Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا خلافت کا زیادہ مستحق ہونا

  علی محمد الصلابی

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا خلافت کا زیادہ مستحق ہونا

کوئی بھی مومن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی حقیقت اور صحت کے سلسلہ میں شک نہیں کر سکتا، کوئی اس سلسلہ میں انگلی نہیں اٹھا سکتا الا یہ کہ جس کے دل میں کجی ہو اور اصحابِ رسولﷺ سے اپنی اس کجی کے سبب عداوت رکھتا ہو، اور یہ صرف شیعہ روافض کا نصیبہ ہے کہ اس دنیا میں جن کا راس المال اور اصل سرمایہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سبِّ وشتم ہے، یہ لوگ خلفائے ثلاثہ سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت پر جو طعن و تشنیع اور نقد و جرح کرتے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں کیوں کہ یہ سب باطل ہیں اور افترا پردازی کے سوا کچھ نہیں ہیں، صحت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

متعدد قطعی اور صحیح نصوص اور مشہور آثار وارد ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 656)

ان نصوص میں سے بعض یہ ہیں:

1: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِی ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِی لَا يُشْرِكُونَ بِی شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

(سورة النور: آیت، 55)

ترجمہ: ’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے، اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے، اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔‘‘

یہ آیتِ کریمہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی استحقاقِ خلافت پر یوں دلیل ہے کہ آپؓ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین پر خلافت سے نوازا، اور غلبہ اور تمکنت عطا فرمائی، اور آپؓ نے اپنے ایامِ خلافت میں لوگوں کے درمیان اچھی سیرت پیش کی، عدل و انصاف کی حکومت کی، نماز و زکوٰۃ کو قائم کیا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا، لہٰذا یہ آیت کریمہ آپؓ کی احقیتِ خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔

(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 656)

2: ارشاد الہٰی ہے:

قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَى قَوْمٍ أُولِی بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ فَإِنْ تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللّٰهُ أَجْرًا حَسَنًا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

(سورة الفتح: آیت، 16)

ترجمہ: ’’آپ پیچھے چھوڑے ہوئے بدویوں سے کہہ دو کہ عن قریب تم سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے، پس اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تمہیں بہت بہتر بدلہ دے گا، اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ اس سے پہلے تم منہ پھیر چکے ہو تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔‘‘

اس آیتِ کریمہ سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی احقیتِ خلافت پر استدلال یوں کیا گیا ہے کہ ان بدویوں کو نبی کریمﷺ کے بعد سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم نے روم، فارس اور ترک سے قتال کی دعوت دی، اس نصِ قرآنی سے ان تینوں کی اطاعت واجب قرار پائی، اور جب ان کی اطاعت واجب قرار پائی تو ان کی خلافت بھی صحیح قرار پائی۔

(الفصل فی المِلَل والأہواء والنِّحَل: جلد، 4 صفحہ، 109، 110)

3: سیدنا ابو موسیٰ اشعریٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے کی نگرانی پر مامور کیا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ان کو اندر آنے کی اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو۔‘‘ دیکھا تو وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر دوسرے صاحب آئے انہوں نے بھی اندر آنے کی اجازت مانگی۔ آپﷺ نے فرمایا: ان کو اندر آنے کی اجازت دے دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو، دیکھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر ایک صاحب اور آئے انہوں نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپﷺ نے فرمایا: ان کو آنے کی اجازت دے دو اور (دنیا میں) آزمائش کے ساتھ جو انہیں لا حق ہو گی، جنت کی بشارت سنا دو۔ دیکھا تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ (صحیح البخاری: صفحہ، 3695)

اس حدیث پاک کے اندر ان تینوں کی ترتیبِ خلافت کی طرف اشارہ ہے، اور اس آزمائش کی خبر ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لا حق ہونے والی تھی، یہ آزمائش لا حق بھی ہوئی کہ آپؓ کو آپ کے گھر میں محصور کر دیا گیا اور مظلومانہ طور پر قتل کیا گیا۔ یہ حدیث اعلامِ نبوت میں سے ہے اور اس کے اندر اشارہ ہے کہ آپؓ شہید ہو کر مریں گے۔

(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 657)

4: سنن ابوداود میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

رای اللیلۃ رجل صالح ان ابا بکر نِیط برسول اللہﷺ و نیط عمر بابی بکر، و تیط عثمان بعمر۔

ترجمہ: ’’رات ایک صالح شخص نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے ملائے گئے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملائے گئے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملائے گئے۔‘‘

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہﷺ کے پاس سے نکلے تو ہم نے کہا صالح شخص سے مقصود رسول اللہﷺ ہیں، اور بعض کے بعض سے ملائے جانے سے مقصود اس دین کے والیان ہیں، جن کے ساتھ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔

(سنن ابی داود: جلد، 2 صفحہ، 513)

5: مستدرک حاکم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

انھا ستکون فتنۃ و اختلاف او اختلاف و فتنۃ۔

ترجمہ: ’’عنقریب فتنہ اور اختلاف ہو گا، یا اختلاف اور فتنہ ہو گا۔‘‘

ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ان حالات میں آپﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

علیکم بالامین واصحابہ۔

(المستدرک: جلد، 3 صفحہ، 99 صححہ و وافقہ الذہبی)

ترجمہ: ’’تم امین اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑنا۔‘‘

یہ حدیث رسول اللہﷺ کا واضح معجزہ ہے جو آپﷺ کی نبوت کی صداقت کی واضح دلیل ہے۔ آپﷺ نے اس فتنہ کی خبر دی جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں رونما ہوا، اور ویسا ہی ہوا جیسا آپﷺ نے خبر دی تھی۔

اسی طرح یہ حدیث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی احقیتِ خلافت پر دلالت کرتی ہے کیوں کہ آپﷺ نے لوگوں کو انہیں لازم پکڑنے اور ان کے ساتھ رہنے کی طرف رہنمائی فرمائی، اور یہ خبر دی کہ فتنہ و اختلاف برپا ہو گا، اور اس صورت میں حق امیر المومنین کے ساتھ ہو گا اور آپﷺ نے انہیں ان کا ساتھ تھامے رہنے کا حکم فرمایا، کیوں کہ وہ حق پر ہوں گے اور جن لوگوں نے ان کے خلاف خروج کیا وہ باطل پر ہوں گے، اور وہ اہلِ بدعت و ضلالت ہوں گے۔ رسول اللہﷺ نے آپؓ کے سلسلہ میں یہ شہادت دی کہ آپؓ برابر ہدایت پر گامزن ہوں گے، اس سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گے۔

(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 660)

6: ترمذی نے اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

یا عثمان إنہ لعل الله یُقَمِّصُک قمیصا فإن ارادوک علی خلعہ فلا تخلعہ لھم۔

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 614 اسنادہ صحیح)

ترجمہ: ’’اے سیدنا عثمانؓ امید ہے اللہ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا پس اگر لوگ تم سے اس قمیص کو اتروانا چاہیں تو اس قمیص کو ان کی وجہ سے مت اتارنا۔‘‘

یہ حدیث خلافت کی طرف اشارہ ہے، اور قمیص کو بطور استعارہ خلافت کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور قمیص کو اتروانے میں خلافت کے لیے آپؓ کی نامزدگی کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کو خلیفہ بنائے گا، اگر لوگ اس منصب سے تمہیں معزول کرنا چاہیں تو ان کی وجہ سے اپنے آپ کو معزول نہ کرنا، کیوں کہ تم حق پر ہو گے اور لوگ باطل پر۔

(الدین الخالص، محمد صدیق حسن القنوجی صحیح البخاری: جلد، 3 صفحہ، 446)

7: ترمذی نے سیدنا ابو سہلہؓ سے روایت کیا ہے کہ محاصرہ کے روز سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: رسول اللہﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا میں اس پر ڈٹا رہوں گا۔

(سنن الترمذی: جلد، 5 صفحہ، 295۔ فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 605)

یہاں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ ’’رسول اللہﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے‘‘ سے آپﷺ کا یہ فرمان مراد ہے کہ: 

وإن ارادوک علی خلعہ فلا تخلعہ لھم۔

ترجمہ: ’’اگر لوگ اس کو تم سے اتروانا چاہیں تو ان کی وجہ سے مت اتارنا۔‘‘ 

یعنی آپﷺ نے وصیت فرمائی ہے کہ میں خلافت سے دست بردار نہ ہوں۔ اور فانا صابر علیہ۔ یعنی میں اس عہد پر ڈٹا رہوں گا، خلافت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔

(تحفۃ الاحوذی، محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری: جلد، 20 صفحہ، 209)

8: مستدرک حاکم میں اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ادعوا لی۔ او لیت عندی رجلا من اصحابی۔

ترجمہ: ’’میرے لیے میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بلاؤ، یا کاش میرے پاس میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ہوتا۔‘‘

میں نے عرض کیا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: آپﷺ کے برادرِ چچا زاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو؟ فرمایا: ہاں۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آ گئے تو مجھ سے کہا یہاں سے جاؤ، پھر آپﷺ ان سے چپکے چپکے باتیں کرنے لگے اور ادھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا رنگ بدلنے لگا۔

(فضائل الصحابۃ: جلد، 1 صفحہ، 605 اسنادہ صحیح، المستدرک: جلد، 3 صفحہ، 99 و صححہ و وافقہ الذہبی۔)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام ابوسہلہ فرماتے ہیں کہ محاصرہ کے دن ہم نے عرض کیا: کیا ہم ان لوگوں سے قتال نہ کریں؟ فرمایا: نہیں، رسول اللہﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے میں اس پر ڈٹا رہوں گا۔

اس حدیث اور اس سے ماقبل کی حدیث میں آپؓ کی خلافت کی صحت کی واضح دلیل ہے۔ جس نے آپؓ کی خلافت کا انکار کیا اور آپؓ کو جنتی اور شہید نہ مانا، زبان یا دل سے آپؓ کی شان میں گستاخی کی تو وہ دائرۀ ایمان و اسلام سے خارج ہے۔

(الدین الخالص: جلد، 3 صفحہ، 446)

آپؓ کی خلافت و امامت کی صحت پر وہ روایت دلیل ہے جسے بخاری و مسلم نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے:

کنا فی زمن النبیﷺ لا نعدل بابی بکر احدا ثم عمر ثم عثمان ثم نترک اصحاب النبی لا نفاضل بینھم

 (صحیح البخاری: فضائل اصحاب النبیﷺ: صفحہ، 3578)

ترجمہ: ’’ہم نبی کریمﷺ کے دور میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو درجہ نہیں دیتے تھے، پھر سیدنا عمرؓ ، پھر سیدنا عثمانؓ، پھر ان کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔‘‘

اس روایت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ترتیبِ خلافت کے سلسلہ میں جو کرنے والا تھا وہ پہلے ہی ڈال دیا تھا۔

(عقیدۃ اہل السنۃ: جلد، 2 صفحہ، 664) 

علامہ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت کے اندر نبی کریمﷺ کے دور میں تفضیل کے سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جو معمول تھا اس کی خبر دی گئی ہے، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل مانتے تھے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو، اور یہ بھی مروی ہے کہ یہ باتیں رسول اللہﷺ کو پہنچتی تھیں لیکن آپﷺ اس پر نکیر نہیں فرماتے تھے۔ پس ایسی صورت میں گویا یہ تفضیل نص سے ثابت ہے، ورنہ کم از کم مہاجرین و انصار کے درمیان دورِ نبویﷺ میں بلا نکیر جو معمول و مشہور رہا اس سے ثابت ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے اس طرزِ عمل سے ثابت ہے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا، یعنی سب نے بغیر کسی رغبت و رہبت کے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر خلافت کی بیعت کی اور ان میں سے کسی نے بھی اس تولیت کا انکار نہ کیا۔

(منہاج السنۃ النبویۃ، ابنِ تیمیۃ: جلد، 3 صفحہ، 165) 

اس سلسلہ میں مذکورہ تمام نصوص قوی دلیل ہیں، ان میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی احقیت کی طرف اشارہ موجود ہے اور یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے، اس سلسلہ میں عاملین کتاب و سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، کتاب و سنت پر عمل کرنے والے سعادت مندوں کا یہ گروہ، اہلِ سنت و الجماعت ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی احقیت خلافت کا عقیدہ رکھے اور مکمل طور پر ان نصوص کو تسلیم کرے جو اس پر دلالت کرتی ہیں۔

(عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام، د۔ناصر بن علی عایض حسن الشیخ: جلد، 2 صفحہ، 664)