مسلمانوں پر ظلم کی حرمت
امام ابنِ تیمیہؒمسلمان پر ظلم کی حرمت
اللہ تعالیٰ نے زندہ اور مردہ مسلمانوں پر ظلم کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح ان کا خون، ان کا مال اور ان کی آبرو بھی حرام ہے ۔صحیحین میں ہے: نبی کریمﷺ نے حجۃ الوداع کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’ بیشک مسلمانوں کا خون، ان کا مال اور ان کی آبرو اسی طرح حرام ہے، جیسے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینہ اور تمہارے اس شہر میں ۔ گواہ رہو کہ میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں تک یہ احکام پہنچا دیں ، جو موجود نہیں ہیں ، اس لیے کہ جن لوگوں تک یہ احکام پہنچیں گے ان میں سے بعض ان لوگوں سے بھی ان احکام کو زیادہ یاد رکھیں گے جنہوں نے براہِ راست یہ مسائل مجھ سے سنے۔‘‘ [البخاری، کتاب الحج ، باب خطبۃ ایام منی(ح:1741) مسلم ۔ باب تغلیظ تحریم الدماء(ح:1679)]
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْافَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا﴾ (الاحزاب:58)
’’ جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بلا وجہ ایذا دیتے ہیں انھوں نے ایک عظیم بہتان اور کھلا ہوا گناہ کمایا۔‘‘
پس جو شخص کسی زندہ یا مردہ مومن کو دکھ پہنچائے گا وہ اس آیت کا مصداق ہو گا ۔ البتہ مجتہد پر کوئی گناہ نہ ہو گا، جب کسی نے مومن کو اذیت پہنچائی تو یہ بلا وجہ اور بلا استحقاق ہی ہوگی۔ جو شخص گناہ گار ہو اور گناہ سے توبہ کر چکا ہو یا کسی اور وجہ سے اس کا گناہ بخشا گیا ہو اس کے باوجود کوئی شخص اسے تکلیف پہنچائے تو یہ ایذا بلا استحقاق ہو گی ۔اور جو کوئی گنہگار ہو؛ اور اپنے گناہ سے توبہ کر لی ہو؛ یا کسی دوسرے سبب کی وجہ سے اس کی بخشش کردی گئی ہو؛ اور اس پر کوئی سزا باقی نہ ہو؛ تو پھر کوئی موذی اسے تکلیف دے؛ تو یہ ایذا بلا استحقاق ہوگی۔اگرچہ یہ مصیبت اس کے کئے کی وجہ سے ہی آئی ہو۔
جب حضرت آدم اور موسی علیہما السلام کے درمیان مکالمہ ہوا؛تو موسی علیہ السلام نے فرمایا:
’’....آپ لوگوں نے ہم کو اور اپنے آپ کو جنت سے کیوں نکالا۔‘‘
حضرت آدم علیہ السلام نے جواباً فرمایا:’’ آپ کیا دیکھتے ہیں :میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے میرے لیے لکھ دیا تھا :﴿ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى﴾ [طہ 121] ’’حضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا : چالیس سال۔ ‘‘
نبیﷺ فرماتے ہیں :’’ اس طرح حضرت آدم حضرت موسی پر غالب آگئے۔‘‘[جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر2۔اس باب میں حضرت عمر اور جندب سے بھی احادیث منقول ہیں یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔یہ حدیث نبیﷺ سے ابوہریرہؓ کے واسطے سے کئی سندوں سے منقول ہے۔]
یہ حدیث صحیحین میں بھی ثابت ہے۔لیکن بہت سارے لوگوں سے اس کے معنی میں غلطی ہوئی ہے۔وہ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے نوشتۂ تقدیر سے احتجاج کیا کہ کسی پر گناہ کی وجہ سے ملامت نہیں کی جا سکتی۔پھر ان میں اختلاف واقع ہوا ہے؛ ان میں سے کچھ اس کے الفاظ کو جھٹلاتے ہیں ؛ اور اس کے معانی میں فاسد اور باطل تاویلیں کرتے ہیں ۔
یہ فاسد فہم اور بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ کسی کم تر ایمان اور علم والے انسان کے ساتھ بھی ایسا گمان کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔ کوئی یہ گمان کرے کہ کسی انسان پر گناہ کرنے میں اس لیے کوئی ملامت نہیں کہ گناہ اس کے مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔ اور وہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی خبریں بھی سنتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اور قوم عاد و ثمود کو کیسے عذاب دیا گیا۔ قوم فرعون؛ اہل مدین اور اور قوم لوط اور دیگر لوگوں کا کیا حشرا ہوا۔
قدر [تقدیر] تمام مخلوق کو شامل ہوتی ہے۔ اگر گناہ کرنے والا معذور ہو تو پھر ان لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب نہ دیا جاتا۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں محمدﷺ اور دیگر انبیاء کو سرکشوں کے خلاف کن سزاؤوں کے ساتھ مبعوث کیا تھا؛جیسا کہ تورات اور قرآن میں بھی ہے؛ اور جو اللہ تعالیٰ نے فسادیوں پر حدود قائم کرنے اور کافروں سے قتال کرنے کا حکم دیا۔ اور پھر جو اللہ تعالیٰ نے ظالم سے مظلوم کو انصاف دلوانا مشروع ٹھہرایا ہے۔ اور جو قیامت کے دن اس کے بندوں میں فیصلہ ہوگا؛ کافروں کو عذاب دیا جائے گا۔اور مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ یہ بات کئی جگہ پر ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔
یہاں پر مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ انسان پر جو بھی مصیبت آتی ہے؛ وہ اس کے نصیب میں لکھی جاچکی ہوتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کرلے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ﴾ [التغابن:11]
’’کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لائے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔‘‘
حضرت علقمہؓ فرماتے ہیں : ’’ اس سے مراد وہ آدمی ہے جس پر کوئی مصیبت آتی ہے؛ تو وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس وہ اس پر راضی رہتے ہوئے سر تسلیم خم کر لیتا ہے۔
والی نے ابنِ عباسؓ سے روایت کیا ہے؛ فرمایا:’’اس کے دل کو یقین کی طرف ہدایت دیں گے ۔‘‘
ابن سائب اور ابن قتیبہ رحمہما اللہ نے کہا ہے:’’بیشک یہ وہ آدمی ہے؛ جب وہ آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے؛ تو صبر کرتا ہے؛ اور جب اس پر انعام کیا جاتا ہے تو وہ شکر گزاری کرتا ہے۔ اور جب ظلم کیا جاتا ہے تو معاف کردیتا ہے۔
اگر مصیبت والد یا دادا کے فعل کی وجہ سے تھی۔تو بیشک حضرت آدم علیہ السلام نے بھی تو وہ درخت کا پھل کھانے سے توبہ کر لی تھی۔ تو اب ان پر کوئی ملامت توبہ کے بعد نہیں کی جاسکتی۔ اور یہ مصیبت مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔ تو اس پر حضرت آدم علیہ السلام کو ملامت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ پس کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ اگر کسی مؤمن کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اسے تکلیف دے۔ مؤمن یا تو معذور ہے؛ یا پھر مغفور لہ ہے اور اکثر طور پر جو کوئی مصیبت کسی کی وجہ سے آتی ہے؛ بھلے وہ بعض اغراض کے فوت ہونے کی صورت میں ہو؛تو لوگ اس پر لعن و ملامت کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض روافض کرتے ہیں ۔ روافض کا خیال ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے ظلم کی وجہ سے ان کا حق روکنے میں سبب بنے تھے۔ یہ ان حضرات پر بہت بڑا جھوٹا الزام ہے۔ اور پھر کہتے ہیں : ہم ان کے ظلم کی وجہ سے دوسروں پر ظلم کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ دوسرے لوگوں پر عدوان؍ سرکشی ہے۔ بلا شک و شبہ وہ لوگ اہلِ عدل اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے احکام کی تعمیل کرنے والے تھے۔
پس جس کسی پر مصیبت رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے پیغام کی وجہ سے آتی ہے؛ تو درحقیقت یہ اس کے گناہوں کی شامت ہے۔ کسی ایک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ رسول اللہﷺ پر اور آپ کے لائے ہوئے پیغام پر عیب جوئی کرے؛ اس لیے کہ آپ کے لائے پیغام میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے؛ اور منافقین سے جہاد کرنے کا حکم ہے۔یا پھر اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تقدیم بخشا کرتے تھے۔اور پھر آپ کے بعد مسلمانوں نے بھی ایسے ہی کیا۔جیسا کہ بعض روافض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی شان میں صرف اس لیے کوتاہی کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تقدیم بخشی ہے۔
بعض روافض کے متعلق روایت کیا گیا ہے کہ وہ مسجد نبوی میں کچھ احادیث پڑھ رہے تھے؛جب حضرت ابوبکرؓ کے فضائل پر پہنچے؛ اور یہ فضائل سنے تو اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے:’’
’’دیکھو: تم پر یہ تمام تر مصیبت اس قبر والے کی وجہ سے ہے۔ یہ کہتا ہے:
’’ حضرت ابوبکرؓ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ۔‘‘ ’’ اگر میں اہلِ زمین سے کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت ابوبکرؓ کے سوا کسی شخص کی کھڑکی مسجد کی جانب کھلی نہ رہے۔‘‘اور اللہ اور اہلِ ایمان ابوبکر کے علاوہ کسی کو بھی ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔‘‘[ یہ فضیلت کسی دوسرے کی نہیں ]۔
کسی ایک کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ قرآن مجید کے عربی زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے امت میں اختلاف پیدا ہوا؛ اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ گئے۔ اور اس طرح کے دیگر جن میں شر کا سبب رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو قرار دیتے ہیں ۔ یہ تمام باتیں باطل ہیں ؛ اور یہ کلام کفار کا کلام ہے۔
کفار کی طرف سے رسولوں کو ملنے والا جواب نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَ لَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌo قَالُوْا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾ [یس 18۔19]
’’انہوں نے کہا بیشک ہم نے تمہیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمہیں سنگسار کر دیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔ انھوں نے کہا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔ کیا اگر تمہیں نصیحت کی جائے، بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو ۔‘‘
اللہ تعالیٰ قومِ فرعون کے متعلق فرماتے ہیں :
﴿فَاِذَا جَآئَ تْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَہٗ اَلَآ،اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمْ عِنْدَ اللّٰہِ ﴾[الاعراف:131]
’’ تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔ سن لو! ان کی نحوست تو اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘
اور جب جہاد کے احکام کا ذکر کیا تو یہ بھی بتایا کہ بعض لوگ جہاد سے جی چراتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَمَالِ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا oمَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾ [النساء:78۔79]
’’ تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہوا کہ کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں ۔جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے ۔‘‘
یہاں پر بھلائی اور برائی[حسنات اور سیئات ] سے نعمتیں اور مصیبتیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مواقع پر انہیں حسنات اور سیئات کا نام دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ بَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ [الاعراف:168]’’
اور ہم نے اچھے حالات اور برے حالات کے ساتھ ان کی آزمائش کی، تا کہ وہ باز آجائیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ہُمْ فَرِحُوْنَ o﴾[التوبۃ:50]
’’ اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کر لیا تھا اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔‘‘
اسی لیے فرمایا ہے:﴿مَآ اَصَابَکَ ﴾’’جو آپ کو پہنچے۔‘‘ یہ نہیں فرمایا:’’مَآ اَصَبْتَ ‘‘ جس تک آپ پہنچیں ۔ سلف صالحین اس آیت کی تفسیر میں یوں فرماتے ہیں:
ابو صالحؒ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کیا ہے؛ فرمایا: حسنہ سے مراد ہریالی اور بارش ہے۔ اور سئیہ سے مراد: خشک سالی اور مہنگائی ہے۔
آپ سے والی کی روایت میں یوں ہے: : حسنہ سے مراد فتح اور غنیمت ہے۔ اور سئیہ سے مراد:ہزیمت ؛ زخم اور اس طرح کے امور ہیں ۔اس روایت میں ہے: جو آپ کو بھلائی پہنچی اس سے مراد وہ فتح تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے بدر کے موقع پر سر فراز کیا۔ اور سئیہ [برائی] سے مراد وہ شکست تھی جس سے بدر کے موقع پر دو چار ہوئے۔ ایسے ہی ابن قتیبہؒ سے مروی ہے کہ: : حسنہ سے مراد غنیمت اور نعمت ہے۔ اور سئیہ سے مراد: آزمائش ہے۔یہ تفسیر ابو عالیہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔ اور ان سے یہ بھی منقول ہے کہ:: حسنہ سے مراد اطاعت قُلْہے۔ اور سئیہ سے مراد: معصیت ہے۔
بعض متأخرین نے یہی کچھ خیال کیا ہے۔ پھر ان لوگوں کا اختلاف ہے۔ تقدیر کا اثبات کرنے والے کہتے ہیں :یہ ہمارے حق میں حجت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ﴾ [النساء 78]
’’ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
جبکہ تقدیر کی نفی کرنے والے کہتے ہیں : یہ ہمارے حق میں حجت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ﴾[النساء:79]
’’ اور جو برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے ۔‘‘
ان میں سے ہر ایک فریق کی دلیل دوسرے کی دلیل کے فساد پر دلالت کرتی ہے۔ جب کہ اس آیت کی تفسیر میں یہ دونوں قول باطل ہیں ۔ کیونکہ اس سے مراد نعمتیں اور مصایب ہیں ۔ اسی لیے فرمایا: ’’إن تصبہم ۔‘‘اگر انہیں پہنچتی ہے ۔‘‘ تو یہاں پر ضمیر منافقین پر لوٹتی ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے: ضمیر کا مرجع یہود ہیں ۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس سے دونوں گروہ مراد ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ضمیر اس عقیدہ کے حامل لوگوں کی طرف لوٹتی بھلے وہ کسی بھی گروہ سے ہوں ۔ اسی کہا گیا ہے کہ: اس کے قائل کو متعین نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ پر جو کوئی بھی ایسا عقیدہ رکھے؛ یہ آیت اسے شامل ہوتی ہے۔ بیشک رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے پیغام پر طعنہ زنی کرنے والے کافر بھی ہیں اور منافق بھی۔ بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں بیماری ہو؛ یا وہ کسی جہالت کا شکار ہو؛ وہ ایسی بات کہہ سکتا ہے۔ اور بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے کچھ پیغام رسالت کے متعلق ایسی بات کہہ دیتے ہیں ۔ مگر انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ آپﷺ کا لایا ہوا پیغام ہے۔ کیونکہ وہ اپنے فریق مخالف کو ہی غلطی پر خیال کرتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ خود غلطی کا ارتکاب کررہا ہو۔ پس جب انہیں نصرت اور رزق سے نوازا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسے رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے پیغام کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ اگرچہ اس کا سبب وہی ہو اور اگر ان کے رزق میں کمی آتی ہے؛ اور انہیں دشمن کی طرف سے یا ان کے غلبہ کا خوف محسوس ہوتا ہے؛ تو کہتے ہیں : یہ تمہاری وجہ سے ہے؛ اس لیے کہ آپ نے ہی جہاد کا حکم دیا تھا؛ تو پھر جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا۔ تو یہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام سے بد فالی لینے لگ گئے؛ جیسے قومِ فرعون کے لوگ حضرت موسی علیہ السلام کے لائے ہوئے پیغام سے بد فالی لیتے تھے ۔
سلف صالحین نے اس کے دو معانی بیان کئے ہیں ۔حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے؛ کہا: تیری نحوست کی وجہ سے اور ابن زید کہتے ہیں : ’’تمہاری تدبیر کی خرابی کی وجہ سے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ﴾[النساء:78]
’’ کہہ دیں سب اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں : ’’حسنہ اور سیئہ :[بھلائی اور برائی]:حسنہ وہ ہے؛ جو آپ پر انعام کیا گیا ہو؛ اور برائی وہ ہے : جس سے آپ آزمائے گئے ہوں ۔‘‘
پس ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات نہیں سمجھتے ۔ اور ایسی ہی بات نہ سمجھنے کے متعلق بھی کہی گئی ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے :وہ نہ ہی سمجھتے ہیں ؛ نہ سمجھنے کے قریب لگتے ہیں ۔‘‘ یہاں پر نفی اثبات کے مقابلہ میں ہے۔ اوریہ بھی کہا گیاہے کہ :وہ سمجھنے والے لگتے نہیں تھے؛مگر پھر بھی آخرکار سمجھ گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾[البقرۃ:71]
’’ اور وہ قریب نہ تھے کہ کرتے ۔‘‘
یہاں پر جس کی منفی کی گئی ہے وہ مثبت ہے؛ اور مثبت کی منفی ہے۔ عوام الناس کے ہاں اس طرح کے جملوں کا استعمال مشہور ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے کبھی یہ مراد ہوتا ہے او رکبھی یہ ۔جب کسی فعل کے اثبات کی صراحت ہو تو اس کا وجود ہوتا ہے۔ اور جب نفی محض کی صورت میں ہو؛ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لم یکد یراہا ﴾[النور4]
’’لگتا نہیں تھا کہ وہ اسے دیکھیں گے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا ﴾[النساء:78]
’’ پھر ان لوگوں کو کیا ہوا کہ کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں ۔‘‘
یہ نفی مطلق ہے۔ اور اس کے ساتھ کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا جو اثبات پر دلالت کرتا ہو؛ اور پھر اس کے مطلق اور مقید میں فرق کیا جائے۔
نحوی حضرات کے یہ تین اقوال ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک قول کو ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ایک جماعت کی مذمت کی ہے کہ وہ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّواوَلِلَّہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰ۔کِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لاَ یَفْقَہُوْنَ ﴾[المنافقون:7]
’’ یہی ہیں جو کہتے ہیں ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں ، یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں ، حالانکہ آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں اور لیکن منافق نہیں سمجھتے ۔‘‘
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
﴿وَمِنْہُمْ مَنْ یَّسْتَمِعُ اِِلَیْکَ حَتّٰی اِِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوا اَہْوَائَ ہُمْ﴾[محمد:16]
’’ اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تیری طرف کان لگاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ تیرے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جنھیں علم دیا گیا ہے، کہتے ہیں ابھی اس نے کیا کہا تھا؟ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی اور وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چل پڑے ۔‘‘
تو یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ وہ لوگ قرآن سمجھنے کے قریب بھی نہ تھے۔لیکن یہاں پر[ حَدِیْثًا ] کا لفظ نفی کے سیاق میں نکرہ لایا گیا ہے ؛ جو کہ عموم پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ سورت کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمَا قَوْمًا لَّا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ قَوْلًا ﴾[ الکہف:93]
’’ ان کے اس طرف کچھ لوگوں کو پایا جو قریب نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں ۔‘‘
یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ وہ لوگ لازمی طور پر کچھ باتیں تو سمجھتے تھے۔ وگرنہ اس کے بغیر انسان زندگی نہیں گزار سکتا۔تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ نہ سمجھنے کے قریب تر ہوکر بھی کچھ نہ کچھ سمجھ لیتے تھے۔روایت میں ایسے ہی ہے۔اور یہ نحویوں کا مشہور قول ہے جو کہ زیادہ ظاہر لگتا ہے۔
یہاں پر مقصود یہ ہے کہ: یہ لوگ اگر قرآن کو سمجھ لیتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ آپ انہیں صرف بھلائی اور نیکی کا حکم دیتے ہیں ۔ اور برائی اور شر سے منع کرتے ہیں ۔ اور آپ کی وجہ سے ان پر کوئی مشکل یا مصیبت نہیں آتی؛ بلکہ یہ ان کے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہے ۔ پھراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾[النساء:79]
’’ جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھے پہنچے سو تیری اپنی طرف سے ہے ۔‘‘
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں : ’’ میں نے یہ تجھ پر لکھ دیا ہے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک تحریر میں ہے؛ اور میں نے اسے تیرے لیے مقدر کردیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ ﴾[الشوری:30]
’’ اور جو بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے در گزر کر جاتا ہے ۔‘‘
اور جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ﴾[آل عمران:165 ]
’’اور کیا جب تمھیں ایک مصیبت پہنچی کہ یقیناً اس سے دگنی تم پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا یہ کیسے ہوا؟ کہہ دے یہ تمھاری اپنی طرف سے ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاِِنْ تُصِبْہُمْ سَیَِّٔۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَاِِنَّ الْاِِنسَانَ کَفُوْرٌ ﴾[الشوری:48]
’’ اور اگر انہیں اس کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی ہے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو بے شک انسان بہت نا شکرا ہے۔‘‘
یعقوب سے کردم کی روایت میں ﴿فمن نفسک ﴾آیا ہے۔ اس کا معنی متواتر قرأت کے خلاف ہے۔ پس اس پر کوئی اعتماد نہیں کیا جائے گا۔
اس آیت کا یہ معنی ایک حدیث قدسی میں بھی پایا جاتا ہے؛ [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]
’’ اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لیے اکٹھا کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔‘‘ [صحیح مسلم:جلد:3:ح:2071]
پس اس آیت کریمہ کا معنی ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو اپنے اوپر آنے والی ہر مصیبت کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی وجہ سے قرار دیتے ہیں ؛ بھلے ایسا کہنے والا کوئی بھی ہو۔ پس جو کوئی یہ کہتا ہے کہ :ایسا رسول اللہﷺ کے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو تقدیم بخشنے اور حضرت ابوبکرؓ کو نماز میں آگے کرنے ؛ اور ان دونوں کی [ولایت اوردوستی] کی وجہ سے ایسے ہوا؛ اور ان پر یہ مصیبت آن پڑی۔
تو ان سے کہا جائے گا : یہ مصیبت تمہارے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا () وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ﴾[الطلاق:2ـ3]
’’ اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا ۔‘‘
بلکہ یہ تمام باتیں اہل ایمان کے لیے ناحق ایذا رسانی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا﴾ (الحجرات:12)
’’ایک دوسرے کی غیبت مت کرو۔‘‘
احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’غیبت کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر ایسے انداز میں کرو کہ وہ اسے ناپسند کرے۔ آپ سے دریافت کیا گیا اگر اس میں وہ عیب موجود ہو تب بھی اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں ؟ فرمایا:
’’ اگر اس میں وہ عیب موجود ہو پھر تو غیبت ہے اور اگر موجود نہ ہو تو یہ بہتان ہے۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الغیبۃ(ح:2589)۔اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ کسی میں ایسا عیب ثابت کرنا جو فی الواقع اس میں نہ ہو بہتان کہلاتا ہے۔ ظاہرہے کہ صحابہ پر ایسا بہتان لگانا کس قدر مذموم ہوگا؟ جو شخص کسی مجتہد کے بارے میں کہے کہ اس نے دانستہ ظلم کیا یا دانستہ کتاب و سنت کی خلاف ورزی کی حالانکہ ایسا نہ ہو تو یہ بہتان ہے ورنہ غیبت۔البتہ غیبت کی وہ قسم مباح ہے جسے اللہ و رسول اللہﷺ نے روا رکھا ہو۔ غیبت مباح وہ ہے جو قصاص و عدل کے طور پر ہو یا اس میں کوئی دینی یا دنیوی مصلحت مضمر ہو۔ مثلاً مظلوم کہے کہ فلاں شخص نے مجھے مارا یا میرا مال لے لیا یا میرا حق غصب کر لیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ (النساء:148)
’’اللہ تعالیٰ اونچی آواز سے بری بات کہنے کو پسند نہیں کرتے البتہ مظلوم ایسا کر سکتا ہے۔‘‘
مذکورہ صدر آیت کریمہ اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جو کسی قوم کے پاس مہمان ٹھہرا اور انھوں نے حق مہمانی ادا نہ کیا۔ [ تفسیر ابن کثیر (صفحہ:372) ]اس لیے کہ مہمانی حدیث نبوی کی رو سے واجب ہے[صحیح بخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف(حدیث:6137)، صحیح مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ و نحوھا(حدیث:1727)۔ ایک اور آیت میں ہے:﴿ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ ﴾ [الشوری :41 ]’’جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے، اس پر کوئی ماخذہ نہیں ۔‘‘مسند احمد کی روایت میں ہے رسول اللہﷺ فرماتے ہیں : ’’ جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں ۔‘‘ اسے البانی نے صحیح کہا ہے۔
ہاں اتنا مال لے سکتی ہو جو تیرے اور تیرے بچوں کے لیے کافی ہو۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب النفقات، باب نفقۃ المرأۃ اذا غاب عنھا زوجھا (ح:5359)، صحیح مسلم ، کتاب الأقضیۃ۔ باب قضیۃ ھند (ح:1714)، والحدِیث فِی سننِ النسائِیِ وابنِ ماجہ والدارِمِیِ۔]یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ہند کو شکایت کرنے سے نہ روکا تھا یہ فریاد مظلوم کی مثال ہے۔
خیر خواہی کے لیے غیبت کی مثال یہ حدیث ہے کہ چند آدمیوں نے فاطمہ بنت قیسؓ کو نکاح کا پیغام دیا تھا۔ انھوں نے جب اس ضمن میں نبی کریمﷺ سے مشورہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا۔ ’’معاویہؓ ایک مفلس آدمی ہے اور ابو جہمؓ عورتوں کو پیٹنے کا خوگر ہے، لہٰذا تم اسامہؓ سے نکاح باندھ لو۔‘‘[مسلم، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا، (ح:1480) سنن أبِی داود:6؍383 کتاب الطلاق باب فِی نفقۃِ المبتوتۃِ، سنن الترمذی:6؍301 ؛ کتاب النکِاحِ، باب ما جاء أن لا یخطب الرجل علی خِطبِۃ أخِیہِ، المسند ط۔ الحلبِیِ:۶؍6'412,416 والحدِیث فِی سننِ النسائِیِ والموطِأ۔ ]یہ حدیث صحیح ہے۔
جو شخص نبی کریمﷺ کی حدیث بیان کرنے میں غلطی کرتا ہو یا دانستہ نبی کریمﷺ یا کسی عالم پر جھوٹ باندھتا ہو یا دین کے عملی و اقتصادی مسائل میں غلط رائے کا اظہار کرتا ہو تو ایسے شخص پر علم و عدل اور خیر خواہی کی نیت سے نقد و جرح کرنے والا اللہ کے نزدیک ماجور ہو گا۔ خصوصاً جب کہ وہ شخص بدعت کی طرف دعوت دیتا ہو تو لوگوں کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنا اور اس کے شر کو روکنا ڈاکوؤں اور راہ زنوں کے شر کو روکنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
جو شخص علمی و دینی مسائل پر اپنے اجتہاد سے اظہار خیال کرتا ہے وہ مجتہد کا حکم رکھتا ہے وہ خطاکار بھی ہو سکتا ہے اورحق پر بھی۔ بعض اوقات زبان و قلم یا شمشیر و سنان کے ساتھ اختلاف کرنے والے دونوں اشخاص مجتہد ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ، بعض دفعہ وہ دونوں خطاء پر ہوتے ہیں اور ان کو بخش دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم صحابہ کرامؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں بیان کر چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مشاجرات صحابہؓ و تابعینؒ پر اظہارِ خیال کرناممنوع ہے۔
جب دو مسلمان کسی بات میں جھگڑ پڑیں اور وہ معاملہ رفت گزشت ہو جائے اور لوگوں کا اس سے کچھ تعلق نہ ہو اور نہ وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں تو اس پر اظہار رائے کرنا بلا علم و عدل ہو گا جس سے انہیں بلا وجہ ایذا پہنچے گی۔ اور اگر لوگ جانتے ہوں کہ وہ دونوں گناہ گار یا خطا کار تھے تو بلا مصلحت اس کا ذکر کرنا بدترین قسم کی غیبت ہے۔ چونکہ صحابہؓ کی عزت و حرمت اور ناموس و آبرو دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ ہے اور ان کے فضائل و مناقب احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ، اس لیے ان کے باہمی تنازعات کو موضوع گفتگو بنانا دوسرے لوگوں کی مذمت بیان کرنے کی نسبت بہت بڑا گناہ ہے۔
اگر سوال کیا جائے کہ: اہلِ سنت روافض کو برا بھلا کہتے اور ان کے عیوب و نقائص بیان کرتے ہیں تو ان کے لیے ایسا کرنا کیونکر روا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی متعین آدمی کا نام لے کر اس کی مذمت بیان کرنا اور چیز ہے، اور کسی گروہ کی مذمت بحیثیت گروہ چیزے دیگر۔نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے بعض گروہوں پر لعنت فرمائی ۔
جیساکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو خود شراب پر؛ اس کے پینے والے پر؛ اور شراب نچوڑنے والے اور نچڑوانے والے، فروخت کرنے والے، خریدنے والے، اٹھانے والے اور جس کی خاطر اٹھائی جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر۔‘‘[یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے]
[ رسول اللہﷺ نے فرمایا]:
’’اللہ کی لعنت ہو سود کھانے والے پر اور کھلانے والے پر، سود لکھنے والے پراور اس کی گواہی دینے والوں پر۔‘‘[صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر:1600]
[ رسول اللہﷺ نے فرمایا]:
’’ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو زمین کے نشانات تبدیل کرنے والے پر۔ ‘‘[مسلِم:3؍1467 کتاب الأضاحِیِ، باب تحرِیمِ الذبحِ لِغیرِ اللہ تعالیٰ ولعنِ فاعِلِہِ ....؛ والحدِیث فِی سننِ النسائِیِ: 7؍204؛ کتاب الضحایا، باب من ذبح لِغیرِ اللّٰہِ عز وجل، المسند ط۔ المعارِفِ:6؍156، والحدِیث بِمعناہ عنِ ابنِ عباس رضِی اللّٰہ عنہما فِی: المسندِ ط۔المعارِفِ:3؍266۔]اورفرمایا: ’’ مدینہ عیر سے ثور تک حرم ہے جو شخص اس جگہ میں کوئی بات نکالے یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کی فرض عبادت مقبول ہے اور نہ نفل۔‘‘[البخارِیِ:3؍20کِتاب فضائِلِ المدِینۃِ، باب حرمِ المدِینۃِ، و فِی مسلِم:6؍994؛ ِکتاب الحجِ، باب فضلِ المدِینۃِ، وہو سننِ أبِی داؤود والتِرمِذِیِ والنسائِیِ ومسندِ أحمد۔]رسول اللہﷺ نے فرمایا]: ’’قوم لوط کا عمل کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘[المسندِ ط۔المعارِفِ:3؍266وصحح أحمد شاکِر رحِمہ اللہ الحدِیث، وکذلکِ الأحادِیث الأخر رقم:2817، 2915، 2916، 2918۔ وأورد التِرمِذِی فِی سننِہِ:3؍9کتاب الحدودِ، باب ما جا فِی حدِ اللوطِیِ حدِیثاً عن عمرِو بنِ أبِی عمرو ونصہ:(( ملعون من عمِل عمل قومِ لوط۔))]
رسول اللہﷺ نے فرمایا:]
’’ ان مردوں میں سے مخنثین پر لعنت ہو ؛ اور ان عورتوں پر لعنت ہوجو مردوں کی سی صورت اختیار کرتی ہیں ۔‘‘[فِی البخارِیِ:7؍159 کتاب اللِباسِ، باب ِإخراجِ المتشبہین مِن الرِجالِ بِالنِسائِ، سنن الترمذی:4؍194کِتاب الِاستِئذانِ، باب ما جاء فِی المتشبہات بِالرِجالِ مِن النِسائِ، وہو فِی سننِ الدارِمِیِ:2؍280کتاب الِاستِئذانِ، باب لعنِ المخنثِین والمترجِلاتِ، المسند ط۔المعارِفِ:3؍305]
[ نبی کریمﷺ نے فرمایا] :’’ جس شخص نے اپنے مولی کی اجازت کے بغیر کسی سے ولا کا معاملہ کیا تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے قیامت کے روز اس کی نہ فرض عبادت قبول ہوگی اور نہ نفل عبادت۔‘‘[أبو داود فِی سننِہ:4؍449؛ کِتاب الأدبِ، باب فِی الرجلِ ینتمِی ِإلی غیرِ موالِیہِ ؛ و فِی المسندِ ط۔المعارِفِ جلد:9 الأرقام: 1454، 1497، 1499، 1504، 1553وانظرِ المسند ط۔ الحلبِیِ:5؍267وقد صحح الألبانِی حدِیث أنس وسعدِ بنِ بِی وقاص فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ:5؍233۔]اور فرمان الٰہی ہے:
﴿لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَoالَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ یَبْغُوْنَہَا عِوَجًا ﴾(الاعراف:44۔45)
’’ظالموں پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔جو اللہ کے راستے سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں ۔‘‘
کتاب و سنت بدکردار لوگوں اور ان کے افعال کی قباحت و مذمت سے لبریز ہیں ۔ جس کا مقصد اس فعل شنیع سے باز رکھنا اور یہ بتانا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والا وعید شدید کا مستوجب ہو گا۔
علاوہ ازیں جس گناہ کو آدمی گناہ تصور کرتا ہے، اس سے تائب ہو جاتا ہے، مگر مبتدعین مثلاً خوارج و نواصب جنہوں نے مسلمانوں میں بغض و عداوت کا دروازہ کھولا اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اور جو لوگ ان کی ایجاد کردہ بدعت میں ان کے ہم نوا نہیں ہوتے ان کی تکفیر کرتے ہیں ۔ اس لیے ان سے مسلمانوں کو ان ظالموں کی نسبت زیادہ ضرر لاحق ہو سکتا ہے جو حرام سمجھتے ہوئے ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔اگرچہ ان میں کسی ایک کی آخرت کی سزا تاویل کی وجہ سے خفیف ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود نبی اکرمﷺ نے ان سے جنگ وقتال کرنے کا حکم دیا؛ اور ظالم اور فاسق حکمران سے جنگ کرنے سے منع کیا۔ اس سلسلہ میں تواتر کے ساتھ صحیح احادیث موجود ہیں ۔
خوارج کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا:
’’ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز اور ان کے روزہ کے مقابلہ میں اپنے روزے کو ؛ اور ان کی تلاوت قرآن کے مقابلہ میں اپنی تلاوت کو حقیر سمجھوگے۔وہ قرآن پڑھیں گے، جو ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا۔ دین سے وہ ایسے نکل جائے گی، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے ؛ تم انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ تو انہیں قتل کرڈالو۔‘‘[فِی البخارِیِ:4؍137؛ کتاب الأنبِیائِ، باب قولِ اللّٰہِ عز وجل:﴿ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا ا﴾الآیۃِ، مسلِم:2؍741کتاب الزکاۃ، باب ذکِرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم، سنن أبِی داؤود:4؍335؛ کتاب السنۃِ، باب فِی قِتالِ الخوارِجِ، سنن النسائِیِ بِشرحِ السیوطِیِ: 5؍65؛ کتاب الزکاۃِ، باب المؤلفۃِ قلوبہم:7؍108؛ کتاب تحرِیمِ الدِمائِ، من شہر سیفہ ثم وضعہ فِی الناسِ المسنِد ط۔ المعارِفِ:7؍308عن عبدِ اللّٰہِ بنِ عمر وہو جزء مِن الحدِیثِ مع اختِلاف فِی اللفظِ۔]اور ایک روایت میں ہے: ’’ وہ بت پرستوں کو تو چھوڑ دیں گے؛ مگر اہلِ ایمان کو قتل کریں گے۔‘‘
حضرات انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا تھا :
’’ عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے[ اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو] پس تم صبر کرتے رہنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو ۔‘‘[صحیح مسلم؛ امارت اور خلافت کا بیان : ح:270 غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب....کے بیان میں]یعنی تم دیکھو گے تمہارے مالی حقوق تلف کئے جائیں گے؛ اور تمہارے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ مگر پھر بھی انہیں صبر کرنے کا حکم دیا؛ اور جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
ایک دوسری روایت میں ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ میرے بعد تم پر ایسے حکمران آئیں گے؛ جو تم سے اپنا حق مانگیں گے؛ اور تمہارا حق تمہیں ادا نہیں کریں گے۔‘‘عرض کی: یا رسول اللہﷺ!آپ ہمیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں ؟
تو آپ نے فرمایا:’’ تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کر دو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہنا۔‘‘[صحیح مسلم؛ امارت اور خلافت کا بیان : ح:271 غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب....کے بیان میں ۔]بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ سرور کائناتﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے امیر کی کوئی ایسی بات دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو اس پر صبر کرے، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا یقینا اس نے اپنی گردن سے اسلام کا طوق اتار پھینکا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے:’’ جو شخص حاکم کی اطاعت سے نکل گیا؛ اورجماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا، اور اسی حالت میں مرجاتا ہے، تووہ جاہلیت کی موت مرتا ہے ۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے حضرت عوف بن مالکؓ فرماتے ہیں : میں نے سنا کہ نبی اکرمﷺ فرمارہے تھے:
’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور جو تمہیں چاہتے ہوں تم ان کے حق میں دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے حق میں دعا کرتے ہوں ۔ تمہارے بد ترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہوں ، جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہوں ۔‘‘
ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! کیا ہم تلواریں لیکر ان پر ٹوٹ نہ پڑیں ؟تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جب تک وہ نماز کی پابندی کریں تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘
یہ تمام احادیث صحیح ہیں ۔ اور ان جیسی مزید احادیث بھی موجود ہیں ۔
نبی اکرمﷺ نے خوارج سے جنگ وقتال کرنے کا حکم دیا؛ اور ظالم اور فاسق حکمران سے جنگ کرنے سے منع کیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ظالم باغی نہیں ہوتا جس سے جنگ کرنا جائز ہو۔
اس کے جملہ اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ جاہ و مال کا بھوکا ظالم اکثر طور پر صرف اور صرف اپنی دنیا کی خاطر لڑتا[اور ظلم کرتا]ہے۔وہ لوگوں سے لڑتا اور قتال کرتا ہے تاکہ اسے حکومت اور مال دیا جائے۔ اوروہ ان پر ظلم نہ کرے۔ان سے لڑائی کا سبب یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کا دین سر بلند ہو۔ اور سارا دین صرف اللہ کے لیے ہی ہو جائے۔ اور نہ ہی ان سے لڑنا اور ڈاکؤوں اور راہزنوں سے قتال کی جنس سے ہے ؛ جن کے بارے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے؛ اور جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے ؛ وہ شہید ہے؛ ور جو اپنی عزت و آبرو کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ ‘‘[قال الدکتور رشاد سالم :لم أجِد عِبارۃ:(( ومن قتِل دون حرمتِہِ فہو شہِید،))۔ ولِکن وجدت حدِیثاً فِی قولِہِ ﷺ : ((من قتِل دون مالِہِ فہو شہِید، ومن قتِل دون دِینِہِ فہو شہِید۔)) والحدِیث عن سعِیدِ بنِ زید رضِی اللہ عنہ فِی: سننِ أبِی داؤد: 4؍339 ؛ کتاب السنۃِ باب فِی قِتالِ اللصوصِ،سنن الترمذی:2؍435،436؛ کِتاب الدِیاتِ، باب ما جاء من قتِل دون مالِہِ فہو شہِید، زاد فِی بعضِ الأحادِیثِ: (( ومن قتِل دون دمِہِ فہو شہِید۔)) وجاء الحدِیث مختصرا عن عبدِ اللہِ بنِ عمرو رضِی اللّٰہ عنہ سنن النسائِیِ:7؍105؛ کِتاب تحرِیمِ الدمِ، باب من قتِل دون مالِہِ عن عبدِ اللّٰہِ بنِ عمرو وعن سلیمان بنِ برید،سنن ابنِ ماجہ:2؍861؛ کتاب الحدودِ، باب من قتِل دون مالِہِ فہو شہِید، وجاء حدِیث عبدِ اللّٰہِ بنِ عمرو من قتِل دون مالِہِ فہو شہِید، فِی البخارِیِ:3؍136؛ کتاب المظالِمِ، باب من قاتل دون مالِہِ، مسلِم:1؍124،125کتاب الإِیمانِ، باب عن أن من قصد أخذ مالِ غیرِہِ بِغیرِ حق، المسند ط۔ المعارِفِ:3؍119۔]کیونکہ وہ تو تمام لوگوں سے دشمنی رکھتے ہیں ؛ اور تمام لوگ ان سے لڑنے میں باہم تعاون کرتے ہیں ۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے؛کہ بیشک وہ دشمنی رکھنے والے اور جنگ کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہے۔ تو پھر ولاۃ الامور کسی کام کے کرنے یا کچھ لینے پرقادر نہیں ہوسکتے۔ بلکہ وہ جنگ لڑ کر صرف لوگوں کا خون بہانا اور ان کا مال لینا چاہتے ہیں ۔ ڈاکو لوگ تو اپنی طرف سے عوام میں قتل و غارت شروع کرتے ہیں ؛ جبکہ حکمران رعایا کو شروع میں قتل نہیں کرتے۔ ان دونوں میں فرق کرنا چاہیے ؛ جس سے آپ اپنے دفاع میں لڑتے ہیں ؛ او رجس سے آپ اپنی طرف سے لڑائی شروع کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فتنے کی لڑائی میں اپنے دفاع میں لڑنا جائز ہے ؟ان معانی و آثار میں تعارض کی وجہ سے اس مسئلہ میں امام احمدؒ سے دو روایات منقول ہیں ۔
خلاصہ کلام! حکمرانوں کے خلاف بغاوت اس لیے کی جاتی ہے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں مال اور حکومت ہے؛ اسے اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔ یہ دنیا کے مال و اسباب کی وجہ سے قتال ہے۔حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے حضرت ابن زبیرؒ کے فتنہ کے متعلق ؛ قرآء کے حجاج کے ساتھ فتنہ کے متعلق ؛ اور شام میں مروان کے ساتھ فتنہ کے متعلق ؛ کہتے تھے: ’’ یہ اور یہ ؛ یہ تمام لوگ دنیا پر لڑ رہے ہیں ۔ جبکہ اہلِ بدعت جیسے خوارج وغیرہ؛ وہ لوگوں کے دین میں خرابی پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔پس ان سے جنگ لڑنا دینی جنگ ہے [دین کی وجہ سے جنگ لڑنا ہے]۔
مقصود کلام! ان لوگوں سے جنگ کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی ہوتا ہے تاکہ دین سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جائے۔ اسی لیے نبی کریمﷺ نے ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا؛ اور ظالم حکمرانوں سے لڑنے سے منع فرمایا ۔
اسی لیے حضرت علیؓ کا خوارج سے جنگ کرنا صریح نصوص ؛اور اجماع ِصحابہؓ و تابعینؒ ؛اور تمام علمائے اسلام رحمہم اللہ کے اجماع کی روشنی میں ثابت تھا۔اور جہاں تک جنگ جمل و صفین کی تعلق ہے ؛ تو وہ فتنہ کی جنگیں تھیں ۔ فضلائے صحابہؓ و تابعینؒ اور علمائے مسلمین ان جنگوں کو ناپسند کرتے تھے۔ جیسا کہ اس مؤقف پر نصوص بھی دلالت کرتی ہیں ۔ حتیٰ کہ جو لوگ ان جنگوں میں شریک ہوئے؛ وہ خود بھی اس امر کو ناپسند کرتے تھے۔ اور ان جنگوں کو ناپسند کرنے والے امت میں ان لوگوں کی نسبت افضل اور اکثر تھے جو ان جنگوں کی تعریف کرتے تھے۔
صحیحین میں کئی اسناد سے ثابت ہے کہ:
’’ ایک بار آنحضرتﷺ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ بنی تمیم کے ذوالخویصرہ نامی فرد نے کہا:یا رسول اللہﷺ ! ’’ انصاف سے تقسیم فرمایئے۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا :’’ تیری خرابی ہو میں عدل سے کام نہ لوں گا تو پھر کون عدل کرے گا۔‘‘ اور پھر فرمایا: ’’ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو؛ اور جو آسمانوں میں ہے وہ مجھے امین سمجھتا ہے ۔‘‘
حضرت عمرؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ ! اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔‘‘
آپﷺ نے فرمایا: ’’ ایسا نہ کرو؛ اس کی نسل میں ایسے ہوں گے کہ تم میں سے کوئی ایک ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھیں گے۔‘‘[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر:861۔میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے؛ فرماتے ہیں : ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپﷺ کچھ مال تقسیم کر رہے تھے کہ آپﷺ کے پاس ذوالخویصرہ جو قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص تھا حاضر ہوا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! انصاف کیجئے! آپﷺ نے فرمایا تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں گا تو کون ہے جو انصاف کرے گا؟ اگر میں انصاف نہ کروں تو بہت ناکام و نامراد ہوں گا حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں فرمایا اس کو رہنے دو اس کے چند ساتھی ایسے ہیں جن کی نمازوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے۔ اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزہ کو کمتر وہ قرآن کی تلاوت کریں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے اس کے پکڑنے کی جگہ دیکھی جائے تو اس میں کوئی چیز معلوم نہ ہوگی۔ اس کے پر دیکھے]رسول اللہﷺ کا یہ کلام مبارک ان اہلِ بدعت کے بارے میں ہے جو بڑے عبادت گزار تھے۔اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ :’’ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے زمانے میں شراب پیا کرتا تھا۔جب بھی اسے لایا جاتا تو اسے شراب پینے کے سبب کوڑے لگوائے جاتے تھے۔ ایک دن پھر نشہ کی حالت میں لایا گیا ؛تو قوم میں سے ایک شخص نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، کسی قدر یہ [نشہ کی حالت میں ] لایا جاتا ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا :’’ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘[جائیں تو ان میں کوئی چیز معلوم نہ ہوگی۔ اس کے پر اور پکڑنے کی جگہ کے درمیانی مقام کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز دکھائی نہ دے گی حالانکہ وہ گندگی اور خون سے ہو کر گزرا ہے ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک سیاہ آدمی ہوگا اس کا ایک مونڈھا عورت کے پستان یا پھڑکتے ہوئے گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگا جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو یہ ظاہر ہوں گے۔ حضرت ابوسعیدؓ کہتے ہیں کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی کریمﷺ سے سنی ہے اور یہ کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب نے ان لوگوں سے جنگ کی ہے۔ میں ان کے ساتھ تھا انہوں نے حکم دیا وہ شخص تلاش کر کے لایا گیا میں نے اس میں وہی خصوصیات پائیں جن کو نبی کریمﷺ نے اس کی بابت بیان فرمایا تھا۔مزید دیکھیں : فِی البخارِیِ:4؍200؛ کتاب المناقب، باب علاماتِ النبوۃِ، مسلِم:2؍744؛ کتاب الزکاۃ، باب ذِکرِ الخوارِجِ وصِفاتِہِم المسند ط۔الحلبِیِ :3؍65، وانظر جامِع الأصولِ لِابنِ الأثِیرِ: 10؍436؛ سنن ابنِ ماجہ:1؍60؛ المقدِمۃ باب فِی ذِکرِ الخوارِجِ۔ صحیح بخاری۔ کتاب الأذان، باب(126)، (ح:797,804,456)، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات (ح: 676،675)۔]تو آپﷺ نے اس متعین مئے نوش پر لعنت کرنے سے منع فرمایا۔ اور اس بات کی گواہی دی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ سے محبت کرتا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر شراب نوش پر لعنت وارد ہوئی ہے۔ یہاں سے عام مطلق اور خاص معین میں فرق واضح ہوتا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ گنہگار جو اپنے گناہوں کے معترف ہیں ان کا ضرر مسلمانوں پر ان اہلِ بدعت کی نسبت بہت کم ہوتا ہے جو اپنی طرف سے بدعت ایجاد کرتے ہیں ؛ اور پھر اس کی وجہ سے اپنے مخالفین کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں ۔
روافض کی بدعت خوارج کی نسبت زیادہ سخت ہوتی ہے۔وہ ایسے لوگوں کو بھی کافر کہتے ہیں ؛ جنہیں خوارج بھی کافر نہیں کہتے۔ جیسے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما۔ اور نبی کریمﷺ اور حضرات صحابہؓ پر ایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ ایسا جھوٹ کسی دوسرے نے کبھی نہ بولا ہوگا۔خوارج جھوٹ نہیں بولتے۔ خوارج روافض کی نسبت زیادہ بہادر؛ سچے اور وعدہ وفا کرنے والے؛ مرد میدان اور بڑے جنگجو تھے۔جب کہ ان کے مقابلہ میں رافضی نہایت جھوٹے، حد درجہ بزدل، بد عہد اور نہایت ذلیل ہوا کرتے تھے۔ شیعہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار تک سے مدد لینے سے گریز نہیں کرتے۔ہم نے بھی دیکھا ہے اور مسلمانوں نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جب کبھی مسلمانوں پر کڑا وقت آیا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف ان کے دشمن کفار کا ساتھ دیا۔ جیسا کہ کافر تاتاری بادشاہ چنگیز خاں کے زمانہ میں ہوا۔رافضیوں نے مسلمانوں کے خلاف اس کی بھر پوری مدد کی تھی۔
ایسے ہی جب چنگیز خاں کا پوتا ہلاکو خاں خراسان اور عراق و شام کے علاقہ میں آیا تو شیعہ نے اعلانیہ اور خفیہ ہر طرح سے اس کی مدد کی۔ یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے اور کسی کو اس سے مجال انکار نہیں ؛ اور نہ ہی کسی پر کوئی بات پوشیدہ رہ گئی ہے۔عراق اور خراسان میں ظاہری وباطنی طور پر شیعہ نے کھل کر ان کا ساتھ دیا۔
اس وقت [شہرہ آفاق شیعہ مورخ مرزا محمد باقر خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات طبع ثانی کے صفحہ:578،پر نصیر الدین طوسی کے حالات زندگی میں لکھا ہے: خواجہ نصیر الدین کی زندگی کا مشہور ترین واقعہ یہ ہے کہ وہ عظیم تاتاری سلطان اور اپنے دَور کے پر شوکت و حشمت فاتح ہلاکو خاں بن تولی خاں بن چنگیز خان کی ملاقات کے لیے ایران پہنچا اور پھر وہاں سے اس کے موید و منصور لشکر کی معیت میں ارشاد عباد، اصلاح بلاد اور قطع فساد کے لیے بغداد پہنچا۔ اس کا مقصد بنی عباس کی حکومت کو ختم کرنا اور ان کے اتباع کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ چنانچہ خواجہ طوسی اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور بغداد میں عباسیوں کے ناپاک خون کی ندیاں بہادیں ۔‘‘ مذکورہ بالا اقتباس میں شیعہ مورخ نے شیخ روافض خواجہ طوسی کے مشہور سفاک ہلاکو خاں کے یہاں آنے کو ارشاداً للعباد و اصلاحاً للبلاد قرار دیا ہے ۔ وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ اس آمد کا مقصد وحید یہ تھا کہ سب سے بڑے اسلامی دارالخلافہ میں خون کی ندیاں بہا دی جائیں ۔ مرزا محمد باقر اس بات پر فخر و مباہات کا اظہار کرتا ہے کہ ہلاکو خاں نے سفاکی و خونریزی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جو مسلمان اس کی سفاکی کا شکار ہوئے وہ سب جہنمی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بت پرست ہلاکو اور اس کا رافضی ہادی و مرشد خواجہ طوسی دونوں قطعی جنتی ہیں ۔ اس سے شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ کے بیان کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ ہم قبل ازیں شیعہ مورخ کے قول کی جانب اشارہ کر چکے ہیں ، اب ضرورت کے پیش نظر تفصیلاً اس کا اقتباس نقل کیا گیا ہے۔مزیددیکھیں : فِی تارِیخِ ابنِ الأثِیرِ:12؍137؛ البِدایِۃ والنِہایۃِ:13؍86؛ وقد توفِی جنکیِزخان سن:624ھ۔ وانظر عنہ: البِدایۃ والنِہایۃ:13؍117؛ دائِرۃ المعارِفِ الإِسلامِیِ مقالۃ بارتولد۔]خلیفہ بغداد کا وزیر ابن علقمی[اس کا نام محمد بن احمد بغدادی ہے۔ یہ ابن علقمی کے نام سے مشہور تھا۔ یہ 656ھ میں فوت ہوا۔ نوجوانی میں یہ شیعہ ادباء میں شمار ہوتا تھا۔ اہلِ سنت نے اس کے بارے میں تساہل سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مناصب جلیلہ طے کرتے کرتے خلافت عباسیہ میں وزارت کے عہدہ تک پہنچا اور چودہ سال تک اس پر فائز رہا۔ آخری عباسی خلیفہ المستعصم نے ابن العلقمی پر اس قدر اعتماد کیا کہ جملہ امور سلطنت اسے تفویض کر دیے۔ جب صنم پرست ہلاکو خاں کا لشکر بلاد ایران میں داخل ہوا تو ابن العلقمی نے اسے بغداد پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا، ابن العلقمی کو امید تھی کہ خلافت عباسیہ کے سقوط کے بعد ہلاکو خاں کسی شیعہ کو امام یا خلیفہ مقرر کرے گا۔ ہلا کو خاں قوم تاتار کرج کے دو لاکھ سپاہیوں کو لے کر بغداد پر حملہ آور ہوا۔ ابن علقمی نے خلیفہ مستعصم کو دھوکہ دے کر ہلاکو خاں کے کام کو بڑی حدتک آسان کر دیا۔ جب ہلاکو نے اپنی فوج کو بغداد کی شرقی و غربی جانب اتار دیا۔ ابن علقمی نے خلیفہ سے صلح کی سلسلہ جنبانی کے لیے خلیفہ سے ہلاکو خاں کو ملنے کی اجازت مانگی۔ جب ابن علقمی ہلاکو کو اپنی وفا شعاری اور خلافت عباسیہ سے خیانت کاری کا یقین دلا چکا تو خلیفہ کے پاس لوٹ کر واپس آیا اور کہنے لگا: ہلاکو اپنی بیٹی کا نکاح خلیفہ کے بیٹے ابوبکر سے کرنا چاہتا ہے ۔نیز ہلاکو کی خواہش ہے کہ وہ سلجوق سلاطین کی طرح خلیفہ کے زیر اثر رہے۔ خلیفہ علماء و رؤسا اور اعیان حکومت کی معیت میں بزعم خود اپنے بیٹے کو بیاہنے کے لیے ہلاکو کی جانب چل دیا۔]بھی شیعہ تھا’’ وہ ہمیشہ خلیفہ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتا رہتا۔‘‘اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ مسلمانوں کو زک پہنچے۔ اس نے اسلامی لشکر کے سپاہیوں کی تنخواہیں بند کر دیں ۔ اور انہیں ہر طرح سے کمزور کیا۔اور انہیں تاتاریوں سے جنگ کرنے سے روکتا رہتا تھا۔ضرر رسانی کے لیے وہ طرح طرح کے حیلے اختیار کیا کرتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کافر تاتاری بغداد میں داخل ہو گئے اور انھوں نے دس لاکھ یا اس سے کم و بیش مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسلام میں تاتاری کفار کی جنگ سے بڑھ کر کوئی لڑائی نہیں لڑی گئی۔ تاتاریوں نے ہاشمیوں کو تہ تیغ کرکے عباسی اور غیر عباسی سب خواتین کو قیدی بنا لیا۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ جو شخص کفار کو مسلمانوں پر مسلط کرکے انھیں قتل کرتا اور مسلم مستورات کو قیدی بنانے میں مدد دیتا ہے کیا ایسا شخص محب آل رسول ہو سکتا ہے؟
شیعہ حجاج بن یوسف ثقفی پر یہ بہتان لگاتے ہیں کہ اس نے سادات کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ حالانکہ سفاک ہونے کے باوصف حجاج نے کسی ہاشمی کو قتل نہیں کیا تھا۔ البتہ بنی ہاشم کے علاوہ دیگر عرب شرفاء کو اس نے ضرور قتل کیا تھا۔ حجاج نے ایک ہاشمی خاتون بنت عبداللہ بن جعفر سے نکاح کیا تھا، مگر بنو امیہ نے مجبور کرکے بدیں وجہ تفریق کرادی کہ حجاج ایک شریف ہاشمی سیدزادی خاتون کا ہمسرو برابر نہیں ہو سکتا۔
ایسے ہی بلاد شام میں جو رافضی پائے جاتے ہیں ‘ ان میں سے جنہیں قوت و طاقت حاصل تھی وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین و نصاری اور اہلِ کتاب کفار کی مدد کیا کرتے تھے۔اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کرتے ‘ انہیں قیدی بناتے اور ان کے اموال پر قبضہ کرلیتے۔
جب کہ اس کے برعکس خوارج نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔ بلکہ وہ لوگوں سے جنگیں لڑا کرتے تھے۔ نہ ہی وہ کفار کو مسلمانوں پر مسلط کرنے میں ان کی مدد کرتے اور نہ ہی اہل کتاب یہو د و نصاری اور مشرکین کے ساتھ کوئی تعاون کرتے۔
رافضیوں میں زندیق ؛ ملحد اور منافقین شامل ہوگئے تھے جیسے اسماعیلیہ ؛ نصیریہ وغیرہ۔اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی رافضیوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے جو خوارج کے لشکر میں داخل نہ ہوسکے تھے۔اس لیے کہ خوارج بہت عبادت گزار اور اہل ورع لوگ ہوا کرتے تھے۔یہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے نبی کریمﷺ نے ان کے بارے میں خبر[جب لوگ خلیفہ کی رفاقت میں ہلاکو کے یہاں پہنچے تو اس نے سب کو تہ تیغ کرنے کا حکم دیا پھر لشکر نے شہر میں داخل ہو کر قتلِ عام کا بازار گرم کیا۔ مسلسل چالیس دن تک قتل و غارت جاری رہا۔ کہا گیا ہے کہ ہلاکو نے جب مقتولوں کو شمار کرنے کا حکم دیا تو وہ دس لاکھ اسی ہزار نکلے۔ جو مقتول شمار نہ کیے جا سکے ان کی تعداد اس سے کئی گنا زائد تھی۔اللہ کا دشمن ابن علقمی اپنے مقاصد میں ناکام رہا۔ اور شیعہ حکومت قائم کرنے سے متعلق اس کی آرزو بر نہ آئی۔ خیانت پیشہ لوگ ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھا کرتے ہیں ، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ ہلاکو اسے حقیر سمجھنے لگا اور اس کی حیثیت تاتاریوں میں ایک غلام سے زیادہ نہ تھی بعد ازاں ابن العلقمی یہ مصرعہ گنگنایا کرتا تھا: و جَرَی الْقَضائُ بِعَکْسِ مَا اَقَلْتُہٗ(تدبیر کند بندہ تقدیر کندخندہ) پھر افسردگی کی حالت میں جہنم واصل ہوا۔ شیعہ مورخ بڑے فخر یہ انداز میں اس عظیم حادثہ کا ذکر کرتا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کے خوگر ہیں اور مسلمانوں کو بغض و عناد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ نے فرمایا ہے۔‘‘