Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شہید ابن شہید مصنفه صائم نعت خواں فیصل آبادی

  محقق اسلام حضرت مولانا علی صاحب

شہید ابنِ شہید مصنفه صائم نعت خواں فیصل آبادی

آپ بیمار عابد کے سر پر ہاتھ پھیر کر اٹھے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی اور ہی منظر بنا ہوا تھا سیدہ زینبؓ کے سر سے چادر اتری ہوئی تھی بال بکھرے ہوئے ہیں نظر تھرائی ہوئی ہے آنسوؤں کے دو موٹے موٹے قطرے پلکوں سے نیچے آکر ٹھہرے ہوئے ہیں صابروں کا امام بھی یہ منظر دیکھ کر تڑپ کر رہ گیا حوصلہ کر کے آگے بڑھے بہن کی گری ہوئی چادر کو اٹھایا سیدنا علیؓ کی بیٹی کا سر ڈھانپ دیا سیدہ سکینہؓ کو گود میں لیا سیدنا علی اکبرؓ کے سینہ کے خون سے لتھڑے ہوئے سیدہ سکینہؓ کے چہرے کو اپنے عمامہ سے صاف کیا آنکھوں میں پڑی ہوئی ریت کو عمامہ کا کپڑا پھیر کر نکالا بکھرے ہوئے بالوں کو انگلیوں سے درست کیا اور فرمایا سیدہ سکینہؓ ہوش میں آؤ ابا کی آخری زیارت کر لو پھر ساری عمر ابا کا چہرہ دیکھنے کے لیے ترس جاؤ گی بیٹی سیدہ سکینہؓ اٹھو جلدی کرو آخری ملاقات تو کر لو آخری بار بابا کے سینہ سے تو لپٹ جاؤ پھر تو تمہیں بھی سیدہ صغریٰ کی طرح ساری زندگی رو رو کر تڑپ تڑپ کر ہی گزارنا ہے اٹھو بیٹی اب بابا بھی سیدنا علی اکبرؓ کے پاس جا رہا ہے آپ دامن سے پنکھا بھی کر رہے تھے اور بے ہوش بیٹی سے گفتگو بھی فرما رہے تھے جلدی معصومہ نے آنکھیں کھول دیں خود کو بابا کی گود میں دیکھا تو لپٹ گئیں تین دن کی پیاسی بچی تین دن کے پیاسے بابا سے گلے مل رہی ہے بابا کی گود میں کچھ سکون ملا بچی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی آپ نے تسلی دے کر فرمایا صبر کرو میری بیٹی تم صابروں کی اولاد ہو مجھے دشمن پکار رہے ہیں اور میری خواہش تھی کہ تو مجھے آخری بار گلے ملے اب مجھے جانے دو افسوس کہ تھوڑی دیر بعد تم یتیم ہو جاؤ گی۔ (شہید ابنِ شہید صفحہ 315_316 مطبوعہ چشتی کتب خانہ جھنگ بازار فیصل آباد)

 شہید ابنِ شہید:

سیدنا حسینؓ نے جب اپنے گھوڑے کو چلانا چاہا تو وہ ہل نہیں رہا تھا آپؓ نے نگاہیں جھکا کر دیکھا تو سیدہ سکینہؓ گھوڑے کے پاؤں سے لپٹی ہوئی تھی آپؓ نے فرمایا بیٹی ان معصومانہ کوششوں سے باپ کے دل پر چھریاں نہ چلاؤ۔ ( شہید ابنِ شہید صفحہ 217)

 تردید اول:

اوپر ذکر کی گئیں دو عبارات میں جو مضمون آپ نے پڑھا اس قسم کی بات کسی بھی معتبر سنی یا شیعہ کتاب میں نہیں پائی جاتی اس عبارت میں جس انداز سے واقعہ وہ بھی من گھڑت بیان کیا گیا۔ اس سے چند چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

1- سیدہ زینبؓ کے سر سے چادر اتری ہوئی اور ان کے بال بکھرے ہوئے تھے کیا خاندان رسالت کی عظیم شہزادی کا یہ عمل قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ کے صراحتاً خلاف نہیں ہے قرآن کریم کہے کہ مصیبت کے وقت صبر کرو اور نماز سے استعانت چاہو اللہ صابرین کے ساتھ ہے گویا سائم فیصل آبادی اس بے بنیاد عبارت سے سیدہ زینبؓ کو قرآن و حدیث کے احکام کے خلاف عمل کرنے والی ثابت کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ فانوادہ دنیا کے لیے اسلامی تعلقات کا نمونہ تھا۔

سیدہ زینبؓ کی مظلومیت کو اس انداز سے بیان کرنا کہ شرعاً ان پر حرف آتا ہو کہاں کی محبت اہلِ بیت ہے

مون حسن رضاؒ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا اہلِ بیت پاک سے بے باکیاں گستاخیاں لعنت اللہ علیکم دشمنان اہلِ بیت۔

2- سیدہ سکینہؓ کو گود میں لے کر اس عمامہ سے جس سے سیدنا حسینؓ نے سیدنا علی اکبرؓ کا خون صاف کیا ان کی آنکھوں سے ریت کو نکالا یہ واقعہ کس کتاب سے لیا گیا تو جب کسی کتاب میں ان کا ذکر تک نہیں تو سیدنا عالی مقام کی طرف انہیں منسوب کرنا کس قدر بے باکی اور گستاخی ہے اگر کسی معتبر کتاب میں امام عالی مقام کا ایسا کرنا اور ایسا کہنا صائم نعت خوان دکھا دے۔ تو منہ مانگا انعام پائے۔

3- اٹھو سیدہ سکینہؓ بابا کے سینہ سے لپٹ جاؤ ورنہ تم بھی صُغریٰ کی طرح ساری زندگی رُو رُو کر اور تڑپ تڑپ کر گزاروگی گزرشتہ اوراق میں ہم (سیدہ فاطمہ صغریٰؓ) کے بارے میں تحقیق بیان کر چکے ہیں اس نام کی سیدنا حسینؓ کی کوئی صاحبزادی نہ تھی جو مدینہ میں پیچھے رہ گئی تو پھر جو دو آپ کی صاحبزادیاں تھیں وہ آپ کے ساتھ میدانِ کربلا میں موجود تھیں لہٰذا سیدہ صغریٰؓ کا مدینہ میں رہنا اور وہاں آہ و بکا اور رونا رلانا سب بے اصل ہے "سیدہ سکینہؓ بابا کے سینہ سے لپٹ جاؤ" کیا سیدنا عالی مقامؓ نے سیدہ سکینہؓ کو واقعی یہ الفاظ کہے۔ اگر کہے تو اس کا کسی معتبر کتاب سے ثبوت پیش کر کے منہ مانگا انعام حاصل کیا جائے علاوہ ازیں سیدہ سکینہؓ کوئی بچی نہیں کہ انہیں سینے سے لپٹ جانے کا کہا جائے۔ انہیں بچی کہنا اور گود میں لیے جانے کی بات کرنا قطعاً من گھڑت ہے آپ شادی شدہ ہیں اور ان کے خاوند سیدنا عبداللہ بن حسنؓ یہ دونوں واقعہ کربلا میں موجود تھے۔

4- اب مجھے جانے دو افسوس کہ تھوڑی دیر بعد تم یتیم ہو جاؤ گی جس بیٹی کو باپ یتیمی کی پیش گوئی کر رہا ہو کیا وہ ایسا کر کے بیٹی کو صبر کی تعلیم و تلقین کر رہا ہوگا یا بے صبری کی طرف بلا رہا ہوگا ایسی عبارات لکھتے وقت ان لوگوں کو قطعاً خدا خوفی اور شرعاً اہلِ بیت کی پرواہ نہیں ہوتی بس عبارت میں رنگینی پیدا ہو جائے چاہے حدود شرعیہ پامال ہو جائیں اس کی پرواہ تک نہیں۔

5- "بیٹی ایسی معصومانہ کوششوں سے باپ کے دل پر چھریاں نہ چلاو" معصوم عام طور پر نابالغ بچوں کو کہاں جاتا ہے یا پھر شیعہ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ بارہ امام اور ان کی اولاد معصوم ہیں اگر معصوم سے مراد پہلا معنی ہے تو یہ واقعات کہ بالکل خلاف ہے کیونکہ سیدہ سکینہؓ شادی شدہ تھیں اس پر مزید گفتگو عنقریب آرہی ہے اور اگر دوسرا معنی پیش نظر ہے تو یہ اہلِ سنت کا عقیدہ نہیں لہٰذا صائم چشتی سنی بن کر شیعوں کے مسلک کی ترجمانی کر رہا ہے یہی طریقہ اس نے "مشکل کشا" نامی کتاب میں اپنایا ہے اور شہید ابنِ شہید بھی ایسے ہی خیالات و نظریات کا پلندہ ہے۔

 سکینہ گھوڑے کے پاؤں پکڑے ہوئے ہونا صائم چشتی نے ذکر کیا اسی من گھڑت داستان کو افتخار الحسن صاحب نے اپنے رنگ میں ڈھال کر بیان کیا فرضی مکالمے اور من گھڑت گفتگو اس انداز سے کی کہ جیسا واقعہ کے چشم دید گواہ ہوں عبارت ملاحظہ ہو۔

خاکِ کربلا:

 اب اٹھو اور اپنے بھائی سیدنا حسینؓ کی صورت جی بھر کے دیکھ لو پھر قیامت تک نظر نہ آئے گی پھر سیدہ فاطمہؓ کا لال اٹھا نانے پاکﷺ کا عمامہ سر پر باندھا ماں سیدہ فاطمہؓ کی چادر کمر میں لپیٹی اور باپ سیدنا علیؓ کی تلوار ہاتھ میں پکڑی گھوڑے پر سوار ہونے لگے تو اس خیال نے رُلا دیا۔

 شعر:

جدوں معراج نبی نوں ہو یا جبرائیل براق تھمایا 

جدوں علی ول خیبر چلیا نبی پاک نے آپ چڑھایا 

اج کوئی نہیں رہ گیا واگاں پکڑن والا جدوں وار حسین دلایا 

خیمیاں وچوں بی بی زینب نکلی اس برقعہ منہ تے پایا 

تھم رکاب گھوڑے دی آکھے ومیلے چڑھ امڑی دیا جایا۔

سیدنا پاک نے گھوڑے کا منہ میدان کی طرف کیا اور چلنے کا حکم دیا مگر گھوڑا اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں امام پاک بار بار گھوڑے کو چلاتے مگر وہ حرکت میں نہ آیا سیدنا حسینؓ حیران رہ گئے یا اللہ یہ ماجرہ کیا ہے گھوڑا میدان کی طرف کیوں نہیں جاتا کہیں میں اس امتحان میں فیل تو نہیں ہو رہ۔ گھوڑے نے گردن اوپر اٹھائی اور زبان حال سے اپنے سوار کو کچھ سمجھایا سیدنا مظلوم گھوڑے سے نیچے اترے دیکھا تو بیٹی سیدہ سکینہؓ نے گھوڑے کے پاؤں پکڑے ہوئے ہیں امام اور عرش مقام سیدنا حسینؓ نے بیٹی کو سینے سے لگایا اور فرمایا بیٹی سیدنا عونؓ و سیدنا محمدؓ قربان ہوئے تو تم نے صبر کیا سیدنا قاسمؓ و سیدنا عباسؓ نثار ہوئے تو تم نے شکر کیا سیدنا علی اکبرؓ شہید ہوا تو تم نے فریاد نہ کی سیدنا علی اصغرؓ نے دم توڑا تو تو نے حوصلہ نہ ہارا مگر میں اب جا رہا ہوں تو تم رو رہی ہو عرض کی ابا جان سیدنا عونؓ و سیدنا محمدؓ قربان ہوئے تو مجھے فکر نہ تھا سیدنا قاسمؓ و سیدنا عباسؓ نثار ہوئے تو مجھے کوئی غم نہ تھا سیدنا اکبرؓ و سیدنا اصغرؓ شہید ہوئے تو مجھے کوئی پرواہ نہ تھی مگر ابا جان آپ جا رہے ہیں سیدہ سکینہؓ یتیم ہو جائے گی بے سہارا ہو جائے گی اور بےآسرا ہو جائے گی ہائے ابا جی میرے سر پر شفقت کا ہاتھ کون پھیرے گا میں روؤں گی تو چپ کون کرائے گا مدینہ کون پہنچائے گا ہائے بابا میں روتی مر جاؤں گی ٹھوکریں کھاتی پھروں گی ابا جی آپ کے بعد مجھے بیٹی کہہ کر کون پکارے گا مجھے سینے سے کون لگائے گا اور مجھے اپنی گود میں کون بٹھائے گا؟ 

(خاکِ کربلا صفحہ 304 تا 305 مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد)

قارئین کرام: مذکورہ واقعہ نہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہے اور نہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے یہ سب باتیں اور مکالمہ بازی افتخار الحسن صاحب کی اختراعی ہے اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو بہت سی گستاخیوں سے بھری پڑی ہے سب سے بڑی بات تو یہ کہ جب سیدنا اعلی مقام نے ایسا فرمایا ہی نہیں اور سیدہ زینبؓ و سیدہ سکینہؓ نے اس قسم کی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا تو ان اعلیٰ و ارفع ہستیوں کے متعلق ایسی گھٹیا تحریر ان پر افترا باندھنے سے کم نہیں ایسی ہی عبارات سے ماتم کا جواز نکلتا ہے اور شیعہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو تمہارے عالم نے رونے رلانے کی باتیں سیدہ سکینہؓ کی نقل کی ہیں سیدہ سکینہؓ کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ چھوٹی کم سن شہزادی تھیں۔ حالانکہ وہ شادی شدہ تھیں اور ان کے سیدنا خاوند عبداللہ بن حسنؓ تھے اس کی تصدیق و تائید سنی شیعہ دونوں مکتبہ فکر کی کتب کرتی ہیں۔ پچھلے صفحات میں اسی کے متعلق اعلام الورای صفحہ 127 تا ریخ الائمہ صفحہ 280 کے حوالہ جات آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ایک حوالہ اور ملاحظہ فرمائیں۔

 منتخب التواریخ:

واز تاریخ ابن خلقان نقل شدہ کی وفات جناب سکینہ در مدینہ طیبہ روز پنج شنبہ پنجم ماہ ربیع المولود السن صدو ہفدہ ہجری واقع شد اتاسن اَں مخدرہ در واقعہ طن مزوّجہ بود پسر عمش عبداللہ بن الحسن کہ در کربلا شہید شد۔

(منتخب التواریخ صفحہ 244 باب پنجم در ذکراولاد امجاد حضرت سید الشہداء)

 ترجمہ: تاریخ ابنِ خلقان سے منقول ہے کہ سیدہ سکینہؓ کا انتقال مدینہ منورہ میں جمعرات پانچ ربیع الاول سن 117 میں ہوا ان کی عمر ٹھیک سے معلوم نہیں لیکن واقعہ کربلا کے وقت بالغ عورتوں کی عمر تک پہنچ چکی تھیں جیسا کہ ایک شعر میں آپ کو خیرة النساء کہا گیا جو سید الشہداء سیدنا حسینّ کی طرف منسوب ہے اور اس پر یہ امر بھی شاہد ہیں کہ سیدہ سکینہؓ اپنے چچا زاد سیدنا عبداللہ بن حسنؓ کے ساتھ ہی گئیں تھیں جو کربلا میں شہید ہوئے قارئین کرام شیعہ مؤرخ نے ایک معتبر سنی کتاب (وفیات الاعلان) جو ابنِ خلقان کے نام سے مشہور ہے ذکر کیا کہ سیدہ سکینہؓ واقعہ کربلا کے وقت شادی شدہ تھیں اور بچپن کی عمر سے نکل کر بالغ عورتوں کی عمر میں تھیں۔

اب ایسی عمر کی عورت کی طرف ہائے بابا مجھے اپنی گود میں بٹھا لو وغیرہ وغیرہ اخلاق سے گری ہوئی باتیں منسوب کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ان مقدس ہستیوں کی طرف سراسر جھوٹ کی نسبت کرنا ہے جس کا حقیقت سے ہرگز کوئی تعلق نہیں لہٰذا ایسی نامعتبر کتب کے مندر جات ہم اہلِ سنت انہیں کوئی وقعت نہیں دیتے

 فاعتبر وایااولی الابصار

*تردید ثانی* 

*سیدنا حسینؓ نے مدینہ منورہ سے کربلا تک اونٹنی پر سفر کیا*

 سیدنا عالی مقامؓ کا میدانِ کربلا میں اپنے سارے ساتھیوں کی شہادت کے بعد خود گھوڑے پر سوار ہوکر یزیدیوں کے مقابل میں نکلنا اور سیدہ سکینہؓ کا گھوڑے کے پاؤں کو چمٹے رہنا کہ جس کی وجہ سے گھوڑا نہ چل سکا پھر گھوڑے کا سیدنا عالی مقامؓ کو اپنے سر کے اشارہ سے بتانا کہ میرے پاؤں کی طرف دیکھو کہ شہزادی لپٹی ہوئی ہے پھر سیدنا عالی مقامؓ کا سیدہ سکینہؓ کو دلاسا دینا وغیره رقت آمیز واقعہ شیعہ سنی دونوں کی کتب میں موجود ہے دور حاضر کی سنی کُتب کی فوٹو سٹیٹ کاپی ہم نے اصل کتاب کے ساتھ لف کر دی ہے اس کے علاوہ تقریروں واعظوں میں سنی واعظین اور شیعہ ذاکرین عوام کو رلانے مرثیہ خوانی کا رنگ بھرنے کے لیے بڑے طمطراق سے بیان کرتے ہیں ایسے واقعات سے شیعہ ذاکرین کا مقصد تو واضح ہے کہ وہ ماتم اور نوحہ خوانی کو اپنے مسلک کی جزء سمجھ کر اس کا پرچار کرتے ہیں لیکن سنی مواعظین پر افسوس ہے کہ جب ماتم اور نوحہ خوانی کوحرام کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو پھر ایسے اصل واقعات کو رقت آمیز لہجے اور رونے رُلانے کے انداز سے بیان کرکے وہ سنیت کی نہیں بلکہ شیعیت کی خدمت کرنے کے کیوں درپے ہیں؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف اپنا رنگ جما کر دنیا کے چند سکے حاصل کرتا ہے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ سیدنا حسینؓ کا مدینہ منورہ سے عازم مکہ مکرمہ ہونا اور پھر مکہ شریف سے کوفہ کا قصد کر کے سفر پر روانہ ہونا جنگ و جدال کے لیے نہ تھا اہل و عیال کہ جس میں بچے اور عورتیں بھی تھیں کو ساتھ لینا اسی کی دلیل ہے کہ آپ کسی سے لڑنے نہیں جا رہے ہیں ایسا سفر جنگ و جدال کا نہ ہو اور بال بچوں سمیت ہو عرب اسے اونٹوں پر طے کرتے تھے جب ہم عرب لوگوں کے واقعاتِ سفر کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اونٹوں کی بجائے گھوڑوں پر جانا اس وقت پسند کرتے تھے جب کہیں گھوڑ روڈ کے لیے یا کسی خوشی کے موقع میں شرکت کرنے کا مقصود ہوتا سیدنا عالی مقامؓ کا سفر کربلا نہ گھوڑ دوڑ کا سفر تھا اور نہ ہی خوشی کے لیے گھر سے باہر سفر پر روانگی تھی ایسے میں انہوں نے اونٹوں کو اپنے سفر کے لیے ساتھ لیا گھوڑوں پر سوار نہیں ہوئے کوفہ کی طرف روانگی کے وقت اس خاندان اہلِ بیت کی سواری اونٹ تھی اس پر شیعہ سنی دونوں کی کتب سے ثبوت ملاحظہ ہو۔ 

دلائل النبوت:*

عَنْ أَصْبَع بْنِ بِنَا تَه عَنْ عَلِيِّؓ قَالَ اتيْنَا مَعَهُ مَوْضَعَ قَبَرَ الْحُسَينَؓ فَقَالَ ههُنَا مَتَاعُ رِكَابِهِمْ وَ مَوضَعُ رِحَالِهِمْ وَههُنَا مِحْرَاقُ دِمَاءِهِمْ فِتْيَةٌ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ يُقْتَلُونَ بِهَذَا العُرْصَةِ تَبْکى عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ۔

(1۔ دلائل النبوة جلد دوم صفحہ 744 ، فصل التاسع والعشرون حديث صفحہ 530 مطبوعه صلب) 

(2۔ خصائص کبریٰ جلد دوم صفحہ 126 باب اخبارﷺ تقبل الحسینؓ مطبوعه مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور) 

(3۔ سر الشہادتین صفحہ 31)

*ترجمه :* 

اصبع بن بنانة سے روایت ہے وہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سے بیان کرتے ہیں فرمایا کہ ہم سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ساتھ اس جگہ آئے جہاں سیدنا حسینؓ کی قبر ہے تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا یہ وہ جگہ ہے جہاں اُن کے اونٹ بیٹھیں گے اور ان کے کجادوں کی جگہ یہ ہے اور یہ جگہ اُن کے خون گرائے جانے کی جگہ ہے آلِ محمدﷺ کے جوانوں کو اس میدان میں شہید کر دیا جائے گا ان پر آسمان و زمین روئیں گے۔

قارئین کرام سیدنا علی المرتضیٰؓ نے واقعہ کربلا سے بہت پہلے میدانِ کربلا کے چند مقامات کی نشاندہی فرمائی اُن میں سے ایک جگہ کے بارے میں فرمایا کہ یہاں شہدائے کربلا کے اونٹ بیٹھیں گے یہ خبر ان اخبار میں سے ہے جو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جناب رسول کریمﷺ کے بیان فرمانے کے بعد بیان فرمائیں یعنی حضورﷺ کی طرف سے سیدنا علیؓ بیان فرما رہے ہیں کہ یہ وہ مقام ہے ایک جگہ خاندان اہلِ بیت کے اونٹ بیٹھیں گے اس سے صاف ظاہر کہ خاندان اہلِ بیت میدانِ کربلا تک اونٹوں پر سوار ہو کر آیا اور اس میدان میں انہوں نے اپنے اونٹوں کو باندھا ان کے کجاوے رکھے لیکن نہ معلوم شیعہ سنی دونوں نے سیدنا عالی مقامؓ کے اونٹ کدھر بھگا دیئے اور ان کی جگہ گھوڑے لے آئے وہ کون خیرخواہ تھے کون جانثار تھے جنھوں نے اس مصیبت زدہ خاندان کو گھوڑے پیش کیے تھے؟ واقعات و حقائق اس کے گواہ ہیں کہ جن لوگوں نے سیدنا عالی مقامؓ کی بیعت نہ کی تھی وہ تو آپؓ کے جانی دشمن تھے ہی لیکن وہ لوگ جنھوں نے بیعت کرلی تھی وہ بھی خیرخواہ نہیں تھے سیدنا عالی مقامؓ کے مقابلہ میں آنے والوں کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ حجاز یا شام سے لوگ نہیں آئے بلکہ سب کے سب کوفی لوگ تھے اور وہی کہ جنہوں نے آپؓ سے بیعت کی تھی۔

*مقتل ابی مخنف*

  فَتَكَامَلُوا تَمَانونَ أَلْفَ فَارِسٍ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ لَيس فِيهَا شَاهمي وَالاحِجَازِي۔

(مقتل ابی مخنف صفحہ 52) 

*ترجمہ:*

یعنی اسی ہزار گھوڑے سوار کوفی تھے جو آپ کے مقابل تھے نہ ان میں کوئی شامی اور نہ حجاز کا رہنے والا تھا۔

 کیا یہ لوگ سیدنا عالی مقامؓ کو گھوڑے پیش کرنے والے ہو سکتے ہیں؟ اگر کوئی سنی واعظ اور شیعہ ذاکر کسی معتبر کتاب کے حوالے سے ثابت کر دیں کہ سیدنا عالی مقامؓ کو میدانِ کربلا میں فلاں قبیلہ فلاں سردار یا فلاں نامی شخص نے گھوڑے پیش کیے تھے تو میں اسکو ہزار روپیہ انعام پیش کرونگا اگر گھوڑے پیش کرنے والا ہی کوئی نہیں اور خود یہ خاندان اہلِ بیت کا قافلہ اونٹوں پر سوار ہو کر آیا تھا تو پھر سیدنا عالی مقامؓ سے گفتگو وغیرہ سب باتیں سرے سے ہی جھوٹی ہوئیں جب کوئی ثابت ہی نہیں کر سکتا کہ "ذوالجناح" وہاں تھا تو پھر فرضی واقعات سے اس خاندان اہلِ بیت کے بارے میں یہ تأثر دینا کہ انہوں نے صبر و ہمت کا دامن چھوڑ دیا تھا اور اپنا سکہ جمانے کی خاطر عوام کو غلط باتوں پر رُلانا کیا ایسے واعظین و ذاکرین کو شرمِ نبی اور خوفِ خدا نہیں آتا ایسے واہی تباہی کہنے والوں کے بارے میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی چند عبارات نقل کر چکا ہوں جن سے خاص کر سنی واعظین کو اپنی روش تبدیل کرنی چاہیئے خصائص کبریٰ اور سر الشہادتین کے حوالہ سے سیدنا عالی مقامؓ کے بارے میں حضورﷺ کی پیش گوئی بذریعہ سیدنا علی المرتضیٰؓ غلط نہیں ہوسکتی اس لیے حقیقت ہیں ہے کہ سیدنا عالی مقامؓ اپنے رفقاء و اہل و عیال کے ہمراہ اونٹوں پر سوار ہو کر کربلا پہنچے تھے۔

 *سیدنا حسینؓ نے سفر کا آغاز او نٹنی پر فرمایا*

 *ذبحِ عظیم بجوالہ مقتل ابی مخنف:*

ثم ان محمد ابنِ حنفيهؓ سَمِعَ إِنَّ أَخَاهُ الْحُسَيْنَؓ يُرِيدُ الْعِرَاقَ فَبَكَى بكاء الشديدًا ثُمَّ قَالَ لَهُ أَنَّ أَهْلَ الْكُوفَةِ قَدْ عَرَفتَ غدْرَهُمْ بِأَبيكَ وَأَخِيكَ وَإِن قَبْلَتُ قَولِي أَقِمْ بِمَكَّةَ فَقَالَ يَا أَخِي اتِي أَخْشَى أَنْ تَقَاتِلَنِي جُنُودُ بَنِي أُمَيَّةَ بِمَكَّةَ فَأَكُونَ كَالَّذِي يَسْتَبَاح رَمَهُ فِي حَرُمِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ يَا اخى فيسر الى يمين فانك امن الناس به فقالَ الْحُسَيْنُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَا أَخِي لَو كُنتُ فِي بَطْنِ صَخْرَةٍ لَا سَتَخْرِجونِي مِنْهَا فَيَقْتَلُونَنِي ثم قَالَ لَهُ الْحُسَيْنِؓ يَا اخی سَانُظُرُ فِيمَا قُلْتَ فَلَمَّا كان وقت السحْرِ عَزَمَ السَّيرَ إِلَى الْعِرَاقِ فَأَخَذَ محمد بن حنفيہؓ رمام نَاقَتِهِ وَقَالَ يَا اخي مَا سَبَبْ ذَالِكَ أَنَّكَ عَجِلْتَ فَقَالَ جَدِّي رسول اللهﷺ اتانِي بَعْدَ ما فارقتُكَ وَأَنَا قائِمٌ فَضمْنِی إِلَى صَدْرِهِ قَبْلَ بَيْنَ عَيْنتى وَقَالَ لِي يَاحُسَيْنُؓ يَا قَرَةُ عَيْنِي اخْرُجُ إِلَى الْعِرَاقِ فَإِنَّ الله عزوَجَلَّ قَدْ شَاءَ أَنْ يَرَاكَ قَتِيلا۔

(ذبح عظیم صفحہ 165 مکہ معظمہ سے سیدنا حسینؓ کی روانگی مطبوعہ مینجر کُتب خانہ اثنا عشری لاہور) 

*ترجمه:*

 پھر جب سیدنا حسینؓ کے بارے میں اُن کے بھائی سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے سنا کہ آپ عراق جانے کا ارادہ کر رہے ہیں تو وہ بہت روئے پھر کہا بھائی جان ! اہلِ کوفہ نے آپؓ کے والد اور بھائی کے ساتھ جو بے وفائی اور غداری کی آپ اسے بخوبی جانتے ہیں کہ اگر میری بات مانیں تو مکہ ہی میں ٹھہرے رہیں سیدنا عالی مقامؓ نے جواب دیا بھائی مجھے خطرہ ہے کہ بنوامیہ کے لشکری مکہ میں ہی مجھ سے لڑنا شروع نہ کر دیں تو پھر بھی ایسے لوگوں میں سے ہو جاؤں جن کا خون اللہ کے حرم میں مباح ہو جائے پھر سیدنا ابنِ حنفیہؓ نے کہا کہ آپ مدینہ تشریف لے جائیں وہاں آپ بالکل امن میں رہیں گے سیدنا عالی مقامؓ نے فرمایا بھائی! اگر میں کسی چٹان کے اندر بھی ہوا تو بھی وہ لوگ مجھے وہاں سے نکال کر شہید کر دیں گے پھر آپ نے فرمایا اچھا میں تمہاری پیش کش پر غور کروں گا جب سحری کا وقت ہوا آپ نے عراق کی طرف سفر کا عزم فرمایا تو سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑلی اور کہا بھائی جان! آپ کے جلدی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا تمہارے جانے کے بعد نیند کی حالت میں ناناجان رسول کریمﷺ تشریف لائے تھے میری آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور مجھے سینہ سے لگا کر فرمانے لگے بیٹا سیدنا حسینؓ اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک عراق کی طرف سفر پر نکل پڑو اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ تمہیں شہید ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔

 صاحبِ ذبح عظیم سید اولادِ حیدر نے مقتل ابی مخنف کی عبارت سے جو حوالہ نقل کیا ہے میں نے اس کی مکمل عبارت نقل کر دی ہے وہ اس حوالہ میں سیدنا عالی مقامؓ کے بھائی سیدنا محمد ابن حنفیہؓ کا سیدنا حسینؓ کے عزمِ سفر کے وقت ایک عمل مارے سامنے ہے " فاخذ محمد بن حنفيہؓ رمام ناقة سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے سیدنا حسینؓ کی اونٹنی کی مہار پکڑی جس کا واضح مطلب ہے کہ سیدنا حسینؓ نے سفر کرتے وقت اونٹنی پر سفر فرمایا تھا راستہ میں کہیں تبدیل ہوگئی اور اس کی جگہ گھوڑا سواری کے لیے آپؓ نے لیا اس کا کوئی ثبوت نہیں تو معلوم ہوا کہ گھوڑے کا ذکر اور ذوالجناح کی کہاوتیں بالکل لایعنی اور جھوٹ پر مبنی ہیں ۔

*مدینہ منورہ سے کربلا تک آپ کی سواری اونٹنی ہی رہی:*

 *تاریخ طبری:* 

فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْنُؓ بَيْنِ لَنَانَبَأَ النَّاسِ خَلْفَكَ فَقَالَ لَهُ الفرزدق من الخبير مَالَتْ قُلُوب النَّاسِ مَعَكَ وَ سَيُوفُهُم مَعَ بَنِي أُمَيَّةَ وَالْقَضَاء يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَاللَّهِ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ فَقَالَ لَهُ الْحُسَيْنِؓ صَدَقَتَ لِلَّهِ الْأَمْرُ وَاللَّهِ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ وَكُلُّ يَوْمِ رَبَّنَا فِی شَأْنٍ أَنْ نَزَلَ الْقَضَاءَ بِمَا يَحِبُّ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى نِعْمَائِهِ وَهُوَ المُستَعَانُ عَلَى آدَاءِ الشَّكْرِ وَأَنَّ حَالَ الْقَضَاء دُونَ الرجال فلم يعتد مَنْ كَانَ الْحَقُّ نيتُهُ وَتَقَوَى سَرِيرُهُ ثُمَّ حَرَكَ الْحُسَيْنُؓ راحِلَتَهُ فقال السلام عليك ثُمَّ افترقا۔

( تاریخ طبری جلد 6 صفحہ 218 سن20ھ)

* ترجمہ:* 

فرزدق کو سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ اپنے پیچھے لوگوں کی بات بتاؤ تو اس نے کہا کہ آپ نے واقعی صحیح جاننے والے سے پوچھا ہے لوگوں کے دل آپکے ساتھ ہیں اور ان کی تلواریں بنوامیہ کے ساتھ قضاء آسمان سے اُترتی ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے پس سیدنا حسینؓ نے فرمایا تو نے سچ کہا تمام کام اللہ کو ہی زیب دیتے ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ہمارا رب ہر دن ایک نئی شان سے ظاہر ہوتا ہے وہ جو پسند کرتا ہے ویسی ہی قضاء اتارتا ہے ہم اس کی نعمتوں کا شکر بجالاتے ہیں اور ادائے شکر پر اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے اگر اس کی قضاء لوگوں پر اترتی ہے تو جس کی نیت صحیح ہوتی ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کی قوت باطنی مضبوط ہوتی ہے یہ کہا پھر سیدنا حسینؓ نے اپنی سواری (اونٹنی) کو حرکت دی السلام علیک کیا اور چل دیئے

 قارئین کرام فرزدق کی ملاقات کوفہ کے راستہ میں ہوئی تھی حوالہ مذکورہ یہ بتا رہا ہے کہ آپ اس وقت بھی اونٹنی پر ہی سوار تھے اور گھوڑا ہوتا تو اس پر سوار ہوتے عزم سفر کے وقت بھی اونٹنی پر اور دورانِ سفر بھی اونٹنی پر سوار ہونا ثابت اور محقق ہے۔ 

*میدان کربلا میں سیدنا حسینؓ کا اونٹنی پر اور دورانِ سفر بھی اونٹنی پر سوار ہونا ثابت اور محقق ہے*

 *كشف الغمه:*

فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ هَذَا كَربَلا مَوَضَعَ كَرْبِ وَ بَلَاء هَذَا امَنَاخ رِكَابِنَا وَ مَحَطِ رِحَالِنَا وَمَقْتَلِ رِجَالِنَا۔

 (1۔كشف الغمة في معرفة الائمه جلد دوم صفحہ 347 في مصرعه ومقتله عليه السلام مطبوعه تبریز ایران) 

(2۔ مناقب ابنِ شهر آشوب جلد چہارم صفحہ97 فی مقتله عليه السلام مطبوعه قم طبع جدید) 

(3۔ مقتل ابی مخنف) 

*ترجمہ* 

سیدنا حسینؓ نے فرمایا یہ کربلا مصائب کی جگہ ہے یہ ہماری اونٹنیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ ہمارے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ہمارے مردوں کی شہادت گاہیں ہیں۔

*اخبار الطوال:*

 قَالَ الْحُسَيْنُؓ وَمَا اسْم هَذَا الْمَكَانُ قَالُوا لَهُ كَرْبَلا قَالَ ذَاتَ كَرْبٍ وَ بَلَاءٍ وَلَقَدْ مَرَابِي بِهذا المكان عنہ مسيرة الى صفين و انا معه فوقف فَسَأَلَ عَنْهُ فَاخْبِرَ بِاسْمِهِ فَقَالَ ھھنَا مُحَط ركَابِهِمْ وَهَهُنَا مِحْرَاقُ دِمَاءهِمْ۔

(الاخبار الطوال مصنفه احمد بن داود صفحہ 353 نیابت الحسینؓ مطبوعه بیروت طبع جدید)

*ترجمه:* سیدنا حسینؓ نے پوچھا اس جگہ کا کیا نام ہے؟ لوگوں نے کہا کربلا فرمایا مصیبت کی جگہ میرے والد گرامی جب صفین کی طرف جارہے تھے اور میں بھی ان کے ہمراہ تھا تو آپ کا جب یہاں سے گزر ہوا تو کچھ دیر کے لیے ٹھہرگئے اس جگہ کے بارے میں پوچھنے لگے تو آپ کو اس کا نام بتایا گیا آپ نے فرمایا یہ جگہ آن (شہیداء کربلا) کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہاں ان کا خون گرے گا۔ 

قارئین کرام روایت بالا کے راوی خود سیدنا حسینؓ اور جن کی طرف سے بات ذکر فرما رہے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم لدنی عطا فرمایا ہے میں اس روایت کے ذکر کرنے کے بعد خاص کر اہلِ سنت کہلانے والے واعظین کو مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ جب میدانِ کربلا میں اونٹوں پر سے سیدنا عالی مقامؓ اور ان کے ساتھیوں کا اترنا اور ان کے بیٹھنے کی جگہ وہ بیان فرما رہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے علم لدنی عطا فرمایا کہ جس کی وجہ سے ان کی خبر جھوٹی نہیں ہو سکتی تو پھر آپ لوگ کس منہ سے میدانِ کربلا میں " ذوالجناح" کے فرضی واقعات بیان کر کے لوگوں سے دادِ خطابت وصول کرتے ہیں؟ 

اور اس روایت کو شیعہ ذاکرین بھی بار بار پڑھیں یہ ایسے دو عظیم المرتبت حضرات کی روایت ہے جو معصومین کے سردار ہیں وہ کربلا میں وارد ہونا اونٹوں پر بیان فرمائیں اور تم ان کی سواریاں گھوڑوں کو بناؤ کیا ان کی بات سچی ہے یا تمہاری کہانیاں درست ہیں؟ سواری سے اُتر کر آپ نے اپنے خادم عقبہ کو جو حکم دیا وہ بھی سن لیجئے۔ 

*مقتل ابی مخنف:*

فَقَالَ الْحَسَينؓ وَالله لَا أَعْطِی بِيَدِی أَعْطَاء الذلِيلِ وَلَا أُفر فِرَارَ الْعَبِيدِ ثُمَّ تَلَا إِنِّى عَذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبَر لَا يُؤْمِنْ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ثم انَاخَ رَاحِلَتَه وَأَمَرَ عُقَبَهِ مِنْ سَمُعَانَ أَنْ يُعْقِلُهَا بِفَاضِلِ رِمَامِهَا۔  

(مقتل ابی مخنف صفحہ 55 مضائقه القوم للحسينؓ مطبوعه حیدریه نجف اشرف ایران)

 *ترجمہ:*

پھر سیدنا حسینؓ نے فرمایا خدا کی قسم میں (بیعت کے لیے) ہاتھ کسی ذلیل کی طرح نہ دوں گا اور نہ کسی بزدل کی طرح بھاگوں گا پھر آپ نے یہ تلاوت فرمائی انی عذت الخ ۔ میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ ہر ایسے متکبر سے چاہتا ہوں جو قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا پھر آپ نے اپنی اونٹنی بیٹھائی اور عقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ اس کی فالتو مہار سے اس کے گھٹنے باندھ دو۔ 

*بحار الانوار:*

ثمَّ قَالَ هَذِهِ كَرْبَلَا فَقَالُوا نعَمْ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ فَقَالَ هَذَا مَوْضَعُ كَرُبَلًا فَقَالُوا نَعمْ يَا ابْنَ رَسُولِ اللهِ فَقَالَ هَذَا مَوْضَعَ كَرُبَلَا هَذا مَنَاخ رِکابِنَا وَمَحَطِ رِحالِنَا وَمَقْتَلِ رجَالِنَا وَسَفَكِ دمائنا۔

(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 383 تاریخ سیدنا حسین بن علیؓ مطبوعه تہران)

*ترجمه:*

  پھر پوچھا یہ کربلا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں یہ کربلا ہے اے رسول اللہﷺ کے فرزند پھر پوچھا یہ مقام کربلا ہے؟ لوگوں نے کہا اے رسول اللہﷺ کے فرزند ہاں یہ کربلا ہے فرمایا یہ جگہ ہمارے اونٹوں کے بٹھانے کی جگہ اور ہمارے کجاوے رکھنے کی جگہ اور ہمارے مردوں کی شہادت گاہ اور اور ہمارے خون گرنے کی جگہ ہے۔

*ناسخ التواريخ :*

فَقَالَ أَرْضُ كَرْبٍ وَبَلَاءٍ ثُمَّ قَالَ قِفُوا وَلَا تَرَخلُوا منها وَهھنَا وَاللَّهِ مَنَاخُ رِكَابِنَا وَ هَهُنَا وَاللَّهِ مَسْفَكِ دِمَائنَا وَهَهُنَا وَ اللَّهِ مَتُكُ حَرِيمِنَا، وَهَلَنَا وَاللَّهِ مَقْتَلِ رِجالِنَا وَهُهُنَا والله ذبح أَطْفَالِنَا وَهُهَنَا وَاللَّهِ تُزَارُ قُبُورہ وَبِهَذَهِ التَّرْبَةِ وَعَدَنی جَدَى رَسُولُ اللَّهِﷺ ولا خلف لقوله۔ (1۔ ناسخ التواريخ جلد 2 صفحہ 161 - دراحوالات سید الشہداء ورود حسينؓ بزمین کربلا مطبوعه تہران)

*ترجمہ:*

پھر فرمایا یہ مصیبت کی زمین ہے پھر فرمایا یہاں رک جاؤ آگے کوچ نہ کرنا خدا کی قسم یہاں ہمارے گھر والوں کی عزت لوٹی جائے گی خدا کی قسم یہاں ہمارے مردوں کو ذبح کیا جائے گا خدا کی قسم یہاں ہمارے بچوں کو شہید کیا جائے گا خدا کی قسم یہ وہ جگہ ہے جس کا مجھ سے میرے نانا جان نے وعدہ کیا تھا اور ان کے قول میں غلطی نہیں۔ 

قارئین کرام سیدنا حسینؓ نے قسمیں فرمائیں کہ میدانِ کربلا ہمارے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور ان کے کجاوے رکھنے اور ہمارے شہید ہونے کی جنگ کے ہے ان تمام باتوں کا وعدہ اس شخصیت نے مجھ سے کیا تھا جن کی بات غلط نہیں ہو سکتی جب وہ غلط نہیں ہو سکتی تو پھر لازماً سیدنا حسینؓ میدانِ کربلا میں اونٹوں پر پہنچے انہیں وہاں بٹھایا سنی واعظین اور شیعہ ذاکرین کی غلط بیانی کو دیکھیں یا جناب رسالت مآبﷺ کے سچے قول کو دیکھیں تو یقینا ہر مسلمان ہی فیصلہ کرے گا کہ رسول کریمﷺ کی بات سچی ہے تو معلوم ہوا کہ سیدنا عالی مقامؓ اونٹوں پر میدانِ کربلا میں تشریف فرما ہوئے اور یہیں اتر کراونٹوں کو رسیوں سے باندھنے کا حکم دیا شیعوں کے مسلک کے ستون اور ان کے مذہب کے نامور مجتہد کہ جس کی ہر بات حرف آخر سمجھتی جاتی ہے اس کی زبانی سنئیے کہ سیدنا عالی مقامؓ مدینہ منورہ سے کیس سواری پر چڑھ کر روانہ ہوئے اور چلتے چلتے میدانِ کربلا میں پہنچے تو اس وقت کون سی سواری آپ کے نیچے تھی؟ ملاحظہ ہو۔ 

*بحار الانوار:*

فَلَمَّا كَانَ السَّفْر ارتَحَلَ الْحَسَينَؓ وَ بَلَغَ ذَالِكَ ابْنَ الْحَنْفِيَّةًؓ فَأَتَاہ فَأَخَذَ بِزمَامِه نَاقَتِهِ وَقَدْ رَكِبَهَا فَقَالَ يَا أَخِي المْ تَعُدُنِي النَّظَرُ فِيمَا سَأَلْتُكَ۔

(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 364 تاريخ الحسين بن علىؓ مطبوعه تہران جدید) 

*ترجمه:*

پھر جب سفر کا وقت آیا تو سیدنا حسینؓ نے کوچ کا ارادہ فرمایا اور یہ خبر سیدنا ابنِ حنفیہؓ کو پہنچی تو ان کے پاس آئے اور ان کی اونٹنی کی مہار پکڑی جبکہ سیدنا حسینؓ اس پر سوار ہوچکے تھے سیدنا ابنِ حنفیہ کہنے لگے بھائی جان کیا آپ نے میرے سوال پر غور فرمانے کا وعدہ نہ کیا تھا؟ 

قارئین کرام گزشتہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ عراق کی طرف ارادہ سفر کے وقت سیدنا حسینؓ کے بھائی سیدنا محمد بن حنفیہ آئے اور کچھ معروضات پیش کیں اس و وقت جانے کے لیے سیدنا حسینؓ اونٹنی پر سوار ہوچکے تھے انہوں نے اُن کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر رک جانے کو کہا اس حوالہ سے بھی معلوم ہوا کہ سیدنا حسینؓ جب مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو آپ اونٹنی پر سوار تھے اور مدینہ منورہ سے چل کر راستہ میں جب شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی تو آپ اس وقت بھی اونٹنی پر سوار تھے۔ 

*بحار الانوار:* 

سیدنا حسینؓ نے فرمایا کوفہ کی خبر سناؤ فرزدق نے کہا ان لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ اور اللہ کی تقدیر آسمان سے اُترے گی اللہ جو چاہے گا کرے گا سیدنا حسینؓ نے فرمایا تو نے سچی بات کہی ہے تمام معاملات پچھلے اور بعد کے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اللہ کی ہر دن نئی شان ہوتی ہے اگر اس نے قضاء کو اس طرح نازل کیا جس طرح ہم چاہتے ہیں تو ہم اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں گے وہ وہی ذات ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے شکر کے ادا کرنے پر اگر قضاء نے ہماری امیدوں کی مخالفت کی تو نہیں پرواہ کرتا وہ آدمی جس کی نیت سچی اور دل متقی ہو فرزدق نے سیدنا حسینؓ سے کہا ہاں یہ بات سچی ہے خدا آپ کو وہ عطاء کرے جس کو آپ چاہتے ہیں اور اس سے بچائے جس سے آپ ڈرتے ہیں فرزدق نے سیدنا حسینؓ کچھ چیزوں بارہ میں یعنی نذر اور مناسک حج کے بارہ میں سوال کیا تو آپ نے مجھے ان کی خبر دی وَحَرَكَ رَاحِلَتَهُ وَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ ثم اخترقنا آپ نے اپنی اونٹنی کو حرکت دی اور فرمایا السلام علیکم اس کے بعد ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔

(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 365 مطبوعه تہران)

*میدانِ کربلا میں سیدنا حسینؓ اور آپ کے رفقاء کے پاس بوقتِ جنگ اونٹ ہونے پر چند مزید شواہد*

*تاریخ روضة الصفاء:*

 سیدنا حسینؓ فرمود مرگ نزد من آسان تراست از ملاقات با ابن زیاد بعد ازاں فرمود تاشتران بار کردندو مردم خودرا سوار ساختہ روئے بجانب حجاز نبہاد۔

(تاریخ روضته الصفاء جلد سوم صفحہ 579 مطبوعه لکھنؤ طبع قدیم)

*ترجمہ:* 

سیدنا حسینؓ نے فرمایا میرے نزدیک مرما ابنِ زیاد سے ملاقات کرنے کی بہ نسبت آسان تر ہے پھر فرمایا اونٹوں پر سامان لاد دو اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ سوار ہو جاؤ اور حجاز کی جانب چل پڑھو۔

*تفسیر لوامع التنزيل:*

جَاءَ الشمَرَ فِي قَبِيلَةٍ عَظِيمَةٍ يُقَاتِلُه ثم حَالَ بينه وبين رحيله وحرمه۔

 (تفسير لوامع التنزيل۔جلد 13 صفحہ 91 در مطبع دفاع عامه سنٹیم پریس لاهور)

*ترجمه:* 

شمر ایک بڑے لشکر کے ساتھ آیا اور آپ سے لڑائی کرنے لگا امام حسین رضا اور آپ کی اوٹنی اور آپکی اہل بیت کے درمیان حائل ہو گیا۔ 

*الكامل في التاريخ:*

ثُمَّ رَكِبَ الْحُسَينُؓ رَاحِلَهَ وَتَقَدَّمَ إِلَى النَّاسِ و نادى بِصُوتٍ عالٍ يَسْمَعُهُ كُلُّ النَّاسِ۔ 

(الكامل في التاريخ جلد 4 صفحہ 61 ثم داخل احدى وستين) 

*ترجمہ:* 

پھر سیدنا حسینؓ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور بلند آواز سے آواز دی جسے سب لوگوں نے سنا ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عالی مقامؓ مدینہ منورہ سے پہلے تو بھی اونٹوں پر سوار تھے راستہ طے کیا تو بھی اونٹوں پر میدانِ کربلا پہنچے تب بھی اونٹوں پر اور لڑائی کے دوران بھی آپ کے پاس اونٹ ہی تھے معلوم گھوڑے کب آئے؟ کون لایا ؟۔ 

*اعتراض* 

مذکورہ روایات میں دو (2) لفظ رحال اور رکاب آئے ہیں رکب عام سواری کو کہتے ہیں اور تم نے اس کا معنی مخصوص سواری یعنی اونٹ کی سواری کیا ہے اور لفظ رحل سے سامان ہے وہ خواہ اونٹ پر لدا ہوا ہو یا گھوڑے پر۔ لہٰذا ان الفاظ سے صرف اونٹ اور اس پر لادا ہوا سامان مراد لینا درست نہیں ہو سکتا کہ رکاب گھوڑوں کے لیے اور رحال ان پر لادے گئے سامان کو کہا گیا ہو لہٰذا ایسے الفاظ سے گھوڑوں کی نفی کرنا درست نہیں۔ *جواب:* 

پہلی بات یہ ہے کہ ہم نے رحال اور رکاب کے الفاظ کے علاوہ بھی ایسی روایات ذکر کی ہیں جن میں صاف صاف لفظ ناقة اس لفظ کا اطلاق صرف اونٹنی پر ہوتا ہے مقتل ابی مخنف کے الفاظ و آخَذَ بِنَ مَامِ ناقة الحسین یعنی سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے سیدنا حسینؓ کی ناقہ کی مہار پکڑ لی اسی طرح سیدنا عالی مقامؓ کے غلام نے جب آپ کو کربلا میں آتے دیکھا تو مقتل ابی مخنف کے الفاظ ہیں فَلَمَّا نَظَرَ طِرمَاح اخذ بزمام ناقة الحسينؓ جب طرماح نے دیکھا تو سیدنا حسینؓ کی اونٹنی کی مہار پکڑلی ان دونوں حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ سیدنا عالی مقامؓ جب مدینہ منورہ سے چلے اور سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے جب انہیں روکنا چاہا تو اس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے اور کربلا میں بھی اونٹنی پر سواری کی حالت میں تشریف فرما ہوئے ان واضح الفاظ کے ہوتے ہوئے دوسرا احتمال یعنی گھوڑے پر سوار ہونا وہ بالکل ختم ہو جاتا ہے علاوہ ازیں رکاب اور رحال پر جو اعتراض کیا گیا ہے وہ بھی از روئے لغت غلط ہے اس بارے میں ان الفاظ کے معانی ہم شیعہ سنی دونوں کی کتب معتبرہ سے پیش کرتے ہیں۔ 

*رکاب اور رحال کے معانی از کتب طرفین:* 

*المنجد:*

*الركاب:*

 *ترجمه:* 

سواری کے اونٹ۔  

(المنجد صفحہ 474 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

*لسان العرب:* 

*لسان العرب:* 

وَالرِّكَابُ الْإِبِلُ الَّتِي يُسَارُ عَلَيْهَا وَاحِدَتُهَا رَاحِلَةً وَلَاوحَدَ لَهَا مِنْ لَفْظِهَا وَجَمْعُهَا رُكَب بِضَم ومثلُ كُتُبٍ۔ 

(لسان العرب جلد اول صفحہ 430 مطبوعہ بیروت طبع جدید)

*ترجمه:*

 رکاب ان اونٹوں کو کہتے ہیں جن پر سوار ہوکر سفر کیا جاتا ہے اس کا واحد رحلتہ ہے اور لفظ رکاب ایسی جمع ہے کہ جس کے اپنے لفظ سے واحد نہیں آتا اور اس کی جمع رکب بروزن کتب ہے۔ 

*تاج العروس:*

الرَّكَبُ لِلْبَعِيرِ خَاصَةً قَالَ ابن البرى قَوْلُ ابْنِ السكَيْتِ مَرَّبِنَا رَاكِبٌ إِذَا كَانَ عَلَى بَعِيرٍ خَاصَةً إِنَّمَا يُرِيدُ إِذَا لَمْ تُضِفهُ فَان أَصَفتَهُ جَازَ أَنْ يَكُونَ لِلْبَعِيرِ وَالْحِمَادَ وَالْفَرْسِ تبغل ونحو ذالك فتقول هذا راكب جَمَل وَرَاكِبٍ والفَرْس والبخل ونحوہ ذالک فتقول ھذا راکب جمل وَرَاكِب فرس وراکب حِمَار بفَانِ آتَيْتَ بِجَمْعِ يختص بالابل لم تضفه كقولك ركب وركاب لَا تَقُولُ رُكْبُ إِبِلٍ وَلَا رُکبَانُ إِبِلٍ لَانَّ الركْبَ و الركبَانَ لَا يَكُونُ الا لرِكابِ الإِبِلِ۔

 (تاج العروس جلد اول صفحہ 276 لفظ ركب مطبوعة مصر)

*ترجمه:*

لفظ رکب صرف اونٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے ابنِ بری نے کہا کہ ابنِ سکیت کا قول مربنا راکب اس وقت ہے جب گزرنے والا صرف اونٹوں پر سوار ہو اس لفظ سے یہی معنی لیے جاتے ہیں جب اسے کسی کا مضاف نہ بنایا جائے اور اگر اسے بطور اضافت استعمال کیا جائے تو پھر اونٹ گھوڑے گدھے اور خچر وغیرہ کے لیے استعمال ہوسکتا ہے کہا جاتا ہے راکب جمل راکب حماره راکب فرس و غیره اور اسکا استعمال کیا جائے بطور جمع تو اس سے مراد صرف اونٹ ہوں گے اور مضاف نہ ہوگاجیسا کہ رکب اور رکاب سے مراد اونٹ ہی ہوتے ہیں لہٰذا رکب الابل، رکبان الابل کہنا درست نہیں کیونکہ رکب اور رکبان صرف اونٹ سواروں کو کہا جاتا ہے۔ 

قارئین کرام لغت کی مشہور تین کتب سے ہم نے رکاب کا معنی ذکر کیا ہے سبھی کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد اونٹ ہی ہوتے ہیں اور ابنِ سکیت نے ذرا اور وضاحت کر دی کہ اضافت کے وقت اس کے دوسرے معنی بھی ہوسکتے ہیں لیکن بلااضات اور جمع کے وقت اس سے مراد صرف اونٹ ہی ہوں گے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی پیش گوئی والی روایت اور سیدنا حسینؓ کی تصدیقی روایت میں لفظ رحال اور رکاب جمع وارد ہیں لہٰذا ان کا معنی صرف اونٹ ہی ہوں گے لغت میں کسی سنی شیعہ کا اختلاف نہیں ہوتا کیونکہ اس میں عربی زبان کے الفاظ کے معانی بیان ہوتے ہیں اسی لیے شہید سنی کوئی اپنی طرف سے عربی الفاظ کے لغوی معانی میں رد و بدل نہیں کرسکتا لگتے ہا تھ شیعہ کتاب سے ایک حوالہ ملاحظہ ہو جائے ۔

 مجمع البحرين:

فَمَا أَوَجَفتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ هِي بِالكَسْرِ الابلی الَّتِي تَحْمَلُ القُومُ وَاحِدُهُ رَاحِلَةٌ وَلَا وَاحِدَلَهَا مِنْ لَفْظٍ وَالْجَمْعُ ركب کكتب والركائب جَمْعُ رَکوبَةٍ وَهُوَ مَا يركب عَلَيْهِ مِنَ الْإِبِلِ كَالْحَمْولَة وَھی مَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا مِنْهَا۔ (مجمع البحرين جلد دوم صفحہ 74 لفظ ركوب)

ترجمہ:  لفظ رکاب را مسکورہ کے ساتھ اونٹوں کو کہتے ہیں جن پر لوگ سوار ہوتے اور سامان لادتے ہیں اس کی واحد راحلہ ہے خود اس کے لفظ سے اس کا واحد نہیں آتا اور جمع رّكّبُ بروزن کتب ہے اور رکائب رکوبة کی جمع ہے رکوبة اس اونٹ کو کہتے ہیں جس پر سواری کی جائے جیسا کہ حمولة وہ اونٹ کہ جس پہ بوجھ لادا جائے۔

 لفظ رحال کی تحقیق

 المنجد:

رحال جمع رحل کی ہے جس کا معنی ہے کجاوا پالان

(المنجد صفحہ 440 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی) لسان العرب:

 الرحل مَرْكَبُ لِلْبَعِيرِ والناقته والجمع ارْحَلُ وَرِحالٌ۔

 (السان العرب جلد اول صفحہ 274 مطبوعه بيروت جدید)

 ترجمہ: رحل اونٹ اور اونٹنی کی سواری کو کہتے ہیں اس کی جمع ارحل اور رحال آتی ہے۔ 

تاج العروس:

الرحل مَرْكَبِّ لِلْبَعِيرِ وَالنَّاقَةِ وفي المفردات للراغب الرَّاكِبُ مَا يُوضَعُ عَلَى الْبَعِيرِ لِلرَّكُوبِ ثُمَّ يُعَبِّرُبِهِ تَارَةً عَنِ الْبَعِين الراحِلَة عِندَ الْعَرْبِ كُلُّ بَعِيرٌ نَجِيب سَوَاء كَانَ ذَكَرًا وَأُنثى وَلَيْسَ النَّاقَةُ أَوْلى بِاسْمِ الراحِلَة مِنَ الْجُملِ تَقُولُ الْعَرَبُ لِلْجُمَلِ إِذَا كان نَجِيبَا رَاحِلَةً وَجَمْعَهُ رِحَاوِلٌ۔

(تاج العروس جلد 7 صفحہ 340 فصل الراء باب لام لفظ رحل) 

ترجمہ: سواری کے اونٹ یا اونٹنی کو رمل کہتے ہیں مفردات امام راغب میں ہے لفظ رکب اصل میں اس چیز کے لیے بنایا گیا تھا جو اونٹ پر بیٹھنے کے لیے رکھی جاتی ہے یعنی پالان پھر بعض دفعہ اسے بول کر مراد اونٹ ہوتا ہے راحلة عربی لوگوں کے ہاں ہر اچھے اونٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے خواہ وہ نر ہو یا مادہ اور لفظ راحلة سے مراد اونٹنی لینا اور اسے اونٹ سے بہتر معنی قرار دینا درست نہیں ہے عرب ایسے اونٹ کو جو اچھا ہو راحلة کہتے ہیں۔ اس کی جمع رحاول ہے۔ 

مجمع البحرين:

وَفِي الْحَدِيثِ كَانَ رَحْلُ رَسُولِ اللهﷺ ذِرَاعًا وَ كَانَ الْمُرَادَ مُؤخَرَ الرَّحل كَمَا بُيِّنَ فِي مَوْضَعِ اخَرَ وَ الْمُرَادُ بِالرَّحْلِ تحلُ الْبَعِيرِ وَرَحْلَتِ الْبَعِيرُ مِنْ بَابِ نَفَعَ شُدَّدَتْ عَلَيْهِ الرَّاحلَةُ والراحلة كَفَاعِلَهُ النَّاقَةُ الَّتِي تَصْلَحُ لِإِنْ تَرْحَلَ وَللرکب ايضًا مِنَ الْإِبلِ ذَكَرًا كَانَ أَوْ أَنْثى وَيُقَالُ هِي البعير القوى عَلَى الْإِسْفَارِ وَالْأَحمَال۔

(مجمع البحرین جلد پنجم صفحہ 381 مکتبد مرتضوی (تہران) 

ترجمہ: حدیث میں آیا ہے کہ حضورﷺ کا رحل ایک ہاتھ تھا اس سے مراد کجاوا کا پچھلا حصہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کا ذکر ہو چکا ہے اور رحل سے مراد اونٹ کا رحل ہے رحلت البعیر اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹ پر کجاوا خوب زور سے باندھ دیا جائے لفظ راحلة فاعلہ کے وزن پر ہے ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جو کجاوا رکھے جانے کے قابل ہو چکی ہو اورمرکب بھی اونٹ کو کہا جاتا ہے خواہ وہ نر ہو یا مادہ اور کہا جاتا ہے وہ مضبوط اونٹ ہے سفر کرنے اور بوجھ لادنے میں۔ 

قارئین کرام آپ نے لفظ رحل اور رحال کا دونوں طرف کی کتب لغت سے معنی ملاحظہ کیا ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ لفظ رحل اور رکوب صرف اونٹوں (نر اور مادہ) کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا سیدنا عالی مقامؓ کا مدینہ منورہ سے سفر شروع کرنا اور کربلا تک سفر مکمل کرنا اور کربلا میں پہنچنا یہ سب مراحل آپ نے اونٹوں پر طے فرمائے گھوڑے نہ ساتھ تھے نہ راستہ میں کسی نے پیش کیے اور کربلا میں مخالفین سے اس کی توقع ہوسکتی ہے اس لیے سیدہ سکینہؓ کا گھوڑے کے پاؤں کو لپٹنا اور فریاد کرنا از اول تا آخر جھوٹ ہے اور پھر سیدنا عالی مقامؓ کا گھوڑے سے باتیں کرنا ثابت کرنا سیدنا حسینؓ پر شیعہ سنی واعظین و ذاکرین کا کذب محض ہے افسوس ہے ایسے سنی واعظین و خطباء پر جو اہلِ تشیع کے لیے گھوڑے (ذوالجناح) کا ثبوت اپنی تقاریر میں پیش کرتے ہیں اور صدا افسوس ان سنی مصنفین پر کہ جنہوں نے اپنی اپنی تصانیف میں بلا تحقیق گھوڑا ثابت کر دکھایا شیعہ لوگ گھوڑا نکالتے ہیں اگر وہ گھوڑے کی فرضی روایتیں بیان کریں اور لکھیں تو ان کا یہ مسلک ہے لیکن ہم سنی جب تحریر و تقریر میں گھوڑا لے آتے ہیں اور سیدہ سکینہؓ اس کے پاؤں سے لپٹنا بیان کرتے ہیں اور لپیٹنے کے دوران فرضی گفتگو بیان کرتے ہیں ایسی تحریر و تقریر سے شیعہ لوگ حجت پکڑتے ہیں گویا ہمارے سنی حضرات درپردہ شیعوں کے گھوڑا نکالنے کی تائید کر کے ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں ایسے سنی واعظ اور ایسے سنی مصنف مسلک اہلِ سنت کا عظیم نقصان کر رہے ہیں جس کو اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت نے حرام فرمایا ہے جیسا کہ آپ کی عبارات بہت جلد پیش کر رہے ہیں جن سے واضح ہو جائے گا کہ ایسے جھوٹے واقعات پر بیان کرکے رونے رولانے والوں کی خدا کے ہاں کیا سزا ہے؟

 فاعتبروا یاولى الابصار

اعتراض
 سیدنا حسینؓ کے پاس کربلا میں بتیس (32) گھوڑے تھے

 گزشتہ اوراق میں ہم نے یہ ثابت کیا تھا کہ سیدنا عالی مقامؓ کے ساتھ گھوڑا نہیں بلکہ اونٹ یا اونٹنی تھی اس پر اگر کوئی اعتراض کرے کہ بہت سی کُتب میں سیدنا عالی مقامؓ کے ساتھ ایک نہیں بلکہ بتیس (32) گھوڑے تھے جيسا كہ الکامل فی التاریخ میں یوں موجود ہے ملاحظہ فرمائیں۔

 الكامل في التاريخ:

فَلَمَّا صَلَّى عُمَر بْنُ سَعْدِ الغَدَاةَ يَوْمَ السَّبْتِ وَ قِيلَ الْجُمُعَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءِ خَرَجَ فِي مَن مَّعَهُ مِنَ النَّاسِ رعَبَّ وَحبى الْحُسَيْنُؓ أَصْحَابَہ وَصلٰى بهم الصلاة الغداة وَكَانَ مَعَهُ اثْنَانِ وَثَلَاثُونَ فَارِسا وَارْبَعُونَ رَاجِلا فَجَعَلَ زُهَيْرُ بْنُ الْقَيْنِ في مَيْمَنَةٍ أَصْحَابِهِ وَحَبِيب بن مطهر في مسيرتهم واعْطَى رَأَيْتَهُ الْعَبَّاسَ أَخَاهُ۔

(1۔الكامل فى التاريخ جلد 4 صفحہ59 سته احدی و ستین ذكر مقتل سیدنا حسینؓ مطبوعه بيروت)

(2۔البداية والنهاية جلد 8 صفحہ 178 سنه احدی وستين مطبوعة بيروت)

(3۔ تاریخ طبری جلد 6 صفحہ 240 تا 248 سن 61ھ معطبوعہ بيروت ذكر الخبر عما كان فيها من الاحداث) ترجمہ:  پھر جب عمر بن سعد نے ہفتہ یا جمعہ کے دن یوم عاشوراء کو صبح کی نماز پڑھی وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلا اور سیدنا حسینؓ نے بھی اپنے ساتھیوں کو تیار کیا ان کے ساتھ صبح کی نماز ادا فرمائی سیدنا حسینؓ کے ساتھ بتیس (32) گھوڑ سوار تھے اور چالیس آدمی پیدل تھے آپؓ نے زہیر بن قین کو شکر کی دائیں جانب اور حبیب بن مطہر کو بائیں جانب مقرر کیا اور جھنڈا اپنے بھائی سیدنا عباسؓ کو عطا فرمایا۔ 

ان تین کتب کے حوالہ سے معلوم ہوا کہ سیدنا عالی مقامؓ کے ساتھ بتیس (32) گھوڑے سوار تھے لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ کے پاس کوئی گھوڑا نہ تھا؟ 

جواب اول:

 انہی کتب تاریخ سے ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ سیدنا عالی مقامؓ جب مدینه منورہ سے روانہ ہوئے تو گھوڑے کی بجائے اونٹ پر سوار تھے راستہ میں فرزدق شاعر ملا تو اس وقت بھی اونٹ پر سوار تھے پھر جب کربلا پہنچے تو بھی اونٹ پر سوار تھے اور کربلا میں اترنے کے بعد جس سواری کو باندھنے کا حکم دیا وہ بھی اونٹ ہی تھا ایک دو مرتبہ آپؓ نے مدِمقابل سے گفتگو فرمائی تب بھی آپ اونٹ پر سوار تھے اور اگر یہ کہا جائے کہ آپؓ نے مدینہ منورہ سے کربلا تک کا سفر واقعی اونٹ پر کیا لیکن کربلا میں آپ کے محبین نے آپ کو یہ گھوڑے دیئے تھے تو اس بارے میں محبین کے طرز عمل پر ہم ایک مشہور شیعہ کا حوالہ پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو۔

مقتل ابی مخنف:

فقال قيس بن اشعث نزِلَ عَلَى حكم الامير بن زياد فَلَمَّا سَمِعُوا كَلَامَ زُهَيْرٍ قَالُوا لَنْ نبْرَحَ حَتىٰ نَقْتُلَ صَاحِبَكُمْ وَمَن يُتَابِعُهُ أَوْ يَنَابِع ليزيد۔

 (مقتل ابی مخنف صفحہ 55 تا 56 مكتبه حيدريه نجف اشرف عراق) 

ترجمہ:(سیدنا حسینؓ نے آواز دے کر پوچھا اے اشعث بن ربعی اے کثیر بن شہاب اور اے فلاں بن فلاں تم ہلاک ہو جاؤ کیا تم نے مجھے اپنے پاس آنے کے لیے خطوط نہیں لکھے تھے اور یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارا فائدہ اور نقصان مشترکہ ہوگا اس کے جواب میں انہوں نے کہا ہم کچھ نہیں کرسکتے سیدنا حسینؓ نے فرمایا اگر تم میرا یہاں آنا اچھا نہیں سمجھتے تو میں واپس لوٹ جاتا ہوں جدھر میرا دل کرے) قیس بن اشعث نے کہا سواری سے اترو ابنِ زیاد کا حکم ہے (پھر زہیر نے سیدنا حسینؓ کی طرف تقریر کی تو انہوں نے جواباًکہا) ہم تمہارے صاحب سیدنا حسینؓ کو قتل کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے اور ان سے متبعین کو بھی قتل کریں گے یا پھر تم یزید کی بعیت کر لو یہ تھا محبین کا برتاؤ کہ جن سے گھوڑے ملنے کی توقع کون کرسکتا ہے؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ کربلا میں گھوڑوں کا سیدنا حسینؓ کو دیئے جانا عقلاً نقلاً ناممکن ہے نقلاً اس لیے کہ مدینہ منورہ سے کربلا تک آپ کا سفر اونٹ پر ثابت ہے اور عقلاً کربلا والوں کا آپ کو قتل کرنے کی دھمکی دینے کے ساتھ گھوڑے دینا ناممکن ہے۔ 

جواب دوم:

مذکورہ تین کُتب میں واقعہ اگرچہ تقریباً ملتا جلتا ہے لیکن ان میں سے سند صرف طبری نے ذکر کی بقیہ دو کتابوں میں سند مفقود ہے اور طبری کی ذکر کردہ سند سخت مجروح ہے کیونکہ اس کا مرکزی راوی لوط بن یحییٰ ابو مخنف ہے جو پرلے درجے کا کذاب ہے اسماء الرجال میں اس کے بارے میں یُوں لکھا ہے  

میزان اعتدال:

لوط بن یحییٰ ابو مخنف اخباری تالف لا یوثق بہ ترکہ ابوحاتم وغیرہ قال الدارقطنی ضعیف وقال ابن معین لیس بثقة وقال مرة لیس بشئی وقال ابن عدی شیعی مخترق صاحب اخبارھم۔

(میزان الاعتدال جلد دوم صفحہ 360 حرف لام مطبوعه مصر) 

ترجمہ:لوط بن یحییٰ ابو مخنف اخباری آدمی ہے اِدھر اُدھر کی جوڑنے والا غیر معتبر آدمی ہے ابوحاتم نے اسے متروک کہا دارقطنی نے ضعیف کہا ابنِ معین نے اس کی ثقاہت کا انکار کیا مرہ نے لیس بشی کہا ابنِ عدی نے کہا دل جلا شیعہ تھا بس خبریں لکھنے کا ماہر تھا لہٰذا ایسے کٹر اور حاسد شیعہ کی روایت اور محض خبری معتبر آدمی کی روایت سے استدلال کیونکر ہو سکتا ہے؟۔

جواب سوم:البداية والنهاية:

وَللشَّيعَةِ وَالرَّافِضِيةِ فِي صِفَةِ مَصْرَعِ الْحُسَيْنِ كِذَّبٌ كَثِير وَ أَخبار باطلةٌ وَفِيمَا ذَكَرْنَا كِفَايَة وَفِي بَعْض مَا أَوْرَدُنَاهُ نَظُرُ وَلَوْلَا أَنَّ ابْنَ جَرِيرٍ وَغَيْرَهُ مِنَ الْحُفَّاظِ وَالْأَئمَةَ ذَكَرُوهُ مَا سُقُتُهُ وَاكْثَرُهُ مِنْ رِوَايَةِ أَبی مَخْنَفٍ لوط بن يحيىٰ وَقَدْ كَانَ شِيعِيًّا وَهُوَ ضَعِيفٌ الْحَدِيثِ عِنْدَ الْأَئِمَّةِ وَلَكِنَّهُ أَخْبَارِي حَافِظٌ عِنْدَهُ مِنْ هَذِهِ الْأَشْيَاء مَا لَيْسَ عِنْدَ غَيْرِهِ۔

(البداية والنہاية جلد 8 صفحہ 202 فصل وكان مقتل سیدنا حسينؓ يوم الجمعة يوم عاشوراء مطبوعه بيروت سن61ھ) 

ترجمہ:سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بیان میں رافضیوں اور شیعوں نے بہت سی جھوٹی باتیں بنا رکھی ہیں اور باطل خبریں گھڑ رکھی ہیں ہم نے جو کچھ کر کیا اتنا ہی کافی ہے ہم نے جو اقعات ذکر کئے ان میں سے بھی بعض میں نظر ہے اگر ان باتوں کا ابنِ جریر وغیرہ حفاظ وآئمہ نے ذکر نہ کیا ہوتا تو میں انہیں ہرگز ذکر نہ کرتا ان میں سے اکثر کا راوی لوط بن یحییٰ ابو مخنف ہے وہ یقیناً شیعہ تھا اور ائمہ کے نزدیک حدیث میں ضعیف تھا لیکن اخباری اور حافظ ہے اور اس کے پاس ایسے واقعات و حکایات ہیں جو کسی اور کے ہاں نہیں ملتیں اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ شہادت سیدنا حسینؓ کے موضوع پر بہت سے واقعات من گھڑت ہیں جن کو لوط بن یحییٰ نے گھڑا کیونکہ یہ شخص اخباری تھا ابنِ جریر نے جو واقعات اپنی تاریخ میں درج کیے وہ بھی بکثرت اسی لوط بن یحییٰ سے منقول ہیں اور خود طبری بھی تشیع سے خالی نہیں ہے اس کے بارے میں ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں گھوڑے کا جھوٹا واقعہ جس نے اختراع کیا اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور اس کا نام ذوالجناح ملاحسین کاشفی نے رکھا اور ایسا مشہور ہوا کہ شیعوں کا مابہ الامتیاز نشان بن گیا یعنی ذوالجناح نکالنے والا شیعہ ہے اور اس کا منکر سنی ہے حالانکہ تحقیق یہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کے لیے کربلا میں گھوڑے کا وجود تک نہ تھا شیعہ مؤرخین کا بادشاہ صاحب ناسخ التواریخ لکھتا ہے۔ میدانِ کربلا میں ذوالجناح موجود نہ تھا۔

 ناسخ التواريخ:

 پس اسپ بر انگیخت و تیغ برآہیخت مکشوف بادکه اسپ سید الشہداء راکه درکتب معتبره رابنام نوشته انداز افزون از دو مال سواری نیست یکے اسپ رسول خدا کہ مرتجز نام داشت و دیگرے شترے کو مسناة می نمامید نسواسپ کہ ذوالجناح نام داشته باشد در ہیچیک از کتب احادیث و اخبار و تواریخ معتبره من بنده ندیده ام و ذوالجناح لقب شمر پسر لہیعہ حمیر لیست واسپ ہیچ کس رہا بدیں نام شینده ام و اگر اسپ چند کس را جناح نام بوده بعد مربوط به ذو الجناح و منسوب بحسینؓ نخواهد بودو اگر اسپ ہائے پیغمبرﷺ را جناح نامیدند باز نشاید ذوالجناح گفت در ہر حال بدیں نام اسپ نام دارنه بوده۔  

(ناسخ التواریخ در احوال سیدنا سید الشہداءؓ جزء دوم از جلد ششم صفحہ 366 شماره مرکب ہائے سیدنا حسینؓ مطبوعہ تہران) 

ترجمہ:پھر گھوڑا کُودا اور آپؓ نے تلوار کھینچ لی واضح ہو کہ سیدنا عالی مقامؓ کی سواری معتبر کتابوں میں دو ناموں سے مذکور ہے ایک گھوڑا حضورﷺ کا تھا جس کا نام مرتجز تھا دوسری سواری اونٹ تھی جس کو مسناِ کہتے تھے اور گھوڑا کہ جسے ذوالجناح کا نام دیا گیا ہے حدیث اخبار اور تاریخ کی کسی معتبر کتاب میں میں نے اس کا نام نہیں دیکھا اور ذوالجناح ایک شخص شمر بن لھیعہ کا لقب تھا اور کسی کے گھوڑے کا یہ نام میں نے نہیں سنا اور اگر چند گھوڑوں کا نام جناح ہو اور اس کے ساتھ ذو کا لفظ جوڑ کر ذوالجناح بنایا جائے تو بھی یہ گھوڑا سیدنا حسینؓ کا نہیں ہوسکتا اور اگر حضورﷺ کے گھوڑوں کا نام جناح رکھیں پھر بھی ذوالجناح کہنا غلط ہے بہر حال اس نام کا گھوڑا کوئی نہ تھا۔

 توضیح:

 شیعہ مؤرخ کی مذکورہ تحریر سے چند امور ثابت ہوتے ہیں۔ 

1۔ سیدنا عالی مقامؓ کی سواریاں صرف دو تھیں ایک گھوڑا اور دوسری اونٹنی۔ 

2۔ مرتجز نامی گھوڑا اور اصل رسول کریمﷺ کا گھوڑا تھا جو سیدنا عالی مقامؓ کو ملا۔ 

3۔ احادیث اخبار اور تاریخ کی معتبر کتابوں میں ذوالجناح نام کے گھوڑے کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

4۔ سیدنا عالی مقامؓ کے کسی گھوڑے کا نام ذوالجناح نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حضورﷺ کے گھوڑے مرتجز کا نام ذوالجناح ہو سکتا ہے۔

جب سیدنا عالی مقامؓ کی سواریاں صرف دو ہی تھیں کیا یہ دونوں سواریاں واقعہ کربلا میں آپ کے پاس موجود تھیں؟ اس کا جواب علامہ طبری سے سنیئے۔ 

تاریخ طبری:

 عن القاسم بن اصبغ بن بناته قال حدثنى مَنْ شَهِدَ الْحُسَيْنَؓ فِي عَسْكَرِهِ أَنَّ حُسَينَؓ حِينَ غَلَبَ عَلَى عَسْكَرِهِ رَكِبَ الْمُسَناتِ۔

(تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 258 سن 61ھ مطبوعه بیروت)

 ترجمہ: قاسم بن اصبغ بن بنانہ کہتا ہے کہ میں نے ایسے شخص سے سنا جو سیدنا حسینؓ کے لشکر میں موجود تھا کہ جب سیدنا حسینؓ کا لشکر مغلوب ہوگیا تو آپ مسنات نامی اونٹنی پر سوار ہو گئے۔

 الكامل في التاريخ:

ثُمَّ رَكِبَ الْحُسَيْنُؓ رَاحِلَةً وَ تَقَدَّمَ إِلَى النَّاسِ وَنَادَى بِصَوْتٍ عَالٍ يَسْمَعُهُ كُلُّ أَنَاسٍ۔

(الكامل فى التاريخ جلد 4 صفحہ 61 ثم دخل سنة احدى وستين ذكر مقتل الحسين) مطبوعه بيروت)

 ترجمہ: پھر سیدنا عالی مقامؓ اونٹنی پر سوار ہوئے اور لوگوں کی طرف تشریف لے گئے اس زور سے بولے کہ تمام لوگوں نے آپ کی آواز سُن لی۔ 

قارئین کرام اس حوالہ سے بھی معلوم ہوا کہ سیدنا عالی مقامؓ کے پاس کربلا میں اونٹ تھا گھوڑا نہیں اور جن لوگوں نے سیدنا حسینؓ کے لیے گھوڑے ثابت کیے اور دعوے کیے کہ کربلا میں سیدنا حسینؓ اور آپ کے رفقاء کے پاس گھوڑوں کے اثبات پر ہم تو حوالہ جات پیش کر سکتے ہیں یہ ان کا دعویٰ صرف روایت پرستی پر موقوف ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں جس کی حقیقت یہ ہی ہے کہ سیدنا حسینؓ کے پاس اونٹ تھا گھوڑا نہیں تھا کو ابھی ہم دلائل قاہرہ سے ثابت کر چکے ہیں۔ 

فاعتبروا يا اولى الابصار

امام حسین کے پاس میدانِ کربلا میں گھوڑا ہونے پر مولوی عبد السلام کا بے اصل دعویٰ

اعلیٰ حضرتؓ کے زمانہ میں یقیناً اتنے خرافات ماہ محرم اور واقعہ کربلا کے لیے ایجاد نہ ہوئے تھے جتنے اس زمانہ میں ایجاد ہوچکے ہیں تو اعلیٰ حضرتؓ نے بھی اپنے زمانہ کے واعظین اور مصنفین کو جنہوں نے واقعہ کربلا کو

 رنگیلاپنی سے بیان کرنے کا طریقہ اپنایا اور کتابیں لکھیں ان کے ان افعال پر آپ نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مراتب ان کے لیے ذکر کیے تو اب ہمارے زمانہ میں تو ان سنی واعظین نے حدیں ہی توڑ دیں جیسا کہ گزر چکا ہے لیکن ان میں سے ایک صاحب مولوی عبد السلام ہیں جن کی تصنیف کردہ کتاب کا نام شہادت نواسہ سید الابرار ہے یہ اس کتاب میں لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے بعض لوگ بڑے دعویٰ سے دس ہزار روپے کا اعلان کرتے ہیں کہ اگر کوئی گھوڑے کے ہونے کا ثبوت دیدے تو دس ہزار روپیہ انعام دیں گے تو اس کا جواب یہ ہے سنی کتب میں سے کسی میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں آیا کہ آپ کے پاس اونٹ ہی تھے گھوڑا نہ تھا بلکہ تمام کتب معتبرہ میں اس امر کا واضح ثبوت بارہا ملا ہے کہ گھوڑے تھے اور خود جس پر سوار ہو کر سید شہداءؓ گر کر شہید ہوئے تھے وہ گھوڑا تھا اونٹ نہیں عجیب بےوقوفی ہے کہ جس چیز کا کسی جگہ ذکر نہیں اس کے متعلق کہنا کہ یہ کتب معتبرہ میں موجود ہے اور جس چیز کا متعدد کتب میں ذکر ہو اس کے وجود کا انکار ہو رہا ہے اور پھر اس پر دس ہزار روپے انعام کا اعلان کیا جارہا ہے تو میں ایک کتاب کیا بلکہ ایک سو معتبر کُتب سے ثبوت دے سکتا ہوں جیسا کہ میں اس کتاب میں اس کا ثبوت بھی دے چکا ہوں چاہیئے کہ فی الفور مجھے دس ہزار روپیہ بذریعہ ڈاک منی آرڈ کر دیا جائے۔ 

(شہادت نواسئه سید الابرارؓ صفحہ 840 اسپ امام علیہ السلام کے نام کی تحقیق مطبوعہ مکتبہ حامد یہ لاہور)

مذکورہ عبارت کی تردید:

مولوی عبدالسلام کا یہ دعویٰ ہی بلاتحقیق ہے ورنہ ہم نے گذشتہ اوراق میں چند معتبر کتب کے حوالہ جات اس بارے میں پیش کر دیئے ہیں کہ سیدنا عالی مقامؓ کے پاس مدینہ منورہ سے شہادت تک گھوڑا نہیں بلکہ اونٹ تھا ان کے علاوہ اور بھی شیعوں کی ایک بڑی ذخیم اور معتبر کتاب اعیان الشیعہ جو دس جلدوں پر مشتمل ہے اس سے ہم اس مسئلہ کی تحقیق پیش کرتے ہیں کہ جس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی۔

اعيان الشيعه:

سیدنا محمد بن حنفیہؓ کو جب معلوم ہوا کہ سیدنا حسینؓ کربلا کی تیاری کر رہے ہیں تو فاتَاہ فَأَخَذَ بِنَ مَامِ نَاقَتِهِ وَقَدْ رَكِبَهَا فَقَالَ يَا أَخِي المُ تَحدُنی النَّظْرَ فِيمَا سَأَلْتُكَ الخ محرَّكَ رَاحِلَتَهُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ۔

 (اعيان الشيعة جلد اول صفحہ 593 تا 594 سيرة الحسينؓ خروجه الى العراق مطبوعہ بيروت)

ترجمہ: سیدنا محمد بن خنفیہؓ نے سیدنا حسینؓ کی اونٹنی کی لگام پکڑلی اس صورت میں کہ سیدنا حسینؓ اونٹنی پر سوار ہوچکے تھے تو سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے عرض کی اے میرے بھائی کیا تو نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ میں کربلا جانے کے سفر میں غور و فکر کروں گا تو جب سیدنا حسینؓ کی فرزدق شاعر نے راستے میں ملاقات کی تو سیدنا حسینؓ نے اس سے کوفہ والوں کا حال پوچھا تو فرزدق نے کہا ان کے دل تمھارے ساتھ ہیں اور ان کی تلواریں بھی تم پر ہیں تو اس ساری گفتگو کے بعد سیدنا حسینؓ نے اپنی اونٹنی کو آگے چلنے کے لیے حرکت دی اور فرزدق کو کہا السلام علیک۔

 اعيان الشيعه:

 سیدنا حسینؓ جب کربلا میں دوسری جمعرات محرم کی سن 61 ھ کو پہنچے تو فرمایا اس جگہ کا کیا نام ہے؟ کہا گیا کربلا آپؓ نے فرمایا اے اللہ میں تیرے نام کے ساتھ کربلا سے پناہ مانگتا ہوں پھر اپنے اصحاب پر متوجہ ہوئے پھر فرمایا کہ یہ کربلا ہے لوگوں نے کہا ہاں ابنِ رسولﷺ فَقَالَ هَذَا مَوضِعُ كَرْبِ بَلَاءِ انْزِلُوا ههُنَا مَنَاحُ رِكَابِنَا وَمَحَطَّ رِحَالِنَا وَمَسْفَكَ دِمَاتِنَا. وَمَقْتَلُ رِجَالِنَا

 (اعيان الشيعه جلد اول صفحہ 598 سيرت الحسينؓ وصوله کر بلا مطبوعه بيروت طبع جديد)

ترجمہ: سیدنا حسینؓ نے فرمایا یہ کرب بلا کی جگہ ہے اُتر جاؤ ہماری سواریاں بٹھانے کی اور کجاووں کو اتارنے کی اور ہمارے مردوں کے قتل ہونے کی اور ہمارے خون گرانے کی یہی جگہ ہے۔ 

اعيان الشيعه:

سیدنا حسینؓ کو جب میدانِ کربلا میں شمر نے روک لیا تو آپؓ نے فرمایا 

قَدْ بَلَغَكُمْ قَوْلُ نَبِيِّكُم الحَسَنُؓ وَالْحُسَينؓ سَیدا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ المَفيدُ ثُمَّ دَعَا الْحُسَيْنؓ بِرَاحِلَتِهِ فرَكِبَهَا وَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ۔ 

(اعيان الشيعه جلد اول صفحہ 602 سيرت الحسينؓ صفة القتال مطبوعه بيروت)

ترجمہ: سیدنا حسینؓ نے فرمایا تمہارے نبی کی یہ بات تمھیں پہنچ چکی ہے کہ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں شیخ مفید نے کہا اس خطبہ کے بعد پھر سیدنا حسینؓ نے اپنی اونٹنی منگوانی اس پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے ندا دی۔

 قارئین کرام غور فرمائیں شیعوں کے خاتم المحققین الامام محسن الدین نے اپنی شہرہ آفاق کتاب اعیان الشیعہ میں اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ جب سیدنا حسینؓ نے مدینہ شریف سے چلنے کا ارادہ کیا تو سیدنا محمد بن حنفیہؓ نے آکر اُن کی اونٹنی کی مہار پکڑلی جس پر سیدنا حسینؓ سوار تھے اور روکنے کی کوشش کی لیکن سیدنا حسینؓ نہ روکے راستے میں پہنچے تو فرزدق شاعر سے ملاقات ہوئی تو اس سے کوفہ والوں کے حالات پوچھے تو اس نے جواب دیا کہ ان کے دل تمہارے ساتھ لیکن تلواریں بھی تم پر ہیں سیدنا حسینؓ نے یہ جواب سن کر اپنی اونٹنی کو حرکت دی اور اسے السلام علیک کہا جب سیدنا حسینؓ کربلا میں پہنچے تو اس جگہ کا نام پوچھا تو لوگوں نے کہا اس کا نام کربلا ہے تو آپؓ نے فرمایا ہمارے والد نے اس مقام پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا تھا کہ سیدنا حسینؓ اور اس کے قافلے کے اونٹ یہیں بیٹھیں گے اور کجاوے بھی یہیں اتریں گے اور یہاں ہی ہمارے لوگ قتل ہوں گے اس کے بعد جب سیدنا حسینؓ نے جہاد کی تیاری کی اور آپؓ نے صف آراری فرمائی تو اپنی اونٹنی منگوا کر اس پر سوار ہوئے مذکورہ عبارت کا خلاصہ یہ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو گھوڑا نکالنے والے اور اس کی پوجا پاٹ کرنے والے ہیں جب ان کی ایک زرخیم کتاب کہ جس کی میں نے اگرچہ پوری عبارت باعث طوالت کے نقل نہ کی مگر مذکورہ الفاظ من و عن اعیان الشیعہ سے میں نے نقل کیے اور ان کا ترجمہ پیش کیا اس کے بعد کسی شیعہ کو تحقیقی طور پر حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیدنا حسینؓ کا گھوڑا نکالیں اور اس پر نوحہ خوانی اور ماتم برپا کریں اور اس کو ذوالجناح کا نام دیں میں ان تمام چیزوں کی تردید کرچکا ہوں ذوالجناح نام تو کجا اصل میں وہاں گھوڑا ہی موجود نہ تھا تو پھر گھوڑا نکالنے اور ماتم برپا کرنے کا کیا معنی پھر مجھے اپنے سنی مولوی محمد عبد السلام پر افسوس ہے کہ اس نے بغیر تحقیق کے سو (100)حوالہ گھوڑے کے نکالنے پر پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے یہ صرف روایت پرستی پر موقوف ہے کہ جس کی تحقیق میں پیش کرچکا ہوں اگر کوئی مولوی یہ ثابت کر دے کہ سیدنا حسینؓ کو اتنے گھوڑے کہاں سے ملے دینے والا کون تھا منہ مانگا انعام پائے اس لیے ان حوالہ جات کو پڑھ کر مولوی عبد السلام کو چاہیے کہ مبلغ دس ہزار بذریعہ منی آرڈر روانہ کردے ورنہ انکو عظیم ندامت اُٹھانی پڑے گی۔ 

نوٹ: مولوی عبد السلام کے دعویٰ کو پڑھ کر میں خود ان سے ملنے ان کے گھر واقعہ دھوپ سڑی ساندہ کلاں لاہور گیا اور ملاقات پر پوچھا کہ گھوڑوں کی موجودگی کے بارے میں آپ نے حوالہ جات کسی کتاب سے نقل کیسے ہیں انہوں نے حیات المنفی نامی کتاب کا ذکر کیا جو ناپید ہے میں نے گزارش کی کہ مجھے وہ کتاب دکھائی جائے انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ کتاب سیالکوٹ کوٹلی لوہاراں میں کیسی کے پاس میں نے محفوظ رکھی ہوئی ہے منگوا کر آپ کو دکھاؤں گا میرے ساتھ قریب ہی آبادی کے ایک عالم دین محمد شرف الدین صاحب بھی تھے وہ اس بات کے گواہ ہیں ان کی موجودگی میں میں نے کہا کہ کرایہ آمد ورفت میرے ذمہ آپ وہ کتاب منگوائیں تاکہ کتاب کو دیکھ پتہ چل سکے کہ کس قسم کی کتاب اور کس مصنف کی کتاب ہے اس پر مولوی عبدالسلام صاحب نے اس کے تصنف اور اس کی کتاب کی بہت زیادہ تعریف کی کہ اس کا لکھنے والا نہایت محقق آدمی ہے اور ان کی کتاب تحقیق سے بھری پڑی ہے مختصر یہ ہے کہ وہ کئی وعدے کرنے کے باوجود کتاب نہ دکھا سکے اس قسم کے وعدے وہی لوگ کرتے ہیں جن کی محض واقعات تک رسائی ہوتی ہے تحقیق سے کام نہیں لیتے گھوڑوں کے موجود ہونے والی روایات وہی ہیں جو غیر معتبر کتب میں لوگوں نے لکھ ڈالیں اور سراسٙر من گھڑت ہیں ان تمام روایات کا مأخذ لوط بن یحییٰ ابومخنف ہے اس کے علاوہ کسی معتبر کتاب نے خواہ وہ شیعہ مسلک کی ہو یا سنی مسلک گھوڑوں کا تذکرہ نہیں بلکہ تردید کی ہے اور لوط بن یحییٰ ابومخنف ایسے واقعات تراشنے کا بہت ماہر تھا۔ 

فاعتبروا يا أولى الابصار