خاندان نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
علامہ زاہد الراشدیخاندانِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے، ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں دو سلسلے چلے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا لقب اسرائیل تھا جو کہ عبرانی زبان میں عبد اللہ کو کہتے ہیں یعنی اللہ کا بندہ حضرت اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں تقریباً تین ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے صرف ایک ہی پیغمبر ہوئے جو کہ جناب محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے قریش کا خاندان تھا جس کی ایک شاخ بنو ہاشم خاندان کی تھی، اس بنو ہاشم خاندان میں حضورؐ مبعوث ہوئے۔
نبی کریمﷺ کے والدین:
حضرت عبد اللہؓ اور حضرت آمنہؓ جناب نبی کریمﷺ کے والدین تھے، حضورﷺ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپﷺ کے والد محترم، جناب عبداللہ کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ ننھال سے آپﷺ کا تعلق بنو نجار سے تھا جو کہ یثرب شہر کا ایک قبیلہ تھا۔ یثرب اب مدینہ منورہ کہلاتا ہے۔ والد محترم عبداللہ حضورﷺ کی ولادت سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے، آپؐ غالباً پانچ یا چھ سال کے تھے جب آپﷺ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا۔ آپﷺ نے بنو سعد کی ایک خاتون سیدہ حلیمہ سعدیہؓ کا دودھ پیا جن کے خاوند سیدنا ابو کبشۃؓ کے نام سے معروف ہیں۔ انہی کی وجہ سے قریش کے بعض سردار طنز کے طور پر جناب نبی کریمﷺ کو ابنِ ابی کبشۃ کہا کرتے تھے۔ جب قیصرِ روم کے دربار میں سیدنا ابوسفیانؓ پیش ہوئے اور قیصرِ روم کے ساتھ رسول اللہﷺ کے بارے میں بات ہوئی تو سیدنا ابوسفیانؓ نے دیکھا کہ قیصرِ روم نے رسول اللہﷺ اور ان کے خط کو بہت اہمیت دی، گفتگو سے فارغ ہو کر باہر آئے تو سیدنا ابوسفیانؓ نے کہا أمر أمر ابنِ کبشۃ کہ ابو کبشۃ کے بیٹے کی بات تو بہت بڑی ہوگئی ہے۔
سیدنا ابو کبشۃؓ اور سیدہ سعدیہ حلیمہؓ حضورﷺ کے رضاعی ماں باپ تھے، دونوں مسلمان ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے آخر وقت تک ان کا خیال رکھا اور یہ دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شمار ہوتے ہیں۔ جناب نبی کریمﷺ کی کوئی حقیقی بہن یا بھائی نہیں تھا۔ غزوۂ حنین کی لڑائی کے بعد ایک خاتون سیدہ شیماءؓ نے آپﷺ کی رضاعی بہن ہونے کا دعویٰ کیا اور آپﷺ کو بچپن کے واقعات یاد دلائے تو حضورﷺ نے اس خاتون کے رضاعی بہن ہونے کی تصدیق کی اور اسے اکرام کے ساتھ تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔
نبی کریمﷺ کی ازواج:
جناب رسول اللہﷺ کی ازواج میں نکاح کی ترتیب کے لحاظ سے سیدہ خدیجہؓ، سیدہ سودہؓ، سیدہ عائشہؓ، سیدہ حفصہؓ، سیدہ زینب امُ المساکینؓ، سیدہ امِ سلمہؓ، سیدہ زینب بنتِ جحشؓ ، سیدہ جویریہؓ، سیدہ امِ حبیبہؓ، سیدہ میمونہؓ اور سیدہ صفیہؓ کے نام آتے ہیں۔رسول اللہﷺ کی کل 11 بیویاں تھیں جبکہ بیک وقت 9 تھیں۔ آنحضرتﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں آپﷺ کی دو بیویاں فوت ہوئیں، ایک سیدہ خدیجہؓ اور دوسری سیدہ زینب ام المساکینؓ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا:
آپﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہؓ قریش کی بڑی باعزت خاتون تھیں۔ وہ ایک تجارت پیشہ اور مالدار خاتون تھیں۔ جب حضورﷺ کا سیدہ خدیجہؓ کے ساتھ نکاح ہوا تو آپﷺ پچیس برس کے جب کہ سیدہ خدیجہؓ چالیس برس کی تھیں۔ یہ رسول اللہﷺ کا پہلا نکاح تھا جب کہ سیدہ خدیجہؓ اس سے پہلے بیوہ ہو چکی تھیں۔ حضورﷺ کا سیدہ خدیجہؓ کے ساتھ یہ نکاح پچیس برس تک قائم رہا۔ ان پچیس سال کے دوران سیدہ خدیجہؓ تنہا حضورﷺ کے نکاح میں رہیں۔ سیدہ خدیجہؓ کے انتقال کے وقت جناب نبی کریمﷺ کی عمر پچاس برس تھی۔ اپنی عمر کے پچیس سے پچاس سال کے عرصے تک حضورﷺ نے اور کوئی شادی نہیں کی، سیدہ خدیجہؓ حضورﷺ کی سب سے لمبی مدت کی بیوی تھیں۔ نبی کریمﷺ آخرت وقت تک سیدہ خدیجہؓ کو یاد کرتے تھے اور ان کا تذکرہ فرماتے تھے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے کبھی کسی پر رشک نہیں آیا سوائے سیدہ خدیجہؓ کے، جب بھی کوئی بات ہوتی تو آپﷺ فرماتے کہ سیدہ خدیجہؓ یوں کیا کرتی تھی۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضورﷺ نے کسی بات پر سیدہ خدیجہؓ کا نام لیا تو میں بول پڑی کہ یارسول اللہﷺ آپ کیا اس بڑھیا کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ان سے اچھی عورتیں دی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے اس پر سیدہ خدیجہؓ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا کہ خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے، اس نے مجھ پر اپنا مال بھی خرچ کیا اور مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔
سیدہ خدیجہؓ اور حضورﷺ کے چچا ابوطالب کی وفات قریب قریب ہوئی۔ گھر میں سب سے زیادہ حضورﷺ کا ساتھ دینے والی سیدہ خدیجہؓ تھیں جب کہ گھر سے باہر خاندان میں سب سے زیادہ محافظ اور مددگار جناب ابوطالب تھے۔ ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انہوں نے چچا ہونے کے ناطے سے چچا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ ابوطالب رسول اللہﷺ کے ساتھ شعب ابوطالب میں بھی محصور رہے۔ جناب ابوطالب کی زندگی میں کسی کو حضورﷺ کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی، جسے بھی کوئی شکایت ہوتی تو وہ ابوطالب سے کرتا تھا کہ اپنے بھتیجے سے یہ بات کرو، اپنے بھتیجے کو یہ سمجھاؤ۔ ابوطالب کی شخصیت کا ایک رعب اور مقام تھا۔ جس سال یکے بعد دیگرے جناب ابوطالب اور سیدہ خدیجہؓ کا انتقال ہوا تو وہ سال حضورﷺ کے لیے بہت پریشانی کا تھا کہ عالم اسباب میں جو دو بڑے سہارے تھے، دونوں ختم ہوگئے۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے اسے عام الحزن قرار دیا کہ یہ میرا غم کا سال ہے۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا:
سیدہ خدیجہؓ کے انتقال کے بعد قریش ہی کی ایک خاتون سیدہ سودہ بنت زمعہؓ سے حضورﷺ کا نکاح ہوا۔ یہ بھی ایک بیوہ خاتون تھیں اور حضورﷺ کے مکی دور میں ہی اسلام قبول کر چکی تھیں۔ سیدہ سودہؓ جسمانی ساخت کے لحاظ سے اونچی لمبی اور بھاری تھیں۔ ان کی تاریخِ وفات کے متعلق اختلاف ہے، عام خیال یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت کے آخری عرصے میں وفات پائی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:
سیدہ عائشہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی تھیں اور ازواجِ مطہراتؓ میں نبی کریمﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ 9 سال کی عمر میں رسول اللہﷺ کے عقد میں آئیں اور آپﷺ کے وصال کے وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ سیدہ عائشہؓ سے نبی کریمﷺ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ سیدہ عائشہؓ ایک ذہین، فصیح اللسان اور سخی خاتون تھیں، ان کا علمی مقام یہ تھا کہ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں نہ صرف فتویٰ دیا کرتی تھیں بلکہ دوسرے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتووں پر نقد کیا کرتی تھیں۔ سیدہ عائشہؓ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ حضورﷺ کے وصال کے بعد ایک دفعہ کسی نے انہیں ایک لاکھ درہم ہدیہ بھیجا جو انہوں نے شام ہونے سے پہلے پہلے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔ سیدہ عائشہ کی شاگرد سیدہ عمرہؓ اس کے متعلق بتاتی ہیں کہ ہم سب روزے سے تھے، سیدہ عائشہؓ نے یہ رقم تقسیم کرنا شروع کر دی کہ یہ برتن بھر کر فلاں کو دے آؤ اور یہ رقم فلاں کے گھر دے آؤ، سارا دن ہم یہی کام کرتے رہے۔ روزہ کھولنے سے کچھ وقت پہلے سیدہ عائشہؓ نے پوچھا کہ گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ میں نے سیدہ عائشہؓ کو بتایا کہ گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سیدہ عائشہؓ نے ناراضگی سے فرمایا کہ پہلے یاد کراتے تو میں افطاری کے لیے کچھ درہم رکھ لیتی، اب کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے پانی سے روزہ کھولو۔ سیدہ عائشہؓ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد تقریباً 45 سال تک زندہ رہیں۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا:
سیدہ حفصہؓ سیدنا عمر فاروقؓ کی بیٹی تھیں۔ ان کے خاوند سیدنا خنیسؓ غزوہِ بدر میں زخمی ہوئے اور بعد میں انہی زخموں کی وجہ سے شہید ہوئے۔ سیدہ حفصہؓ جب بیوہ ہوئیں تو سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے ان کے نکاح کے متعلق بات کی لیکن سیدنا ابوبکرؓ نے انہیں کوئی جواب نہ دیا ۔ یہ بات سیدنا عمرؓ کو بہت ناگوار گزری لیکن بعد میں جب سیدنا عمرؓ کو یہ بات پتہ چلی تو اطمینان ہوگیا کہ حضورﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ سے سیدہ حفصہؓ کے متعلق پہلے سے تذکرہ فرمایا ہوا تھا۔ چنانچہ 2ھ میں حضورﷺ کا سیدہ حفصہؓ سے نکاح ہوا۔ انہوں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے دور خلافت میں وفات پائی۔
حضرت زینب امُ المساکین رضی اللہ عنہا:
سیدہ زینبؓ کے خاوند سیدنا عبداللہ بن جحشؓ جنگِ اُحد میں شہید ہوئے تو حضورﷺ نے ان کے ساتھ نکاح کر لیا لیکن حضورﷺ کے ساتھ نکاح کے چند مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ سیدہ زینبؓ غرباء کو کھانا کھلانے اور مساکین کی مدد میں مشہور تھیں اس لیے انہیں ام المساکین کہا جاتا تھا۔ سیدہ خدیجہؓ کے بعد حضورﷺ کی صرف یہی زوجہ تھیں جو حضورﷺکی حیاتِ مبارکہ میں فوت ہوئیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
سیدہ امِ سلمہؓ کا اصل نام ہند تھا، ذہین اور دانشمند خاتون تھیں۔ ان کے خاوند سیدنا ابوسلمہؓ بھی غزوہِ احد میں شہید ہوئے، نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوسلمہؓ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد ان کی بہادری کی بہت تعریف کی۔ حضورﷺ نے خود سیدہ امِ سلمہؓ کو نکاح کا پیغام بھجوایا چنانچہ غزوہِ احد کے بعد نبی کریمﷺ سے ان کا نکاح ہوا۔ عام خیال یہ ہے کہ سیدہ امِ سلمہؓ کی وفات ازواجِ مطہراتؓ میں سب سے آخر میں ہوئی۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا:
سیدہ زینبؓ حضورﷺ کے منہ بولے بیٹے سیدنا زید بن حارثہؓ کی بیوی تھیں۔ انہوں نے سیدہ زینبؓ کو طلاق دے دی تو اللہ رب العزت نے ان کا نکاح جناب نبی اکرمﷺ کے ساتھ کرنے کا قرآنِ کریم میں اعلان کر دیا۔ سیدہ زینبؓ کے ساتھ حضورﷺ کے اس نکاح کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے جس پر سیدہ زینبؓ بہت فخر کیا کرتی تھیں۔ سیدہ زینبؓ حضورﷺ کے خاندان بنو ہاشم سے تھیں۔ محدثین ایک دلچسپ بات نقل کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا، میری ازواج میں سے میرے بعد سب سے پہلے میرے پاس وہ آئے گی جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہوگا۔ اس پر بعض ازواجِ مطہراتؓ نے یہ دیکھنے کے لیے اپنے ہاتھوں کی پیمائش کی کہ کس کا ہاتھ لمبا ہے۔ حالانکہ اس سے حضورﷺ کی مراد زیادہ سخاوت کرنے والی یا زیادہ خرچ کرنے والی کی تھی اور یہ بات ام المؤمنین سیدہ زینبؓ پر صادق آتی تھی۔ سیدہ زینبؓ بہت سخی اور بڑے دل والی خاتون تھیں جو ہاتھ میں آتا لوگوں پر خرچ کر دیتیں۔ چنانچہ حضورﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق آپﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلے سیدہ زینبؓ کی وفات ہوئی۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا:
غزوہِ بنو مصطلق میں بہت سے قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے جو لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ سیدہ جویریہؓ لڑائی میں شکست کھانے والے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں، وہ بھی قید ہو کر لونڈی بنیں اور سیدنا ثابت بن قیسؓ کے حصے میں آئیں۔ حضورﷺ نے سیدنا ثابت بن قیسؓ کو رقم ادا کر کے سیدہ جویریہؓ کو آزاد کرایا اور ان سے نکاح کر لیا۔ جب لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی سیدہ جویریہؓ کے قبیلے کے قیدیوں کو آزاد کرنا شروع کر دیا، یوں رسول اللہﷺ کے اس نکاح کی وجہ سے سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا سیدہ جویریہؓ کا انتقال سیدنا امیرِ معاویہؓ کی خلافت کے زمانے میں ہوا۔
حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا:
سیدہ امِ حبیبہؓ کے خاوند نے عیسائیت قبول کر لی تھی چنانچہ اسی وجہ سے ان کی اپنے خاوند سے علیحدگی ہوگئی۔ روایات میں آتا ہے کہ نجاشی حبشہ نے آپﷺ کا اور سیدہ ام حبیبہؓ کا نکاح پڑھایا۔ سیدہ ام حبیبہؓ کی وفات بھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا:
سیدہ میمونہؓ اپنے خاوند ابورہم کی وفات کے بعد رسول اللہﷺ کے عقد میں آئیں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورﷺ کے چچا سیدنا عباسؓ کی خواہش پر یہ نکاح ہوا۔ سیدنا عباسؓ نے ان کا نکاح پڑھایا جبکہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا:
سیدہ صفیہؓ غزوہِ خیبر میں قید ہو کر لونڈی بنیں، جناب رسول اللہﷺ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ سیدہ صفیہؓ کے والد اور بھائی غزوہِ خیبر میں مارے گئے تھے۔ حضورﷺ کو سیدہ صفیہؓ کے ساتھ بڑی الفت تھی اور حسبِ موقع ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔
نبی کریمﷺ کا گھریلو ماحول:
ازواجِ مطہراتؓ کے بارے میں جناب نبی کریمﷺ کا روزانہ کا معمول یہ تھا کہ آپﷺ عصر کی نماز کے بعد تمام ازواجِ مطہراتؓ کے حجروں میں باری باری جایا کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں آپﷺ کا قیام مسجدِ نبوی کے پیچھے حجروں میں تھا ایک حجرہ سیدہ عائشہؓ کا تھا جس میں اب حضور نبی کریمﷺ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی قبور ہیں جب کہ ایک قبر کی جگہ ابھی باقی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔ باقی ازواجِ مطہرات کے حجرے بھی ساتھ ساتھ تھے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اس لیے ان کو دوسرے انسانوں کی طرح موت نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی کریمﷺ کے امتی کی حیثیت سے دوبارہ دنیا میں بھیجیں گے۔ انسانوں میں سب سے لمبی عمر کے انسان حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر حضرت نوح علیہ السلام کو لمبی عمر کا انسان مانا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ لمبی عمر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے کہ ان کی اس وقت تقریباً دو ہزار سال عمر ہوگئی ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے اور حضرت امام مہدیؒ کے ساتھ مل کر دنیا میں اسلام کا غلبہ قائم کریں گے، ان کی شادی ہوگی، بچے ہوں گے، مدینہ منورہ میں ان کا انتقال ہوگا اور وہ میرے ساتھ قبر میں دفن ہوں گے۔ چنانچہ اس قبر کی جگہ اب بھی خالی ہے اور وہاں لکھا ہوا ہے کہ یہ قبر کی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔
جناب رسول اللہﷺ روزانہ عصر کے بعد باری باری ہر زوجہ کے حجرے میں جاتے تھے، سب سے حال احوال پوچھتے تھے اور ضروریات کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے۔ رات کس زوجہ کے پاس گزاری جائے، اس کے لیے آپﷺ نے باریاں مقرر کر رکھی تھی۔ حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی دعا میں کہا تھا کہ یا اللہ! جو میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں برابری کرتا ہوں، یعنی ازواج کے لیے خرچہ اور عطیات وغیرہ، لیکن جو میرے اختیار میں نہیں ہے یعنی دل کا رجحان اور میلان، اے اللہ اس میں میرا مواخذہ نہ کرنا۔ دلی معاملہ آپﷺ کا سیدہ عائشہؓ کے ساتھ زیادہ تھا جو کہ ایک فطری بات تھی، دل کے معاملات کسی کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ سیدہ عائشہؓ نوجوان، ذہین اور سمجھدار خاتون تھیں اور ازواجِ مطہراتؓ میں حضورﷺ کی سب سے زیادہ پسندیدہ تھیں۔ اور یہ بات بھی غیر فطری نہیں ہے کہ جہاں ایک سے زیادہ بیویاں بیک وقت ہوں وہاں آپس میں اختلاف کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ازواجِ مطہراتؓ کی بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نوک جھونک رہتی تھی، محدثین اس بارے میں بہت سے واقعات ذکر فرماتے ہیں۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی اور یہ امت کی تعلیم کا ایک اہتمام تھا کہ مختلف مزاج کی عورتیں حضورﷺ کے ساتھ مل جل کر رہیں، ان کی آپس میں معاصرت بھی ہو، نوک جھونک بھی ہو، لیکن اس سب کے باوجود ایک دائرے کی پابندی بھی ہو۔
ازواجِ مطہراتؓ میں سب سے زیادہ معاصرت سیدہ عائشہؓ اور سیدہ زینبؓ کے درمیان تھی۔ کبھی کبھی بات سخت بھی ہو جاتی تھی، دونوں حسبِ موقع ایک دوسرے پر فخر بھی جتلایا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر سیدہ زینبؓ فرمایا کرتی تھیں کہ میرا قرآنِ کریم میں ذکر ہے:
فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآئِهِمۡ الخ۔
(سورۃ الاحزاب: آیت، 37)
ترجمہ: کہ پھر جب سیدنا زیدؓ اس (سیدہ زینبؓ) سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے آپ سے اس کا نکاح کر دیا تا کہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو۔ سیدہ زینبؓ دوسری ازواجِ مطہراتؓ سے فرمایا کرتی تھیں کہ تم سب کا نکاح زمین پر ہوا جب کہ میرا نکاح آسمانوں پر ہوا۔ تم میں سے کسی کے نکاح کا ذکر قرآنِ کریم میں نہیں ہے لیکن میرے نکاح کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سب ازواج اکٹھی ہوئیں کہ حضورﷺ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اس کے لیے انہوں نے آپس میں فیصلہ کر کے سیدہ زینبؓ متکلم بنایا۔ سیدہ زینبؓ نے لمبی گفتگو کی کہ یا رسول اللہﷺ ازواجِ مطہراتؓ کو سیدہ عائشہؓ کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں وغیرہ۔ جب سیدہ زینبؓ بات مکمل کر چکیں تو سیدہ عائشہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ مجھے بھی اجازت ہے کہ میں کچھ بات کروں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں تمہارا بھی حق ہے۔ سیدہ عائشہؓ بہت فصیح اللسان تھیں ان کی فصاحت اپنے زمانے میں ضرب المثل تھی۔ جب سیدہ عائشہؓ نے گفتگو شروع کی تو سب ازواج خاموش ہوگئیں حضورﷺ نے آخر میں ایک ہی جملہ فرمایا کہ آخر سیدنا ابوبکرؓ کی بیٹی ہے، یعنی باقی ازواج سے کہا کہ اب بولو سیدہ عائشہؓ کے سامنے۔ چنانچہ اس قسم کی باتیں ازواجِ مطہراتؓ میں آپس میں معاصرت کی ہو جایا کرتی تھیں۔
یہ فطری بات ہے کہ ایک خاوند کی زیادہ بیویاں ہوں تو ان کا آپس میں کسی نہ کسی بات پر اختلاف ہو جاتا ہے۔ لیکن جب منافقوں نے سیدہ عائشہؓ پر تہمت لگائی تو ازواجِ مطہراتؓ سے سیدہ عائشہؓ کے کردار کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس واقعہ کے گزرجانے کے بعد سیدہ عائشہؓ نے فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ سیدہ زینبؓ سے تھا لیکن سیدہ عائشہؓ کے بارے میں سب سے زیادہ صفائی سیدہ زینبؓ نے ہی دی۔ سیدہ زینبؓ نے فرمایا ما علمت فیھا الا خیرًا یا رسول اللہﷺ میں نے تو سیدہ عائشہؓ میں خیر کے سوا کوئی بات نہیں دیکھی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ازواج کے درمیان باہمی زندگی کا ایک نمونہ بتایا کہ یہ موقع ہوتا ہے فائدہ اٹھانے کا، لیکن سیدہ زینبؓ نے باوجود معاصرت کے وہ بات کہی جسے وہ دیانت داری کے ساتھ سچ سمجھتی تھیں۔
خرچے کا معاملہ یہ تھا کہ جو کچھ حضورﷺ کے پاس ہوتا آپﷺ برابر تقسیم فرما دیتے تھے۔ آپؐ کا کوئی مستقل کاروبار تو تھا نہیں، غنیمت میں سے حصہ مل جاتا، بیتُ المال سے کوئی چیز مل جاتی، یا کوئی ہدیہ پیش کر دیتا تو حضورﷺ ازواج میں تقسیم فرما دیتے۔ گھر کی صورتحال کے بارے میں ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کبھی ہم یعنی حضورﷺ کے خاندان پر ایسا وقت نہیں گزرا کہ ہم نے عام قسم کی کھجوریں تین دن مسلسل پیٹ بھر کر کھائی ہوں، کئی کئی دن چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی۔ کبھی کچھ کھجوریں مل جاتیں، کبھی ستو وغیرہ مل جاتا اور کبھی کچھ بھی نہ ملتا۔ فرماتی ہیں کہ جب حضورﷺ حیات تھے تو ہم میں سے ہر ایک کے پاس صرف ایک ایک جوڑا کپڑوں کا ہوتا تھا۔ یہ رسول اللہﷺ کی ہدایت تھی کہ زندگی میں غیر ضروری سہولتیں اختیار نہ کی جائیں۔ رسول اللہﷺ نے اختیاری طور پر اور حکمت کے طور پر یہ زندگی اختیار کی تھی اور حضورﷺ کی زندگی کے بعد بھی ازواجِ مطہراتؓ نے آخر وقت تک یہی طرز زندگی اپنائے رکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپﷺ کے وصال کے بعد ازواج کے پاس مال زیادہ آتا تھا لیکن وہ سب ضرورت مندوں پر خرچ بھی ہو جاتا تھا۔
یہ جناب نبی کریمﷺ کے گھر کا ماحول تھا۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے زندگی بھر ہم ازواج کو گھر کے معاملات میں نہیں ٹوکا، حضورﷺ سختی نہیں فرماتے تھے۔ حضورﷺ نے خود فرمایا کہ انا خیرکم لأھلی کہ میں تم میں سے اپنے خاندان کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔ البتہ دینی معاملے میں کمی بیشی ہوتی تو آپﷺ اس کا نوٹس لیتے تھے لیکن گھر کے اندر یا دنیوی معاملات میں کسی قسم کا کوئی نقصان ہوتا تو رسول اللہﷺ ہمارے ساتھ اس کے متعلق نرمی سے پیش آتے۔ رسول اللہﷺ گھر کے کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹاتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے حسب ضرورت گھر میں جھاڑو بھی دیا، جوتے بھی گانٹھے اور چارپائیاں بھی کسیں۔ اس طرح گھر کے دیگر کاموں میں حضورﷺ ازواجِ مطہراتؓ کی مدد فرمایا تھے۔
نبی کریمﷺ کی اولاد:
سیدنا ابراہیمؓ کے علاوہ حضورﷺ کی ساری اولاد سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے تھی۔ صرف سیدہ ماریہؓ کے بطن سے سیدنا ابراہیمؓ کی ولادت ہوئی جو نبی کریمﷺ کی لونڈی تھیں اور مصر کے بادشاہ مقوقس نے آپﷺ کو ہدیہ میں بھیجی تھیں۔
حضرت قاسم رضی اللہ عنہ:
سیدہ خدیجہؓ سے آپﷺ کی اولاد میں، بیٹوں میں یقینی طور پر سیدنا قاسمؓ کا نام آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیدنا قاسمؓ اتنی عمر کو پہنچ گئے تھے کہ گھوڑے کی سواری کر لیتے تھے لیکن نبوت سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ باقی بیٹوں کے نام بعض روایات میں آتے ہیں، عبداللہ، طاہر اور طیب۔ اس میں مؤرخین اختلاف کرتے ہیں کہ یہ الگ الگ بیٹے ہیں یا ایک ہی بیٹے کا نام عبداللہ ہے اور لقب طاہر ہے۔ یہ بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے، سیدنا قاسم چونکہ بڑے ہوئے تھے اس لیے ان کا ذکر روایات میں آتا ہے۔ رسول اللہﷺ کی کنیت ابوالقاسم انہی کی وجہ سے تھی۔ چھوٹے بچوں کے نام تو روایات میں آتے ہیں لیکن ان کے بارے میں تفصیلات نہیں آتیں، بعض محدثین کہتے ہیں کہ دو بیٹے تھے، بعض کہتے ہیں کہ تین بیٹے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ عبداللہ، طاہر، طیب ایک ہی بیٹے کے نام تھے۔
البتہ حضورﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، چاروں جوان ہوئیں اور چاروں کی شادیاں ہوئیں۔ تین بیٹیوں کی اولاد ہوئی جبکہ ایک کی اولاد نہیں ہوئی۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا:
آپﷺ کی بڑی بیٹی سیدہ زینبؓ کا نکاح اپنے خالہ زاد ابوالعاص بن ربیعؓ سے ہوا تھا جو سیدہ خدیجہؓ کے بھانجے تھے۔ یہ غزوہِ بدر میں کفار کی طرف سے تھے۔ غزوہِ بدر کے بعد سیدنا ابوالعاصؓ حضورﷺ کی قید میں آگئے تھے جب کہ دونوں کا نکاح باقی تھا کہ ابھی نکاح کے نئے قوانین نازل نہیں ہوئے تھے۔ سیدہ زینبؓ نے اپنا ہار فدیہ میں دے کر انہیں رہا کروایا۔ سیدنا ابوالعاصؓ بعد میں ایک موقع پر مسلمان ہوگئے تھے اور پھر مسلمانوں کی طرف سے معرکوں میں شریک ہوتے رہے، بہت بہادر آدمی تھے۔ ان کا ذکر نبی کریمﷺ اس طرح فرمایا کرتے تھے کہ سیدنا ابوالعاصؓ نے مجھے میری بیٹی کے بارے میں کبھی تنگ نہیں کیا۔ کسی باپ کا اپنی بیٹی کے حوالے سے داماد کا خیر سے ذکر کرنا بڑی بات ہوتی ہے۔ سیدہ زینبؓ کی اولاد میں ایک بیٹا تھا اور ایک بیٹی۔ بڑی بیٹی امامہؓ تھیں جب کہ بیٹے علیؓ تھے۔ سیدہ امامہؓ حضورﷺ کی بہت لاڈلی نواسی تھیں، روایات میں آتا ہے کہ سیدہ امامہؓ نماز کے دوران حضورﷺ کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، حضورﷺ قعدے میں بیٹھتے تھے تو سیدہ امامہؓ کبھی کندھے پر چڑھ جاتیں اور کبھی آکر گود میں بیٹھ جاتی تھیں۔ حضورﷺ نماز کے دوران سجدے میں جاتے تھے تو یہ گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ ایک روایت میں تو یوں آتا ہے کہ حضورﷺ نے ایک دفعہ سیدہ امامہؓ کو اپنی گود میں اٹھا کر نماز مکمل کی۔
جناب رسول اللہﷺ بچوں سے بہت شفقت فرمایا کرتے تھے، بچوں کو گود میں اٹھانا، ان کو پیار کرنا، انہیں بوسہ دینا، ان کے سر پر ہاتھ پھیرنا، ان کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرنا۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں بچوں کے ساتھ حضورﷺ سے زیادہ شفقت کرنے والا نہیں دیکھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورﷺ بچوں کو بہلانے کے لیے زبان ہلا کر دکھایا کرتے تھے، آپﷺ بچوں کے ساتھ بچہ بن جایا کرتے تھے۔ سیدہ امامہؓ جوان ہوئیں تو سیدہ فاطمہؓ کے انتقال کے بعد سیدنا علیؓ کے نکاح میں آئیں۔ سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد سیدنا علیؓ کی وصیت کے مطابق سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ نے سیدہ امامہؓ سے نکاح کیا۔ سیدہ زینبؓ کے ایک بیٹے تھے جن کا نام سیدنا علیؓ تھا۔
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا:
حضورﷺ کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہؓ تھیں۔ سیدہ رقیہؓ کا نکاح حضورﷺ نے پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے کیا تھا، نکاح ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب کہ حضورﷺ کی تیسری بیٹی امِ کلثومؓ ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے نکاح میں تھیں۔ اس دوران دعوتِ اسلام کا سلسلہ شروع ہوگیا، ابولہب نے اس عداوت میں اعلان کر دیا کہ میں اپنے بیٹوں کی شادیاں حضورﷺ کی بیٹیوں سے نہیں کروں گا۔ پھر سیدہ رقیہؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے ہوا ، سیدنا عثمانؓ جب ہجرت کر کے حبشہ گئے تو سیدہ رقیہؓ ان کے ساتھ تھیں، حبشہ میں ان کا بیٹا سیدنا عبداللہؓ پیدا ہوا۔ سیدنا عثمانؓ انہی کے حوالے سے ابوعبداللہ کہلاتے تھے۔ یہ حضورﷺ کا دوسرا نواسہ جب کہ سیدہ رقیہؓ کے بطن سے پہلا بیٹا تھا، چھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ ایسے کہ مدینہ منورہ واپس آئے، ایک مرتبہ کھیل رہے تھے کہ کسی دوسرے بچے نے چھڑی ماری جو آنکھ میں لگ گئی، اسی زخم سے پھر وفات ہوگئی۔ سیدنا عثمانؓ مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدہ رقیہؓ گھر میں بیمار تھیں، سیدنا عثمانؓ کے علاوہ اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ حضورﷺ نے خود سیدنا عثمانؓ سے گھر پر رکنے کا کہا تھا کہ سیدہ رقیہؓ اٹھ نہیں سکتی، پانی نہیں پی سکتی، معذور ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ چنانچہ سیدنا عثمانؓ سیدہ رقیہؓ کی تیمار داری میں مدینہ منورہ میں رکے رہے اور پھر اسی حالت میں غزوہِ بدر کے بعد سیدہ رقیہؓ کا انتقال ہو گیا۔
حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا:
سیدہ رقیہؓ کے انتقال کے بعد حضورﷺ نے اپنی دوسری بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دی، اسی لیے سیدنا عثمانؓ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے یعنی دو نوروں والا۔ ایک بیٹی کے بعد دوسری بیٹی کو نکاح میں دینا، یہ داماد پر بے پناہ اعتماد کی علامت ہے۔ جب سیدہ امِ کلثومؓ بھی فوت ہوگئیں تو اس وقت حضورﷺ کی بیٹیوں میں صرف سیدہ فاطمہؓ زندہ تھیں اور سیدنا علیؓ کے نکاح میں تھیں۔ حضورﷺ نے سیدنا عثمانؓ سے ایک جملہ فرمایا کہ اے عثمانؓ! اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں تیرے نکاح میں دیتا جاتا۔ سیدہ امِ کلثومؓ کی اولاد نہ تھی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا:
حضورﷺ کے تیسرے داماد سیدنا علیؓ کرم تھے دامادوں میں سیدنا علیؓ حضورﷺ کے سب سے زیادہ چہیتے داماد تھے جبکہ بیٹیوں میں سیدہ فاطمہؓ حضورﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی بیٹی تھیں۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ سب سے چھوٹا بچہ زیادہ لاڈلا ہوتا ہے، رسول اللہﷺ کو سیدہ فاطمہؓ سے بہت محبت تھی۔ آپﷺ کسی سفر پر جانے سے پہلے سب سے آخر میں سیدہ فاطمہؓ سے ملنے جاتے، آپﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے سیدہ فاطمہؓ کے پاس جاتے۔ جب سیدہ فاطمہؓ جوان ہوئیں تو مختلف جگہوں سے شادی کے پیغامات آتے جن پر حضورﷺ خاموش ہو جاتے تھے۔ لیکن جب سیدنا علیؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ اگر سیدہ فاطمہؓ کا نکاح میرے ساتھ ہو جائے تو اس پر حضورﷺ مسکرائے۔ محدثین فرماتے ہیں کہ شاید حضورﷺ اسی انتظار میں تھے۔ سیدنا علیؓ درویش آدمی تھے، حضورﷺ نے پوچھا کچھ پاس ہے بھی یا نہیں؟ سیدنا علیؓ نے بتایا، یا رسول اللہﷺ کچھ بھی نہیں ہے۔ پوچھا مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ بتایا، یا رسول اللہﷺ وہ بھی نہیں ہے۔ حضورﷺ نے پوچھا وہ زرہ کہاں ہے جو تمہیں غنیمت میں ملی تھی؟ بتایا، وہ میرے پاس ہے۔ آپﷺ نے فرمایا جاؤ لے کر آؤ۔ حضورﷺ نے سیدنا علیؓ سے وہ زرہ لے کر بیچ دی جسے سیدنا عثمانؓ نے خریدا۔ حضورﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا کہ اس میں سے مہر بھی ادا کرنا اور کچھ سامان وغیرہ بھی خریدنا۔ اور جب نکاح ہوگیا تو رہائش کا مسئلہ پیدا ہوگیا کہ سیدنا علیؓ تو حضورﷺ کے پاس ہی رہتے تھے۔ ایک انصاری صحابی تھے سیدنا حارثؓ، وہ کہنے لگے کہ حضورﷺ میرے پاس ایک مکان فارغ ہے، میری اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ آپﷺ کی بیٹی اور داماد وہاں رہیں۔ چنانچہ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ وہاں منتقل ہوگئے۔ حضورﷺ کی زندگی میں سیدہ فاطمہؓ کے علاوہ آپﷺ کی ساری اولاد فوت ہو گئی تھی۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ بیماری کی حالت میں تھے تو سیدہ فاطمہؓ آیا کرتی تھیں اور حضورﷺ کا حال احوال پوچھا کرتی تھیں۔ آپﷺ کی وفات سے کچھ دن پہلے سیدہ فاطمہؓ آئیں اور آ کر حال احوال پوچھا، حضورﷺ نے بھی ان کی خیریت دریافت کی۔ حضورﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کے کان میں کچھ بات کہی جس سے سیدہ فاطمہؓ زار و قطار رونے لگ گئیں۔ اس پر آپﷺ نے دوبارہ سیدہ فاطمہؓ کے کان میں کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگ گئیں۔ سیدہ فاطمہؓ حضورﷺ کے پاس سے اٹھ کر سیدہ عائشہؓ کے پاس گئیں تو انہوں نے پوچھ لیا کہ کیا بات تھی کہ پہلے حضورﷺ نے کچھ کہا تو آپ رونے لگ گئیں اور دوبارہ کچھ کہا تو آپؓ ہنسنے لگ گئیں۔ سیدہ فاطمہؓ نے کہا کہ کان میں بات کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ راز کی بات تھی۔ سیدہ فاطمہؓ نے وہ بات رسول اللہﷺ کی حیات میں کسی کو نہیں بتائی۔ حضورﷺ کے انتقال کے بعد جب حالات معمول پر آئے تو سیدہ عائشہؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے پھر وہی بات پوچھی۔ اس پر وہ کہنے لگیں کہ بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے میرے کان میں کہا تھا کہ فاطمہ! میں دنیا سے جا رہا ہوں۔ باپ کی وفات کی خبر کا ایک بیٹی کو کتنا صدمہ ہو سکتا ہے۔ سیدہ فاطمہؓ کہتی ہیں کہ جب میں نے رونا شروع کیا تو حضورﷺ نے میرے کان میں پھر کہا کہ میرے بعد سب سے پہلے تم میرے پاس آؤ گی۔
صوفیاء فرماتے ہیں کہ دیکھو، یہ محبت کا رشتہ کیسا رشتہ ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب سیدہ فاطمہؓ کو اپنی وفات کی خبر دی تو آپؓ رو پڑیں لیکن جب ان کی وفات کی خبر دی تو اس پر خوش ہوگئیں۔ اب کسی کو وفات کی خبر دی جائے تو اس کا کیا رد عمل ہونا چاہیئے۔ یہ محبت کے رشتے ہوتے ہیں کہ جن میں زندگی و موت کا معاملہ بے معنیٰ ہو جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو ان کی موت کی خبر دی تو وہ خوش ہوگئیں اور ہنسنے لگیں کہ والد سے جدائی کے دن زیادہ نہیں ہیں۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہؓ تقریباً چھ مہینے حیات رہیں۔ رسول اللہﷺ کی سب سے چھوٹی، سب سے چہیتی اور سب سے لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہؓ تھیں۔ حضورﷺ نے فرمایا فاطمہؓ بضعۃ منی فاطمہؓ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ انسان کو کچھ باتیں طبعی طور پر ناگوار گزرتی ہیں۔ ابوجہل کی بیٹی مسلمان ہوگئی تھی اور صحابیہ بن کر مدینہ منورہ آگئی تھی۔ سیدنا علیؓ کے دل میں اس کے ساتھ نکاح کا خیال آیا اور یہ کوئی ایسی بڑی بات بھی نہیں تھی کہ عرب میں تعددِ ازدواج کا عام رواج تھا۔ رسول اللہﷺ کو خبر ہوئی تو حضورﷺ نے اس کو پسند نہ فرمایا جس پر سیدنا علیؓ نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ حالانکہ وہ صحابیہ تھی لیکن یہ حضورﷺ کا سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ طبعی رشتہ تھا کہ حضورﷺ نے اس کو گوارا نہ کیا۔ سیدہ فاطمہؓ بہت با حیا تھیں۔ ایک مرتبہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے کہا کہ جب ہم ہجرت کر کے حبشہ گئے تو وہاں میں نے جنازے کا ایک طریقہ دیکھا تھا کیا میں وہ بتاؤں آپؓ کو؟ فرمایا، ہاں بتاؤ۔ سیدہ اسماءؓ نے طریقہ بتایا کہ وہاں کے لوگ میت کی چارپائی کے دونوں طرف درخت کی ٹہنیاں پھنسا کر اس کا محراب بناتے تھے اور پھر اس کے اوپر پردہ ڈال دیتے تھے۔ اس پر سیدہ فاطمہؓ نے کہا کہ میرے جنازے پر ایسا ہی کرنا۔
سیدہ فاطمہؓ کے تین بیٹے تھے سیدنا حسنؓ، سیدنا حسینؓ اور سیدنا محسنؓ۔ رسول اللہﷺ کی گود میں جن بچوں نے پرورش پائی ان میں سیدہ امامہؓ، سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ تھے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ دوپہر کو آرام فرما رہے تھے کہ سیدنا حسنؓ آپﷺ کے پیٹ پر چڑھ کر بیٹھے اور پیشاب کر دیا، حضورﷺ نے اٹھ کر کپڑے پاک کرنے کا انتظام کیا۔ رسول اللہﷺ ان سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بنو تمیم کے سردار سیدنا اقرع بن حابسؓ پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے غالباً سیدنا حسنؓ یا سیدنا حسینؓ کو بوسہ دیا۔ سیدنا اقرعؓ نے حیرانگی سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ آپ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ایک روایت کے مطابق فرمایا کہ خدا نے اگر تیرے سینے میں پتھر کا دل رکھ دیا ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ سیدنا حسنؓ جو سامنے سے گزر رہے تھے، ٹھوکر کھا کر گر پڑے۔ حضورﷺ نے دیکھا تو آپﷺ سے رہا نہ گیا، آپﷺ منبر سے اتر کر گئے، سیدنا حسنؓ کو اٹھا کر اپنے ساتھ منبر پر لائے اور پھر اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانا شروع کر دیا۔ پھر یہ پیشین گوئی فرمائی ان ابنی ھذا سیدًا وسیصلح اللہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین۔
ترجمہ: کہ یہ میرا بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا۔
حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ
آپﷺ کے آخری بیٹے سیدنا ابراہیمؓ سیدہ ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے تھے۔ بعض روایات میں ایک سال اور بعض روایات میں دو سال کا ذکر آتا ہے کہ اِس عمر میں ان کا انتقال ہوگیا تھا، حضورﷺ ان کی وفات پر بہت غمگین ہوئے، آپﷺ نے فرمایا انّا بفراقک یا ابراھیم لمحزونون۔
ترجمہ: اے ابراہیمؓ! ہم تمہاری جدائی پر بہت غمزدہ ہیں۔ آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، ایک صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ آپ ہمیں رونے سے منع فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ زبان کے رونے سے منع کرتا ہوں آنکھ کا رونا تو فطری ہے۔ زبان کا رونا منع ہے یعنی شکوہ کرنا اور بین کرنا وغیرہ لیکن جب آدمی غمگین ہو تو آنکھوں سے آنسو بہتے ہی ہیں۔
نبی کریمﷺ کے متعلقین:
حضورﷺ کے اہلِ خاندان کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تھے جو گھر کے افراد سمجھے جاتے تھے۔ دو تین شخصیات ایسی تھیں کہ جنہیں باہر سے آنے والا گھر کے افراد ہی سمجھتا تھا۔
سیدنا بلالؓ فرماتے ہیں کہ ہجرت سے لے کر حضورﷺ کے وصال تک، رسول اللہﷺ کے گھر کے کام کاج میری ذمہ داری ہوا کرتے تھے۔ کوئی رقم آتی تو گھر کے خرچ اور گھر کی ضروریات کے لیے میرے حوالے ہو جاتی تھی، گھر کے متعلق کوئی بھی کام ہوتا حضورﷺ مجھ سے کہتے تھے کہ بلال! فلاں فلاں کام کرنا ہے۔
دوسرے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ تھے جن کے پاس حضورﷺ کی مسواک اور بچھونا وغیرہ ہوتا تھا۔ حضورﷺ کے لیے قضائے حاجت یا وضو کے پانی وغیرہ کا بندوبست کرنا، یہ ان کا کام تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کا تو لقب ہی پڑ گیا تھا صاحب الوسادۃ کہ یہ حضورﷺ کے بچھونے والے ہیں۔ مدینہ منورہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ حضورﷺ کے ذاتی خادم کی ذمہ داری نبھاتے تھے۔
تیسرے آدمی سیدنا انس بن مالکؓ تھے جو حضورﷺ کے ذاتی خادم تھے، ان کا قصہ بھی بہت عجیب ہے۔ ان کی والدہ محترمہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں، ان کے خاوند کا نام مالک آتا ہے جو ان کے قبولِ اسلام سے ناراض ہو کر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ سیدنا انسؓ کی والدہ نے پھر سیدنا ابوطلحہؓ سے نکاح کیا۔ حضورﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا انسؓ کی عمر دس سال تھی۔ والدہ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ہمارے پاس اور تو کچھ نہیں ہے لیکن یہ بچہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہے، پھر سیدنا انس بن مالکؓ آپﷺ کی خدمت میں رہے۔ گھر میں کئی باتوں کی ضرورت ہوتی ہے، کسی کو بلانا، کسی کو پیغام پہنچانا، گھر کی دیگر ضروریات وغیرہ۔ سیدنا انسؓ نے دس سال تک حضورﷺ کی خدمت کی، اس پر حضورﷺ نے سیدنا انسؓ کو ایک دعا دی جو کہ ایک مشہور دعا ہے۔ حضورﷺ نے دعا فرمائی: اللھم بارک لہ فی عمرہ و مالہ واکثر ولدہ۔
ترجمہ: کہ اے اللہ! اسے مال بھی بہت زیادہ دے اور اولاد بھی بہت زیادہ دے۔ چنانچہ سب سے آخر میں جن چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وفات پائی، سیدنا انسؓ ان میں سے ایک تھے۔ مختلف روایات کے مطابق 102ھ یا 103ھ یا 104ھ میں انہوں نے وفات فرمائی۔ تقریباً 112 سال کی عمر پائی، سیدنا انسؓ کی براہِ راست اولاد 200 سے زیادہ تھی جبکہ بے حساب دولت کے مالک تھے۔
میں نے رسول اللہﷺ کے کنبے اور خاندان کا مختصر تعارف آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ پر کروڑوں درود نازل فرمائیں، آپﷺ کی ازواج پر، آپﷺ کی اولاد پر، آپﷺ کے تمام متعلقین پر اور قیامت تک آنے والے آپﷺ کے تمام اتباع پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جناب نبی کریمﷺ کی سیرت پر چلنے کی، آپﷺ کے اسوہ کو اپنانے کی اور حضورﷺ کی سنت کا ذوق بیدار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔