Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دعوتِ ذی العشیرہ کے موقع پر ابوبکررضی اللہ عنہ و عمررضی اللہ عنہ نے وعدہ نصرت کیوں فرمایا؟ کیا یہ دونوں بزرگ دعوت ذی العشیرہ میں شامل تھے؟اگر شامل نہیں تھے تو یہ حضرات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی کیونکر ہو سکتے ہیں؟

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

دعوتِ ذی العشیرہ کے موقع پر ابوبکرؓ و عمرؓ  نے وعدہ نصرت کیوں فرمایا؟؟ کیا یہ دونوں بزرگ دعوتِ ذی العشیرہ میں شامل تھے؟؟ اگر شامل نہیں تھے تو یہ حضرات، رسولﷺ کے قریبی کیونکر ہو سکتے ہیں؟؟

 

♦️ جواب اہل سُنَّت:-♦️

یہ دعوت

و انذر عشیرتک الاقربين (شعراء ع ١١)

"آپ اپنے نزدیک ترین رشتہ داروں کو ڈرائیے"

کی تکمیل میں منعقد ہوئی اور قریب ترین رشتہ دار بنو عبد المطلب کو جمع کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت الی اللہ دی۔

"جب کِسی ہاشمی نے اسلام اور حمایتِ پیغمبر کا اعلان نہیں کیا تب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صغر سنی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔"

(طبری ص ٢٣ ج دوم)

علامہ ابن تیمیہ کی منہاج السنہ میں تصریح کے مطابق روایت و سند کے لحاظ سے یہ قصہ اگرچہ غلط ہے تاہم اس واقعہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تاریخ (دعوی نبوت کے تین سال بعد) اور آپ کی تمام بنو عبد المطلب پر افضلیت اور جناب ابو طالب کا مسلمان نہ ہونا ثابت ہوا-

یہ مخصوص برادری کو دعوت الی الاسلام تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تمیمی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ عدوی کو بلانے کا سوال ہی نہ تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ تو تین سال قبل آغازِ نبوت پر ایمان لا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ راست بن کر دسیوں آدمیوں کو حلقہ بگوش اسلام کرا چکے تھے۔

"حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ گو بعد میں مشرف باسلام ہوئے مگر ان کے اسلام لانے پر اشاعتِ اِسلام تیز ہو گئی اور مسلمانوں نے بیت اللہ میں جا کر نماز ادا کی۔"

(ملاحظہ ہو تاریخ طبری ص ۳۳۵ ج ۲، البدائیہ ص ٧٩ ج ٣)

نسبا گو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کے رشتہ دار ہیں۔ مگر نصرتِ پیغمبر میں قریبی رشته داروں سے بڑھ کر ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ تحریکِ اسلام کو شیخین (رضی اللہ تعالٰی عنہما) کے اِسلام سے جِس قدر نفع پہنچا اور کِسی سے نہیں پہنچا۔

إِنَّ اولی الناس بابراھیم (بمحمد) الذین اتبعوہ...

یعنی "بےشک حضرت ابراہیم (اسی طرح حضور کے) سب لوگوں سے زیادہ قریبی وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابعدار ہوئے۔"

یا جیسے حضرت علی رضی ﷲ تعالٰی عنہ کا ارشاد ہے کہ:

"محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قریبی وہ ہے جو اللہ ﷻ کا مطیع ہو اگرچہ اس کا رشتہ دور کا ہو۔"

(نہج البلاغہ، ص ١٧١)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سابق الايمان اور متبع اول ہونے پر یہ شہادت کافی ہے کہ:

"ایک راہب کے کہنے پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بن عبید اللہ بصریٰ سے مکہ پہنچے تو پوچھا اس ماہ میں کیا نئی بات ہوئی تو لوگوں نے کہا کہ

محمد بن عبداللہ الأمين اتبنيا قد تبعه ابن ابی قحافة

کہ محمد صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے دعوی نبوت کیا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی پیروی.....

پھر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی اسلام لے آئے اور نوفل بن خویلد، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو غنڈوں سے پٹواتا تھا۔

(اعلام الوری ص ۵۱)