Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نواسہ رسول سیدنا حسن رضی اللہ عنہ

  نقیہ کاظمی

نواسہ رسول سیدنا حسنؓ

 نام مبارک: آپ کا نام مبارک حسنؓ
 کنیت : ابومحمدؓ
آپ کا یہ نام خود سردارِ انبیاء حضور تاجدارِ مدینہﷺ نے رکھا تھا۔ اور آپؓ سے پہلے دنیا میں کسی بچے کا نام حسن نہیں رکھا گیا۔
 نسب مبارک: علامہ ابنِ اثیر جزریؒ تحریر فرماتے ہیں کہ: سیدنا حسنؓ کا نسب مبارک یہ ہے حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف القرشی الہاشمی آپؓ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہؓ رسول اکرمﷺ‎ کی صاحبزادی ہیں جو دنیا کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
 تاریخ پیدائش: آپ 15 شعبان المعظم سن 3 ہجری میں مدینہ منورہ کی سر زمین پر پیدا ہوئے۔
 فضائل ومناقب: کتبِ احادیث میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں جس سے آپؓ کی عظمت شان بخوبی واضح ہوتی ہے، اور ساتھ ہی آپؓ کی حیات مبارکہ کے مختلف حالات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہاں پر بطورِ اختصار کچھ روایتیں نقل کی جاتی ہیں۔
1: سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ: جب سیدنا حسنؓ کی پیدائش ہوئی تو حضور اکرمﷺ‎ تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرا بیٹا دیکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟
میں نے کہا حرب حضورﷺ‎ نے فرمایا: نہیں وہ سیدنا حسنؓ ہے پھر جب سیدنا حسینؓ پیدا ہوئے تو حضورﷺ‎ تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرا بیٹا دیکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا حرب حضورﷺ‎ نے فرمایا: نہیں وہ حسین ہے۔ سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ: پھر جب تیسرے لڑکے کی پیدائش ہوئی تو حضورﷺ تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرا بیٹا دیکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا حرب حضورﷺ‎ نے فر مایا: نہیں وہ محسن ہے۔ اس کے بعد آپﷺ‎ نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے بیٹوں کا نام ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام” شبّر، شبّیر، مبشّر، پر رکھا ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،ومن مناقب الحسن والحسین ابنی بنت رسول اللہﷺ‎ حدیث: 4773)
2: سیدنا ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ‎ سیدنا حسنؓ کو اپنے کاندھے پر بیٹھائے ہوئے تھے، تو ایک شخص نے کہا:اےبچے کتنی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، آپﷺ‎ نے فرمایا: یہ بھی تو دیکھو کہ وہ سوار کتنا اچھا ہے۔
(جامع تر مذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسنؓ والحسینؓ، حدیث: 3784)
3: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ: نبی کریمﷺ‎ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ‎ کے اہلِ بیتؓ میں آپﷺ‎ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ آپﷺ‎ نے فرمایا: سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ راوی بیان کرتے ہیں کہ: آپﷺ‎ سیدہ فاطمہؓ سے کہتےمیرے دونوں بیٹے کو بلاؤ جب سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ کو لایا جاتا تو آپﷺ‎ دونوں صاحبزادوں کو سونگھتے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتے۔
(جامع تر مذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسنؓ والحسینؓ، حدیث: 3775)
4: سیدنا ابوبکرہؓ بیان کرتے ہیں کہ: نبی اکرمﷺ‎ منبر پر چڑھے اور آپﷺ‎ نے سیدنا حسنؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا: بے شک یہ میرا بیٹا سردار ہےاللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعت کے درمیان صلح کرادے گا۔
(جامع تر مذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسنؓ والحسینؓ، حدیث: 3773)
5: سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ: میری والدہ نے مجھ سے پوچھا کہ تم رسول اللہﷺ‎ کی خدمت میں کتنے دنوں بعد جاتے ہو میں نے کہا کہ: اتنے اتنے دنوں سے میرا آنا جانا چھوٹا ہوا ہے اس پر وہ ناراض ہو گئیں تو میں نے کہا کہ: اچھا، اب آپؓ مان بھی جائیے میں آج ہی حضورﷺ‎ کی خدمت میں حاضر ہو کر نمازِ مغرب آپﷺ‎ کے ساتھ ادا کروں گا اپنی اور آپؓ کی مغفرت کی دعا کرنے کی درخواست کروں گا، سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں: میں گیا اور آپﷺ‎ کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کیا، پھر حضورﷺ‎ عشاء تک نماز میں مشغول رہے عشاء پڑھنے کے بعد جب آپؓ لوٹے تو میں آپﷺ‎ کے پیچھے ہو لیا ،حضورﷺ‎ نے جب میری آواز سنی تو فرمایا: کون؟ حذیفہؓ میں نے کہا: جی ہاں، آپﷺ‎ نے فرمایا: تمہیں کیا کام ہے؟ اللہ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فرمائے۔ پھر آپﷺ‎ نے فرمایا بے شک ایک فرشتہ جو آج رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ آیا، آج اس نے اپنے رب سے اس بات کی اجازت مانگی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے اس بات کی خوشخبری دے کہ: فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسنؓ حسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسنؓ و الحسینؓ حدیث: 3781)
مختصر حالاتِ زندگی: سیدنا حسنؓ بڑے حلیم، کریم اور متقی و پرہیز گار تھے انہوں نے اپنی زندگی میں دو بار اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اس کے علاوہ جب بھی راہِ خدا میں مال لٹانے کی باری آئی تو انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ایک روایت کے مطابق آپؓ نے 50 مرتبہ پیدل حج کیا وہ کہتے تھے کہ مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہےکہ میں اس سے ملاقات کروں اور اس تک پیدل چل کر نہ جاؤں۔
رمضان سن 40 ہجری میں اپنے والد ماجد سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ ہوئے، چالیس ہزار سے زیادہ مسلمانوں نے آپؓ کے دست حق پرست پر بیعت کیا اور آپؓ نے چھ یا سات مہینے تک عراق، خراسان، حجاز اور یمن وغیرہ پر حکومت کی پھر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ملکِ شام سے آپؓ کے خلاف فوج کشی کی آپؓ نے بھی اپنی فوج اُتاری اور جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں اور قریب تھا کہ جنگ کی آگ بھڑک جائے تو آپؓ نے سوچا کہ کوئی فریق دوسرے پر اس وقت تک غالب نہ ہوگا جب تک کہ دونوں طرف سے بہت سارے مسلمانوں کا خون نہ بہہ جائے یہ سوچ کر آپؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ وہ اس شرط پر حکومت ان کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ان کے بعد خلافت ہمارے پاس رہے اور یہ کہ ہمارے والد کے زمانے میں مدینہ حجاز اور عراق کے لوگوں کے پاس جو کچھ تھا اس کا مطالبہ نہیں کریں گے سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ان شرائط کو منظور کر لیا اور اس طرح سے غیب داں پیغمبرﷺ‎ کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ: آپﷺ‎ نے سیدنا حسنؓ کے بارے میں ان کے بچپنے ہی میں فرمایا تھا کہ یہ میرا بیٹا سردار ہے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرا دے گا جس ذات کے لئے حضورﷺ‎ نے فرمایا ہو کہ: یہ سردار ہے اس کی عظمتوں کا اندازہ بھلا کون لگا سکتا ہے۔
(اسد الغابہ، باب الحاء والحسینؓ، حسنؓ بن علیؓ)
 شہادت: سیدنا حسنؓ کی تاریخِ وصال میں مؤرخین کا اختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ سن 49 ہجری میں آپؓ کا وصال ہوا اور ایک قول یہ ہے کہ سن 50 ہجری میں ہوا، اور سن 51 ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے۔
لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
آپؓ کی وفات کا سبب یہ ہوا کہ دشمنوں کی سازش سے آپؓ کو زہر پلا دیا گیا جس کی وجہ سے آپؓ چالیس دن تک بیمار رہے پھر آپؓ کا وصال ہو گیا جب بیماری زیادہ بڑھی تو آپؓ نے اپنے چھوٹے بھائی سیدنا حسینؓ سے فرمایا کہ مجھے تین بار زہر دیا گیا لیکن اس بار سب سے زیادہ شدید زہر تھا جس سے میرا جگر کٹ رہا ہے سیدنا حسینؓ نے پوچھا کہ آپؓ کو کس نے زہر دیا ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا: یہ سوال کیوں پوچھتے ہو؟ کیا تم ان سے جنگ کرو گے میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
کچھ لوگوں سے یہاں پر سخت غلطی واقع ہوئی وہ کہتے ہیں کہ سیدنا حسنؓ کی بیوی جعدہ بنتِ الاشعث کو دشمنوں نے بہلا پھسلا کر اپنی سازش کا حصہ بنا لیا اور وہ دشمنوں کے جھانسے میں آ کر سیدنا حسنؓ کو دھوکے میں زہر پلا دی یہ بات بالکل جھوٹ اور افترائے محض ہے کیونکہ تمام مؤرخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جب سیدنا حسینؓ نے سیدنا حسنؓ سے زہر پلانے والے کے بارے میں پوچھا تو آپؓ نے کسی کا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا کہ: میں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں تو جب انہوں نےنام نہیں بتایا یہاں تک کہ کسی کے بارے میں اپنی شک کا اظہار بھی نہ فرمایا جس کی وجہ سے اس وقت کسی سے قصاص نہ لیا جا سکا تو پھر دوسروں کو کیسے اس کا علم ہوا؟ اس لئے ایک ایسے مقدس امام جن سے اپنا رشتہ جوڑنے پر اس زمانے کی عورتیں ہر دکھ گوارا کرنے کو تیار رہتی تھی ،پھر جنہیں نوجوانان جنت کی سردار کی بیوی بننے کا شرف حاصل ہوا ان کے بارے میں ایسا خیال رکھنا اپنی تباہی اور بربادی کو دعوت دینا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور اپنے ان نیک بندوں کے صدقے دارین کی سر خروئی نصیب فرمائے۔