چوتھا منہج : احوال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے امامت پر استدلال فصل :....آپ بہت بڑے عابد و زاہد اور حد درجہ عالم و شجاع تھے
امام ابنِ تیمیہؒچوتھا منہج :
احوال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے امامت پر استدلال
فصل :....آپ بہت بڑے عابد و زاہد اور حد درجہ عالم و شجاع تھے
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’منہج چہارم : وہ دلائل جو کہ آپ کی امامت پر دلالت کرتے ہیں ‘ اور وہ آپ کے احوال سے مستنبط ہیں ‘ ان کی تعداد بارہ ہے ۔‘‘
[پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے احوال سے آپ کی امامت پر استدلال کرتے ہوئے کہتا ہے]:’’ آپ بہت بڑے عابد و زاہد اور حد درجہ عالم و شجاع تھے۔‘‘ شیعہ مصنف نے اس ضمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چند خوارقِ عادات کا بھی ذکر کیا ہے۔اور آپ کے کئی فضائل کا ذکر بھی کیا ہے ‘ جن پر رد گزر چکا ہے۔
چنانچہ شیعہ مصنف لکھتا ہے : ’’ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑے زاہد تھے۔‘‘
[جواب]: ہم کہتے ہیں : یہ بات بالکل ممتنع ہے۔ جو لوگ حضرات صحابہ کے احوال جانتے ہیں ‘ انہیں علم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑے زاہد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے مالدار اور تاجر تھے؛اور آپ نے اپنا تمام تجارتی سرمایہ اللہ کی راہ میں دے دیا تھا۔
جب آپ مسند آرائے خلافت ہوئے تو فروخت کے لیے چادریں اپنے کندھے پر ڈالے بازار جا رہے تھے کہ راستہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ؛ آپ اپنے بازوپر چادریں رکھے جارہے تھے۔آپ نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟
توآپ نے فرمایا: ’’ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اپنے بچوں کے لیے رزق کمانا چھوڑ دوں ؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی خبر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور مہاجرین صحابہ کو دی۔ انھوں نے آپ کا وظیفہ مقرر کیا۔ آپ نے حضرت عمر و ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما سے قسم لی [کہ کیا ان کے لیے یہ مال لینا حلال ہے ؟]۔تو انہوں نے حلف اٹھا کر بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ دو درہم یومیہ لینے کے مجاز ہیں ۔[ابوداؤد نے بسند صحیح ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے کہ میرے والد نے بتایا جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تھے تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ (طبقات ابن سعد:۳؍۱۷۲، تاریخ الاسلام للذہبی،(عہد الخلفاء،ص:۱۰۷) عروہ کہتے ہیں مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو انھوں نے کوئی درہم ودینار پیچھے نہیں چھوڑا تھا۔ (طبقات ابن سعد:۳؍۱۹۵)، اسامہ بن زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تجارت میں مشہور تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ ان میں سے آپ غلام آزاد کرتے اور مسلمانوں کی امداد کیا کرتے تھے۔ جب مدینہ پہنچے تو ان میں سے کل پانچ ہزار درہم بچے تھے۔ آپ یہ سرمایہ نیک کاموں پر صرف کیا کرتے تھے۔ (طبقات ابن سعد(۳؍۱۷۲)، من طریق الواقدی)]
پھر آپ نے اپنا مال بیت المال میں چھوڑ دیا۔پھر جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:’’ ان کامسلمانوں کے بیت المال سے لیا ہوا مال بیت المال کو واپس کردیا جائے ۔‘‘
بعد میں جب اس کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک مشک تھی جس کی قیمت پانچ درہم بھی نہیں بنتی تھی۔اور ایک حبشن لونڈی تھی جو کہ اپنے بچے کو دودھ پلارہی تھی۔ اور ایک حبشی غلام تھا اور ایک اونٹ ۔ آپ نے یہ سامان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ۔تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عیال سے یہ مال بھی واپس لے لیا جائے گا؟
نہیں رب کعبہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوگا؛ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں بھی بڑی تکالیف اٹھائی ہیں ۔ اب ان چیزوں کی قیمت میں ادا کر دوں گا [اوریہ مال ابوبکر کے گھر واپس بھیج دیا جائے ]۔
بعض علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ توبڑے زاہد تھے ؛ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے بڑے زاہد تھے ۔ اس لیے کہ اسلام کے شروع میں آپ کا بہت بڑا مال اور بڑی وسیع تجارت تھی؛ جسے آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ؛ اور خلافت کے دروان آپ کی یہ حالت تھی۔یہاں تک کہ آپ کے پاس جو بیت المال کا مال باقی بچ گیا تھا وہ بھی آپ نے واپس کردیا۔ ابن زنجویہ [ان کا نام حمید بن مخلد ہے یہ بڑے ثقہ راوی اور حافظ حدیث تھے۔ ۲۴۷ھ میں وفات پائی] فرماتے ہیں :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ آغاز اسلام میں تنگ دست تھے۔آپ پر خرچ کیا جاتا تھا؛ آپ کسی پرخرچ نہیں کرسکتے تھے۔ پھر آپ نے مال سے فائدہ اٹھایا ؛ زرعی اراضی ، مکانات اور کھجور کے باغات اور اوقاف خرید لیے تھے۔ وفات کے وقت آپ کے ہاں چار بیویاں اور انیس لونڈیاں تھیں ۔‘‘
یہ تمام چیزیں آپ کے لیے مباح تھیں ۔ وللہ الحمد ۔ اور جو مال آپ نے چھوڑا تھا اسے بیت المال میں واپس کرنے کا حکم بھی نہیں دیا۔آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد کوئی سونا اور چاندی نہیں چھوڑا۔ سوائے سات سو درہم کے جو کہ آپ کے عطایا میں سے باقی بچ گئے ہیں ۔‘‘
اسود بن عامر کہتے ہیں : ہم سے شریک نخعی نے حدیث بیان کی ؛ اس نے عاصم بن کلیب سے نقل کیا؛ آپ محمد بن کعب القرظی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں عہد رسالت میں بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے رہتا تھا۔ اور آج میری ثروت کا یہ عالم ہے کہ میرے مال کی زکوٰۃ چالیس ہزار تک پہنچتی ہے۔‘‘ [رواہ احمد عن حجاج]
ابراہیم بن سعید جوہری روایت کرتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میرے مال کی زکوٰۃ چار ہزار دینار تک پہنچتی ہے۔‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیشک بہت بڑے زاہد تھے ؛ مگر ان کے زہد کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زہد سے نسبت ہی کیا ہے؟علامہ ابن جزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کہنے والے کہتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت بڑے زاہد تھے‘ ‘ ۔ یہ کسی جاہل نے جھوٹ بولا ہے ۔زہدکے معنی ہیں :انسان کا دل شہرت و مال ؛ لذات و عیش اورخدم و حشم کی خواہش سے رو گردانی کرنااور اسکے سوا زہد کا اور کوئی مطلب نہیں ۔ زہد کا معنی اسی انسان پر صادق آتا ہے جسکے اندر یہ اوصاف موجود ہوں ۔ مال کی محبت سے بیگانگی کے بارے میں اگر بات ہوتو ہر انسان جسے صحیح روایت کی ذرا بھر بھی اطلاع ہو تو وہ جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے بہت بڑے مال دار تھے۔آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ:’’آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے؛ جو سب کے سب اللہ کی راہ میں خرچ کیے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے ان مساکین اورکمزور مسلمانوں کو خرید کرآزاد کیا جنہیں ایمان لانے کے جرم میں سزا دی جاتی تھی۔آپ نے کوئی ایسا سخت کوش غلام آزاد نہیں کیا جو آپ کی حفاظت کرے ‘ بلکہ وہ لوگ آزاد کیے جو کمزور تھے اور انہیں اللہ کی راہ میں تکلیف دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس صرف چھ ہزار درہم باقی بچ گئے تھے۔ وہ سب آپ نے اپنے ساتھ رکھ لیے [تاکہ سفر میں کام آئیں گے ]۔ ان میں سے ایک درہم بھی اپنے بچوں کے لیے نہیں چھوڑا۔ اور پھر یہ سارے درہم اللہ کی راہ میں خرچ کرڈالے۔اوران میں سے ایک درہم بھی آپ کے پاس باقی نہیں بچا۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس صرف ایک جبہ باقی بچ گیا تھا ۔جب آپ کہیں پر پڑاؤ ڈالتے تو اسے اپنے لیے بطور بستر بچھالیتے؛ اور جب اٹھ جاتے تو اسے اپنے جسم پر پہن لیتے۔ جب کہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مال بھی جمع کیا اور بڑی بڑی جائدادیں بھی خریدیں ۔ کئی لوگوں کی یہ جائدادیں ضائع بھی ہوگئیں ؛ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اللہ کی رضاکو ترجیح دی اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کیا ۔ اوروہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کیے جانے والے مال کی نسبت اپنے پاس بچ جانے والے مال سے زیادہ بے رغبت تھے۔ پھر جب آپ خلافت پر متمکن ہوئے تو نہ ہی آپ نے کوئی لونڈی رکھی اور نہ ہی مال کو وسعت دی۔
اللہ کے مال [بیت المال] میں سے جو کچھ اپنے نفس اور اولاد پر خرچ کیا تھا مرتے وقت اس کا شمار کیا؛ تواس سے آپ کے حق کا کچھ حصہ ہی پورا ہوسکتا تھا۔مگر پھر بھی آپ نے حکم دیا کہ آپ کو جو حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد اورغزوات کے مال غنیمت اور دیگر تقسیم میں سے ملا ہے ‘ اس سے یہ مال نکال کر بیت المال میں واپس جمع کرادیا جائے۔
مال و دولت اور لذات سے یہ وہ حقیقی زہدتھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کوئی ایک اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی کوئی دوسرا صحابی ۔ ہاں مہاجرین [اورسابقین ]اولین میں سے حضرت ابوذر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما اس کے کسی قدر قریب ہیں ؛ اس لیے کہ وہ اسی راہ پر چلتے رہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گامزن تھے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد زہد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ تھا پھر حضرت ابوعبیدہ اور ابو ذر کا۔مال و دولت سے زہد کے باب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بلند مقام پر فائز تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مالِ حلال کو وسعت دی ۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی چاربیویاں تھیں اور انیس لونڈیاں ۔ خدام اور غلام ان کے علاوہ تھے۔اوروفات کے وقت آپ کی اولاد بچوں اور بچیوں کی تعداد چوبیس تھی۔ اور ان کے لیے اتنی تعداد میں باغات اور زمینیں چھوڑیں جن کی وجہ سے ان کا شمار خاندان کے دولت مند اور خوش حال ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ یہ بات اتنی مشہور ہے کہ تاریخ و حقائق کا ادنی علم رکھنے والا انسان بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔آپ کی جملہ جاگیروں میں سے ینبع کی جاگیر بھی تھی۔[امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ] :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اراضی میں سے ایک ینبع کی جاگیر تھی،جوکہ آپ نے صدقہ کردی تھی؛ جہاں سے باقی غلہ کے علاوہ ایک ہزار وَسق کھجور کی آمدنی ہوتی تھی۔‘‘
جب کہ بچوں اور خدام و حشم کی طرف آپ کا میلان بھی اتنا ظاہر ہے کہ بیان کی ضرورت نہیں ۔اوریہ اس قدر مشہور بات ہے کہ کسی ادنی علم رکھنے والے کو بھی اس سے مجال انکار نہیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اقارب میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ شامل تھے جوکہ سابقین اولین و مہاجرین [ اورعشرہ مبشرہ] میں شمار ہوتے تھے۔آپ کو فضائل اسلام کے ہرباب میں فضیلت حاصل تھی۔اور آپ کے بیٹوں میں عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جیسے ہونہار بھی تھے۔ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت ؛ ہجرت اورسابق اسلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔آپ کی فضیلت صاف ظاہر ہے۔مگر اس کے باوجود آپ نے ان میں سے کسی کو بھی کسی علاقہ کا عامل مقرر نہیں کیا تھا۔ حالانکہ آپ کے عہد خلافت میں یمن اپنی پوری وسعت اور کثرت مال کے ساتھ ؛ مکہ و مدینہ و خیبر و بحرین و حضر موت و عمان و طائف و یمامہ اورحجازکے تمام علاقے آپ کے زیر تسلط تھے۔ اگر آپ ان میں سے کسی ایک کو عامل مقرر کرتے تو وہ اس کے اہل بھی تھے۔ لیکن آپ کے دل میں محبت کا خوف تھا ؛ کہیں وہ ذرا بھر بھی خواہشات کی طرف مائل نہ ہوجائیں ۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے نقش قدم پر چلے اور اپنے قبیلہ بنی عدی میں سے کسی کو بھی اتنے وسیع اور بڑے ملک میں کسی عہدہ پر مقرر نہیں کیا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام و مصر اور عراق سے لے کرفارس کی تمام شاہی اورخراسان تک تمام علاقے فتح کر لیے تھے۔ آپ نے اپنے قبیلہ کے نعمان بن عدی کومیسان کا عامل مقرر کیا تھا مگر جلد ہی اسے اس منصب سے معزول کردیا۔
حالانکہ بنی عدی میں اتنے مہاجرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے کہ قریش کی کسی دوسری شاخ میں اتنے مہاجر نہیں تھے۔ اس لیے کہ بنی عدی میں سے کوئی ایک بھی مکہ میں باقی نہیں بچا تھا؛ سارے لوگ مدینہ ہجرت کر گئے تھے۔ان میں سعید بن زید بھی تھے جوکہ سابقین اولین اور مہاجرین صحابہ میں سے تھے۔اور ابوجہم بن حذیفہ و خارجہ بن حذیفہ و معمر بن عبد اللہاور ان کے بیٹے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے لوگ موجود تھے۔
پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بعد اپنے بیٹے کو منصب خلافت پر فائز نہیں کیا تھا ؛حالانکہ اس کا شمار صحابہ کرام میں ہوتاہے۔اور نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے عبداللہ کو یہ منصب عطا کیا؛ حالانکہ آپ کا شمار فاضل صحابہ کرام میں ہوتا ہے ۔ اور بعض لوگ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کا اہل تصور کرتے تھے؛ اور آپ ایسے تھے بھی۔ اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں خلیفہ مقرر کردیتے تو کسی شخص کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوتا۔ تاہم آپ نے اس سے احتراز کیا۔
[حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صلہ رحمی]:
بخلاف ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب کو عہدہ ہائے جلیلہ تفویض کیے تھے۔ چنانچہ آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا‘ عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یمن کا‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹوں قثم و معبد کو مکہ و مدینہ کا حاکم بنایا۔ اپنے بھانجے جعدہ بن ہبیرہ [ام ہانی بنت ابی طالب کے بیٹے ہیں ]کو خراسان اور اپنے لے پالک اور بیٹے کے بھائی محمد بن ابی بکر کو حاکم مصر مقرر کیا تھا۔ آپ نے اپنے بعد اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اظہار خوشنودی کیا تھا۔[یہ شیعہ کا دعویٰ ہے۔ شیعہ کا مذہب و مسلک ائمہ کے بارے میں اسی پر مبنی ہے۔ بخلاف ازیں مسند احمد(۱؍۱۳۰)،حدیث نمبر:۱۰۷۸، میں بروایت عبد اﷲ بن سبع منقول ہے کہ میں نے سیدنا علی سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ مجھے قتل کیا جائے گا۔ لوگوں نے کہا: ’’پھر ہم پر خلیفہ مقرر فرمائیے۔ فرمایا:’’ نہیں میں تمھیں اسی طرح چھوڑ کر جا رہا ہوں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے۔ اسی طرح مسند احمد (۱؍۱۵۶)،حدیث: ۱۳۳۹، میں تحریر ہے۔ البدایہ والنہایۃ(۵؍۲۵۰۔۲۵۱) پر شقیق بن سلمہ تابعی نیز کتاب مذکور(۷؍۳۲۳) پر ثعلبہ بن یزید رافضی سے اسی طرح مروی ہے۔ نیز ملاحظہ فرمائیے۔ السنن الکبریٰ بیہقی(۸؍۱۴۹)۔]ہم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اہلیت و صلاحیت اور استحقاق ِ خلافت کا انکار نہیں کرتے اورنہ ہی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے استحقاق خلافت کا انکارکرتے ہیں ۔تو پھر کوفہ کی امارت کیا چیز ہے؟ البتہ یہ ضرورکہتے ہیں کہ:زہدیہ بھی تھا کہ عبد اللہ بن عمراور عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہم کی طرح؛ جن پر لوگ متفق بھی تھے؛ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی اسی طرح کا زہد ہوتا۔ اور جس طرح طلحہ بن عبیداللہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو عامل مقرر نہیں کیا گیا تھا؛[ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے اقارب کو بھی عہدے تفویض نہ کرتے]۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ دنیا اور اس کی ہرقسم کی لذات سے ہر طرح سے بے نیاز و زاہد تھے۔دلائل و براہین سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ سے بڑھ کر زاہد اور تارک دنیا تھے۔ ان کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مباحات سے استفادہ کیا کرتے تھے۔
[حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زہد]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دنیا کو تین طلاقیں دے رکھی تھیں ۔ آپ جَو کا دلیا کھاتے؛ اوراسے ختم کیا کرتے تھے تاکہ آپ کے بیٹے اس میں سالن نہ ڈال دیں ۔آپ کھردرا اور چھوٹا لباس پہنا کرتے تھے۔آپ کے کوٹ کو پیوند لگے تھے۔یہاں تک کہ آپ کے بیٹوں کو اس پیوند کی وجہ سے حیاء آتی تھی۔ آپ کی تلوار کی پیٹی اور نعل کھجور کی چھال سے بنے ہوئے تھے۔یہی حال آپ کے نعلین کا بھی تھا۔ خطیب خوارزمی نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے:
’’ اے علی! اللہ تعالیٰ نے تجھے ایسی زینت سے مزین کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر اپنے نزدیک محبوب زینت سے کسی دوسرے انسان کو مزین نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ نے تجھے زہد سے نوازا ہے ؛ دنیا کو تمہاری نگاہ میں [بے وقعت اور] مبغوض کر دیاہے۔ آپ کے لیے فقراء کو محبوب بنادیا گیااور تم ان میں سے اپنے متبعین پرراضی ہوگئے۔ اور وہ تجھے اپنا امام ماننے پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں ۔اے علی! اس شخص کے لیے بشارت ہو جو تجھ سے محبت رکھے ا ور تیرے بارے میں سچی بات کہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو تجھ سے بغض رکھے اور تجھ پر جھوٹ باندھے۔‘‘
سُوَید بن غفلہ کا بیان ہے کہ میں عصر کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے کھٹا دودھ پڑا ہے جس میں سے کھٹی بُو آرہی تھی۔ آپ کے ہاتھ میں روٹی تھی جس پر جَو کے چھلکے لگے تھے جو میں آپ کے چہرہ پر دیکھ رہا تھا۔کبھی آپ اسے اپنے ہاتھ سے توڑتے اوراگر ایسا نہ کرسکتے تو اپنے گھٹنے سے توڑتے اورپھر اس دودھ میں ڈال دیتے۔آپ نے فرمایا: ’’آگے آؤ اور ہمارے ساتھ یہ کھانا کھاؤ۔میں نے کہا: میں روزہ سے ہوں ۔توآپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرمارہے تھے : ’’ جس انسان کو روزہ اس کے پسندیدہ کھانے سے روک دے‘ اللہ تعالیٰ اسے جنت سے کھانا کھلائیگا اور پانی پلائے گا۔‘‘
آپ کہتے ہیں : میں نے آپ کی ایک لونڈی سے کہا جو کہ وہاں قریب کھڑی تھی؛ اے فضہ ! تمہارے لیے ہلاکت ہو! کیا تم اس شیخ کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتیں ؟ کیا آپ ان کے لیے آٹا چھان نہیں لیتیں ؟ تو اس نے جواب دیا:’’آپ نے ہم سے عہد لیاہے کہ ہم آپ کے لیے آٹا نہ چھانیں ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: تم نے لونڈی سے کیا کہا؟تو میں نے آپ کو وہ بات بتادی ۔ آپ فرمانے لگے : ’’ میرے ماں باپ اس ہستی پر قربان ہوں جس کے لیے کبھی آٹا نہیں چھانا گیا اور نہ ہی کبھی تین دن تک گندم کی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا کھایاحتی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا۔‘‘
ایسے ہی آپ نے ایک دن دو موٹی قمیصیں خریدیں ؛اور اپنے غلام قنبر کو ان میں سے ایک قمیص چن لینے کا اختیار دیا۔ اس نے ایک قمیص اٹھالی اور دوسری آپ نے پہن لی۔آپ نے دیکھا کہ اس کے بازو آپ کی انگلیوں سے آگے تک لمبے ہیں تو آپ نے بازو کاٹ کر چھوٹے کردیئے۔‘‘
ضراربن ضمرہ کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کیجیے۔ میں نے کہا:
’’ مجھے اس سے معاف رکھیئے۔انہوں نے دوبارہ کہا: آپ کو لازمی ایسا کرنا ہوگا۔
میں نے کہا: اگر ایسا کرنا ضروری ہی ہے توسنو! حضرت علی رضی اللہ عنہ بڑے دور اندیش اورعالی ہمت اور طاقتور تھے۔ آپ فیصلہ کن بات کہتے اور عدل وانصاف کی روشنی میں فیصلہ صادر کرتے تھے۔ آپکے پہلوؤں سے علم پھوٹتااورآپ کی ذات سے حکمت کے چشمے ابلتے تھے۔ دنیا کی سرسبزی و شادابی سے نفرت کرتے۔رات اور اس کی وحشت انھیں عزیز تھی۔ آپ زیادہ روتے اور اکثر سوچ بچار میں مصروف رہا کرتے تھے۔ موٹے جھوٹے لباس کو پسند کرتے اور خشک کھانا کھایا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ اس طرح بے تکلف ہوا کرتے تھے جیسے ہم میں سے کوئی شخص ہو۔جب ہم آپ سے کوئی سوال کرتے تو اس کا جواب دیتے ؛اور جب ہم دعوت دیتے تو اسے قبول کرتے ۔اور اللہ کی قسم ! آپ کے ہمارے قریب ہونے اور ہمیں اپنے قریب کرنے اور آپ کی ہیبت و جلال کے باوجودہم آپ سے بات نہیں کرسکتے تھے۔آپ اہل دین کی تعظیم کرتے اور مسکینوں کو اپنے قریب کرتے۔قوی باطل میں طمع نہ کرسکتا اور کمزور آپ کے ہاں عدل سے مایوس نہ ہوتا۔میں اللہ کو گواہ بنا کرکہتا ہوں کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ فرمارہے تھے :’’ اے دنیا! میرے علاوہ کسی دوسرے کو دھوکہ دینا ۔ کیا تم میرے سامنے پیش ہونا چاہتی ہو یا میرا شوق رکھتی ہو۔ہائے ہلاکت ہو ‘ میں نے تجھے تین بار طلاق بائنہ دیدی ہے۔میں تمہاری طرف رجوع نہیں کرسکتا۔ تیری عمر بہت کم ہے ‘ اور تیرا خطرہ بہت بڑا ہے ؛ اورتیری زندگی بڑی حقیر ہے۔ آہ ! سامان سفر کی کمی اور سفر کی دوری ؛ اور راستے کی وحشت !۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر روپڑے اور فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ ابو الحسن پر رحم فرمائے، اللہ کی قسم! وہ ایسے ہی تھے۔‘‘
پھر پوچھا ضرار! حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے تمھیں کس قدر صدمہ ہوا؟
ضرار نے کہا:’’ اتنا ہی غم جتنا اس شخص کو ہوتا ہے جو اپنی گود میں اپنے بچے کو ذبح کردے نہ تو اس کے آنسو خشک ہوتے ہیں اور نہ غم ہلکا ہوتا ہے۔‘‘(شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زہد و تقویٰ:
[جواب]: بلاشک وشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زہد میں کوئی کلام نہیں ۔ تاہم یہ کہنا کہ آپ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر زاہد تھے؛ شیعہ کے پیش کردہ دلائل میں اس کے ثبوت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ بلکہ رافضی نے زہد علی رضی اللہ عنہ میں جو دلائل پیش کیے ہیں [وہ جھوٹ کا طومار ہیں ]ان میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو اس حق بات پر دلالت کرے جو حضرت میں موجود تھی۔شیعہ کی روایات یاتو جھوٹ کا پلندہ ہیں یا پھر ان میں مدح علی سے متعلق کوئی بات موجود نہیں ۔
٭ دنیا کو طلاق دینے والی روایت کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ نے فرمایا تھا:
’’اے زرد اور گوری چٹی دنیا! میں نے تجھے طلاق دے دی اب جا کر کسی اور کو مبتلائے فریب کر، میں تجھے دوبارہ اپنے گھر میں آباد نہیں کروں گا۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ان لوگوں سے زاہد تر ہیں جنھوں نے یہ بات نہیں کہی تھی۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے انبیاء سے بھی یہ الفاظ منقول نہیں ہیں ؛ حالانکہ یہ لوگ بلا ریب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے زاہد تھے۔اس لیے کہ جب کوئی انسان زہد اختیار کرے تو اس پر واجب نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زبان سے بھی کہے کہ : میں نے زہد اختیار کرلیا ہے ۔‘‘اور زہد کے ہر دعویدار کے لیے ضروری بھی نہیں کہ وہ زاہد ہی ہو۔اور نہ ہی اس کلام کا نہ ہونا زہد کے نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اور نہ ہی ان الفاظ کا وجود زہد کے وجود پر دلالت کرتا ہے ۔[ ایسے الفاظ کہنے کی نسبت خاموش رہنا مناسب تر اور دلیل اخلاص ہے]۔اس لیے کہ ان الفاظ میں شیعہ کے دعوی پر کوئی دلیل موجود نہیں ۔
[اشکال]:’’ شیعہ کا یہ قول کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ سالن کے بغیر جَوکی روٹی کھایا کرتے تھے ۔‘‘
[جواب]:’’ اس میں مذکورہ دعوی پر کوئی دلیل بھی نہیں ۔ اس کی دو وجوہ ہیں :
پہلی وجہ:....یہ صاف جھوٹ ہے۔
دوسری وجہ:....اس میں مدح کی کوئی بات نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امام الزہاد تھے، اس کے باوصف آپ کو جو مل جاتا کھا لیا کرتے تھے؛ اور جو چیز موجود نہ ہوتی آپ اس کی تلاش نہیں کیا کرتے تھے۔بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے بکرے اور مرغ کا گوشت کھایا۔ آپ شیریں کھانے اور شہد کو پسند فرمایا کرتے تھے،پھل کھایا کرتے تھے۔موجود کھانے کو واپس نہ کرتے، اگر کوئی چیز نہ ملتی تو تکلف نہ کرتے۔[دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب الاطعمۃ و کتاب الاشربۃ نیز صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، وغیرہ۔ ] جب کھانا پیش کیا جاتا تو اگر ضرورت ہوتی کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے،غیر موجود کی طلب میں تکلف نہ فرماتے۔ بعض اوقات بھوک کی شدت سے شکم پر پتھر بھی باندھ لیا کرتے تھے۔ اور بسا اوقات دو دو مہینے گزر جاتے مگر آپ کے گھر میں آگ تک نہ جلتی ۔‘‘
بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ مسجد نبوی میں کچھ لوگ جمع تھے ۔ ان میں سے ایک صحابی کہنے لگے، میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا، دوسرے نے کہا، میں قیام میں مشغول رہوں گا اور آرام نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا۔ چوتھے نے کہا میں گوشت کھانا ترک کردوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سن کر فرمایا:
’’ میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ۔قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ بیویوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اورگوشت بھی کھاتا ہوں جس نے میری سنت سے انحراف کیا اس کا مجھ سے کچھ تعلق نہیں ۔‘‘ [البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح(حدیث:۵۰۶۳)، صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، (حدیث:۱۴۰۱)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ تم کہتے ہوکہ میں جب تک زندہ ہوں ہمیشہ رات کو قیام کروں گا ۔اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: کیا مجھے خبر نہیں دی گئی تو رات عبادت کرتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے میں نے کہا جی ہاں ۔یا رسول اللہ!اس سے میں صرف خیر اور بھلائی ہی چاہتا ہوں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :آپ کے لیے مہینے میں صرف تین دن روزہ رکھ لینا ہی کافی ہے۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ تو(]
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ گمان کہاں تک صحیح ہوسکتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منحرف ہو گئے تھے ؟ اور یہ انحراف آپ کے مناقب میں بھی شمار ہونے لگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بے رغبتی کرنے میں مدح کا کون سا پہلو ہے ؟ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں تھے ؛ اس وقت بھی آپ بغیر سالن کے جو کی خشک روٹی ہی کھایا کرتے تھے ؛ گندم کی روٹی یا گوشت نہیں کھایا کرتے تھے۔جب کہ متواتر نقول اس کے خلاف ہیں ۔ پھر کیا دیگر صحابہ کرام میں سے بھی کسی ایک نے ایسے کیا ہے ؟ یا ان میں سے کسی ایک نے ایسا کرنے کو مستحب کہا ہے؟[ بخلاف ازیں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کی ذکر کردہ یہ بات غلط ہے]۔
[اشکال] :شیعہ کا یہ قول کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار کی پیٹی اور نعل کھجور کی چھال سے بنے ہوئے تھے۔‘‘
[جواب]: یہ بھی صاف جھوٹ ہے،اور اس میں مدح کا کوئی پہلو بھی نہیں ہے۔ پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارک چمڑے کی؛ اور تلوار کا نیام چاندی کا بنا ہوا تھا؛ جس پر سونے کی زرکاری کی گئی تھی۔ جب اللہتعالیٰ نے ان کو خوش حالی و فارغ البالی سے نوازا تھا۔ تلوار کے لیے چمڑے کی پیٹی بنانے میں کیا مضائقہ تھا۔ خصوصاً جب کہ حجاز میں چمڑے کی فراوانی ہے، یہ بات قابل تعریف تب ہوتی اگر چمڑا نایاب ہوتا۔
جیسے حضرت ابوامامہ الباھلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جب مختلف بلاد و امصار کو اس قوم نے فتح کیا تو ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے گھوڑوں کی باگ ڈور رسیوں سے بنی ہوتی تھی اور جن کی رکابیں پٹھوں سے تیار کی جاتی تھیں ۔‘‘ [آپ نے فرمایا :تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے رکھ کیونکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت داد علیہ السلام کے روزے کس طرح تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مہینے ایک قرآن مجید ختم کیا کر میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا بیس دنوں میں ایک قرآن مجید پڑھ لیا کر میں نے عرض کیا میں تو اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ دس دن میں ایک قرآن مجید پڑھ لیا کر میں نے عرض کیا میں تو اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو سات دن میں ایک قرآن مجید پڑھ لیا کر اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں مت ڈال ۔ اور ایسے ہی روزہ کے بارے میں کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ [صحیح بخاری:ج3:ح 1087] البخاری، کتاب الجہاد۔ باب ما جاء فی حلیۃ السیوف(حدیث:۲۹۰۹)]
حدیث عمار ایک موضوع روایت ہے ؛ جبکہ سوید بن غفلہ کی روایت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں ہے۔
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کپڑے خریدے ........‘‘
[جواب]: یہ حدیث معروف ہے۔ایسے ہی ضرار بن ضمرہ والی روایت بھی نقل کی گئی ہے ۔ ان میں سے کسی ایک روایت میں بھی کوئی ایک ایسی چیز نہیں ہے جس سے آپ کا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر زاہد ہونا ثابت ہوتا ہو۔بلکہ جو انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی منقول سیرت کا جانکاراور آپ کے زہد و عدل ؛ ولایت سے اپنے اقارب کی دوری ؛ اور اپنے بیٹے کا حصہ ان کے ہم مثلوں سے کم رکھنے ؛ اور آپ کے خشک و سوکھی روٹی کھانے کے بارے میں بھی جانتا ہے اسے پتہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی وہ ہستی تھے جنہوں نے قیصر و کسری کے خزانے تقسیم کیے۔ جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ تقسیم کرتے تھے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتوحات کا ایک جزء تھا۔او رحضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ پر اسی ہزار درھم قرض تھا۔یہ معلومات رکھنے والا جانتا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے زاہد تھے ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑے زاہد تھے۔