Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آپ رضی اللہ عنہ کی پہلی ہجرت اور ابن الدغنہ کا مؤقف

  علی محمد الصلابی

آپؓ کی پہلی ہجرت اور ابنِ الدغنہ کا مؤقف

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جب آنکھیں کھولیں تو اپنے والدین کو اسلام پر پایا، ہر روز صبح وشام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لاتے تھے۔ جب مسلمانوں کی ابتلاء و آزمائش کا دور آیا تو میرے والد حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے مقام ’’برک الغماد‘‘ تک پہنچے، وہاں ابن الدغنہ جو قبیلہ قارہ (ابنِ الدغنہ کا نام بعض نے حارث بن یزید، بعض نے مالک ، اور بعض نے ربیعہ بن رفیع بتایا ہے، اور قارہ بنو ہون بن خزیمہ کا قبیلہ تھا۔) کا سردار تھا، آپ سے ملا۔

اس نے کہا: ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟

آپ نے کہا: میری قوم نے مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ روئے زمین میں سیر کروں اور آزادی سے اپنے رب کی عبادت کروں۔

ابنِ الدغنہ نے کہا: ابوبکر! آپ جیسا انسان نہ یہاں سے جا سکتا ہے اور نہ اس کو جانے دیا جائے گا۔ آپ تو محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، لوگوں کا بوجھ یعنی قرض وغیرہ اپنے سر لے لیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، مصائب میں لوگوں کی مدد اور تعاون کرتے ہیں، میں آپ کو پناہ دیتا ہوں، آپ چلیں اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کریں۔ آپ لوٹ آئے اور ابن الدغنہ آپ کے ساتھ آیا اور شام کے وقت قریش کے سرداروں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے کہا:ابوبکر جیسا نرالا انسان یہاں سے نہیں جا سکتا اور نہ انہیں نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم لوگ ایسے شخص کو یہاں سے نکالنا چاہتے ہو جو محتاجوں کی مدد کرتا ہے، رشتہ داروں کا خیال رکھتا ہے، دوسروں کا بوجھ اپنے سر اٹھاتا ہے، مصائب وآلام میں لوگوں کی مدد کرتا ہے؟

قریش کے سردار ابن الدغنہ کے پناہ دینے کو نہ جھٹلا سکے اور ابنِ الدغنہ سے کہا:آپ ابوبکر سے کہیں کہ وہ اپنے گھر کے اندر اپنے رب کی عبادت کریں، اس میں نماز ادا کریں اور جو چاہیں پڑھیں لیکن اپنی عبادت و قراء ت کے ذریعہ سے ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں اور سب کے سامنے اپنی دعوت کا اعلان کرتے نہ پھریں کیونکہ ہمیں اپنی عورتوں اور نوجوانوں کے گمراہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔

ابنِ الدغنہ نے یہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہنچا دی، آپ اپنے گھر کے اندر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ اپنی نماز وتلاوت گھر سے باہر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ پھر آپ کا ارادہ ہوا اور اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا لی اور اسی میں نماز و تلاوت کرنے لگے۔ آپ کی تلاوت پر کفار ومشرکین کی عورتیں اور نوجوان ٹوٹے پڑتے، ان کو یہ چیز پسند آتی، اس کو غور سے سنتے، اور آپ کی طرف متوجہ ہوتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ انتہائی نرم دل تھے جب قرآن کی تلاوت کرتے تو اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پاتے اور رونے لگتے۔ اس سے سرداران قریش خوف زدہ ہو گئے اور ان کو فکر لاحق ہو گئی۔ انہوں نے ابنِ الدغنہ کو بلا بھیجا، جب وہ آگیا تو اس سے قریش نے کہا:

ہم نے ابوبکر کو تمہاری پناہ کی وجہ سے چھوڑ رکھا تھا اس شرط پر کہ وہ اپنے گھر میں عبادت کریں گے لیکن وہ اس سے تجاوز کر کے اپنے گھر کے سامنے مسجد بنا کر علی الاعلان نماز قائم کرتے ہیں اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ ہماری عورتیں اور نوجوان فتنہ میں مبتلا ہو جائیں گے، آپ ان کو اس سے روک دیجیے، اگر وہ اپنے گھر کے اندر رہ کر عبادت کریں تو ٹھیک ہے ورنہ آپ ان سے اپنی پناہ واپس لے لیجیے، ہم آپ کی بات کاٹنا نہیں چاہتے اور نہ ابوبکر کو علانیہ طور سے پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے دینا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد ابنِ الدغنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: ہمارے اور آپ کے درمیان جو طے پایا تھا وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں، لہٰذا آپ یا تو اس بات پر قائم رہیں ورنہ ہماری پناہ واپس کر دیں، میں یہ نہیں چاہتا کہ عرب یہ سنیں کہ میں نے ایک شخص کو پناہ دی لیکن اس کو توڑ دیا گیا۔

اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہاری پناہ کو لوٹاتا ہوں، میں اللہ کی پناہ کے ساتھ خوش ہوں۔(فتح الباری: جلد، 7 صفحہ، 274)

جب آپ ابن الدغنہ کی پناہ سے دست بردار ہو گئے تو قریش کا ایک احمق شخص کعبہ جاتے ہوئے راستہ میں آپ کو ملا، اس نے آپ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ کے سر پر مٹی ڈال دی، اتنے میں آپ کے پاس سے ولید بن مغیرہ یا عاص بن وائل کا گذر ہوا، آپ نے اس سے کہا:

ذرا اس بے وقوف کو دیکھو کیا کر رہا ہے؟

اس نے کہا: یہ تم نے خود اپنے ساتھ کیا ہے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے گذر گئے: اے میرے رب تو کتنا بڑا بردبار ہے، اے میرے رب تو کتنا بڑا بردبار ہے، اے میرے رب تو کتنا بڑا بردبار ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 95)

دروس و وعبر:

اس واقعہ میں بہت سے دروس وعبر ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل قوم میں آپ کا انتہائی اونچا مقام تھا، لوگوں کی نگاہ میں بڑی عزت تھی، چنانچہ ابنِ الدغنہ یہ شہادت دینے پر مجبور ہوا کہ اے ابوبکر! آپ جیسا عظیم المرتبت انسان یہاں سے نہیں جا سکتا اور نہ اسے کوئی یہاں سے نکال سکتا ہے، آپ تو مجبوروں کی مدد کرتے ہیں، رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، دوسروں کا بوجھ یعنی قرض وغیرہ اپنے سر لے لیتے ہیں، مہمان نوازی اور ضیافت کرتے ہیں اور مصائب وآلام میں دوسروں سے تعاون کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے محض اللہ و ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام قبول کیا تھا، آپ کے پیش نظر جاہ و حشمت کا حصول نہیں تھا، آپ کا مقصود صرف اللہ کی رضا کا حصول تھا، جس کی وجہ سے ابتلاء و آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، آپ نے اللہ کی عبادت کی خاطر اہل وعیال، خاندان و وطن کو خیر باد کہنا چاہا، کیونکہ اپنے وطن میں آپ کو آزادی کے ساتھ عبادت الہٰی سے روک دیا گیا۔ (استخلاف ابی بکر الصدیقؓ: صفحہ، 134)

دعوتی زندگی میں آپ کا زاد راہ قرآن کریم تھا، اس لیے اس کے حفظ و فہم اور فقہ وعمل کا آپ نے بھرپور اہتمام کیا۔ قرآن کے ساتھ اس اہتمام کی وجہ سے اپنی دعوت کی تبلیغ میں مہارت وجمال، اسلوب میں حسن، فکر میں گہرائی اور موضوع کو پیش کرنے میں عقلی تسلسل، سامعین کے احوال کی رعایت، برہان و دلیل میں قوت آپ کو حاصل تھی۔ (تاریخ الدعوۃ الی الاسلام فی عہد الخلفاء الراشدین: 88)

قرآن کی تلاوت کے وقت آپ بے حد متاثر ہوتے اور روتے۔ اس سے آپ کے یقین کی پختگی اور اللہ تعالیٰ نیز اس کی آیات کی تلاوت کردہ معانی کے ساتھ پوری دلجمعی کا پتہ چلتا ہے۔ شدید حزن یا گہری خوشی کے ساتھ رونے سے قوت تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ حقیقی مومن ایک طرف صراط مستقیم کی طرف اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے خوش ہوتا ہے تو دوسری طرف صراط مستقیم سے معمولی انحراف کا خوف بھی اس کو دامن گیر ہوتا ہے۔ اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا زندہ احساس اور بیدار فکر کا مالک انسان ہو تو یہ قرآن اس کو اخروی زندگی اور اس میں ہونے والے حساب وکتاب، عقاب و ثواب کی یاد دلاتا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جسم پر خشوع اور لرزہ طاری ہوتا ہے، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں اور یہ منظر مشاہدہ کرنے والوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اسی لیے مشرکین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اثر انگیز منظر سے پریشان ہو گئے اور ان کو اپنی عورتوں اور بچوں کی فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں وہ اس سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل نہ ہو جائیں۔ (التاریخ الاسلامی للحمیدی ، جلد: 19، 20 صفحہ، 209)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی تھی، آپ نے قرآن کو حفظ کیا، اپنی زندگی میں اس کو عملی جامہ پہنایا اور انتہائی غور و فکر کیا، اور بغیر علم کے آپ کوئی بات نہ کرتے، جب آپ سے ایک آیت سے متعلق دریافت کیا گیا جس کو آپ نہیں جانتے تھے تو آپ نے فوراً فرمایا:

’’کون سی زمین مجھے جگہ دے گی اور کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا، جب کہ میں کتاب الٰہی سے متعلق ایسی بات کہوں جو اللہ کا مقصود نہیں ہے؟‘‘ (تاریخ الخلفاء للسیوطی: 117 اس روایت میں انقطاع ہے۔)

قرآن کریم کے اندر تدبر و تفکر پر دلالت کرنے والے اقوال میں سے آپ کا یہ قول ہے:

’’اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا ذکر کیا تو ان کے اچھے اعمال کا تذکرہ کیا اور ان کے گناہوں کو معاف کر دیا۔ بندہ کہتا ہے: ان لوگوں میں ہمارا شمار کیسے ہو سکتا ہے؟ تو کہنے والا کہتا ہے: میں ان میں سے نہیں ہوں، حالانکہ وہ انھی میں سے ہوتا ہے۔‘‘ (الفتاویٰ لابن تیمیۃ: جلد، 6 صفحہ، 212)

قرآن کی جس آیت سے متعلق آپ کو اشکال پیدا ہوتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ادب و احترام کے ساتھ دریافت کرتے، چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی:

لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (سورۃ النساء: آیت، 123)

ترجمہ: ’’حقیقت حال نہ تو تمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر موقوف ہے۔ جو برا کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اپنے لیے اللہ کے علاوہ کسی کو حامی ومددگار نہیں پائے گا۔‘‘

اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آیت تو کمر توڑ ہے، ہم میں سے کون گناہ نہیں کرتا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یا ابا بکر! ألست تنصب؟ الست تحزن؟ ألست تصیبک اللأواء؟ فذلک مما تجزون بہ  (مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 11علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں لیکن کثرت طرق وشواہد سے یہ صحت کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ دیکھیے: مسند احمد (68))

’’اے ابوبکر!کیا تمہیں تکلیف نہیں لاحق ہوتی ہے؟ کیا تم کو حزن وغم نہیں پہنچتا ہے؟ کیا تمہیں رنج و سختی نہیں پہنچتی ہے؟ اس طرح تم کو سزا مل جاتی ہے۔‘‘

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بعض آیات کی تفسیر بھی بیان فرمائی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (سورۃ فصلت: آیت، 30)

ترجمہ: ’’(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو، (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو۔‘‘

اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یعنی انہوں نے ایمان سے سر مو دائیں اور بائیں التفات نہ کیا اور نہ اپنے دلوں کے ساتھ غیر اللہ کی طرف متوجہ ہوئے، نہ محبت کے ساتھ اور نہ خوف کے ساتھ، نہ رجا و امید اور نہ سوال، اور توکل کے ذریعہ سے۔ بلکہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں، اس کے ساتھ کسی شریک سے محبت نہیں کرتے، صرف اسی سے محبت کرتے ہیں۔ نہ کسی نفع طلبی کی خاطر اور نہ کسی نقصان کے دور کرنے کی خاطر۔ اللہ کے سوا کسی سے خوف نہیں کھاتے، چاہے کوئی بھی ہو، اور نہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں اور نہ اللہ کے سوا کسی کی طرف اپنے دلوں سے راغب ہوتے ہیں۔ (مجموع الفتاوی: صفحہ، 22 تا 28)

اس طرح دیگر آیات کی تفسیر بھی آپ سے وارد ہے۔

علماء و مبلغین کو ہمہ وقت قرآن کی صحبت میں رہنا چاہیے، اس کی تلاوت کریں اور اس میں غور و فکر اور تدبر کریں، اس کے علوم ومعارف اور خزانہ حکمت ومعرفت کو نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کریں، اور قرآن میں جو علمی، تشریعی اور بیانی اعجاز ہے اس کو بیان کریں، اور حروب ومصائب میں گرفتار انسانیت کی نجات کا جو راستہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب حکیم کے اندر بیان کیا ہے اسے لوگوں کے سامنے عصری اسلوب میں پیش کریں، اور دور حاضر کے ترقی یافتہ وسائل دعوت و اعلان کو اختیار کریں۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ مسجد میں قریش کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت دعوت الی اللہ کا مؤثر ذریعہ ہے۔

(تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ فی عہد الخلفاء: صفحہ، 95)