Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بیعت الرضوان میں

  علی محمد الصلابی

بیعت الرضوان میں

بیعتِ رضوان کے موقع پر جب رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر نزول فرمایا اور آپﷺ نے سوچا کہ ایک خصوصی سفیر قریش کے پاس روانہ فرمائیں جو ان کے سامنے آپﷺ کے مقصد و موقف کی وضاحت کر دے کہ آپﷺ صلح و آشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں قتال کا کوئی ارادہ نہیں، مقاماتِ مقدسہ کے احترام کے آپﷺ حریص ہیں، عمرہ کرنے آئے ہیں، عمرہ ادا کر کے مدینہ واپس ہو جائیں گے اس سلسلہ میں اولاً انتخاب سیدنا خراش بن امیہ الخزاعی رضی اللہ عنہ کا ہوا، آپﷺ نے ثعلب نامی اونٹ پر سوار کر کے انہیں روانہ کیا، لیکن جب یہ مکہ پہنچے تو قریش نے ان کے اونٹ کو مار ڈالا اور سیدنا خراش رضی اللہ عنہ کے قتل کے درپے ہوئے لیکن احابیش نے انہیں بچا لیا۔ سیدنا خراش رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں واپس آ کر قریش کی رپورٹ پیش کی۔ آپﷺ نے دوسرا سفیر روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا جو آپﷺ کا پیغام قریش کو پہنچا سکے۔ آپﷺ کی نظر انتخاب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر پڑی۔

(غزوۃ الحدیبیۃ، ابو فارس: صفحہ، 73)

 لیکن آپؓ نے معذرت پیش کی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس اہم مہم کے لیے منتخب کرنے کا مشورہ دیا،

(المغازی، محمد بن عمر الواقدی: جلد، 2 صفحہ، 600)

اور اس سلسلہ میں واضح دلائل پیش کیے کیوں کہ ایسے شخص کے لیے جو دشمن کے پاس اتنی اہم مہم پر جا رہا ہو ضروری ہے کہ اس کی حفاظت و حمایت کے اسباب مہیا ہوں اور یہ چیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل نہ تھی اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس مہم پر روانہ کرنے کا مشورہ دیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خاندان مکہ میں موجود تھا اور انہیں قوت حاصل تھی، وہ آپؓ کو مشرکین کی ایذا رسانی سے بچا سکتے تھے، اور اس طرح وہ آپﷺ کا پیغام قریش کو اچھی طرح پہنچا سکتے تھے۔ (المغازی: جلد، 2 صفحہ، 600)

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: مجھے اپنے سلسلہ میں قریش سے ڈر ہے۔ ان کے تئیں میری عداوت معروف ہے اور مکہ میں بنو عدی کا ایسا کوئی فرد نہیں جو ان کے مقابلہ میں میری حمایت کر سکے، لیکن پھر بھی اگر آپﷺ چاہتے ہیں تو میں ان کے پاس جانے کے لیے تیار ہوں۔ (المغازی: جلد، 2 صفحہ، 600)

 اس پر رسول اللہﷺ نے کچھ نہیں کہا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ میں ایک ایسے شخص کی نشان دہی کرتا ہوں جو مکہ میں مجھ سے زیادہ معزز اور اس کے خاندان کے افراد زیادہ طاقتور ہیں وہ سیدنا عثمان بن عفانؓ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: تم قریش کے پاس جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہم کسی سے قتال کرنے نہیں آئے ہیں، ہم خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کی حرمت کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، ہمارے ساتھ ہدی کے جانور ہیں ہم انہیں ذبح کریں گے اور واپس ہو جائیں گے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس مہم پر روانہ ہوئے، بلدح مقام پر پہنچے تو قریش کے لوگ انہیں وہاں ملے، انہوں نے آپؓ سے سوال کیا کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: مجھے رسول اللہﷺ نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ظاہر اور اپنے نبیﷺ کو غالب کر کے رہے گا۔ اگر یہ منظور نہیں ہے تو تم ان کا راستہ چھوڑ کر خاموش ہو جاؤ، دوسروں کو اس کے لیے چھوڑ دو، اگر وہ محمدﷺ پر غالب آ گئے تو تمہارا مقصد پورا ہو گیا اور اگر محمدﷺ غالب آ گئے تو پھر تمہیں اختیار ہو گا چاہے تم اس دین میں داخل ہو جاؤ جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں یا پھر تم ان سے اس حالت میں قتال کرو جب کہ تمہاری تعداد زیادہ ہو اور قوت و طاقت حاصل ہو، کیوں کہ فی الحال جنگ نے تمہیں کمزور کر دیا ہے اور سورماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے جو کفار کو ناگوار گزر رہی تھی، وہ آپؓ کی باتوں کو یہ کہہ کر ٹالتے جاتے تھے کہ جو آپؓ کہہ رہے ہیں ہم نے سن لیا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ زبردستی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے، آپؓ واپس جائیں اور اپنے ساتھی سے کہہ دیں کہ وہ یہاں نہیں آ سکتے۔ یہ موقف دیکھ کر ابان بن سعید بن العاص نے آپ کو خوش آمدید کہا اور پناہ دی اور کہا آپ اپنی مہم سے رکیں نہیں پھر وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور سیدنا عثمانؓ کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں داخل ہوئے۔فرداً فرداً سردارانِ قریش سے ملاقات کی۔ ابو سفیان بن حرب، صفوان بن امیہ وغیرہم جن سے بلدح میں ملاقات کی تھی، اور وہ لوگ جن سے صرف مکہ میں مقالات ہوئی سب ہی آپ کی بات کو یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ ’’محمدﷺ کبھی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘ 

(زادالمعاد: جلد، 3 صفحہ، 290 السیرۃ النبویۃ، ابنِ ہشام: جلد، 3 صفحہ، 344)

مشرکین نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے پیش کش کی کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف کر لیں، لیکن آپؓ نے انکار کر دیا۔ 

(زادالمعاد: جلد، 3 صفحہ، 290)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مستضعفینِ مکہ کو رسول اللہﷺ کا پیغام پہنچایا، اور جلد مشکلات سے نجات پانے کی بشارت سنائی۔ 

(زادالمعاد: جلد، 3 صفحہ، 290) 

اور ان سے زبانی پیغام رسول اللہﷺ کو سلام بھیجا تھا اور یہ کہا تھا کہ جو ذات آپﷺ کو حدیبیہ پہنچا سکتی ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ آپﷺ کو مکہ کے اندر داخل کر دے۔

(غزوۃ الحدیبیۃ، ابو فارس: صفحہ، 85)

ابھی آپؓ مکہ ہی میں اپنی مہم میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے، ان حالات کے پیشِ نظر رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشرکین سے قتال کے سلسلہ میں بیعت کی دعوت دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپﷺ کے ہاتھوں پر موت کی بیعت کی۔ (صحیح البخاری: صفحہ، 4169)

صرف جد بن قیس نے اپنی منافقت کی وجہ سے بیعت نہ کی۔

(السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ: صفحہ، 486)

ایک روایت میں ہے کہ یہ بیعت صبر کی تھی۔ (صحیح البخاری: صفحہ، 4169) 

اور ایک روایت میں ہے کہ عدم فرار کی بیعت تھی۔ (صحیح مسلم: صفحہ، 1856)

لیکن ان روایات میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ موت کی بیعت کا مطلب صبر و عدم فرار کی بیعت ہے۔

(السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ: صفحہ، 486)

سب سے پہلے آپﷺ کے دست مبارک پر سیدنا ابوسنان عبداللہ بن وہب الاسدی رضی اللہ عنہ نے بیعت کی۔ (السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ: صفحہ، 486) 

اس کے بعد تمام لوگوں نے بیعت کی۔ 

(زاد المعاد: جلد، 3 صفحہ، 296)

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر تین مرتبہ بیعت کی، شروع میں، درمیان میں اور آخر میں۔ (صحیح السیرۃ النبویۃ: صفحہ، 404)

رسول اللہﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے متعلق فرمایا: ’’یہ سیدنا عثمانؓ کا ہاتھ ہے‘‘ اور پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی۔

اس موقع پر درخت کے نیچے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رسول اللہﷺ نے بیعت لی ان کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔

(السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ: صفحہ، 486)

قرآن کریم میں ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ آیا ہے جنہوں نے بیعتِ رضوان میں شرکت کی تھی، اور قرآن و حدیث کے بہت سے نصوص میں ان کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔

1: ارشاد الہٰی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللّٰه يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللّٰه فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

(سورة الفتح: آیت، 10 

ترجمہ: ’’جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو شخص عہد شکنی کرے وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکن آتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔‘‘

2: ارشاد ربانی ہے:

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

(سورة الفتح: آیت، 18)

ترجمہ: ’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہو گیا جب کہ وہ درخت کے تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور اس پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔"

3: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے روز ہم سے فرمایا: أنتم خیر اہل الارض۔

ترجمہ: ’’تم روئے زمین میں سب سے بہتر ہو۔‘‘

اس وقت ہم ایک ہزار چار سو تھے اگر میری بینائی کام کرتی تو میں تمہیں اس درخت کا مقام دکھا دیتا جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔

مسلم: جلد، 3 صفحہ، 1485)

یہ حدیث اصحابِ شجرہ کی فضیلت میں صریح ہے اس وقت مکہ و مدینہ وغیرہ میں مسلمان موجود تھے۔

اس سے بعض شیعہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر استدلال کیا ہے بایں طور پر کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ مخاطبین اور ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے درخت کے نیچے آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نہ تھے، لیکن یہ استدلال باطل ہے، کیوں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی تھی، لہٰذا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس خیر میں ان کے مساوی قرار پائے اور حدیث میں بعض کو بعض پر فضیلت دینا مقصود نہیں ہے۔

(فتح الباری: جلد، 7 صفحہ، 443)

حدیبیہ کے سلسلہ میں محب طبری نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے چند خصائص کا تذکرہ کیا ہے:

1: جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے تو رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا۔

2: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کا پیغام مکہ میں قیدی مسلمانوں تک پہنچایا۔

3: ترکِ طواف کے سلسلہ میں ان کی موافقت کی شہادت رسول اللہﷺ نے دی۔

(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ: صفحہ، 490، 491)

4: سیدنا ایاس بن سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی تو لوگوں نے کہا: ابو عبداللہ کو بحالتِ امن طواف مبارک ہو، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب تک میں طواف نہ کروں سیدنا عثمانؓ طواف نہیں کر سکتے۔

(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ: صفحہ، 491 اس کی سند میں ضعف ہے۔)

یہ اتہام لگا کر لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ظلم ڈھایا ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت میں شرکت نہیں کی اور غائب رہے۔ ارکانِ خلافت کو ڈھانے کے لیے فتنہ رچایا گیا اور اس سلسلہ میں جو اتہامات سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر باندھے گئے انہی میں سے ایک اتہام یہ بھی ہے۔

(ذوالنورین مع النبیﷺ: صفحہ، 32)

ان شاء اللہ اس کی تفصیل عنقریب آئے گی۔ 

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جب بیعتِ رضوان کا حکم فرمایا اس وقت رسول اللہﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیج رکھا تھا، لوگوں نے بیعت کی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیدنا عثمانؓ اللہ و رسولﷺ کی ضرورت میں لگے ہیں، پھر آپﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللۂﷺ کا ہاتھ لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے بہتر تھا۔

(سنن الترمذی: جلد، 2 صفحہ، 370 سیر سلف الصالحین: جلد، 1 صفحہ، 181۔ اس کی سند ضعیف ہے اور حدیث صحیح ہے لیکن اس حدیث کو محدث البانی رحمۃ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ضعیف سنن الترمذی: صفحہ، 421۔ 422 مترجم)