Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فن سپاہ گری میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ مہارت اور خوشی ومسرت سے رونا

  علی محمد الصلابی

فن سپاہ گری میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ مہارت اور خوشی ومسرت سے رونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا اثر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فن سپاہ گری میں نمایاں ہے، چنانچہ جس وقت انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی معیت کی بشارت سناتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جلدی مت کرو، اللہ تمہیں ساتھی عطا کرے گا۔‘‘ اسی وقت سے ہجرت کی تیاری اور منصوبہ بندی میں لگ گئے، دو اونٹنیاں خرید کر اسی وقت سے اپنے گھر میں پالنا شروع کر دیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ’’چار ماہ تک ببول کے پتے کھلا کھلا کر ان دونوں کو پالا‘‘ آپ کی تربیت ہی قیادت کے لیے ہوئی تھی، آپ نے اپنی دور رس نگاہ سے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ ہجرت دشوار گذار اور اچانک پیش آئے گی اس لیے اس کے لیے وسائل واسباب تیار کیے، اپنے خاندان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے مسخر کر دیا اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر ہجرت کی خوشخبری سنائی تو خوشی ومسرت سے رونے لگے۔

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: آج سے قبل مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ کوئی خوشی ومسرت میں بھی روتا ہے۔ یہ انسانی خوشی کی انتہا ہے کہ خوشی رونے میں تبدیل ہو جائے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ورد الکتاب من الحبیب بانہ

سیزورنی فاستَعْبَرْت أجفانی

’’محبوب کا نامہ آیا کہ وہ عنقریب میری زیارت کو آئے گا، یہ مژدہ سن کر میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔‘‘

غلب السرور عَلَیَّ حتی اننی

مِنْ فَرْط ما قد سرَّنی أبکانی

’’خوشی ومسرت کا مجھ پر اس قدر غلبہ ہوا کہ فرط مسرت میں رو پڑا۔‘‘

یا عین صار الدَّمعُ عندکِ عادۃً

تبکین مِنْ فرح ومن أحزان

’’اے آنکھ! آنسو بہانا تیری عادت ہے، خوشی وغم دونوں سے روتی ہے۔‘‘

ابوبکر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ اس صحبت کا مطلب ہے کہ وہ تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں کم از کم تیرہ دن تک رہیں گے اور اپنی زندگی کو اپنے قائد و رہنما اور آقا و محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کریں گے، وجود میں اس سے بڑھ کر اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ اور روئے زمین کے تمام لوگوں کے مقابلہ میں تنہا اس مدت کے اندر سید خلق صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت سے مشرف ہوں۔

(التربیۃ القیادیۃ: جلد، 2 صفحہ، 191 اور 192)

حب فی اللہ کا مفہوم اس وقت عیاں ہوتا ہے جب غار کے اندر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں مشرکین انہیں دیکھ نہ لیں، یہاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دعوت اسلامی کے سچے سپاہی کے لیے مثال قائم کی ہے کہ جب قائد و رہنما خطرات سے گھر جائے تو کس طرح اس کی زندگی کی فکر اور خوف دامن گیر ہونا چاہیے۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی موت کی فکر نہ تھی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کے مستقبل کی فکر دامن گیر تھی کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں کفار کی گرفت میں آگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر ان کو اپنی فکر ہوتی تو کبھی پر خطر سفر ہجرت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اختیار نہ کرتے، کیونکہ ان کو بخوبی معلوم تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرفتار کیے گئے تو اس کی سزا کم از کم قتل ہے۔

(السیرۃ النبویہ دروس وعبر للسباعی: صفحہ، 71)

واقعہ ہجرت میں مختلف مواقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا امن وحفاظت سے متعلق شعور اجاگر ہوتا ہے۔ مثلاً جب آپ سے سوال کیا گیا کہ یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: یہ رہنما ہیں، ہمیں راستہ دکھاتے ہیں۔ سوال کرنے والے نے تو یہ سمجھا کہ راستہ کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقصود عام راستہ کی رہنمائی نہیں بلکہ راہ حق کی رہنمائی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کذب بیانی اور حرج سے بچنے کے لیے تعرض و توریہ کا استعمال انتہائی خوش اسلوبی سے کرتے تھے۔ (الہجرۃ النبویۃ المبارکۃ: صفحہ، 204) یہاں سائل کے جواب میں توریہ اختیار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امن وحفاظت سے متعلق تربیت کو نافذ کیا ہے، کیونکہ ہجرت بڑے راز دارانہ طریقہ سے عمل میں آئی، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انہیں ٹوکا نہیں۔

(السیرۃ النبویۃ دروس وعبر للسباعی: صفحہ، 68)