Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حکیم الامت حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ

  نقیہ کاظمی

حکیم الامت حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ:

حافظ ابو عبداللہ نیشا پوریؒ اور علامہ ابو نعیم اصفہانیؒ نے سیدنا ابو الدرداءؓ کو صفہ کے طالب علموں میں شمار کیا ہے۔
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 22 جلد، 2)
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ اپنی کنیت سیدنا ابو الدرداءؓ سے ہی مشہور ہیں، جب کہ نام عویمر ہے اور والد کے نام میں مختلف اقوال ہیں قیس، مالک، عامر، زیدبن قیس وغیرہ انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔
(تہذیب التہذیب: صفحہ، 175 جلد، 8)
طبقہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عبّاد و زہّاد میں بہت اعلیٰ اور ممتاز مقام رکھتے ہیں، حکیم الامت کے لقب سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں معروف و مشہور ہیں۔ قرآن، حدیث، فقہ، فرائض، حساب اور اشعارِ عرب کے جامع عالم و معلم اور دمشق کے قاضی و سید القراء ہیں، جامعینِ قرآن میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے۔
واقعہ اسلام:
حضرت ابو الدرداءؓ انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے آخر میں غزوہ بدر کے دن مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ غزوہ بدر کے دن اسلام قبول کرنے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شمار کیا ہے۔ بیت المال سے ہر ماہ 400 درہم وظیفہ دیا کرتے تھے۔
ان کے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح منقول ہے کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ایک دن سیدنا عبداللہ بن رواحہؓ و محمد بن مسلمہؓ ان کے گھر میں گھس آئے اور ان کے بتوں کو توڑ ڈالا سیدنا ابو درداءؓ اٹھے اور بتوں کے ٹوٹے ہوئے پتھروں کو اکٹھا کرنے لگے اور یہ کہنے لگے، اے بت! تیری ہلاکت و بربادی ہو! تیرے اندر اتنی بھی طاقت نہیں کہ تو اپنی جانب سے دفاع کر سکے اور اپنے توڑنے والوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتار سکے۔ ان کی بیوی سیدہ ام الدرداءؓ ان کی نقل و حرکت کو دیکھ رہی تھی اور ان کی باتیں سن رہی تھی تو کہنے لگی اگر یہ بت نفع و ضرر کے مالک ہوتے تو ضرور اپنی جانب سے دفاع کرتے اور ان کے توڑنے والے ضرور تباہ و برباد ہو جاتے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ پر ان باتوں کا گہرا اثر ہوا، انہوں نے اپنی بیوی سیدہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے کہا! میرے غسل کرنے کے لیے غسل خانہ میں جلدی پانی رکھو۔ یہ اٹھے اور غسل کیا، کپڑے تبدیل کئے اور سیدھے بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضری دینے کے لیے روانہ ہو گئے۔
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے انہیں جب آتا ہوا دیکھا تو کہا! اے اللہ کے رسولﷺ! سیدنا ابودرداءؓ ہماری ہی تلاش میں آرہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں، بلکہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے آرہا ہے، میرے رب نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے سلسلے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے، ایسا ہی ہوا، وہ دربارِ نبویﷺ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے۔(المستدرک: صفحہ، 336/337 جلد، 3)
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ پیغمبر اسلامﷺ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظر میں:
غزوہ احد میں حضرت ابو الدرداءؓ نے پوری شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا تھا اور بڑے کرتب دکھلائے تھے، جس سے خوش ہو کر رسول اللہﷺ نے دادِ شجاعت دی اور ارشاد فرمایا
نعم الفارس عویمر۔
ترجمہ: عویمر (سیدنا ابو الدرداءؓ کا نام ہے) بہترین شہ سوار ہے۔
اور فرمایا
ھو حکیم أمتی۔
ترجمہ: وہ میری امت کا حکیم و دانا ہے۔
(المستدرک: صفحہ، 337 جلد، 3)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
ومات النبيﷺ ولم یجمع القرآن غیرأربعۃ: أبوالدرداءؓ، ومعاذ بن جبلؓ وزید بن ثابتؓ وأبو زیدؓ۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 748 جلد، 2 حدیث نمبر، 5004)
ترجمہ: نبی اکرمﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے وقت صرف چار آدمی حافظِ قرآن تھے۔ سیدنا ابو الدرداءؓ، سیدنا معاذ بن جبلؓ، سیدنا زید بن ثابتؓ اور سیدنا ابوزیدؓ۔ سیدنا انسؓ کا یہ فرمان کہ صرف چار حافظِ قرآن تھے یہ صرف قبیلہ خزرج کے لوگوں کے اعتبار سے ہے، نہ کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعتبار سے ہے اور قبیلہ اوس کے لوگوں پر قبیلہ خزرج کا اس منقبت کو شمار کر کے فخر کرنا ہے۔
(فتح الباری: صفحہ، 51 جلد، 9)
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو الدرداءؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:
ماحملت ورقاء ولاأظلت خضراء اعلم منک یا أبا الدرداءؓ۔
ترجمہ: اے سیدنا ابو الدرداءؓ! آسمان و زمین کے درمیان آپؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 243 جلد، 2)
حضرت معاذ بن جبلؓ نے بطورِ خاص وفات کے وقت چار حضرات سے علم حاصل کرنے کی وصیت کی۔
حضرت ابو الدرداءؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت عبداللہ بن سلامؓ جنہوں نے یہودیت کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 343 جلد، 2)
امام المغازی محمد بن اسحاقؒ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپس میں کہا کرتے تھے:
أتبعنا للعلم والعمل أبوالدرداءؓ۔
ترجمہ: کہ ہم لوگوں میں سے سب سے بڑے عالم باعمل سیدنا ابو الدرداءؓ ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے تم لوگ ہمارے سامنے دو عقلمند شخص کی سند سے روایت بیان کیا کرو اور ان ہی دو عقلمندوں کی باتوں کو بھی ہمارے سامنے نقل کیا کرو۔ پوچھا گیا وہ دو عقلمند کون ہیں؟ جواب میں فرمایا سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو الدرداءؓ۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 350 جلد، 2 رجالہ ثقات)
امام المحدثین حضرت مکحول شامیؒ کا بیان ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپس میں تذکرہ کرتے تھے کہ ہم میں سب سے زیادہ ایک دوسرے پر رحم کرنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، ہم میں حق گو سیدنا عمرؓ ہیں، ہم میں سب سے بڑے امین حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ہیں، ہم میں حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم سیدنا معاذ بن جبلؓ ہیں اور ہم میں سب سے اچھے قاری قرآن حضرت اُبی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ایک ایسا آدمی جس کے پاس علم ہی علم ہے وہ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ ہیں 
وتبعہم عویمر أبوالدرداءؓ بالعقل۔
ترجمہ: عقل و فہم میں ان حضرات کے بعد حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا درجہ ہے۔
مسروقؒ کہتے ہیں کہ میں نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا علم چھ حضرات کے پاس پایا حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت أبی بن کعبؓ، حضرت زیدؓ، حضرت ابوالدرداءؓ اور حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ پھر ان سارے حضرات کا علم حضرت علیؓ و حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس جمع ہو گیا۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 351 جلد، 2 إسنادہ صحیح)
معلم و قاضی بنا کر دمشق بھیجا جانا:
سیدنا یزید بن أبی سفیان رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے پاس یہ خط لکھا کہ دن بہ دن اہلِ شام کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، جس سے پورا ملکِ شام آبادیوں سے کھچا کھچ بھر چکا ہے، جس کی بناء پر قرآن و حدیث اور دینِ اسلام کی تعلیم دینے والے معلمین و مدرسین کی اشد ضرورت ہے، لہٰذا حضرت والا سے درخواست ہے کہ کچھ ایسے رجال کار روانہ فرمائیں جو قرآن و حدیث اور دینِ اسلام کی صحیح تعلیم دے سکیں۔
یہ خط ملتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پانچ کبارِ علماء سیدنا ابو ایوب انصاریؓ، سیدنا ابی بن کعبؓ، سیدنا معاذ بن جبلؓ، سیدنا عبادۃ بن صامتؓ اور سیدنا ابو الدرداءؓ کو طلب فرمایا یہ حضرات دربارِ عمریؓ میں حاضر ہوئے، تو ان حضرات کو مخاطب کرکے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا یزید بن ابی سفیانؓ کا خط پڑھ کر سنایا اور فرمایا آپؓ میں سے کوئی تین شخص آپسی رضا مندی سے اس منصب کو قبول کرکے اس مہم کے لیے روانہ ہو جائیں۔
ان حضرات نے بیک زبان ہو کر جواب دیا ہم لوگ اس مہم کے لیے آپس میں قرعہ اندازی نہیں کرتے، بلکہ خود سے ہی دو حضرات کو اس مہم کے لیے معذور سمجھتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ زیادہ ضعیف اور بوڑھے ہو چکے ہیں اور سیدنا ابی بن کعبؓ مسلسل بیمار رہتے ہیں، جس کی بناء پر یہ دونوں حضرات معذور ہیں، رہ گئے تین حضرات، تو یہ اس مہم کے لیے روانہ ہو جائیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان حضرات کی پیش کش کو بسر و چشم قبول کرنے کے بعد فرمایا سب سے پہلے آپ لوگ حمص جائیے کیونکہ وہاں کے لوگ مختلف مزاج اور مختلف طور و طریق کے ہیں، ان میں سے ایک ذہین و عقلمند شخص کو تلاش کیجئے۔ جب دستیاب ہو جائے تو اس کے ذریعہ سے تمام لوگوں کو جمع کیجئے اور لوگوں کو خوب جانچ کر دیکھئے، جب اہلِ حمص سے پورے طور پر مطمئن ہو جائیں تو اپنے تین ساتھیوں میں سے جسے مناسب سمجھیے اسے وہاں چھوڑ دیجئے، پھر دوسرا ساتھی دمشق کے لیے روانہ ہو جائے اور تیسرا ساتھی فلسطین کے لیے روانہ ہو جائے۔
یہ تینوں حضراتؓ سیدنا عمرؓ کے مشورے کو بسر و چشم قبول کر کے مدینہ منورہ زادہا اللہ شرفۃ وعظمۃ کو چھوڑ کر روانہ ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق اہلِ حمص سے پورے طور پر مطمئن ہونے کے بعد وہاں کے لیے سیدنا عبادۃ بن صامتؓ کو منتخب فرمایا اور حضرت ابو الدرداءؓ دمشق کے لیے روانہ ہو گئے اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فلسطین کے لیے روانہ ہو گئے اور فلسطین ہی میں طاعونِ عمواس میں وفات پائی۔ ان کے خلاء کو پُر کرنے کے لیے حضرت عبادۃ بن صامتؓ حمص سے فلسطین تشریف لے آئے اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ زندگی کی آخری سانس تک دمشق ہی میں رہے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 356/357 جلد، 2)
(سیرأعلام النبلاء: صفحہ، 244 جلد، 2)
حضرت عمرؓ نے سیدنا ابو الدرداءؓ کو دمشق کا معلم و مدرس بنا کر بھیجا تھا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں انہیں دمشق کا قاضی مقرر کر دیا
علامہ ذہبیؒ ان کے تذکرہ میں رقم طراز ہیں:
وکان عالم أہل الشام ومقرئ أہل دمشق وفقیہہم و قاضیہم۔
ترجمہ: وہ اہلِ شام کے عالم، اہلِ دمشق کے مقری و قاری ان کے فقیہ و قاضی تھے۔
(تذکرۃ الحفاظ: صفحہ، 24 جلد، 1)
حضرت ابوالدرداءؓ کا مدرسہ:
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے دمشق پہنچ کر جامعِ دمشق میں اپنا مدرسہ قائم کیا۔ روزانہ نمازِ فجر کے بعد جامعِ دمشق میں بیٹھ جاتے اور قرآن کریم کا ایک جزء تلاوت کیا کرتے تھے، تمام طلبہ کرام قرآن کریم پڑھنے کے لیے ان کو گھیر لیا کرتے تھے اور ان کے قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی بغور سنتے تھے، پھر آپس میں دس دس ساتھی تقسیم ہو کر تلاوت کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کرتے تھے، ان طلبہ کرام کے عریف و ترجمان ابنِ عامر تھے، ایک دن حضرت ابو الدرداءؓ نے اپنے مدرسہ کے طلبہ کرام کو شمار کرایا۔
فجاؤا الفا وست مائۃ ونیفاً۔
ترجمہ: تو ان کی تعداد سولہ سو سے کچھ زائد ہوئی۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 346 جلد، 2 رجالہ ثقات)
ابو مالکؒ کا بیان ہے کہ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نماز سے فراغت کے بعد طلبہ کرام کو درس دینے کے لیے بیٹھ جاتے، خود بھی پڑھتے اور طلبہ سے بھی پڑھوایا کرتے تھے، جب مجلسِ درس سے اٹھنا چاہتے تو شاگردوں سے دریافت کرتے کہ آج کسی کے یہاں سے ولیمہ یا عقیقہ وغیرہ کی دعوت تو نہیں آئی ہے کہ جہاں ہم لوگوں کی شرکت ضروری ہو؟ اگر وہ لوگ جواب دیتے ہاں! تو پھر دعوت میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے ورنہ فرماتے۔
اللّٰہم إنی أشہدک أني صائم۔
اے اللہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 346 جلد، 2)
ایک حدیث معلوم کرنے کی غرض سے ایک طالب علم مدینہ منورہ سے سفر کر کے سیدنا ابو الدرداءؓ کی خدمت میں دمشق آیا۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا تم یہاں کسی ضرورت سے یا تجارت کی غرض سے آئے ہو؟ اس نے کہا میں صرف ایک حدیث شریف آپؓ کی زبانِ مبارک سے سننے کے واسطے آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت ابو الدرداءؓ نے فرمایا تم خوش ہو جاؤ، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ طلبِ علم میں نکلتا ہے تو فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں اور وہ جنت کے راستے طے کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے لیے زمین و آسمان والے دعاء مغفرت کرتے ہیں حتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں دعا کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی تمام ستاروں پر، اہلِ علم انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں، جو شخص علم حاصل کرے بڑا حصہ پائے گا۔
(جامع ترمذي شریف: صفحہ، 97 جلد، 2)
حضرت ابوالدرداءؓ قرآن، حدیث، فقہ، فرائض حساب اور اشعارِ عرب کے جامع عالم و معلم تھے اور ان علوم کا درس دیتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن سعید رضی اللہ عنہ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں!
رأیت أباالدرداءؓ دخل المسجد مسجد النبيﷺ ومعہ من الأ تباع مثل مایکون مع السلطان، فمن سائل عن فریضۃ، ومن سائل عن حساب، ومن سائل عن شعر، ومن سائل عن حدیث، ومن سائل عن معضلۃ۔
ترجمہ: میں نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا کہ وہ مسجدِ نبویﷺ میں داخل ہو رہے تھے اور ان کے متبعین ان کے ساتھ یوں چل رہے تھے جیسے بادشاہ کے ساتھ حشم و خدم ہوتے ہیں، ان میں کوئی فریضہ کا سوال کرتا، کوئی حساب پوچھتا تھا کوئی شعر کی معلومات حاصل کرتا تھا، کوئی حدیث معلوم کرتا تھا، کوئی مشکل مسائل کا حل پوچھتا تھا۔
(کتاب الجرح والتعدیل: صفحہ، 27 جلد، 3 قسم، 2)
دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح سیدنا ابو الدرداءؓ بھی احادیثِ رسول اللہﷺ کے بیان کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ حدیثِ رسولﷺ بیان کرتے وقت یہ کہتے
اللّٰہم إن لاہکذا، وإلاّ فکشکلہِ۔
ترجمہ: اے اللہ اگر اس طرح نہیں ہے تو اسی کے مثل و مانند ہے۔
سیدہ ام الدرداءؓ کا بیان ہے کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ حدیث شریف بیان کرتے وقت مسکراتے تھے۔ میں نے کہا! سارے لوگ آپؓ کو بے وقوف سمجھیں گے۔ تو فرمانے لگے
کان رسول اللہﷺ لایحدث بحدیث إلا تبسم۔
ترجمہ: کہ رسول اللہﷺ زبانِ مبارک سے جو بھی ارشادِ عالی بیان فرماتے تو مسکرائے بغیر نہیں رہتے تھے۔
(مسند أحمد: صفحہ، 199 جلد، 5)
شاگردوں میں جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین:
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک لمبی فہرست ہے ناقدِ حدیث علامہ شمس الدین ذہبیؒ نے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسماء گرامی ذکر کئے ہیں حضرت أنس بن مالک، حضرت فضالۃ بن عبیدؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ اور حضرت ابو أمامہؓ اور خود حضرت ابو الدرداءؓ کے اساتذہ میں صرف نبی اکرمﷺ کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ذہبیؒ رقم طراز ہیں۔
ولم یبلغنا أبداً أنہ قرأ علی غیر النبيﷺ 
ترجمہ: کہ ہمارے مبلغِ علم میں یہی ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے علاؤہ کسی سے بھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 336 جلد، 2)
احادیث کی تعداد:
علامہ ذہبیؒ نے مجموعۂ ذخیرۂ احادیث میں ان کی سند سے روایت کی جانے والی احادیث کی تعداد 179 تحریر کی ہے، جن میں سے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں صرف دو حدیثیں ہیں اور صرف صحیح بخاری میں تین حدیثیں ہیں اور صحیح مسلم میں آٹھ حدیثیں ہیں بقیہ دیگر کتبِ احادیث میں ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 336 جلد، 2)
دنیا سے بے رغبتی:
پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو الدرداءؓ کے درمیان مواخات کرا کے بھائی بھائی بنا دیا تھا تو سیدنا سلمانؓ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی ملاقات کو گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی بیوی محترمہ سیدہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں۔
زوجتہ أم الدرداءؓ العالمۃ
ترجمہ: کہ ان کی بیوی محترمہ سیدہ ام الدرداءؓ عالمہ تھیں۔
(سیرأعلام النبلاء: صفحہ، 336 جلد، 2)
یہ بھی اپنے شوہر کی طرح بہت نیک پارسا تھیں۔ ایک مرتبہ یہ دعا کی، اے اللہ! سیدنا ابو الدرداءؓ نے مجھے اس دنیا میں پیغامِ نکاح دیا اور مجھ سے شادی کی ہے۔ اے اللہ! اب میں انہیں آپ کے واسطہ سے پیغامِ نکاح دیتی ہوں اور آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ جنت میں انہیں میرا شوہر بنا دیجیؤ۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے یہ دعا سن کر فرمایا اگر تو واقعتاً ایسا ہی چاہتی ہے تو میری وفات کے بعد کسی سے شادی مت کرنا، تا کہ میں ہی اس دنیا میں تمہارا پہلا اور آخری شوہر رہوں۔ جب حضرت ابو الدرداءؓ کا انتقال ہو گیا تو سیدہ ام الدرداءؓ کے حسن و جمال اور ان کے تقویٰ و طہارت کو دیکھ کر شام کے گورنر سیدنا امیر معاویہؓ نے انہیں پیغامِ نکاح دیا۔ تو انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اللہ کی قسم! میں دنیا میں کسی سے شادی نہیں کروں گی بلکہ انشاء اللہ جنت میں حضرت ابو الدرداءؓ سے شادی کروں گی۔
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 224/225 جلد، 2)
میلے کچیلے کپڑے پہنی ہوئی ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیوں بھاوج کیا حال ہے؟ انہوں نے جواب دیا تمہارے بھائی سیدنا ابو الدرداءؓ میں دنیاداری اور دنیا کی بالکل رغبت نہ رہی، اتنے میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ آ گئے، جلدی سے سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے کھانا تیار کیا اور ان سے کہنے لگے آپؓ کھائیے، میں روزہ سے ہوں۔ حضرت سلمانؓ نے فرمایا میں نے تو نہیں کھانا جب تک تم بھی نہیں کھاتے۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے روزہ توڑ ڈالا اور کھانے میں شریک ہو گئے۔ جب رات ہوئی تو سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے لگے، سیدنا سلمانؓ نے فرمایا ابھی سو جائیے۔ وہ سو رہے، پھر اٹھنے لگے تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دوبارہ سونے کے لیے کہا، وہ سو گئے، جب اخیر رات ہوئی تو حضرت سلمانؓ نے فرمایا اب اٹھیے! خیر دونوں نے تہجد کی نماز پڑھی، پھر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا بھائی صاحب! آپؓ کے پروردگارِ کا آپؓ پر حق ہے، آپؓ کی جان کا بھی آپؓ پر حق ہے اور آپؓ کی بیوی کا بھی آپؓ پر حق ہے، تو ہر ایک حق والے کا حق ادا کریں۔ حضرت ابو الدرداءؓ یہ سن کر نبی اکرمﷺ کی خدمتِ اقدس میں سیدھے حاضر ہوئے اور آپﷺ سے ذکر کیا۔ آپﷺ نے حضرت سلمانؓ کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایاصدق سلمانؓ سلمان سچ کہتا ہے۔
(صحیح بخاري شریف: صفحہ، 906 جلد، 2 حدیث نمبر، 6139)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بعثتِ نبویﷺ سے پہلے میں تاجر تھا۔ جب اسلام آیا تو میں نے اپنی زندگی میں تجارت و عبادت دونوں کو جمع کرلیا کہ تجارت بھی کرتا اور عبادت بھی کیا کرتا تھا لیکن یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہ ہو سکے کہ تجارت بھی کی جائے اور عبادت بھی کی جائے اور یہ کیسے دونوں ایک ساتھ جمع ہو سکتے؟ لہٰذا میں نے تجارت چھوڑ دی اور عبادت کو لازم پکڑ لیا۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 391 جلد، 7)
(مجمع الزوائد: صفحہ، 367 جلد، 9)
(وقال: رواہ الطبرانی و رجالہ رجال الصحیح)
علامہ شمس الدین ذہبیؒ رقم طراز ہیں کہ یہی صوفیاء کرام و بوریہ نشین حضرات کا طریقہ ہے، لیکن بہتر اور افضل یہی ہے کہ تجارت و عبادت دونوں اپنے اپنے اوقات میں ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں لوگوں کے مزاج اور حالتیں مختلف ہیں، بعض دونوں کو بحسنِ خوبی انجام دے لیتے ہیں، جیسے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد عبداللہ بن مبارکؒ ہیں۔ بعض دونوں کے جمع کرنے سے عاجز رہ جاتے ہیں تو وہ عبادت پر اکتفاء کرتے ہیں، بعض شروع میں خوب اچھی طرح تجارت کرتے رہتے ہیں لیکن عبادت الہٰی میں منہمک ہونے کی وجہ سے تجارت چھوڑ بیٹھتے ہیں اور بعض لوگ اس کے برعکس ہیں بہرحال شریعت میں ہرچیز کی گنجائش ہے
ولکن لابد من النہضۃ بحقوق الزوجۃ والعیال۔
ترجمہ: البتہ بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے تجارت وغیرہ کے ذریعہ کچھ مال حاصل کرنا ضروری ہے، تا کہ بیوی و بچوں کی زندگی صحیح گزر سکے۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 338 جلد، 2)
عبادت اور خشیتِ الٰہی:
عون بن عبداللہؒ کا بیان ہے کہ میں نے سیدہ ام الدرداءؓ سے معلوم کیا کہ سیدنا ابو الدرداءؓ کس عبادت کا زیادہ اہتمام کرتے تھے؟ جواب دیا
 التفکر والاعتبار۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور و فکر اور تدبر کرنے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں۔
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 208 جلد، 1)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
تفکر ساعۃ خیرمن قیام لیلۃ
ایک ساعت، ایک گھڑی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور و فکر کرنا رات بھر تہجد کی نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
(طبقات ابن سعد: صفحہ، 392 جلد، 7)
(الحلیۃ: صفحہ، 209 جلد، 1)
ایک مرتبہ سیدنا ابو الدرداءؓ سے سوال کیا گیا کہ دن بھر میں کتنی تسبیحات پڑھ لیتے ہیں؟ جواب دیا 
مائۃ ألف ایک لاکھ مرتبہ تسبیح پڑھ لیتا ہوں الا یہ کہ میری انگلیاں شمار کرنے میں خطا کر جائیں۔
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ، 348 جلد، 2)
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے اگر مجھے تین چیزیں میسر نہ ہوتیں تو میں ہرگز زندہ رہنا پسند نہیں کرتا۔
1: روزہ کی حالت میں دوپہر کے وقت سخت پیاس کا لگنا۔
2: رات کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ کرنا۔
3: مجالسۃ اقوام ینتقون جید الکلام کما ینتقی أطایب الثمر
ترجمہ: ایسے لوگوں کی صحبت و ہم نشینی ہمیں حاصل ہونا جو عمدہ کھجوروں کے لینے کی طرح اچھے کلام کو لیتے ہیں۔
(سیر أعلام النبلاء: صفحہ، 349 جلد، 2)
حضرت ابو الدرداءؓ کا بیان ہے کہ تین ایسی چیزوں کو میں محبوب رکھتا ہوں کہ جنہیں عام طور پر لوگ ناپسند کرتے ہیں۔
1:فقیری و تنگدستی
 اسی کی وجہ سے میں اپنے آپ کو رب کے سامنے عاجز و ہیچ سمجھتا ہوں۔
2: بیماری
اس وجہ سے کہ بیماری میرے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے۔
3: موت
کہ اسی راستہ سے اپنے رب کی ملاقات و زیارت کے شوق کو پورا کر سکتا ہوں۔
(طبقات ابن سعد: صفحہ، 392 جلد، 7)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی ایک آنکھ میں اس قدر تکلیف ہوئی کہ اس آنکھ کی روشنی جاتی رہی۔ ان سے کہا گیا آپ نے اللہ تعالیٰ سے اس کی شفاء کے لیے کیوں نہیں دعاء کی؟ جواب میں فرمایا اللہ کے بندے مجھے دعائے مغفرت سے فرصت ہی نہیں کہ میں اپنی آنکھ کی شفاء کے لیے دعاء کر سکوں۔
(سیر أعلام النبلاء: صفحہ، 349 جلد، 2)
سیدہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو الدرداءؓ کے پاس 360 دینی دوستوں کے ناموں کی فہرست تھی ہر نماز میں ان لوگوں کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ اس کی وجہ دریافت کی، تو بولے، کوئی بھی شخص اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعاء کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس پر دو فرشتے مقرر فرما دیتے ہیں جو اس کی دعاء کے جواب میں ولک بمثل تمہارے لیے بھی ایسا ہی ہو
(کہ جو دعاء وہ اپنے دینی بھائی کے لیے کر رہا ہے وہی تمہارے لیے بھی ہو) کہتے ہیں۔ تو آخر کیوں میں اپنے حق میں فرشتوں کی دعاؤں سے محروم رہوں۔
(سیرأعلام النبلاء: صفحہ، 351 جلد، 2)
سیدنا ابوالدرداءؓ فرماتے ہیں مجھے سب سے زیادہ حساب کے دن کا خوف ہے کہ جس دن سارے لوگوں کے سامنے مجھ سے حساب لیا جائے گا اور یہ سوال کیا جائے گا، بتا! تو نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بیمار پڑے، ان کے ساتھی عیادت کے لیے آئے اور کہنے لگے کیا حال ہے اور کونسی بیماری ہے؟ فرمایا مجھے اپنے گناہوں کا شکوہ ہے، میری سب سے بڑی بیماری میرے گناہ و سیئات ہیں۔ پھر ساتھیوں نے دریافت کیا آپؓ کی کیا خواہش ہے؟ بولے! بس میری خواہش جنت ہے۔ پھر ساتھیوں نے کہا حکم ہو تو ڈاکٹر بلا لیں؟ جواب میں فرمایا رہنے دو! بس ڈاکٹروں نے ہی مجھے صاحبِ فراش بنا دیا ہے۔
(الحلیۃ الأولیاء: صفحہ، 218 جلد، 2)
ملکِ شام کے گورنر حضرت امیر معاویہؓ کے لڑکے سیدنا یزید بن معاویہؓ نے سیدنا ابو الدرداءؓ کے پاس پیغامِ نکاح بھیجا کہ آپؓ اپنی صاحبزادی سیدہ الدرداءؓ کا نکاح مجھ سے کر دیں، حضرت ابو الدرداءؓ نے پیغامِ نکاح پاتے ہی اسے مسترد کر دیا۔ مگر جب ایک ضعیف، کمزور ناتواں مسلمان شخص نے پیغامِ نکاح دیا تو اسے بسر و چشم قبول کر کے اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کر دی۔
جب یزید کے پیغام کے مسترد کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو جواب میں فرمایا سیدہ درداءؓ کے سارے احوال میرے سامنے ہیں، تم لوگ ذرا یہ بتلاؤ جب حضرت درداء رضی اللہ عنہا یزید کے گھر جائے گی، وہاں کی چمک دمک، عیش و عشرت اور وہ ساری بہاریں دیکھے گی تو اس کا اور اس کے دین کا اس وقت کیا حال ہو گا!
(الحلیۃ: صفحہ، 215 جلد، 1)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے نصیحت آموز اور حکیمانہ بیانات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خاص طور سے 
(تاریخِ ابنِ عساکر: جلد، 1 صفحہ، 213/366، جلد، 2 صفحہ، 13/393)
(حلیۃالأولیاء: جلد، 1 صفحہ، 208/227) اور (سیر اعلام النبلاء: جلد، 2 صفحہ، 335/353)
میں ان کی حکیمانہ نصیحتیں کثرت سے ہیں ان کی چند حکیمانہ نصیحتیں یہاں ذکر کی جا رہی ہیں جن کا تعلق ہم طلبہ علوم اسلامیہ سے ہے۔
سیدنا ابو الدرداءؓ ہمیشہ لوگوں کو علومِ اسلامیہ کے حاصل کرنے پر ابھارا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے اے لوگو! آئے دن علماء کرام کی جماعتیں ختم ہوتی چلی جا رہی ہیں اور جاہلوں کی جماعتوں میں خوب تر اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے، ان جاہلوں کو علمِ دین حاصل کرنے کا ذرہ برابر شوق ہی نہیں ہے سنو! عالم اور متعلم طالبِ علم اور مدرس دونوں اجر و ثواب میں ایک دوسرے کے سہیم و شریک ہیں۔
(تاریخ ابنِ عساکر:جلد، 2 صفحہ، 13/375، بحوالہ سیر أعلام النبلاء: جلد، 2 صفحہ، 349)
علمِ دین حاصل نہ کرنے والوں اور جاہل بن کر بیٹھنے والوں کے لیے ہلاکت و بربادی ہے اور جو علمِ دین حاصل کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے تو ان کے لیے اور زیادہ ہلاکت و بربادی ہے۔ اس آخری جملہ کو سات مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔
(تاریخ ابنِ عساکر: جلد، 2 صفحہ، 13/377 بحوالہ سیر أعلام النبلاء: جلد، 2 صفحہ، 350)
یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بد ترین وہ بے عمل عالم ہو گا۔
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 223 جلد، 1)
سیدنا ابوالدرداءؓ سے ایک شخص نے نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے جامع و بلیغ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کو خوشحالی میں یاد کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں تنگدستی و غربت میں یاد کریں گے۔ جب تم مُردوں کا ذکر کیا کرو تو ان ہی مُردوں میں اپنے آپ کو شمار کر لیا کرو۔ جب دنیا کی کسی چیز پر تمہارا دل آجائے تو فوراً اس کے انجام و نتیجہ پر غور کر لیا کرو۔
(تاریخ ابنِ عساکر: صفحہ، 13/381 جلد، 1 بحوالہ سیر أعلام النبلاء: صفحہ، 350 جلد، 2)
اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ مظلوموں کی بد دعا سے بچو، یہ جان لو کہ تھوڑا مال تمہارے پیٹ کو بھر دے یہ زیادہ بہتر ہے کہ زیادہ مال تمہیں دین سے غافل کر دے۔ نیکی و بھلائی کے کام ضائع نہیں ہوتے۔ گناہوں سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہیے۔ جب بھی شیطانی بہکاوے اور خواہشاتِ نفسانی کی بناء پر کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لو۔
(تاریخ ابنِ عساکر: صفحہ، 13/286 جلد، 1، بحوالہ سیر أعلام النبلاء: صفحہ، 305 جلد، 2)
وفات:
صحیح قول کی بناء پر ان کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت 32 ہجری میں ہوئی۔ (طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 393 جلد، 2 سیر أعلام النبلاء: صفحہ، 353 جلد، 2 الإصابۃ:صفحہ، 45 جلد، 3)