Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ عقیدہ رجعت

  مولانا غلام محمد

شیعہ عقیدہ رجعت

( رجعت کا مطلب ہے کہ مرنے کے بعد قیامت سے پہلے دنیا میں واپسی )

لفظ رجعت کے معنی اور مفہوم، شیعوں کا عقیدۂ رجعت نص قرآن و سنت و حدیث کے خلاف ہے

اس کے لیے چند دلائل

شیعہ کے عقیدہ رجعت پر اہلسنت علماء نے بالکل کم خیال آرائی کی ہے حالانکہ یہ عقیدہ بھی شیعہ اثناء عشریہ (بارہ اماموں کو معصوم اور انبیاء سے افضل ماننے والے شیعہ) کے مخصوص عقائد میں سے ہے اور قرآن و سنت کے صریحاً خلاف ہے۔

کیا کِیا جائے سنی علماء شیعوں کے کن کن عقائد پر لکھیں! شیعوں کا کون سا عقیدہ ہے جو قرآن و سنت کے موافق ہے؟ اس مذہب کے ایجاد کرنے والوں کا مقصد ہی اسلام دشمنی تھی لہٰذا اس کی نہایت مؤثر صورت ان لوگوں کو یہ نظر آئی کہ وہ قرآن کریم کے اولین مخاطبین و مبلغین، عینی گواہوں اور عاملین قرآن یعنی حضورﷺ کے مقدس ساتھیوں صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو غیر معتبر، مفاد پرست، مرتد و کافر قرار دے کر قرآن و سنت کی صحت کا انکار کریں۔(نعوذ باللہ)۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اس انکار کرنے کے بعد ان کے لیے راستہ بالکل آسان ہوگیا اور انہوں نے اسلام کے خلاف، اسلام کے نام سے ہر چیز خود بنا کر ائمہ کی طرف منسوب کر کے میدان میں لائی ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی واسطہ نہیں ہے "رجعت" کا عقیدہ بھی ان میں سے ایک ہے

لفظ رجعت کا معنی واپسی (فیروزاللغات صفحہ455) ہے۔

شیعہ مذہب کے اس اصطلاحی لفظ کے مفہوم اور اس کے اطلاق کی وسعت آپ شیعوں کی اصلی روایات سے سمجھ سکیں گے جو کہ آگے آئیں گی، مجھے یہاں پر صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ شیعہ مذہب کے عقیدہ رجعت کا مطلب ہے کہ شیعوں کا ایک فرضی اور خیالی غائب امام زمان( غائب مہدی) بھی ہے جس کے لیے وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آج سےتقریباً ایک ہزار ایک سو اسی سال پہلے وہ شخص پیدا ہو کر چار پانچ برس کی عمر میں قتل کے خوف سے ایک غار میں غائب ہو گیا۔ جب وہ غار سے برآمد ہوگا تو اسی وقت اس دنیا میں قیامت سے پہلے ایک قیامت قائم کرے گا اس میں رسول اللّٰہﷺ، سیدنا علیؓ، سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور دیگر تمام ائمہ کرام اور تمام شیعہ اپنی قبروں سے باہر نکل آئیں گے۔

بعد ازاں سب سے پہلے اس شخص کی حضورﷺ بیعت کریں گے بعد میں حضرت علیؓ اور دیگر ائمہ حضرات اور شیعہ اس سے بیعت ہو کر اس کی فرمانبرداری کا عہد کریں گے۔

یعنی بیعت کرنے والے مرید ہیں اور جس کی بیعت کی جا رہی ہے وہ مرشد ہے اور افضل ہے تو گویا حضورﷺ سے شیعہ کا امام مہدی جسے بارہواں امام کہتے ہیں افضل ہوا۔ نعوذباللہ

یہ ہے ان کا امام غائب مہدی ہے جس کا تذکرہ آپ نے شیعوں کے ذاکروں سے سنا ہوگا اور اس وقت ایران میں اسی نام کی باز گشت ہے۔

بقول شیعہ اس کے بعد غار سے برآمد شدہ یہ شخص یعنی امام زمان (غائب مہدی) اماموں اور شیعوں کے دشمنوں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ، سیدنا عثمان ذوالنورینؓ اور حضورﷺ کی ازواج مطہراتؓ میں سے سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور دیگر تمام وہ صحابہ کرامؓ اور سنی مسلمان جو اس دنیا میں ان حضرات سے محبت رکھتے ہوں گے ان سب کو قبروں سے زندہ کر کے باہر حاضر کرے گا۔

پھر یہ امام زمان اللّٰہ کا عادل خلیفہ، حضرت علیؓ کے جمع کردہ قرآن کے واضح احکامات اور شیعوں کے اہم عقیدہ عدل کے مطابق اس طرح ایک اعلٰی ترین عدل کی مثال قائم کرے گا کہ جو اس دنیا کے روز اول سے لے کر فیصلہ کے دن تک دنیا میں جو کچھ گناہ صغیرہ اور کبیرہ ہوئے ہوں گے یعنی کفر، ارتداد، ناحق قتل وغیرہ جو بھی گناہ ہوئے ہوں گے ان سب گناہوں کا ذمہ دار دو اشخاص حضرت ابوبکر صدیقؓ و عمرفاروقؓ کو بنا کر ان کو سزا دے گا اور بار بار سزا دے گا۔ اور حضورﷺ کی ازواج مطہراتؓ میں سے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو بھی امام زمان عام لوگوں کے سامنے سزا دے گا( نعوذ باللّٰہ)

یہ ہے شیعوں کے عقیدہ رجعت کا خلاصہ اور اس کے اہم نکات۔ اب آئیے ہم دیکھیں کہ کیا اس عقیدہ رجعت یعنی قیامت قائم ہونے سے پہلے اس دنیا کے چلتے ہوئے بھی اور کوئی قیامت واقع ہوگی؟ کیا اس کا ذکر قرآن و سنت میں ہے؟ تو اس کے لیے اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شیعوں کے عقیدے امامت کا بھی جب قرآن و سنت میں کہیں اس کا ذکر نہیں بلکہ یہ عقیدہ صرف شیعہ علماء و مجتہدین کا خود ساختہ ہے تو پھر اس عقیدہ رجعت کا قرآن و سنت میں کہاں ذکر ہوگا بلکہ یہ دونوں عقیدے شیعوں کی طرف سے خود ساختہ جھوٹ ہیں جن کا حقیقت میں قرآن و سنت اور اسلام سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔

قرآن کریم میں سینکڑوں آیات ہیں جن میں قیامت کا ذکر موجود ہے۔ اسی طرح احادیث کی کتابیں بھی قیامت کے ذکر سے بھری پڑی ہیں جن کے ذکر کی اس تحریر میں گنجائش نہیں ہے۔

قرآن کریم اور احادیث رسولﷺ کے مطابق قیامت کی حقیقت میں دو باتیں آجاتی ہیں1:اس موجودہ عالم کا مکمل طرح فنا ہو جانا2: عالم آخرت کا وجود میں آجانا....

ان دونوں واقعات کو اللّٰه تعالٰی نے "نفختین" یعنی دو مرتبہ صور پھونکنے سے وابستہ کر دیا ہے۔اس کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جب اس دنیا کی عمر ختم ہو جائے گی تو اسرافیل علیہ السلام اللّٰه تعالی کے حکم سے پہلی مرتبہ صور پھونکیں گے جس کی وجہ سے تمام انسان، حیوانات اور پوری دنیا فنا ہو جائے گی پہاڑ روئی کی طرح ہو کر ہوا میں اڑنے لگیں گے چاند سورج اور ستارے ٹوٹ کر گریں گے وغیرہ.

قران کریم میں ہے:

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ

یعنی اور صور (پہلی بار) پھونکا جائے گا پھر جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے وہ مر جائیں گے

(سورۃ الزمر آیت:68)

دوسری بار صور میں پھونکنے کے بارے میں قرآن مجید میں ہے:

ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخۡرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ

یعنی پھر صور دوسری بار پھونکا جائے گا تو یہ (مرے ہوئے) فوراً زندہ ہو کر کھڑے ہو کر دیکھیں گے.

(سورۃ الزمر آیت:68)

احادیث میں آتا ہے کہ ان دو نفخوں کے درمیان چالیس برس کا وقفہ ہوگا۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت بھی واضح طور پر موجود ہے کہ جس نے جو کچھ کیا ہوگا اس کا اس کو پورا بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

ارشاد باری ہے

وَ تَرَی الظّٰلِمِیۡنَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ یَقُوۡلُوۡنَ ھَلۡ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنۡ سَبِیۡلٍ

(سورۃ الشوریٰ آیت:44)

"اور جب ظالموں کو عذاب نظر آجائے تو تم انہیں یہ کہتا ہوا دیکھیں گے کہ : کیا واپس جانے کا بھی کوئی راستہ ہے ؟"

اس پوری دنیا کے فنا ہونے سے پہلے فوت شدہ انسانوں کے زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس آنے کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں رد کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے:

قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ ﴿ۙ۹۹﴾ لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۰۰﴾

(سورۃ المؤمنون آيت:99_100)

"کہے گا اے رب مجھ کو پھیر دیجیے شاید میں کچھ بھلا کام کر لوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے کہ وہ وہی کہتا ہے اور ان کے پیچھے پردہ ہے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں"

اس ایت میں درج ذیل الفاظ قابل غور ہیں

قال رب*ل وہ کہیں گے اے میرے پروردگار

*ارجعون واپس دنیا میں بھیج

کلا کبھی ایسا نہیں ہونا ہے ،ہرگز نہیں

قائلها بات، بکواس

برزخ قبر والا عالم

الی تک

یوم دن

یبعثون اٹھائے جائیں گے

ان الفاظ کے معنی کو سامنے رکھ کر پھر مکمل ترجمہ پڑھیں تو مطلب واضح ہو جائے گا کہ ان کو جواب ملے گا یہ سوال کرنا ہی بےکار ہے یہ قبر اور برزخ والا پردہ قیامت کے دن کے قائم ہونے تک باقی رہے گا تو درمیان میں بقول شیعوں کے مہدی سب کو زندہ کریں گے یہ کہاں سے ثابت ہوا؟ اسی ایت سے یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ شیعوں کا عقیدہ رجعت باطل ہے اور امام غائب کا لوگوں کو زندہ کر کے سزا دینا یہ سارے افسانے خود ساختہ ہیں

رجعت کے عقیدہ کی تائید میں شیعوں کے معتبر مجتہدوں کی خود ساختہ اور ائمہ کی طرف منسوب کردہ بیہودہ روایات

قرآن کریم میں چند غائب اشیاء پر ایمان لانا لازمی کہا گیا ہے شیعوں کے ہاں ان غائب چیزوں میں سے ایک امام غائب بھی ہیں جن پر ایمان لانا انتہائی ضروری ہے سید مقبول احمد شاہ صاحب اپنی تصنیف "مقبول ترجمہ" میں سورۃالبقرہ کی آیت3 الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ جو غیب پر ایمان لائیں

(البقرہ آیت 3 شیعہ ترجمہ مقبول)

(1) الغیب کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

" الغیب:جو ظاہری حواس سے محسوس کرنے کی چیز نہ ہو جیسے توحیدِ خدا، نبوتِ انبیاءؑ، قیام قائم ( امام غائب مہدی)، مسئلہ رجعت، قیامت کے دن پھر جی اٹھنا، حساب و کتاب ہونا، جنت و دوزخ اور اسی قسم کے امور جن پر ایمان لانا لازم ہے اور جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاتے بلکہ ان دلیلوں سے پہچانے جاتے ہیں جو خدا نے قائم فرمائی ہیں"

(حاشیہ اردو مقبول ترجمہ صفحہ3)

یہاں یہ بات ثابت ہوئی کہ شیعہ مذہب میں امام غائب مہدی کے وجود پر ایمان اور رجعت کے عقیدہ پر ایمان لانا اتنا ضروری اور لازمی ہے جتنا اللّٰہ کی وحدانیت اور انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ بحالت دیگر وہ شخص اللّٰہ کی وحدانیت اور نبی کی نبوت کا منکر یعنی کافر سمجھا جائے گا، استغفراللّٰہ

(2): شیعوں کا مجتہد اور محدث ملا باقر مجلسی حق الیقین میں رقم طراز ہے

چون قائم آل محمدﷺ بیرون آید خدا اور ایاری کند بملائکہ واول کسیکہ با او بیعت کند محمد باشد

(حق الیقین مطبوعہ تہران (ایران) :صفحہ347)

ترجمہ: جب قائم آل محمد امام زمان ظاہر ہوگا رجعت کرے گا تو اللہ تعالی اس کی فرشتوں سے مدد کریں گے اور سب سے پہلے حضورﷺ اس سے بیعت ہوں گے۔

(استغفراللّٰہ استغفر اللّٰه استغفر اللّٰه)

3: اس عبارت کی تصدیق شیعوں کی معتبر کتاب مختصر بصائر الدرجات سے بھی ہوتی ہے:

ویکون جبریل امامه ميكائيل عن يمينه واسرافيل عن يساره والملائكۃ المقربون خزائه اول من بايعه محمد رسول اللّٰہﷺ۔

(مختصر بصائر الدرجات: صفحہ 213)

ترجمہ: ظہورِ مہدی (رجعت) کے وقت جبریل آگے آگے ہوں گے میکائیل داہنے طرف اسرافیل بائیں طرف اور مقرب فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے اور سب سے پہلے حضورﷺ اس سے بیعت ہوں گے (العیاذ باللّٰہ)

(4): ملا باقر مجلسی حق الیقین میں بروایت امام باقر یہ روایت لاتا ہے:

چون قائم ما ظاہر شود عائشہؓ را زندہ کندہ تابروا حد بزند

(حق الیقین مطبوعہ تہران (ایران) صفحہ347)

ترجمہ: جب ہمارے قائم (امام زمان) ظاہر ہوں گے تو وہ عائشہؓ کو (معاذ اللّٰہ) زندہ کر کے سزا دیں گے۔

ان چاروں روایات سے یہ بات صراحت سے معلوم ہوئی کہ شیعوں کے فرضی اور خیالی امام زمان کا رتبہ اور عزت و عظمت حضورﷺ سے انتہائی بلند و بالا ہے کہ اس سے سب سے پہلے رسول اللّٰہﷺ بیعت ہوں گے اور پھر یہ صاحب نعوذ باللہ حضورﷺ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دو بڑے صحابیوں حضرت ابوبکر صدیقؓ و عمرؓ اور حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کو زندہ کر کے تمام لوگوں اور حضورﷺ کے سامنے اس دنیا میں سزا دیں گے .استغفر اللّٰہ!

دوستو! یہ ہیں شیعہ کے اصلی خدوخال جن سے ہمارے عام مسلمان ناواقف ہیں اور شیعہ مذہب کے پرکشش نعرہ محبت اہل بیت سے متاثر ہو کر شیعت کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

?(5): شیعہ محدث،مجتہد ملا باقر مجلسی نے اپنی تصنیف حق الیقین میں شیعہ مذہب کے اس خاص عقیدہ رجعت کے بیان میں امام جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کے حوالے سے ایک طویل حدیث درج کی ہے، روایت کی نوعیت یہ ہے کہ مفضل نامی ایک شخص سوال کرتا ہے اور امام صاحب اس کو جواب دیتے ہیں۔ اس روایت کے اکثر حصے کا صرف ترجمہ عرض کرتا ہوں تاکہ معاملہ کچھ مختصر ہو جائے۔ فارسی متن کے ساتھ روایت کا صرف وہ حصہ پیش کروں گا جس میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے خلاف انتہائی بیہودہ اور دل کی دھڑکن تیز کردینے والا مواد ہے لیکن کیا کیا جائے نقل کفر کفر نباشد، ایک مذہب کے پوشیدہ حقائق کو بھی ظاہر کرنا ضروری ہے تاکہ عام مسلمان اس کے دامِ فریب میں نہ پھنس جائیں۔ "روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ امام جعفر صادق رحمہ اللّٰہ نے بیان فرمایا کہ صاحب الامر امام غائب جو ظاہر ہوں گے تو پہلے مکہ معظمہ آئیں گے اور وہاں یہ اور وہ کریں گے۔

ناظرین روایت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں (ناظرین کی سہولت فہم کے لیے ایک حد تک آزاد ترجمہ کرنا مناسب سمجھا گیا ہے). مفضل نے امام جعفر صادق رحمہ اللّٰہ سے عرض کیا کہ اے میرے آقا! صاحب الامر امام مہدی مکہ معظمہ کے بعد دوسرے کس مقام کا رخ کریں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ہمارے نانا رسول خداﷺ کے شہر مدینہ جائیں گے وہاں ان سے ایک عجیب بات کا ظہور ہوگا جو مؤمنین کے لیے خوشی و شادمانی کا اور منافقوں کے لیے ذلت و خواری کا سبب بنے گا. مفضل نے پوچھا وہ عجیب بات کیا ہوگی؟ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ جب وہ اپنے نانا رسول خداﷺ کی قبر کے پاس پہنچیں گے تو وہاں کے لوگوں سے پوچھیں گے کہ لوگو بتاؤ کیا یہ قبر ہمارے نانا رسول خداﷺ کی ہے؟ لوگ کہیں گے کہ ہاں یہ انہی کی قبر ہے. پھر امام پوچھیں گے کہ یہ اور کون لوگ ہیں جو ہمارے نانا کے پاس دفن کر دیے گئے ہیں؟ لوگ بتائیں گے کہ یہ آپ کے خاص مصاحب ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ حضرت صاحب الامر (امام مہدی) اپنی سوچی سمجھی پالیسی کے مطابق (سب کو جاننے کے باوجود) ان لوگوں سے کہیں گے کہ ابوبکرؓ کون تھا؟ اور عمرؓ کون تھا؟ اور کس خصوصیت کی وجہ سے ان دونوں کو ہمارے نانا رسول خداﷺ کے ساتھ دفن کیا گیا؟ لوگ کہیں گے یہ دونوں آپ کے خلیفہ اور آپ کی بیویوں (عائشہؓ اور حفصہؓ)کے والد تھے، اس کے بعد جناب صاحب الامر فرمائیں گے کہ کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کو اس بارے میں شک ہو کہ یہی دونوں یہاں مدفون ہیں؟ لوگ کہیں گے کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کو اس بارے میں شک و شبہ ہو سب یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ رسول خداﷺ کے پاس یہی دو بزرگ مدفون ہیں۔

پھر تین بار پوچھنے کے بعد صاحب الامر حکم دیں گے کہ دیوار توڑی جائے اور ان دونوں کو ان کی قبروں سے باہر نکالا جائے۔ چنانچہ دونوں کو قبروں سے نکالا جائے گا۔ ان کا جسم تازہ ہوگا اور صوف کا وہی کفن ہوگا جس میں وہ دفن کیے گئے تھے۔ پھر آپ حکم دیں گے کہ ان کا کفن الگ کر دیا جائے (ان کی لاشوں کو برہنہ کر دیا جائے) اور ایک بالکل سوکھے درخت پر لٹکا دیا جائے۔ اس وقت مخلوق کے امتحان و آزمائش کے لیے یہ عجیب واقعہ ظہور میں آئے گا کہ وہ سوکھا درخت جس پر لٹکائے جائیں گی ،ایک دم سر سبز ہو جائے گا۔ تازہ ہری پتیاں نکل آئیں گی اور شاخیں بڑھ جائیں گی، بلند ہو جائیں گی، پس وہ لوگ جو ان دونوں سے محبت رکھتے ہیں اور ان کو مانتے تھے (یعنی اہل سنت) کہیں گے کہ واللّٰہ یہ ان دونوں کی عند اللّٰہ مقبولیت اور عظمت کی دلیل ہے اور ان کی محبت کی وجہ سے ہم نجات کے مستحق ہوں گے۔ اور جب سوکھے درخت کے اس طرح سرسبز ہوجانے کی خبر مشہور ہوگی تو جن لوگوں کے دلوں میں ان دونوں کی ذرا برابر بھی محبت و عظمت ہوگی وہ اس کو دیکھنے کے شوق میں دور دور سے مدینہ آ جائیں گے تو جناب قائم صاحب الامر کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا اور اعلان کرے گا کہ جو لوگ ان دونوں (ابوبکرؓ و عمرؓ) سے محبت و عقیدت رکھتے ہوں وہ ایک طرف الگ کھڑے ہو جائیں اس اعلان کے بعد لوگ دو حصوں میں بٹ جائیں گے ایک گروہ ان دونوں سے محبت کرنے والوں کا ہوگا اور دوسرا ان پر لعنت کرنے والوں کا اس کے بعد صاحب الامر ان لوگوں سے جو ان دونوں سے محبت کرنے والے ہوں گے (یعنی سنیوں سے) مخاطب ہو کر فرمائیں گے کہ ان دونوں سے بیزاری کا اظہار کرو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو تم پر ابھی خدا کا عذاب آئے گا۔ وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہم جب ان کی عند اللّٰہ مقبولیت کے بارے میں پوری طرح جانتے بھی نہیں تھے اس وقت بھی ہم نے ان سے بیزاری کا رویہ اختیار نہیں کیا تو اب جب کہ ہم نے ان کے مقرب اور مقبول بارگاہ خداوندی ہونے کی علامت آنکھوں سے دیکھ لی تو ہم کیسے ان سے بیزاری کا رویہ اختیار کر سکتے ہیں؟ بلکہ ہم تم سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں اور سب لوگوں سے جو تم پر ایمان لائے اور جنہوں نے تمہارے کہنے سے ان بزرگوں کو قبروں سے نکال کر ان کے ساتھ توہین و تذلیل کا یہ معاملہ کیا۔ ان لوگوں کا یہ جواب سن کر امام مہدی کالی آندھی کو حکم دیں گے کہ وہ ان لوگوں پر چلے اور ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دے پھر امام مہدی حکم دیں گے کہ ان دونوں (ابوبکرؓ و عمرؓ) کی لاشوں کو درخت سے اتارا جائے، پھر ان دونوں کو قدرت الٰہی سے زندہ کریں گے۔"

آگے خون کھولا دینے اور ایک مومن کو لرزا دینے والی روایت کے بقیہ الفاظ فارسی میں مع ترجمہ یہ ہیں:

وامر فرماید خلائق راکہ ہمہ جمع شوند، پس ہر ظلمےو کفرے کہ از اول عالم تا آخر شد گنا ہش را برایشان لازم آورد، وزدن سلیمان فارسی و آتش افروختن بدرخانہ امیرمومنین راو فاطمہ و حسن و حسین رابرائے سوختن ایشان وزہردادن امام حسن و کشتین امام حسین و اطفال ایشان و پسر عمان دیاران اواسیر کردن وذریت رسول وریختن خون آل محمد در ہر زمانے وہر خونے کہ بہ ناحق ریختہ شد و ہر فرجے کے بحرام جماع شد،و ہر سودے وحرامے کہ خور دہ شد تا قیام قائم آل محمد ہمہ رابا یشان بشمارد کہ از شما شدہ وایشان اعتراف کنند زیرا کہ اگر در روز اول غصب حق خلیفہ بحق نمی کردند اینہا نمی شد، پس امر فرماید کہ از برائے مظالم ہر کہ حاضر باشدازایشان قصاص نمایند، پس ایشان را بفر ماید کہ از درخت برکشندو آتشے را فرماید کہ از زمین بیرون آیدو ایشانرا بسوزاندہ بادرخت، وباوے رافر ماید کہ خاکستر ایشان رابہ دریا ہا پاشد مفضل گفت اے سید من این آخر عذاب ایشان خواہد بود؟ فرمود کہ ھیہات اے مفضل! واللہ کہ ایسے سید اکبر محمد رسول وصدیق اکبر و امیر المومنین و فاطمہ زھراء حسن مجتبی و حسین شہید کربلا وجمیع ائمہ ھدی ہمگی زندہ خواہند شد وہر کہ ایمان محض خالص داشتہ و ہرکہ کافر محض بودہ ہمگی زندہ خواہند شدواز برائے جمیع ائمہ والمومنان ایشان را عذاب خواہند کرد حتی آ ئکہ در شبانہ روزے ہزار مرتبہ ایشان را ببرد ومعذب گرداند

( حق الیقین صفحہ361٫362 اور امام زمان کی حدیث مقبول حاشیہ صفحہ850)

ترجمہ: اور حکم دیں گے کہ تمام مخلوق جمع ہو، پھر یہ ہوگا کہ دنیا کے آغاز سے اس کے اختتام تک جو بھی ظلم اور جو بھی کفر ہوا، سب اس کا گناہ ان دونوں پر لازم کیا جائے گا اور انہی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا (خاص کر) سلمان فارسیؓ کو پیٹنا اور امیر المومنینؓ اور فاطمۃزہراءؓ اور حسنؓ و حسینؓ کو جلا دینے کے لیے ان کے گھر کے دروازے میں آگ لگانا اور امام حسنؓ کو زہر دینا اور حسینؓ اور ان کے بچوں اور چچا زاد بھائیوں اور ان کے ساتھیوں و مددگاروں کو کربلا میں قتل کرنا اور رسول خداﷺ کی اولاد کو قید کرنا اور ہر زمانہ میں آل محمد کا خون بہانا اور ان کے علاوہ جو بھی ناحق خون کیا گیا ہو اور کسی عورت کے ساتھ جہاں کہیں بھی زنا کیا گیا ہو اور جو سود یا جو بھی حرام کا مال کھایا گیا ہو اور جو بھی گناہ اور جو ظلم و ستم قائم آل محمد (یعنی امام غائب مہدی) کے ظہور تک دنیا میں کیا گیا ہو اس سب کو ان دونوں کے سامنے گنوایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ یہ سب کچھ تم سے اور تمہاری وجہ سے ہوا ہے؟ وہ دونوں اقرار کریں گے (کہ ہاں ہماری ہی وجہ سے ہوا کیونکہ اگر رسول اللّٰہﷺ کی وفات کے بعد) پہلے ہی دن خلیفہ برحق (علیؓ) کا حق یہ دونوں مل کر غصب نہ کرتے تو ان گناہوں میں کوئی بھی نہ ہوتا اس کے بعد صاحب الامر حکم فرمائیں گے کہ جو لوگ حاضر و موجود ہیں وہ ان دونوں سے قصاص لیں اور ان کو سزا دی جائے، پھر صاحب الامر حکم فرمائیں گے کہ ان دونوں کو درخت پر لٹکا دیا جائے اور آگ کوحکم دیں گے کہ زمین سے نکلے اور ان دونوں کو مع درخت کے جلا کر راکھ کر دیں اور ہوا کو حکم دیں گے کہ ان کی راکھ کو دریاؤں پر چھڑک دیں۔ مفضل نے عرض کیا کہ اے میرے آقا یہ ان لوگوں کو آخری عذاب ہوگا؟ امام جعفر صادق رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ اے مفضل ہرگز نہیں. خدا کی قسم سید اکبر محمد رسول اللّٰہﷺ اور صدیق اکبر امیر المومنینؓ (علیؓ) اور سیدہ فاطمۃالزہراءؓ اور حضرت حسن مجتبیؓ اور حسینؓ شہیدِ کربلا اور تمام ائمہ معصومین سب زندہ ہوں گے اور جو خالص مؤمن ہوں گے اور جو خالص کافر ہوں گے سب زندہ کیے جائیں گے اور تمام ائمہ اور تمام مؤمنین کے حساب میں ان دونوں کو عذاب دیا جائے گا یہاں تک کہ دن رات میں ان کو ہزار مرتبہ مار ڈالا جائے گا اور زندہ کیا جائے گا اس کے بعد خدا جہاں چاہے گا ان کو لے جائے گا اور عذاب دیتا رہے گا۔"

ناظرین کرام...!

یہ ہیں شیعہ کے باکمال امام زمان یا امام العصر یا امام صاحب زمان (غائب مہدی) جس کا سن 260 ہجری کے بعد شیعوں کے ہاں اول قائم مقام یا نائب خمینی کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اس نے خود کو تسلیم کرایا ہے یعنی اس نے یہ دعویٰ کیا ہے اور یہ ہیں اس غائب مہدی کے لیے ذکر کیے گئے کارنامے جن کے لیے بیچارے شیعہ تقریباً بارہ سو برس سے اس کے لیے بڑی بے قراری سے شب و روز انتظار کی گھڑیاں شمار کر رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد آ کر مذکورہ کارناموں سے ان کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائیں۔

ناظرین کرام۔۔۔۔!

آپ یقین کریں نہ کوئی امام زمان پیدا ہوا تھا اور نہ ہی غائب ہوا بلکہ یہ شروع سے ایک دھوکہ اور فریب ہے جو کہ شیعہ سادہ لوح مسلمانوں کو دے رہے ہیں۔ کیا آپ یہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ جو لوگ قرآن کریم میں تحریف کے بارے میں خود ساختہ روایات ائمہ کی طرف منسوب کر کے بے شمار لوگوں کو یہ غلط عقیدہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ان کے لیے امام زمان جیسی فرضی اور خیالی شخصیت بنانے اور عبداللّٰہ بن سباء کے دیے گئے درس رجعت کے عقیدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ خرافاتی افسانہ تراش کر مشہور کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔

عقیدہ رجعت کے موجد کون ہیں؟ اور یہ کب ایجاد ہوا؟ اور اس کا اصلی مقصد کیا تھا؟

عقیدہ رجعت کب ایجاد ہوا؟ اور کس نے ایجاد کیا؟ اس بارے میں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللّٰہ "تحفہ اثناء عشریہ" میں فرماتے ہیں کہ:

1:چنانچہ قصہ دعوت او تبما مہادر ترجمہ تاریخ طبری کہ مترجم آن شیعی است میگوید پس سال سی و پنجم از ہجرت آمد ودرین سال مذہب رجعت پدید آمد و فتنہ ہابر خاست بر عثمان عبداللّٰہ بن سباء اول مذہب رجعت آور دو اومردےبود جہود از زمین یمن

( تحفہ اثناء عشریہ فارسی صفحہ23)

ترجمہ: چنانچہ تاریخ طبری کے ترجمہ میں جس کا مترجم خود شیعہ ہے اس میں عبداللّٰہ بن سباء کی دعوت کا تفصیل سے ذکر ہے یہ لکھتا ہے کہ:

جب 35 ہجری شروع ہوا تو اسی سال رجعت( کا عقیدہ) رونما ہوا اور عثمانؓ پر فتنوں کا ہجوم ہو گیا۔ رجعت کے مذہب کا بانی عبداللّٰہ بن سبا تھا جو کہ یہودی اور یمن کا باشندہ تھا

2: بالجملہ مفاسد این عقیدہ باطلہ زیادہ از ان است کہ ور تحریر گنجد و اول کسے کہ قول بہ رجعت آورد عبداللّٰہ بن سباء بودا ماور حق پیغمبر خاصہ و جابر جعفی دراول ماتہ ثانیہ بہ رجعت حضرت امیر نیز قائل شد

( تحفہ اثناء عشریہ: فارسی صفحہ243)

ترجمہ: یعنی اس رجعت کے باطل عقیدہ کی برائیاں لکھنے اور جمع کرنے سے زیادہ ہیں۔ سب سے پہلے جو شخص رجعت کا عقیدہ کا قائل تھا وہ عبداللہ بن سبا تھا اور وہ بھی حضورﷺ کے بارے میں پھر دوسری صدی ہجری کے شروع میں جابر جعفی حضرت علیؓ کے بارے میں رجعت کا قائل بنا۔

3:وچون نوبت بقرن ثالث رسید اہل مأتہ ثلالثہ از روافض رجعت جمیع ائمہ و اعدائے ایشان نیز برائے تسلی خاطر خود قرار دادند۔

( تحفہ اثناء عشریہ فارسی صفحہ243)

جب تیسری صدی ہجری شروع ہوئی تو اس زمانے کے رافضی اپنے دل کو تسلی پہنچانے کے لیے تمام ائمہ اور ان کے دشمنوں کے بارے میں *رجعت* کے عقیدہ کے قائل بن گئے

4: فتنہ ابن سبا المعروف بہ "تاریخ مذہب شیعہ" میں ہے کہ

عبداللّٰہ بن سبا نے ایک نیا عقیدہ پیش کیا وہ یہ تھا کہ محمدﷺ بھی دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ (جیسے حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے)

 (فتنہ ابن سبا مطبوعہ صفحہ55)

اسی کتاب کے صفحہ139 پر ہے کہ

5: ابن سباء نے جو پہلا عقیدہ لوگوں کو سامنے پیش کیا تھا وہ یہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح حضرت محمدﷺ بھی دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے بہت دیر کے بعد اس کی حکمت کھلی۔

ان اقتباسات سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رجعت کے عقیدہ کا پہلا قائل عبداللہ بن سباء یہودی تھا دوسرے نمبر پر جابر جعفی تھا جس نے اس عقیدہ کی بڑی تبلیغ کی اس طرح یہ عقیدہ آگے چل کر شیعہ مذہب کے ایمانیات کا جز لاینفک بن گیا۔ اب موجودہ شیعہ حضرات جو اپنے مذہب کو بارہ ائمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اپنی فقہ کو فقہ جعفریہ کا نام دیتے ہیں، یہ بھی رجعت کے قائل ہیں یہاں تک کہ قریبی دور کے سیاسی اور مذہبی رہنما خمینی کو تو شیعوں نے امام زمان کے نائب اور قائم مقام امام کہہ کے مشہور کیا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ260ھ کے بعد شیعہ میں خمینی وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ امام کا نائب اور قائم مقام ہے یا شیعوں نے اس کو اس عہدہ پر فائز شدہ تسلیم کر لیا ہے۔ ایران میں آج کل امام زمان کے ظہور اور رجعت کا خوب پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور شیعوں نے اب بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کا رخ مکمل طور پر امام زمان کے ظہور کو بنایا ہے۔

شیعہ مذہب میں اس عقیدہ کے خلاف صرف فرقہ زیدیہ کے شیعہ ہیں جو کہ حضرت زین العابدین رحمہ اللّٰہ کے فرزند زید سے اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں اس عقیدہ کی روایات کو ائمہ کی طرف منسوب کرنے کو اچھی طرح باطل کیا ہے، جیسا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ تحفہ اثناءعشریہ میں لکھتے ہیں:

زیدیہ قاطبہ منکر رجعت اند و انکار شدید نمودہ اندو در کتب ایشان بروایت ائمہ رد این عقیدہ بوجہ متوفی مذکور است پس حاجت رد این خرافات اہل سنت رانماند وكفی الله المؤمنين القتال

(تحفہ اثناءعشریہ فارسی: صفحہ232)

ترجمہ: "تمام زیدیہ شیعہ، اس دنیا میں واپسی کے سختی سے منکر ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں میں ائمہ کی روایات سے اسی(رجعت کے) عقیدہ کو وضاحت سے رد کیا ہے لہذا اہل سنت کو اس خرافات کو باطل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی

اور ایمان والوں کی طرف سے اللّٰہ کا قتال کرنا کافی ہے"۔

شیعہ مجتہد العصر علامہ و ڈاکٹر سید موسی الموسوی کی کتاب الشیعہ و التصیح کا اردو ترجمہ اصلاح شیعہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں ڈاکٹر صاحب شیعیت میں رجعت کے عقیدہ کا مندرجہ ذیل الفاظ میں نچوڑ پیش کرتے ہیں:

"جب دیو مالائی کہانیاں عقیدہ کے ساتھ اور اوہام حقائق میں خلط ملط ہو جائیں تو ایسی بدعتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں جو ایک ہی وقت میں ہنساتی بھی ہیں اور رلاتی بھی"

(اصلاحِ شیعہ: صفحہ241)

حقیقت میں اسلام میں نہ شیعہ مذہب کا عقیدہ امامت ہے اور نہ ہی اسلام میں امام العصر یا امام زمان یا صاحب الامر کا کوئی تصور ہے اور نہ ہی رجعت کے عقیدہ کو اسلام میں کوئی دخل ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ شیعیت اسلام کے بگاڑ کا دوسرا نام ہے اور شیعہ مذہب کو اسلام کہنا خود اسلام کے نام کی تحریف اور توہین ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور اسلام کی حفاظت فرمائے آمین ۔