Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ

  علی محمد الصلابی

رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ

قریش کے لوگ اکٹھے ہوئے اور نبیﷺ کے معاملہ میں مشورہ کیا، انہوں نے کہا: محمدﷺ کو کون قتل کرے گا؟ عمر بن خطاب نے کہا: میں یہ کام کروں گا۔ انہوں نے کہا: اے عمر! تم ہی اس کے لیے موزوں ہو۔

وہ سخت گرمی کے دن میں، ٹھیک دوپہر کے وقت گردن میں تلوار لٹکائے ہوئے نبی کریمﷺ اور آپ کے کچھ ساتھیوں کو قتل کرنے کے لیے نکلے، آپﷺ کے ساتھیوں میں ابوبکر، علی اور حمزہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر حضرات تھے، جو آپﷺ کے ساتھ مکہ میں رہ گئے تھے اور حبشہ ہجرت نہیں کی تھی۔ قریش نے سیدنا عمرؓ کو بتایا تھا کہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی صفا پہاڑی کے نیچے دار ارقم میں جمع ہیں۔ راستہ میں نعیم بن عبداللہ النحّامؓ سے ملاقات ہوگئی، تو انہوں نے کہا: اے عمرؓ کہاں کا ارادہ ہے؟ آپ نے کہا: میں اس صابی (دین بدل دینے والے) کے پاس جا رہا ہوں جس نے قریش کی جمعیت کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اس کے دیدہ وروں کو بے وقوف کہا ہے، ان کے دین میں عیب لگایا اور ان کے معبودوں کو گالی دی ہے، تاکہ اسے قتل کر دوں۔

نعیمؓ نے کہا: اے عمر! تم کتنے غلط راستہ پر چل رہے ہو، اللہ کی قسم تم کو خود تمہاری ذات نے دھوکہ دیا ہے، تم انتہا پسندی کے شکار ہوگئے ہو اور بنو عدی کو برباد کرنا چاہتے ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم محمدﷺ کو قتل کر دو گے اور بنو عبد مناف تم کو زمین پر آزاد چھوڑ دیں گے؟

اس طرح دونوں آپس میں بحث کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں۔

سیدنا عمرؓ نے کہا: میرا گمان ہے کہ تو بھی صابی (دین بدل دینے والا) ہو گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو تجھ ہی سے شروع کروں گا۔

جب نعیمؓ نے دیکھا کہ وہ باز آنے والے نہیں تو کہا: میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ تمہارے خاندان اور تمہارے بہنوئی کے گھر والے بھی مسلمان ہو چکے ہیں اور جس گمراہی پر تم ہو اس کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔

سیدنا عمرؓ نے جب یہ بات سنی تو پوچھا کہ وہ کون کون ہیں؟

انہوں نے کہا: تمہارے بہنوئی وچچیرے بھائی اور تمہاری بہن۔

(صحیح السنن الترمذی: البانی: حدیث، 2907 الجامع الترمذی: حدیث، 3682)