Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

روضته الشهداء مصنفه ملاحسین کاشفی

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

روضته الشهداء مصنفه ملاحسین کاشفی

شیعہ مسلک کی تصانیف میں سے روضۃ الشہداء بھی ایک ہے۔ اس کے مصنف کا نام ملاحسین بِن علی واعظ کاشفی ہے۔ اس میں بھی اہلِ سنت ہے اسکا برادران کے مسلک پر گھناؤنے انداز میں اعتراض کیے گئے۔ غلام حسین نے بھی دیرینہ مکاری سے کام لیتے ہوئے اسے بھی اہلِ سنت کی معتبر کتاب کہا۔ اور پھر اس کتاب کے ذریعہ اہلِ سنت پر کافی اعتراضات کیے۔ حوالہ کے لیے نجفی کی کتاب قول مقبول کا اقتباس پیش خدمت ہے۔ 

قول مقبول: سیدنا علیؓ کا نکاح اللہ تعالیٰ نے عرش اعظم پر بھی فرمایا تھا

 روضة الشهداء 

در کتب خوارزمی در این باب حدیث طویل واقعه شده خلاصه همه آنکه جبریلؑ نزدیک حضرت رسالت مأبﷺ و قدری از تنبل و قرنفل بہشت بیاورد . نبی کریمﷺ فرمود که جبریلؑ سبب آوردن این قرنفل چیست ؟ 

ترجمہ:

ایک روز جبریلؑ نبی کریمﷺ کے پاس آئے سنبل اور لونگ بہشت سے لائے نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ یہ چیزیں آپ کیوں لائے ہیں؟ جبریلؑ نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے بہشت کو آرائش اور زیبائش کا حکم دیا ہے۔ اور درخت طوبیٰ کو بھی اور حورانِ جنت کو بھی طرح طرح کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ اور فرشتوں کو فرمایا ہے۔ کہ وہ بیت المعمور کے اطراف میں جمع ہوں۔ اور وہاں نور کا ایک منبر ہے۔ جس پر حضرت آدمؑ نے پیدائش کے بعد فرشتوں کے سامنے خطبہ پڑھا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ فرشتے کو حکم دیا ہے۔ کہ وہ اس منبر پر جا کر خطبہ پڑھے۔ اور اس سے زیادہ میٹھی آواز والا فرشتوں میں سے اور کوئی بھی نہیں پس جبریلؑ نے میٹھی آواز سے اللہ کی حمد و ثناء کا اس شان سے خطبہ پڑھا۔ کہ تمام اہلِ آسمان خوشی سے جھومنے لگے۔ پھر جبریلؑ کو حکم ہوا کہ میرے حبیبﷺ کی بیٹی، سیدہ فاطمہؓ کا سیدنا علیؓ کے ساتھ نکاح پڑھائیں۔ جبریلؑ نے نکاح پڑھایا۔ فرشتے گواہ بنے۔ اور دیوانِ قضا کے کلرک اس نکاح کے کاتب بنے۔ پھر جبریلؑ نے ایک ٹکڑا ریشم کا جناب رسالت مآبﷺ کو دکھایا۔ اور عرض کی نکاح کی پوری روئیداد اس میں تحریر ہے۔ اور میں حکمِ پروردگار سے آپ کو دکھاتا ہوں۔ اور میں نے اس پر کستوری کی مہر لگائی ہے۔ اور میں نے تحریرِ رضوان خادم بہشت کے سپرد کر دی ہے۔

(اہلِ سنت کی معتبر کتاب روضتہ الشہدا صفحہ 129 باب چہارم)

(قولِ مقبول في اثبات وحدة بنت الرسولﷺ تصنیف غلام حسین نجفی صفحہ 115 تا 118)

جواب

روضتہ الشہداء کے حوالہ مذکورہ سے غلام حسین نجفی نے جہاں اہلِ بیتؓ کے بارے غلو سے کام لیا۔ وہاں اس نے یہ بھی خرافات کہیں۔ دیکھو۔ سیدہ فاطمہؓ کے علاوہ اگر رسول کریمﷺ کی حقیقی بیٹی اور بھی ہوتی تو ان کے نکاح بھی اسی شان و شوکت سے ہوتے۔ لہٰذا سنیوں نے سیدہ ام کلثومؓ اور سیدہ رقیہؓ نامی جن دو لڑکیوں کا ذکر کیا۔ اور جن کی یکے بعد دیگرے سیدنا عثمانؓ سے شادی ہوئی۔ وہ حضورﷺ کی حقیقی بیٹیاں ہرگز نہ تھیں۔ دیکھو اگر یہ بھی سگی بیٹیاں ہوتیں۔ تو روضتہ الشہداء میں ان کے بارے میں بھی مذکور ہوتا۔ کہ ان کا نکاح بھی آسمانوں پر ہوا۔ اور جبریلؑ فرشتے نے پڑھا وغیرہ وغیرہ حالانکہ روضتہ الشہداء اہلِ سنت کی معتبر کتاب ہے۔ تو جب اس معتبر سنی کتاب میں ان کا تذکرہ اس انداز سے نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ سنی بھی ان دونوں کو حضورﷺ کی حقیقی بیٹیاں تسلیم نہیں کرتے آئیے ذرا غلام حسین نجفی کی اس مکاری کی بھی خبر لیں اور تحقیق پیش کریں کہ روضتہ الشہداء کس کی کتاب ہے۔ اور اس کے مصنف کا مسلک کیا تھا؟

صاحب روضتہ الشہداء ملا حسین کاشفی شیعہ ہے۔

شیعہ علماء کا فیصلہ:

الذريعة:

روضة الشهداء فارسي ملمع للمولى الواعظ الحسين بن على الكاشفى البيهقى المتوفى 910 حدود او مرتب عَلَى عَشْرَةِ ابْوَابِ وَخَاتِمَةٍ فِيهَا ذِكر او لا والشَّبْطَيْنِ وَجُمْلَةٍ مِّنَ السَّادَاتِ.

(وقد طبع روضة الشهداء في لاهور، 1287 وبمبي 1331 و طهران 1333.)

(الذريعة الىٰ تصانيف الشيعه جلد 11 صفحہ 294 تا 295)

ترجمه:

روضتہ الشہداء فارسی میں ہے۔ اور اس کے مصنف کا نام حسین بن علی کاشفی واعظ ہے۔ جس کا 910 میں انتقال ہوا۔ یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ اور ایک خاتمہ بھی۔ ان میں سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ کی اولاد اور دیگر سادات کا تذکرہ ہے۔ یہ کتاب لاہور میں 1282 بمبئی میں 1331 اور تہران میں 1333 میں چھپی۔

توضيح:

جیسا کہ بار ہا ذکر کیا جا چکا ہے۔ کہ الذریعہ نامی شیعہ تصنیف کا مقصد تالیف ہی تھا۔ کہ تمام شیعہ مصنفین کی کتابوں کو یک جا جمع کر دیا جائے۔ اور ان کے مصنفین کے حالات و واقعات درج ہوں۔ اس لیے اس میں کیسی ایسی کتاب کا تذکرہ ہرگز نہ ملے گا۔ جو اہلِ تشیع کے نظریات و معتقدات پر مشتمل نہ ہو۔ الذریعہ میں جب روضتہ الشہداء کا تذکرہ موجود ہے۔ تو اس سے صاف ظاہر کہ یہ کتاب اہلِ سنت کی نہیں بلکہ اہلِ تشیع کی ہے۔ 

الكنى والالقاب:

الكاشفي العالم الفاضل المولى حسين بن على البيهقى السبزواري واعظ جَامِعُ لِلْعُلُومِ الدِّينية مُفَرٌ مُحَدِّثُ مُتَبَحْرُ خَيْرٌ كَانَ زَوج الاولى عبْدِ الرَّحْمَنِ جَاتِي لَهُ مُصَنَّفَاتٌ كَثِيرَةٌ مِنْهَا جَوَاهِرُ التَّفْسِيرِ وَمُخْتَصَرة وروضة الشهداء وَغَيْرُ ذَالِكَ وَمِنْ أَشْعَارِهِ قَصِيدَةٌ فِي مَنَاقِبِ امير المؤمنين عليه السلام مِنْهَا هُذَانِ الْبَيْتَانِ۔

ذریتی سوال خلیل خدا بخواں 

واز لا ینال عہد جوابش لیکن ادا 

گرد و تو را عیان که امامت لائق است 

آنرا که بوده بیشتر عمر در خطا۔

 وَهُذَا يَدُلُّ عَلَى تَشِيعِهِ تُوْفِي بِمَرَاهُ في حدود سنة

910 الكنى والالقاب جلد سوم صفحہ 105 مطبوعه طہران طبع جدید

ترجمه:

ملا حسین بن علی بیہقی سبزداری الکاشفی بہت بڑا عالم فاضل تھا۔ دینی علوم کا جامع، مفسر محدث اور باخبر عالم تھا۔ مولانا عبد الرحمن جامی کا بہنوئی ہے۔ اس کی بہت سی تصانیف ہیں ان میں سے جواہر التفسیر اور اس کا خلاصہ ہے۔ اور روضتہ الشہداء بھی اس کی تصنیف ہے۔ سیدنا علیؓ کے مناقب میں اس نے قصیدہ کہا۔ جس کے دو شعر یہ ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد میں امامت کا سوال کیا۔ تو جواب ملا کہ یہ منصب ظالموں کو نہیں مل سکتا۔ اس سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ منصب امامت ان لوگوں کو نہیں مل سکتا۔ جن کی عمر کا اکثر حصہ اسلام میں نہ گزرا ہو۔ یہ اشعار ملا حسین کاشفی کے شیعہ ہونے کی دلیل ہیں۔ اس کا 910ء میں بمقام ہرات انتقال ہوا۔ 

لمحہ فكرية:

الذریعہ اور الکنی والالقاب کے حوالہ جات کے صاحب روضتہ الشہداء کا شیعہ ہونا ظاہر ہو گیا خصوصاً شیخ عباس قمی نے اس کی شیعیت کی تعریف جس عقیدت اور نظریے پر کی۔ وہ اہلِ تشیع کا متفق علیہ عقیدہ ہے۔ یعنی حضرات آئمہ اہلِ بیتؓ کا معصوم عن الخطاء ہونا۔ اور اس کے ساتھ قرآنی آیات سے حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ کے ضمن میں اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ ظالم اور خطا کار اور کفر کی زندگی گزار مسلمان ہونے والے منصب امامت کے ہرگز لائق نہیں ہو سکتے جس کا مطلب یہ ہے۔ کہ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت برحق نہ تھی۔ کیونکہ اہلِ تشیع کے نزدیک ان کا قبل از اسلام زمانہ بت پرستی میں گزرا۔ اگرچہ ان کا یہ کہنا غلط ہے لیکن ان کے نزدیک جب ان تین خلفاء کا زمانہ قبل از اسلام شرک و بت پرستی میں کا دور تھا۔ تو ایمان لانے کے بعد یہ معصوم ہرگز نہ ہوئے۔ اور امام بنصِ قرآنی معصوم ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ تینوں حضرات منصبِ امامت پر زبردستی متمکن رہے اور انہوں نے سیدنا علیؓ کا حقِ خلافت و امامت غصب کر رکھا تھا۔ اس عقیدہ کی بنا پر جو صاحب روضتہ الشہداء کے اشعار سے ظاہر ہے اہلِ تشیع کے ایک بڑے جگادری نے اس کی شیعیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ ان تصریحات و شواہد کے ہوتے ہوئے نجفی حجتی وغیرہ کا اسے سنی اور اس کی تالیف روضتہ الشہداء کو "اہلِ سنت کی معتبر کتاب" کے عنوان سے پیش کرنا کس قدر فریب ہے۔ دراصل نجفی نے شیعہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے یہاں تک قسم اٹھا رکھی ہے۔ کہ میں تمہارے عقائد کو ثابت کر کے چھوڑوں گا۔ چاہے مجھے بے ایمان ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ اور چاہے مجھے اگلے بڑوں کو کتا اور خنزیر ہی کیوں نہ کہنا پڑے۔ کیونکہ شیعہ مسلک میں سنی معاذ اللہ کتے اور سور سے بھی برا ہوتا ہے۔ اور آپ نے اس سے پہلے معتبر کتب شیعہ کے شواہد سے بھی پڑھ لیا ہے۔ کہ لال حسین کاشفی شیعہ ہے اور شیعہ علماء نے اسے تسلیم کیا ہے کہ ہمارا پکا شیعہ اور مستند عالم ہے اسی لیے بڑے بڑے علماء شیعہ نے صاحب ناسخ التواریخ علماء نے اس کی کتاب شواہد النبوہ کو مسند سمجھتے کے اس حوالہ جات دیئے لہٰذا یاد ہے کہ روضتہ الشہداء کا مصنف ملاحسین کاشفی وہ شخص ہے۔ جو واقعہ کربلا کے متعلق من گھڑت واقعات و روایات لکھنے والا پہلا مصنف ہے۔ بعد میں جس قدر شیعہ سنی کتب میں رونے رلانے والے واقعات اور واقعہ کربلا کو رنگین بنانے کے لیے جو روایات موجود ہیں۔ ان سب نے اسے کاشفی سے نقل کیں جہاں تک اس کے شیعہ ہونے کا معاملہ ہے۔ وہ تو ہم نے شیعوں کی ان مستند کتابوں سے ثابت کر دیا ہے۔ جن کا موضوع ہی یہ تھا۔ کہ کون کون سے مصنف شیعہ ہیں ان کی کون کون سی کتابیں ہیں۔ امام مسلم کے بچوں کا واقعہ جب صاحب ناسخ التواریخ شیعہ نے لکھا۔ تو اس بات کا صاف اقرار کیا۔ کہ یہ واقعہ روضتہ الشہداء کے علاوہ کسی اور مستند کتاب میں مجھے نہ ملا۔ میں اسے اسی کتاب سے نقل کر رہا ہوں۔ اسی طرح دور حاضر کے ایک سنی مصنف مفتی حبیب اللہ سیالکوٹی نے "فاطمہ کا لال" نامی اپنی تصنیف میں بعض جگہ "روضتہ الشہداء" کا حوالہ دیا ہے۔ کاشفی کے شیعہ ہونے کے بعد اب ہم اس کی کتاب روضتہ الشہداء سے اس کے کذاب ہونے اور غم اہلِ بیتؓ کے بارے میں واقعات و روایات میں چند من گھڑت واقعات کو نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ قارئین کرام یہ جان سکیں کہ یہ مصنف کیسا تھا۔ 

نوٹ 

روضتہ الشہداء اصل فارسی بھی اگرچہ ہمارے پاس ہے۔ اور اس کی اصل عبارت بمعہ ترجمہ نقل کی جاسکتی تھی لیکن ہم نے اس کا صرف وہی ترجمہ پیش کیا ہے جو صائم نعت خواں نے کیا ہے۔ یہ اس لیے مناسب سمجھا۔ کہ ملاحسین کاشفی اور صائم نعت خواں دونوں ایک ہی مسلک کے پیرو ہیں۔ اس سے دونوں کا مسلک بھی معلوم ہو جائے گا۔ اور ہم اپنی بات بھی کر سکیں گے۔ اور طوالت سے بھی بچ جائیں گے۔ لہٰذا درج ذیل روضتہ الشہداء کی فوٹو کاپی کی جارہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ 

غم اہلِ بیتؓ کی ایک تصویر

واقعہ اوّل:

روضتہ الشهداء فارسی باب ہشتم صفحہ 203 روضته الشهداء مترجم جلد دوم صفحہ 46- پر یوں موجود ہے کہ عبد اللہ بن مبارک نے اہلِ بیت کی مظلومی و محرومی اور مجبوری کا واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک وقت میں حرم کی حاضری کیلئے توکل بخدا اکیلا ہی صحرا میں جا رہا تھا کہ اچانک میں نے بارہ تیرہ سال کی عمر کے ایک شہزادے کو دیکھا کہ وہ تنہا اور پیادہ چلا جار رہا ہے اس شہزادہ کے گیسو سیاہ اور چہر چاند کی طرح تھا۔ میں نے کہا! سبحان اللہ اس صحرا میں یہ کون شخص ہے۔ 

ایں کیست ایں، ایں کیست ایں، این یوسف ثانیست ایں!

یا نور با نیست ایں یا فیض سبحا نیست ایں! 

این کند، و رحمت رانگر در ساحت ایں بادیه 

خضر است والیاس میں مکر یا آب حیوانیست ایں!

میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا تو انہوں نے جواب عطا فرمایا۔

میں نے پوچھا! آپ کون ہیں؟

فرمایا: میں عبداللہ یعنی خدا کا بندہ ہوں۔ 

میں نے کہا! آپ کہاں سے آئے ہیں؟

فرمایا! من اللہ یعنی اللہ کی طرف سے آیا ہوں

میں نے کہا! آپ کو کہاں جانا ہے؟

فرمایا! الی اللہ یعنی خدا کی صرف جانا ہے

میں نے کہا! آپ کیا چاہتے ہیں؟ 

فرمایا! رضا اللہ، یعنی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتا ہوں۔

میں نے کہا! آپ کا زادِ راہ اور سواری کہاں ہے؟ 

فرمایا! میرا زادِ راہ توشۂ تقویٰ ہے، اور میری سواری میرے دونوں پاؤں ہیں۔

میں نے کہا! یہ خونخوار بیابان ہے، اور آپ نوسیدہ اور چھوٹی عمر کے ہیں، آپ کیا کریں گے؟

فرمایا ! تو نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو کسی کی زیارت کی طرف متوجہ ہوا اور وہ شخص اُسے ہے بہرہ اور محروم کر دے۔

میں نے کہا! اگرچہ آپ کی عمر چھوٹی ہے، مگر بات بہت بڑی کی ہے۔ آپ کا نام کیا ہے۔؟

فرمایا! اے ابن مبارک مصیبت زدگانِ روز گاری کی پوچھتے ہو، اور نام سے کیا نشان تلاش کرو گے؟

صنم ور غمش بید لے ناتوانے 

نہ اِسمے نہ رسمے نہ جسمے نہ جانے 

ضعیفے، نحیفے، غمش را حریفے 

بصورت حفیفے بمعنے گرانے۔

میں نے کہا! اگر آپ نام نہیں بتانا چاہتے تو خدا کے لئے یہی بتا دیں کہ آپ کس قوم اور قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ 

انہوں نے دل پر درد سرد آہ کھینچی اور فرمایا: نحن قوم مظلوم. ہم ستم رسیدہ لوگ ہیں.

نَحْنُ قَوْم مطروبین. یعنی ہم بے وطن اور غریب الدیار قوم سے ہیں، 

نحن قَوْم مَقْهُورُون، یعنی ہم اس قوم سے ہیں جس پر قہر و غضب توڑا گیا ۔ 

میں نے کہا، میں کچھ نہیں جان سکا، آپ اپنے بیان میں اضافہ فرمائیں۔ انہوں نے چند شعر پڑھے، جن کا مضمون یہ ہے، 

ہم آنے والوں کو حوض کوثر سے پانی پلانے والے ہیں۔ 

نجات پانے والا شخص ہمارے وسیلہ کے بغیر مراد کو نہیں پہنچے گا، جو شخص ہم سے دوستی رکھے گا ہرگز بے بہرہ نہیں رہے گا، اور جو ہمارا حق غصب کرے گا ہم قیامت کے دن ہمارے لئے اور اس کے لئے محکمہ جزاء کی وعدہ گاہ ہوگی انہوں نے یہ بات کی اور میری نگاہوں سے غائب ہو گئے، میں نے بہت تاسف کیا کہ میں انہیں نہ جان سکا کہ وہ کون تھے۔ 

جب میں مکہ معظمہ میں پہنچا تو ایک دن طواف میں لوگوں کا ایک گروہ دیکھا جس نے ایک شخص کو حلقے میں لے رکھا تھا، اور بہت سے لوگ اُس کے قدموں میں کھڑے تھے، میں جب اُن کے سامنے ہوا تو دیکھا کہ یہ وہی صاحبزادے ہیں اور لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو کر حلال و حرام کے مسائل اور قرآن وحدیث کے حقائق پوچھ رہے ہیں، اور وہ زبانِ فصیح اور بیانِ ملیح سے اُن کی مشکلات کی گرہیں کھول رہے ہیں، میں نے کہا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا افسوس ہے تو انہیں نہیں جانتا، یہ وہ ہیں جنہیں وادی مکہ کے سنگریزے بھی پہچانتے ہیں یہ آل عبائے آدمؑ ، شہید کربلا کے قرۃ العین، علی بن حسین سیدنا زین العابدینؒ  ہیں عبد اللہ بن مبارکؒ نے یہ بات سنی تو آگے بڑھ کر امام عالی مقام کے مبارک ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا۔ اور روتے ہوئے کہا، اے رسول اللہ کے بیٹے آپ نے مظلومی و مقہوری اور اہلِ بیتؓ کی مہجوری کے بارے میں جو فرمایا ہے وہ درست ہے اس امت میں کسی جماعت کو وہ مصیبت نہیں پہنچی جو حضور رسالت مآبﷺ کی اہلِ بیتؓ کو پہنچی ہے، ہر رات اور دن کو رنج و تعب اُن کے قریب ہوتے اور ہر دم کے ساتھ وہ درد و الم کے ہم نشین ہوتے اگر قبا پہنتے تو اسمیں قہر کا بخیہ ہوتا اگر لقمہ کھاتے تو اُس میں مصیبتوں کا زہر ہوتا۔

عبداللہ بن مبارکؒ کی سیدنا زین العابدینؓ سے ملاقات اور پھر غم کی تصویر

قارئین کرام! اپنے مذکورہ واقعہ پڑھا جس کا تانا بانا اس پر رکھا گیا کہ سیدن عبد اللہ بن مبارکؒ اور سیدنا زین العابدینؓ کی کسی جنگل میں ملاقات ہوئی اس وقت سیدنا زین العابدینؓ کی عمر بارہ تیرہ سال کے لگ بھگ تھی عبداللہ بن مبارکؒ نے ہر طریقے سے معلوم کرنا چاہا۔ کہ یہ لڑکا کون ہے لیکن اس کی مظلومیت کے سوا اور کچھ نہ جان سکے۔ اور اور اس کی مظلومیت نے آپ کو حیران پریشان کر دیا۔ لہٰذا ثابت ہوا۔ کہ جن کی مظلومیت پر عبداللہ بن مبارکؒ ایسے شخص پریشان ہو گئے۔ اُن کی مظلومیت پر آنسو بہانا اور غم و پریشانی کا اظہار ایک مستحسن امر ہے۔ اور اہلِ بیتؓ سے محبت کی ایک علامت ہے۔

 اس واقعہ سے ہٹ کر ہم اہلِ سنت سیدنا عالی مقام اور خاندانِ اہلِ بیتؓ سے محبت کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر سیدنا عالی مقام کے مبارک قدموں سے لگی مٹی آنکھوں میں ڈالنے کا موقعہ میسر آجائے۔ تو یہ ہمارے لیے باعث فخر ہو گا۔ اور رسول کریمﷺ کے سینہ اقدس پر چڑھنے والی شخصیت کی طرف منسوب کوئی چیز مل جائے۔ تو اُسے حرزِ جان و ایمان سمجھتے ہوئے قبر میں اپنے ساتھ لے جائیں۔ خارجیوں کی طرح ہم دشمنان اہلبیتؓ نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ حضورﷺ کے ارشاد پاک کے مطابق اگر کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب کرتا ہے، تو وہ جہنمی ہے۔ فقیر اپنی تصنیف فقه جعفریہ جلد سوم میں شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم شیخ عباس قمی کی عبارت نقل کر چکا ہے۔ کہا کہ مجالس حسین میں اکثر جھوٹے واقعات و روایات بیان ) ، جاتی ہیں۔ ان با برکت محافل میں جھوٹ کا واقعہ بیان کرنا اپنی حقیقی ماں سے ستر بار زنا کرنے سے بدتر ہے۔

اب آئیے ملاحسین کاشفی کے ذکر کردہ واقعہ کی طرف کہ اس میں کتنی صداقت ہے؟

کیا عبداللہ بن مبارکؒ اور سیدنا زین العابدینؓ کی ملاقات ہوئی؟

شیعہ سنی دونوں کی طرف کتب اس بات کی شاہد ہیں۔ کہ سیدنا زین العابدینؓ کی ولادت 38ھ اور وصال 95ھ میں ہوا۔ اور حضرت عبد اللہ بن مبارک کی پیدائش 118ھ میں اور انتقال 181ھ میں ہوا۔ سیدنا زین العابدینؓ کی کل عمر ستاون برس ہوئی۔ دونوں حضرات کی پیدائش و وصال شیعہ سنی دونوں طرف کی کتب متداولہ مشہورہ سے ملاحظہ فرمائیں۔

الكنى والالقاب:

ابن المباركؒ البو عبد الرحمن عبد الله بن المباركؒ المروزي العالم التاج العارف المحدث... مولود و بمبر و 118ھ وفات 181ھ۔

(الکنی و الالقاب جلد اول صفحہ نمبر 400 تذکره ابن المبارک)

ترجمہ 

عبد الرحمن عبد الله بن مبارکؒ مروزی بہت بڑے عالم ، زاہد اور محدث تھے ۔ ان کی پیدائش مقام مرد میں 118ھ میں اور ان کا وصال 181ھ میں مقام بہیت ہوا۔

تاریخ الائمه:

 آپ حضرت سید الشہداء سیدنا حسینؓ کے صاحبزادے اور شیعوں کے چوتھے امام ہیں۔ بنا بر قول جناب شیخ مفید وشیخ طوسی رحمہ اللہ 15 جمادی الاولی 38ھ کو مدینہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔

دو سال چند ماہ تک جد بزرگوار امیر المومنین کی آغوش عاطفت میں پرورش پائی۔ پھر پانچ ہجری تک مکہ معظمہ اور بزرگوار کے ہمراہ 10 محرم 61 ہجری تک محض والد ماجد کے ساتھ رہے اور واقعہ کربلا کے بعد خاندان رسالت کے سردار اور شیعوں کی ظاہری امام قرار پائے 34 سال مشغول ہدایت دار شاد ناس رہ کر 25 محرم 95 ہجری اور 714 عیسوی طرف عالم جادوانی کے رحلت فرمائی۔

(تاریخ الائمہ باب چہارم صفحہ نمبر 282 حالات سیدنا زین العابدینؓ۔) 

کشف الغمہ فی معروفۃ الائمہ

فَأَمَّا وَلَادَتُهُ فَيا المدينة في الْخَمِيسِ الْخَامِسِ مِنْ شَعْبَانَ سَنَة ثَمَانٍ وَثَلَا ثِيْنَ وَأَمَّا عُمْرُهُ فَإِنَّهُ مَاتَ فِي نَامِنِ عَشَرَةَ المُعزم مِن سَنَةٍ أَرْبَعَ وَتِسْعِينَ وَقِيلَ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرَ وَلَا دَتِهِ فِي سَنَتِهِ ثَمَانٍ وَ ثَلَا ثِيْنَ فَيَكُونُ عمره سَبْعَ وَخَمسُونَ سَنَةً

(كشف الغمه في معروفة الائمة جلد دوم صفحہ نمبر 73 ذكرا الامام الرابع البو الحسن علي بن حسين مطبوعه (تبریز)

ترجمہ

سیدنا زین العابدینؓ کی ولادت مدینہ منورہ جمعرات پانچ شعبان المعظم 38 ہجری کو ہوئی اپ نے چونکہ آٹھویں محرم 94 ہجری یا 95 ہجری میں وصال فرمایا اس لیے اپ کی عمر 57 برس ہوئی۔

البدایۃ والنہایہ:

وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ التَّارِيخ في السَّنَّةِ توفي فِيمَا عَلِيُّ ابْنُ الْحُسَيْنِ زَيْنَ الْعَابِدِينَ ، فَالْمَشْهُورُ عَنِ الْجَمْهُورِ أَنَّهُ تُونِي فِي هذه السنة اعُنِي سَنَةً أَرْبَعَ وَتِسْمِينَ فِي أَوْ لِمَاعَهُ تَمَانَ وَخَمْسِينَ سنة وصلى عليه بالبقيع و دفن به.

(البداية والنهاية جلد ص ما ذكر علی بن حسین مطبوعه بيروت۔

ترجمہ:

مؤرخین کا اختلاف ہے کہ سیدنا زین العابدینؓ کس سال فوت ہوئے جمہور سے مشہور یہ ہے کہ آپ نے 94 ہجری میں انتقال فرمایا اس طرح آپ کی کل عمر 58 برس ہوئی نمازِ جنازہ جنت البقیع میں ادا کی گئی اور وہیں دفنائے گئے۔

تذكرة الحفاظ

عبد الله بن المباركؒ بن واضح الامام الحفاظ العلامة شيخ الاسلام وفخر المجاهدين قدوة الزاهدين.. و لد سنة ثماني عشرة و و مات ابن المباركؒ بهیت في رمضان سنة احدى وثمانين وما بحمۃ اللّٰہ علیہ

(تذكرة الحفاظ جلد اول صفحہ 256 تذكرة عبد الله بن المبارك)

ترجمہ:

 عبداللہ بن مبارکؒ بہت بڑے امام حافظ اور علام ہونے کے علاوہ شیخ الاسلام ، فخر المجاہدین اور قدوة الزاہدین تھے۔ آپ ایک سو اٹھارہ ہجری میں پیدا ہوئے اور مقام بہیت پر رمضان شریف 181 ہجری میں انتقال فرمایا ۔ 

قارئینِ کرام دونوں طرف کی کتب سے اپ نے سیدنا زین العابدینؓ اور عبداللہ بن مبارکؒ کی تاریخِ ولادت و انتقال ملاحظہ فرمائی۔ سیدنا زین العابدینؓ کی وفات میں ایک سال کا اختلاف ہے کہ وہ 94 ہجری میں یا 95 ہجری میں ہوئی ہم 95 ہجری میں تسلیم کر لیتے ہیں لیکن حضرت عبداللہ بن مبارک کے بارے میں ولادت و انتقال کا کوئی اختلاف نہیں ہے اب دونوں حضرات کے دونوں تاریخوں کا مواز نہ کریں۔۔ 

سیدنا زین العابدینؓ کی ولادت 38 ہجری ، عبد الله بن المبارکؒ کی ولادت 118 ہجری سیدنا زین العابدینؓ کی وفات 95 ہجری ، عبدالله بن المبارکؒ کی وفات 181 ہجری۔گویا سیدنا زین العابدینؓ کے وصال کے 23 سال بعد عبداللہ بن مبارکؒ کی پیدائش ہوتی ہے۔ اور جب سیدنا زین العابدینؓ کی عمر شریف بارہ تیرہ برس ہوگی ۔ تو اس وقت ابھی عبداللہ بن مبارکؒ کی پیدائش کو 68 سال پڑے تھے ۔ لہٰذا 68 سال بعد میں پیدا ہونے والا بوڑھا نظر آ رہا ہے اور 68 سال پہلے پیدا ہونے والا تیرہ سال کا لڑکا نظر آرہا ہے۔ اب آپ حضرات نے بخوبی جان لیا ہوگا کہ واقعہ مذکورہ کی کیا حقیقت ہے عبداللہ بن مبارکؒ" امیر المومنین فی الحدیث" کے بارے میں یہ سب واقعہ کھڑا کر کے ایک تاریخی جھوٹ بن گیا اس واقعہ کو رنگینی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور غمِ اہلِ بیتؓ سے لوگوں کو گرما کر آنسو بہائے جاتے ہیں کس قدر یہ فریب ہے۔۔؟ اور افسوس ان سنّیوں پر ہے جو ایسی انہونی باتوں کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں اور ان واضعین پرحیف جو مزے لے لے کر یہ جھوٹ بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سچ اور جھوٹ کے مابین امتیاز کی توفیق عطا۶ فرمائے آمین

واقعه دوم:

سیدنا حسینؓ کی چار سالہ بچی کا غم اور الم کی حالت میں دربار یزید میں وفات پانا:

(روضة الشهرار فارسی صفحہ 367 مطبوعہ نولکشور لکھنو - روضته الشهداء مترجم 437.)

 شہزادی حسینؓ کا وصال:

کنز الفرایب میں روایت آئی ہے کہ یزید نے اہلِ بیتؓ کو محل کے اندر جگہ دے رکھے دے رکھی تھی اہلِ بیتؓ کے ساتھ سیدنا حسینؓ کی ایک سالہ صاحبزادی تھی جس کے ساتھ آپ بہت زیادہ محبت فرما دیتے اور وہ بھی اپنے بابا جان سے انتہائی محبت کرتے تھے جب آپ کے ابا جان شہید ہو گئے تو آپ پوچھا کرتیں میرے بابا کہاں ہیں۔؟

اہلِ بیتؓ انہیں کہا کرتے ہیں وہ ایک جگہ تشریف لے گئے علاوہ ازیں انہیں مختلف طریقوں سے تسلی دیا کرتے تھے۔

انہیں اپنے ابا جان کا بے حد شوق تھا ان دنوں اہلِ بیت یزید کے محل میں قیام پذیر تھے ایک رات اس صاحبزادی نے اپنے باپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ نے انہیں گود میں اٹھا رکھا ہے ۔ وہ انتہائی مسرت کی وجہ سے بیدار ہوئیں مگر جب ان کو نہ دیکھا تو آپ کا شوق اور بڑھ گیا، در مضطرب ہو کر فریاد و فغاں کرنے لگئیں ان سے پوچھا گیا تو فرمایا میں نے ابھی ابھی خواب میں خود کو اپنے بابا کی آغوش میں بیٹھے ہوئے دیکھا تھا مگر جب آنکھ کھولی تو وہ مجھے نظر نہیں آئے بتائیں میرے بابا کہاں ہیں کیونکہ مجھے میں ان کا فراق برداشت کرنے کی طاقت نہیں

 اہلِ بیت کرام ہر چند نے صبر و شکیبائی سے کام سے مار انہوں نے جواب دیا علم انه مرا ناس تعینمان نیست تانت در فراق سب جہانی میست پ با تو می بند با به و بیرت پاس بنا دیں یا آپ یا تو میرے بابا کو میرے پاس بھیج دیں یا مجھے بابا کے پاس بھیج دیں اہلِ بیت نے یہ بات سنی تو ایک دم فریاد و فغاں کرنے لگے ان کی چینخ و پکار کی آواز یزید کی خوابگاہ میں پہنچی تو اس نے ایک شخص کو بھیجا کہ معلوم کر اہلِ بیت کو کیا واقعہ پیش آیا ہے۔

اس شخص نے واپس آکر یزید کو بتایا کے سیدنا حسینؓ کی صاحبزادی نے اپنے باپ کو خواب میں دیکھا تو آپ کی زیارت کےلیے بیقرار ہوگئی ہے۔  

یزید نے کہا جاکر اس کے باپ کا سر اُسے دکھاؤ شائد اُسے کچھ اطمینان حاصل ہو جاۓ 

یزید نے سیدنا حسینؓ کے سر کو اپنے خاص کمرے میں اپنی نگاہوں کےسامنے رکھا ہوا تھا۔ خادمان مزید پلید نے سر مبارک کو چاندی کے تھال میں رکھا اور اوپر ریشمی رومال ڈال کر اہلِ بیت کرام کے پاس کے گئے ، اور کہا یزید نے کہا یہ بچی دکھا دیں شائد اسے اطمینان حاصل ہو جائے۔ جب بچی کے سامنے تھال رکھا گی تو اُس نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ 

انہوں نے کہا جو کچھ تو طلب کر رہی ہے وہی ہے۔

بچی نے رومال اُٹھا کر سر کو دیکھا تو اُس سر کو اٹھا کر دیکھنے لگی پھر جب اس نے پہچانا کہ یہ میرے بابا کا سر ہے ، تو سینے سے آہ کھینچتے ہوئے اپنے چہرے کو باپ کے چہرے سے ملنے لگی اور آپ کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کہ اُسی وقت رحلت فرما گئیں

 قارئین کرام : سیدنا حسینؓ کی ایک صاحبزادی جس کی چار سال عمر لکھی گئی ۔ اور دربار یزید میں اس کی موت کا جو نقشہ ملا حسین کاشفی نے نے کھینچا۔ کیے آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ اس واقعہ کا مقصد محض نوحہ خوانی اور اپنی دوکان چمکانا ہے۔ ورنہ حقیقت کچھ اور ہے ۔ ان نام نہاد محبان اہلِ بیت کو ذرا شرم نہیں آتی کہ حضرات ائمہ کرام کے نسب میں کذب بیانی اور بہتان طرازی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تیسری صاحبزادی کہاں سے لے آئے ؟ گذشتہ اوراق میں ہم امام عالی مقامہ کی اولاد امجاد کے بارے میں تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔ آپ کی دو صا حبزادیاں تھیں ۔ 

(1) سیده سکینهؓ (2) سیدہ فاطمہ صغریؓ دو ہی صاحبزادیوں کے ہونے کی توثیق شیخ مفید، اعلام الورٰی کے حوالہ سے تاریخ الامر میں صفحہ 280 پر مذکور ہے ۔ امام عالی مقام کی پانچ بیویوں سے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان میں سیدہ فاطمہؓ بڑی تھیں جن کی شادی سیدنا حسنؓ کے بیٹے سیدناحسنؓ مثنٰی سے اور سیدہ سکینہؓ کی شادی سیدنا حسنؓ کے دوسرے بیٹے سیدنا عبد اللہؓ سے ہوئی تھی۔

واقعہ کربلا کے وقت دونوں شادی شدہ تھیں اور دونوں کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور تیسری صاحبزادی ہوتی تو اس کا ذکر امام عالی مقام کی اولاد میں ہوتا پھر ان کی وصال کے بارے میں گفتگو ہوتی لیکن کہیں اتا پتا نہیں ملتا خود ملا حسین کاشفی یہاں سے چار سالہ تیسری صاحبزادی کا ذکر عجیب مظلومانہ انداز میں کر رہا ہے اور جب خود ہی اسی کتاب کے صفحہ 477 میں امام عالی مقام کی اولاد کا ذکر کرتا ہے تو اس چار سالہ صاحبزادی کا ذکر تک نہ کیا سچ کہتے ہیں "دروغِ گوارا حافظہ نہ باشد" جوٹھے کی یاداشت ختم ہو جاتی ہے صرف دو صاحبزادیاں تھیں ان کے وصال کے بارے میں ملاحظہ ہو۔

منتهى الأمال:

 و فاطمه درتقوی و کمال و فضائل و جمال نظیر و عدیل نه داشت واو راحورعین می نامند در سال یک صد و هفدهم هجری در مدینه وفات یافت و خواهرش جناب سکینہؓ ہم درآں سال در مدینه برحمت، یزدی پیوست. 

(منتہی الآمال جلد اول صفحہ 540 دور بیان اولاد سیدنا حسینؓ)

 ترجمہ: سیده فاطمه صغریٰؓ ، نہایت پرہیزگار، صاحب کمال فضائل اور خوبصورتی میں بے مثل تھیں۔ ان کو "حور عین" کہتے تھے 117ہجری کو مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا۔ ان کی ہمشیرہ سیدہ سکینہؓ بھی اسی سال مدینہ منورہ میں اللہ سے جائیں۔ 

فَاعْتَبِرُوايَا أُولِي الْأَبْصَار