Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت پر سُنی و شیعہ مکالمہ اور حقائق کا واضح ہونا

  جعفر صادق

میں ایک شیعہ فورم کا ممبر تھا،ایک دن امامت پر سُنی و شیعہ مکالمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا، اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ سُنی و شیعہ میں سے صراط مستقیم پر کون ہیں۔ اہل تشیع ، جو امامت پر یقین رکھتے ہیں یا اہل سنت،  جن کے نزدیک خلیفہ شوری کے ذریعے منتخب ہوتا ہے۔

میں ہمیشہ پس و پیش میں رہتا کہ  آخر یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ اہل تشیع اور اہل سنت میں سے کس کا عقیدہ درست ہے۔

اس مکالمے کو پڑھنےکے بعد میں نے خوب غور و فکر کیا، اور آج میرے ذہن سے تمام شکوک و شبہات ختم ہوچکے ہیں۔

مکالمے میں اہل سنت برادر نے منطقی انداز سے بہترین گفتگو کی اور مخالف کی باتوں کا رد کچھ اس طرح کیا

“بالفرض ہم کچھ دیر کے لئے تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے امت کے لئے بارہ امام ہی منتخب کئے اور یہی راستہ حق کا راستہ ہے۔ مان لیتے ہیں کہ سیدنا علی ؓ  بعد از نبی ﷺ امت کے پہلے خلیفہ بنے ، ان کے بعد حضرت حسنؓ  پھر حضرت حسین ؓ  اور اس طرح بارہویں امام مہدی تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ تمام امام درحقیقت انسان  ہی تھے تو فرض کرتے ہیں کہ بغیر کسی مخالفت کے ہر امام کو خلافت ملی اور کسی بھی امام کے خلاف کبھی بھی، کہیں سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔

مان لیتے ہیں ایسا ہی ہوا ظاہر ہے شیعہ چاہتے بھی یہی ہیں، اسی لئے تو شیعہ صحابہ کرام پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے اہل بیت سے  حق حکمرانی چھین لیا۔

ذرا تصور کریں کہ بیس بیس سال تمام منصوص من اللہ اماموں کو خلافت ملی اور دو سو چالیس 240 سال امت نے ان کی حکمرانی میں بھی گذار دئے، اب سوچیں کہ اگر یہ حقیقت میں ہوتا تو اس کے بعد کیا ہوتا؟

تمام وقوع پذیر سچے اور جھوٹے واقعات کو کچھ وقت کے لئے سائیڈ پر رکھ کر ہم شیعیت کا عقیدہ امامت تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب حقیقت میں ہوا کہ تمام امام خلیفہ بنتے رہےاور آخری امام مہدی بھی حکمران بن گئے تھے تو اسے حقیقت سمجھنے کے بعد عقیدہ امامت ایک افسانہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ کوئی شیعہ قیامت تک اس کا جواب نہیں دے سکتا کہ اگر بارہ اماموں کو حق خلافت حقیقت میں ملتا اور سیدنا علی و اہل بیت کے سامنے کوئی مخالف نہ ہوتا تو ڈھائی سے تین صدیاں گذرنے کے بعد امت کس کو خلیفہ بناتی؟”

اہلسنت برادر نے مزید کہا

“شیعہ مذہب اس وقت ڈھیر ہوجاتا ہے جب تمام شیعہ نظریات کو حقیقت کا روپ دیا جائے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شیعیت کا نہ حقیقت سے کوئی تعلق ہے اور نہ دین اسلام سے بلکہ یہ ایک فرضی اور گھڑا ہوا مذہب ہے۔

اب آئیں اہل سنت نظریہ خلافت کا موازنہ شیعہ عقیدہ امامت سے کرتے ہیں۔

شوری کی مدد سے ایسے قابل خلیفہ/حکمران کا انتخاب جو اس دور کے تمام لوگوں میں سے کوئی ایک ہو، چاہے کسی بھی قبیلے یا کسی بھی قوم و نسل سے ہو۔

یہ نظریہ نہ صرف قابل عمل بلکہ حقیقت سے قریب تر ہے۔ اس نظریے کے مطابق خلفاء کو محدود تعداد میں مخصوص نہیں کیا گیا، نہ کسی مخصوص خاندان میں حکمرانی کو محدود کیا گیا ہے اور قیامت تک  اس پر عمل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ نظریہ حقیقی ، قابل عمل اور عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ثابت ہوتا ہے۔

الحمدللّٰہ آج میں مکمل ایمان و یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ شیعیت ایک جھوٹا اور گھڑا ہوا مذہب ہے جس کے عقائد و نظریات تصوراتی اور غیر حقیقی ہیں۔