سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ (صفہ کی زندگی اور تحصیل علم)
نقیہ کاظمیسیدنا ابو سعید خدریؓ صفہ کی زندگی اور تحصیلِ علم
امام ابوعبید قاسم بن سلّامؒ اور حافظ ابو نعیمؒ نے فرمایا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ کی حالت اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کی سی تھی، انہوں نے غربت و مسکنت کی زندگی گزاری، مگر اپنی غربت و فقیری کسی پر بالکلیۃ ظاہر نہ ہونے دی، جب کہ انصاری صحابی تھے، ان کا گھر وغیرہ مدینہ منورہ میں تھا اس کے باوجود طلبِ علم کی خاطر ہر چیز قربان کرکے یہ صفہ کے طالب علموں کے ساتھ رہے۔
(حلیۃالأولیاء: صفحہ، 369/370 جلد، 1)
واقعی سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اسی آیت کے مصداق رہے
لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِيۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِى الۡاَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ الۡجَاهِلُ اَغۡنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعۡرِفُهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡۚ لَا يَسۡــئَلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَــافًا۔
(سورۃ البقرہ: آیت نمبر، 273)
ترجمہ: صدقہ و خیرات ان فقیروں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں طلبِ علم وغیرہ- میں گھر گئے ہیں، ملک میں چل پھر نہیں سکتے، ناواقف انہیں غنی و مالدار خیال کرتا ہے محض سوال سے بچنے کی وجہ سے تو انہیں ان کے چہروں سے پہچان لے گا اور وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر نہیں مانگتے ہیں مقصد یہ ہے کہ ضرورت کے باوجود نہیں مانگتے ہیں۔
خود سیدنا ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ میں فقرائِ مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا تھا تو دیکھا کہ ان میں سے بعض اپنے ستر کو کپڑے کے کم ہونے کے سبب دوسرے کے کپڑے سے یا دوسرے شخص کے پیچھے بیٹھ کر اپنے ستر کو چھپا رہے تھے اور قاری قرآن درسِ قرآن دے رہے تھے کہ اچانک معلِم انسانیت نبی اکرمﷺ تشریف لے آئے اور کھڑے ہو گئے ۔ رسول اللہﷺ کو دیکھتے ہی قاری قرآن خاموش ہو گئے آپﷺ نے سلام کیا۔ پھر دریافت کیا کہ تم لوگ کیا کر رہے تھے؟ ہم لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارے قاری صاحب قرآن کریم پڑھ رہے تھے اور ہم سن رہے تھے۔ رسول اللہﷺ نے یہ سن کر فرمایا
الحمدللہ الذ جعل من أمتي أمرتُ أن أصبر نفسي معہم۔
ترجمہ: تمام تعریف اس اللّٰه تعالیٰ کے لیے ہے جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا کیے جن کے ساتھ مجھے خود رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
پھر آگے بڑھ کر خود رسول اللہﷺ ہمارے درمیان جلوہ افروز ہو گئے تا کہ آپﷺ ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں برابر کے شریک رہیں۔ یہ تواضعاً اور بطورِ ترغیب کے ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنا تھا۔
(مجمع البحار مادۃ یعدل بنفسہ فینا بحوالہ عون المعبود: صفحہ، 72 جلد، 1)
پھر اپنے دستِ مبارک سے اشارہ فرمانے لگے کہ صحیح سے حلقہ بنا کر بیٹھ جاؤ؛ تا کہ تمام حضرات کے چہرے میرے سامنے ہو جائیں۔
حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں میں میرے علاؤہ کسی کو نہیں پہچانا پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا اے فقرائِ مہاجرین کی جماعتو! تم لوگ قیامت کے دن کامل و مکمل نور کی بشارت و خوش خبری قبول کرو اور تم لوگ مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت میں جاؤ گے اور وہ آدھا دن پانچ سو سال کے برابر ہو گا۔
(سننِ أبوداؤد شریف: صفحہ، 516 جلد، 2 العلم)
علمی مقام اور تعدادِ احادیث:
نو عمر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حدیث و فقہ کے سب سے بڑے عالم مانے جاتے ہیں، حضرت حنظلہ بن ابی سفیانؓ نے اپنے مشائخ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابو سعیدؓ نو عمر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے بڑے فقیہ تھے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 374 جلد، 2)
واقعہ حرّہ:
واقعہ حرّہ سیدنا یزیدبن معاویہؓ کے دورِ خلافت 63 ہجری میں اہلِ مکہ و مدینہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو خلیفۃالمسلمین تسلیم کر لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور تمام اُموی گورنروں کو مدینہ منورہ سے نکال دیا، اہلِ مدینہ نے یزید کی بیعت فسخ کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن حنظلہؓ کو اپنا امیر بنایا اور مدینہ منورہ میں جو بنو امیہ مقیم تھے، تمام امویوں کو نکال دیا جب شام میں یزید کو خبر پہنچی، تو یزید نے مسلم بن عقبہ کو دس ہزار فوج دے کر بھیجا اور ہدایت کر دی کہ پہلے اہلِ مدینہ کو اطاعت کی دعوت دینا، جب وہ انکار کریں، اسی وقت تلوار اٹھانا اور انہیں شکست دینے کے بعد تین دن تک مدینہ منورہ کو لوٹنا، ایک قول یہ ہے کہ دس ہزار گھوڑ سوار لشکر تھا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ستائیس ہزار لشکر مسلم بن عقبہ کے ماتحت تھا، جس میں بارہ ہزار گھوڑ سوار اور پندرہ ہزار پیدل لشکر تھا، اہلِ مدینہ نے اپنے لشکر کی چار جماعتیں کر دیں اور سب سے بڑی جماعت کا امیر حضرت عبداللّٰہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، چنانچہ تین دن تک خوں ریز معرکہ ہوا، اہلِ مدینہ نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا، لیکن حکومت کی کثیر فوج کا مقابلہ دشوار تھا، اس لیے آخر میں بڑی شکست فاش ہوئی، اس جنگ میں مہاجر و انصار کے اکابر وںاشراف تقریباً سات سو کام آئے، جس میں عبداللّٰہ ابنِ حنظلہ وغیرہ مارے گئے اس کے علاؤہ عوام اور غلام تقریباً دس ہزار مقتول ہوئے۔ شکست دینے کے بعد شامی فوجیں تین دنوں تک مدینۃ الرسولﷺ کو لوٹتی اور قتل عام کرتی رہی اور عورتوں کی آبرو ریزی کا یہ عالم تھا کہ ان دنوں میں ایک ہزار عورتیں حاملہ ہوئیں۔
(عمدۃ القاری: صفحہ، 220/221 جلد، 17)
سیدنا ابو سعیدؓ ایک غار میں چھپ گئے تھے، ایک شامی فوجی نے آپؓ سے کہا غار سے باہر آجاؤ۔ آپؓ نے جواب دیا میں یہاں سے باہر نہیں آؤں گا، اگر تم اندر آئے تو قتل کر دوں گا۔ جب وہ اندر آ گیا تو آپؓ نے اپنی تلوار رکھ کر کہا! تم میرا گناہ اپنے سر لے کر جاؤ۔ یہ سن کر شامی سپاہی نے پوچھا کہ آپ سیدنا ابو سعید خدریؓ ہیں؟ اثبات میں جواب پانے پر اس نے کہا آپؓ میری مغفرت کی دعا کریں یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
(تاریخ ابنِ عساکر: صفحہ، 96 جلد، 7)
(بحوالۂ سیرِاعلام النبلاء: صفحہ، 170 جلد، 3)
آپؓ مکثرینِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حدیث کے مشہور راوی ہیں۔ علامہ ذہبیؒ نے آپؓ کی احادیث کی تعداد 1170 بتائی ہے ۔ جن میں سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں 43 اور صرف صحیح بخاری میں 16 اور صرف صحیح مسلم میں 52 اور بقیہ احادیث دیگر کتبِ احادیث میں ہیں۔
(سیرِاعلام النبلاء: صفحہ، 172 جلد، 3)
سورہ فاتحہ سے پڑھ کر دم کرنا:
آپؓ کے کمال علمی ہی کی بات ہے کہ آپؓ نے جان لیا کہ سورہ فاتحہ ہر مرض کی دواء ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر شفاء رکھی ہے۔
خود حضرت ابو سعید خدریؓ ہی کا بیان ہے کہ نبی اکرمﷺ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچے۔ انہوں نے دستور کے موافق ان کی ضیافت نہیں کی، اتفاق سے ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، اب سٹ پٹائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس دوڑے آئے، کہنے لگے بھائیو! تمہارے پاس بچھو کاٹنے کی کوئی دواء یا منتر ہے؟ انہوں نے کہا! ہاں ضرور ہے: مگر تم نے ہماری ضیافت تک نہیں کی لہٰذا ہم بغیر اجرت کے منتر نہیں کریں گے۔ آخر انہوں نے کچھ بکریاں بطورِ اجرت دینی قبول کر لیں۔ ایک صاحب (سیدنا ابوسعید خدریؓ ہی ہیں جیسا کہ محدثین نے اور بطورِ خاص علامہ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے صراحت کی ہے) آگے بڑھے اور سورہ فاتحہ پڑھ کر تھوک منہ میں اکٹھا کر کے ڈنک ماری ہوئی جگہ پر تھوک دیا، بالآخر وہ سردار اچھا ہو گیا۔ اس قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تردد ہوا، انہوں نے کہا، ہم یہ بکریاں اس وقت تک نہیں لیں گے جب تک نبی اکرمﷺ سے پوچھ نہ لیں۔ پھر آپﷺ سے پوچھا، آپﷺ ہنس دئیے اور فرمایا تجھ کو کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ منتر
وما أدراک أنہا رقیۃ خذوہا واضربوا لی بسہم بھی ہے! بکریاں شوق سے لے لو اور میرا بھی حصہ لگاؤ۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 854 جلد، 2 حدیث نمبر، 5736/2221)
(سننِ ابو داؤد: صفحہ، 544 جلد، 2 فتح الباری: صفحہ532/533 جلد، 4)
حلقۂ درس:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا تعلیمی و تدریسی حلقہ مسجدِ نبویﷺ میں منعقد ہوتا تھا، بعض اوقات ان کے مکان پر یا دوسری جگہ پر بھی ہوتا تھا، جس میں رسول اللہﷺ کی وصیت کے مطابق نہایت والہانہ انداز میں طلبہ کا استقبال کرتے تھے، انہوں نے رسول اللہﷺ کی یہ وصیت روایت کی ہے
وسیاتیکم شباب من أقطار الأرض یطلبون الحدیث فإذا جاؤاکم فاستوصوا بہم خیراً۔
ترجمہ: عنقریب روئے زمین کے مختلف علاقوں سے نوجوان تمہارے پاس حدیث کی طلب میں آئیں گے۔ جب وہ آئیں تو ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤ کرنا۔(شرف اصحاب الحدیث: صفحہ، 23/21)
ان کے شاگرد ابو ہارون عبدی کا بیان ہے کہ سیدنا ابو سعید خدریؓ جب نوجوان طالب علموں کو اپنی مجلس میں آتے ہوئے دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ کی وصیت کو مرحبا ہو۔ آپﷺ نے ہم کو وصیت فرمائی تھی کہ ہم تم لوگوں کے لیے مجلس میں گنجائش نکالیں اور تم کو حدیث سمجھائیں، اس لیے کہ ہمارے بعد تم لوگ ہمارے خلف جانشیں اور حدیث کے عالم بنو گے۔
(المحدث الفاصل: صفحہ، 176)
ابو ہارون عبدی کی دوسری روایت میں ہے کہ جب ہم لوگ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مجلس میں جاتے تو کہتے! مرحباً بوصیۃ رسول اللہﷺ اور ہم پوچھتے کہ آپﷺ نے کیا وصیت فرمائی ہے؟ تو بتاتے کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ عنقریب میرے بعد لوگ تمہارے پاس میری حدیث حاصل کرنے کے لیے آئیں گے، جب وہ آئیں تو تم ان کے ساتھ لطف و کرم اور مہربانی کے ساتھ پیش آنا اور ان کو حدیث کی تعلیم دینا۔
(المحدث الفاصل: صفحہ، 176)
شہر بن حوشبؒ کا بیان ہے کہ ہم نوجوان سیدنا ابو سعید خدریؓ کی خدمت میں جا کر حدیث اور دینی باتیں معلوم کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ کی وصیت کو مرحبا ہو! میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب لوگ تمہارے پاس دین میں تفقہ حاصل کرنے کے لیے آئیں گے، تم ان کو دین میں تفقہ و فقاہت کی تعلیم دینا، اس کے بعد حضرت ابو سعیدؓ ہمارے سوالات کے جوابات دیتے اور مسائل ختم ہونے کے بعد حدیث بیان کرتے تا آنکہ ہم اکتا جاتے تھے۔
(الفقیہ والمتفقہ: صفحہ، 199 جلد، 2)
آپؓ زبانی حدیث شریف یاد کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور اپنے شاگردوں کو حدیث پاک یاد کرنے کی تاکید کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جس طرح ہم نے رسول اللہﷺ سے یہ حدیث سن کر یاد کی ہے تم لوگ بھی ہم سے سن کر یاد کرو۔ ایک روز ابو نصرؒ وغیرہ نے آپؓ سے درخواست کی کہ جو حدیثیں ہم آپؓ سے سنتے ہیں، کیوں نہ لکھ لیا کریں تا کہ ان میں کمی زیادتی کا احتمال نہ رہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ تم لوگ حدیث کو قرآن بنانا چاہتے ہو؟ یہ ہرگز نہیں ہو گا۔
(جامع بیان العلم: صفحہ، 64 جلد، 1)
آپؓ اپنے حلقہ نشینوں سے کہا کرتے تھے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب کہیں بیٹھ کر آپس میں گفتگو کرتے تھے تو ان کا موضوع فقہی ہوتا تھا، یا کسی شخص کو حکم دیتے اور وہ ان کے سامنے قرآن کریم کی کوئی سورت پڑھتا تھا۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 374 جلد، 2)
آپؓ خاص طور سے اپنے طلبہ کرام کو تاکید کرتے تھے کہ تم لوگ آپس میں حدیث کا مذاکرہ کیا کرو کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کو یاد دلاتی ہے۔
(الإصابۃ: صفحہ، 33 جلد، 2)
ایک ساعت علمِ دین کا مذاکرہ کرنا پوری رات عبادت کرنے سے بہتر ہے۔
(جامع بیان العلم: صفحہ، 111 جلد، 1)
(تدریب الراوي: صفحہ، 18)
شاگردان کرام:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے فیض یافتگان میں خود ان کے معاصر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، مثلاً حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ، حضرت جابر بن عبداللہؓ، سیدنا انسؓ بن مالک، حضرت ابو أمامہ بن سہلؓ، سیدنا ابو الطفیلؓ وغیرہ ہیں۔
(سیرِ أعلام النبلاء: صفحہ، 169 جلد، 3 تہذیب التہذیب)
کبارِ تابعین کی ایک لمبی فہرست ہے جسے حافظ مزی نے تہذیب الکمال میں تفصیل کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔
بے باک حق گوئی:
حضرت سہل بن سعدؓ کا بیان ہے کہ میں، سیدنا ابوذرؓ، سیدنا عبیدۃ بن صامتؓ، سیدنا محمد بن مسلمہؓ، سیدنا ابو سعید خدریؓ ایک اور شخص نے رسول اللہﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اوامر نواہی کے بارے میں کسی کی پرواہ نہیں کریں گے۔ بعد میں اس چھٹے شخص (جس کا نام ذکر نہیں کیا ہے) نے بیعت توڑ دی۔
ایک دن حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ تم میں سے کوئی آدمی جب حق کو دیکھے یا سنے تو لوگوں کا خوف اس کو حق بات سے نہ روکے۔ اس کے بعد کہا اسی حدیث نے مجھے امادہ کیا اور میں سواری کر کے مدینہ منورہ سے شام حضرت امیر معاویہؓ کے پاس گیا اور ان کے کان میں حق بات کہہ کر واپس ہو گیا۔
(الاِصابۃ:صفحہ، 33 جلد، 2)
آپؓ مروان بن حکم جیسے بادشاہ کے سامنے بھی حق گوئی سے باز نہ آئے۔
خود آپؓ فرماتے ہیں رسول اللہﷺ کا معمول تھا جب عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو پہلے نماز پڑھاتے۔ نماز کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اگر فوج کشی کی ضرورت ہوتی تو اس کا تذکرہ ان کے سامنے کرتے، یا اگر کوئی دوسری ضرورت ہوتی تو انہیں اس کا حکم فرماتے۔ پھر حاضرینِ مجلس سے فرماتے صدقہ کرو، صدقہ کرو، صدقہ کرو، زیادہ تر عورتیں صدقہ کرتیں۔ پھر آپﷺ گھر تشریف لاتے، اسی پر برابر عمل ہوتا رہا، جب مروان کا دورِ حکومت آیا اور ہم مروان کا ہاتھ پکڑ کر عید گاہ آئے تودیکھا کثیربن صلت نے پہلے سے مٹی اور کچی اینٹ کا منبر تیار کر رکھا تھا، وہاں پہنچ کر مروان مجھ سے اپنے ہاتھ کو چھڑانے لگا جیسے مجھے منبر کی طرف کھینچ رہا ہو اور میں اسے نماز کے لیے کھینچ رہا تھا۔ جب ایسا میں نے دیکھا تو میں نے کہا، خطبہ سے پہلے عید کی نماز کا پڑھنا کہاں گیا؟ اس نے کہا جس کو آپؓ جانتے ہیں اس پرعمل ختم ہو گیا۔
میں نے کہا خداکی قسم جسے میں جانتا ہوں اس سے بہتر تم ہرگز نہیں جانتے ہو۔ چند مرتبہ میں نے کہا تو وہ رک گیا۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 290 جلد، 1 العیدین)
وفات:
سیدنا ابوسعید خدریؓ کی وفات واقعہ حرّہ کے بعد 64 ھجری میں ہوئی۔
(الثقات: صفحہ، 164)
(الإصابۃ: صفحہ، 33 جلد، 2)
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابو سعید خدریؓ کا آخری وقت ہوا تو انہوں نے نئے کپڑے منگا کر پہنے اور فرمایا کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مردہ ان ہی کپڑوں میں اٹھایا جاتا ہے جن میں مرتا ہے۔
(سننِ ابو داؤد: صفحہ، 444 جلد، 2 الجنائز)