Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

برصغیر میں صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین اور تبع تابعین کے اولین نقوش

  (مولانا) حذیفہ وستانوی استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم

برِصغیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین رحمۃ اللہ اور تبع تابعین کے اولین نقوش

الحمدللہ! جس خطہ میں ہم اہلِ ہند آباد ہیں وہ ایک ایسا خطہ ہے جو ابتداء آفرینش سے ہی انبیاء کرام علیہ السلام اور رسولوں سے وابستہ ہے جس کی برکتوں سے اسلام اس دورِ پُرفتن میں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ مسلمانانِ ہند کے قلب و جگر میں آباد ہے۔ اور ان شاء اللہ قیامت تک رہے گا۔ بعض احادیث کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کا ہبوط سرزمینِ ہند پر ہوا اور بعض روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام سرزمینِ مکہ پر اُتارے گئے، پھر بیت اللہ کی تعمیر کے بعد سرزمینِ ہند کی طرف تشریف لائے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرزمینِ ہند کو ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے۔ صرف یہی نہیں چونکہ یہ خطہ تاریخ بشر کے آغاز ہی سے آباد ہوتا چلا آیا ہے اس سے حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت وقفہ وقفہ سے یہاں ہوتی رہی ہو گی جیسا کہ سرہند کے قریب ایک دیہات میں دو نبیوں حضرت ابراہیم اور حضرت خضر علیہما السلام کی قبریں آج بھی موجود ہے، یہ دونوں مذکورہ انبیاء علیہما السلام والد اور صاحبزادے تھے، صرف اتنے ہی پر بس نہیں بلکہ نبی آخر الزماںﷺ کی بعثت کے ابتدائی مراحل ہی میں اسلام اہلِ ہند تک پہنچ چکا تھا جیسا کہ بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا کہ ہندوستان کے شہر ”قنوج“ کا بادشاہ سربانک معجزہ شق القمر کو دیکھ کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا، اسی طرح بعض روایات ہیں کہ ایک اور ہندی صحابی سیدنا بابا رتن ہندی کی ملاقات اور نبی کریمﷺ سے چند احادیث کی روایت بھی ثابت ہے، آج بھی بابارتن ہندی کا مزار مشرقی پنجاب کے شہر بھنڈہ میں موجود ہے، اسی طرح ایک ہندوستانی بادشاہ کا نبی کریمﷺ کی خدمت میں تحفہ بھیجنا بھی ثابت ہے جیسا کہ محدث کبیر حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب ”المستدرک“ میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے، اسی طرح اہل سرندیپ نے بھی نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک عقلمند، ذی شعور اور ذکی الفطرت شخص کو تعلیماتِ نبویہ کے مشاہدے کے لیے عرب تاجروں کے ساتھ روانہ کیا تھا، جب وہ مدینہ پہنچا تو نبی کریمﷺ اس دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف رحلت فرما چکے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی، اور حضرت عمر خلیفہ منتخب ہو چکے تھے، اس شخص نے اپنے وطن لوٹ کر تعلیماتِ اسلامیہ کی بہت تعریف کی، اہلِ سرندیپ اس سے بہت متأثر ہوئے، اس کی برکتیں ہیں جو آج مالدیپ مملکتِ اسلامیہ کی صورت میں آباد ہے، اس طرح جنگِ یمامہ کے بعد حضرت علیؓ کے حصہ میں آنے والی ایک خاتون ”خَوْلَہْ ہندیہ حنفیہ“ تھی، جس کے بطن سے آپؓ کے ایک صاحبزادے سیدنا محمد بن حنفیہؒ پیدا ہوئے، علامہ ابنِ خلکان نے اپنی معرکة الآراء تصنیف ”وفیات الاعیان“ میں خولہ کا ہندیہ ہونا ثابت کیا ہے، یہ تو وہ واقعات تھے جن سے بعض اہلِ ہند کا انفرادی طور پر اسلام میں داخل ہو کر السابقون الاولون کی فہرست میں شامل ہونے کا شرف حاصل کرنا ثابت ہوتا ہے۔
ہندوستان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آمد:
نبی کریمﷺ کو لباسِ نبوت و رسالت سے آراستہ کیے جانے کے بعد چوں کہ جزیرة العرب کے کافر و مشرک یہود و نصاریٰ کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا تھا، لہٰذا انہیں لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی میں مشغول رہے اور جس میں الحمدللہ آپ سو فیصدی ہی نہیں بلکہ ہزار اور لاکھ فیصدی کامیاب رہے کہ آنحضرتﷺ کی 23 سالہ بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں پورا جزیرة العرب اسلام میں داخل ہو گیا، صرف داخل ہی نہیں بلکہ آپؓ کی صحبت کی برکت اور جانبین کی اخلاص کی وجہ سے مکمل طور پر تعلیماتِ نبویہ سے سرشار ہو گئے اور ہر اعتبار سے اسوہ رسول اللہﷺ میں ڈھل گئے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے انہیں اپنی رضا کا پروانہ دے دیا اور رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ اور صحابہ جیسے عظیم القاب سے یاد کیے جانے لگے جو انبیاء کے بعد بنی آدم کے افضل ترین رتبہ پر فائز ہو گئے۔
نبی کریمﷺ کے اس دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف رحلت فرما جانے کے بعد تبلیغ کو انہوں نے اپنا مشن بنائے رکھا اور یہ تہیہ کر لیا کہ پیغامِ حق سے پوری دنیا کو سرشار کریں گے اور الحمدللہ ہمارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ صرف کہا نہیں بلکہ کر دکھایا۔ اے اللہ! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرما اور ان کی محبت سے ہمارے قلوب کو سرشار فرما۔ آمین یا رب العالمین!
نبی کریمﷺ کی وفات حسرت و یاس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے، مگر چونکہ آپؓ کا دور ”فتنہٴ ارتداد“ سے دو چار ہوا لہٰذا اس کی سرکوبی میں مختصر سا مگر بابرکت دور پورا ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہندوستان کی جانب توجہ کا موقعہ نہیں مل سکا اور رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے، رضی اللہ عنہ و رضاہ۔
خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال پُر ملال کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسندِ خلافت پر جلوہ گر ہوئے، چونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے داخلی فتنوں کو اپنی حکمتِ عملی اور کامیاب تدابیر سے نسیاً منسیاً کر دیا تھا، لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اب کسی داخلی فتنہ سے خطرہ نہ تھا، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی مکمل توجہ دین اسلام کو اقوامِ عالم تک پہنچانے میں صرف کی اور الحمدللہ آپ رضی اللہ عنہ بھی اپنے ہدف کو حاصل کرنے یعنی دور دور علاقوں میں اقوامِ عالم تک دینِ اسلام کو پہنچانے میں کامیاب رہے۔
سرزمینِ ہند پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اولین نقوش:
امیر الموٴمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے چار سال بعد سن 15 ہجری میں سیدنا عثمان بن ابوالعاصؓ کو بحرین اور عمان کا والی مقرر کیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے برادر محترم ”حضرت حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ“ کو ایک لشکر کا کمانڈر بنا کر ہندوستان کی بندرگاہ ”تھانہ“ اور ”بھروچ“ کے لیے روانہ کیا اور اپنے دوسرے بھائی ”سیدنا مغیرہ بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ“ کو فوج دے کر،”دبیل (کراچی)“ کے لیے روانہ کیا، مگر یہ غیر مستقل جھڑپیں تھیں، کوئی مستقل فوج کشی اور جنگ نہیں تھی، اس لیے عام تاریخ کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا، اسی طرح ”مکران، کرمان، رن، بلوچستان، لس بیلا، ملات، ملتان، لاہور، بنوں، کوہاٹ“ اور دیگر علاقوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کا ورود مسعود تاریخ کی بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
مؤرخ اسلامی علامہ قاضی محمد اطہر مبارکپوری رحمۃ اللہ کی تحقیق کے مطابق سرزمینِ ہند کو سترہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا ہے، جبکہ دورِ حاضر کے مؤرخ محمد اسحاق بھٹی کی تحقیق کے مطابق پچیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقدامِ مبارکہ کی قدم بوسی سرزمینِ ہند کو حاصل ہوئی، اس طرح قاضی اطہر مبارکپوری رحمۃ اللہ نے تابعین کے ورودِ مسعود کا ذکر کرتے ہیں۔ 
(خلافت راشدہ اور ہندوستان) 
اور محمد اسحاق بھٹی صاحب 42 تابعین اور 18 تبع تابعین کے ورودِ مسعود کا تذکرہ کرتے ہیں۔ 
(برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش)
اب یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام ہی ذکر کر دئیے جائیں جن کا ورودِ مسعود ہندوستان کی سرزمین میں ہوا:
1: سیدنا حَکَم بن ابی العاص 2: سیدنا حَکَمْ بن عمرو ثعلبی غفَاری 3: سیدنا حضرت خریت بن راشد ناجی سامی 4: سیدنا رُبَیَّعْ بن زیاد حارثی مَذْحَجِی 5: سیدنا سنان بن سلمہ ہذَلی 6: سیدنا حضرت سہل بن عدی خزرجی انصاری 7: سیدنا صحّار بن عباس عبدی 8: سیدنا عاصم بن عَمرو تمیمی 9: سیدنا عبداللہ بن عبداللہ بن عِتبان انصاری 10: سیدنا عبداللہ بن عمیر اَشجعی 11: سیدنا عبدالرحمٰن بن سمُرہ قرشی 12: سیدنا عبیداللہ بن معْمَر قرشی تیمی 13: سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقَفِی 14: سیدنا عُمیر بن عثمان بن سعد 15: سیدنا مجاشع بن مسعود سَلَمِی 16: سیدنا مغیرہ بن ابی العاص ثقفی 17: سیدنا منذر بن جارود عبدی (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔ 
اللھم اجزھم عنا ھؤلاء الصحابة احسن ما جازیت بہ عبادک الصالحین و انزل علیھم شأبیب رحمتک و رضوانک و اجعلنا معھم یوم الحشر و الحساب و فی الجنہ و وفقنا باتخاذھم قدوة لنا فی الدنیا۔ آمین یا رب العالمین!
یہ سترہ اسماء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جس کو قاضی اطہر مبارکپوری رحمۃ اللہ نے اپنی معرکة الآراء تالیف ”خلافتِ راشدہ اور ہندوستان“ میں تحریر فرمایا۔
اللہ رب العزت، قاضی صاحب رحمۃ اللہ کو بھی جزاءِ خیر عطا فرمائے کہ جنہوں نے بڑی جدوجہد اور کاوشوں کے بعد، ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسماء مبارکہ کو جمع کیا۔
اس کے علاوہ اور چند اسماء مبارکہ کو، محمد اسحاق بھٹی صاحب نے اپنی تالیف لطیف ”برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش“ میں تحریر فرمایا ہے وہ یہ ہیں:
18: سیدنا شہاب بن مخارق بن شہاب تمیمی 19: سیدنا نسیر بن دیسم بن ثور عجلی 20: سیدنا حکیم بن جبلہ اسدی 21: سیدنا کلیب ابووائل 22: سیدنا مُہَلَّبْ بن ابوصفرہ ازدی عتکی 23: سیدنا عبداللہ بن سوّار عبدی 24: سیدنا یاسر بن سوّار عبدی 25: سیدنا عبداللہ سُوَیْد تمیمی (رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔
ان میں بعض صحابہ کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے کہ وہ صحابی ہیں یا تابعی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد امت کا بہترین طبقہ، تابعین کا ہے۔ اور الحمدللہ تابعین رحمہم اللہ بھی اعلاء کلمة اللہ کی غرض سے ہندوستان کی سرزمین پر تشریف لائے۔ تو آئیے اب ان تابعین کے نام معلوم کرتے چلیں:
1: سیدنا ثاغر بن ذعر 2: سیدنا حارث بیلمانی 3: سیدنا حکیم بن جبلہ، قاضی صاحب نے ان کو تابعی اور محمد اسحاق بھٹی صاحب نے صحابہ میں شمار کیا ہے۔ 4: سیدنا حسن بن ابوالحسن یسار بصری 5: سیدنا سعید بن ہشام انصاری 6: سیدنا سعید بن کندیہ قشیری 7: سیدنا شہاب بن مخارق تمیمی 8: سیدنا صیفی بن فسیل شیبانی 9: سیدنا نسیر بن وسیم عجلی یہ بھی مختلف فیہ ہیں۔ 
محمد اسحاق بھٹی صاحب نے دیگر تابعین کے اسماء تحریر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں: 
10: سیدنا ابنِ اُسید بن اَخنس 11: سیدنا ابوشیبہ جوہری 12: سیدنا حاتم بن قبیصہ 13: سیدنا راشد بن عمرو الجدیدی 14: سیدنا زائدة بن عمیر طائی 15: سیدنا زیاد بن حواری عمی 16: سیدنا ابوقیس زیاد بن رباح قیسی بصری 17: سیدنا حکم بن عوانہ کلبی 18: سیدنا معاویہ بن قرة مُزنی بصری 19: سیدنا مکحول بن عبداللہ سندھی 20: سیدنا عبدالرحمٰن بن عباس 21: سیدنا عبدالرحمٰن سندھی 22: سیدنا قطن بن مدرِک کلابی 23: سیدنا قیس بن ثعلبہ 24: سیدنا کمس بن حسن بصری 25: سیدنا یزید بن ابوکبشہ سکسکی دمشقی 26: سیدنا موسیٰ سیلانی 27: سیدنا موسیٰ بن یعقوب ثقفی 28: سیدنا عبدالرحمٰن کِندی 29: سیدنا عبدالرحمٰن بیلمانی 30: سیدنا عمر بن عبیداللہ قرشی تیمی31: سیدنا شمر بن عطیہ اسدی 32: سیدنا سعید بن اسلم کلابی 33: سیدنا حباب بن فضالہ ذُہلی 34: سیدنا عبدالرحمٰن بن عبداللہ کواعشی 35: سیدنا حارث بن مرہ عبدی 36: سیدنا ایوب بن زید ہلالی 37: سیدنا حری بن حری باہلی 38: سیدنا عباد بن زیادہ اُموی 39: سیدنا یزید بن مفرغ حِمیَری 40: سیدنا ربیع بن صبیح سُعْدی بصری 41: سیدنا مجاعة بن سعر تمیمی 42: سیدنا عطیہ بن سعد عوفی 43: سیدنا ابوسالمہ زُطی 44: سیدنا محمد بن قاسم ثقفی( رحمہم اللہ علیہم اجمعین)۔
یہ وہ نفوسِ قدسیہ تھے جنہوں نے إعلاء کلمة اللہ اور ابلاغِ دینِ اسلام کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور ہم اہلِ ہند کو اسلام کی تعلیماتِ صحیحہ سے روشناس کیا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بہترین بدلہ عطا فرمائے اور ہم لوگوں کو بھی جاہلیت قرنِ عشرین کی تاریکیوں سے محفوظ فرما کر، دوسروں کے لیے ہدایت کا باعث بنا دے، ہمیں ہمارے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین!
سرزمینِ ہند کی جانب تبع تابعین:
1: اسرائیل بن موسیٰ بصری 2: کرْزْ بن ابوکرز عبدی 3: معلی بن راشد بصری 4: جنید بن عمرو العدوانی المکی 5: محمد بن زید عبدی 6: محمد بن غزان کلبی 7: ابوعینہ ازدی 8: سندی بن شماس السمان بصری 9: عبدالرحیم دیبلی سندھی 10: عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی 11: عبدالرحمٰن بن السندی 12: عمرو بن عبید بن باب السندی 13: فتح بن عبداللہ سندھی 14: قیس بن بسر سندی النصری 15: ابومعشر نُجَیْح بن عبدالرحمٰن سندھی مدنی 16: محمد بن ابراہیم بیلمانی 17: محمد بن حارث بیلمانی 18: یزید بن عبداللہ قرشی سندھی۔ 
(برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش)
اللہ رحمت نازل کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔ اللھم نور قبورھم واسکنھم فی جنات عدن تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا ابدا واجعل قبورھم روضات من ریاض الجنة واجعلنا فی زمرتھم مع النبیین و الصالحین والشھداء .
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام صحابہ کرام رضوان الله عليہم اجمعين، تابعین، اور تبع تابعین کی انتھک محنتوں کے بعد برِصغیر ہند و پاک تک پہنچا برِصغیر میں اسلام دو طریقے سے پھیلا:
1: تبلیغ کے ذریعہ۔ 2: جہاد کے ذریعہ۔
سراندیپ، کلکپدیپ، مالدیپ، مالابارہ، جزیرہ جاوا، سُمَاتَرَہ، سنگاپور، ملایا، کالیکَٹْ وغیرہ میں اسلام انصاف اور مساوات پر مشتمل تعلیمات کی وجہ اور علاقوں کے بادشاہوں کے زمانہ قدیم سے، اہلِ عرب سے تجارتی تعلقات کی وجہ سے بغیر کسی جہاد و جنگ کے بہت تیزی سے اسلام پھیلا۔ عرب کے تاجروں میں سے مشرف بن مالک اور سیدنا مالک بن دینار اور سیدنا مالک بن حبیب کا بھی ان علاقوں میں اسلام کی تبلیغ میں بڑا کردار رہا، مسلمانوں کی کثرت کو دیکھ کر، مالک بن دینار وغیرہ نے کدنکلور کالیکٹ میں، مسجد بھی تعمیر کروائی، ان مذکورہ مسلمان تاجروں کی محنت کے سبب اسلام ساحلی کاروکمنڈل تک پھیل گیا اور بکثرت مسجدیں بھی بنائی گئیں؛ گویا یہ تمام علاقے حضرت محمد بن قاسم ثقفی رضی اللہ عنہ کے ہندوستان پر حملہ آور ہونے سے قبل ہی اسلام میں داخل ہو گئے ”وللہ الحمد علی ذالک“۔
اللہ ہمارے ان مسلمان تاجروں کو اس کا بہترین بدلہ آخرت مین عطار فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)
علاقہ سندھ، جس کا اطلاق قدیم دور میں ایک عظیم مملکت پر ہوتا تھا، یہ مملکتِ سندھ، موجودہ سندھ سے مغرب میں مکران تک، جنوب میں بحرۀ عرب اور گجرات تک، مشرق میں مالوہ کے وسط اور راجپوتانہ تک، شمال میں ملتان سے اوپر گزر کر جنوبی پنجاب کے علاقہ تک پھیلا ہوا تھا۔ 
(فتوح الہند) 
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ سندھ میں مسلمانوں کی آمد کا آغاز عہدِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے ابتداء ہی سے ہو چکا تھا، جس کے اولین محرک حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے اپنے دو بھائی سیدنا حکم بن ابی العاصؓ اور سیدنا مغیرہ بن ابی العاصؓ کو اس خطہ میں روانہ کیا تھا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ہندوستان میں صدائے ”لا إلہ اللہ“ کی گونج کے لیے اور حالات دریافت کرنے کے لیے فوج روانہ کی، مگر جنگ کی نوبت نہ آئی، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں سیدنا حارث بن مرہ عبدیؓ، سرہند پر حملہ آور ہوئے، پھر حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں 44ھ میں سیدنا مہلب بن ابی صفرہؓ حملہ کرنے کی غرض سے آئے اور فاتح ہوئے، اسی لیے تاریخِ فرشتہ کے مصنف نے اسلام پر پہلی منظم جنگ کا شرف اُنہیں کے سر باندھا ہے۔ مگر یہ حملے چھوٹے چھوٹے تھے، بڑا حملہ حجاج کے اشارے پر محمد بن قاسمؒ ہی نے 92 ہجری میں کیا، اور اقل قلیل مدت میں وہ پورے سندھ کو فتح کر لیا، مگر بد قسمتی سے سلیمان بن عبد الملک نے حجاج کے ساتھ اپنے اختلافات میں، محمد بن قاسمؒ جیسے جواں مرد اور نیک صفت مجاہد اسلام کو، بلی کا بکرا بنا دیا ”إنا للہ وإنا الیہ راجعون“ محمد بن قاسمؒ نے دیبل کو فتح کرنے کے بعد، وہاں جامع مسجد تعمیر کروائی، چار ہزار عربوں کو وہیں ٹھہرنے کا حکم دے دیا، یہاں یہ بات قابلِ لحاظ رہے کہ ان فتوحات کے بعد بھی مسلمانوں نے اس بات کا حد سے زیادہ خیال رکھا کہ ہماری حکومت سے مملکتِ سندھ کے کسی طبقہ کو بھی اذیت نہ پہنچے، مسلمانوں نے پست لوگوں کو اُبھارا تو سہی، مگر بلند لوگوں کو پست نہیں کیا، جیسا کہ عام فاتحین کا طریقہ ہوتا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم نے بلقیس کے واقعہ میں کیا ہے، کہ ملکہ سبا بلقیس نے اپنے مشیروں سے کہا 
”إن الملوک إذا دخلوا قریة افسدوھا و جعلوا اَعزة اہلھا اذلة وکذالک یفعلون“ 
محمد بن قاسمؒ نے ایسا زبردست انصاف کیا کہ تاریخِ ہند میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ قاضی کرتے تھے، لیکن ہندوؤں کے لیے ان کی پنچایتیں بدستور قائم رہیں۔
محمد بن قاسمؒ کی یہی رواداری اور انصاف تھا، جس کی وجہ سے ان کی مخالفت کم ہوئی، کئی شہروں نے خود بخود ان کی اطاعت قبول کر لی، بلکہ بلا ذوری تو لکھتا ہے، کہ جب محمد بن قاسمؒ قید ہو کر عراق بھیجے گئے، تو ہندوستان کے لوگ روتے تھے اور علاقہ کَچ گجرات کے لوگوں نے ان کا مجسمہ بنایا۔
محمد بن قاسمؒ جیسے مردِ مجاہد کے بعد، سرزمینِ ہند پر اعلاء کلمة اللہ کے لیے یزید بن مہلب نے بھی اپنی خدمات انجام دیں، قبل اس کے ہم دیگر مجاہدین و مصلحین کا اجمالی تذکرہ کریں، قبیلہ ثقیف کی قابلِ قدر خدمات جو انہوں نے سرزمینِ ہند پر اسلام پہنچانے کے سلسلے میں کی، جس کا آغاز 15ھ سے سیدنا عثمان بن ابی العاص اور سیدنا حکم بن ابی العاص اور سیدنا مغیرہ بن ابی العاص الثقیفیون رضی اللہ عنہم سے ہوتا ہے اور اختتام حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم رحمۃ اللہ پر ہوتا ہے؛ قبیلہ ثقیف کے اہلِ ہند پر احسانِ عظیم کے سلسلہ میں مؤرخ کبیر و محقق عظیم قاضی اطہر مبارکپوری کی عبارت پڑھنے کے قابل ہے۔
قاضی صاحب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
”ہندوستان طائف اور اس کے قبیلہ بنو ثقیف کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا ہے، جس نے ہندوستان کو اپنی دینی و روحانی توجہ کا مرکز بنا کر جب بھی اسے اقتدار ملا اس کی طرف رخ کیا، عہدِ فاروقی رضی اللہ عنہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحرین و عمان کی گورنری پاتے ہی اپنے بھائیوں سیدنا حکم رضی اللہ عنہ اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کو یہاں اسلام کی برکت دے کر روانہ کیا اور اُموی دورِ خلافت میں حجاج بن یوسف ثقفی نے عراق کی گورنری پا کر، اپنے جواں سال بھتیجے محمد بن قاسمؒ کو خلافت کے زیرِ اہتمام باقاعدہ اسلامی فوج کے ساتھ ہندوستان روانہ کیا“۔ 
(عہد نبوی کا ہندوستان: صفحہ، 246)
مؤرخ کبیر رحمۃ اللہ کے قبیلہ بنوثقیف کے بارے میں، اہلِ ہند پر احسان عظیم ذکر کرنے کے ساتھ ہی ذہن اس واقعہ کی طرف منتقل ہوا ،جو نبی کریمﷺ کو امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ کی تحقیق کے مطابق ہجرت سے تین سال قبل یعنی 10 نبوی یا 11 نبوی میں طائف کے سفر کے دوران پیش آیا، جب کہ طائف کے اوباشوں نے نبی کریمﷺ کو ستایا تھا اور آپﷺ کو لہولہان کر دیا تھا، جس کے بارے میں خود نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے استفسار کرنے پر فرمایا تھا:
ما لقیت من قومک کان اشد منہ یوم العقبة إذ عرضت نفسی علی بن عبد یالیل بن عبد کلال فلم یجب إلی ما اردت۔ 
(البدایہ النہایة: جلد، 3 صفحہ، 110)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں (جنگِ احد کے بعد) ایک روز رسول اللہﷺ سے میں نے دریافت کیا 
”ھل أتیٰ علیک یوم کان اشد علیک من یوم احد“
(البدایة والنہایة)
 یا رسول اللہﷺ کیا آپﷺ پر اُحد سے زیادہ سخت دن کوئی گزرا، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں احد سے بھی زیادہ سخت دن مجھ پر وہ تھا جب کہ (قبیلہ بنوثقیف کے سردار) عبدیالیل اور عبد کلال کو اسلام کی دعوت دی، تو انہوں نے میرے گمان کے خلاف مجھے جواب دیا، جب محزون و ملول واپس ہوا، اور مقامِ ”قرن ثعلب“ پر پہنچا، تو میں نے سر اٹھایا، تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ بادل مجھ پر سایہ فگن ہے، پھر کچھ دیر بعد اسی بادل سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آواز دی اور کہنے لگے کہ اہلِ طائف نے آپﷺ کے ساتھ جو سلوک کیا اللہ رب العزت نے اس کو دیکھا اور مَلک الجبال کو آپﷺ کی خدمت میں بھیجا ہے، آپﷺ اس کو جو چاہے حکم دے دیں، پھر ”مَلک الجبال“ نمودار ہوئے اور ”سلام“ کیا اور کہنے لگے، اللہ رب العزت نے مجھے آپﷺ کی جانب ارسال فرمایا، اگر آپﷺ حکم دیں تو اہلِ طائف اور قبیلہ ثقیف کو دو پہاڑیوں کے درمیان پیس دیا جائے، مگر ہزار جان قربان حضرت محمدﷺ پر کہ آپﷺ نے جواب دیا: 
”ارجو أن یخرج اللہ من أصلابھم من یعبد اللہَ ولا یشرک بہ شیئاً“ 
ترجمہ: مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسلوں سے ایسے لوگوں کو پیدا فرمائیں گے، جن کی زبان پر توحید کے زمزمے ہوں گے اور جن کے سینے شرک کی آلائشوں سے صاف و شفاف ہوں گے، بس اللہ کے رسولﷺ کی حیاتِ طیبہ میں پیش آنے والا سخت ترین دن کی یہ دعا عرشِ معلیٰ تک پہنچ گئی۔
مؤمن کی دعا پَر نہیں مگر طاقتِ پرواز رکھتی ہیں، ایک تو نبی اکرمﷺ کا دعا دینا ہی کافی تھا اور وہ بھی سخت غم اور حزن کی حالت میں بھلا ایسی دعا کی قبولیت میں کیا شک ہو سکتا ہے، اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ اور اخیر میں محمد بن قاسم نے، ہندوستان کی شرک و کفر کی مسموم فضاء میں توحیدِ خالص کے زمزمے اور صدائیں بلند کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں عرب کے ریگستان سے طویل مسافت پر واقع ملک ہندوستان میں قبیلہ ثقیف اسلام کی بنیادیں قائم کرنے میں کامیاب ہوا، قیامت تک اہلِ ہند کے کارِ ہائے خیر کا ثواب قبیلہ ثقیف کے میزانِ حسنات میں لکھا جاتا رہے گا، ان شاء اللہ۔ اہلِ ہند اس قبیلہ کا جتنا بھی شکر و احسان مانیں کم ہے۔
 جزاھم اللہ عنا خیر الجزاء واحسن الجزاء فی الدنیا و الآخرة“۔ آمین یا رب العالمین!
خلاصہ کلام یہ کہ محمد بن قاسم الثقفیؒ کی شہادت کے (مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ کی تحقیق کے مطابق) تین سو برس تک مسلمانوں نے ہندوستان پر کوئی بڑی جنگی کاروائی نہیں کی، البتہ اس دوران چھوٹے چھوٹے حملے ہوتے رہے، مثلاً محمد بن قاسمؒ نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، حکم کے دستِ راست بن کر فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا، پھر اسی کے بعد خلافتِ بنو اُمیہ کا خاتمہ ہو گیا اور خلافتِ عباسیہ 132ھ بمطابق 750ء میں قائم ہوئی۔ خلافتِ عباسیہ کے دور میں ہشام 140ہجری میں سندھ کے علاقہ میں آیا اور کاٹھیاوار کے علاقہ کو اس نے فتح کیا اور اور گجرات میں سب سے پہلی مسجد بنوائی پھر شمال میں کشمیر کے بعض علاقوں کو فتح کیا۔ صاحب ”آبِ کوثر“ شیخ اکرم فرماتے ہیں کہ فتح سندھ کے سات سال تک تو عرب فاتحین کا پلہ بھاری رہا، مگر پھر یمنی اور حجازی آپسی عرب اختلاف کی وجہ سے غیروں نے فائدہ اٹھایا، چنانچہ جاٹوں نے شمالی سندھ میں اور جنوبی سندھ میں ”میڈ“ قوموں نے اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا اور 237ھ بمطابق 854ء کے آنے تک پھر ہباری خاندان کی موروثی حکومت شروع ہو گئی پھر قرامطہ اسماعیلی شیعہ کا 270ھ میں ملتان پر قبضہ ہو گیا، قرامطہ کے تسلط کے بعد سلطان محمد غزنوی 367ھ 997ء میں ہندوستان میں داخل ہوئے اور ایک عظیم اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالی جو مختلف مراحل اور خاندانوں سے گذرتی ہوئی 1857ء تک باقی رہی سلطان ایک نیک دل عادل بادشاہ تھا سلطان غزنوی تاریخِ اسلام کا ایک درخشندہ ستارہ ہے جس نے مملکت اور عیش کو مقصد نہیں بلکہ احیاءِ اسلام اور اعلاء کلمة اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کو زندگی کا مقصد بنایا اور وہ اس میں الحمد للہ کامیاب رہا۔
 ”اللھم انزل شأبیب حرمتک علیہ“