Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ملحدین کی ریشہ دوانیوں کا سبب رافضی حماقتیں

  امام ابنِ تیمیہؒ

ملحدین کی ریشہ دوانیوں کا سبب رافضی حماقتیں 

بہت سارے شیعہ اپنی گندی کاروائیوں کے متعلق اعتراف کرتے ہیں کہ اس سے ان کا مقصد ملک حاصل کرنا ‘ دین میں خرابی پیدا کرنا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت[ودشمنی] اور سرکشی کرنا تھا۔ جیسا کہ بہت سارے باطنیہ اور دیگر شیعہ گروہوں کی تحریروں اور خطابات سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان کا یہ اعتراف رہا ہے کہ وہ حقیقت میں اسلام پر یقین نہیں رکھتے۔بلکہ وہ اپنے آپ کو شیعہ اس لیے ظاہر کرتے ہیں کہ شیعہ کی عقل بہت کم اور ان جہالت بہت زیادہ ہوتی ہے ؛لہٰذا ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقصود تک پہنچنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ان کا سب سے پہلا فرد ‘ بلکہ ان کا سب سے بہترین مختار بن عبید ثقفی تھا؛ جو کہ شیعہ کا امیر تھا؛اس نے عبید اللہ بن زیاد کو قتل کیا ۔ اس نے قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے انتقام کا نعرہ لگایا۔ اس ذریعہ سے اس نے محمدبن الحنفیہ اور دیگر اہل بیت کی قربت حاصل کرنے کی کو شش کی۔پھر اس نے نبوت کا دعوی کردیا۔اس کا دعویٰ تھا کہ جبریل میرے پاس وحی لے کر آتا ہے۔ صحیح مسلم میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک سفاک (ناحق خون بہانے والا) ہوگا۔‘‘ [صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب ذکر کذاب ثقیف و مبیرھا (حدیث: ۲۵۴۵)۔]

آپ کے ارشاد گرامی کے مطابق ثقیف کا کذاب مختار بن ابی عبید تھا اور سفاک حجاج بن یوسف ثقفی۔

روافض نواصب کی نسبت بدتر ہیں :

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ عمر بن سعد جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والی فوج کا سپہ سالار تھا۔ ظالم اور طالب دنیا ہونے کے با وصف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حامی اور ان کے قاتلوں کے قاتل مختار بن ابی عبید سے زیادہ گناہ گار نہ تھاجس کا کہنا تھا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قصاص کا طالب ہے۔ اور اس نے قاتلین حسین کو قتل کیا۔ بلکہ عمر بن سعد کے مقابلہ میں مختار گناہ گار اور کاذب تر تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ مختار، عمر بن سعد ناصبی سے بدتر تھا۔ اسی طرح حجاج بن یوسف بھی مقابلۃًمختار سے بہتر تھا۔ حجاج کا جرم یہ تھا کہ وہ ناحق خونریزی کا ارتکاب کیا کرتا تھا۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س کے بارے میں خبردی تھی کہ وہ ناحق خون بہانے والاہوگا۔ اس کے مقابلہ میں مختار وحی کا دعویدار تھا اور کہا کرتا تھا کہ مجھ پر جبریل امین نازل ہوتا ہے[مختار بن ابو عبید بن مسعود ثقفی ؛ ابو اسحاق ؛ ایک شیعہ داعی تھا۔ جو لوگوں کو حضرت محمد بن علی المعروف بہ محمد بن حنفیہ کی بیعت کی دعوت دیتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن علی کو اپنے بعد خلیفہ بنایا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے ساتھ تھی۔ پھر اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اکثر قاتلوں کو قتل کردیا۔ اور بنو امیہ کے لشکروں سے جنگ لڑی۔ اور عبیداللہ بن زیاد کو قتل کردیا۔ کوفہ ؛ الجزیرہ اوردیگر علاقوں میں اس کی بیعت کی گئی۔ پھر اس کے بعد اس نے نبوت کا دعوی کردیا۔ اور کہا کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کی لڑائی حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہماسے ہوئی؛ اور یوں سن ۶۷ھ میں قتل ہوگیا۔ مختار کا تعلق شیعہ کے فرقہ کیسانیہ سے تھا۔ شہرستانی اور دیگر مؤرخین نے اس فرقہ کو مختاریہ کا نام بھی دیا ہے۔ [تاریخ طبری ۵؍ ۵۶۹ ؛ أخبار الطوال للدینوری ۳۰۸۔ مروج الذہب للمسعودی ۳؍ ۵ـ۱۔الملل النحل ۱؍ ۱۳۲۔]] ظاہر ہے کہ نزول وحی کا دعویٰ قتل نفوس سے عظیم تر ہے۔ یہ کفر ہے اور اگر مختار اس سے تائب نہیں ہوا تھا، تو وہ یقیناً مرتد تھا۔ فتنہ پردازی یوں بھی قتل سے عظیم تر جرم ہے۔

یہ سلسلہ یہاں ہی ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ایک وسیع باب ہے جائز یا ناجائز شیعہ جس کی بھی مذمت کرتے ہیں ان میں اس سے بھی بدتر آدمی موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح شیعہ جس کی مدح و ثنا کرتے ہیں ان کے حریف خوارج میں اس سے بہتر آدمی پائے جاتے ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ روافض اپنے حریف نواصب سے بدتر ہوتے ہیں ۔نیز یہ کہ شیعہ جن کو کافر و فاسق قرار دیتے ہیں ، وہ ان لوگوں کی نسبت افضل ہیں جو نواصب کے نزدیک کافر و فاسق ہیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت کے عقائد کا خلاصہ:

اہل سنت کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ جملہ اہل ایمان سے الفت و محبت کا سلوک کرتے ہیں اور گفتگو میں علم عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ وہ جہالت زدہ اور اہل اہواء میں سے نہیں ۔وہ روافض و نواصب دونوں سے بیزار ہیں ۔ ان کے افکار و معتقدات کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

۱۔اہل سنت سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں ۔

۲۔اہل سنت صحابہ رضی اللہ عنہم کے مناقب و فضائل کے قدردان ہیں ۔

۳۔اہل سنت اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ان جائز حقوق کی نگہداشت کرتے ہیں جواللہ تعالیٰ نے بیان کیے ہیں ۔

۴۔اہل سنت مختار ثقفی جیسے کذاب اور حجاج جیسے ظالم و سفاک کے رویہ کو پسند نہیں کرتے۔

۵۔اس کے ساتھ ہی سابقین اولین کے مراتب کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما افضل الصحابہ ہیں ۔حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما یا کوئی اور صحابی اس فضیلت میں ان کا حصہ دار و شریک نہیں ہوسکتا۔

قرن اول میں یہ عقائد و افکار متفق علیہ تھے۔ شاذو نادر کسی کو اختلاف ہو تو اور بات ہے۔ اس کی حدیہ ہے کہ قرن اول کے شیعہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رفقاء و احباب حضرت صدیق اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی عظمت و فضیلت میں کسی شک و شبہ میں مبتلا نہ تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بتواتر ثابت ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے:

(( خَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ )) [سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ(ح: ۱۰۶) ، مسند احمد (۱؍۱۰۶)۔البخاری فِی صحِیحِہ۵؍۱۱۲۔أبو داود فِی سننِہِ۴؍۲۸۸۔ِکتاب السنۃِ، باب فِی التفضِیلِ۔ وفِی سنن ابن ماجہ۱؍۳۹۔ وذکر السیوطِی فِی الجامِعِ الصغِیرِ ۲؍۱۰ ؛ ط۔ مصطفی الحلبِیِ، وذکر إن ابن عساِکر روی الحدِیث عن علِی والزبیرِ معًا، وحسن السیوطِی الحدِیث، ولِکن الألبانِی ضعفہ، فِی ضعِیفِ الجامِعِ الصغِیرِ وزِیادتِہِ۳؍۱۳۷۔]

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر و عمر اس امت میں سب سے افضل ہیں ۔‘‘

تاہم شیعان علی میں سے ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتی تھی۔ مگر یہ اتنا اہم مسئلہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہل سنت حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت میں یک زبان تھے۔ امام ابو حنیفہ، شافعی، مالک، احمد بن حنبل، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد رحمہم اللہ اور دیگر متقدمین و متاخرین محدثین، مفسرین، اہل فقہ و اہل زہد سب یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ البتہ حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی افضلیت میں اہل مدینہ کی ایک جماعت توقف کرتی تھی۔ امام مالک رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔ اہل کوفہ کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتی تھی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل تھے۔ بعد ازاں حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے ملنے کے بعد اس مسلک سے رجوع کر لیا تھا حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ بعد ازاں فرمایا کرتے تھے:

’’ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیا اس نے مہاجرین و انصار پر عیب لگایا۔‘‘

اہل سنت کے سب ائمہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیتے ہیں ۔ جمہور محدثین کا نظریہ یہی ہے۔ نص اجماع اور قیاس بھی اس کی تائید کرتے ہیں ۔ بعض متقدمین سے جو منقول ہے کہ وہ حضرت جعفر اور طلحہ رضی اللہ عنہما کو افضل قرار دیتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر لحاظ سے افضل تھے؛ بلکہ بعض خصوصیات کے اعتبار سے ان کو جزوی فضیلت حاصل تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دینے کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ بعض خصوصیات کی بنا پر جزوی فضیلت کے حامل تھے۔