[مرتکب کبیرہ اور بدعتی کی توبہ ]غرض اس مقام پر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہل بدعت میں سے جو بھی توبہ تائب ہوتا ہے، رب تعالیٰ بھی اسے معاف فرما دیتے ہیں ۔ پھر جس گناہ کا تعلق اللہ اور اس کے رسول سے ہو، وہ خالص اللہ کا حق ہے۔ لہٰذا اس باب میں واجب ہے کہ آدمی رب تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کا طالب ہو اور رسول کی اتباع اس کے پیش نظر ہو، تاکہ اس کا عمل بالکل درست اور خالص ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۱۱۔۱۱۲)’’اور انھوں نے کہا جنت میں ہر گز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے یا نصاریٰ۔ یہ ان کی آرزوئیں ہی ہیں ، کہہ دے لاؤ اپنی دلیل، اگر تم سچے ہو۔ کیوں نہیں ، جس نے اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دیا اور وہ نیکی کرنے والا ہو تو اس کے لیے اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًاo﴾ (النساء: ۱۲۵)’’اور دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لیے تابع کر دیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی) طرف ہو جانے والا تھا اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔‘‘حضرات مفسرین اور ماہرین لغت نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جس نے بھی اپنے دین اور عمل کو خالص اللہ کے لیے کر لیا بلاشبہ وہ اپنے عمل میں ’’محسن‘‘ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلّٰہِ﴾ (آل عمران: ۲۰)’’تو کہہ دے میں نے اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دیا۔‘‘فراء اَسْلَمْتُ وَجْہِیَ کا مطلب اَخْلَصْتُ عَمَلِیْ کے ساتھ بیان کرتا ہے (یعنی میں نے اپنا عمل خالص اللہ کے لیے کر لیا) اور زجاج اس کی تفسیر قَصَدْتُ بِعِبَادَتِیْ اِلَی اللّٰہِ کے لفظوں کے ساتھ بیان کرتا ہے یعنی ’’میں نے اپنی عبادت کے ذریعے اللہ کا قصد کیا۔‘‘ بلکہ اس کی تفسیر یہی ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر ان آیات کی یہی توجیہ بیان کی گئی ہے۔یہی وہ معنی ہے جس کے گرد پورا قرآن گھومتا ہے کیونکہ پورے قرآن میں رب تعالیٰ نے اسی بات کا تو حکم فرمایا ہے کہ صرف اور صرف اسی کی عبادت کی جائے اور رب تعالیٰ کی عبادت اس کے مامور کو بجا لانے اور اس کے محظور کے ترک کا نام ہی تو ہے کہ پہلی شق یہ دین کا اخلاص ہے اور اللہ کے لیے عمل کرنا ہے اور دوسری شق یہ صفت احسان ہے اور یہی عمل صالح ہے۔ اسی لیے تو جنابِ عمر رضی اللہ عنہ یہ دعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میرے سارے کے سارے عمل کو صالح اور خالص اپنی رضا کے لیے بنا دے اور اس میں کسی کا کچھ بھی نہ رکھ۔‘‘ یہی نرا خالص عمل ہوتا ہے جیسا کہ جناب فضیل بن عیاض ارشاد باری تعالیٰ:﴿لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (ہود: ۷) ’’تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔‘‘ کی تفسیر ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ ’’کس نے خالص اللہ کے لیے اور درست عمل کیا۔‘‘ اس پر لوگوں نے پوچھا: اے ابو علی! عمل کا اخلاص اور درستی کیا چیز ہے؟ تو فرمایا: جب عمل خالص تو ہو مگر درست نہ ہو، تو بھی مقبول نہیں ہوتا اور جب درست وہ، مگر خالص نہ ہو تو بھی قبول نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ عمل خالص بھی وہ جائے اور درست بھی ہو جائے۔ پس خالص عمل وہ ہوتا ہے جو صرف اللہ کے لیے ہو اور درست عمل وہ ہوتا ہے جو سنت کے مطابق ہو۔سنت کا امر اور بدعت سے نہی کہ یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ جو اعمالِ صالحہ میں سے سب سے افضل عمل ہے لہٰذا اس کا خالص اللہ کی رضا کے لیے اور سنت کے عین مطابق ہونا واجب ہے۔ایک حدیث میں وارد ہے کہ :’’جو نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے تو چاہیے کہ جس بات کا وہ حکم دے رہا ہے اسے جانتا ہو اور جس بات سے روک رہا ہے اسے جانتا ہو، اور جس بات کا وہ حکم دے رہا ہے اس بارے نرم دل ہو اور جس بات سے وہ منع کر رہا ہے اس بارے نرم دل ہو اور جس بات کا وہ حکم دے رہا ہے اس بارے بردبار ہو اور جس بات سے وہ منع کر رہا ہے اس بارے بردبار ہو۔‘‘پس علم، یہ امر سے قبل ہو گا اور رفق و ملاطفت یہ امر کرتے ہوئے ہو گی اور حلم و بردباری یہ امر کرنے کے بعد ہو گی۔ پس اگر تو اسے علم نہیں تو جو جانتا نہیں اس کے پیچھے نہ پڑے، اور اگر وہ اس بات کو جانتا ہے لیکن نرمی اور مہربانی سے محروم ہے تو یہ بے رحم اور سنگ دل طبیب کے جیسا ہے جو مریض پر سختی کرے گا اور مریض اس کی دوا دارو قبول کرنے پر تیار نہ ہو گا اور یہ اس استاذ، مودب اور اتالیق کی طرح ہے جو سختی سے کام لیتا ہے اور شاگرد اس کی بات قبول نہیں کرتا۔ رب تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون رحمہم اللہ کو ارشاد فرمایا ہے:﴿فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰیo﴾ (طہ: ۴۴)’’پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔‘‘پھر جب انسان نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے؛ تو یہ بھی عادت کے مطابق ضروری ہے کہ اسے تکلیف دی جائے۔ ایسی صورت میں داعی پر لازم آتا ہے کہ وہ صبر کے و عفو درگزر سے کام لے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾ [لقمان ]’’ نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور اس مصیبت پر صبر کر جو تجھے پہنچے، یقیناً یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔‘‘رب تعالیٰ نے متعدد مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی ایذائیں برداشت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کے سردار تھے۔ پس انسان پر سب سے پہلے یہ بات واجب ہے کہ اس کا نیکی کا حکم کرنا خالص اللہ کے لیے ہو اور اس امر بالمعروف سے اس کا قصد رب تعالیٰ کی طاعت و فرمانبرداری ہو اور وہ امورکی اصلاح چاہتا ہو یا دوسرے پر حجت قائم کرنا چاہتا ہو اور اگر اس کا مقصود اپنے لیے اور اپنی جماعت کے لیے ریاست و سیادت کی طلب یا دوسرے کی تحقیر و تنقیص ہو تو یہ کام غیرت[دینی] کے نام پر نہ ہو گا جو عند اللہ مقبول نہ ہو گا۔ اسی طرح اگر اس نے شہرت اور دکھلاوے کے لیے یہ فریضہ سرانجام دیا تو اس کا یہ عمل رائیگاں جائے گا۔ پھر اگر اس کی دعوت ردّ کر دی جاتی ہے یا اس پر اسے اذیت دی جاتی ہے یا اسے اس بابت خطاکار قرار دیا جاتا ہے اور یہ کہ اس کی غرض فاسد ہے تو اس کا نفس بدلہ لینے کا تقاضا کرے گا اور شیطان اسے بہکانے آ پہنچے گا۔ یوں اس کا وہ عمل جس کا آغاز اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا تھا، پھر وہ خواہش نفس بن گیا تو اس کا نفس اسے ستانے والے سے انتقام لینے پر ابھارے گا۔ بلکہ بسا اوقات وہ ستانے والے پر ظلم و اعتداء بھی کر بیٹھے گا۔مختلف اقوال و مذاہب رکھنے والوں کے ساتھ بھی یوں ہی ہوا کرتا ہے، جب ان میں سے ہر ایک یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حق اسی کے ساتھ ہے اور وہ سنت پر مستقیم ہے۔ تو ان میں سے اکثر اس ہوائے نفسی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ عزت و وجاہت کا یا ریاست و سیادت کا، یا جو باتیں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ان کا بدلہ لیں اور ان کا مقصد اب اعلائے کلمۃ اللہ نہیں رہ جاتا اور نہ انھیں اللہ کے دین کے سب پر غالب و قاہر ہونے کی پروا ہوتی ہے اور نہ یہ قصد ہوتا ہے کہ دین سارے کا سارا اللہ کا ہو جائے۔ بلکہ وہ اپنے مخالفین پر غضب ناک ہو رہے ہوتے ہیں چاہے وہ اپنے اجتہاد میں معذور ہی ہوں اور اللہ ان پر ذرا بھی ناراض نہ ہو اور اپنے ہم نواؤں پر مہربان ہو رہے ہوتے ہیں ۔ چاہے وہ جاہل اور برے ارادہ کا مالک ہی کیوں نہ ہو۔ نہ تو اسے علم حاصل ہو اور نہ حسن ارادہ ہی نصیب ہو۔ بے شک یہ امر انھیں اس بات کے دروازے تک لے جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے حمد سرا ہو رہے ہوتے ہیں جن کی اللہ اور اس کے رسول کے ہاں کوئی حمد و ستائش نہیں نہیں ہوتی اور یہ لوگ ان کی مذمت میں لگے ہوتے ہیں جن کی اللہ اور اس کے رسول کے ہاں مذمت نہیں ہوتی۔ پس ان کی دوستی بھی اور دشمنی بھی صرف خواہش نفس کے مطابق ہوتی ہے ناکہ اللہ اور اس کے رسول کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔یہ ان کافروں کا حال ہوتا ہے جو صرف خواہش کے پیرو ہوتے ہیں اور اس کسوٹی پر ان کے دوست اور دشمن ہوتے ہیں اور منگولوں کی زبان میں ’’وفادار اور باغی‘‘ ہوتے ہیں ۔ ان کی نظروں میں اللہ اور رسول کے لیے دوستی یا دشمنی رکھنا نہیں ہوتا۔ یہیں سے لوگوں میں فتنے جنم لیتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ قَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ﴾ (الانفال: ۳۹)’’اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہو جائے۔‘‘اور دین سارے کا سارا اللہ کے لیے نہیں ہوتا تو فتنے سر اٹھاتے ہیں ۔