Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خاندان

  علی محمد الصلابی

خاندان

والد: آپ کے والد کا نام عثمان بن عامر بن عمرو ہے، ان کی کنیت ابوقحافہ ہے۔ یہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو کیوں زحمت دی، میں خود آ جاتا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا: ان کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ہی زیادہ اولیٰ ہے۔ ابوقحافہ نے اس موقع پر اسلام قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
(الإصابۃ: جلد، 4 صفحہ، 375)
مروی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان کے والد کے اسلام لانے پر مبارک باد دی۔
(السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ: 577)
ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کے بال بالکل سفید ہو چکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کے بالوں میں خضاب لگانے کو کہا، لیکن کالے خضاب سے منع فرمایا۔
(الاصابۃ: جلد، 4 صفحہ، 375 ، ومسلم فی اللباس: 2102)
اس واقعہ کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بوڑھوں کی توقیر و احترام کا بہترین اصول و منہج پیش فرمایا ہے، جس کی تاکید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ہوتی ہے:
لیس منا من لم یوقر کبیرنا و یرحم صغیرنا
(الترمذی: کتاب البر: باب، 15)
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے اور چھوٹوں پر رحم نہ کھائے۔‘‘
والدہ: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم ہے اور ان کی کنیت ام الخیر ہے۔ یہ اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام لا چکی تھیں۔ اس کی تفصیل ہم اس واقعہ میں ذکر کریں گے جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ میں اسلام کے اظہار اور اعلان کا مطالبہ کیا تھا۔
(تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: 30)
بیویاں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کل چار خواتین سے شادیاں کیں، جن سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ ان خواتین کا تذکرہ ہم بالترتیب کر رہے ہیں:
1: قتیلہ بنت عبدالعزیٰ بن اسعد بن جابر بن مالک:
ان کے اسلام کے سلسلہ میں مورخین کا اختلاف ہے۔(الطبقات لابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 179، جلد، 8 صفحہ، 249) یہ عبداللہ بن ابی بکر اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی والدہ ہیں۔ دور جاہلیت میں آپ نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ یہ مدینہ کے اندر اپنی بیٹی اسماء کے لیے پنیر اور گھی کا ہدیہ لے کر آئیں تو اسماء رضی اللہ عنہا نے ہدیہ قبول نہ کیا اور گھر میں بھی آنے نہ دیا، بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہلا بھیجا کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کو گھر میں آنے دیں اور ان کا ہدیہ قبول کر لیں۔‘‘ (بخاری ومسلم میں اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش سے مصالحت کے دور میں ان کی والدہ ان کے پاس آئیں اور وہ مشرکہ تھیں، انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ دریافت کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلی امک۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔‘‘ البخاری: الہبۃ، 6220، مسلم: الزکاۃ، 1003 (مترجم)) اور اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر یہ آیت نازل فرمائی:
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (سورۃ الممتحنۃ: آیت، 8)
ترجمہ: ’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا، ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ ان کافروں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کا برتاؤ کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے مسلمانوں کو نہ تو ستایا اور نہ دین کے بارے میں جھگڑے اور نہ مسلمانوں کو گھروں سے نکالا ہے۔ جیسے عورتیں اور کمزور لوگ۔ ان کے ساتھ صلہ رحمی، ان کی ضیافت، پڑوس کے حقوق وغیرہ سے اسلام نہیں روکتا اور نہ ان کے ساتھ عدل وانصاف مثلاً حقوق کی ادائیگی، ایفائے عہد، امانت کی ادائیگی اور ان سے خریدی ہوئی اشیاء کی پوری قیمت کی ادائیگی سے روکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو عدل وانصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور انہیں پسند فرماتا ہے اور اس کے برخلاف ظلم کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے اور انہیں سزا دے گا۔
(التفسیر المنیر للزُّحیلی: جلد، 28 صفحہ، 135)
2: ام رومان بنت عامر بن عویمر رضی اللہ عنہا:
یہ بنو کنانہ بن خزیمہ سے ہیں۔ ان کے پہلے شوہر حارث بن سنجرہ کا مکہ میں انتقال ہو گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کر لی۔ یہ شروع دور ہی میں اسلام سے مشرف ہوئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ عبدالرحمٰن اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما کی والدہ ہیں۔ 6 ہجری میں مدینہ کے اندر ان کی وفات ہوئی۔
(الاصابۃ: جلد، 8 صفحہ، 391)
3: اسماء بنت عمیس بن معبد بن حارث رضی اللہ عنہا:
ان کی کنیت ام عبداللہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے دار ارقم میں داخل ہونے سے قبل ہی اسلام سے مشرف ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکی تھیں۔ یہ پہلے پہل ہجرت کرنے والی خوش نصیب خواتین میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر ان کے ساتھ وہاں سے ہجرت کر کے 6 ہجری میں مدینہ تشریف لائیں۔ جنگ موتہ 6 ہجری میں جب جعفر رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کر لیا تو ان سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی اور انھی کے بطن سے آپ کے صاحبزادے محمد بن ابی بکر (حجۃ الوداع کے موقع پر احرام کے وقت ذوالحلیفہ میں) پیدا ہوئے۔ (ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آئیں اور ان کے بعد بھی زندہ رہیں۔)
صحابہ میں سے عمر، ابو موسیٰ اشعری، عبداللہ بن عباس اور ام الفضل زوجہ عباس رضی اللہ عنہم نے ان سے احادیث نبویہ روایت کی ہیں۔
سسرالی رشتہ کے اعتبار سے بڑی شرف ومنزلت کی حامل تھیں، آپ کے سسرالی رشتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حمزہ، عباس وغیرہم رضی اللہ عنہم ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: جلد، 2 صفحہ، 282)
4: حبیبہ بنت خارجہ بن زید بن ابی زہیر رضی اللہ عنہا:
انصار کے خزرج قبیلہ سے ان کا تعلق تھا، عوالی مدینہ میں مقام ’’سنح‘‘ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ رہتے تھے، انھی کے بطن سے آپ کی صاحبزادی ام کلثوم آپ کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔
(الاصابۃ: جلد، 8 صفحہ، 80)