Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دعوت

  علی محمد الصلابی

دعوت:

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور اسلام کی دعوت کا پرچم لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سیکھا تھا کہ اسلام عمل، دعوت اور جہاد کا دین ہے، جب تک انسان اپنی جان ، مال اور سب کچھ اللہ کے حوالے نہیں کر دیتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
(تاریخ الدعوۃ فی عہد الخلفاء الراشدین: 87)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (سورۃ الانعام: آیت، 163 اور 164)
ترجمہ: ’’آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو سارے جہان کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘
اسلامی دعوت کے لیے آپ بڑے متحرک تھے۔ آپ کی دعوت میں بڑی برکت تھی، جہاں جاتے اثر انداز ہوتے اور اسلام کا عظیم فائدہ ہوتا۔
آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا زندہ عملی نمونہ تھے:
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (سورۃ النحل: آیت، 125)
ترجمہ: ’’اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے، یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور راہ یافتہ لوگوں سے بھی پورا واقف ہے۔‘‘
دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں آپ کی نقل وحرکت اس دین پر ایمان اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے سلسلہ میں ایسے مومن کی واضح تصویر پیش کرتی تھی جس کو اس وقت تک چین وسکون نہیں آتا جب تک لوگوں کے اندر اپنے ایمان وعقیدہ کو راسخ نہ کر دے۔ یہ کوئی وقتی تحریک وجذبہ نہ تھا جو جلد ہی مضمحل ہو جاتا، بلکہ اسلام کے لیے آپ کی جدوجہد اور نقل وحرکت تا دم وفات باقی رہی، کبھی نہ تھکے نہ کمزور پڑے، نہ اکتاہٹ محسوس کی اور نہ عاجز آکر بیٹھے۔
(الوحی وتبلیغ الرسالۃ، د۔ یحیی الیحیی: 62)
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت کا پہلا ثمرہ مقدس ترین ہستیوں کا مشرف بہ اسلام ہونا تھا، وہ ہستیاں یہ تھیں: زبیر بن العوام، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، سعد بن ابی وقاص، عثمان بن مظعون، ابوعبیدہ بن الجراح، عبدالرحمٰن بن عوف، ابو سلمہ بن عبدالاسد، ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم ۔
آپ ان صحابہ کرام کو الگ الگ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا، یہ لوگ پہلے ستون تھے جن پر اسلامی دعوت کی عمارت قائم ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقویت کا پہلا سبب تھے، ان نفوس قدسیہ کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی نصرت و تائید فرمائی۔ مرد وخواتین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ یہ تمام کے تمام اسلام کے داعی و مبلغ تھے۔ ان کے ساتھ السابقون الاوّلون کی جماعت آگے بڑھی، ایک ایک، دو دو، مختصر جماعت، یہ اپنی قلت تعداد کے باوجود دعوت اسلامی کا لشکر تھے، اسلامی رسالت کا قلعہ تھے، اسلامی تاریخ میں ان کے مقام کو کوئی نہ پہنچ سکا۔
(محمد رسول اللہ: عرجون، جلد، 1 صفحہ، 533)
اسلامی دعوت کے سلسلہ میں صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خاندان پر توجہ دی تو اسماء، عائشہ، عبداللہ، آپ کی بیوی ام رومان، آپ کے خادم عامر بن فہیرہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ صفات حمیدہ اور اخلاق کریمہ کا… جو آپ کی شخصیت کا جز لاینفک ہو چکے تھے… لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچنے میں اہم رول رہا۔ قوم قبیلہ میں آپ کے پاس اخلاق کا عظیم سرمایہ تھا، قوم کے سبھی لوگ آپ کے گرویدہ تھے، آپ سے ان کو محبت تھی، آپ انتہائی نرم خو تھے۔ قریش کے نسب کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور اس فن میں یکتا تھے۔ قابل احترام رئیس اور جو دوسخا کے مالک تھے، مکہ میں ضیافت کا جو اہتمام آپ کرتے تھے اس میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ آپ انتہائی فصاحت وبلاغت کے مالک تھے۔
(السیرۃ الحلبیۃ: جلد، 1 صفحہ، 442)
یہ اخلاق عالیہ اور صفات حمیدہ دعاۃ ومبلغین اسلام کے لیے انتہائی ضروری ہیں ورنہ ان کی دعوت صدا بہ صحرا ہو گی اور راکھ میں پھونک مارنے کے مترادف ہو گی۔ صدیق کی سیرت طیبہ آپ کے فہم اسلام کی تفسیر ہے اور اس بات کی آئینہ دار ہے کہ انہوں نے اسلام کو اپنی زندگی میں کس طرح نافذ کیا تھا؟ آپ کی سیرت اس قابل ہے کہ ہمارے علماء و مبلغین لوگوں کی دعوت و تربیت میں اس کو اسوہ بنائیں۔