Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جاہلی معاشرہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اخلاقی سرمایہ

  علی محمد الصلابی

جاہلی معاشرہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اخلاقی سرمایہ

دورِ جاہلیت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قریش کے سرداروں اور ان کے اشراف و معزز لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔
ظہور اسلام سے قبل قریش کے دس خاندانوں میں سے دس افراد پر شرف ومنزلت کی انتہا سمجھی جاتی تھی:
1: بنو ہاشم میں سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ:
دورِ جاہلیت میں حجاج کو پانی پلانے کا شعبہ ان کے پاس تھا اور اسلام میں بھی یہ شرف آپ کو حاصل تھا۔
2: بنو امیہ میں سے ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ:
عقاب، یعنی قومی پرچم کی علمبرداری کا شعبہ ان کے پاس تھا، قریش کے لوگوں کا جب کسی کی قیادت پر اجماع و اتفاق نہ ہو پاتا تو ان کو آگے بڑھاتے۔
3: بنو نوفل میں سے حارث بن عامر:
رفادہ،یعنی اہم معاملات میں صلاح و مشورت کا شعبہ ان کے پاس تھا، قریش کے لوگ کسی اہم معاملہ کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرتے جب تک آپ سے مشورہ نہ لے لیں۔
4: بنو عبدالدار میں سے عثمان بن طلحہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ:
حجابۃ، یعنی کعبہ کی کلید برداری اور تولیت
5: بنو تیم میں سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ:
اشناق، یعنی جرمانہ، دیت اور مالی تاوان کی نگہداشت کا شعبہ ان کے پاس تھا۔ آپ جب کسی کی ضمانت لے لیتے تو قریش آپ کی تصدیق کرتے اور اس ضمانت کو جاری کرتے لیکن اگر کوئی دوسرا ضمانت لیتا تو اس کو بے یارومددگار چھوڑ دیتے۔
6: بنو مخزوم میں سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ:
قبہ، یعنی فوجی کیمپ کا انتظام اور اعنہ یعنی سواروں کے دستوں کی سپہ سالاری کا شعبہ آپ کے پاس تھا۔
7: بنو عدی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ:
سفارت،یعنی دوسری حکومتوں اور قبائل کے درمیان خط کتابت اور گفتگو وغیرہ کا شعبہ آپ کے پاس تھا۔
8: بنو جمح میں سے صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ:
ازلام، یعنی بتوں سے استخارہ کا شعبہ ان کے پاس تھا۔
9: بنو سہم میں سے حارث بن قیس:
حکومت، یعنی مقدمات کا فیصلہ اور بتوں کے چڑھاوے کے انتظام کا شعبہ ان کے پاس تھا۔
(اشہر مشاہیر الاسلام: جلد، 1 صفحہ، 10)
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس جاہلی معاشرہ میں شرفائے قریش میں شمار کیا جاتا تھا، افضل ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا، لوگ اپنے مسائل ومعاملات میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ مکہ میں ضیافت و مہمان نوازی میں انفرادی حیثیت کے مالک تھے۔
(نہایۃ الارب: 19/10، بحوالہ تاریخ الدعوۃ: یسری محمد، 42)
مختلف امور میں آپ شہرت کے حامل تھے:
علم انساب:
عرب کی تاریخ اور انساب کے علماء میں آپ کا شمار ہوتا تھا، آپ کو اس میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ بہت سے علمائے انساب کے آپ استاذ تھے، جیسے عقیل بن ابی طالب وغیرہ اور آپ کے اندر ایسی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے عربوں میں آپ ہر دل عزیز تھے۔ آپ بخلاف دوسروں کے انساب میں عیب نہیں لگاتے تھے اور نہ ان کے نقائص وعیوب کو ذکر کرتے تھے۔
(التہذیب: جلد، 2 صفحہ، 184)
آپ قریش میں قریشی انساب کے سب سے زیادہ ماہر، ان کو سب سے زیادہ جاننے والے اور ان کے خیر و شر سے سب سے زیادہ واقف تھے۔
(الاصابۃ: جلد، 4 صفحہ، 146)
اسی سے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابابکر اعلم قریش بانسابہا (مسلم: 2490، الطبرانی فی الکبیر: 3582)
’’یقینا ابوبکر قریش میں ان کے انساب کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔‘‘
تجارت:
دور جاہلیت میں آپ تاجر تھے، تجارت کے لیے آپ سر زمین شام میں بصریٰ پہنچے اور مختلف شہروں کا سفر کیا، آپ کا تجارتی رأس المال چالیس ہزار درہم تھا۔ بڑی سخاوت سے اپنا مال خرچ کرتے، جود و سخا اور مہمان نوازی میں آپ جاہلیت میں مشہور تھے۔
(ابوبکر الصدیق: علی الطنطاوی: 66، التاریخ الاسلامی: الخلفاء الراشدون، محمود شاکر: 30)
اپنی قوم میں محبت و الفت کا مرکز:
ابن اسحق نے سیرت میں ذکر کیا ہے کہ لوگ آپ سے غایت درجہ محبت کرتے تھے آپ کے فضل عظیم اور اخلاق کریمانہ کے سب معترف تھے۔ لوگ مختلف اسباب، علم، تجارت اور حسن مجالست کی وجہ سے آپ کے پاس آتے اور آپ سے محبت کرتے تھے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: جلد، 1 صفحہ، 361) ہجرت کے ارادہ سے جب آپ مکہ سے نکلے تو راستے میں ابن الدغنہ جب آپ سے ملا تو اس نے صاف طور سے کہا: آپ خاندان کی زینت ہیں، مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، فقراء اور محتاجوں پر خرچ کرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔
(البخاری: مناقب الانصار، 3905)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ ابنِ الدغنہ کے اس قول پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عظیم ترین مناقب میں سے ابن الدغنہ کا یہ قول ہے، یہاں ابنِ الدغنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وہی اوصاف بیان کیے ہیں جو ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بعثت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے تھے۔ یہ عجیب توارد ہے اور یہ غایت درجہ کی مدح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف شروع ہی سے اکمل ترین اوصاف تھے۔‘‘ (الاصابۃ: جلد، 4 صفحہ، 147)
جاہلیت میں بھی شراب نہیں پی:
دور جاہلیت میں آپ عفت و پاک دامنی میں یکتا تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے اسلام سے قبل ہی اپنے اوپر شراب کو حرام کر لیا تھا۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شراب کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، نہ تو جاہلیت میں شراب پی اور نہ اسلام میں۔ ایک مرتبہ آپ کا گذر ایک مدہوش شخص کے پاس ہوا، دیکھا کہ وہ اپنا ہاتھ پاخانہ میں ڈالتا ہے اور اس کو اپنے منہ سے قریب لاتا ہے اور جب بدبو محسوس کرتا ہے ہٹا دیتا ہے آپ نے کہا یہ شخص جو کر رہا ہے اسے سمجھ نہیں رہا ہے۔ اس کو جو بدبو محسوس ہو رہی ہے اس کی وجہ سے بچ گیا ورنہ کھا لیتا۔
(سیرۃ وحیاۃ الصدیق، مجدی فتحی: 34)
ایک روایت میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ابوبکر اور عثمان رضی اللہ عنہما دور جاہلیت ہی سے شراب سے دور تھے۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی: 49)
ایک شخص نے آپ سے پوچھا: کیا آپ نے جاہلیت میں کبھی شراب پی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اعوذ باللہ‘‘ (اللہ کی پناہ)۔ کہا گیا: کیوں؟ آپ نے فرمایا: میں اپنی عزت و مروت کی حفاظت کی خاطر اس سے دور رہا کیونکہ جو بھی شراب پیتا ہے وہ اپنی عزت ومروت کو ضائع کر دیتا ہے۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی: 49)
بت کو سجدہ نہیں کیا:
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ آپ نے صحابہ کرام کے ایک مجمع میں فرمایا: میں نے کسی بت کو کبھی سجدہ نہیں کیا کیونکہ جب میں بلوغت کی عمر کو پہنچا تو میرے والد ابوقحافہ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک بت خانہ میں لے گئے اور مجھ سے کہا: یہ اونچی شان والے تمہارے معبود ہیں اور وہاں مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں بت سے قریب ہوا اور کہا: میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلا دو، اس نے جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: میں ننگا ہوں مجھے لباس پہنا دو، اس نے جواب نہ دیا۔میں نے ایک پتھر اٹھا کر مارا تو وہ منہ کے بل گر پڑا۔ اس طرح آپ کی روشن عقل اور فطرت سلیمہ اور اخلاق حمیدہ نے آپ کو جاہلوں کے افعال میں سے ہر اس فعل سے بچائے رکھا جو اعلیٰ اخلاق کے منافی ہو اور شرافت کو ختم کرتا ہو اور ان تمام اخلاق وعادات سے دور رکھا جو فطرت سلیمہ، عقل راجح اور سچی مردانگی کے منافی تھیں۔ (اصحاب الرسول، محمود المصری: جلد، 1 صفحہ، 58 ، الخلفاء: محمود شاکر، 31) اور جس شخص کے اخلاق وکردار کا یہ عالم ہو، دعوت حق کے حاملین میں اس کی شمولیت اور ان کے صف اوّل میں ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین ہونے پر کوئی تعجب نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام اذا فقہوا (تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: 43)
’’تم میں جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ حالت اسلام میں بھی بہتر ہیں، بشرطیکہ اسلام کی صحیح سمجھ آ جائے۔‘‘
استاد رفیع العظم دور جاہلیت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’الہٰی ایسا شخص جو بتوں کے درمیان بغیر کسی دین وشریعت کے نشوونما پایا ہو، اس کے اخلاق، فضائل کا یہ عالم ہو اور عفت و مروت کو اس درجہ تھامے رکھا ہو…… ایسا شخص یقینا اس قابل ہے کہ وہ اسلام کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرے، ہادی برحق پر سب سے پہلے ایمان لانے والا، اہل کبر وعناد کی ناکوں کو اسلام کی طرف سبقت کر کے خاک آلود کرنے والا اور اللہ کے سیدھے دین کی طرف ہدایت کی راہ ہموار کرنے والا بنے اور اس کے نقش قدم پر چل کر ہدایت قبول کرنے والوں کے دلوں سے رذائل اور برے اخلاق کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکے۔‘‘ (اشہر مشاہیر الاسلام: جلد، 1 صفحہ، 12)
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ نے کس قدر عالی مقام عطا فرمایا تھا کہ اسلام سے قبل قریشی معاشرہ میں بلند انسانی قدروں، اخلاق حمیدہ، عادات کریمانہ کا اتنا بڑا سرمایہ رکھتے تھے۔ اہل مکہ نے انسانی قدروں اور اخلاق میں دوسرے لوگوں پر سبقت رکھنے کے سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق میں شہادت دی، قریش میں ایسا کوئی نظر نہیں آتا کہ جس نے آپ پر عیب لگایا ہو یا آپ کی تنقیص اور تذلیل کی ہو جیسا کہ کمزور مسلمانوں کے ساتھ ان کا وتیرہ تھا۔ ان کے نزدیک آپ کے اندر صرف یہی خامی تھی کہ آپ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے تھے۔
(منہاج السنۃ النبویۃلابن تیمیۃ: جلد، 4 صفحہ، 288 اور 289، بحوالہ ابوبکر الصدیق افضل الصحابۃ واحقہم بالخلافۃ لمحمد عبدالرحمن قاسم: صفحہ، 18 اور 19)