Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کا اسماعیلی فرقہ آغا خانی شیعوں کا مختصر تعارف

  علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ

شیعہ کا اسماعیلی فرقہ

آغا خانی شیعوں کا مختصر تعارف

الحمد لله و سلام علىٰ عباده الذين اصطفىٰ اما بعد

سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ (148ھ) کے بڑے بیٹے کا نام اسماعیل تھا انہی کے نام سے اسماعیلی فرقہ موسوم ہوا، شیعہ کے مقتدر فرقوں میں دو فرقے بڑے ہیں،1: اثناء عشری شیعہ بارہ اماموں والے اور 2:آغا خانی شیعہ حاضر امام والے، آغا خانی شیعوں کا دوسرا نام اسماعیلی شیعہ بھی ہے، بوہرہ فرقہ ان دو کے علاوہ ہے اور یہ بڑا فرقہ نہیں۔

اسماعیلی شیعہ کفر و شرک میں شیعوں کے تمام فرقوں سے آگے ہیں لیکن معاشرتی طور پر وہ مسلمانوں کے لیے کبھی بد امنی کا سبب نہیں بنے، نہ کبھی انہوں نے برصغیر میں اہلِ سنت سے کوئی کھلا تصادم کیا ہے وہ محرم میں اپنے ماتمی جلوس نہیں نکالتے نہ اہلِ سنت آبادیوں میں جا کر ان کے سامنے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا احتجاجی ماتم کرتے ہیں۔

  1.  خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف نفرت پھیلانا اور ان سے اظہار بیزاری (تبراء) کرنا ان کے اصول مذہب سے نہیں جب کہ اثناء عشریوں کے تمام رسائل و جرائد اور ان کے سب ذاکرین و مجتہدین دن رات خلفائے ثلاثہؓ کے خلاف ہر وہ بات نکالتے ہیں جن سے ان کی عزت مجروح ہو اور اپنی نماز کے اختتام پر انہیں چار مردوں اور چار عورتوں پر لعنت کرنی پڑتی ہے۔ استغفر اللہ 
  2.  اسماعیلی عام مسلمانوں میں رشتہ نکاح نہیں کرتے، ان کی اپنی معاشرت ہے اور وہ اسی دائرہ میں رہتے ہیں مسلمانوں کے سیاسی امور میں وہ کبھی فریق نہیں بنتے ہاں قومی سطح پر ان کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہیں، جب کبھی ان پر کوئی آفت آئی یہ ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔
  3.  یہ اپنے مذہب کے فیصلے پہلوں سے یا کتابوں سے نہیں لیتے یہ اپنے فیصلے اپنے حاضر امام سے لیتے ہیں، مذہبی امور میں ان میں سب سے زیادہ لچک پائی جاتی ہے، حالات کے مطابق ان کے حاضر امام جب کروٹ بدلیں ان کے لیے وہ ایک مذہبی راہ ہے جو ان کی سہولت کے لیے اختیار کی گئی ہے۔
  4.  اثناء عشریوں کے ساتھ یہ چھٹے امام تک چلتے ہیں لیکن وہ ان (اثناء عشریوں) کی کتابوں کو درست نہیں مانتے، اثناء عشریوں کے ساتویں امام موسیٰ کاظم (183ھ) ہیں اور ان اسماعیلیوں کے ساتویں امام موسیٰ کاظم کے بڑے بھائی اسماعیل ہیں۔
  5.  اثناء عشریوں کا سلسلہ امامت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے شروع ہوتا ہے لیکن اسماعیلیوں کا سلسلہ امامت سیدنا حسنؓ سے چلتا ہے، وہ سیدنا علیؓ کو پہلا امام نہیں مانتے کہ وہ حضور اکرمﷺ کی اولاد میں سے نہیں، ان کے عقیدہ میں امامت صرف اولادِ سیدہ فاطمہؓ کے لیے ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہ وصی کہتے ہیں امام نہیں حضورﷺ کے بعد انہیں آپ کا جانشین مانتے ہیں امام نہیں مانتے، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہلا امام مانتے ہیں لیکن وہ سیدنا حسنؓ کو امامت میں نہیں لیتے کہ انہوں نے امامت سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تھی۔

سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ کے بڑے بیٹے اسماعیل اپنے والد کی زندگی میں فوت ہوئے اس لیے ان کے دوسرے بیٹے موسیٰ کاظم اپنے والد کے بعد ساتویں امام ہوئے، اسماعیلیوں میں ایک رائے یہ بھی چلی آ رہی ہے کہ وہ فوت نہ ہوئے تھے قتل سے بچنے کے لیے کہیں روپوش ہو گئے تھے اور ان کے والد نے ان کی موت مشہور کرا دی تھی تاکہ عباسی انہیں قتل نہ کر سکیں، والد کی وفات کے بعد یہ ظاہر ہوئے تھے اور چھٹے امام کے طور پر معروف ہوئے، ان کے بعد ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل ساتویں امام ٹھہرے، انہیں فرقہ اسماعیلیہ میں سابع النطقاء کہا جاتا ہے۔

خیر الدین زرکلی لکھتا ہے:

وفى الاسماعيلية من يرى ان اباه اظهر موته تقية لمن لا يقصده العباسيون بالقتل۔

(الاعلام: جلد،1صفحہ،311)

ترجمہ: عباسیوں میں ایسے لوگ بھی ہوئے جن کی رائے تھی کہ سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ نے بطور تقیہ ان کی موت مشہور کرا دی تھی تاکہ عباسی انہیں قتل نہ کر سکیں۔

صامت اور ناطق کی دو اصطلاحیں:

یہ شریعیت کو صامت مانتے ہیں، صامت کے معنیٰ ہیں چپ اور خاموش اور یہ امام کو ناطق کہتے ہیں، شریعیت خاموش ہے اور امام اس کی طرف سے بولتا ہے اور زمین پر وہ الٰہی سلسلے کا نمائندہ ہے ان کے ہاں امام کے لیے سیاسی اقتدار ضروری نہیں گو یہ مغرب افریقہ اور مصر میں کچھ وقت برسرِ اقتدار بھی رہے۔

اسماعیلی سلسلہ امامت:

  1. سیدنا حسنؓ (49ھ)
  2. سیدنا حسینؓ (61ھ)
  3. سیدنا زین العابدینؒ (94ھ)
  4. سیدنا محمد باقرؒ (114ھ)
  5. سیدنا جعفر صادقؒ (148ھ)
  6. سیدنا اسماعیلؒ (158ھ)
  7. سیدنا محمد بن اسماعیلؒ (197ھ)

اسماعیلیوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوئے جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو امام نہیں مانتے، سلسلہ امامت سیدنا علیؓ سے شروع کرتے ہیں ان کے ہاں دو بھائی ایک سلسلہ میں جمع نہیں ہو سکتے ان کے ہاں دوسرے امام سیدنا حسینؓ تھے، ساتواں امام یہ بھی محمد بن اسماعیل کو مانتے ہیں، آغا خانی تاریخ نورِ مبین جو تیسرے آغا خاں کے دور ہی لکھی گئی میں سیدنا حسنؓ کا نام نہیں ہے۔

اسماعیلیوں کے دورِ ستر کے پانچ امام:

اسماعیلیوں کا دورِ ستر ان کے چھٹے امام اسماعیل سے شروع ہوتا ہے اور اس دور میں ان کے پانچ امام ہوئے

  1. اسماعیل (158ھ) 
  2. محمد بن اسماعیل المکتوم (197ھ)
  3. عبد اللہ بن محمد (212ھ)
  4. احمد بن عبد اللہ تقی (235ھ)
  5. حسن بن احمد (268ھ)

ان اںٔمہ کے دورِ ستر میں ان کے معتقدین تک ان کی طرف سے داعی پہنچتے رہے اور انہیں ان اماموں کی طرف سے ہدایات دیتے تھے۔ سیدنا اسماعیل اور محمد بن اسماعیل کے دور میں عبداللہ بن میمون ان کے داعی اکبر رہے، وہ اس سلسلہ اسماعیلیہ کے بانی شمار ہوتے ہیں۔ 

عبداللہ بن میمون فارسی النسل تھا اور وہ عربوں میں تفریق پیدا کرنے میں کامیاب ہوا۔

اسماعیلیوں کے دورِ ظہور کے آٹھ امام:

  1. عبداللہ المہدی (297ھ)
  2. القائم بامر اللہ ابو القاسم (334ھ)
  3. المنصور باللہ ابو الطاہر (341ھ)
  4. المعز لدين اللہ ابو تمیم معد (365ھ)
  5. العزيز باللہ ابو منصور (386ھ) 
  6. الحاكم باللہ ابو علی الحسین (411ھ)
  7. الظاہر لاعزاز دین اللہ (473ھ) 
  8. المستنصر باللہ ابو تميم معد (487ھ)

اسماعیلیوں کے ان آٹھ اماموں کو یکے بعد دیگرے حکومت کا موقع ملا، 436ھ تک یہ مغرب اور افریقہ میں حکمران رہے پھر مصر میں بھی ان کی حکومت بنی جو 567ھ تک رہی، انہیں خلفاء فاطمیہ بھی کہا جاتا ہے، مؤرخین اسے پہلے امام عبداللہ المہدی کی نسبت سے عبیدیین بھی کہہ دیتے رہے ہیں، یہ فاطمی تھے یا نہیں اس پر ہم آگے چل کر کچھ کلام کریں گے۔

اسماعیلی دو شاخوں میں،1: مستعلیہ 2: نزاریہ

مستنصر باللہ ابو تمیم معد کے بعد اس کے دو بیٹوں سے اسماعیلیوں کی دو شاخیں ہو گئیں بڑا بیٹا نزار تھا مگر افواج اس کے چھوٹے بیٹے مستعلی کے حق میں تھیں، نزار نے اپنے چھوٹے بھائی مستعلی کو امام نہ مانا حسن بن الصباح نے قلعہ الموت میں ایک چھوٹی سی سلطنت قائم کر لی اور وہاں پر المصطفیٰ الدین اللہ کے لقب سے اس نے نزار کی امامت کا اعلان کر دیا، نزار وہاں سے اسکندریہ گیا اور وہاں اپنی حکومت قائم کر لی نزاری سلسلہ سے اسماعیلیوں کے نو امام ہوئے نویں امام رکن الدین خورم کو تاتاریوں نے شکست دی، رکن الدین کے قتل کے بعد نزاری سلسلہ کے اسماعیلی ایران چلے گئے، وہاں ان کے اٹھارہ امام ہوئے لیکن وہاں یہ کوئی حکومت قائم نہ کر سکے۔

نزاریوں کے نو اسماعیلی امام:

  1. نزار بن مستنصر (490ھ)
  2. ہادی بن نزار (530ھ)
  3. مہدی بن ہادی (552ھ)
  4. قاہر بن مہدی (557ھ)
  5. حسن بن علی (561ھ)
  6. علی محمد (607ھ)
  7. جلال الدین حسن (618ھ)
  8. علاء الدین محمد (653ھ)
  9. رکن الدین خورم شاه

ایران میں ان کے اٹھارہ امام ہوئے وہاں ان کے بارہویں امام خلیل اللہ علی ایک ہنگامے میں قتل ہو گئے، ایران میں ان دنوں قاچاری خاندان کی حکومت تھی، حکومت نے ان سے تعاون چاہا تو فتح علی قاچار نے خلیل اللہ علی کے دو سال کے بیٹے حسین علی کو آغا خاں کا خطاب دیا مگر یہ مدارات زیادہ دیر تک نہ رہ سکی یہاں تک کہ ان اسماعیلیوں نے اب ہندوستان کا رخ کیا اور بمبئی کو اپنا مرکز بنایا یہ لوگ یہاں آغا خاں کے نام سے معروف ہوئے۔

بمبئی کے آغا خانی حضرات:

حسن علی پہلا آغا خاں شمار ہوتا ہے اس کا بیٹا علی شاہ (1302ھ) دوسرا آغا خاں ہوا تیسرا آغا خاں سلطان محمد شاه (1376ھ) ہوا، چوتھا آغا خاں ان کا حاضر امام آغا کریم ہے۔

یہ لفظ حاضر امام بہ مقابلہ غاںٔب امام اختیار کیا گیا ہے، اثناء عشری شیعہ اپنے بارہویں امام کو کسی غار میں قیام پذیر مانتے ہیں جو اپنے پیروؤں سے غائب ہیں، امام غائب کے تصور سے اسماعیلیوں نے امام حاضر کی اصطلاح قائم کی ہے، اثناء عشری کہتے ہیں کہ ان کے بارہویں امام کسی وقت امام مہدی کے نام سے ظہور کریں گے اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم کریں گے۔

اسماعیلیوں کے یہ حاضر امام آغا کریم ان کے انچاسویں نمبر کے امام ہیں، اگلے امام حاضر پر ان کی گنتی نصف صدی پر پہنچ جائے گی۔

ائمہ مستورین اور ان کے پیروؤں میں دعاۃ کا سلسلہ:

اثناء عشری عقیدے میں ان کے امام غائب ایران کے کسی غار میں قیام پذیر ہیں اور ان کے اور ان کے عام پیروؤں کے مابین دعاۃ کا آنا جانا ہے، اسی طرح اسماعیلیوں کے دورِ ستر کے اماموں اور ان کے پیروں میں بھی دعاۃ کا آنا جانا رہا، ان میں بڑا داعی داعیِ اکبر کہلاتا تھا، یہ داعی حضرات ان اںٔمہ کے نام سے جو چاہتے کہتے اور کرتے اور ان کی عام پیروی کی جاتی اور جس کو جو کہنا ہوتا امام کے نام پر کہہ دیا جاتا، اس صورتِ حال پر نظر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اثناء عشری ہوں یا اسماعیلی ان کا یہ دین اںٔمہ کرام کا نہیں بلکہ یہ داعیوں کی اپنی پسند اور نا پسند ہے جیسے آخر ایک مذہب کی شکل دے دی گئی، اہلِ سنت تو مستور الحال راوی کی روایت بھی نہیں لیتے چہ جائیکہ مستور الحال اںٔمہ کرام خدا کے بندوں پر خدا کی حجت ٹھہرا دیںٔے جائیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اسماعیلی عقائد داعی اکبر میمون القداح اور اس کے بیٹے عبداللہ بن میمون نے ہی ترتیب دیے، اسماعیلیوں کی کتاب نور المبین میں ہے، عبداللہ بن میمون ایک جلیل القدر داعی تھے، آپ سیدنا سلیمان الفارسیؓ کی نسل سے تھے اور جید عالم تھے، عبداللہ بن میمون اور ان کے والد ابو میمون سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ کے عاشق تھے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی ان کی غلامی میں بسر کی، اس کا نتیجہ تھا کہ وہ داعی اکبر کے درجہ کو پہنچے اور اسماعیلی سلسلہ کے درجہ باب سے بھی مشرف ہوئے۔ (نورِ مبین: صفحہ، 128)

میمون نے اسماعیلی دعوت کے نو نمبر مقرر کیے جب تک کوئی شخص پہلے مراتب طے نہ کر لے اس پر اگلا نمبر نہیں کھلتا، یہ اس طرح ہے جس طرح جماعت اسلامی میں کوئی شخص جماعت میں آتے ہی ممبر نہیں بن جاتا تھا بلکہ کچھ عرصہ اسے متفقین میں رہنا پڑتا تھا یہ ہر نو وارد سے پوچھتے تھے آپ متفقین سے ہیں یا ممبروں سے یہ ترتیب انہوں نے غالباً اسماعیلیوں سے لی ہے۔

عبداللہ بن سبا بھی اپنے وقت میں ایک بڑا داعی تھا اس وقت ابھی اثناء عشری مذہب مرتب نہ ہوا تھا لیکن شیعہ خیالات پیدا ہونے شروع ہو چکے تھے اس نے سیدنا عثمانؓ کے امراء کے خلاف ایسی خفیہ تحریک چلائی کہ بالآخر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی ان باغیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے اور پھر سیدنا علیؓ بھی ایسے حالات میں خلیفہ چنے گئے کہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی ان کے ہاتھوں بے بس رہے۔، آپ اپنے ہاتھ بیعت سے سمیٹتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بیعت کے لیے اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے وہ ان سے بیعت نہ لینا چاہتے تھے، خفیہ تنظیموں کی بھی ایک اپنی تاریخ ہے ان سب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ ان سب کا مشترکہ عمل

  1. خلاف ظاہر کو اپنانا۔
  2. اپنی روایات سے نکلنا 
  3. نئی بات سامنے لانا رہا ہے۔

حضور اکرمﷺ کے زمانہ کے منافقین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بے وقوف کہتے، اور کہتے ہم ان جیسا ایمان کیوں لاتے یہ تو بے وقوف ہیں عبداللہ بن سبا نے کہا ہم پہلے خلفاء کو کیوں مانیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی امامت تو منصوص ہے، پہلی راہ سے نکلنے کو الحاد کہتے ہیں اور زندقہ اس کی راہ عمل ہے جو معمار دیوار بناتے ہیں انہیں انگریزی میں میسن کہتے ہیں جو پچھلی تعمیر سے ہٹ کر نئی راہ پر چلتے ہیں وہ فری میسن کہلاتے ہوتے ہیں یہ پہلی کسی بات کے پابند نہیں ہوتے، آزادی فکر سے وہ تقلید سے ہٹتے ہیں سو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فری میسن کا رکن انتشار ملت کے لیے خفیہ تنظیموں میں ہی چلتے آںٔے ہیں اور ان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

پرانے اسلام سے نکالنے کے لیے مرزا غلام احمد کو ساتھی کن سے ملے؟ کسی فری میسن تنظیم سے، یہ کن لوگوں کی تنظیم ہوتی ہے مرزا غلام احمد کو الہام میں بتایا گیا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ارادے مخفی ہوں ظاہر کچھ ہو اور اندر یہ کوئی اور پروگرام لیے ہوں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے تسلی دی کہ وہ فری میسن کے قابو میں نہیں آئے گا اسے ان سے ملنے دو لیکن ہوا یہ کہ ان کی باتوں میں آ گیا اور اس نے ختمِ نبوت جیسے عقیدہ اسلام کو بھی ایک متزلزل بنیاد بنا دیا اور ساتھ یہ بھی کہتا رہا کہ:

ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دین

مانتے ہیں ان کو ختم المرسلین

مرزا غلام احمد کے مجموعہ الہامات میں ہے: 

پھر میں نے موت کے متعلق جب توجہ کی تو ذرا سی غنودگی کے بعد الہام ہوا فری میسن مسلط نہیں کیے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کر دیں۔

پھر لکھتا ہے:

فری میسن کے متعلق میرے دل میں خیال گزرا جن کے ارادے مخفی ہوں۔

(تذکرہ مجموعہ الہامات: صفحہ، 424)

 اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ غلام احمد کے پیچھے واقعی کچھ لوگ ایسے لگے تھے جن کے ارادے مخفی تھے اور یہ بھی پتہ چلا کہ مرزا غلام احمد فری میسن تنظیم سے پورا واقف تھا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ یہاں تک رسائی رکھتے ہیں کہ موت تک پہنچا دیں گو اپنے بارے میں کہا کہ یہ وہ اسے ہلاک نہ کر سکیں گے(وہ تو اسے ہی ہلاک کرتے ہیں جو ان میں سے ہو کر ان سے باہر نکلے) مرزا غلام احمد کی بات کو جانے دیجیے ہم بات اسماعیلیوں کی کر رہے تھے جن پر دورِ ستر اور دورِ ظہور دونوں آئے سو ان کے لیے یہ بڑی آسان راہ تھی کہ جو چاہیں دعویٰ کریں دعاۃ کے نام سے ہر بات چل جائے گی یہ ایک ایسی راہ تھی جس میں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔

کیا مصر کے فاطمیین واقعی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد تھے؟

آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ اسماعیلیوں کو اپنے دورِ ظہور میں مصر کی حکومت بھی ملی، یہاں ایک سوال اُبھرتا ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ سیدہ فاطمہؓ کی اولاد میں سے تھے یا یہ دعویٰ بھی کسی داعی کا تھا جس نے اہلِ بیتؓ کے سہارے اسماعیلیہ کے لیے کچھ ہمدردیاں حاصل کر لی تھیں،

سیدنا جعفر صادقؒ تک تو بے شک یہ سب فاطمی تھے لیکن ان کے اگلے ادوار میں تاریخ ان کے فاطمی ہونے کی شہادت نہیں دیتی، ڈاکٹر زاہد علی نے تاریخ فاطمیین مصر میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اسماعیلی اماموں کے دورِ ظہور میں ان پر اس قسم کے کئی سوال اُٹھتے رہے موصوف لکھتے ہیں:

متعدد دفعہ امام کے ظہور کے زمانہ میں نسب کا سوال اٹھایا گیا لیکن کسی امام نے اطمینان بخش جواب نہ دیا۔ یہ لوگ کبھی اتنی جرأت نہ کر سکتے تھے اپنا نسب منبر پر یا کسی مجمع میں بیان کریں۔

(اتعاظ الحنفاء: صفحہ، 15)

ہمارا موضوع اس وقت ان کے حسب و نسب پر بحث نہیں، فاطمی خلیفہ المعز باللہ (365ھ) سے جب یہ سوال کیا گیا تو اس نے اس کے لیے ایک بڑے جلسہ کا انتظام کیا اور اس میں یہ جواب دیا:

اپنی تلوار میان سے نکالی اور کہا یہ میرا نسب ہے۔

پھر اس نے حاظرین پر سونا نچھاور کیا اور کہا یہ میرا حسب ہے۔ (تاریخ ابنِ خلکان: جلد،1صفحہ، 259)

دورِ ظہور میں تو کچھ لوگ جان پہچان والے مل جاتے ہیں، قصیدے پڑھنے والے قصیدہ گو اور مرثیے پڑھنے والے مرثیہ خواں بھی مل جاتے ہیں لیکن دورِ سرّ کے بارے میں کوئی بات اعتماد سے نہیں کہی جا سکتی الا یہ کہ داعی حضرات کو خدا کی طرف سے مامور مان لیا جائے، اس مختصر خاکہ تاریخ کے بعد ہم ان کے عقائد کا بھی مختصر خاکہ پیش کیے دیتے ہیں۔

اسمائیلی عقائد کا ایک مختصر خاکہ:

1. امام ان کے ہاں معبود کا درجہ رکھتا ہے اس کا وجود خدا کے نورِ ذات سے قائم ہوا ہے اس لیے وہ خدا کا غیر نہیں اس کی عبادت خدا کی ہی عبادت ہے خدا کا کوئی شریک نہیں امام میں خدا حلول کیے ہوئے ہے اس لیے وہ کوئی دوسرا خدا نہیں جب وہ خدا کے نورِ ذات سے ہے تو وہ اس کا غیر نہ ہوا۔

2. یہ حضور اکرمﷺ کو بھی خدا کے نورِ ذات سے پیدا مانتے ہیں اور دینی نسبت یہ اپنے امام میں منتقل مانتے ہیں قاسم علی اسماعیلی نے ایور لونگ گائیڈ میں آغا خان سوم کا یہ فرمان نقل کیا ہے:

3. میں براہِ راست حضرت محمدﷺ کی نسل سے ہوں اور دو کروڑ مسلمان مجھ پر ایمان رکھتے ہیں مجھے اپنا روحانی پیشواء مانتے ہیں مجھے خراج ادا کرتے ہیں اور میری عبادت کرتے ہیں۔  یہ کتاب اسماعیلی ایسوسی ایشن کراچی نے شائع کی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور حضور اکرمﷺ سے براہِ راست نسبت رکھنے کے مدعی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ وہ ختمِ نبوت پر یقین رکھتے ہیں حضور اکرمﷺ کے بعد کسی نئی نبوت کے وہ قائل نہیں کہ حضورﷺ کی نبوت ان اماموں میں اتری ہے وہ صرف امامت کی راہ سے ان ائمہ کے لیے اس آسمانی عہدے کے قائل ہیں۔ 

4. ان کا عقیدہ ہے کہ امام حاضر جب چاہے ظاہر شریعت کو معطل کر سکتا ہے، شریعت ہمیشہ صامت رہے گی، اس کے لیے ناطق امام ہے اسماعلیہ کے تئیسویں امام (23) شاہ حسن علی نے 27 رمضان (559ھ) میں پورے اجتماع سے کہا: آج کے دن سے میں آپ کو ساری شریعت کی تمام پابندیوں سے آزاد کرتا ہوں آج کے دن تم لوگوں کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے ہیں آج کے دن ہم نے پوری امت کو شریعت اور قیامت کے مفہوم سے آگاہ کر دیا ہے۔  (نورِ مبین: صفحہ، 254 طبع چہارم) آئیے اب یہ بھی جان لیجیے کہ ان کے ہاں قیامت ایک نئے قیام کا نام ہے۔ 

ان کا قیامت کا تصور مسلمانوں کے عقیدہ قیامت سے بالکل جدا ہے یہ اپنے اس تصور میں بہائی مذہب کے بہت قریب ہیں بہائیوں کے ہاں جب جہان کا نیا قیام ہو تو وہ اس کو قیامت کہتے ہیں پھر وہ اس نئے دور کے لیے کسی نئی نبوت کے منتظر ہوتے ہیں، اسماعیلیوں کے ہاں امام حاضر جب کسی نفس کی تفتیش کر کے اسے خدا کے قرب میں کھینچ لے اور اسے پاس کر دے تو اس سے شریعت کی پابندیاں اٹھا لی جاتی ہیں اور اس کے لیے اب یہ قیامت قائم ہو گئی۔ 

5: آغا خان سوم کے احکام اسماعیلیوں نے کلام امام مبین کے نام سے شائع کیے ہیں اس میں فرمان 30 یہ ہے:

انسان کی زندگی اور دنیا ہر وقت بدلتی رہتی ہے ہر چیز بدلتی ہے جس میں صحیح ہدایت امام حاضر ہی دے سکتا ہے اسماعیلیوں کے پاس کوئی لکھی ہوئی کتاب نہیں مگر زندہ امام ہے (کلام امام مبین: صفحہ، 530)

ان کے عقائد پر ہم یہاں کوئی تبصرہ نہیں کر رہے اجمالی طور پر ان کے عقائد کا کچھ تعارف کرانا تھا سو ہم نے یہ پانچ امور گزارش کر دیے ہیں۔

اسماعیلی عقائد کا بانی داعی اکبر عبداللہ میمون فارسی:

اسماعیلی عقائد ائمہ اہل بیتؓ میں سے کسی سے نہیں آئے مسلمانوں میں اھل بیتؓ کے لیے جو جذبہ کار فرما ہے اس کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عبداللہ بن سباء نے سیدنا عثمانؓ کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا، اس جذبہ عقیدت سے عبداللہ میمون اٹھا اور شیعوں کا اسماعیلی سلسلہ قائم کیا اور اسی چھپی راہ سے مختار بن ابی عبید ثقفی نے براہِ راست حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عقیدت قائم کی اور سیدہ فاطمہؓ کی اولاد کو یکسر نظر انداز کر دیا، اس نے حضرت علیؓ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کے نام سے ایک پورا مذہب ترتیب دے دیا۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ 1339ھ:

این عبدالله بن میمون قداح شخصے بود ملحد و زندیق دشمن اسلام ے خواست بہ نہجے در دین اسلام فساد نماید قابو نمے یافت اکنوں اور انان در روغن افتاد بدستور عبدالله بن سبا کہ اصل منشاء تشیع است۔

 (تحفہ اثناء عشریہ: صفحہ، 8)

ترجمہ: یہ عبدالله بن میمون ایک ملحد اور زندیق شخص تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا چاہتا تھا کسی طرح اسلام میں کوئی گڑ بڑ پیدا کرے لیکن اسے کوئی راہ نہ ملتی تھی عبداللہ ابن سبا کی طرح جو شیعیت کا بانی تھا اب اس کی روٹی گھی میں جا گری، یہ بات اس کے لیے بڑی آسان تھی کہ غاروں میں پچھلے اماموں کے نام سے دین اسلام میں وہ ایک نئی فرقہ بندی کرے اور جو چاہے اسے اسماعیلیوں کا ایک نیا مذہب بنا کر رکھ دے۔ 

علمائے اسلام شروع سے اسماعیلی عقائد کو الحاد و زندقہ کہہ رہے ہیں چوتھی صدی کے شروع میں اثناء عشری عقائد مرتب ہوئے اور چوتھی صدی کے شروع میں ہی اسماعیلیوں کے دورِ ظہور کا آغاز ہوا، اس سے پہلے یہ لوگ بطور باطنیہ کے جانے جاتے تھے۔

1. امام ابو منصور عبدالقاہر (429ھ)کی کتاب الفرق بین الفرق میں اس باطنی گروہ کا اس طرح پتہ چلتا ہے:

الذی يصح عندى من دين الباطنية انهم دهريه زنادقة يقولون بقدم العالم وينكرون الرسل والشرائع كلها لميل إلى استباحة كل ما يميل اليه الطبع۔

(الفرق بین الفرق: صفحہ، 177)

ترجمہ: باطنیہ کے دین کی جو بات میرے ہاں صحیح طور پر محقق ہوئی یہ ہے کہ وہ حقیقت میں دہریہ ہیں زندیق ہیں دنیا کو قدیم مانتے ہیں اصل و شرائع کا وجود نہیں مانتے ہر وہ چیز کو جس کی طرف طبائع مائل ہوں وہ حلال مانتے ہیں۔

2: امام ابنِ حزمؒ (456ھ) بھی لکھتے ہیں:

واما من قال ان الله عز وجل هو فلان الانسان بعينه او ان الله تعالى يحل فی جسم من اجسام خلقه او ان بعد محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبياً غیر عیسیٰ بن مریم فانه لا يختلف اثنان فی تكفيره۔

( کتاب الفصل: جلد، 3 صفحہ، 249)

ترجمہ: اور جو کہے کہ فلاں انسان بعینہ خدا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی میں اترا ہوا ہے یا یہ کہ حضور اکرمﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے سواء کوئی اور نبی بھی ہو سکتا ہے تو ایسے شخص کو کافر کہنے میں کہیں دو شخص مختلف نہیں ہوئے۔

واما الغالية من الشيعة فهم قسمان قسم او جبلت النبوة بعد النبی صلى الله عليه وسلم لغيره والقسم الثانی او جبوا الالهية لغير الله عز وجل فلحقوا بالنصارى واليهود و كفروا اشنع الكفر۔

(ایضاً: جلد، 4 صفحہ، 183)

ترجمہ: غالی شیعوں کی بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو حضورﷺ کے بعد کسی اور نبوت کو واجب کہتے رہتے اور دوسرے وہ اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت (اس کا لائق عبادت ہونا) اوروں کے لیے ثابت مانتے تھے یہ وہ لوگ ہیں جو یہود و نصاریٰ میں آ ملے اور انہوں نے بد ترین کفر اختیار کیا۔

عبداللہ بن میمون دھرمی عقیدہ رکھتا تھا اور اس کی ایک خفیہ تنظیم تھی، اس نے اسماعیلیوں میں کام کیا، اور اثناء عشریوں کے علاوہ ایک بڑا فرقہ بنا کر رکھ دیا، یہ اپنے حلقے کے فری میسن تھے۔

علامہ فرید وجدی لکھتے ہیں:

انه ظهر رجل مدلس اسمه عبدالله بن ميمون من فارس مملوءً اٰمالاً و اقدارا فاراد ان يستخدم الاسماعيلية جمعية سرية۔

ترجمہ: ایک شخص جو اپنے آپ کو چھپائے رکھتا تھا اچانک ظاہر ہوا۔ اس کا نام عبداللہ بن میمون تھا فارسی النسل تھا بڑی امیدوں اور قدروں سے سامنے آیا، وہ اپنی ذاتی اغراض کے تحت اسماعیلیوں کی خدمت میں آگے بڑھا اس نے اپنے آپ کو غیور شیعہ ظاہر کیا اور حقیقت میں دھری العقیدہ تھا، اس نے اسماعیلیوں میں ایک خفیہ تنظیم قائم کی۔

3: علامہ ابنِ عابدین الشامیؒ بھی ان کا ذکر کرتے ہیں: 

انهم ينتحلون عقائد النصيرية والاسماعيلية الذين يلقبون بالقرامطة والباطنية الذين ذكرهم صاحب المواقف ونقل عن علماء المذاهب الأربعة انه لا يحل اقرارهم فی ديار الاسلام بجزية ولا غيرها۔

ترجمہ: یہ لوگ نصیری اور اسماعیلی عقائد اختیار کیے ہوئے ہیں، اسماعیلیہ جو قرامطہ اور باطنیہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں جن کا صاحبِ مواقف نے ذکر کیا ہے اور چاروں مذاہب کے علماء اس پر متفق ہیں کہ انہیں اسلامی ممالک میں جزیہ لے کر یا بغیر جزیہ کے رہنے دینا حلال نہیں ہے۔