ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
جعفر صادقامُ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
نام: عائشہ
کنیت: امِ بداللہ
القابات: حبیبۃ الرسول، صدیقہ، حمیرا
والد: ابوبکر صدیقؓ
قبیلہ: قریش شاخ بنو تمیم
والدہ: امِ رومانؓ قبیلہ قریش شاخ بنو کنانہ
سنِ پیدائش: 5 نبوی بعثت نبوی کے پانچ برس بعد
قبیلہ: قریش شاخ بنوتمیم
زوجیتِ رسولﷺ: 1 ہجری ہجرت کے 1 برس بعد
سنِ وفات: 58 ہجری
مقامِ تدفین: جنتُ البقیع مدینہ منورہ
کل عمر: 67 سال تقریباً
نام و نسب:
نام عائشہؓ ہے، والد کی طرف سے سلسلہ نسب اس طرح ہے: عائشہ بنتِ ابی بکرؓ بن ابی قحافہؓ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک۔ جب کہ والدہ محترمہ کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ یوں ہے: عائشہ بنتِ امِ رومان زینبؓ بنتِ عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔
کنیت:
آپؓ کی کنیت اُمِ عبداللہ ہے۔ اگرچہ سیدہ عائشہؓ کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ایک مرتبہ آپؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ خواتین نے تو اپنی اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لیں، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ آپﷺ نے فرمایا: اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو۔ اس وجہ سے آپ نے اپنی کنیت امِ عبداللہ رکھ لی۔ سیدنا عبداللہؓ یہ سیدہ اسماء بنتِ ابی بکرؓ کے بیٹے ہیں، سیدہ اسماء بنتِ ابی بکرؓ کی شادی مشہور صحابی رسول سیدنا زبیر بن عوامؓ سے ہوئی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کے نمایاں کارنامے حدیث و تاریخ کی کتب میں بکثرت موجود ہیں۔
القابات و خطابات:
سیدہ عائشہؓ چونکہ متعدد خوبیوں کی مالک تھیں اس لیے آپ کےالقاب بھی متعدد ہیں۔ چند یہ ہیں: (صدیقہ) ہمیشہ سچ بولنے والی (حبیبۃ الرسول) یعنی آپؓ سے رسول اللہﷺ بہت زیادہ محبت فرماتے(المُبرۃ) جس کی پاکدامنی کی گواہی اورآپ پر لگنے والےجھوٹے الزام سے برات اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں نازل فرمائی(طیبہ، طاہرہ) پاکباز اور پاکیزہ سیرت کی مالکہ (حمیراء) سرخ رنگت والی۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے آپؓ کو بنتِ الصدیق کا خطاب بھی عنایت فرمایا۔ اسی طرح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے آپؓ کو محبت میں یا عائش بھی فرمایا۔
خاندانی پسِ منظر:
سیدہ عائشہؓ کا والد کی طرف سے کا نسب رسول اللہﷺ کے نسب سے مرہ بن کعب پر آٹھویں پشت میں مل جاتا ہے جبکہ والدہ کی طرف سے آپؓ کا نسب رسول اللہﷺ کے نسب سے مالک بن کنانہ پر گیارہویں پشت میں مل جاتا ہے۔ یوں آپ کا ننھیال اور ددھیال دونوں رسول اللہﷺ کے نسب میں مل جاتے ہیں۔
ولادت:
آپؓ کی ولادت نبی کریمﷺ کے اعلانِ نبوت کے5 سال بعد ماہِ شوالُ المکرم مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
بچپن:
سیدہ عائشہؓ کا بچپن بہت خوشگوار گزرا ہے، جہاں آنکھ کھولی وہ گھر صداقت کا گہوارہ تھااور بچپنے میں ہی جہاں جا کر ازدواجی زندگی بسر فرمائی وہاں نبوت کا بسیرا تھا۔ اس لیے چاق وچوبند ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ صلاحیتوں نے آپؓ کی شخصیت کو خوب نکھارا۔ علم و ادب سے گہری وابستگی، فطری حاضر جوابی، ذکاوت و ذہانت، مذہبی واقفیت اور غیر معمولی قوتِ حافظہ کی وجہ سے آپؓ کو اپنی سہیلیوں میں امتیازی مقام حاصل ہے۔
لباس:
عام طور پر ایک سادہ مگر پاک و صاف جوڑا زیب تن فرماتیں، آپ کے پاس ایک ایسا کرتا بھی تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی، اس زمانے کے اعتبار سے اسے قیمتی جوڑا شمار کیا جاتا، شادی بیاہ کے موقعوں پر دلہنیں اس جوڑے کو عاریتاً منگواتی اور کچھ دنوں بعد آپؓ کو واپس کر دیتیں۔ کبھی کبھار اپنے کپڑے کو زعفران میں رنگ کر استعمال فرما لیتیں۔ آپ کے پاس سرخ رنگ کا کرتا بھی موجود تھا، ایک سیاہ رنگ کا دوپٹہ بھی تھا۔ آپؓ کے پاس ایک بڑی چادر بھی تھی ایامِ حج و عمرہ میں طوافِ کعبہ کے دوران اسے اوڑھ لیا کرتیں تاکہ لوگوں سے پردے میں رہیں۔ مہندی اور خوشبو بھی استعمال فرماتیں۔
زیور:
آپؓ کبھی کبھی گلے میں یمنی ہار پہنتیں جو سیاہ و سفید مہروں سے بنا ہوا تھا، انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں بھی پہنا کرتی تھیں۔
کھیل کود:
کھیل کود بچپنے کا لازمی حصہ ہےاور صحت مند ذہن کا عکاس آپؓ کو بھی کھیل کود کا شوق تھا اور ان میں دو کھیل آپ کے پسندیدہ تھے۔ گڑیوں سے کھیلنا اور جھولا جھولنا۔
آپﷺ جب گھر میں تشریف لاتے، سیدہ عائشہؓ اپنی سہیلوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیل رہی ہوتیں تو آپﷺ کی آمد پر آپؓ کی چھوٹی چھوٹی سہیلیاں چھپ جاتیں اور گڑیوں کو بھی چھپا لیتیں۔ آپﷺ بچیوں کو بلاتے اور سیدہ عائشہؓ کے ساتھ کھیلنے کو کہتے۔
رسول اللہﷺ غزوہ تبوک یا غزوہ خیبر (کسی ایک) سے واپس تشریف لائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا۔ اتنے میں ہوا ذرا تیز ہوئی تو اس نے پردے کی ایک جانب اٹھا دی تب سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئے۔ آپ نے پوچھا عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ میری گڑیاں ہیں۔ آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے۔ آپﷺ نے اس گھوڑے کے بارے بطورِ خاص پوچھا میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: یہ گھوڑا ہے۔ آپﷺ نے پوچھا اور اس کے اوپر کیا ہے؟ میں نے کہا: اس کے دو پر ہیں۔ آپﷺ نے کہا کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟ میں نے کہا کہ: آپ نے سنا نہیں کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ سیدہ عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ بہت ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی داڑھیں مبارک دیکھیں۔
آپؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن میری والدہ امِ رومانؓ آئیں، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی۔
خواب میں بشارت:
جس کو خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت ہو جائے وہ بہت خوش نصیب انسان ہوتا ہے اور اسے چاہیئے کہ وہ اپنی ساری زندگی نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے مطابق بسر کرے۔ یہ خوش نصیبی ایک مومن کے لیے ہے جبکہ امُ المومنین سیدہ عائشہؓ کی خوش نصیبی کا عالم یہ ہے کہ سرورِ کائناتﷺ نے خواب میں آپؓ کی زیارت کی۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: میں نے تمہیں دوبار خواب میں دیکھا ہے ایک شخص میرے پاس آیا اس کے پاس ریشمی کپڑے میں تمہاری صورت تھی اور مجھے کہا کہ یہ آپ کی ہونے والی اہلیہ ہے، میں نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو صورت تمہاری تھی تب میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور پورا فرمائیں گے۔
پیغامِ نکاح:
امُ المومنین سیدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد سیدہ خولہ بنتِ حکیمؓ نے جیسے امُ المومنین سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ کے پاس آپﷺ کا پیغام نکاح لے کر گئیں، جو انہوں نے بصدِ سعادت قبول کیا اسی طرح آپﷺ کا پیغام نکاح لے کرسیدہ عائشہ صدیقہؓ کے گھر بھی گئیں اور سیدہ عائشہؓ کی والدہ محترمہ سیدہ امِ رومانؓ کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا، سیدہ امِ رومانؓ بہت خوش ہوئیں اورفرمانے لگیں کہ سیدنا ابوبکرؓ کا انتظار کر لینا چاہیئے سیدنا ابوبکرؓ تشریف لائے انہیں سارا معاملہ بتایا گیا۔
شبہِ صدیقی کا نبوی جواب:
آپؓ نے فرمایا کہ محمدﷺ تو میرے منہ بولے بھائی ہیں اس نسبت سے تو میری بیٹی عائشہؓ ان کی بھتیجی ہوئی۔ بھتیجی سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ سیدہ خولہؓ نے آپﷺ کو بتایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے دینی بھائی ہیں لہٰذا نکاح جائز ہے سیدنا ابوبکرؓ نےاس سعادت پر لبیک کہا۔
پہلی نسبت ٹوٹنے کی وجہ:
رسول اللہﷺ کے پیغام نکاح سے پہلے سیدہ عائشہؓ کی نسبت جبیر بن مطعم بن عدی سے ہوچکی تھی، اِس لیے اُن سے پوچھنا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ مطعم بن عدی کے پاس گئے اور فرمایا کہ تم نے عائشہؓ کی نسبت اپنے بیٹے جبیر سے کی تھی، اب آپ کا کیا خیال ہے؟ مطعم بن عدی نے اپنی بیوی سے مشورہ لیا ان کے خاندان نے ابھی تک دعوتِ اسلام پر لبیک نہیں کہا تھا اُن کی بیوی نے کہا: اگر یہ لڑکی (سیدہ عائشہؓ) ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بے دِین ہو جائے گا (یعنی بت پرستی چھوڑ دے گا) لہٰذا ہمیں یہ بات منظور نہیں۔
نوٹ: یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ صرف نسبت طے ہوئی تھی یعنی منگنی ہوئی تھی، نکاح یا رخصتی وغیرہ نہیں ہوئی تھی۔ یعنی سیدہ عائشہؓ کنواری تھیں، نبی کریمﷺ سے پہلے کسی سے نکاح نہیں ہوا۔
سیدہ عائشہؓ ام المؤمنین بنتی ہیں:
سیدہ عائشہؓ اپنے نکاح والے دن کے بارے میں بتلاتی ہیں کہ ایک دن میری والدہ سیدہ ام رومانؓ آئیں، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوں نے مجھے آواز دی میں آ گئی۔ مجھے اس بات کا کچھ علم نہیں تھا کہ ان کا کیا ارادہ ہے؟ خیر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازے کے پاس کھڑا کر دیا اور جھولا جھولنے کی وجہ سے میرا سانس پھولا جا رہا تھا، کچھ دیر بعد جب مجھے کچھ سکون سا ہوا تو انہوں نے پانی سے میرا منہ اور سر دھویا۔ اس کے بعد مجھے گھر کے ایک کمرے میں لے گئے۔ جہاں پہلے سے انصار کی چند خواتین موجود تھیں، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے خیر و برکت کی دعا دی اور کہا کہ اچھا نصیب لے کر آئی ہو، میری والدہ نے مجھے انہیں کے حوالہ کیا اُنہوں نے مجھے دلہن کی طرح سجایا۔ اس کے بعد جب دن چڑھا تو رسول اللہﷺ تشریف لائے اور انہوں نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ بنو حارث کے محلہ میں رہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ 7 یا 8 مہینوں تک اپنی والدہ سیدہ امِ رومانؓ کے ساتھ رہیں۔ اس دوران اکثر مہاجرین کو یثرب مدینہ منورہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی اور لوگ بیمار پڑ گئے۔ انہی میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ بھی تھے وہ بھی سخت بیمار ہوئے، سیدہ عائشہؓ اپنے والد کی تیمارداری میں مصروف رہیں۔ کچھ دنوں بعد آپؓ بھی بخار میں مبتلا ہوگئیں، مرض کی شدت کا یہ حال تھا کہ آپ کے سر کے بال تک جھڑ گئے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کچھ عرصہ بعد میرا بخار اتر گیا اور میں صحت یاب ہوگئی۔ رسول اللہﷺ سے میرے والد سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! آپ اپنی اہلیہ کو رخصت کیوں نہیں کرا لیتے؟ اِس میں کیا رکاوٹ ہے؟ یعنی آپ اپنی زوجہ اپنے گھر کیوں نہیں بلوا لیتے؟ آپﷺ نے فرمایا: اِس وقت میرے پاس حق مہر ادا کرنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ آپﷺ کی یہ بات سن کرمیرے ابو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے آپﷺ کو 500 دراہم دیے۔ آپﷺ نے یہ تمام رقم مجھے بھجوائی اور میری رخصتی عمل میں آئی۔
امتیازی خصوصیات:
خود سیدہ عائشہؓ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: 9 باتیں ایسی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں:
- خواب میں فرشتے نے آپﷺ کے سامنے میری صورت پیش فرمائی۔
- 7 سال میں میرے ساتھ اللہ کے نبیﷺ نے نکاح فرمایا۔
- 9 برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔
- امہات المومنینؓ میں میرے سوا کوئی بیوی پہلے کنواری نہیں تھی۔
- امہات المومنینؓ میں سے صرف میرے بستر پر قرآنِ کریم نازل ہوتا۔
- مجھے آپﷺ کی محبوب ترین بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے۔
- میرے حق میں قرآنِ کریم کی آیات اتریں۔
- میں نے جبرئیل امین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
- رسول اللہﷺ نے میری گود میں سر رکھے وفات پائی۔
علمی جلالت شان:
سیدنا ابو موسیٰ الاشعریؓ فرماتے ہیں: ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب کسی مسئلے میں مشکل پیش آتی تو ہم سیدہ عائشہؓ سے اِس بارے میں سوال کرتے تو آپؓ ہماری صحیح رہنمائی فرماتیں۔
مشہور تابعی امام زہریؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر اِس اُمت کی تمام عورتوں کے جن میں اُمہات المومنینؓ بھی شامل ہوں، علم کو جمع کرلیا جائے تو سیدہ عائشہؓ کا علم اُن سب کے علم سے زیادہ ہے۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو سیدہ عائشہؓ سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا۔
سیدنا عروہ بن زیبرؓ فرماتے ہیں کہ قرآن، علم میراث، حلال و حرام، فقہ و اجتہاد، شعر و ادب، حکمت و طب، تاریخ عرب اور علم انساب میں سیدہ عائشہؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔
معروف تابعی سیدنا مسروقؒ سے پوچھا گیا: کیا سیدہ عائشہؓ فرائض (میراث) میں ماہر تھیں؟ فرمایا ہاں! اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے مشائخ و اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ آپ سے فرائض (میراث) کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔
محدثین نے آپؓ کا شمار ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ کیا ہے جو کثرت کے ساتھ روایت کرنے والے ہیں۔
معانی قرآنی، فقہ و اجتہاد، علم میراث، شعر وادب، طب و حکمت، تاریخ عرب اور علم الانساب میں بھی آپؓ کا ہم پلہ کوئی نہیں اس کے ساتھ ساتھ علم حدیث میں آپؓ کی جو خدمات ہیں چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ امہات المومنینؓ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بڑھ کر ہیں۔ آپؓ مسائل کا شرعی بتلاتیں اور فتویٰ بھی دیا کرتی تھیں۔
عبادات و معمولات:
فرائض، واجبات اور سنتوں کی ادائیگی میں زندگی بھر کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوئیں اس کے ساتھ ساتھ نوافل و مستحبات میں بھی بہت دلچسپی تھی۔
نبی کریمﷺ جب تہجد کے لیے اٹھتے تو آپؓ بھی اٹھتیں اور نماز تہجد ادا فرماتیں۔ چاشت کی 8 رکعات کا معمول زندگی بھر رہا۔ اکثر روزہ سے ہوتیں۔ ایک دفعہ گرمیوں میں عرفہ کا دن تھا آپؓ روزے سے تھیں گرمی اس قدر سخت تھی کہ بار بار سر پر پانی ڈالتیں آپؓ کے بھائی سیدنا عبدالرحمٰنؓ نے کہا جب اتنی گرمی تھی تو روزہ کیوں رکھا؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں بھلا یومِ عرفہ کا روزہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں جبکہ میں نے نبی کریمﷺ سے خود سنا ہے کہ عرفہ کا روزے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حج کی پابند تھیں بہت کم ایسا ہوا کہ آپؓ نے حج نہ کیا ہو۔ آپؓ نے کثرت کے ساتھ غلاموں کو آزاد کیا۔
آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔ حاجت مندوں کا بہت خیال فرماتیں۔ مالی صدقہ کثرت سے دیتیں۔ فقراء اور مساکین کو بہت نوازتیں۔ ان کی عزت و توقیر کا خیال رکھتیں۔
قاسم بن محمد بن ابی بکرؒ کا بیان ہے کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے سیدہ عائشہؓ کے پاس جاتا، ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالتِ قیام میں یہ آیت مبارکہ پڑھ رہی تھیں:
فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيۡنَا وَوَقٰٮنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ۞
(سورة الطور: آیت، 27)
اور روتی جا رہی تھیں اور اِس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، میں انتظار میں کچھ دیر رکا رہا، یہاں تک کہ کھڑا ہو کر اُکتانے لگا اور اپنے کام کاج کے لیے بازار چلا گیا، جب واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اِسی حالت میں کھڑی نماز ادا فرما رہی ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں۔
نوٹ: حدیث مبارک میں جو آیتِ کریمہ مذکور ہے یہ سورۃ الطور کی آیت نمبر 27 ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا کہ ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔
سخاوت و دریا دلی:
سیدنا عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں۔
سیدنا عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو دیکھا کہ آپؓ نے ایک ہی وقت میں70 ہزار دراہم اللہ کی راہ میں خیرات کیے۔
سیدہ عائشہؓ کی خادمہ ام ذرہؒ بیان کرتی ہیں: سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ نے دو تھیلوں میں آپ کو 80 ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپؓ نے ایک تھال منگوایا اس میں مال رکھا اور لوگوں میں تقسیم کرنے بیٹھ گئیں۔ اور سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں تقسیم فرما دیا حتیٰ کہ ایک درہم بھی نہ بچا۔ آپؓ اُس دن روزے سے بھی تھیں۔جب شام ہوگئی تو آپؓ نے فرمایا: میرے افطار کے لیے کچھ لاؤ، وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر آئی۔ اس پر اُم ذرہؒ نے آپؓ سے عرض کی آپؓ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے، اگر اس میں سے ایک درہم بھی بچا لیتی تو ہم اس کا گوشت خرید لیتیں اور اس سے افطار کرتے، سیدہ عائشہؓ نے فرمایا: اب اس طرح نہ کہو اگر مجھے اسی وقت یاد دلاتی تو شاید میں ایک درہم رکھ بھی لیتی۔
جلیل القدر تابعی سیدنا عطاءؒ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو سونے کا ایک ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، آپؓ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنینؓ میں تقسیم فرما دیا۔
افک کا دلخراش سانحہ:
آپؓ کے زندگی کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جو حوادثات کہلاتے ہیں۔ دشمنانِ اسلام منافقین نے آپؓ کی عفت وپاکدامنی پر انگلیاں بھی اٹھائیں۔ جسے عُرفِ عام میں واقعہ اِفک کہا جاتا ہے یہ بہت دلخراش سانحہ تھا کئی دنوں کے صبر واستقلال کے بعد بالآخر اللہ رب العزت نے آپ کی پاکدامنی پر قرآنی مہر ثبت کردی، قرآنِ کریم کی سورۃ نور میں تفصیل کےساتھ مذکور ہے۔
نوٹ: اِفک جھوٹ، تہمت اور بدعنوانی کے جھوٹے الزام کو کہتے ہیں۔ جب کہ بعض اہلِ لغت کے ہاں افک محض جھوٹ کو نہیں بلکہ ایسے بڑے جھوٹ کو کہتے ہیں جو اصل معاملے کی ساری صورتحال کو یکسر بدل دے۔ یہ لفظ فِکر کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ یعنی الف کے نیچے زیر کے ساتھ۔
غزوہِ بنو مُصْطَلَقْ جو غزوہِ مُرَیْسِیع کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ابنِ اسحٰقؒ کی تحقیق کے مطابق شعبان 6ھ میں جب کہ ابنِ سعدؒ کی تحقیق کے مطابق یہ غزوہِ خندق سے بھی پہلے شعبان 5ھ میں پیش آیا۔ اس سفر میں امہات المومنینؓ میں سےآپﷺ کے ہمراہ صدیقہ کائنات سیدہ عائشہؓ ہمرکاب تھیں۔
مدینہ منورہ سے پہلے ذی قرع ایک بستی تھی، آپﷺ نے اس مقام پر پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ لشکر کی روانگی سے کچھ پہلے سیدہ عائشہؓ قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ جب واپس تشریف لا رہی تھیں تو اِتفاقاً آپؓ کا ہاتھ اپنے گلے پر پڑا، ایک دم ٹھٹک کر رہ گئیں کیونکہ اپنی ہمشیرہ سیدہ اسماءؓ سے جو ہار عاریتاً لائی تھیں وہ گلے میں موجود نہیں تھا بلکہ کہیں گر چکا تھا۔ چنانچہ آپ واپس پلٹیں اور ہار تلاش کرنا شروع کیا۔
دوسری طرف لشکر مدینہ منورہ کی طرف جانے کے لیے بالکل تیار تھا،آپؓ نے یہ خیال کیا کہ ہار ابھی مل جائے گا اور میں واپس آجاؤں گی۔ لیکن ہار تلاش کرنے میں کافی دیر ہو گئی۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ آپؓ نے جاتے وقت کسی کو اطلاع نہیں دی کہ میں قضائے حاجت کے لیے جا رہی ہوں، ساربانوں جو کجاوے کو اٹھا کر اونٹ پر باندھتے ہیں نے خیال کیا کہ آپؓ کجاوے میں سوار ہیں۔
نوٹ:
یہ کجاوہ ڈولی نما ہوا کرتا تھا جس میں مستورات سفر کرتی تھیں۔ چونکہ پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے اس لیے ازواجِ مطہراتؓ اور دیگر مسلمان خواتین سفر میں باپردہ ہی رہتی تھیں۔
اس کجاوے کے پردے نیچے لٹکے ہوئے تھے، ساربانوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ آپؓ کجاوے کے اندر موجود ہیں۔ کجاوہ اونٹ پر کسا اور لشکر کے ساتھ چل دیے۔ اُس زمانہ میں سیدہ عائشہؓ کی عمر بمشکل 14/15 سال برس تھی اور آپؓ کا جسم بھی دبلا پتلا تھا۔ اِسی لیےکجاوہ کَسنے والے ساربانوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ آپؓ سوار ہیں یا نہیں؟
سیدہ عائشہؓ خود فرماتی ہیں: میں کافی دیر ہار تلاش کرتی رہی، بالآخر ہار مجھے مل گیا لیکن ایک پریشانی بھی ساتھ لاحق ہو گئی کہ قافلہ مجھے سے دور جا چکا تھا۔ غالباً ساربانوں نے میرا کجاوہ اٹھایا اور اونٹ پر باندھ دیا یہ سمجھ کر کہ میں بھی اس میں سوار ہوں حالانکہ میں ہار تلاش کرنے گئی تھی۔
اب اس میدان میں سوائے سیدہ عائشہؓ کے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ چنانچہ آپؓ نے قافلے کے پیچھے جانے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ قافلہ والے جب مجھے اپنے اندر نہ پائیں گے تو لازماً تلاش کرنے کے لیے یہیں لوٹیں گے اس لیے آپؓ چادر لپیٹ کر سو گئیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپؓ کو نیند آ گئی۔
جب لشکر کسی معرکے کے لیے نکلتے تو قافلے کے تین حصے ہوتے تھے۔ قافلے سے آگے کچھ فاصلے پر چندافراد ہوتے جنہیں حفاظتی دستہ یا مقدمۃ الجیش کہا جاتا۔ پھر قافلہ اور آخر میں چند افراد یا کسی ایک کی ذمہ داری ہوتی کہ قافلے والوں کی کوئی چیز راستے میں گر گئی ہو تو وہ اسے اٹھاتے۔
چونکہ قافلہ جا چکا تھا، قافلہ کے آخر ی حصہ کے ذمہ دار سیدنا صفوان بن معطلؓ تھے، وہ وہاں پہنچے اور دیکھا کہ سیدہ عائشہؓ کو آرام فرما رہی ہیں۔ سیدنا صفوانؓ نے آپؓ کو پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل چونکہ دیکھا ہوا تھا، اس لیے آپؓ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ پڑھا۔ سیدہ عائشہؓ کے کانوں میں جب سیدنا صفوانؓ کی آواز پڑی تو آپ فوراً جاگ گئیں اور جھٹ سے پردہ کر لیا۔ آپؓ خود فرماتی ہیں: اللہ کی قسم! سیدنا صفوانؓ نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور اُن کی زبان سے سوائے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ کے میں نے کوئی کلمہ نہیں سنا۔
آپؓ فرماتی ہیں: سیدنا صفوانؓ نے اپنا اونٹ میرےقریب کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے، میں اُس پر سوار ہوئی اور سیدنا صفوانؓ اُس اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے۔
آپؓ فرماتی ہیں ہم دوپہر کو لشکر کے ساتھ آ کر ملے اور تمہت لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، اُنہوں نے کہا اور مجھ کو اِس کی کوئی خبر نہ تھی۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مدینہ پہنچ کر میں بیمار ہوگئیں۔ تقریباً ایک مہینہ بیماری میں گزرا، بہتان طرازوں اور اِفتراء پردازوں نے طوفان برپا کرنے والے اپنے کام میں لگے رہے مگر مجھے ان باتوں کا کچھ علم نہیں تھا، رسول اللہﷺ کے اُس مہربانی میں کمی آ جانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں میرے ساتھ رہی، دلی طور پر پریشان کن تھا کہ آخر کیا بات ہے کہ آپﷺ گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کرکے واپس ہو جاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے، آپﷺ کے اس انداز سے میری تکلیف میں اضافہ ہوتا تھا۔
آپؓ فرماتی ہیں: ایسے حالات نے مجھے دل گرفتہ کر دیا تھا میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! اگر آپ مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں، میں وہاں چلی جائوں تا کہ وہ میری تیمارداری اچھی طرح سے کرسکیں گے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں۔
چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں اِن باتوں سے قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہوچکی تھی۔ ہم عرب لوگ تھے، ہمارے گھروں میں اہلِ عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ اُم مسطح بنتِ ابی رہم بن مطلب تھیں، چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں اُلجھ کر ٹھوکر لگی اور گر گئیں تو اُن کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو (مسطح اُن کا بیٹا تھا، لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔
یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے ایک بدری مہاجر کو بددعا دے کر برا کیا۔ تو اُم مسطح نے کہا: اے دختر ابی بکرؓ! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں؟ میں نے پوچھا کون سی؟ تو اُم مسطح نے مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہوچکی ہے؟
اُم مسطح نے کہا: ہاں واللہ! یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہوگئے اور میں بغیر رفع حاجت کے واپس چلی آئی، واللہ! میں رات بھر روتی رہی، میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں اور شدت آ گئی۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں؟۔ ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ کر، دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تہمتیں تراشتے ہیں۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا ابو جان کو بھی اس بات کا علم ہے؟ تو والدہ نے جواب دیا کہ: ہاں۔
آپؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: اے میری ماں! اللہ تمہاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اِس کا چرچا ہے اور آپ نے مجھ سے اِس کا ذکر تک نہیں کیا، یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میری چیخیں نکل گئیں۔ میرے والدؓ جو بالاخانہ پر تلاوتِ قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن کر نیچے آ گئے اور میری ماں سے میرے بارے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اِسے ساری بات کا علم ہو گیا ہے۔ یہ سن کر میرے والد بھی رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا، میری والدہ نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دیے اور یونہی تمام رات روتے ہوئے گزر گئی۔ ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اِسی طرح صبح ہو گئی۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی زبان سے شدت غم سے صرف یہ جملہ نکلا: اللہ کی قسم! ایسی بات تو ہمارے بارے میں زمانہ جاہلیت میں بھی کسی نے نہیں کہیں، اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اِس کے بعد کیسے ممکن ہے؟ جب اِس معاملہ میں نزولِ وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ اور سیدنا اُسامہ بن زیدؓ سے مشورہ فرمایا۔ سیدنا اُسامہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ وہ آپ کے اہلِ خانہ ہیں، ہم ان میں سوائے خیر و بھلائی کے کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد سیدنا علیؓ نے آپﷺ کی مسلسل پریشانی اور رنج و غم کو دور کرنے کے لیے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نےخواتین کے معاملے میں آپ پر تنگی نہیں رکھی آپ مزید پریشان نہ ہوں، اور اپنے آپ کو اس فکر میں گھولتے نہ رہیں ہم سے آپﷺ کی یہ پریشانیاں دیکھی نہیں جاتی میری رائے یہ ہے کہ سیدہ عائشہؓ کے علاوہ اور بھی خواتین ہیں۔ لیکن آپ اس معاملے میں جلدی نہ فرمائیں بلکہ گھر کی باندی سیدہ بریرہؓ سے اس بارے حقیقت حال معلوم کر لیں۔
نوٹ:
بعض کم فہم لوگ سیدنا علیؓ کی گفتگو سے یہ سمجھتے ہیں کہ العیاذ باللہ سیدنا علیؓ کی نگاہ میں ام المومنینؓ کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی یا اچھی حیثیت نہیں تھی۔ حالانکہ ہرگز ہرگز ایسا معاملہ نہیں تھا بلکہ سیدنا علیؓ کو اُم المومنینؓ کی پاکدامنی و عفت میں ذرہ برابر بھی تردد نہیں، باقی رہے ان کے یہ کلمات تو ان کو بغض سیدہ عائشہؓ سے پاک دماغ ہی سمجھ سکتے ہیں سیدنا علیؓ کو بھی کامل یقین کامل تھا سیدہ بریرہؓ ضرور سیدہ عائشہؓ کے حق میں گواہی دے گی اور اس سے رسول اللہﷺ کے دل کو اطمینان ہو جائے گا کہ کیونکہ سیدہ بریرہؓ خانگی معاملات کو قریب سے مشاہدہ کر رہی ہے۔ اس سے بعض کوڑھ مغز لوگ ماں بیٹے کی باہمی کدرورت سمجھیں تو ان کے اپنے عقل کا فتور ہے۔
آپﷺ نے سیدہ بریرہؓ سے پوچھا: بریرہ! اگر تو نے ذرہ برابر بھی کوئی شئے ایسی دیکھی ہو جس میں تجھ کو شبہ اور تردد ہو تو بتلا۔ سیدہ بریرہؓ نے عرض کی: قسم ہے اُس ذات پاک کی، جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر مبعوث فرمایا، میں نے سیدہ عائشہؓ کی کوئی بات معیوب اور قابلِ گرفت کبھی نہیں دیکھی، سوائے اِس کے کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہیں، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہیں، اور بکری کا بچہ آ کر اُسے کھا جاتا ہے۔
آپﷺ نے جب سیدہ بریرہؓ کا یہ جواب سنا فوراً مسجدِ نبوی میں تشریف لے گئے اور منبر پر کھڑے ہو کر مختصر خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ اے مسلمانو! تم میں سے اس شخص کے خلاف کون میرا ساتھ دینے کو تیار ہے کہ جس نے میرے اہلِ بیتؓ کو ایذاء پہنچائی۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہلِ خانہ سے سوائے نیکی اور پاکدامنی کے کچھ نہیں دیکھا اور بالکل اسی طرح جس شخص کا اُن لوگوں نے نام لیا ہے اُن میں بھی سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا۔
اگرچہ حدیث پاک میں اس شخص کا صراحت کے ساتھ نام نہیں ہے لیکن حدیث کے مضمون سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس سے مراد سیدنا صفوان بن معطل سلمیؓ ہیں۔
چنانچہ قبیلہ اوس کے سردار سیدنا سعد بن معاذؓ نے پورے قبیلے کی طرف سے ترجمانی کرتے ہوئے گفتگو فرمائی اس کے قبیلہ خزرج کے سردار سیدنا سعد بن عبادہؓ نے گفتگو کی۔ اختلاف مزاج کے بشری تقاضوں کے تحت بدمزگی سی محسوس ہونے لگی تو آپﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور دونوں کو خاموش رہنے کا حکم فرمایا۔
سیدہ عائشہؓ خود فرماتی ہیں: میرا یہ سارا دن بھی روتے ہوئے گزرا، ایک لمحہ بھر کے لیے بھی آنسو نہیں تھمے۔ رات بھی اِسی طرح گزری، میری اِس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اِس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور میں روئے جا رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی۔
اِسی دوران اچانک رسول اللہﷺ تشریف لائے اور سلام کر کے میرے قریب بیٹھ گئے۔ جب سے جھوٹا منفی پروپیگنڈا عام ہوا کبھی آپﷺ میرے پاس آ کر نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے اِنتظار میں ایک مہینہ گزر چکا تھا۔
آپﷺ بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان فرمائی۔ اِس کے بعد یہ فرمایا:اے عائشہؓ! مجھے تیرے بارے میں ایسی ایسی بات پہنچی ہے، اگر تو اس بَری ہے تو دیکھنا عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور بَری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اِس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
آپؓ فرماتی ہیں: جب رسول اللہﷺ نے اپنی بات ختم فرمائی تو اُسی وقت میرے آنسو تھم گئے۔ یہاں تک کہ آنسو کا کوئی ایک قطرہ بھی میری آنکھ میں نہ رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا:
ابو آپؓ میری طرف سے رسول اللہﷺ کو جواب دیں، اُنہوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دوں؟ پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد میں نے خود آپﷺ کو جواب دیا: اللہ کو بخوبی علم ہے کہ میں اس سارے معاملے میں بری اور بے قصور ہوں لیکن منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر اس کے اثرات گہرے پڑ چکے ہیں۔ اگر میں یوں کہوں کہ میں اس سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین کرو گے اور میں نے روتے ہوئے یہ کہا: اللہ کی قسم! میں اُس چیز سے کبھی توبہ نہیں کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے غلط منسوب کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جو یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا: فَصَبۡرٌ جَمِيۡلٌ وَاللّٰهُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ۞
(سورة یوسف: آیت، 18)
ترجمہ: صبر بہتر ہے اور اللہ ہی مددگار ہے اُس بات کی حقیقت ظاہر فرمانے پر جو تم بیان کرتے ہو۔
(اس موقع پر آپؓ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام نہیں لیا اس کی وجہ خود بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کیا تو نام یاد نہ آیا تو اِس لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کہا)
آپؓ خود فرماتی ہیں: اُس وقت میرے دل کو کامل یقین ہو گیا کہ ضرور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بری ثابت فرمائیں گے، لیکن یہ تو میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے گی، میرا خیال یہ تھاکہ اللہ تعالیٰ میری برأت اپنے رسول کو خواب دکھا دیں گے۔
آپ فرماتی ہیں: ابھی رسول اللہﷺ وہیں پر تشریف فرما تھے کہ آپﷺ پر وحی نازل ہونا شروع ہو گئی، آپﷺ کے سر مبارک کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور ایک چادر اوڑھا دی گئی۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: باوجود شدید سردی کے رسول اللہﷺ کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا، لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان ہی نہ نکل جائے۔
وحی الہٰی کا نزول ختم ہوا توآپﷺ نے اپنی پیشانی مبارک سے پسینہ صاف کیا، آپﷺ کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔ آپﷺ مسکراتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا : يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللّهُ فَقَدْ بَرَّأَکِ۔
ترجمہ: اے عائشہؓ! اللہ نے تمہاری پاکدامنی بیان فرما دی ہے۔ چنانچہ سورۃ نور کی 11 سے لے کر 20 تک دس آیات مبارکہ سیدہ عائشہؓ کے حق میں نازل ہوئیں۔
آپؓ فرماتی ہیں: میری والدہ نے مجھے کہاکہ عائشہؓ اٹھو اور رسول اللہﷺ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! سوائے اللہ تعالیٰ کے جس نے میری برأت نازل فرمائی، کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔
نوٹ: ام المومنین سیدہ عائشہؓ دوہری حیثیت کی مالکہ ہیں۔ پہلی حیثیت یہ کہ آپؓ رسول اللہﷺ کی امتی ہیں اور دوسری حیثیت کہ آپؓ رسول اللہﷺ کی بیوی ہیں بلکہ محبوب ترین بیوی ہیں۔ اب سمجھیے کہ آپؓ والدہ کے کہنے کے باوجود آپﷺ کا شکریہ کیوں نہیں ادا کیا یہ شوہر اور بیوی میں لاڈ و محبت کا وہ درجہ ہے جسے نافرمانی کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ نازِ محبوبی کہا جاتا ہے۔
جب رسول اللہﷺ سورۃ النور کی اِن آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ اُٹھے اور لختِ جگر کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ مسجدِ نبوی تشریف لائے اور صحابہ کرام کے سامنے مذکورہ آیات تلاوت فرمائیں۔
سیدہ عائشہؓ کے بقول اس فتنے کی اصل بنیاد عبداللہ ابن اُبی بن سلول منافق تھا اور اُس کے ساتھ منافقین کا گروہ سر گرم تھا۔ مسلمانوں میں سے مسطح بن اثاثہؓ، حسان بن ثابتؓ اورحمنہ بنتِ جحشؓ پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ان کے مکر و فریب کے جال میں پھنس گئے۔
اِن تینوں افراد پر حدِ قذف جھوٹی تہمت لگانے کی شرعی سزا جاری کرتے ہوئے 80، 80 کوڑے مارے گئے اور وہ اپنی غلطی سے تائب ہوگئے۔ رضوان اللہ علیہم
آیتِ تیمم کا نزول:
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ہم لوگ حضورﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم لوگ مقامِ بیداء یا مقام ذات الجیشِ میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا، آپﷺ اور کچھ لوگ اس ہار کی تلاش میں وہاں ٹھہر گئے، وہاں پانی بھی موجود نہیں تھا۔ اس وجہ سے کچھ لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس جا کر میری شکایت کی۔
حضورﷺ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہاں ٹھہرا لیا ہے حالانکہ یہاں پانی موجود نہیں ہے، یہ سن کر سیدنا ابوبکرؓ میرے پاس آئے اور بحیثیت والد مجھے سخت و سست کہا اور (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں مکا مارا۔
اس وقت رسول اللہﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے۔ اس لیے میں بالکل ہلی جلی نہیں۔ صبح کو جب آپﷺ بیدار ہوئے تو وہاں کہیں پانی موجود ہی نہیں تھا، اسی وقت آپﷺ پر تیمم کی آیت نازل ہو گئی۔ چنانچہ آپﷺ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تیمم کیا۔
اس موقع پر سیدنا اُسید بن حُضیرؓ نے کہا کہ اے آلِ ابوبکر! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ بلکہ آپؓ کے گھرانے کی کئی برکات ہیں اس کے بعد ہم نے اونٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے ہار موجود تھا۔
خوشگوار ازدواجی زندگی کے چند واقعات:
- رسول اللہﷺ نے ایک بار آپؓ سے فرمایا: جب سے مجھے اس بات کا علم ہوا کہ تم جنت میں بھی میری بیوی رہو گی مجھے موت کی پرواہ نہیں رہی۔
- آپؓ فرماتی ہیں: رسول اللہﷺ کھانے پینے کا برتن ہاتھ میں لے لیتے اور مجھے قسم دیتے کہ میں اِس میں سے کچھ کھاؤں پیوں، جب میں کھا پی لیتی تو آپ برتن کو مجھ سے لیتے اور جہاں سے میں نے منہ لگا کر کھایا پیا ہوتا تھا، اسی جگہ سے خود کھاتے اور پیتے۔
- سیدہ عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ کبھی ایسے بھی ہوتا کہ گوشت والی ہڈی کو جس جگہ سے میں کھاتی آپﷺ بھی اسی جگہ سے تناول فرماتے۔ یعنی دونوں مل جل کر تناول فرماتے۔
- آپﷺ نے ارشاد فرمایا:جیسے تمام کھانوں میں ثرید عمدہ کھانا ہوتا ہے، اسی طرح سیدہ عائشہؓ تمام عورتوں میں بہترین عورت ہے۔ یہ الفاظ خوشگوار گھریلو زندگی کے عکاس ہیں
- سیدہ عائشہ صدیقہؓ ایک دن چرخہ کات رہی تھیں اور آپﷺ اپنے نعلین پاک کو گانٹھ رہے تھے اس دوران آپﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینہ کے قطرات ٹپکنے لگے ان میں روشنی سی پھوٹ رہی تھی آپؓ نے یہ خوبصورت نظارہ دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئیں۔
آپؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: عائشہؓ! کیا ہوگیا آپ کو؟ میں نے عرض کی کہ آپ کی مبارک پیشانی سے پسینے کے قطرے دیکھ رہی ہوں۔ ابوکبیر ہُذلی زمانہ جاہلیت کا معروف شاعر اگر اس کیفیت کا مشاہدہ کر لیتا تو وہ سمجھ جاتا کہ اس کے شعر کا حقیقی مصداق آپ ہیں۔
آپﷺ نے پوچھا کہ اس نے کون سا شعر کہا ہے؟ تو آپؓ نے آپﷺ کو اس کا شعر سنایا۔
فإذا نظرتُ إلی أسرة وجهه
برقت کبرق العارض المتهلل۔
ترجمہ: جب میں نے اُس کے رُخِ روشن کو دیکھا تو اُس کے رخساروں کی روشنی یوں چمکی جیسے برستے بادل میں بجلی کوند جائے۔
آپﷺ نے یہ اشعار سنے تو اپنی جگہ سے اٹھ کر سیدہ عائشہؓ کے قریب تشریف لائے اور ازراہ محبت فرمایا: اے عائشہ مجھے جو خوشی تیرے کلام سے ملی ہے اس قدر خوشی تمہیں میرے دیدار سے بھی حاصل نہیں ہوئی ہو گی۔
سیدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں: میں ایک سفر میں نبی کریمﷺ کے ساتھ تھی، میں نے آپﷺ کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا تو میں آپﷺ سے آگے بڑھ گئی۔ پھرکسی دوسرے موقع پر جب میرا جسم قدرے بھارے پن کا شکار ہو گیا تو آپﷺ مجھ سے بڑھ گئے تو آپﷺ نے فرمایا: یہ اس پہلی دوڑ کا بدلہ ہے۔
چونکہ آپﷺ کی مبارک زندگی تکلفات سے پاک تھی اس لیے بے تکلفی کے ماحول میں کبھی کبھار ایسے واقعات بھی رونما ہوجاتے جو فطری زندگی میں پیش آتے رہتے ہیں۔ چنانچہ سننِ ابی داؤد میں ہے: ایک بار آپﷺ کے اور سیدہ عائشہؓ کے مابین بے تکلفی میں کوئی بات ہوگئی تو آپﷺ نے پوچھا: اچھا یہ بتاؤکہ کیا تم عمر کو حَکَم (فیصلہ کرنے والا) ماننے کے لیے تیار ہو؟ سیدہ عائشہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ پھر معصومانہ انداز میں بولی کہ وہ سخت طبیعت کے مالک ہیں، آپﷺ نے پوچھا: اگر تمہارے والد کو فیصلہ کرنے والا بنا دیں تو تب تم راضی ہو؟ سیدہ عائشہؓ نے فوراً کہا: ہاں آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو بلا بھیجا، جب سیدنا ابوبکرؓ تشریف لائے تو آپﷺ نے سیدہ عائشہؓ سے فرمایا کہ ہاں عائشہ! تم بات کرو گی یا میں بتاؤں؟ سیدہ عائشہؓ نے عرض کی آپ ہی بات کریں ساتھ ہی نازِ محبوبی میں یہ بھی کہہ دیا کہ لیکن صحیح صحیح بتانا یہ بات سیدنا ابوبکرؓ کو ناگوار محسوس ہوئی اور بحیثیتِ والد اپنی بیٹی سیدہ عائشہؓ کی ناک پر تھپڑ رسید کر دیا، سیدہ عائشہؓ بھاگیں اور آپﷺ کی پیٹھ پیچھے چُھپنے لگیں، آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ سے فرمایا: ابوبکرؓ میں نے آپ کو اس لئے نہیں بلایا تھا سیدنا ابوبکرؓ تشریف لے گئے تو آپﷺ نے سیدہ عائشہؓ کو قریب بلایا مگر سیدہ عائشہؓ نے ناز محبوبی میں آنے سے انکار کیا، آپﷺ مسکرائے اور فرمایا: ابھی کچھ دیر پہلے تو تم میری پیٹھ سے چمٹی جا رہی تھیں چنانچہ سیدہ عائشہؓ ہنس پڑیں اور آپﷺ بھی مسکرانے لگے تھوڑی دیر بعد جب سیدنا ابوبکرؓ تشریف لائے اور دونوں کو ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: آپ دونوں نے اپنے اختلاف میں ہمیں شریک کیا تھا، تو اپنی صلح میں بھی ہمیں شریک کرلیں۔
ہمارے معاشرے کی خواتین اپنی سوکن/سوکنوں سے جو سلوک کرتی ہیں اور اس کو شوہر کی نظروں سے گرانے بلکہ یوں کہیے کہ گھر سے نکالنے کے جو منصوبے بناتی ہیں وہ انتہائی قابلِ افسوس ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا گھرانہ جہاں بیک وقت کئی سوکنیں آباد تھیں کس طرح باہمی محبت و پیار کا منظر پیش کرتا ہے،چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک مرتبہ نبی کریمﷺ کے لیے حریرہ دودھ، آٹا اور گھی وغیرہ سے تیار کردہ عربوں کی مشہور سوغات تیار کیا۔ اس وقت رسول اللہﷺ کے ساتھ ام المومنین سیدہ سودہؓ بھی تشریف فرما تھیں، سیدہ عائشہؓ نے سیدہ سودہؓ سے کہا آپؓ بھی تناول فرمائیں۔ سیدہ سودہؓ نےکھانےسے انکار کیا۔ شاید اس وقت طلب نہ ہوگی سیدہ عائشہؓ نے اصرار کیا کہ آپؓ کو کھانا پڑے گا، ورنہ میں یہ حریرہ تمہارے چہرے پر مل دوں گی۔
اس کے باوجود سیدہ سودہؓ نے انکار کیا۔ چنانچہ ازراہ محبت و پیار سیدہ عائشہؓ نے حریرہ میں ہاتھ ڈال کر سیدہ سودہؓ کے چہرہ پر لیپ دیا۔ نبی کریمﷺ یہ سب باہمی محبت و پیار دیکھ کر مسکرانے لگے اور سیدہ سودہؓ سے فرمایا کہ اب تم بھی سیدہ عائشہؓ کے چہرہ پر حریرہ مل دو۔ چنانچہ سیدہ سودہؓ نے بھی حریرہ میں ہاتھ ڈالا اور سیدہ عائشہؓ کے چہرہ پر اسی طرح لیب دیا۔ یہ منظر دیکھ کر نبی کریمﷺ کافی دیر تک مسکراتے رہے۔
مدح نبی بزبانِ عائشہؓ:
مواہب لدنیہ کی شرح میں امام زرقانیؒ نے لکھا ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے آپﷺ کی شان مبارک میں یہ شعر کہا۔
وَلَوْ سَمِعُوا فِی مِصْرَ أَوْصَافَ خَدِّهِ
لَمَا بَذَلُوا فِی سَوْمِ يُوسُفَ مِنْ نَقْدِ
لَوَّامِی زلِيخَا لَوْ رَأَيْنَ جَبِينَهُ
لَآثَرْنَ بِالْقَطْعِ الْقُلُوبَ عَلَى الْأَيْدِی۔
ترجمہ: مصر والے اگر میرے محبوب کے رخسار مبارک کے اوصاف سُن لیتے تو حضرت یوسف علیہ السلام پر سیم وزر کی قیمتیں لگانا بھول جاتے اور زلیخا کو ملامت کرنے والی عورتیں اگر میرے محبوب کی جبین مبارک کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دل کاٹنے کو ترجیح دیتی۔
اشعار کی تشریح یہ ہے کہ زلیخا کو ملامت کرنے والی اگر میرے محبوب کے جمال کا مشاہدہ کرتیں تو دل کاٹ لیتیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دل مرکز بدن ہے اور انگلیاں شاخ بدن حضرت محمدﷺ مرکز حسن ہیں اور آپﷺ کےمقابلے میں حضرت یوسف علیہ السلام شاخِ حسن ہیں۔ زلیخا کو ملامت کرنی والی مصر ی خواتین نے شاخِ حسن کو دیکھا تو شاخِ بدن انگلیاں کاٹ لیں۔ اگر وہ مرکزِ حسن کو دیکھتیں تو مرکزِ بدن دل کاٹ لیتیں۔
وفات:
58 ہجری رمضان المبارک کی17 تاریخ کو آپؓ سخت بیمار ہوئیں۔ امام ابنِ سعدؒ نے لکھا ہے کہ کوئی خیریت دریافت کرنے آتا تو فرماتیں کہ اچھی ہوں عیادت کرنے والے بشارتیں سناتے تو جواب میں کہتیں اے کاش میں پتھر ہوتی کبھی فرماتیں کہ اے کاش میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی۔
نمازِ وتر کی ادائیگی کے بعد آپؓ اس جہاں سے اس جہاں کو کوچ فرما گئیں جس کی خواہش سرکار دو عالمﷺ نے اللھم الرفیق الاعلی کے الفاظ سے فرمائی۔ سیدنا ابو ہریرہؓ ان دنوں مدینہ طیبہ کے قائم مقام حاکم تھے انہوں نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا۔ آپؓ رضی اللہ عنہا کے بھانجوں اور بھتیجوں قاسم بن محمد بن ابوبکر، عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابوبکر، عبداللہ بن عتیق، عروہ بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کی پیاری زوجہ اور امتِ محمدیہ کے مومنین کی ماں کو قبر کی پاتال میں اتارا۔