Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے گواہ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

  جعفر صادق

سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کے گواہ 

گواہ وہی معتبر ہوتا ہے جو عادل ہو، اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

ترجمہ: جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو

اس فرمان باری تعالیٰ سے محدثین نے اصول بنایا کہ عادل کی گواہی قبول ہو گی۔

ہم اپنے معاشرے میں بھی دیکھ لیں جب کوئی کسی جوڑے کو نکاح کے بندھن میں باندھتے ہیں تو خاندان کے معزز اور معتبر افراد کو نکاح میں گواہ بناتے ہیں، کوئی کسی جھوٹے کو، منافق کو، بدنیت کو ،پاپی کو اپنے نکاح میں گواہ بنانا پسند نہیں کرتا، گواہ زیادہ سے زیادہ نیک و صالح ہو سب کی یہی خواہش ہوتی ہے۔

سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے نکاح میں رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کن شخصیات کو گواہ بنایا؟  آئیے شیعہ کی مشہور کتاب بحارالانوار سے دیکھتے ہیں۔

شیعہ کا معتبر عالم ملا باقر مجلسی لکھتا ہے:

سیدنا انس فرماتے ہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جاؤ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ اور اتنے ہی انصار کو بلا کر لاؤ۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں، میں گیا اور میں نے ان سب کو بلا لیا۔جب وہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے، تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :”میں تم سب کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فاطمہؓ کو علیؓ کی زوجیت میں چار سو مثقال چاندی کے عوض دیا" (بحارالانوار: جلد، 43 باب تزویجھا صلوات اللہ علیھا)

اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کے مابین یہ ہے وہ قریبی تعلق  جو شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے، اس کے باوجود  شیعہ رافضی عوام کو دن رات گمراہ کرتے رہتے ہیں، جن صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو آج شیعہ دشمن سیدنا علیؓ و فاطمہؓ بتاتا ہے، وہی صحابہؓ ان کے بابرکت نکاح کے گواہ ہیں، اگر یہ صحابہؓ اچھے اور سچے نہیں تو یہ نکاح کہاں سے ثابت کرو گے؟