صحابہ رضی اللہ عنہ کا بلند مقام
حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہصحابہؓ کا مقامِ بلند
اسلام محض چند اصول ونظریات اور علوم وافکار کا مجموعہ نہیں؛ بلکہ وہ اپنے جلو میں ایک نظامِ عمل لے کر چلتا ہے، وہ جہاں زندگی کے ہرشعبے میں اصول وقواعد پیش کرتا ہے وہاں ایک ایک جزئیہ کی عملی تشکیل بھی کرتا ہے؛ اس لیے یہ ضروری تھا کہ شریعت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام) کی علمی وعملی دونوں پہلوئوں سے حفاظت کی جائے اور قیامت تک ایک ایسی جماعت کا سلسلہ قائم رہے جو شریعت مطہرہ کے علم وعمل کی حامل اور امین ہو۔ حق تعالیٰ نے دین محمدی کی دونوں طرح حفاظت فرمائی، علمی بھی اور عملی بھی۔
حفاظت کے ذرائع میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت سرفہرست ہے، ان حضرات نے براہِ راست صاحب وحی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کو سمجھا، دین پر عمل کیا اور اپنے بعدآنے والی نسل تک دین کو من وعن پہنچایا، انھوں نے آپ کے زیرتربیت رہ کر اخلاق واعمال کو ٹھیک ٹھیک منشائے خداوندی کے مطابق درست کیا، سیرت وکردار کی پاکیزگی حاصل کی، تمام باطل نظریات سے کنارہ کش ہوکر عقائد حقہ اختیار کیے رضائے الٰہی کے لیے اپنا سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیا، ان کے کسی طرزِ عمل میں ذرا خامی نظر آئی تو فوراً حق جل مجدہ نے اس کی اصلاح فرمائی، الغرض حضرات صحابۂ کرامؓ کی جماعت اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہے جن کی تعلیم وتربیت اور تصفیہ وتزکیہ کے لیے سرورکائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم ومزکی اور استاد واتالیق مقرر کیاگیا۔ اس انعام خداوندی پر وہ جتنا شکر کریں کم ہے، جتنا فخر کریں بجا ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلالٍ مُّبِینٍ۔
ترجمہ: بخدا بہت بڑا احسان فرمایا اللہ نے مومنین پر کہ بھیجا ان میں ایک عظیم الشان رسول ان ہی میں سے وہ پڑھتا ہے ان کے سامنے اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے، ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور گہری دانائی، بلاشبہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔ (سورۃ آل عمران: آیت، 164)
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی وعملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپرد کی جارہی تھی؛ اس لیے ضروری تھا یہ حضرات آئندہ نسلوں کے لیے قابل اعتماد ہوں؛ چنانچہ قرآن وحدیث میں جابجا ان کے فضائل مناقب بیان کیے گئے؛ چنانچہ:
وحی خداوندی نے ان کے تعدیل فرمائی، ان کا تزکیہ کیا، ان کے اخلاق وللہیت کی شہادت دی اور انہیں یہ رتبہ بلند ملا کہ ان کو رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام) کے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا۔
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ۔ (سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور جوایماندار آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں شفیق ہیں، تم ان کو دیکھوگے رکوع، سجدے میں، وہ چاہتے ہیں صرف اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی۔ ان کی علامت ہے ان کے چہروں میں سجدے کا نشان۔
گویا یہاں محمد رسول اللہ (محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں) ایک دعویٰ ہے اوراس کے ثبوت میں حضرات صحابۂ کرامؓ کی سیرت وکردار کو پیش کیا گیا ہے کہ جسے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شک وشبہ ہو، اسے آپؐ کے ساتھیوں کی پاکیزہ زندگی کا ایک نظر مطالعہ کرنے کے بعد خود اپنے ضمیر سے یہ فیصلہ لینا چاہیے کہ جس کے رفقاء اتنے بلند سیرت اور پاکباز ہوں وہ خود صدق وراستی کے کتنے اونچے مقام پر فائز ہوںگے ع
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
حضرات صحابہؓ کے ایمان کو ’’معیار حق‘‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی؛ بلکہ ان حضرات کے بارے میںلب کشائی کرنے والوں پر نفاق وسفاہت کی دائمی مہر ثبت کردی گئی۔
وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ آمِنُواْ کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَائُ أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَاء وَلَـکِن لاَّ یَعْلَمُونَ
(سورۃ البقرۃ: آیت، 13)
ترجمہ: اور جب ان (منافقوں) سے کہا جائے ’’تم بھی ایسا ہی ایمان لائو جیسا دوسرے لوگ (صحابہ کرام) ایمان لائے ہیں‘‘ تو جواب میںکہتے ہیں ’’کیاہم ان بے وقوفوں جیسا ایمان لائیں‘‘؟ سن رکھو! یہ خود ہی بے قوف ہیں؛ مگر نہیں جانتے۔
حضرات صحابۂ کرام کو بار بار ’’رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ‘‘ (اللہ ان سے راضی ہوا، وہ اللہ سے راضی ہوئے) کی بشارت دی گئی اور امت کے سامنے اسے اتنی شدت وکثرت سے دہرایا گیا کہ صحابۂ کرامؓ کا یہ لقب امت کا تکیۂ کلام بن گیا کسی نبی کا اسم گرامی آپ ’’علیہ السلام‘‘ کے بغیر نہیں لے سکتے اور کسی صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام نامیؓ رضی اللہ عنہ کے بغیر مسلمان کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتا۔
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ظاہر کو دیکھ کر راضی نہیں ہوا، نہ صرف ان کے موجودہ کارناموں کو دیکھ کر ان سے رضامندی کا اظہار کردیا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر وباطن اور حال و مستقبل کو دیکھ کر ان سے راضی ہوا ہے، یہ گویا اس بات کی ضمانت ہے کہ آخر دم تک ان سے رضائے الٰہی کے خلاف کچھ صادر نہیں ہوگا۔
اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس سے خدا راضی ہوجائے خدا کے بندوں کو بھی اس سے راضی ہوجانا چاہیے، کسی اور کے بارے میں تو ظن وتخمین ہی سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہے یا نہیں؛ مگر صحابۂ کرامؓ کے بارے میں تو نص قطعی موجود ہے، اس کے باوجود اگر کوئی ان سے راضی نہیں ہوتا؛ بلکہ ان کو بہر۔ صورت، ’’غلط کار‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو گویا اسے اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہے۔
اور پھر صرف اتنی بات کو کافی نہیں سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا؛ بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ ان حضرات کی عزت افزائی کی انتہا ہے۔
حضرات صحابۂ کرامؓ کے مسلک کو ’’معیاری راستہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے ہم معنی قرار دیاگیا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو وعید سنائی گئی۔
وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَائتْ مَصِیراً (سورۃ النساء: آیت، 115)
ترجمہ: اور جو شخص مخالفت کرے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی، جب کہ اس کے سامنے ہدایت کھل چکی اور چلے مومنوں کی راہ چھوڑ کر، ہم اسے پھیردیے گے جس طرف پھرتا ہے اور اسے داخل کریںگے جہنم میں اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے لوٹنے کی۔
آیت میں، المومنین ’’کا اولین مصداق اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس جماعت ہے رضی اللہ عنہم، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اتباع نبوی کی صحیح شکل صحابہ کرامؓ کی سیرت کو اسلام کے اعلیٰ معیار پر تسلیم کیا جائے۔ اور سب سے آخری بات یہ کہ انھیں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ عاطفت میں آخرت کی ہر عزت سے سرفراز کرنے اور ہر ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھنے کا اعلان فرمایا گیا۔
یَوْمَ لَا یُخْزِی اللَّہُ النَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ
(سوری التحریم: آیت، 8)
ترجمہ: جس دن رسوا نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ نبی کو اور جو مومن ہوئے آپ کے ساتھ، ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے اور ان کے داہنے۔
اس قسم کی بیسیوں نہیں سیکڑوں آیات میں صحابۂ کرامؓ کے فضائل ومناقب مختلف عنوانات سے بیان فرمائے گئے ہیں اور اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اگر دین کے سلسلۂ سند کی یہ پہلی کڑی اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ حضرات کی جماعت معاذ اللہ، ناقابلِ اعتماد ثابت ہو، ان کے اخلاق واعمال میں خرابی نکال لی جائے اور ان کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ دین کی علمی وعملی تدبیر نہیں کرسکے تو دین اسلام کا سارا ڈھانچہ ہل جاتا ہے اور خاکم بدہن۔ رسالت محمدیہ مجروح ہوجاتی ہے۔ دنیا کا ایک معروف قاعدہ ہے کہ اگر کسی خبر کو، رد کرنا ہو تو اس کے راویوں کو جرح و قدح کا نشانہ بنائو، ان کی سیرت وکردار کو ملوث کرو اور ان کی ثقاہت وعدالت کو مشکوک ثابت کرو۔ صحابۂ کرامؓ چوںکہ دین محمدی کے سب سے پہلے راوی ہیں؛ اس لیے چالاک فتنہ پردازوں نے جب دین اسلام کے خلاف سازش کی اور دین سے لوگوں کو بدظن کرنا چاہا تو اس کا سب سے پہلا ہدف صحابۂ کرامؓ تھے؛ چنانچہ تمام فرق باطلہ اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود جماعت صحابہ کو ہدفِ تنقید بنانے میں متفق نظر آتے ہیں، ان کی سیرت وکردار کو داغدار بنانے اور ان کی شخصیت کو نہایت گھنائونے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی، ان کے اخلاق و اعمال پر تنقیدیں کی گئیں، ان پر مال وجاہ کی حرص میں احکام خداوندی سے پہلو تہی کرنے کے الزامات دھرے گئے۔ ان پر خیانت، غصب اور کنبہ پروری اقربا نوازی کی تہمتیں لگائی گئیں اور غلو وانتہا پسندی کی حد ہے کہ جن پاکیزہ ہستیوں کے ایمان کو حق تعالیٰ نے ’’معیار‘‘ قرار دے کر ان جیسا ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت تھی۔ آمنوا کما آمن الناس (پ۱، البقرہ ع۲) انہی کے ایمان وکفر کا مسئلہ زیربحث لایاگیا اور تکفیر وتفسیق تک نوبت پہنچادی گئی جن جاںبازوں نے دین اسلام کو اپنے خون سے سیراب کیا تھا۔ انہی کے بارے میں چیخ چیخ کرکہا جانے لگا کہ وہ اسلام کے اعلیٰ معیار پر قائم نہیں رہے تھے؛ حالانکہ ان مردانِ خدا کے صدق وامانت کی خداتعالیٰ نے گواہی دی تھی۔
رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُم مَّن قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُم مَّن یَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلاً (سورۃ الأحزاب: آیت، 23)
ترجمہ: یہ وہ مرد ہیں جنھوں نے سچ کردکھایا جو عہد انھوں نے اللہ سے باندھا، بعض نے تو جان عزیز تک اسی راستہ میں دے دی اور بعض (بے چینی سے) اس کے منتظر ہیں اور ان کے عزم واستقلال میں ذرا تبدیلی نہیں ہوئی۔
انہی کے حق میں بتایا جانے لگا کہ وہ صدق و امانت سے موصوف تھے، اخلاص وایمان کی دولت انھیں نصیب تھی، جن مخلصوں نے اپنے بیوی بچوں کو، اپنے گھر بار کو، اپنے عزیز واقارب کو، اپنے دوست احباب کو، اپنی ہر لذت وآسائش کو، اپنے جذبات و خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کردیا تھا، انہی کو یہ طعنہ دیاگیا کہ وہ محض حرص وہوا کے غلام تھے اور اپنے مفاد کے مقابلے میں خدا ورسول کے احکام کی انھیں کوئی پروا نہیں تھی۔ لقد جئتم شیئًا اِدّاً۔
ظاہر ہے کہ اگر امت کا معدہ ان بے ہودہ نظریات کی مردہ مکھی کو قبول کرلیتا اور ایک بار بھی صحابۂ کرامؓ امت کی عدالت میں مجروح قرار پاتے تو دین کی پوری عمارت گرجاتی قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ایمان اٹھ جاتا اور یہ دین جو قیامت تک رہنے کے لیے آیا تھا ایک قدم آگے نہ چل سکتا؛ مگر یہ سارے فتنے جو بعد میں پیداہونے والے تھے۔علم الٰہی سے اوجھل نہیں تھے؛ اس لیے اس کا اعلان تھا۔
وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ
ترجمہ: اور اللہ اپنا نور پورا کرکے رہے گا۔ خواہ کافروں کو یہ ناگوار ہو۔
یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بار بار مختلف پہلوئوں سے صحابۂ کرامؓ کا تزکیہ فرمایا۔ ان کی توثیق و تعدیل فرمائی اور قیامت تک کے لیے یہ اعلان فرما دیا:
أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الإِیمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ (سورۃ المجادلۃ: آیت، 22)
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے لکھ دیا ان کے دل میں ایمان اور مدد دی ان کو اپنی خاص رحمت سے۔
ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرامؓ کے بے شمار فضائل بیان فرمائے بالخصوص خلفائے راشدین، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان ذی النورین، حضرت علی مرتضیٰ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے فضائل کی تو انتہا کردی، جس کثرت وشدت اور تواتر و تسلسل کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے فضائل ومناقب ان کے مزایا (خصوصیت اور ان کے اندرونی اوصاف وکمالات کو بیان فرمایا اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ انھیں عام افراد امت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے، ان حضرات کا تعلق چونکہ براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہے؛ اس لیے ان کی محبت عین محبت رسول ہے اور ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابل معافی جرم فرمایا:
اللّٰہَ اللّٰہَ فی اصحابی، اللّٰہ اللّٰہ فیاصحابی لا تَتَّخِذُوْہُمْ غَرَضًا من بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اذاہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللّٰہ ومن اذی اللّٰہ فیوشِک ان یأخذَہ۔
ترجمہ: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں مکرر کہتاہوں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا؛ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض رکھنے کی بنا پر جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔
امت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی ادنیٰ صحابی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتی؛ اس لیے ان پر زبانِ تشنیع دراز کرنے کا حق امت کے کسی فرد کو حاصل نہیں، ارشاد ہے:
لاَ تَسُبُّوا أصحابی فلو أنَّ احدََکم اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَہَبًا ما بَلَغَ مُدَّ احَدِہم ولا نَصِیْفَہٗ (بخاری، مسلم)
میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کو؛ کیونکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہوسکتاہے؛ چنانچہ تم میں سے ایک شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کے عشر عشیر کو۔
مقامِ صحابہ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیاگیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون ومردود سمجھیں؛ بلکہ یہ برملا اس کا اظہار کریں، فرمایا۔
إذَا رَأیتُمُ الذینَ یَسُبُّونَ أصحابی فقولوا لعنۃُ اللّٰہ علی شَرِّکُم (رواہ الترمذی)
جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے اور انھیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے (یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے) جو بُرا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو (ظاہر ہے کہ صحابہ کوبُرا بھلا کہنے والا ہی بدتر ہوگا)۔
یہاں تمام احادیث کا استیعاب مقصود نہیں؛ بلکہ کہنا یہ ہے کہ ان قرآنی و نبوی شہادتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص حضرات صحابہ کرامؓ میں عیب نکالنے کی کوشش کرے تو اس بات سے قطع نظر کہ اس کا یہ طرز عمل قرآن کریم کے نصوص قطعیہ اور ارشادات نبوت کے انکار کے مترادف ہے، یہ لازم آئے گا کہ حق تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو فرائض بحیثیت منصب نبوت کے عائد کیے تھے اور جن میں اعلیٰ ترین منصب تزکیہ نفوس کا تھا، گویا حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فرض منصبی کی بجا آوری سے قاصر رہے اور صحابۂ کرامؓ کا تزکیہ نہ کرسکے اور یہ قرآن کریم کی صریح تکذیب ہے۔ حق تعالیٰ تو ان کے تزکیہ کی تعریف فرمائے اور ہم انھیں مجروع کرنے میں مصروف رہیں اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تزکیہ سے قاصر رہے تو گویا حق تعالیٰ نے آپؐ کا انتخاب صحیح نہیں فرمایا تھا۔ بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے انتخاب میں قصور نکلا تو اللہ تعالیٰ کا علم غلط ہوا۔ (نعوذُ باللّٰہ مِنَ الغَوَایَۃِ والسَّفَاہَۃ) چنانچہ اہل ہوا کی بڑی جماعت کا دعویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ’’بدا‘‘ ہے یعنی اسے بہت سی چیزیں جو پہلے معلوم نہیں تھیں بعد میں معلوم ہوتی ہیں اور اس کا پہلا علم غلط ہوجاتاہے جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور ہو رسول اور نبی اور ان کے بعد صحابۂ کرامؓ کا ان کے نزدیک کیا درجہ رہے گا؟
الغرض صحابۂ کرامؓ پر تنقید کرنے، ان کی غلطیوں کو اچھالنے اور انھیں موردِ الزام بنانے کا قصہ صرف ان ہی تک محدود نہیں رہتا؛ بلکہ خدا اور رسول، کتاب وسنت اور پورا دین اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور دین کی ساری عمارت منہدم ہو جاتی ہے۔ بعید نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میںجو اوپر نقل کیا گیاہے اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہو۔
من اذاہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللّٰہ ومن اذی اللّٰہ فیوشِک ان یَاخذَہ۔
جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اورجس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ۔ لے۔
اور یہی وجہ ہے کہ تمام فرق باطلہ کے مقابلہ میں اہل حق کا امتیازی نشان صحابۂ کرامؓ کی عظمت و محبت رہا ہے۔ تمام اہل حق نے اپنے عقائد میں اس بات کو اجماعی طور پر شامل کیاہے کہ
ونَکُفُّ عن ذکرِ الصحابہ الا بِخَیرٍ
اور ہم صحابہؓ کا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح کرنے سے زبان بند رکھیں گے۔
گویا اہل حق اور اہل باطل کے درمیان امتیاز کا معیار صحابۂ کرامؓ کا ’’ذکر بالخیر‘‘ ہے جو شخص ان حضرات کی غلطیاں چھانٹتا ہو ان کو مورد الزام قرار دیتا ہو اور ان پر سنگین اتہامات کی فرد جرم عائد کرتا ہو وہ اہل حق میں شامل نہیں ہے۔ اہل حق کی شان تو یہ ہے کہ اگر ان کے قلم وزبان سے کوئی نامناسب لفظ نکل جائے تو تنبیہ کے بعد فوراً حق کی طرف پلٹ آئیں۔ حق تعالیٰ جل ذکرہ ہمیں اورہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو ہر زیغ وضلال سے محفوظ فرمائے اور اتباع حق کی توفیق بخشے۔
ربنا لا تُزِغْ قلوبنا بعد إذْ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وَ علی آلہٖ وأصحابہ وأتباعہٖ اجمعین۔ آمین