جھٹکے دے کر توڑ ڈالے، تم نے اپنے ایمان کو دھوکے اور فریب کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، تمہاری مثال اس سبزے کی سی ہے جو نجاست کی ڈھیری پر لگا ہوا ہو، تم میں سوائے خود ستائی، شیخی، عیب جوئی، تہمت سرائی اور لونڈیوں کی طرح خوشامد اورچاپلوسی کے کچھ نہیں، بلاشبہ تم بہت برے کام کے مرتکب ہوئے، تم نے ہمیشہ کے لیے ذلت حاصل کی اور عیب کمایا اور جہنم کے سزا دار ہوئے خدا تعالیٰ تم پر غضب نازل فرمائے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل فرمائے۔ 
(جلاءالعیون: جلد، 2 صفحہ، 223)
سیدہ امِ کلثومؓ نے فرمایا: (اے ہمارے شہیدوں کے قاتلو) یعنی تمہیں جہنم کی بشارت ہو، تم نے ہمارے بھائی کو شہید کر دیا، تم پر تمہاری مائیں روتی رہیں، تم نے وہ خون بہایا جو اللہ، قرآن اور محمدﷺ نے تم پر حرام کر دیا تھا۔ 
(مقتل ابی مخنف: صفحہ، 83)
وصلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہ محمد وآلہ واصحابہ و ازواجہ واھل بیتہ وسائرامتہ اجمعین۔