صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جاہل اور ظالم کی رافضی تقس
امام ابنِ تیمیہؒصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جاہل اور ظالم کی رافضی تقسیم :
[اعتراض]: ....شیعہ مصنف کا کہنا ہے کہ: ’’ بعض صحابہ پر حق مشتبہ رہا اور طلب دنیا کے نقطہ خیال سے بیعت کر لی تھی ۔‘‘
۲۔ بعض اہل سنت شبہات کا شکار ہو کر دنیا دار لوگوں کے پیچھے چلنے لگے تھے۔ کوتاہ بینی کی بنا پر انہیں حق تک رسائی حاصل نہ ہو سکی، اور گرفت الٰہی کے مستوجب ٹھہرے۔اس لیے کہ انہوں نے غور وفکر نہ کرکے یہ حق غیر مستحق کے سپرد کردیا تھا۔
۳۔ بعض لوگ کوتاہ فہمی کی بنا پر مقلد محض ہوکر رہ گئے اور لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر یہ سمجھے کہ شاید کثرت افراد حق و صداقت کی علامت ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ انہی کی بیعت کر بیٹھے اور اس آیت کو یکسر نظر انداز کر دیا:﴿ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ ﴾ (ص۲۴)
’’وہ (حق پرست) کم ہی ہوتے ہیں ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ﴾ [سبا ۱۳]
’’’ اور میرے بندوں میں سے بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہیں ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:.... ان سے کہا جائے گا: اس مفتری وکذاب نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تین گروہوں میں منقسم کیا ہے:
۱۔ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم دنیا کے طلب گار تھے۔
۲۔ ایک گروہ کے لوگ کوتاہ بین تھے اور دور اندیشی سے محروم تھے۔
۳۔ صحابہ کی تیسری قسم عاجز اور بے بس تھی۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کے تین گروہوں میں تقسیم ہونے کی وجہ و محرکات و اسباب بقول شیعہ مصنف مندرجہ ذیل تھے:
۱۔ قصد و نیت کی خرابی۔
۲۔ جہالت۔پھر جہالت کے دو اسباب ہیں :
۱۔کوتاہ بینی ، ۳۔ عجز و قصور۔
٭....پھر شیعہ مصنف نے کہا ہے کہ:’’ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیعت کرتے وقت کوتاہ بینی سے کام لیا تھا۔اگر وہ غور و فکر سے کام لیتے تو حق و صداقت کو پہچان لیتے۔اس غور فکر کے ترک کرنے پر ان سے مؤاخذہ ہوگا۔بعض لوگ کوتاہ فہمی کی بنا پر مقلد محض ہوکر رہ گئے اور لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر یہ سمجھے کہ شاید کثرت افراد حق و صداقت کی علامت ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ انہی کی بیعت کر بیٹھے۔‘‘
اس سے شیعہ مصنف کا مقصد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے اسباب کی جانب اشارہ کرنا ہے۔
[جواب] :.... اس شیعہ سے کہا جائے گا کہ :’’یہ صریح قسم کی دروغ گوئی ہے جس میں کوئی اشکال نہیں ۔اور ہر شخص بڑی آسانی سے جھوٹ بول سکتا ہے۔ روافض کی قوم حیرانی و سرگردانی کا شکار رہتی ہے۔ چنانچہ اس افتراء پرداز سے اگر اس کی دلیل طلب کی جائے تو وہ کوئی دلیل پیش نہ کر سکے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بلا دلیل کوئی بات کہنے کو حرام قرار دیا ہے خصوصاً جب کہ حق بیان کردہ بات کے خلاف ہو۔ اگر ہم صحابہ کے حالات سے نابلد ہوتے توبھی بلا ثبوت ان کو بد ارادہ اور جاہل قرار دینا روانہ تھا، قرآن کریم میں ہے:
﴿ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤلًا﴾ (الاسراء ۳۶)
’’جس بات کی آپ خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑیے کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿ ہَآاَنْتُمْ ھٰٓوُلَآئِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَــکُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عَِلْمٌ﴾ (آل عمران۶۶)
’’تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی باتوں میں تکرار کی جن کا تمہیں علم تھا، تو پھر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ۔‘‘
جب ہم جانتے ہیں کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم علم و عقل اور دین و مذہب کے اعتبار سے امت محمدی کے کامل ترین افراد تھے تو پھر اس کے برعکس خیالات کا اظہار کرنا کیونکر روا ہوگا۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’جو کسی کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو وہ اس شخص کے نقش قدم پر چلے جو فوت ہوچکا ہو۔ اس لیے کہ زندہ شخص کے مبتلائے فتنہ ہونے کا خطرہ دامن گیر رہتا ہے۔ اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اس امت میں سب سے افضل ، نیک دل، عمیق العلم اور تکلف و تصنع سے پاک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت و رفاقت اور دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے منتخب کیا تھا۔ لہٰذا ان کی فضیلت کا اعتراف کیجئے، ان کے نقش قدم پر چلئے، دین و مذہب اور اخلاق و عادات میں ان کی پیروی کیجئے، کیونکہ وہ صراط مستقیم پرگامزن تھے۔‘‘ [مشکاۃ۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ(ح:۱۹۳)جامع بیان العلم لابن عبد البر(۲؍۹۷) الھروی (ق:۸۶؍۱)۔]
یہ اثر کئی علماء نے نقل کیا ہے؛ ان میں سے ایک ابن بطہ بھی ہیں جنہوں نے قتادہ سے یہ روایت نقل کی ہے۔
ابن بطہ اور دوسرے کئی علماء نے معروف اسناد کے ساتھ زِر بن حبیش سے روایت کیا ہے؛ وہ کہتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں :
’’اللہکریم نے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے افضل پایا؛ چنانچہ اسے اپنے لیے مخصوص کر لیا۔ پھر بندوں کے دلوں کو دیکھا ؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں کو سب سے افضل پایا اور انہیں اپنے نبی کے وزیر بنا دیا؛ جو اس کے دین کی خاطر لڑتے ہیں ۔ جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جسے وہ برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔‘‘ [مستدرک حاکم(۳؍۷۸۔۷۹) ،مسند احمد(۱؍۳۷۹)وقال الہیثمي : رواہ أحمد و البزار ‘ و الطبراني في الکبیرمحمع الزوائد ۱؍۱۷۷۔]
یہ روایت ابن بطہ نے قتادہ رحمہ اللہ سے نقل کی ہے اور دیگر محدثین کے یہاں یہ روایت زربن حبیش سے مروی ہے۔ایک روایت میں ہے کہ اس اثر کے راوی ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں :’’ عاصم بن ابی النجود نے زر بن حبیش سے روایت کیا ہے ‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی صواب دید سے خلیفہ بنایا تھا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول:’’ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں سب سے افضل ، نیک دل، عمیق العلم اور تکلف و تصنع سے پاک تھے۔‘‘ایک جامع کلام ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حسن قصد و نیت اور دلوں کی نیکی کا بیان ہے۔ نیز یہ بھی بیان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کمال معرفت و دقت اورگہرے علم کی نعمت سے سرفراز تھے۔ اور آپ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے : صحابہ کرام بلا علم بات کہنے اور تکلف کرنے سے بہت ہی دور اور پاک تھے۔‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مذکورہ بالا ارشاد اس جاہل مصنف کے ان دعاوی کے عین برعکس ہے کہ حضرات صحابہ طالب دنیا، جاہل اور حق کی تلاش سے قاصر تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کامل العلم اور نیک دل تھے، اور ان کا زمانہ سب زمانوں سے بہتر تھا۔یہ تواترکے ساتھ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بہترین زمانہ وہ ہے جس میں میں مبعوث کیا گیا ہوں ۔پھر اس کے بعد آنے والے ‘ پھر ان کے بعد آنے والے ۔‘‘ [اس کی تخریج گزر چکی ہے ۔]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت وسط کے بہترین لوگوں میں سے ہیں جو کہ سابقہ امتوں پر گواہی دیں گے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اختلاف میں راہ ِ حق کی طرف ہدایت دی۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے ۔ پس یہ جماعت نہ ان لوگوں میں سے تھی جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں او رجن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ؛ اورنہ ہی گمراہ اور جاہلین میں سے تھے۔ جس طرح کہ جاہل شیعہ نے انہیں گمراہوں اور سرکش باغیوں میں تقسیم کیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ کمال علم اور جمال قصد کی نعمت سے مالا مال تھے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس سے یہ لازم آتا کہ نہ ہی یہ امت دوسری امتوں سے بہتر ہے‘اورنہ ہی خود بہترین امت ہے۔ یہ دونوں باتیں کتاب و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں ۔
مزید برآں عقلی قیاس بھی اس چیز پر دلالت کرتا ہے ۔ اس لیے کہ جوکوئی اگر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال پر غورو فکر کرے اور اس کے ساتھ ہی یہود و نصاری ؛ مجوس و مشرکین اور صابئین کے احوال پر بھی نظر فکرو عبرت ڈالے تو اس کے لیے باقی امتوں پر اس امت کی فضیلت علم نافع کے اعتبار سے ؛ عمل صالح کے لحاظ سے دیگر ہر اعتبار سے واضح ہوجائے گی۔ یہ ایک لمبا موضوع ہے جس کی تفصیل بیان کرنے کا موقع یہ نہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت کے کامل ترین لوگ ہیں ۔اس پر کتاب و سنت ‘ اجماع امت اور قیاس سے دلائل موجود ہیں ۔ اسی لیے آپ کو اکابرین امت میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جواپنے آپ او راپنے امثال پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمتوں اور فضیلتوں اور برتری کا اعتراف نہ کرتا ہو۔ اور آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ اس بارے میں جھگڑا کرتے ہیں ۔ جیسے رافضی۔ وہ لوگوں میں سب سے بڑے جاہل ہیں ۔ اسی لیے آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ فقہ و حدیث ‘ زہد وعبادت میں کوئی امام ایسا نہیں ہے جس کی طرف رافضی رجوع کرتے ہوں ۔او رنہ ہی کوئی کامیاب مسلمان جرنیل یا حکمران رافضی ہوا ہے۔ کوئی مسلمان بادشاہ ایسا نہیں گزرا جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو‘ دین اسلام کی نصرت کی ہو‘ اور دین اسلام کو اللہ کی زمین پر نافذ کیا ہو‘ اور اس کا تعلق رافضیوں سے ہو ۔ اور نہ ہی وزراء میں کوئی اچھی سیرت و کردار کا حامل انسان ایسا گزرا ہے جو کہ رافضی ہو۔
آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ رافضہ میں اکثر لوگ یا تو زندیق ‘ منافق اور ملحد ہوتے ہیں ‘ یا پھر پرلے درجے کے جاہل جنہیں نہ ہی منقولات کا کوئی علم ہوتا ہے اور نہ ہی معقولات کا۔یہ لوگ وادیوں اورپہاڑی علاقوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں ۔مسلمانوں پر جبر و ستم کرتے ہیں ۔ اہل علم و دین سے مجلس نہیں کرتے؛ سوائے اس صورت کے کہ کوئی انہی جیسا خواہش پرست ہو جس سے انہیں کچھ امیدیں وابستہ ہوں ۔ یاپھر کسی کیساتھ اس لیے بیٹھتے ہیں کہ وہ ان کے نسب کا ہو؛ اور اس کے ساتھ نسبی تعصب کے لیے بیٹھتے ہیں ؛ جو کہ اہل جاہلیت کا طریقہ ہے۔
جو کوئی اہل علم و دین سے مجلس رکھنے والا مسلمان ہو‘ وہ رافضی نہیں ہوسکتا ۔ شیعہ مصنف کا یہ بیان اس کی جہالت و تشیع کی غمازی کرتا ہے۔ ہم اس سے محفوظ و مصؤن رہنے کے لیے بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہیں ، اس لیے کہ تشیع بد ترین فرقوں مثلاً: نصیریہ، اسماعیلیہ، ملاحدہ، اہل الجیل اور قرامطہ کا ملجا و ماویٰ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فرقے علم سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ ان[کی رگ رگ ] میں کذب ‘ خیانت ؛ وعدہ خلافی اور نفاق کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے :
’’ منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تواس میں خیانت کرے۔‘‘[صحیح مسلم:کتاب الایمان ‘باب منافق کی نشانیوں کابیان؛ح:213]
اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی زیادہ ہیں :
’’ اور اگرچہ وہ روزہ رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔‘‘
اہل قبلہ میں سے یہ تین نشانیاں جس گروہ میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں ‘ وہ رافضہ کا گروہ ہے۔
مزید برآں اس جھوٹے کذاب مصنف سے کہا جائے گا: ’’ تصور کیجیے کہ جن لوگوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیعت کی ؛ تووہ تمہارے قول کے مطابق یا تو دنیا کے طلب گار تھے؛ یا پھر جاہل ۔اور ان کے بعد کی صدیوں میں ایسے لوگ بھی آئے جو ان میں سے ہر ایک کی طہارت و ذکاوت کو جانتے تھے۔جیسے حضرت : سعید بن المسیب ؛ حسن البصری ؛ عطاء ابن ابی رباح ؛ ابراہیم النخعی؛ علقمہ ؛ اسود ؛ عبیدہ سلیمانی ؛ طاؤوس ؛ مجاہد ؛ سعید بن جبیر ؛ ابو الشعثاء ؛ جابر بن زید؛ علی بن زید؛ علی بن الحسین ؛ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ ؛ عروۃ ابن زبیر؛ قاسم بن محمد بن ابو بکر ؛ ابو بکر بن عبد الرحمن بن الحارث ؛ مطرف بن شخیر ؛ محمد بن واسع ؛حبیب العجمی ؛ مالک بن دینار؛ مکحول؛ حکم بن عتبہ ؛ یزید بن ابی حبیب رحمہم اللہ ؛اور ان کے علاوہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں جن کی صحیح گنتی کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔
پھر ان کے بعد ایوب السختیانی؛ عبد اللہ بن عون؛ یونس بن عبید ؛ جعفر بن محمد ؛ الزہری ؛ عمرو بن دینار؛ یحیی بن سعید الأنصاری ؛ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن ؛ ابو الزناد؛ یحي بن ابی کثیر؛ قتادہ ؛ منصور ابن المعتمر ؛ اعمش؛ حماد بن ابی سلیمان ؛ ہشام الدستوائی ؛ سعید بن ابی عروبہ رحمہم اللہ ۔
پھر ان کے بعد : مالک بن انس؛ حماد بن زید؛ حماد بن سلمہ ؛ لیث بن سعد ؛ اوزاعی؛ ابو حنیفہ ؛ ابن ابی لیلی؛
شریک ؛ ابن ابی ذئب ؛ ابن الماجشون رحمہم اللہ ؛ اور ان کے بعد جیسے : یحی بن سعید القطان ؛ عبد الرحمن بن مہدی ؛
وکیع ابن الجراح؛ عبد الرحمن بن القاسم ؛ اشہب بن عبد العزیز ؛ ابو یوسف ؛ محمد بن الحسن ؛ شافعی ؛ أحمد بن حنبل؛ اسحق بن راہویہ؛ ابی عبید ؛ ابو ثور رحمہم اللہ ؛ ان کے علاوہ اتنی بڑی تعداد جن کو صحیح طور پر اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ جن کو غیر فاضل کو مقدم کرنے سے کوئی غرض نہیں ۔نہ ہی جاہ ومال کی غرض سے اور نہ ہی کسی لالچ کی بنا پر ۔ یہ وہ لوگ تھے جو سب سے بڑے علماء اور حقائق کی چھان بین کرنے والے تھے۔ یہ تمام حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی تقدیم پر متفق ہیں ۔ بلکہ پہلے کے شیعہ جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں تھے ؛ وہ بھی جناب ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی تقدیم پر متفق ہیں ۔علامہ ابن [امام عبدالرحمن بن قاسم المتوفی ( ۱۳۲۔۱۹۱)مقام الفسطاط کے مشہور علماء میں سے تھے، یہ امام مالک بن انس المتوفی ( ۱۸۱) کے شاگرد تھے اور ان کے علم و فضل کے مبلغ و ناشر تھے، اسد بن الفرات المتوفی (۱۴۲۔۲۱۳) نے ابن القاسم سے المدونہ کی تعلیم حاصل کی اور ۱۸۱ھ میں یہ کتاب لے کر قیروان پہنچے، ابن القاسم سے متعلق دیکھئے :مقالہ ’’ مع الرعیل الاول ‘‘ مجلہ الازہر، م: ۲۵ ج ۹ص ۹۹۶،۹۹۷، رمضان: ۱۳۷۳ھ)] القاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ امام مالک رحمہ اللہ سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’جن اکابر سے میں نے ہدایت پائی ہے، ان میں سے کوئی بھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی ۔حضرت عثمان وعلی رضی اللہ عنہما۔پرتقدیم میں شک نہیں رکھتا تھا۔‘‘
حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی تقدیم پراہل مدینہ سے اجماع نقل کیا گیاہے۔
[یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ] اہل مدینہ کا بنو امیہ کی طرف کوئی میلان نہیں تھا؛ جیسا کہ اہل شام کرتے تھے۔ بلکہ اس کے برعکس انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا ۔ واقعہ حرہ والے سال یزید سے جنگ کی ؛ اس کی وجہ سے مدینہ میں جو خونریزی ہوئی ؛ وہ سب کو معلوم ہے؛ نیز اہل مدینہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی ایک کو بھی ایسے قتل نہیں کیا جیسے اہل بصرہ و کوفہ اوراہل شام کو قتل کیا۔ بلکہ آپ کا شمار مدینہ کے علماء میں ہوتا تھا۔یہاں تک کہ آپ مدینہ سے باہر نکل گئے اورلوگ آپ پر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو مقدم سمجھتے تھے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت کیاہے ؛ آپ فرماتے ہیں :
’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کاحضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو [باقی صحابہ پر] مقدم سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔‘‘
شریک بن ابی نمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ایک سائل نے آپ سے پوچھاکہ ابو بکر وعلی رضی اللہ عنہما میں سے کون افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔ سائل نے آپ سے کہا : ’’آپ شیعہ ہوکر بھی یہ بات کہتے ہیں ؟
تو آپ نے فرمایا: ’’ ہاں شیعہ وہی ہو سکتا ہے جو اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو۔ اللہ کی قسم ! حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سیڑھیوں پرچڑھے؛ اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
(( خَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ )) [سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۱۰۶) ، مسند احمد(۱؍۱۰۶)۔]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس امت میں سب سے افضل ہیں ۔‘‘
کیا ہم آپ کی بات کو رد کریں ‘ یاپھر آپ کو جھٹلائیں ؟ اللہ کی قسم آپ ہر گز جھوٹے نہ تھے۔‘‘
قاضی عبد الجبار نے اپنی کتاب ’’ تثبیت النبوۃ ‘‘ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے‘اور اسے ابو القاسم بلخی کی کتاب کی طرف منسوب کیا ہے۔بلخی نے یہ کتاب راوندی کے رد پر لکھی ہے جو کہ اس نے جاحظ پر اعتراضات میں لکھی تھی۔ اس میں لکھا ہے :
’’ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے : جن لوگوں نے [حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی] بیعت کی وہ دنیا کے طلبگار یا جاہل تھے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ان صحابہ کرام کی شان میں طعن کرنے والا ان اوصاف سے متصف ہے۔ اس لیے کہ آپ اہل قبلہ کے طوائف میں سے کسی کو رافضیوں سے بڑھ کر جاہل نہیں پاؤ گے۔اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی دنیا کا حریص ہے۔ غور و فکر کرنے والا جان سکتا ہے رافضی جو عیب بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ وہ خود سب لوگوں سے بڑھ کر اس عیب کا شکار ہوتے ہیں ۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عیب سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔ اس بنا پر رافضی بغیر شک و شبہ کے لوگوں میں سب سے بڑھ کر جھوٹے ہیں ۔ جیسے مسیلمہ کذاب اپنے اس دعوی میں جھوٹا تھا کہ : میں سچا نبی ہوں ۔‘‘اسی لیے یہ لوگ اپنے آپ کو اہل ایمان سے موصوف کرتے ہیں [خود کو مؤمن کہتے ہیں ]؛ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو منافق کہتے ہیں ۔ جب کہ خودرافضی لوگوں میں سب سے بڑے منافق ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو سب سے بڑے مومن تھے ۔‘‘
خلافت علی رضی اللہ عنہ اور بیعت:
[اعتراض]:.... شیعہ مصنف کا قول ہے کہ: ’’ بعض لوگ حق کی بنا پر امارت و خلافت کے طالب تھے، چنانچہ قلیل التعداد بااخلاص مسلمانوں کی ایک جماعت نے آپ کی بیعت کی؛ جنھیں دنیوی زیب و زینت سے کچھ سرور کار نہ تھا؛ اور جنہیں اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی ہر گزکوئی پرواہ نہیں تھی۔بلکہ انہوں نے اخلاص کیساتھ ان کی اطاعت کا اقرار کر لیا جو تقدیم کے مستحق تھے ؛اور ان کے اوامر و احکام کی اطاعت کرنے لگے۔ جب مسلمان اس آزمائش کا شکار ہوئے ؛توہر ایک پر واجب ہوتا تھا کہ وہ حق میں غور وفکر کریں ۔اور انصاف کا سہارا لیں ۔اور حق کو اس کی جگہ پر رکھا جائے اور مستحق پر ظلم نہ کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ اَ لَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ (ہود:۱۸)
’’آگاہ ہو جاؤ ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: .... پہلی بات : یہ ضروری تھا کہ یوں کہاجاتا: ’’ جب ایک گروہ اس طرف چلا گیا؛ اور ایک گروہ اس طرف چلا گیا تو اس وقت واجب ہوتا کہ وہ غور وفکر کریں کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے ۔ ہاں اگر ایک جماعت حق کی اتباع پر راضی ہو جائے اور دوسری جماعت باطل کی اتباع شروع کردے ؛ تو پھر اس صورت میں معاملہ بالکل واضح تھا؛ اس وقت غور و فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر یہ معاملہ واضح نہ ہو تو پھر اس کا ذکر کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک معاملہ کھل کر واضح نہ ہوجائے۔
دوسری بات : شیعہ مصنف کا [حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ]یہ کہنا کہ: ’’آپ حق کی بنا پر امارت و خلافت کے طالب تھے، چنانچہ قلیل التعداد مسلمانوں نے آپ کی بیعت کی ۔‘‘
بلاشک و شبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق شیعہ کا یہ قول باطل ہے۔اس لیے کہ آپ حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں ہرگزخلافت کے طلب گار نہیں ہوئے ۔آپ نے اس وقت خلافت طلب کی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا؛ اور آپ کی بیعت کرلی گئی ۔اس وقت قلیل تعداد میں نہیں بلکہ اکثر لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ اہل سنت اور شیعہ اس امر میں متحد الخیال ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر وعمرو عثمان رضی اللہ عنہم کے ادوار میں اپنی بیعت کی دعوت نہیں دی۔اورنہ ہی کسی ایک نے آپ کی بیعت کی۔لیکن رافضی پھر بھی یہی دعوی کرتے ہیں کہ آپ ایسا کرنا چاہتے تھے۔ اور آپ کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہیں کہ باقی لوگوں کو چھوڑ کر صرف آپ ہی امامت کے مستحق تھے۔لیکن آپ ایسا کرنے سے عاجز تھے۔اگرمان لیا جائے کہ یہ بات حق ہے؛ تب بھی انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ اس لیے کہ آپ نے اپنی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت نہیں دی۔اور نہ ہی کسی ایک نے آپ کی اتباع کی۔توپھر جب یہ سارا قصہ ہی من گھڑت اور جھوٹ ہو تو اس کی قباحت و شناعت کا کیا کہنا ۔
[اعتراض]:.... [رافضی کہتاہے]: ’’چنانچہ قلیل التعداد بااخلاص مسلمانوں کی ایک جماعت نے آپ کی بیعت کی۔‘‘
[جواب] :.... یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹا الزام ہے۔اس لیے کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں کسی ایک صحابی نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی ۔ اور کسی ایک کے لیے ایسا دعوی کرنا ممکن بھی نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ : صحابہ کرام میں کچھ لوگ ایسے تھے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتے تھے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو بہت سارے لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔بعض لوگ ان دونوں سے دور رہے۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو بعض لوگوں کے دلوں میں کسی دوسرے کی طرف میلان تھا۔ اس قسم کی باتیں کلیۃً تو ختم نہیں ہوسکتیں ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ طیبہ میں موجود تھے ؛ تو اس وقت مدینہ میں اوراس کی ارد گرد کی بستیوں میں منافقین بھی رہتے تھے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ ﴾ [التوبۃ ۱۰۱]
’’اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں ۔‘‘
نیزمشرکین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ﴾ [الزخرف ۳۱]
’’اور کہنے لگے:یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا ۔‘‘
ان لوگوں کی چاہت تھی کہ اہل مکہ و طائف میں سے جس انسان کو یہ لوگ بڑا سمجھتے اورتعظیم کرتے ہیں ‘ اس پر قرآن نازل کیوں نہیں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ﴾ [الزخرف ۳۲]
’’کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں ؟ ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے ۔‘‘