Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ

  نقیہ کاظمی

حضرت ابوذر غِفاری رضی اللہ عنہ

سیدنا ابوذر غفاریؓ صفہ کے ممتاز اور نمایاں طالب علموں میں ہیں ان کا ذاتی بیان ہے:
کنت من أہل الصفۃ، فکنا إذا أمسینا حضرنا باب رسول اللّٰہﷺ
ترجمہ: میں اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم میں تھا، جب شام کا وقت ہوتا تو ہم لوگ رسول اللہﷺ کے درِ اقدس پہ حاضر ہو جاتے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 256 جلد، 1) (حلیۃالأولیاء:صفحہ، 353/354، جلد، 1)
حضرت ابوذرؓ کا اسم گرامی اور ان کا سلسلہ نسب
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی جُندب ہے اور باپ کا نام جُنادۃ ہے، بعضوں نے سکن، سفیان اور عبد وغیرہ بتایا ہے۔
(الاستیعاب: صفحہ، 62 جلد، 4) 
(الإصابۃ: صفحہ، 63 جلد، 4)
نصِّ نبوی میں جندب نام کی صراحت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوذرؓ کو اسی نام سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا یاجندب! ماہذہ الضَجْعَۃ؟
اے جندب! یہ کیا لیٹنے کا طریقہ ہے؟
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 353 جلد، 1 حدیث شریف کی تفصیل آگے آرہی ہے)
اور سننِ ابنِ ماجہ میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے یاجُنَیْدب تصغیر کے ساتھ کہہ کر انہیں پکارا ہے۔
(سننِ ابنِ ماجہ: صفحہ، 264)
ابوذرؓ آپؓ کی کنیت ہے، اور اسی کنیت سے آپؓ مشہور ہوئے۔ آپؓ دراز قد، گندمی رنگ اور چھریرے بدن کے انسان تھے۔
(الإصابۃ: صفحہ، 64 جلد، 4)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے جندب بن جنادۃ بن کعب بن صعیر بن وقعۃ بن حرام بن سفیان بن عبید بن حرام بن غِفار بن ملیل بن ضمرۃ بن بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 219 جلد، 4)
کنانہ نبی اکرمﷺ کی پندرہویں پشت میں آتے ہیں اور ان ہی پر سیدنا ابوذر غفاریؓ نبی اکرمﷺ سے جا ملتے ہیں۔
قبیلہ غِفار:
مکہ مکرمہ سے پہاڑوں کے درّوں اور ریگستانی بیابانوں میں ہوتا ہوا راستہ شام و فلسطین کی طرف جاتا ہے، ٹھیک اسی شاہراہ کی کسی باریک سمت میں غفار بن ملیل کی اولاد غفار کے نام سے بسی ہوئی ہے۔ عام طور سے اس کا تلفظ غین کے زبر اور ف کے تشدید کے ساتھ کیاجاتا ہے جو غلط ہے۔
(الأنساب للسمعانی: صفحہ، 304 جلد، 4)
صحیح غِفَار ہے غین کے زیر اور ف کو بغیر تشدید کے پڑھا جائے۔
حضرت ابوذرؓ اسلام لانے سے قبل توحید پرست تھے
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی توحیدِ باری تعالیٰ اور لا الہ الا اللہ کے قائل تھے، اور بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 222 جلد، 4)
ایک مرتبہ انہوں نے اپنے بھتیجے کو مخاطب کرکے فرمایا
لقد صلیت یا ابن أخی قبل أن القی رسول اللہﷺ ثلاث سنین۔
ترجمہ:اے میرے بھتیجے! میں رسول اللہﷺ کی زیارتِ مبارکہ سے تین سال پہلے ہی سے نمازیں پڑھتا تھا۔
راوی نے عرب کے شرک و ضلالت کو دیکھتے ہوئے نماز کا نام سن کر بڑی حیرت و تعجب سے پوچھا! آپؓ نماز کس کے لیے پڑھتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا لِلہ اللہ تعالیٰ کے لیے! اس نے دریافت کیا! رخ کس طرف کیا کرتے تھے؟ جواب میں فرمایا
حیث یوجہنی ربی۔
ترجمہ: جس طرف میرے پروردگار میرا رخ کر دیتے۔ میں عشاء کی نماز پڑھتا جب اخیر رات ہوتی تو کمبل کی طرح پڑ جاتا تھا، یہاں تک کہ مجھ پر دھوپ پڑنے لگتی تھی۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 297 جلد، 2)
اسلام لانے کا واقعہ اور اس کا سبب:
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ میں صحیح بخاری صحیح مسلم کی روایتوں میں بڑا اختلاف ہے، جس کی وجہ سے علامہ قرطبیؒ کو مجبوراً یہ لکھنا پڑ گیا۔
وفي التوفیق بین الروایتین تکلف شدید۔
ترجمہ: دونوں روایتوں میں تطبیق دینے میں سخت تکلف ہے۔
(فتح الباري: صفحہ، 175 جلد، 7)
اگرچہ حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ اور علامہ سندیؒ نے ان روایتوں میں تطبیق دینے کی مکمل کوشش کی ہے، ان شاءاللہ اسی کے مطابق ان کے تفصیلی واقعہ اسلام کو ذکر کیا جائے گا
سیدنا ابوذر غفاریؓ کا بیان ہے کہ ہم اپنی قوم غفار سے نکل کھڑے ہوئے کیونکہ یہ لوگ حرام مہینوں کو حلال سمجھتے تھے، میں میرا بھائی اُنَیس اور ہماری ماں تینوں نے ایک ساتھ اپنے قبیلہ غفار کو الوداع کہا، اور اپنے ماموں کے پاس آ کر قیام کیا، انہوں نے ہماری خوب خاطر و مدارات کی اور وہ خوب حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئے، جس کی بناء پر ان کی قوم ہم لوگوں سے حسد کرنے لگی اور ہمارے ماموں سے کہنے لگی، جناب آپؓ جب باہر جاتے ہیں اور گھر میں کوئی نہیں رہتا تو آپؓ کے بھانجے اُنَیس گھر والوں پر افسری کرتے ہیں اور ہر قسم کی ابتری پھیلا دیتے ہیں ان کی وجہ سے لوگوں کی ناک میں دم ہے۔ یہ سن کر ہمارے ماموں آئے اور پوچھ گچھ شروع کر دی۔ اتنا سننا تھا کہ میں نے اپنے ماموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا! آپ نے تمام گذشتہ احسانات کی نہروں کو گدلا کر دیا، بس اس کے بعد ہمارا اجتماع آپ کے ساتھ ممکن نہیں۔ بالآخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لاد کر روانہ ہو گئے، ماموں اپنے چہرہ کو کپڑے سے ڈھانک کر روتے جاتے تھے، ہم چلتے رہے اور مکہ کے قریب پہنچ کر قیام کیا۔
ایک دن اُنَیس نے کہا! مجھے مکہ میں کام ہے، آپ یہاں ٹھہرے رہیئے، میں جاتا ہوں، وہ گیا اور اس نے واپسی میں تاخیر کر دی، اُس کی واپسی پر میں نے دریافت کیا، تو نے میرے سلسلہ میں کیا کیا؟ وہ بولا، میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے یعنی توحید پرست ہے اور وہ اللہ کی عبادت کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے دریافت کیا، لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا لوگ اسے شاید کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور اُنَیس خود بھی شاعر تھا، اس نے کہا میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں اور اوزان پر خوب جانچا، شعر تو وہ یقیناً نہیں ہے، خداکی قسم یہ سچا ہے اور وہ سب کے سب جھوٹے ہیں۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 297 جلد، 2)
صحیح بخاری میں اُنَیس کے کلام میں اتنا اضافہ ہے کہ میں نے ان کو اچھی عادتوں اور عمدہ اخلاق کا حکم کرتے دیکھا ہے۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 545 جلد، 1 رقم، 3861)
میں نے کہا تم یہاں رہو، میں خود اس شخص کو دیکھ کر آتا ہوں پھر میں مکہ آیا اور کمزور و ناتواں شخص کو مکہ والوں میں چھانٹا (اس لیے کہ طاقت ور شخص سے پوچھنے پر مجھے تکلیف پہنچنے کا امکان تھا اور کمزور شخص سے کوئی خطرہ نہیں تھا) اور اس سے پوچھا، وہ شخص کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو۔ ( یعنی دین بدلنے والا) عرب کے کفار معاذاللہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کو صابی کہتے تھے۔ اس نے میری طرف اشارہ کرکے لوگوں کو بھڑکایا اور کہا یہ صابی شخص ہے، یہ سن کر اہلِ مکہ ڈھیلے، ہڈیاں لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ میں چکرا کر گر پڑا، جب میں ہوش میں آکر اٹھا تو میں نے اپنے آپ کو لال بت (خون میں نہانے کی بناء پر) کی مانند دیکھا، اسی وقت زمزم پر آیا، پانی پیا اور خون دھویا، تیس دن وہاں رہا، زمزم کے پانی کے علاؤہ اور کوئی کھانا میرے پاس نہ تھا، جب بھوک لگتی تو اسی کو پی لیتا، یہاں تک کہ (موٹاپے سے) میرے پیٹ کی بٹیں لٹک گئیں، اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی توانائی قطعاً محسوس نہیں کی۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 297 جلد، 2)
ان ہی دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رات میں کعبہ شریف سے گزر ہوا، تو دیکھا کہ ایک پردیسی مسافر ہے، ان کو اپنے گھر لے آئے، میزبانی فرمائی، لیکن اس کے پوچھنے کی کچھ ضرورت نہ سمجھی کہ تم کون ہو، کیوں آئے ہو؟ مسافر نے بھی کچھ ظاہر نہیں کیا، صبح کو پھر مسجد حرام میں آ گئے، اپنی زنبیل اور مشک رکھ کر مکہ مکرمہ کے کوچہ و بازار میں شام تک مصروفِ جستجو رہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی، پھر حرم شریف لوٹ آئے، آج کے دن بھی شام کو سیدنا علیؓ حرم کے پاس سے گزرے، انہیں دیکھ کر فرمایا کیا آدمی کے لیے اپنی فرودگاہ تک جانے کا وقت نہیں آیا، یہ کہہ کر انہیں اپنے ساتھ لیا اور گھر لے آئے، آج بھی میزبانی کی مگر اس رات بھی پوچھنے کی نوبت نہ آئی اور صبح سویرے حرم شریف میں آ دھمکے۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 545 جلد، 1 حدیث نمبر، 3861)
آج کی رات عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جسے خود نقل کرتے ہیں
فبینما أہل مکۃ في لیلۃ قمراء اضحیان إلخ۔
ترجمہ: چاندنی رات خوب روشن تھی، اہلِ مکہ اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ یکایک اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت نے تھپکیاں دے کر انہیں سلا دیا، اس وقت بیت اللہ شریف کا طواف کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ صرف دو عورتیں اُساف اور نائلہ کو دُہائی دے رہی تھیں، یہ عورتیں طواف کرتے کرتے میرے سامنے آئیں، میں نے کہا ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو، یہ سن کر بھی وہ اساف و نائلہ کو پکارنے سے باز نہ آئیں،
اس دفعہ میں نے صاف کہہ دیا ان کے فلاں میں لکڑی۔ یہ عورتیں اپنے معبود کے بارے میں کھلم کھلا گالی سن کر چلائیں اور یہ کہتی ہوئی چلیں، کاش! اس وقت میری جماعت کا کوئی آدمی یہاں ہوتا تو اس کی خبر لیتا، راستہ میں ان عورتوں کو رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ پہاڑ کی جانب سے آتے ہوئے ملے، رسول اللہﷺ نے ان عورتوں سے پوچھا کیا ہوا؟ وہ بولیں! ایک صابی کعبہ شریف کے پردوں میں چھپا ہوا ہے، انہوں نے پھر دریافت کیا! وہ صابی کیا بولا؟ وہ بولیں! زبان تک لانے کی بات نہیں ہے وہ بہت بُری بات بک رہا ہے۔ اس گفتگو کے بعد وہ تو گھر روانہ ہو گئیں۔اور رسول اللہﷺ اپنے ساتھی کے ساتھ کعبہ شریف تشریف لائے، حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور طواف کیا پھر نماز پڑھی، جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذرؓ نے کہا میں نے ہی اول اسلام کی سنت ادا کرتے ہوئے السلام علیک یا رسول اللہ کہا آپﷺ نے فرمایا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا من أنت؟ تو کون ہے؟
میں نے عرض کیا من غفاری قبیلہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ یہ سنتے ہی پیغمبر اسلامﷺ نے اپنے ہاتھ کو پیشانی کی طرف جھکایا اور سر پکڑ لیا میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید غفاری کی جانب میرے انتساب کو آپﷺ نے نا پسند فرمایا۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 297 جلد، 2)
رسول اللہﷺ کے سر پکڑنے کی طبقات سیدنا ابنِ سعد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں یہ وجہ لکھی ہے! عجب النبيﷺ أنہم یقطعون الطریق فجعل النبيﷺ یرفع بصرہ فیہ ویصوّبہ تعجباً من ذلک لِما کان یعلم منہم۔
نبی اکرمﷺ کو تعجب ہوا کہ قبیلہ غفار تو رہزنی کرتے اور ڈاکہ ڈالتے ہیں (ان میں ایسا شخص کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے) رسول اللہﷺ نے پھر متعجب ہو کر اپنی نگاہ ان پر ڈالی اور کبھی جھک کر دیکھا، کیونکہ غفاریوں کے حالات سے خوب واقف تھے، پھر فرمایا
انّ اللہ یہدی من یشاء۔
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 223 جلد، 4)
بہر حال حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں آپﷺ کے دستِ مبارک پکڑنے کے لیے لپکا، لیکن ان کے ساتھی (سیدنا ابوبکر صدیقؓ) نے مجھے روک لیا وہ بہ نسبت میرے رسول اللہﷺ کی طبیعت سے زیادہ واقف تھے، پھر آپﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا تم یہاں کب سے ہو؟ میں نے عرض کیا تیس راتیں یہاں گزر گئیں، آپﷺ نے فرمایا تجھے کون کھانا کھلاتا ہے؟ میں نے کہا زمزم کے پانی کے علاؤہ کچھ کھانا وغیرہ نہیں ہے، بلکہ زمزم کے پانی ہی پر گزر بسر کرتا ہوں، میں موٹا ہو گیا، یہاں تک کہ (موٹاپے کی وجہ سے) پیٹ کی شکن لٹک گئی، اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کے ضعف کا کوئی اثر نہیں پاتا۔ نبی اکرمﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا
إنہا مبارکۃ، إنہا طعام طعم۔
ترجمہ: زمزم کا پانی برکت والاہے، اور سیر کرنے اور پیٹ بھرنے والی غذا اور کھانا ہے۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 297 جلد، 2)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے یہاں صرف سونے کے لیے دو راتیں گزاری تھیں، کھانے کی مہمان داری نہیں ہوئی تھی۔ اسی صورت میں دونوں صحیح روایتوں میں تطبیق ہو سکے گی۔
الغرض:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! آج کی رات انہیں کھانا کھلانے کی مجھے اجازت دیجئے۔ انہیں اجازت مل گئی، رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے، میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا، حضرت ابوبکر صدیقؓ مجھے اپنے ساتھ گھر لائے اور طائف کی کشمشیں نکال کر ہمارے حوالہ کیں، یہ سب سے پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ مکرمہ میں کھایا، پھر جب تک ٹھہرنا چاہا ٹھہرا۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 297 جلد، 2)
واضح رہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں ان کے اسلام لانے کے لفظ کی صراحت نہیں ہے، جس کی بناء پر علامہ سندیؒ ہی کی رائے کو ترجیح دیتا ہوا رقم طراز ہوں کہ در حقیقت نبی اکرمﷺ کی اس ملاقات سے ان کے دل میں ایمان خوب راسخ ہو گیا تھا مگر یہ برملا اس کا اظہار نہ کر پائے اور رسول اللہﷺ کے ٹھکانہ کا انہیں صحیح علم نہیں ہو سکا، جس کی بناء پر پھر تیسری رات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مہمان بنے اور ساری راز دارانہ گفتگو وغیرہ ہوئی واللہ اعلم۔
(حاشیہ سندی علی صحیح مسلم: صفحہ، 297 جلد، 1)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حرم میں آ گئے، جب رات ہوئی تو سیدنا علیؓ نے آج تیسری رات ضیافت کے لیے اپنے ساتھ گھر لے پہنچے، آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا، بول پڑے! مالذي أقدمک؟ کس ضرورت سے آپؓ آئے ہیں؟ اور کیا غرض ہے؟ تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے پہلے ان کو قسم اور عہد و پیمان دیئے اس بات کی کہ وہ صحیح اور سچ سچ بتائیں گے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عہد کیا۔ اس کے بعد اپنی غرض بتلائی، یہ سن کر سیدنا علیؓ نے فرمایا یہ بالکل سچ ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ جب صبح ہو تو میرے ساتھ چلنا میں وہاں تک پہنچا دوں گا لیکن مخالفت کا زور ہے اس لیے راستہ میں اگر ایسا واقعہ نظر آئے کہ جس سے میرے ساتھ چلنے کی وجہ سے تم پر کوئی خطرہ معلوم ہو تو بیٹھ جاؤں گا، گویا کہ پیشاب کر رہا ہوں تم سیدھے چلے چلنا، پھر جدھر میں جاؤں چلے جانا اور جہاں داخل ہونے لگوں تو تم بھی وہاں داخل ہو جانا۔ چنانچہ صبح کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پیچھے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں پہنچے، وہاں جا کر رسول اکرمﷺ کے کچھ فرمانِ عالی سنے۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 545 جلد، 1 حدیث نمبر، 3861)
طبقات ابنِ سعد کی روایت میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے قرآن مجید کی کچھ آیت تلاوت کرنے کی درخواست کی، تو آپﷺ نے قرآن کریم کی ایک سورت پڑھی، جسے سیدنا ابوذرؓ نے سن کر اشہد أن لاالہ الا اللہ واشہد ان محمداً رسولہ بلند آواز سے پڑھا اور اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہﷺ نے ان کے اسلام کی خوش خبری سنائی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں بغور دیکھ کر پہچان لیا اور فرمایا ألیس ضیفي بالأمس؟  کیا وہ شخص نہیں ہے جو کل میرے مہمان تھے؟
جواب دیا کیوں نہیں! پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا انطلق معی میرے ساتھ چلئے حضرت صدیقِ اکبرؓ اپنے گھر لے گئے اور انہیں دو رنگین و خوبصورت کپڑے نکال کر دیئے، کپڑے بدلے اور جب تک مکۃ المکرمۃ میں ان کا قیام رہا، حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر مقیم رہے۔
(صفحہ، 223 جلد، 4)
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ چوتھے نمبر پر مسلمان ہوئے ہیں یہ خود فرماتے ہیں:
أسلم قبلی ثلاثۃ وأنا الرابع۔
ترجمہ: مجھ سے پہلے کُل تین حضرات مسلمان ہوئے، اور میں چوتھے نمبر پر مسلمان ہوا ہوں۔
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 157 جلد، 1)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اسلام کے مبلغِ اوّل:
حضرت ابوذرؓ کے کانوں میں جب کبھی غیر اللہ کے نام کی دہائی کی آواز گونجتی تو ان کی غیرتِ ایمانی جوش میں آجاتی اور کافروں کے ہاتھوں کافی تکلیفیں اٹھانا پڑتیں۔ ان کے بہادرانہ کردار اور غیرتِ ایمانی کو دیکھتے ہوئے اور ان پر شفقت کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے انہیں ان کی قوم کا بلکہ اسلام کا مبلغِ اوّل بنا کر بھیجنا چاہا اور اس طرح ارشاد فرمایا
قد وُجِّہتْ لي أرض نخل، لاأراہا إلا یثرب فہل أنت مبلغ عني قومک؟ عسی اللہ أن ینفعہم بک ویاجرک فیہم۔
ترجمہ: مجھے کھجوروں والی زمین دکھلائی گئی ہے اور میں اسے یثرب (مدینۃ منورۃ) کے علاؤہ اور کسی شہر کو خیال نہیں کرتا، تو کیا میری طرف سے تم اپنی قوم میں تبلیغ کر سکتے اور دین کی دعوت دے سکتے ہو؟ امید ہے کہ تیری ذات سے اللہ تعالیٰ انہیں نفع پہنچائے اور تمہیں ان میں تبلیغ کرنے کا اجر و ثواب دے۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 298 جلد، 2)
یہ دعوت و تبلیغ کے لیے آمادہ ہو گئے اور فرمایا۔
إنی منصرف إلی أہلي وناظر متی یوم بالقتال فالحق بک۔
ترجمہ: میں اپنے گھر جاتا ہوں اور انتظار کرتا رہوں گا کہ جنگ کا کب حکم دیا جاتا ہے تو اسی وقت آپﷺ سے آملوں گا۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 223 جلد، 4)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ تاڑ گئے تھے کہ رسول اللہﷺ شفقتاً انہیں واپس بھیج رہے ہیں تا کہ کفار کی ایذاؤں کا انہیں زیادہ سامنا نہ کرنا پڑے، لہٰذا تجاہلِ عارفانہ برتتے ہوئے دریافت کیا۔
فإنني أری قومک علیک جمیعاً۔
ترجمہ: آپؓ کی قوم کو متفق ہو کر آپؓ کے ایذاء کے درپے میں دیکھتا ہوں اس لیے بھی میرا جانا مناسب ہے۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا أصبت سچ کہتے ہو۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 222 جلد، 4)
یہ سنتے ہی سیدنا ابوذرؓ کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی اور مارِ جوش کے کہا۔
لا أرجع حتی أصرخ بإسلام في المسجد الحرام۔
ترجمہ: میں نہیں جا سکتا جب تک کلمہ اسلام کے ساتھ مسجد حرام میں جا کر نہ چیخوں حتیٰ کہ غیظ میں آ کر قسم کھا بیٹھے، جو صحیح بخاری میں ریکارڈ ہے۔
والذي نفسي بیدہ لأصرخنّ بہا بین ظہرانیہم۔
ترجمہ: اس ذات پاک کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس کلمہ توحید کو ان کافروں کے بیچ میں چلا کر پڑھوں گا۔ چنانچہ اسی وقت مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے اور باآوازِ بلند اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمداً رسول اللہ پڑھا، پھر کیا تھا چاروں طرف سے لوگ اٹھے اور اس قدر مارا کہ زخمی کر دیا، نبی اکرمﷺ کے چچا جان سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کے اوپر بچانے کے لیے لیٹ گئے اور قریش کو مخاطب کرکے کہا! ارے کیا کرتے ہو؟ تمہارا ستیاناس ہو، انہیں پہچانتے ہو؟ یہ قبیلہ غفار کا آدمی ہے، جدھر سے تمہارے شامی تاجروں کا راستہ ہے۔ اور تمہاری تجارت وغیرہ سب ملکِ شام سے وابستہ ہے۔ اس طرح سے حضرت عباسؓ نے انہیں کافروں کے پنجوں سے چھڑایا۔
دوسرے دن پھر اسی طرح انہوں نے جا کر کافروں کے بیچ باآوازِ بلند کلمہ پڑھا اور لوگ اس کلمہ کے سننے کی تاب نہ لا سکے اور ان پر پہلے دن کی طرح پھر ٹوٹ پڑے اور جی کھول کر مارنا شروع کیا، حسنِ اتفاق سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آج بھی انہیں کافروں سے چھٹکارا دلایا۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 545 جلد، 1 حدیث نمبر، 3861)
وطن واپسی اور اسلام کی تبلیغ:
رسول اللہﷺ کے حکم سے وطن واپس آئے اور سب سے پہلے اپنے بھائی سیدنا اُنَیس سے ملے، وہ اتنظار میں تھے ہی، سب سے پہلے یہی پوچھا ماصنعتَ؟ آپؓ نے کیا کیا؟ بولے
إنی قد أسلمت وصدقت۔
ترجمہ: میں مسلمان ہو گیا اور محمدﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔
یہ سنتے ہی حضرت اُنَیس نے کہا
مابی رغبۃ عن دینک فإني قد أسلمت وصدقت۔
ترجمہ: مجھے بھی آپؓ کے دین سے کوئی نفرت اور انکار نہیں، میں بھی مسلمان ہوا اور محمدﷺ کی نبوت کی تصدیق کی، تبلیغی مہم کو جاری رکھتے ہوئے یہ دونوں اپنی والدہ محترمہ کے پاس آئے، اس حال کو دیکھ کر وہ بولیں مجھے بھی تم دونوں کے دین سے کوئی نفرت نہیں ہے، میں بھی مسلمان ہوئی اور میں نے بھی محمدﷺ کی رسالت کی تصدیق کی۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 298 جلد، 1)
مکۃ المکرمۃ سے روانگی کے وقت رسول اللہﷺ سے قریش کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا اے اللہ کے رسولﷺ! قریش نے میرے اوپر جو مظالم ڈھائے ہیں اور انہوں نے جو میری بے تحاشہ پٹائی کی ہے اس کا بدلہ لیے بغیر نہیں رہوں گا، چنانچہ قریش سے بدلہ لینے کے لیے عُسفان کی گھاٹی ثنیۃغزال (جو تاجرانِ قریش کے راستہ میں پڑتی تھی) میں جا چھپے اور اس راستہ سے جو قافلہ قریش گزرتا اسے لوٹ لیتے، جب ان پر قبضہ ہو جاتا تو اس کے بعد فرماتے اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہو اور محمدﷺ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہو تو سارا مال ابھی واپس کر دیا جائے گا۔ اور اگر انکار کرو گے تو یاد رکھو ایک دانہ بھی نہیں مل سکتا۔
فیقولون لاالہ الااللّٰہ ویاخذون الغرائر۔
ترجمہ: یہ سن کر قریش کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیتے اور سارا مال واپس لے کر لوٹتے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 223/224 جلد، 4)
واضح رہے کہ اگر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ایمان لانے والے محض مال کی طمع سے مسلمان ہوتے تو ان کے لیے بالکل ممکن تھا کہ مکہ المکرم میں جا کر اسلام سے پھر جاتے، لیکن تاریخ اس کی ایک نظیر بھی پیش نہیں کرتی، جو مسلمان ہوتے تھے بس ہمیشہ کے لیے ہوتے تھے کہ حق و صداقت کی روشنی دلوں میں خواہ کسی طریقے اور کسی وسیلے سے بھی ہو جب صحیح طور پر اتر جاتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر وہ بہت مشکل سے بجھتی ہے۔
الغرض وادئ عُسفان کو سرکنے کے بعد سیدنا ابوذرؓ اپنے بھائی اور اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ اپنے اونٹوں پر سارا سامان لاد کر اپنی قوم غفار میں پہنچے، ان میں اسلام کی تبلیغ کی، آدھی قوم مسلمان ہو گئی اور ان کے امام أیماء بن رحضہ غفاری تھے اور وہ ان کے سردار بھی تھے، آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 296 جلد، 2)
دربارِ رسالتﷺ میں حاضری:
رسول اللہﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور بدر و اُحد جیسے معرکے بھی گزر گئے، تب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 222 جلد، 4)
اور قبیلہ غفار کی آدھی قوم جو مسلمان نہیں ہوئی تھی وہ بھی آئی اور مسلمان ہو گئی اور قبیلہ اسلم کے لوگ آئے انہوں نے عرض کیا، یاںرسول اللہﷺ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا غفار غفراللہ لہا وأسلم سالمہا اللہ غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے اور اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 296 جلد، 2)
مدینہ منورہ میں آکر دامنِ رسول اللہﷺ کو اس مضبوطی سے تھام لیا کہ پھر الگ ہونے کا خیال ہی نہ آیا، رسول اللہﷺ کو بھی ان سے کافی اُنس ہو گیا کہ جب بھی رسول اللہﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس میں تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت ابوذرؓ کی خیریت دریافت فرماتے اگر یہ غائب ہوتے تو انہیں تلاش کراتے۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 58 جلد، 2)
(الإصابۃ: صفحہ، 64 جلد، 4)
صفہ کی زندگی:
حضرت ابوذرؓ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل گئے، اور صفہ کی زندگی گزارنے لگے، خود ان کا بیان ہے
 کنت من أہل الصفۃ إذا أمسینا حضرنا باب رسول اللہﷺ الخ۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 256 جلد، 1)
جب شام کا وقت ہوتا تو ہم لوگ رسول اللہﷺ کے درِ اقدس پہ حاضر ہو جاتے، رسول اللہﷺ ہر ایک صحابیؓ کو اپنے ساتھ ایک ایک اہلِ صفہ کو لے جانے کا حکم فرمایا کرتے تھے، بعض اوقات دس اصحابِ صفہؓ، یا زیادہ، یا اس سے کم بچ جاتے اور رسول اللہﷺ کا کھانا لایا جاتا تو سب لوگ مل کر کھاتے۔ جب ہم اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم رات کے کھانے سے فارغ ہو جاتے، تو نبی اکرمﷺ ہم لوگوں سے فرماتے جاؤ! مسجد میں سو جاؤ۔ اسی طرح ایک مرتبہ میں مسجدِ نبویﷺ میں جا کر سو گیا، رسول اکرمﷺ میرے پاس سے گزرے اور میں اپنے چہرہ کے بل سو رہا تھا تو آپﷺ نے اپنے پاؤں مبارک سے ٹھوکر مار کر فرمایا:
 یاجندب! ماہذہ الضجعۃ فإنہا ضجعۃ الشیطان۔
ترجمہ: اے جندب! یہ کیا لیٹنے کا طریقہ ہے؟ یہ تو شیطان کے لیٹنے کا طریقہ ہے۔
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ 353/354 جلد، 1)
(سنن ابن ماجۃ: صفحہ، 264، مختصراً)
حضرت ابوذرؓ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے ممتاز طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اللہﷺ کے ممتاز خادم بھی رہے ہیں۔ نبی اکرمﷺ ان کی خدمت سے بہت زیادہ خوش تھے۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت ابوذرؓ آپﷺ کی خدمت سے فارغ ہو کر رات گزارنے کے لیے مسجدِ نبویﷺ میں آئے، چونکہ مسجدِ نبویﷺ ہی ان کا گھر تھا، تھوڑی دیر کے بعد نبی اکرمﷺ مسجد میں تشریف لائے اور انہیں مسجد میں سویا ہوا پا کر اپنے انگوٹھے کے اشارہ سے جگایا، یہ گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ نبی اکرمﷺ نے دریافت کیا کیا تم اسی جگہ سو گئے؟ انہوں نے عرض کیا پھر کہاں سوؤں؟ کیا اس مسجد کے علاؤہ بھی کوئی میرا گھر ہے! رسول اللہﷺ ان کے پاس بیٹھ گئے پھر دریافت کیا اے سیدنا ابوذرؓ! اس دن کیا کرو گے جب لوگ تمہیں اس (مسجدِ نبویﷺ) سے نکالیں گے؟ جواب دیا! کہ میں شام چلا جاؤں گا، کیونکہ وہ ہجرت گاہ ہے، میدانِ محشر کے قائم ہونے کی جگہ ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن ہے۔ میں ان ہی لوگوں میں ہو کر رہ جاؤں گا۔ پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا جب لوگ تمہیں شام سے نکالیں گے اس دن کیا کرو گے؟ یہ بولے کہ میں مسجدِ نبویﷺ لوٹ کر آ جاؤں گا، یہی میرا گھر اور میرا مسکن ہو گا۔ پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا لوگ یہاں سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے تو کیا کرو گے؟ یہ سن کر بولے! اپنی تلوار سونت لوں گا اور نکالنے والوں سے جیتے جی لڑتا رہوں گا۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا ضرور، اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان!
آپﷺ نے ارشاد فرمایا تم ان لوگوں کی اتباع کرتے رہنا جس طرف بھی وہ تمہیں لے جائیں، یہاں تک کہ تم اسی حالت میں مجھ سے آ ملو۔
(مسند أحمد: صفحہ، 457 جلد، 6)
تحصیل علم:
حضرت ابوذرؓ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہ کر اور رسول اللہﷺ کے خادم بن کر بہت زیادہ علوم حاصل کئے اور رسول اللہﷺ نے بذاتِ خود انہیں مخاطب کر کے علم زہد و تقویٰ سکھایا ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے میں ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی کالی پتھریلی زمین میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ جا رہا تھا، اتنے میں سامنے سے اُحد پہاڑ دکھائی دیا۔ آپﷺ نے فرمایا اے سیدنا ابوذرؓ! انہوں نے کہا لبیک یا رسول اللہﷺ! پھر آپﷺ نے فرمایا اے حضرت ابوذرؓ! اگر اس اُحد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو تو میں اس کو بالکل پسند نہیں کروں گا کہ ایک اشرفی برابر سونا بھی میرے پاس تیسرے دن تک رہ جائے، البتہ کسی کا قرض مجھ پر آتا ہو اس کے ادا کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔ میں سارا سونا اللہ کے بندوں میں دائیں بائیں اور پیچھے (تینوں طرف) محتاجوں میں بانٹ دوں گا۔ سنو! جو لوگ دنیا میں بہت مال و دولت رکھتے ہیں اور سرمایہ دار کہلاتے ہیں آخرت میں وہی نادار اور ٹٹ پونجیے ہوں گے البتہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہو پھر وہ دائیں بائیں اور پیچھے اس کو لٹائے یعنی محتاجوں اور مسکینوں کو خوب دے۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 954 جلد، 2 نمبر، 6444)
ایک دن نبی اکرمﷺ نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا اے سیدنا ابوذرؓ! 
أعقل ما أقول لک میری بات سمجھو اور مانو، ایک بکری کسی مسلمان کو حاصل ہو یہ اس سے بہترہے کہ احد پہاڑ کے برابر اس کے پاس سونا ہو ، پھر اپنے بعد اس کو چھوڑ جائے۔
(مسند أحمد: صفحہ، 181 جلد، 5)
مال و دولت جاہ و عزت کی مذمت سننے کے بعد یہ کسب و حِرفت نہ چھوڑ بیٹھیں اور حالاً وقالاً بھیک مانگنے پر نہ آمادہ ہو جائیں، اس لیے آپﷺ نے ضروری تنبیہ فرمائی!
سیدنا ابوذرؓ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہﷺ نے بلایا اور فرمایا کیا تم ایک ایسی بات پر بیعت کرو گے کہ جس کے بدلے تمہارے لیے صرف جنت ہی جنت ہے؟ میں نے عرض کیا! جی ہاں! اور میں نے ہاتھ پھیلا دیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا میں تم سے عہد لینا چاہتا ہوں کہ تم کسی آدمی سے کچھ نہ مانگو گے، میں نے کہا بہت بہتر ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا حتیٰ کہ وہ کوڑا بھی نہیں جو تمہارے گھوڑے برسے گر پڑے، بلکہ تم اترو اور خود اٹھاؤ۔
(مسند أحمد: صفحہ، 202 جلد، 5)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں رسول اللہﷺ سے علمی سوالات کرنے میں نمایاں تھے، سیدنا علیؓ ان کے سلسلہ میں فرماتے ہیں۔
کان یکثر السوال فیعطی ویمنع۔
ترجمہ: کہ یہ رسول اللہﷺ سے بہت زیادہ سوال کرتے تھے، تو انہیں کبھی جواب دیا جاتا اور کبھی نہیں۔
(طبقات ابن سعد: صفحہ، 232 جلد، 4)
انہیں تحصیلِ علم کا بہت شوق تھا، پیغمبرِ اسلامﷺ سے خوب کھود کرید کر علمی سوالات کرتے تھے، اسی شدتِ سوال کی بناء پر ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ کے ایسے سخت عتاب کا سامنا کرنا پڑا کہ جسے کبھی نہ بھول سکے۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو شبِ قدر کی بڑی تلاش رہتی تھی، خود فرماتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ سے پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا شبِ قدر صرف رمضان کے مہینے کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسرے مہینوں میں بھی ہو سکتی ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا صرف رمضان میں! میں نے عرض کیا کہ شبِ قدر محض اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہم میں ہیں، یا قیامت تک اس کا سلسلہ باقی رہے گا؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا نہیں، بلکہ قیامت تک باقی رہے گی۔ میں نے عرض کیا کہ رمضان کے کس عشرہ میں اس رات کو تلاش کیا جائے؟ آپﷺ نے فرمایا شروع عشرہ، یا اخیر عشرہ میں اسے تلاش کرو۔ نبی اکرمﷺ اس کے بعد کسی اور گفتگو میں مشغول ہو گئے، میں تاک میں لگا رہا، ذرا غفلت پا کر پھر پوچھا کہ آخر ان دو عشروں میں سے کس عشرہ میں واقع ہوتی ہے؟ فرمایا آخر عشرہ میں۔ اور فرمایا بس آئندہ کچھ نہ پوچھنا، پھر آپﷺ دوسری بات میں مشغول ہو گئے مگر میں موقع کی تلاش میں رہا۔ موقع پاتے ہی ممانعت کے باوجود میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ پر جو کچھ بھی میرا حق ہے، میں اس حق کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے بتا دیجئے کہ اخیر عشرہ کی کس رات میں یہ رات آتی ہے؟ بس اتنا کہنا تھا۔
فغضب علي عضباً لم یغضب مثلہ منذ صحبتہ۔
کہ رسول اللہﷺ میرے اوپر اس قدر برہم اور غضب ناک ہوئے کہ اتنا غصہ آپﷺ کو مجھ پر کبھی نہ آیا تھا جب سے آپﷺ کے دامنِ صحبت سے وابستہ ہوا تھا۔
(مسند أحمد: صفحہ، 171 جلد، 5)
ان کے اسی علمی جذبہ اور شوق کو دیکھ کر رسول اللہﷺ نے بار بار انہیں مخاطب کرکے منبعِ نبوت سے سیراب کیا ہے اور خاص طور سے انہیں بہت ساری نصیحتیں فرمائی ہیں اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو خاص طور سے تنہائی میں ان ہی سے رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی ہیں۔ غرض کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے بہت زیادہ علوم حاصل کیے خود فرماتے ہیں
لقدترکنا رسول اللہﷺ وما یتقلب في السماء طائر إلا ذکرنا منہ علماً۔
(مسند أحمد: صفحہ، 162 جلد، 5)
رسول اللہﷺ اس وقت ہم لوگوں سے رخصت ہوئے جب فضاء میں اڑنے والے پرندوں کے متعلق بھی ہمیں کوئی نہ کوئی علم مل گیا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی مجموعی احادیث کی تعداد علامہ شمس الدین ذہبیؒ کے بیان کے مطابق 281 ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 75 جلد، 2)
حضرت ابوذرؓ رسولﷺ کی نظر میں:
1: نبی اکرمﷺ نے سیدنا ابوذرؓ کے صدق و صفا، ظاہر و باطن کی پاکیزگی اور قلب و زبان کی سچائی کی گواہی ان الفاظ میں دی ہے۔
ما أقلت الغبراء، ولا أظلّت الخضراء أصدق من لہجۃ أبی ذرؓ۔
ترجمہ: آسمان تلے اس سر زمین پر حضرت ابوذرؓ سے زیادہ کوئی سچا نہیں ہے۔
(جامع ترمذي: صفحہ، 220 جلد، 2 نمبر، 3801)
2: پیغمبر اسلامﷺ نے انہیں اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر ردیف النبیﷺ کے شرف سے نوازا ہے۔(مسندِ أحمد: صفحہ، 164 جلد، 5)
(طبقاتِ ابنِ سعد: صفحہ، 228 جلد، 4)
3: رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور خود اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ ان خوش نصیبوں کے نام بتا دیجئے۔ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیا اور تین مرتبہ ان کا نام لیا۔ پھر سیدنا ابوذرؓ، سیدنا مقدادؓ اور سیدنا سلمانؓ کے نام ذکر فرمائے۔ ان اسمائے گرامی کے ذکر کرنے کے بعد پھر وہی جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور خود اپنے بارے میں بھی بتایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔
(جامع ترمذي: صفحہ، 213 جلد، 2)
(مناقب علیؓ مسند ِأحمد: صفحہ، 351 جلد، 5)
4: نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نبی کو سات رفقاء اور سات وزراء دیئے گئے ہیں اور مجھے چودہ رفقاء اور وزراء دیئے گئے ہیں۔ ان میں ایک سیدنا ابوذرؓ ہے۔
(مسندِ أحمد: صفحہ، 164 جلد، 5)
(طبقاتِ ابن ِسعد: صفحہ، 228 جلد، 4)
5: غزوہ تبوک میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اسلامی فوج سے پیچھے رہ گئے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ان کے سلسلہ میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں، رسول اللہﷺ کو معلوم ہو گیا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا اس کو چھوڑ دو، اگر اس کی ذات میں خیر و بھلائی ہو گی تو اللہ تعالیٰ خود تم لوگوں سے ملا دیں گے، واقعہ یہ ہوا کہ سیدنا ابوذرؓ کا اونٹ ایک جگہ ٹھہرا کہ اسلامی فوج آگے بڑھ گئی، اونٹ سست پڑ گیا، بہت کوشش کرنے کے باوجود اس کے رفتار میں تیزی نہ آئی، آخر تھک کر اونٹ سے اتر گئے، جو سر پر لاد سکے لاد لیا، اور رسول اللہﷺ کی تلاش میں نکل پڑے، قافلہ کے قریب آ گئے، کسی صحابیؓ کی نظر پڑی کہ کوئی پیادہ پا تیزی کے ساتھ چلا آ رہا ہے، رسول اللہﷺ کو بھی معلوم ہوا، آپﷺ نے دیکھ کر ارشاد فرمایا کن أباذر سیدنا ابوذرؓ ہی ہو۔ کچھ ہی دیر میں صجابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شور ہوا کہ یہ حضرت ابوذرؓ ہیں، خدا کی قسم سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا
رحم اللہ أباذرؓ یمشی وحدہ، ویموت وحدہ، ویبعث وحدہ۔
اللہ تعالیٰ سیدنا ابوذرؓ پر رحم کرے، اکیلا ہی چلتا ہے، اکیلا ہی مرے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔
(سیر أعلام النبلاء: صفحہ، 561 جلد، 2)
6: سید البشرﷺ نے ارشاد فرمایا :
من سرّہ أن ینظر إلی تواضع عیسی ابن مریم فلینظر إلی أبی ذرؓ۔
ترجمہ: جوحضرت عیسیٰ بن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے تواضع کو دیکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے وہ سیدنا ابوذرؓ کو دیکھ لے۔
(طبقاتِ ابنِ سعد: صفحہ، 228 جلد، 4)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر علماءِ عظام کی نظر میں:
خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوذرؓ کے علمی مقام کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا
وعی علماً عجز منہ حضرت ابوذرؓ ایسے علم کو حاصل کیے ہوئے ہیں جس سے لوگ عاجز آ گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ حریص و لالچی تھے، کس چیز میں؟ خود ہی فرماتے ہیں شحیحا علی دینہ حریصاً علی العلم دین کی پیروی کرنے اور اس کی باتوں پر عمل کرنے میں لالچی اور علم کے حاصل کرنے میں حریص تھے۔ بہت زیادہ رسول اللہﷺ سے پوچھا کرتے تھے، پھر انہیں کبھی جواب دیا جاتا اور کبھی نہیں۔ وقد ملئ لہ في وعائہ حتی امتلأ اس پر ان کے لیے ان کا پیمانہ علم اتنا بھر دیا گیا کہ وہ لبریز ہو گیا۔
(طبقاتِ ابنِ سعد: صفحہ، 232 جلد، 4)
ایک مرتبہ سیدنا علیؓ نے فرمایا:
 أبوذرؓ عَلَمُ العلم، ثم أوکی، فربط علیہ ربطاً شدیداً۔ 
ترجمہ: سیدنا ابوذرؓ علم کے پہاڑ ہیں، سارے علم کو انہوں نے اپنے سینہ گنجینہ میں محفوظ کر رکھا ہے۔
(طبقاتِ ابنِ سعد: صفحہ، 232 جلد، 4) 
(سیراعلام النبلاء: صفحہ، 60 جلد، 2)
کان عمر یوازی ابن مسعودؓ في العلم خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہیں علم میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے ہم پلہ گردانتے تھے اور انہیں بدریین کی فہرست میں شمار کرکے ان کے ساتھ بدریوں جیسا معاملہ کیا کرتے تھے جب کہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہیں رہے ہیں۔
(الإصابۃ: صفحہ، 65 جلد، 4)
حضرت علیؓ کے شاگردِ رشید، بانیٔنحو، امام ابوا لاسود دولی نے کہا زرت اصحاب النبيﷺ فما رأیت لأبی ذرؓ رسول اللہﷺ کے صحابیوں کو میں نے دیکھا، لیکن ابوذرؓ جیسا کسی کو نہ دیکھا۔
(مسندِ أحمد: صفحہ، 181 جلد، 5)
علامہ شمس الدین ذہبیؒ کا بیان ہے:
کان یفتی في خلافۃ أبي بکرؓ وعمرؓ و عثمانؓ۔
ترجمہ: کہ حضرت ابوذرؓ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 42 جلد، 2)
فقر و فاقہ و تنگ دستی:
غزوہ احد میں میرے والد محترم شہید ہو گئے تھے اور انہوں نے بطورِ میراث کے کچھ بھی مال نہیں چھوڑا اور میرے گھر میں کچھ کھانے کو بھی نہیں تھا۔ ایک روز میری اہلیہ محترمہ نے بھوک کی وجہ سے میرے پیٹ سے ایک پتھر باندھ دیا اور کہا دیکھ، فلاں فلاں شخص نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا ہے تو آپﷺ نے ان کو خوب نوازا ہے۔ تم بھی جاؤ اور آپﷺ سے کچھ مانگ کر لے آؤ۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس مال وغیرہ مانگنے ابھی آیا ہی تھا کہ آپﷺ نے مجھے دیکھتے ہی ارشاد فرمایا
من یستغن یغنہ اللہ، ومن یستعف یعفہ اللہ 
ترجمہ: جو اللہ تعالیٰ سے بے نیازی طلب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بے نیازی کی دولت سے نوازتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ سے عفت و پاکدامنی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عفیف و پاکدامن بناتے ہیں۔
(صفۃالصفوۃ: صفحہ، 715 جلد، 1)
(الإصابۃ: صفحہ، 336 جلد، 2)
حلیہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے! بندہ کو صبر سے بہتر اور وسیع ترین کوئی چیز نہیں دی گئی ہے۔ (حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 370 جلد، 1)
یہ ارشادِ عالی سن کر خاموشی کے ساتھ واپس آ گیا اس کے بعد پوری زندگی میں نے کسی کے آگے کبھی بھی دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اتنا مال دیا کہ میرے علم میں انصارِ مدینہ میں مجھ سے زیادہ کوئی مالدار نہیں ہوا۔
(صفۃالصفوۃ: صفحہ 715 جلد، 1)