Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بازار میں قبائل عرب کے سامنے دعوت

  علی محمد الصلابی

بازار میں قبائل عرب کے سامنے دعوت

ہم یہ معلوم کر چکے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ علم انساب کے ماہر تھے اور اس فن میں آپ کو بڑی دسترس حاصل تھی۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاتھ کا نوشتہ دیکھا ہے، انہوں نے اس میں ان حضرات کا ذکر کرتے ہوئے… جو اپنے فن میں یکتا تھے… لکھا ہے کہ علم انساب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ یکتائے روزگار تھے۔

(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 110، بحوالہ تاریخ الدعوۃ: صفحہ، 95)

اس طرح صدیق رضی اللہ عنہ نے اس علم انساب کو دعوت الی اللہ کا وسیلہ بنایا، تاکہ ہر ماہر فن کو یہ سکھائیں کہ کس طرح وہ اپنے علم و فن کو دعوت الی اللہ کے لیے مسخر کر سکتا ہے۔ خواہ یہ علم و فن کسی نوعیت کا ہو، نظری علم ہو یا تجربی وعملی ، یا کسی اہم پیشہ سے اس کا تعلق ہو۔ (تاریخ الدعوۃ: صفحہ، 96) عنقریب ہم دیکھیں گے کہ جب آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبائل عرب کے سامنے اسلامی دعوت کو پیش کیا تو کس طرح اپنے اس علم کو دعوت الی اللہ کے کام میں لگایا، آپ انتہائی بلیغ خطیب تھے اور آپ کو لوگوں تک معانی کو خوبصورت اور بہترین الفاظ میں پہنچانے کا ملکہ حاصل تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اور عدم موجودگی میں آپ کی نیابت میں خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موسم حج میں دعوت کے لیے نکلتے تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمہیدی کلمات کہتے اور فصاحت و بلاغت کے موتی بکھیر کر لوگوں کو آپ کی طرف راغب کرتے تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غور سے سنیں۔ (ابوبکر الصدیق لمحمد عبدالرحمٰن قاسم: صفحہ، 92) علم انساب اور قبائل کے بنیادی خاندانی معرفت سے لوگوں کے ساتھ تعامل میں آپ کو بڑی مدد ملتی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ اپنے آپ کو قبائل عرب پر ان کی نصرت و تائید حاصل کرنے کے لیے پیش کریں۔ آپ نکلے اور میں بھی آپ کے ساتھ تھا… پھر ہم ایک دوسری مجلس کے پاس سے گذرے وہاں وقار و سکینت کا ماحول تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، سلام کیا اور دریافت کیا:

’’آپ کون لوگ ہیں؟‘‘

انہوں نے جواب دیا: شیبان بن ثعلبہ۔

پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ شریف لوگ ہیں، ان میں مفروق بھی ہے جو زبان وجمال میں ان پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس کے بالوں کی دو چوٹیاں تھیں جو سینے کو پہنچتی تھیں اور وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ قریب تھا۔

آپ نے پوچھا: آپ کی تعداد کتنی ہے؟

مفروق نے جواب دیا: ہم ہزار سے زیادہ ہیں اور ہزار کی تعداد قلت کے سبب مغلوب نہیں ہو سکتی۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ کی قوت دفاع کیسی ہے؟

مفروق نے کہا: جب ہم دشمن سے ملتے ہیں اس وقت سب سے زیادہ غصہ ہمیں آتا ہے اور جب ہم غصہ میں آجائیں تو پھر اچھی مڈبھیڑ ہوتی ہے اور گھوڑوں کو اولاد پر اور اسلحہ کو دودھ والی اونٹنیوں پر ترجیح دیتے ہیں اور مدد و نصرت اللہ کے پاس ہوتی ہے، وہ کبھی ہمیں فتح عطا کرتا ہے اور کبھی اس کے برعکس دوسرے کو فتح ملتی ہے۔ شاید آپ قریشی ہیں؟

اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر پہنچی ہے، تو وہ یہی ہیں۔

پھر مفروق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا: آپ ہمیں کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور تم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ تم ہمیں پناہ دو اور اس مشن میں ہماری مدد کرو کیونکہ قریش اللہ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے ہیں اور اس کے رسول کی تکذیب کی ہے اور باطل کے ساتھ ہو کر حق سے بے نیازی ظاہر کی ہے۔ حالانکہ اللہ ہی بے نیاز اور قابل ستائش ہے۔

پھر مفروق نے عرض کیا: اللہ کی قسم میں نے آپ سے بڑی اچھی باتیں سنیں۔ آپ بتائیں کہ آپ اور کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اس آیت کی تلاوت فرمائی:

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿ (سورۃ الانعام: آیت، 151)

ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن (کی مخالفت) کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو، ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں۔ اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ علانیہ ہوں، خواہ پوشیدہ۔ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے، اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق کے ساتھ۔ ان باتوں کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘

یہ سن کر مفروق نے کہا: اللہ کی قسم آپ تو مکارم اخلاق اور بہترین اعمال کی دعوت دیتے ہیں، جن لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کی مخالفت پر اتر آئے ہیں وہ عقل پھرے جھوٹے لوگ ہیں۔ پھر ہانی بن قبیصہ کو موقع دیتے ہوئے کہا: یہ ہمارے شیخ اور دینی رہنما ہانی ہیں۔

اس پر ہانی نے کہا: اے قریشی بھائی! میں نے آپ کی بات سنی، میرا خیال ہے کہ ایک ہی مجلس میں جو اوّل وآخر نہیں، ہمارا اپنا دین چھوڑ کر آپ کا دین قبول کر لینا رائے کی کمزوری اور قلت فکر و نظر ہو گی۔ جلد بازی میں لغزش ہے اور ہم یہ ناپسند کرتے ہیں کہ جو ہمارے پیچھے ہیں ان کے خلاف عہد وپیمان کریں، ہم اور آپ لوٹیں اور غور و فکر کریں۔

پھر اس نے مثنیٰ بن حارثہ کو اس میں شریک کرنے کے لیے کہا: یہ ہمارے شیخ اور جنگی رہنما مثنیٰ ہیں۔

اس پر مثنیٰ نے جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہوئے، کہا: قریشی بھائی! میں نے آپ کی بات سنی، اپنا دین چھوڑنے اور آپ کا دین قبول کرنے کے سلسلہ میں میرا وہی جواب ہے جو ہانی بن قبیصہ کا جواب ہے۔ ہم دو حدوں کے درمیان مقیم ہیں۔ ایک یمامہ اور دوسرا سمامہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں حدوں سے کیا مقصود ہے؟

اس نے کہا: سر زمین عرب اور سر زمین فارس وکسریٰ نے ہم سے یہ عہد و پیمان لے رکھا ہے کہ ہم کوئی بدعت ایجاد نہیں کریں گے اور نہ کسی بدعتی کو پناہ دیں گے اور جس بات کی طرف آپ دعوت دیتے ہیں شاید یہ بادشاہوں کو گراں گذرے اور پسند نہ آئے۔ اگر عرب سے متصل علاقہ میں کوئی ایسی بات ہے تو عذر مقبول ہے اور قابل درگذر ہے اور اگر آپ عرب کے متصل علاقوں میں ہم سے مدد چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ لوگوں نے سچی بات پوری صراحت سے کہہ دی، بڑا اچھا کیا۔ اللہ کے دین کی نصرت و تائید وہی کر سکتا ہے جو ہر طرح سے اس کا ساتھ دے، تمہارا کیا خیال ہے اگر تھوڑی ہی مدت میں اللہ تعالیٰ تمہیں ان کی سرزمین وملک کا وارث بنا دے اور ان کی خواتین تمہارے قبضے میں آجائیں تو کیا تم اللہ کی تسبیح وتقدیس کرو گے؟

یہ سن کر نعمان نے کہا: الہٰی ہم اس کے لیے تیار ہیں۔

(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 3 صفحہ، 142 تا 144 سبیل الرشاد للصالحی: جلد، 2 صفحہ، 596 اور 597)

دروس و عبر:

اس واقعہ میں بے شمار دروس و عبر ہیں:

ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمہ وقت آپ کی صحبت میں رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ پورے اسلام کو سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام میں آپ کو سب سے زیادہ دین کا علم عطا فرمایا تھا۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کی حقیقت سیکھی اور اس کے معانی و مفاہیم کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پائی۔ دعوت کی حقیقت اور مزاج کا احاطہ کیا اور اس کے مختلف مراحل سے آپ گذرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے استفادہ کیا، ربانی منہج آپ کے اندر جاگزیں ہو گیا اور اس الٰہی منہج کی روشنی میں اللہ عزوجل، حیات و کائنات کی حقیقت اور وجود کے راز کی معرفت آپ نے حاصل کی اور حیات بعد الممات، قضاء و قدر کا مفہوم، آدم وابلیس کے واقعہ کی حقیقت، حق و باطل، ہدایت و ضلالت اور ایمان وکفر کے مابین کشمکش کی حقیقت کو آپ نے اچھی طرح سمجھا۔ عبادات، قیام اللیل، ذکر الہٰی، تلاوت قرآن آپ کو انتہائی محبوب ہو گئیں، جس سے آپ کے اخلاق بلند ہوئے، نفس کی تطہیر اور روح کا تزکیہ عمل میں آیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبائل کو اسلام کی دعوت پیش کر رہے تھے… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بڑا استفادہ کیا۔ اس رفاقت سے آپ کو یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبائل کے سرداروں سے اسلامی دعوت کے لیے جس نصرت و تائید کا مطالبہ کر رہے تھے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ لوگ ایسے ملکی معاہدات کے ساتھ بندھے نہ ہوں جو اسلامی دعوت سے متناقض ہوں اور وہ لوگ اس سے آزاد نہ ہو سکتے ہوں کیونکہ اس صورت حال میں اگر اسلامی دعوت ان کے تصرف میں چلی گئی تو یہ اس دعوت کے لیے مفید ہونے کے بجائے مضر ہو سکتا ہے اور ان ممالک کی طرف سے جن سے ان کا معاہدہ ہے اسلامی دعوت کو ختم کر دینے کا خطرہ ہے کیونکہ وہ ممالک اسلامی دعوت کو اپنے لیے خطرہ اور اپنے مصالح و مفادات کے لیے چیلنج محسوس کریں گے۔(الجہاد والقتال فی السیاسیۃ الشرعیۃ، محمد ہیکل: جلد، 1 صفحہ، 412)

مشروط یا جزوی حمایت و تائید سے مقصود حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس صورت میں اگر کسریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنا چاہتا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوتا تو بنو شیبان کے لوگ کسریٰ کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے تھے اسی لیے یہ بات چیت ناکام رہی۔

(التحالف السیاسی فی الاسلام، منیر الغضبان: صفحہ، 53)

مثنیٰ بن حارثہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشروط و محدود حمایت کی پیشکش کی تو اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’اللہ کے دین کی نصرت و حمایت وہی کر سکتا ہے جو ہر طرح سے اس کا ساتھ دے‘‘ یہ آپ کی دور اندیشی اور بالغ نظری پر شاہد ہے۔ (التحالف السیاسی فی الاسلام، منیر الغضبان: صفحہ، 64)

بنو شیبان نے جو مؤقف اختیار کیا اس سے ان کی مردانگی، اخلاق حمیدہ، خصائل حسنہ کا پتہ چلتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اس سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے بالکل واضح طور سے اپنی بات پیش کی اس میں کسی طرح کا غموض نہیں رکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس قدر حمایت کر سکتے تھے اس کو واضح کر دیا اور یہ بھی واضح کر دیا کہ دعوت اسلامی کو امراء و ملوک ناپسند کرتے ہیں۔ تقریباً دس سال بعد اللہ تعالیٰ نے جب ان کے دلوں کو نور اسلام سے منور کیا تو وہ ملوک و سلاطین کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کا بطل جلیل اور جنگی قائد مثنیٰ بن حارثہ شیبانی خلافت صدیقی میں فتوحات اسلامی کے عظیم قائدین میں سے ہوا اور ان کی قوم اسلام لانے کے بعد اہل فارس سے جنگ میں سب سے بہادر ثابت ہوئی حالانکہ یہی لوگ دور جاہلیت میں اہل فارس سے ڈرتے تھے، ان سے جنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی حقیقت تسلیم کر لینے کے باوجود اہل فارس کے ڈر سے پیچھے ہٹ گئے کہ ان سے جنگ نہ کرنی پڑے، جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ نہیں سکتے تھے۔ اس سے اسلام کی عظمت کا پتہ چلتا ہے کہ اس دین کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے کس طرح دنیا میں مسلمانوں کو عظمت عطا فرمائی اور انہیں قیادت وسیادت سے ہمکنار فرمایا اور آخرت میں جنت کی دائمی نعمتیں تو ان کے لیے ہیں ہی۔

(التاریخ الاسلامی للحمیدی: جلد، 3 صفحہ، 69 التربیۃ القیادیۃ: جلد، 2 صفحہ، 20)